قرآن کریم نے اسلام کی دعوت کو انتہائی مختصر اور عام فہم انداز میں ایک مختصر سی آیت کریمہ میں سمو دیا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے بنائے ہوئے تصوراتی اور مادی خداؤں اور اداروں کی غلامی سے آزاد ہو کر صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی بندگی اور پناہ میں آجائے۔ فرمایا:
اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۰ۚ (النحل ۱۶:۳۶) اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔
آیتِ مبارکہ مثبت اور تعمیری پہلو پر متوجہ کرتے ہوئے یاد دہانی کراتی ہے کہ تمام بندگیوں سے نکل کر صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری اختیار کی جائے۔ اقتدار مکمل طور پر صرف اور صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے لیے ہے۔ انسانی عقل اور قیاس نے جو معبود تراش لیے ہیں، وہ سب’طاغوت‘ کی تعریف میں آتے ہیں۔ طاغوت انسانوں پر اپنے اختیارات اور قوت کا خوف طاری کر کے اللہ کے بندوں کو صراط مستقیم سے گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا سب سے زیادہ کامیاب حربہ فوری فائدے اور فوری کامیابی کا تصور ہے۔
شیطان اور اس کی ذُرِّیت بندگانِ خدا میں جلد سے جلد حصولِ اقتدار کی خواہش بیدار کرکے انھیں ایسے راستے کی طرف لے جاتی ہے، جو آخر کار معصیت اور گمراہی میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ’طاغوت‘ بڑی چالاکی سے یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ تحریک اسلامی کو اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کی جدوجہد میں دو نسلیں گزر گئیں ۔ ۷۰،۸۰سال کی تگ ودوکے بعد بھی وہ عوام کی ایک محدود تعداد ہی کو اپنے ساتھ شامل کر سکی اور عوام یہ جاننے کے باوجود کہ اس تحریک کے کارکن ایمان دار، امانت دار اور بے غرض ہو کر صرف اللہ کے لیے کام کرتے ہیں، مگر انتخابات میں اُنھیں ووٹ نہیں دیتے۔ وہ ووٹ انھی افراد کو دیتے ہیں جن کے دامن کبھی صاف نہیں رہے، کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ افراد ان کے جائز و ناجائز روز مرہ امور میں ان کو فائدہ پہنچا سکیں گے ، لہٰذا ووٹ انھی کو دیا جائے۔ یہ صورتِ حال عموماً حق کے لیے کام کرنے والوں میں مایوسی اور ناامیدی کے ساتھ یہ احساس بھی پیدا کرتی ہے کہ کیوں نہ جن افراد کے کامیاب ہونے کا امکان ہے ، انھی کے ساتھ کوئی مفاہمت کر کے راستہ نکالا جائے۔
یہ طے کرنے کے لیے کہ مفاہمت کی گنجایش کہاں تک ہے؟ اسلامی فقہ میں ’سیاست شرعیہ‘ کا تصور پایا جاتا ہے ، جو مصلحت ِعامہ کی بنا پر چند مخصوص صورتوں میں کم تر برائی کو برداشت کرنے اور ملک میں افراتفری اور فساد پیدا ہونے کے خطرے سے بچنے کے پیش نظر وقتی طور پر ایسی حکمت عملی وضع کرنے کی اجازت دیتا ہے، جس میں اصولوں سے انحراف نہ ہو اور شریعت کے کسی مقصد کی مخالفت بھی نہ ہوتی ہو ۔
اس جدو جہد میں بعض اوقات یہ گمان بھی ذہن میں آتا ہے کہ کب تک اس صبح کا انتظار کیا جائے گا جب اللہ کی حاکمیت اس کی زمین پر اپنی مکمل شکل میں نافذ ہوسکے؟ یہ احساس عموماً مستقبل سے نااُمیدی اور مایوسی پیدا کرتا ہے، لیکن قرآن کریم نے اس وسوسے کا جو تجزیہ اور حل پیش کیا ہے، وہ قیامت تک تحریکات اسلامی کے لیے مشعل راہ ہے۔
قرآن کریم نے اس انسانی نفسیات اور تحریک اسلامی کو پیش آنے والے ایسے مراحل کو وضاحت سے بیان کر دیا ہے، تاکہ اقا مت دین کی جدو جہد کرنے والے افراد اور قیادت کو اپنی قلتِ تعداد پر مایوسی اور دل شکستگی نہ ہو ، بلکہ اپنی دعوت پر اعتماد میں مزید اضافہ ہو اور حصولِ منزل کے الٰہی وعدوں پر یقین میں کمی نہ آنے پائے ۔فرمایا:
فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓى اِلَّا ذُرِّيَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ عَلٰي خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟ىِٕہِمْ اَنْ يَّفْتِنَھُمْ۰ۭ وَاِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الْاَرْضِ۰ۚ وَاِنَّہٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِيْنَ۸۳ (یونس ۱۰:۸۳) (پھر دیکھ کہ) موسٰی کو اس کی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا،فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربر آوردہ لوگوں کے ڈر سے (جنھیں خوف تھا کہ) فرعون اُن کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ فرعون زمین میں غلبہ رکھتا تھا اور وہ ان لوگوں میں سے تھا جو کسی حد پر رُکتے نہیں ہیں۔
سورئہ یونس کی یہ آیت تحریک اسلامی کی موجودہ صورتِ حال میں ہمیں راہنمائی فراہم کررہی ہے۔ یہاں بات یہ کہی جا رہی ہے کہ وقت کی جابر اور ظالم قوت (وہ حاکمِ وقت ہو یا کوئی ادارہ ہو، جس کے بارے میں ہر فرد کو معلوم ہے کہ وہ جس فرد کو خطرہ سمجھے، اسے ختم کرنے ، دبانے اور خریدنے کی پوری کوشش کرتا ہے) اس لیے ایسی قوت کے خلاف آواز اٹھا نا یا میدانِ عمل میں نکل کر مخالفت کرنا خطرات کو دعوت دینا ہے۔
قرآن کریم اس بات پر شاہد ہے کہ اگر وہ چند افراد جو حق پر ایمان رکھتے ہوں استقامت، صبر اور توکل الی اللہ کے ساتھ صحیح حکمت عملی اختیار کریں تو قلت تعداد کے باوجود، آخر کار غالب وہی رہتے ہیں۔فرمایا:
يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ۰ۭ اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ۰ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَۃٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ۶۵ (الانفال۸:۶۵) اے نبیؐ! مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دوسو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرینِ حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔
یہاں قرآن کریم نے چند الفاظ میں عروج و زوال کے اہم اصول کو بیان کر دیا ہے کہ اگر صرف ۲۰؍ افراد ایسے ہوں جو ایمان اور عمل میں یکساں ہوں اور ا ن پر جلد کامیابی کے نتائج کی نفسیات طاری نہ ہو، وہ صٰبِرُوْنَ ہوں ، ان میں مستقل مزاجی ہو ، وہ قلت تعداد کی بنا پر اپنے آپ کو کمزور نہ سمجھیں ، اپنے ربّ پر بھروسا رکھتے ہوں اور وقت کی بہترین حکمت ِ عملیوں کے استعمال سے آگاہ ہوں، یعنی ان میں استعداد (capacity)، قابلیت (ability ) اور صلاحیت (capability) پائی جاتی ہو، تو پھر مخالفین کی کثرت تعداد بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ ایسے چند نوجوان ہی تاریخ ساز اور زمانے کا رخ موڑنے کا سبب بنتے ہیں۔
قرآن حکیم کی مذکورہ بالا آیت کی تصویر خود دعوت اسلامی کے مکی اور مدنی دور میں نظر آتی ہے۔ اسلام کی دعوت کے اوّلین قبول کرنے والے مکہ کے شیوخ اور جہاں دیدہ سردارانِ قبائل نہیں تھے بلکہ علی ؓابن طالب ، جعفر ؓ طیار ، زبیر ؓ، طلحہ ؓ، سعد ؓبن ابی وقاص ، مصعب ؓ بن عمیر ، عبداللہؓ بن مسعود جیسے افراد تھے جن کی عمریں بیس سال سے کم تھیں ۔ عبدالرحمن ؓ بن عوف ، بلال ؓ، زید ؓ بن حارثہ ، عثمان ؓبن عفان، عمر ؓ فاروق وہ صحابہ تھے جو۳۰،۳۵ سال کے لگ بھگ تھے ۔ حضرت ابو بکر ؓ ۳۸سال کے لگ بھگ ، اور صرف عمار ؓ بن یاسر آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عمر تھے، جب کہ صرف عبیدہ ؓبن حارث کی عمر نبی کریم ؐسے زیادہ تھی ۔
گویا استقامت ، صبر اور توکّل کے ساتھ صلاحیت اور اہلیت میں سب سے بڑھ کر ہونا، وہ شرط ہے جو قلت تعداد کے باجود باطل قوتوں کی کثرت پر قرآنی اصول کی روشنی میں ہر دور میں غالب آئے گی ۔ تحریکات اسلامی کے لیے اصل فکر اور کرنے کا کام دعوت اور معاشرتی اصلاح کے ساتھ انسانوں کی کردار سازی ہے، نہ کہ محض عددی قوت میں اضافے کی فکر کو خود پر طاری کرنا۔ توجہ کا مرکز یہ ہونا چاہیے کہ جو تعداد میسر ہے، کیا ان میں سے ہر ایک فرد اپنے خلوص ، ایثار و قربانی اور ادایگی فرائض میں مثالی کردار رکھتا ہے؟ اور ایسا نہیں تو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ تحریک کی قوت کردار اور اخلاق کی بلندی سے ہے۔ اللہ تعالیٰ صرف اہل اور امانت کا حق ادا کرنے والوں کو ذمہ داری بطور ایک عطیہ اور امانت کے دیتا ہے۔ باصلاحیت اور اعلیٰ کارکردگی والے افراد کی تیاری تحریک کی ترجیح ہونی چاہیے ، محض تعداد میں اضافہ یا کثرت تحریک کی ترجیح نہیں ہونی چاہیے۔
قرآنی اصطلاح صٰبِرُوْنَ سے مراد وہ لوگ نہیں جو مشکلات و آزمایش کو محض تحمل سے برداشت کر لیں بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جو ڈٹ کر سینہ سپر ہو کر پوری اُمید (optimism) کے ساتھ اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں ۔ مایوسی ، نااُمیدی اور مستقبل کو تاریک دیکھنا صبر و استقامت کے منافی ہے۔ حالات کا نامساعد ہونا حق کے علَم برداروں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔ وہ پُرعزم طور پر کسی مفاہمت کے بغیر استقامت اور صحیح حکمت عملی اختیار کرتے ہیں اوراکثر قلیل المیعاد اہداف کے پیش نظر طویل المیعاد ہدف سے غافل نہیں ہوتے۔ اگر ایک ایسی صورت حال ہو جس میں کسی ایسی قوت کے ساتھ شمولیت کرنے سے جو ماضی میں تلخ تجربات سے بھری پڑی ہے ، ہمیں فوری برتری نظر آتی تو جادۂ حق کو نہیں چھوڑتے اور طویل المیعاد ہدف کے حصول کے لیے فوری فوائد کو قربان کر دیتے ہیں اور دعوت کے نئے ذرائع کو استعمال میں لاتے ہیں ۔
جس صورت حال سے ملک عزیز گزر رہا ہے، اس میں اقامت دین کی جدو جہد کے راستوں میں کسی ایک تک اپنے آپ کو محدود کر لینا دینی حکمت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ بانیٔ تحریک اسلامی نے ایسی ہی صورت حال میں جو بات ارشاد فرمائی تھی، اسے ذہن میں تازہ کرنے کی ضرورت ہے کہ دعوتی مراحل میں ایسا بھی ہوتا ہےکہ تحریک کے سامنے ایک چٹان حائل ہو جائے اور اس کے سفر کو روکنے کی کوشش کرے، لیکن تحریک کا کام حیات بخش دریا کی طرح ہونا چاہیے جو اپنے سامنے چٹان کو حائل دیکھ کر رُک نہ جائے بلکہ چٹان کے دائیں اور بائیں سے راستہ نکال کر منزل کی طرف گامزن ہو جائے ، اور چٹانیں منہ دیکھتی رہ جائیں۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ کی بندگی کی دعوت فرائض و واجبات کی پابندی تک محدود نہیں ہے، بلکہ اللہ کے بندوں کی مشکلات کو دور کرنا اور حقوق العباد کا ادا کرنا بھی یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن کریم ان افراد کو جو یتیم اور بے سہارا افراد کی خبر گیری سے لاپروا ہیں اور ایسے افراد کو بھی جو فرائض دین مثلاً نماز میں سستی کرتے ہیں اور دیگر کاموں کو بعض اوقات فوقیت دے دیتے ہیں، سرزنش کرتا ہے:
اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ۱ۭ فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَ۲ۙ وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ۳ۭ فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۴ۙ الَّذِيْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَ۵ۙ الَّذِيْنَ ہُمْ يُرَاۗءُوْنَ۶ۙ وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ۷ۧ (الماعون۱۰۷: ۱-۷) تم نے دیکھا اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے ؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے ، اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔ پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں،جو ریاکاری کرتے ہیں، اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں۔
آج معاشرے میں غربت ، بھوک ، بے روزگاری اور عدم تحفظ اپنی انتہا پر ہے ۔ آفاتِ سماوی کے نتیجے میں اللہ کے بے شمار بندے بے گھر ، کھلے آسمان کے نیچے پڑے کسی غیبی مدد کے منتظر ہیں۔ بعض اوقات فقر و فاقہ ایک فرد کو شرک کے قریب لے جاتا ہے۔ یہی وہ موقع ہے جس میں تحریک اسلامی کو ان مستحقین کی خدمت اور صرف اللہ کی رضا کے لیے ان کی امداد کے لیے تمام ممکنہ کوششوں کی ضرورت ہے ۔ اللہ کے بندوں کی امداد اور انھیں مصائب سے نکالنا تحریک اسلامی کی جدوجہد کی ایک اہم ترجیح ہونی چاہیے۔
ہم جس دور سے گزر رہے ہیں یہ نفسا نفسی کا دور ہے۔ اس میں ہر فرد صرف اپنے مفاد کو اور اپنی ذات کو دیکھتا ہے ۔ یہ صورتِ حال صرف حکومت کے اہل کاروں سے نہیں بلکہ ہرشہری سے مطالبہ کرتی ہے کہ بے غرضی کے ساتھ خدمت خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے اور اللہ تعالیٰ سے خلوص دل کے ساتھ استدعا کی جائے کہ وہ نہ صرف ہماری قربانیوں کو قبول کرے بلکہ لوگوں کے دلوں میں حق کی قبولیت کی صلاحیت پیدا کرے۔ بلاشبہہ اسی کی گرفت میں انسانوں کے دل و دماغ ہیں اور جب تک وہ نہ چاہے کوئی دعوت کامیاب نہیں ہو سکتی ۔
تحریک کے کرنے کے کاموں میں بنیادی چیز معاشرے کے افراد میں دعوتِ اسلامی کے بنیادی تصورات کے شعور کے ساتھ آج کے مسائل کا فہم اور انسانی مسائل کے حل کے لیے ایسے افراد کی تلاش ہے جو صاحب امانت ہوں، سچے ہوں ، وعدوں کو پورا کرنے والے ہوں ، جن کا کردار بے داغ ہو، جو خود کسی منصب کے اُمیدوار نہ ہوں اور اگر ا ن پر اعتماد کر کے انھیں ذمہ داری دی جائے تو وہ امانت کا حق ادا کرنے میں سب سے آگے ہوں۔ ان کا ہر لمحہ اللہ کی بندگی میں صرف ہو اور وہ دکھاوے اور دنیا وی فائدوں کے لیے کسی ضرورت مند کی امداد نہ کرتے ہوں ۔وہ لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ فکری اصلاح اور نظریاتی تربیت کو بنیادی اہمیت دیتے ہوں۔ یہی وہ صٰبِرُوْنَہیں جن کی یقینی کامیابی کا وعدہ ربِّ کریم نے فرمایا ہے اور جو سب سے زیادہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا ہے ، وما علینا الاالبلاغ