تمام انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کا خاص انعام اور تحفہ قرآن ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے،جو پوری انسانیت کے لیے رُشدوہدایت کا ذریعہ ہے۔ ہرمسلمان کی دینی اور دُنیاوی زندگی کی کامیابی کا انحصار اس مقدس کتاب سے وابستگی پر ہے۔
اُردو میں قرآن کریم کا پہلا ترجمہ حکیم محمد شریف خان دہلوی (م: ۱۸۰۷ء) نے کیا ، مگر وہ کبھی شائع نہ ہوسکا۔ اس لیے شاہ ولی اللہ کے صاحبزادوں شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر کے ترجمے کو اُردو میں قرآن کا پہلا ترجمہ قرار دیا جاتا ہے، جو انھوں نے ۱۷۸۸ء ہی میں مکمل کرلیا تھا ۔ شاہ عبدالقادر کاترجمہ ۱۸۰۵ء میں شائع ہوا،اور شاہ رفیع الدین کا ۱۸۳۸ء میں طبع ہوا۔
زیرنظر ترجمہ قرآن اتنا آسان، سہل ،رواں اور عام فہم ہے کہ دل چاہتا ہے ایک ہی نشست میں مطالعہ کرلیا جائے۔ اس کے مترجم محمد عبدالحلیم، اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن اور حلقہ (عزیز آباد، کراچی) کے ناظم بھی تھے۔ انھوں نے حرم شریف کی دوسری بڑی توسیع اور صفا و مروہ کے توسیعی منصوبے کے سینئر آرکیٹکٹ کی حیثیت سے سولہ سال تک خدمات انجام دیں۔ انھی کی زیرقیادت پہلی مرتبہ بیت اللہ کے فرش کے اندر بہت گہری کھدائی ہوئی، جس سے بیت اللہ کی تعمیر کے تمام اَدوارکی تاریخ معلوم ہوئی، جو پہلے کسی کو بھی معلوم نہ تھی۔ کعبۃ اللہ کی دیوار کی تعمیر کے دوران موجود نصب حجر اسود ،جو نو(۹) ٹکڑے لاکھ سے جڑے ہوئے ہیں، عین اس کے پیچھے حجراسود کا ایک انتہائی حسین ٹکڑا جو 253 x 112 31 ملی میٹر کا دیوار کے اندر فولادی شکنجے میں محفوظ ملا، اسے دوبارہ نصب کرنے کا شرف بھی مترجم کو حاصل ہوا، نیز میوزیم حرمین شریفین کی توسیع، ڈیزائن ، تعمیر اور ہر مرحلے کے آرکیٹکٹ بھی رہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران دل میں باربار قرآن کریم کے ترجمے کا خیال اللہ ربّ العزت کی طرف سے آتا رہا اور پھر وہیں پر ترجمۂ قرآن کاعظیم کام مکمل کیا۔ اس ترجمۂ قرآن میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ ایک عام آدمی چاہے وہ کتنا ہی کم پڑھا ہوا کیوں نہ ہو، وہ بھی قرآنِ مبین کو آسانی سے سمجھ لے اورقرآن کو مشکل نہ سمجھے ۔اس وجہ سے عام بول چال میں بولے جانے والے الفاظ ہی اس میں استعمال کیے گئے ہیں ۔ اشاعت سے قبل کبار علمائے کرام، اہل علم اور کم پڑھے افراد کو متن فراہم کرکے ان کی آراء حاصل کیں۔ سبھی نے اس ترجمے کو بہت آسان اور عام فہم قرار دیا ہے اور محکمۂ اوقاف نے بھی اس پر تصدیقی مہر ثبت کردی کہ ’’یہ ترجمۂ قرآن اغلاط سے پاک ہے‘‘۔پہلی جلد پندرہ پاروں پر سورۂ فاتحہ سے سورۂ کہف تک، اعلیٰ کاغذ پر شائع کی گئی ہے (دوسری جلد تیاری کے آخری مراحل میں ہے)۔ (شبیرابنِ عادل)
سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر محبانِ رسولؐ نے بےشمار زاویوں سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے اور بعض علمی تحریرات عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی مصدقہ معلومات کے لیے مصادر کا درجہ رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر تسنیم احمد صاحب کی یہ کاوش خصوصیت رکھتی ہے کہ اس سےسیرت کے واقعات کو قرآن کریم کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ بلاشبہہ الکتاب اور صاحب ِکتاب کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اُم المومنین سیّدہ عائشہؓ کا ارشاد ہے: کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ ۔
تیرہ جلدوں پر مشتمل روح الامین کی معیت میں کاروانِ نبوتؐ میں نہ صرف سیرتِ رسولؐ ہے بلکہ ۲۳ سالہ دعوت اسلامی کے مراحل کی رُوداد بھی ہے ۔ جس میں نہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیّبہ اور اصحابؓ و صحابیاتؓ کے بارے میں قیمتی معلومات یکجا کر دی گئی ہیں۔ یہ کتاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے جامع انقلاب کا ایک تجزیاتی جائزہ پیش کرتی ہے ۔ تحریک اسلامی کے کارکنان کے لیے اس کا مطالعہ افادیت کا باعث ہوگا۔ کتاب میں ہجری اور میلادی تاریخوں کے حوالے بھی فراہم کر دیے گئے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی زندگی جن مراحل و مشکلات اور مصائب سے گزری، اس کے لیے ترتیب نزولی مطالعے کا ایک پہلو تو ہے، تاہم قرآن کریم کے مطالعے اور ہدایت سے فیض یاب ہونے کے لیے جس ترتیب سے خالق کائنات نے جبرئیل امینؑ کے ذریعے اپنے رسولؐ کو ہدایت دے کر مرتب فرمایا، اسی ترتیب سے یہ مطالعہ ہدایت فراہم کر سکتا ہے ۔ اگرچہ بعض مسلم علما اور غیر مسلم مستشرقین نے ترتیب نزولی کو موضوع بنایا ہے ،جو قرآن کا مدعا نہیں ہے۔ مستند مآخذ سے مرتب کردہ ان قیمتی معلومات کا مطالعہ ان شاء اللہ نئی نسل کو سیرت پاکؐ اور کلام عزیز دونوں سے قریب لائے گا۔(پروفیسرڈاکٹر انیس احمد)
سیرتِ نبویؐ پر عربی کے بعد اُردو زبان میں سب سے زیادہ کتابیں لکھی گئیں۔ سیرت کی بیسیوں شاخیں ہیں۔ مذکورہ کتاب صرف ایک شاخ (مکاتیب ِ نبویؐ) کو سامنے لاتی ہے۔ رسولِ کریمؐ نے بیسیوں خطوط لکھوا کر بھیجے۔ مرتب نے خطوط کے تراجم کو مع پس منظر و پیش منظر یکجا کیا ہے۔ ہرمکتوب الیہ کا تعارف اور اس کی حیثیت، جو ایلچی (صحابہ کرامؓ) خطوط لے کر گئے، اُن کا تعارف، حالات، مکتوب الیہ پر مکتوبِ نبویؐ کے اثرات ، نتائج، آپؐ کے مکتوبات، کہاں کہاں اور کس ملک میں کس کی ملکیت میں ہیں، بتایا ہے۔ متعلقات کی وسعت کو بیان کیا ہے۔تاہم اسے انسائی کلوپیڈیا کہنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
ابتدا میں دس تقریظ نگاروں نے مرتب کی بجاطور پر تحسین کی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
مغربی سامراجیوں نے گذشتہ صدیوں میں جب مسلم علاقوں کو غلام بنایاتو اپنے فوجی اور انتظامی اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے جن شعبوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا، اُن میں سرفہرست قانون اور تعلیم کے شعبے تھے۔ بظاہر پاکستان سے انگریزی سامراج کو براہِ راست حکمرانی چھوڑے ۷۵برس گزر چکے ہیں، لیکن اس علاقے پر حاکمیت کے لیے وہ جس انتظامی، سیاسی، عسکری، تعلیمی اور فکری ڈھانچے کو چھوڑ کر گئے تھے، وہ ذُریت پوری فعال ہے، مقتدر بھی ہے اور بدوضع بھی۔
آصف محمود ایڈووکیٹ، تخلیقی ذہن کے حامل دانش ور، قانون دان اور استاد ہیں، جنھوں نے زیرنظر کتاب میں، خصوصاً پاکستان کے شعبہ قانون پر انگریزی سامراجی باقیات کو گہرے مطالعے اور باریک بین مشاہدے کے بعد قلم بند کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ یہ محض قانونی غلامی کا شکنجا نہیں ہے، بلکہ تہذیبی وفکری غلامی سے نموپانے والے احساسِ کمتری کا وہ زہر ہے، جس نے حُریت فکروعمل اور آزادیٔ خیال و اظہارپر تالا چڑھا کر غلامی کی اتھاہ میں دھکیل دیا ہے۔
اس کتاب کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ یہ کوئی خطیبانہ الزام تراشی نہیں ہے، بلکہ ٹھوس شواہد پر مشتمل وثیقہ ہے، جو گذشتہ دوسو برسوں میں لکھی گئی درجنوں کتب کا مطالعہ کرکے مرتب کیا گیا ہے۔ پاکستان میں مغربی تہذیب، لبرلزم اور سیکولرزم کے سرچشموں کو دیکھنے اور پرکھنے کے لیے یہ مختصر مگر جامع کتاب ایک قیمتی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب نے کتاب کا استقبال کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’پاکستان کے قانونی و عدالتی نظام میں بامعنی اصلاحات کے خواہش مند یہ کتاب شوق سے پڑھیں گے، اور یہ ججز، وکلا اور قانون کے اساتذہ و طلبہ کے علاوہ عام لوگوں کے لیے بھی بہت مفید ثابت ہوگی‘‘ (ص ۴)۔ یہی وجہ ہے کہ صرف ایک ماہ میں اس کا پہلا ایڈیشن ختم ہوگیا اور اب دوبارہ شائع کی گئی ہے۔ (سلیم منصور خالد)
زندگی گزارنے کے لیے لوگ کاروبار، محنت اور ملازمت کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں، مگر ہرزندگی کے چاروں طرف حقیقی زندگی کے جو رنگ بکھرے ہوئے ہیں، بہت کم لوگ زندگی کے ان رنگوں کو مجسم تحریر میں ڈھالنے کی صلاحیت رکھتے یا اہمیت سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹر امجد علی ثاقب زمانۂ طالب علمی میں پروفیسر خورشیداحمد صاحب کی شاگردی اور مولانا ظفر احمد انصاری مرحوم کی مجالس سے فیض پاتے ہوئے، پاکستان کے اعلیٰ تربیتی و انتظامی اداروں میں خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے انھیں پاکستان کے مقتدر طبقوں اور شخصیتوں تک رسائی حاصل رہی ہے۔ انھوں نے آپ بیتی میں زندگی کے مختلف کرداروں کی سوچ، عمل اور رویے کو دل چسپ معلومات کی صورت میں یک جا کردیا ہے۔ یہ لوگ، بلندپایہ اساتذہ اور قابلِ غور اہلِ فکرودانش ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’حُسنِ نیت و حُسنِ اخلاق سے بگڑے ہوئے لوگ ٹھیک اور اُلجھے ہوئے کام سلجھ جاتے ہیں، اور بگڑے ہوئے انسانی روابط درست ہوجاتے ہیں۔ اگر ہربات احتیاط اور دُوراندیشی سے کی جائے تو نتائج بڑے مثبت ہوتے ہیں‘‘۔(ص ۲۵)
یہ تذکرہ خوش رنگ تو ہے ہی، لیکن تاریخ کے کئی موڑ بہت قریب سے دکھاتا ہے۔ الطاف حسن قریشی صاحب نے پیش لفظ میں بجاطور پر لکھا ہے: ’’اس [آپ بیتی] میں سوچ بچار کے شگوفے کھلتے ہیں‘‘ (ص۲)۔ اپنی نوعیت کی یہ ایک منفرد کتاب ہے۔(س م خ)
انسانی زندگی سوچ، ارادے اور عمل سے عبارت ہے۔ انسان اگر تعمیری سوچ اور انسانی ہمدردی کے جذبے سے کسی اچھے عمل کا ارادہ کرے تو ایسی زندگی قابلِ رشک اورانسانی تعمیر اور سماجی و تہذیبی کمال کا سنگ میل بن جاتی ہے۔
معاشیات کے استاد اور سماجیات کی حرکیات پر نظر رکھنے والے ممتاز دانش ور فیاض باقر نے زیرنظر کتاب میں اسی سوچ، ارادے اور عمل سے نسبت رکھنے والے چند قابلِ قدر انسانوں کو ہمارے بیمار معاشرے سے منتخب کرکے زندگانی سے بھرپور چند مثالوں کو یکجا کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جنھوں نے چاروں جانب پھیلی گھٹاٹوپ میں اپنے حصے کی شمع جلاتے ہوئے روشنی پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ نظریاتی پس منظر کے حوالے سے شاید یہ لوگ آزاد خیال ہیں، لیکن خدمت کی مثال پیش کرنے میں مصروف کار ہیں۔ایسی مثالیں سبق آموز ہیں ۔
حرفِ آغاز میں جناب مؤلف لکھتے ہیں:’’ہمارے میڈیا کی توجہ بدقسمتی سے [ملک کے] قرضوں، مالی بدعنوانی اور اقتصادی گداگری پر اٹکی ہوئی ہے....[مگر ایک سطح پر] پاکستان میں ایک خاموش تبدیلی آرہی ہے: خودکفالت، قومی خودداری ، انصاف اور ترقی کے اصولوں پر قائم ایک نیا نظام جنم لے رہاہے... [اسی مناسبت سے] ہم نے یہ کہانیاں اکٹھی کی ہیں‘‘(ص۷)۔ بلاشبہہ یہ عمل کی راہیں سجھانے والی داستانیں ہیں۔ ان کا مطالعہ خدمتی جدوجہد سے منسوب کارکنوں کو رہنمائی دیتا ہے اور حوصلوں کو بلندی عطا کرتا ہے۔ (س م خ)