تحقیقی کام کے سلسلے میں پہلی چیز جو ہماری نگاہ میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے :
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا۵ۙ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا۶ۭ (الم نشرح۹۴:۵-۶﴾ )،پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔
تنگی یا مشکل سے مراد ہے محنت۔کیوں کہ محنت کرنا ایک مشکل کام ہے۔ اگر آدمی محنت کرتا ہے تو اس کے بعد اس کا پھل ملتا ہے ۔ محنت کے بغیر زندگی میں کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے محنت کو اپنی عادت بنائیں۔ مثلاً اگر عربی نہیں آتی تو اسے سیکھنے کی کوشش کریں۔ ضروری نہیں ہے کہ کسی ادارے میں جاکر ہی سیکھی جائے، گھر میں بیٹھ کر بھی سیکھی جاسکتی ہے۔ عربی سیکھنا تو ویسے بھی بہت ہی ضروری ہے۔ کیوں کہ جب تک آپ عربی نہیں جانیں گے تو قرآن حکیم کی مٹھاس سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ ترجمہ پڑھنا تو ایسا ہی ہے کہ آپ کے پاس شہد آیا اور کسی نے اُس کی شیرینی نکال دی اور باقی آپ کو دے دیا۔ عربی سیکھنا کچھ زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ کتاب عربی کا معلّم جو کہ چار جلدوں پر مشتمل ہے ، اس کام کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ آج کل تو عربی سیکھنے کے جدید طریقے سامنے آگئے ہیں جن سے عربی سیکھنا اور بھی آسان ہوگیا ہے۔ قرآن وحدیث کو عربی میں سمجھے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ عام آدمی کے لیے تو یہ نہیں کہا جاسکتا، لیکن جو لوگ اسلامک اسٹڈیز میں کام کر رہے ہیں ، ان کے لیے عربی کے بغیر کوئی مفر نہیں۔ اگر آپ عربی نہیں سیکھ رہے ہیں تو آپ اسلام کی اچھی طرح خدمت نہیں کرسکتے۔
جہاں تک تحقیق کا تعلق ہے تو اس کام میں محنت کے بغیر کچھ ممکن نہیں ہے۔ اگر آپ اس کے لیے تیار نہ ہوں اور گھنٹوں کے حساب سے ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ پر وقت صرف کریں ، تو زندگی میں کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ خصوصاً علمی کام تو ہوہی نہیں سکتا۔ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ سے حاصل شدہ معلومات محض وقتی ہوتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں آپ کوئی کتاب پڑھتے ہیں تو وہ آپ کو یاد رہتی ہے ۔ اگر کچھ پڑھا ہوا بھول گئے ہیں تو دوبارہ کتاب دیکھ سکتے ہیں۔ جتنا زیادہ مطالعہ کرسکیں، کیجیے۔ مطالعے کابھی طریقہ یہ ہے کہ پڑھنے کے بعد نوٹس لیں۔ اگر لائبریری کی کتاب ہے تو اپنے کارڈ پر یا کسی اور جگہ نوٹس لے لیں۔ اگر آپ کوئی مقالہ لکھ رہے ہیں تو اس کے نوٹس بنائیے ۔ موضوع کی مناسبت سے پڑھیں اور نوٹس لیں۔ اس کے بعد اپنے خاکے (Outline) کی مناسبت سے لکھیں۔
ہمارے ہاں بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ تحریر کے معاملے میں پہلی کوشش ہی کافی ہے اور اس سے زیادہ بہتر تو لکھا ہی نہیں جاسکتا۔ اگر تکبر کا عنصر آجائے تو وہاں علم کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ تکبر اور علم ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اپنے لکھے ہوئے کو کئی مرتبہ دُہرائیں۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ اس کام میں بہت وقت اور محنت لگتی ہے، لیکن اس کے بغیر کام بھی نہیں بنتا۔ لکھے ہوئے کو خود بھی دُہرائیں اور دوسروں کو تبصرے کے لیے دیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ تبصرے کے لیے دیتے ہیں تو صرف تعریف کی امید رکھتے ہیں۔ اگر آپ نے ان پر کوئی تنقید کردی تو ان کا پارہ چڑھ جاتا ہے۔ یہ رویہ ہوتو بہت زیادہ سیکھا نہیں جاسکتا۔ اس کے لیے بھی تیار ہونا چاہیے کہ اگر کوئی غلط قسم کی تنقید بھی کردے تب بھی ناراض نہ ہوں۔ اچھی طرح غور کرکے دیکھیں کہ اس کی تنقید درست ہے یا نہیں؟ درست ہے تو اپنی تحریر کو بہتر بنائیں اور صحیح نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دیں۔
کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اچھے رسالے کے لیے مقالہ لکھیں اور محنت سے لکھیں۔ اس کے بعد بھی اس چیز کے لیے تیار رہیں کہ مبصرین کے جو تبصرے آئیں گے اس کی مناسبت سے آپ اس میں بہتری لائیں گے۔ گویا سب سے پہلے محنت، بہت سا مطالعہ کرنا اور خاص طور سے اگر کوئی مضمون لکھنا ہے تو اس سے متعلق چیزوں کا مطالعہ کرنا ، نوٹس لینا، پھر مقالہ لکھنا ، اس کو کئی بار دُہرانا، لوگوں کو تبصرے کے لیے دینا اورتبصروں کی مناسبت سے دُہرانا ہے۔ پھر فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا کے مصداق آپ کو آپ کی محنت کا صلہ مل جائے گا۔ آپ کو خوشی ہوگی جب آپ کا مقالہ کسی عمدہ رسالے میں چھپے گا، لوگ اس پر اچھے تبصرے کریں گے اور آپ کی عزت بڑھے گی۔ جو محنت کرنے اور تنقید سننے کے لیے تیار نہیں ہے وہ عالم نہیں بن سکتا۔ اپنا مطالعہ وسیع تر کریں۔ ٹی وی اور انٹرنیٹ کے دورانیے کو کم کریں اور وہ وقت مطالعے میں صرف کریں۔ شام کو گھر پر جاکر ضرور مطالعہ کریں۔ چھٹی والے دن اور معمول کے دنوں میں بھی، فرق صرف یہ ہونا چاہیے کہ چھٹی کے دن آدمی گھر میں کام کرے اور اس کا دفتر آنے جانے کا وقت بچے۔ زندگی میں اپنے سامنے اس بات کو نشانِ راہ کے طور پر رکھیں: ’’محنت کے بغیر کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا، اور محنت کے ذریعے سب کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے‘‘۔
باہر کے ممالک میں لوگ تحقیق کے لیے بہت زیادہ محنت کرتے ہیں جو ہمارے ہاں نہیں ہے۔ دوسرے ممالک میں لوگ اپنے مقالہ جات کو خود بار بار پڑھتے ہیں، لوگوں کے تبصرے لیتے ہیں، لوگوں کے ساتھ اس پر تبادلۂ خیال کرتے ہیں اور اس دوران میں نوٹس لیتے رہتے ہیں۔ ان کی روشنی میں مقالے کو مزید بہتر کرتے ہیں۔ یہ ایک اسکالر کی صفات ہیں۔
بعض اوقات دفتروں کے اندر بھی لوگ نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان چیزوں سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ کیوں کہ مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تک اللہ نہ چاہے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا، اور جب تک اللہ نہ چاہے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بظاہرآپ کے خلاف کسی نے سازش ہی کی ہو، لیکن بعد میں آپ کو پتا چلے کہ یہ تو آپ کے حق میں بہت بہتر ہوگیا: وَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَھُوْا شَـيْـــًٔـا وَّھُوَخَيْرٌ لَّكُمْ۰ۚ (البقرہ۲:۲۱۶﴾)’’ممکن ہے تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمھارے حق میں اچھی ہو‘‘۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کو ترقی نہ ملے اور آپ اپنے افسر کو برا بھلا کہنے لگیں لیکن ترقی دینے والا آپ کا افسر بالا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اگراللہ نے چاہا تو آپ کی ترقی کو کوئی روک نہیں سکتا اوراگر اللہ تعالیٰ نے نہ چاہا تو کوئی ترقی دے نہیں سکتا۔ ہمارایہ عقیدہ مضبوط ہو کہ جتنا ہمیں ملے گا ،اللہ ہی کی ذات سے ملے گا اور اسی کے سامنے آدمی دستِ طلب بھی دراز کرے، اور اسی کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل کرے تو زندگی میں ترقی ہی ترقی ہے۔
ہم ایک ایسے ماحول میں رہ رہے ہیں جہاں فاصلے سمٹ رہے ہیں، رابطے کے ذرائع تیز تر اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار زیادہ سے زیادہ طاقت ور اور ہلاکت خیز ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے ماحول میں بہتر باہمی مفاہمت، عظیم تر امن، ہم آہنگی اور تعاون کے ساتھ ایک واحد آفاقی گائوں(گلوبل ولیج) کی فضا کو پروان چڑھانا انتہائی ضروری ہے۔ تمام قوموں کی خوش حالی کا انحصار ایسے ہی تعاون پر ہے۔ یہ عالم گیریت کا پہلا مقصد ہے۔ باہمی تعاون پر مبنی ایسی فضا کی عدم موجودگی تہذیبوں کے تصادم کا سبب بن سکتی ہے، جو ہر ایک کے لیے بُرا ہوگا، خصوصاً ترقی پذیر ملکوں کے لیے، جو اپنے خلاف جارحانہ عزائم کو روکنے کے لیے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں رکھتے۔ مزید یہ کہ ان کے پاس وہ وسائل ہیں جو بہت محدود ہیں اور وہ انھیں لڑائی جھگڑوں میں جھونکنے کے بجاے ان کا بہتر استعمال کرتے ہوئے اپنی ترقی پر صرف کرنا چاہیں گے۔ آج کی دنیا میں یہ پوچھا جانا بالکل برمحل ہے کہ ایسی عالم گیریت کے حوالے سے اسلام کا موقف کیا ہے؟
آئیے دیکھیے کہ اس بارے میں قرآن کا حکم کیا ہے؟ اسلام کوئی نیا دین نہیں ہے۔ یہ وحی پر مبنی تمام مذاہب کے عقائد اور اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔ اللہ نے پوری دنیا کے اندر مختلف اوقات میں اپنے رسول بھیجے۔ ان سب پر اللہ کی طرف سے سلامتی اور رحمتیں ہوں۔ یہ سارے رسول ایک ہی پیغام لے کر آئے جس کی نشان دہی قرآن میں واضح طور پر یوں کی گئی ہے کہ ’’اے نبیؐ! تم کو جو کچھ کہا جارہا ہے اس میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو تم سے پہلے گزرے ہوئے رسولوں کو نہ کہی جاچکی ہو‘‘۔ (حم السجدۃ ۴۱: ۴۳)
کوئی نیا نبی اسی وقت آیا کرتا تھا جب پچھلے نبی کی تعلیمات بھلا دی جاتیں یا ان میں تحریف ہوجاتی۔ یہ سارے نبی لوگوں کو متحد کرنے کے لیے آئے، تقسیم کرنے کے لیے نہیں، بالخصوص اسلام کے معاملے میں۔ کیوں؟ وجہ بہت سادہ ہے۔ تمام انسان اللہ کے خلیفہ یا نائب ہیں، اس لیے ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ اس بنا پر اس دنیا میں انھیں سب کی فلاح یعنی بھلائی کے لیے بھائیوں کی طرح امن و سلامتی کے ساتھ رہنا چاہیے۔ اسلام میں ایک اللہ اور انسانیت کے اتحاد کے تصورات کو قرآن میں اس طرح واضح کیا گیا ہے:’’انسانوں کو ایک قوم کی حیثیت سے پیدا کیا گیا تھا مگر بعد میں اپنے اختلافات کی وجہ سے وہ الگ الگ ہوگئے‘‘۔ (یونس۱۰:۱۹)
سوال یہ ہے کہ اگر انھیں ایک قوم کی حیثیت سے پیدا کیا گیا تھا تو وہ الگ الگ کیوں ہوگئے؟ قرآن اس سوال کا جواب بھی دیتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:’’لوگوں میں جو تفریق ہوئی وہ اس کے بعد ہوئی کہ علم ان کے پاس آچکا تھا اور اس بنا پر ہوئی کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے‘‘۔ (الشوریٰ۴۲:۱۴)
یہ علم جو ان کے پاس آیا وہ جہاں بینی پر مبنی ہے اور دینی معیارات کے مطابق عقائد، اخلاقی اقدار، اداروں اور اداراتی معیشت کی تشکیل کرتا ہے۔ اللہ کی طرف سے اس دنیا میں بھیجے گئے تمام رسولوں کا ایک بڑا مقصد انسانیت کو باہمی برتاؤ کی ضروری اقدار اور اصول فراہم کرنا تھا۔ یہ اصول بتاتے ہیں کہ لوگوں کو اس دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح معاملات کرنے چاہییں کہ یہاں مختلف قوموں، انسانی گروہوں اور خاندان کے تمام ارکان کے درمیان عدل و انصاف، تعاون اور یک جہتی پروان چڑھے۔ تاہم، عدل، تعاون اور یک جہتی کے اصول لازماً غالب نہیں رہتے۔ اس کی وجہ، جیسا کہ قرآن میں بیان کیا گیا، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور باہم ظلم و زیادتی کرنے کا داعیہ (بغیا بینہم) ہے، اور اس جذبے کی وجہ مخصوص مفادات، بے انصافی، حسد، استحصال، معاہدوں اور ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنا اور اختیارات کا ناجائز استعمال ہے۔ ان عوامل کی بنا پر پُرامن، باہمی روابط اور تعلقات استوار نہیں ہوپاتے۔ اس کیفیت کے علاج کے لیے اللہ کی جانب سے محمدصلی اللہ علیہ وسلم سمیت، اس دنیا میں بہت سے رسول بھیجے گئے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن کہتا ہے:’’ ہم نے تمھیں پوری انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘۔ (الانبیاء۲۱:۱۰۷)
رحمت، بے انصافی، استحصال اور تفریق کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔ یہ سب کی ضروریات کی تکمیل، خاندانی اتحاد، سماجی یک جہتی، امن اور ہم آہنگی کے ساتھ ہی ہوسکتی ہے۔ یہ ہے وہ چیز جو رحمت سے مراد ہے۔ اسلام لوگوں کو جوڑنے کے لیے آیا ہے، توڑنے کے لیے نہیں۔ قرآن انسانیت کے اتحاد کا علم بردار ہے۔ یہ خود انسان ہیں جو اس مقصد کے لیے درست ماحول پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
قرآن اسلامی تعلیمات کا صرف ایک حصہ ہے، دوسرا حصہ سنت نبویؐ ہے اور سنت نبویؐ کا حکم بھی بہت واضح ہے: ’’انسانیت اللہ کا کنبہ ہے اور ان میں اللہ کا سب سے پسندیدہ بندہ وہ ہے، جو اس کے کنبے کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے‘‘۔۱؎ یہ کنبہ صرف مسلمانوں پر مشتمل نہیں ہے۔ اس میں دنیا کے تمام لوگ شامل ہیں بلا لحاظ اس کے کہ وہ مسلم ہیں یا غیر مسلم، گورے ہیں یا کالے، امیر ہیں یا غریب اور مرد ہیں یا عورت۔ ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اعلان فرمایا:’’اے لوگو، سنو! تمھارا رب ایک ہے اور تمھارا باپ ایک ہے۔ کسی عرب کو کسی غیر عرب پر کوئی فوقیت ہے نہ کسی غیر عرب کو کسی عرب پر، کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری ہے نہ کسی کالے کو کسی گورے پر، فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے‘‘۔۲؎
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے:’’تم زمین والوں پر رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا‘‘۔۳؎ اس لیے تمام انسان ایک ہی خدا کے بندے ہیں اور برابر ہیں۔ ان کے ساتھ صرف عزت و احترام کا سلوک ہی کافی نہیں بلکہ ان کی مدد بھی ضروری ہے۔ مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ ان کے لیے اس کام کو بحسن و خوبی انجام دے۔ یوں اتحاد انسانیت اور عالم گیریت دراصل بنیادی طور پر اسلام کی تعلیم ہے۔ لوگوں کا قتل عام، ان کے گھروں اور جایدادوں کو تباہ کرنا، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے ذریعے پورے کے پورے ملکوں کو برباد کردینا، جیساکہ حال ہی میں امریکا نے عراق و افغانستان میں کیا، اسلام یا وحی پر مبنی کسی بھی مذہب کی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتا۔
یہ گفتگو ہمیں اس بنیادی سوال تک لاتی ہے کہ وہ کیا اسباب ہیں جو افتراق و انتشار کے ماحول کو جنم دیتے اور لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کرتے ہیں؟ قرآن کی رُو سے، جیسا کہ پہلے نشان دہی کی گئی، یہاں بغیا بینہم (ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنے کا داعیہ) ہے۔ اس ظلم و زیادتی کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عدل و انصاف اور باہمی امداد و تعاون کو عمارت سازی میں کام آنے والی اینٹوں کے طور پر استعمال کیا جائے۔ انصاف اور باہمی امداد و تعاون کے بغیر، ایسی عالم گیریت محال ہوگی جو سب کے لیے یکساں طور پر مفید ہو۔ اگر یہ دو باتیں موجود ہوں تو نہ صرف اقتصادی وسائل کی یک جائی عمل میں آئے گی بلکہ سماجی اور سیاسی ہم آہنگی بھی ہوگی۔
قرآن کی رُو سے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور کتاب اور میزان کے ساتھ بھیجا تاکہ لوگ عدل قائم کرسکیں (الحدید۵۷:۲۵)۔ لہٰذا محض محمدصلی اللہ علیہ وسلم، یا آدم، نوح، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام ہی نہیں، بلکہ اللہ کے تمام نبیوں کے مقاصد میں سے ایک اولین مقصد، دنیا میں عدل کا قیام تھا۔ یہ اس لیے کہ عدل کے بغیر انسانیت کے اتحاد کو حقیقت بنانا اور امن و ہم آہنگی قائم کرنا مشکل ہے۔ عدل و انصاف، قرآنی ہدایات کی رو سے، اس مقصد کے لیے ناگزیر ہے۔ اس آیت میں جس کا ترجمہ اُوپر درج کیا گیا ہے، ’کتاب‘ سے مراد قرآن ہے، جو جہاں بینی کا علم اور برتاؤ کے اصول فراہم کرتا ہے۔ ’میزان‘ کا مطلب صحیح اور غلط میں امتیاز کے لیے قرآن اور سنت میں دیے گئے معیارات ہیں۔ اس سے زندگی کے تمام شعبوں میں ایسے درست توازن کا قیام بھی مراد ہے جو نظام فطرت میں پایا جاتا ہے۔ اگر انسان ان اصولوں کے مطابق عمل کریں تو ان کے درمیان اتحاد اور عالم گیریت فروغ پائے گی۔ برتاؤ کے ان اصولوں کے نفاذ کے بغیر، دنیا میں عدل و انصاف نہیں ہوگا، چنانچہ امن اور ہم آہنگی بھی نہیں ہوگی۔ قرآن واضح طور پر بیان کرتا ہے:’’جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم اور بے انصافی سے آلودہ نہیں کیا، امن انھی کے لیے ہے اور وہی سیدھی راہ پر ہیں‘‘۔ (الانعام۶:۸۲)
یہ ہے قرآن کا فیصلہ۔ اگر آپ اس دنیا میں امن اور ہم آہنگی چاہتے ہیں تو اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ لوگوں کو انصاف فراہم کیا جائے، حتیٰ کہ بجاے خود عقیدہ بھی کافی نہیں۔ عقیدے کا نفاذ بے انصافی اور ظلم کے خاتمے کے ذریعے کیا جانا ہے، لہٰذا عدل اسلام کا ایک بنیادی مطالبہ ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر مزید زور یہ وضاحت کرکے دیا ہے کہ بے انصافی یوم حساب کی تاریکی کی جانب لے جاتی ہے۔ ۴؎رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے ’ظلمات‘ کی جو اصطلاح استعمال کی وہ ’ظلمہ‘ کی جمع ہے۔ جس کا مطلب گہرا اندھیرا ہے جس میں کوئی شخص کچھ نہیں دیکھ سکتا۔ چنانچہ آخرت میں ان لوگوں کے لیے صرف اندھیرا ہوگا جو ظالم اور بے انصاف ہیں۔ بے انصافی جتنی بڑی ہوگی، اندھیرا بھی اتنا ہی شدید ہوگا۔
اتحادِ انسانیت اور عالم گیریت کا دوسرا تقاضا، زندگی کے تمام گوشوں میں سماجی یگانگت کے فروغ کے لیے باہمی امداد و تعاون ہے۔ یہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ان لوگوں کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ صرف یہی ضروری نہیں کہ غربت اور مصائب کا ازالہ کیا جائے اور باہمی مفاہمت کو فروغ دیا جائے، بلکہ ایسی ہر چیز سے اجتناب کیا جائے جو یک جہتی کو نقصان پہنچانے والی ہو۔ ایسی ایک چیز ’تحمل و برداشت‘ کا فقدان ہے۔ ثقافتوں اور مذاہب میں اختلافات کو برداشت کرنا، انتہائی اہم ہے۔ یہ توقع رکھنا فضول اور غیر حقیقت پسندانہ ہے کہ تمام ممالک بالادست مغربی ثقافت و تہذیب کی اقدار اور طرز زندگی کو اپنالیں گے۔ دوسری تہذیبوں اور مذاہب کی تحقیر کی کوئی کوشش لازماً منفی رد عمل پیدا کرے گی اور عالم گیریت کے مقصد کو نقصان پہنچائے گی۔ جہاں تک باہمی امداد اور تعاون کا تعلق ہے تو اسلام کی ہدایات اس حوالے سے بھی بہت واضح ہیں۔ قرآن کہتا ہے:’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو، مگر گناہ اور زیادتی میں تعاون نہ کرو‘‘۔ (المائدہ۵:۲)
جہاں تک تحمل و برداشت کی بات ہے تو مسلمانوں نے اس معاملے میں قابلِ قدر مثال قائم کی ہے۔ اسلام کے دورِ عروج میں مسلم دنیا تحمل و برداشت کا بہترین نمونہ تھی۔ سانڈرس کے بقول، اس زمانے میں مسلم دنیا میں ایسی برداشت پائی جاتی تھی، ’’جس سے باقی پورا یورپ ناواقف تھا‘‘۔ ۶؎
اس تحمل و برداشت کے نتیجے میں مسلم دنیا مختلف علوم اور ان کے اطلاق کے ہر شعبے کے علما و فضلا کے لیے باہمی رابطے کی جگہ بن گئی تھی۔ اس دور میں مسلم دنیا میں مسلمان، عیسائی، یہودی، زرتشتی اور صابی سب مل کر کام کرتے تھے۔۷؎ تمام علمی موضوعات پر پوری آزادی کے ساتھ اور کسی روک ٹوک کے بغیر مباحثہ ہوتا تھا، جس کی وجہ سے ہمہ گیر علمی پیش رفت کی راہیں کھلتی تھیں۔ اس دور میں اسلام کی تیز رفتار ترقی کا یہ بھی ایک سبب تھا۔ تحمل و برداشت کی یہ صلاحیت، اسلام کی تعلیمات کا نتیجہ تھی۔ بقول جارج سارٹن ’’دینی عقیدہ مسلمانوں کی زندگی پر ناقابل تصور حد تک غالب تھا‘‘۔ ۸؎
یہ دیکھنے کے بعد کہ قرآن اور سنت، عدل و انصاف کے بارے میں کیا کہتے ہیں، آئیے چند بڑے مسلمان مفکرین کے نظریات پر ایک نگاہ ڈالیں۔ ابن تیمیہؒ کہتے ہیں کہ ’’عدل ہر ایک کے لیے، ہر ایک چیز کے حوالے سے ناگزیر ہے۔ بے انصافی کسی صورت جائز نہیں۔ معاملہ کسی مسلمان کا ہو یا غیر مسلم کا، حتیٰ کہ کسی ظالم کے ساتھ بھی عدل کے خلاف معاملہ کرنے کی گنجایش نہیں‘‘۔۹؎
ہمیں اپنے ذہن میں یہ بات رکھنی چاہیے کہ جب ابن تیمیہ ’ہر چیز کے لیے انصاف‘ کو ضروری قرار دیتے ہیں تو اس سے محض انسان نہیں بلکہ جانور، پرندے، کیڑے مکوڑے اور ماحول، سب مراد ہوتے ہیں۔ ہر چیز میں یہ سب شامل ہیں، لہٰذا انصاف کو ہر چیز کے لیے، ہر ایک کے لیے یقینی بنانا چاہیے، حتیٰ کہ اُس کے لیے بھی جو خود انصاف کی راہ پر نہ ہو، یعنی ظالم ہو۔
ابن خلدون بھی، جو ایک عظیم مؤرخ اور سماجی سائنس دان تھے، یہ بات بڑے پُر زور انداز میں یوں کہتے ہیں کہ ’’ظلم و بے انصافی تہذیب کے لیے تباہ کن ہے‘‘۔ ۱۰؎ یہ بات انھوں نے ۶۰۰سال پہلے کہی تھی، جب کہ ترقیاتی معاشیات، ابھی چند عشروں پہلے تک، ترقی میں عدل و انصاف کے کردار پر متفق نہیں تھی۔ بعض ماہرین معاشیات کا اصرار تھا کہ انصاف تعیش ہے اور انصاف کے ساتھ ترقی ممکن نہیں۔ تاہم، تجربے نے ترقیاتی معاشیات کو اب یہ سکھا دیا ہے کہ ترقی، انصاف کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے پچھلی صدی کی آٹھویں اور نویں عشرے میں سوچ تبدیل ہوئی اور اب ماہرین معاشیات عام طور پر اس بات پر متفق ہیں کہ ترقی کے لیے انصاف ناگزیر ہے۔ ابن خلدون اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ۶۰۰ سال پہلے اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا اور اس نے کہہ دیا تھا کہ ترقی انصاف کے بغیر نہیں ہوسکتی۔۱۱؎
ان حقائق کی بنا پر ہم پورے اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کا یہ عمومی تقاضا ہے کہ انصاف کو ہر صورت میں یقینی بنانا چاہیے اور ترقی کے فوائد میں سب کی یکساں شرکت ہونی چاہیے۔ انصاف کے بغیر نہ صرف ترقی کے عمل کو نقصان پہنچے گا، بلکہ باہمی تنازعات سر اٹھائیں گے اور تعاون کی فضا متاثر ہوگی۔ اس صورت میں باہمی قربت و یگانگت اور عالم گیریت کو حقیقت بنانا بھی مشکل ہوجائے گا۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ ایک جیسوں کے ساتھ ایک جیسا رویہ رکھا جائے اور جو باہم برابر نہیں، ان کے ساتھ الگ الگ برتاؤ کیا جائے۔ اس نکتے کو معاشی، سماجی اور سیاسی یک جہتی و یگانگت کے موضوع پر ذیل میں کی گئی بحث میں مزید واضح کیا گیا ہے۔
معاشی قربت و یگانگت نہایت اہم ہے کیونکہ یہ باہمی انحصار کو بڑھاتی ہے اور باہمی انحصار جتنا زیادہ ہو، تنازع اور جنگ کا امکان اتنا ہی کم ہوجاتا ہے۔ معاشی انحصار تجارت کو بڑھاتا، ترقیاتی عمل کو نشوونما دیتا اور نتیجتاً باہمی انحصار کے دائرے کو مزید وسیع کرتا ہے۔ ابن خلدون استدلال کرتے ہیں کہ ترقی کا دارومدار ستاروں (قسمت) یا سونے اور چاندی کی کانوں پر نہیں، بلکہ معاشی سرگرمی، تقسیم کار اور تخصص پر ہے اور جواباً یہ چیزیں منڈی کی وسعت پر منحصر ہیں۔۱۲؎
عالم گیریت منڈی کی توسیع میں مدد دیتی ہے۔ اس طرح یہ اشیا خدمات کی طلب کے اضافے میں مددگار بنتی ہے، روزگار کے مواقع کو بڑھاتی ہے، شرح نمو کو بلند کرتی ہے اور تمام لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بناتی ہے۔ اس سے تجارت میں توسیع کی اہمیت واضح ہے۔ لوگ اس معیارِزندگی کے عادی ہوجاتے ہیں اور تنازعات سمیت ہر اس چیز کی مزاحمت کرتے ہیں جو اس معیار کو نقصان پہنچاتی ہو۔
یورپی ملکوں میں شرح ترقی فی الوقت کم ہے۔ شرح ترقی کو بڑھانے کے متعدد طریقے ہیں۔ ان میں سے ایک عالم گیریت کے ذریعے منڈی کی توسیع ہے۔ اگر غریب ملک امیر ہوجائیں تو یورپی اور امریکی اشیا و خدمات کے لیے ان کی طلب بڑھ جائے گی۔ منڈی کے حجم میں یہ اضافہ ترقی کے عمل کو تیز کرنے میں مدد دے گا، آمدنیوں میں اضافے اور سائنس اور تعلیم کے فروغ کا باعث بنے گا۔ لہٰذا منڈی میں توسیع، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک سب کے لیے فائدہ مند ہوسکتی ہے۔
اسلامی معاشیات میں معاشی یگانگت کو فروغ دینے کے لیے مضبوط منطقی بنیاد موجود ہے۔ یہ اس لیے کہ معاشی یگانگت جتنی زیادہ ہوگی جیسا کہ پہلے حوالہ دیا گیا، تنازع کے امکانات اتنے ہی کم اور انسانی اتحاد اور عالم گیریت کے اسلامی ہدف کے حصول کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ تاہم، جس قسم کی معاشی عالم گیریت کا تجزیہ دنیا میں آج ہورہا ہے، اس کے ذریعے یہ مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں جاری موجودہ عالم گیریت منڈی کی توسیع عدل و انصاف کے بجاے لبرلائزیشن کے ذریعے کرنے پر زور دیتی ہے اور فی الحقیقت انصاف کو اکثر فراموش کردیا جاتا ہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ جب صنعتی ملکوں کی برآمدات بڑھتی ہیں تو ترقی پذیر ملکوں کی برآمدات میں بھی ترجیحاً بلند نرخوں پر اضافہ ہونا چاہیے، اگر ان ملکوں میں غربت اور بے روزگاری کو کم کرنا مقصود ہے، لہٰذا عالم گیریت کو محض صنعتی ملکوں کی تجارت میں توسیع کا علَم بردار نہیں ہونا چاہیے بلکہ ترقی پذیر ملکوں کی تجارت کو بڑھانے کے لیے بھی کارگر ثابت ہونا چاہیے۔ ترقی پذیر ملکوں کی برآمدات میں اس وقت تک اضافہ نہیں ہوسکتا جب تک کہ ان کی برآمدات کی راہ میں حائل تمام پابندیاں دور نہ کردی جائیں اور ان کی پیداواری صلاحیت میں بھی بہتری رونما نہ ہو۔
اس لیے ان پابندیوں کا خاتمہ لازمی ہے جو ان کی برآمدات کے فروغ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ یہ تجارت کی لبرلائزیشن کا ایک جزو ہے۔ تاہم، اس سے اس وقت تک پورا فائدہ نہیں ہوسکتا جب تک ترقی پذیر ملکوں کی پیداواری صلاحیت میں بھی توسیع نہ ہو، تاکہ وہ مزید برآمدات کے قابل ہوسکیں اور پیداواری صلاحیت انسانی وسائل اور فزیکل انفراسٹرکچر کی ترقی کے بغیر نہیں بڑھ سکتی۔ یہ انتہائی اہم امور ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کو اپنے سماجی اور فزیکل انفراسٹرکچر اور پیداواری سرگرمیوں کو بہتر بنائے بغیر، ان سے اپنے تمام محصولات کے خاتمے کا مطالبہ، ان ملکوں میں درآمدی سازوسامان کا سیلاب، ان کی اپنی صنعت اور زراعت کی تقریباً مکمل تباہی کی راہ ہموار کرے گا، لہٰذا ترقی پذیر ملکوں میں عالم گیریت صرف بتدریج ہی واقع ہوسکتی ہے۔ اگر اسے طاقت کے بل پر مسلط کیا گیا تو اس کے نتیجے میں کئی مسائل جنم لیں گے۔ ان میں سے ایک ان کی متعدد صنعتوں کا بند ہوجانا ہے۔ یہ چیز ان کی زراعت کو بھی نقصان پہنچائے گی، بے روزگاری میں اضافے کرے گی، سماجی اور سیاسی عدم استحکام پیدا کرے گی، اور ایسے نتائج کا سبب بنے گی جو ان اہداف کے بالکل برعکس ہوں گے جو عالم گیریت سے مقصود ہیں۔
دوسرے الفاظ میں ترقی پذیر ملک اسی صورت میں عالم گیریت کی جانب پیش رفت کرسکتے ہیں جب ان کی پیداواری صلاحیت میں توسیع اور ان کی برآمدات میں اضافہ ہو۔ فی الوقت ایسا نہیں ہورہا ہے۔ انھیں اپنے انفراسٹرکچر اور انسانی وسائل کی ترقی کے ذریعے اپنی پیداواری صلاحیت کو وسعت دینے کے لیے ترقی یافتہ ملکوں کی مدد درکار ہے۔ ایک ایسے بندوبست کی ضرورت ہے جس کے ذریعے ان کی تعلیم، ٹکنالوجی، انتظامی معاملات اور پیداوار کے طریقوں کا معیار بہتر ہو۔ یہ ساری بہتریاں بہت ضروری ہیں، کیونکہ ان کے عمل میں آنے سے ترقی یافتہ ملکوں کو بھی کچھ عرصے بعد جواباً اس کے اچھے نتائج حاصل ہوں گے۔ ان کی اشیا و خدمات کے لیے ترقی پذیر ملکوں میں مانگ بڑھے گی۔ اس کے نتیجے میں ان کے اپنے ملکوں میں پیداوار میں اضافہ کی شرح بلند ہوگی اور بے روزگاری میں کمی آئے گی۔ وہ خود اپنی معاشی کارگزاری کو بہتر بنانے کے لائق ہوسکیں گے۔ اس طرح ہر ایک کو فائدہ پہنچے گا۔
فی الوقت جاری عالم گیریت کا عمل اس نوعیت کا نہیں ہے۔ متعدد اشیا عالم گیریت سے باہر رکھی گئی ہیں۔ تیل، پٹرول اور کیمیکل اشیا اس سے خارج ہیں۔ ٹیکسٹائل کا شعبہ بھی اس سے باہر تھا اور حال ہی میں شامل کیا گیا ہے۔ زرعی اشیا آج تک اس سے باہر ہیں۔ زرعی اشیا پر جو مالی اعانتیں یورپ، امریکا اور جاپان سمیت صنعتی دنیا میں دی جاتی ہیں وہ ترقی پذیر دنیا میں زراعت کی توسیع میں قابل عمل نہیں ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ زراعت میں مقابلتاً فوقیت کے باوجود ان ملکوں کی زرعی پیداوار کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
مختصر یہ کہ ترقی یافتہ دنیا ان اشیا اور خدمات پر عائد محصولات ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے جن کی پیداوار میں اسے مقابلتاً فوقیت حاصل ہے لیکن جواباً ترقی پذیر دنیا کو ان چیزوں کے حوالے سے یہ سہولت مہیا کرنے کو تیار نہیں جن میں اسے فوقیت حاصل ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں اور خود اسلام کی ابتدائی صدیوں میں جو عالم گیریت واقع ہوئی وہ زراعت ہی میں توسیع کے ذریعے ہوئی تھی۔ جاپان کو دیکھیں یا امریکا کو، یہ زراعت ہی ہے جس میں پہلے توسیع ہوئی۔ اس نے صنعتی ترقی کے لیے وسائل فراہم کیے۔ اگر ترقی پذیر ملکوں میں زراعت کا دائرہ نہ پھیلتا تو ان کی ترقی کا عمل متاثر ہوتا اور آخری نتیجے کے طور پر پوری دنیا میں صنعتی ملکوں کو بھی نقصان پہنچتا، لہٰذا زراعت کی توسیع ملکوں کے لیے انتہائی اہم ہے اور اس کے لیے ترقی یافتہ دنیا میں زراعت پر دی جانے والی مالی اعانتوں کا خاتمہ ناگزیر ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ صنعتی ملکوں کو ایک ہی ہلّے میں تمام مالی اعانتوں کا خاتمہ کردینا چاہیے۔ یہ اقدام حکمران سیاسی جماعتوں کے لیے خودکشی کا عمل ثابت ہوسکتا ہے۔ تاہم، وہ اسے تدریج کے ساتھ انجام دے سکتے ہیں، اس واضح شعور کے ساتھ کہ یہ وہ عمل ہے جو ترقی پذیر ملکوں کو اپنی زراعت کو وسعت دینے اور اپنے وسائل میں اضافہ کرنے کے قابل بنانے کے لیے درکار ہے اور یہ ان کی صنعتی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ معاشی قربت و یگانگت ایک دھیما عمل ہے چنانچہ صنعتی ملکوں سے مالی اعانتوں کے فوری خاتمے کی توقع نہیں رکھی جاسکتی، تاہم اسے بتدریج رُوبہ عمل لایا جانا چاہیے، مگر ایسا نہیں ہورہا۔ صنعتی دنیا میں اس بات کی مستقل جدوجہد جاری ہے کہ زرعی اشیا پر دی جانے والی مالی اعانتیں برقرار رہیں اور ان کے خاتمے کے مطالبے کو ٹالا جاتا رہے۔ اس رویے کے ساتھ کوئی گلوبلائزیشن نہیں ہوسکتی۔
دوسری چیز جسے ذہن میں رکھا جانا چاہیے، ترقی کے مختلف مراحل ہیں جن سے ترقی پذیر ممالک فی الوقت گزر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ دوسروں سے بہت آگے ہیں۔ اس لیے ان سب کے ساتھ یکساں برتاؤ نہیں کیا جاسکتا۔ مقابلتاً غریب ترقی پذیر ممالک، اداروں کی تعمیر، صحت مند اور مستحکم مالیاتی تعاون کے حاجت مند ہیں۔ اچھی حکمرانی کے بغیر ان مقاصد کا حصول مشکل ہے۔ تاہم، ترقی پذیر ملکوں کی ترقی کے لیے یہ تمام چیزیں ناگزیر ہیں۔ ان اہداف کے حصول میں وقت لگے گا۔ اس لیے یہ توقع رکھنا انتہائی غیر حقیقت پسندانہ ہوگا کہ ترقی پذیر ممالک اپنے تمام محصولات فی الفور ختم کردیں گے۔ ایسا کوئی بھی قدم نہ صرف ان ملکوں بلکہ پوری دنیا کے لیے مزید مصائب کا سبب بنے گا۔ اس لیے ترقی پذیر ملکوں میں عالم گیریت کو ایک دھیما عمل سمجھا جانا چاہیے۔ ان ملکوں میں ترقی کے لیے درکار ضروری عوامل کی فراہمی کے ساتھ ساتھ محصولات میں بتدریج کمی کے لیے اچھی طرح سوچا سمجھا پروگرام تیار کیا جانا چاہیے۔
جہاں تک تیل کا معاملہ ہے تو یہ بھی ایک مسئلہ بن چکا ہے۔ ہر ایک تیل کی بلند قیمتوں کی شکایت کر رہا ہے۔ تیل کی بلند قیمت کی وجہ لازمی طور پر تیل پیدا کرنے والے ملک نہیں ہیں۔ تیل کی بلند قیمت دو عوامل کی بنا پر ہے۔ ان میں سے ایک گھٹتے ہوئے ذریعے کے لیے جس کا متبادل موجود نہیں، بین الاقوامی طلب کا بڑھنا ہے، جب کہ دوسرا سبب عملی طور پر تمام صنعتی ملکوں میں تیل پر عائد محصولات کی اونچی شرح ہے۔ بعض ممالک میں محصولات تیل کی پمپ پرائس کے غالب حصے پر مشتمل ہوتے ہیں، جب کہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں کو اس قیمت میں ملنے والا تناسب بہت تھوڑا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پٹرو کیمیکلز پر بھاری محصولات عائد ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپ میں متعدد پیٹرو کیمیائی صنعتیں جدید ترین مشینری سے لیس ہیں چنانچہ ان کی کارکردگی زیادہ اچھی ہے۔ اگر پیٹرو کیمیکلز کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے دائرہ کار میں شامل کیا جائے تو یورپی ملکوں کو اپنی صنعتوں کو وقت کے مطابق ڈھالنے کے لیے اپنی مشینری تبدیل کرنا پڑے گی۔
اس کے علاوہ بھی بعض مسائل ہیں۔ موجودہ عالم گیریت اصولوں کے مطابق نہیں بلکہ مذاکرات کے مطابق ہے۔ امریکا اور یورپی ملکوں جیسے صنعتی ممالک کی مذاکراتی صلاحیت، ترقی پذیر ملکوں سے کہیں زیادہ طاقت ور ہے۔ وہ مذاکرات کی میز پر وکیلوں، اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین معاشیات اور قانونی مشیروں کے ساتھ جاتے ہیں، جب کہ ترقی پذیر ممالک کے پاس مذاکرات کی میز پر اپنی اعانت کے لیے مشکل سے ایک دو اشخاص ہوتے ہیں۔ صنعتی ملکوں کی جانب سے ذہن کو تھکادینے والے مذاکرات میں شرکت کے لیے لے جائے جانے والے ماہرین کی تعداد اوسطاً سات ہوتی ہے، جب کہ ترقی پذیر ممالک اس کا نصف بھی مہیا کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ نہ ان کے ماہرین ویسے اعلیٰ معیار کے ہوتے ہیں جیسے صنعتی ملکوں کی طرف سے آتے ہیں۔۱۳؎ اس لیے یہ توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے کہ مذاکرات منصفانہ اور غیر جانب دارانہ انداز میں منعقد ہوں گے؟ اس طرح یہ پورا عمل ابتدا ہی سے غیر منصفانہ معلوم ہوتا ہے۔ اسلامک ڈویلپمنٹ بنک کے صدر ڈاکٹر احمد علی نے بجا طور پر نشان دہی کی ہے کہ ’’ڈبلیو ٹی او میں ترقی پذیر ملکوں کا پہنچنا ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص گھنے جنگل سے گزر رہا ہو جو جھاڑ جھنکاڑ، پر پیچ راستوں اور سدھائے ہوئے دیوہیکل درندوں سے بھرا پڑا ہو‘‘۔۱۴؎ عالم گیریت، عدل و انصاف کے بغیر نہیں آسکتی اور اگر انصاف کو ملحوظ رکھا جائے تو ترقی پذیر ملکوں کو متعدد مراعات دی جانی چاہییں۔ تمام ترقی پذیر ملکوں کو یکساں مراعات کے بجاے ان کی ترقی کے مرحلے کے مطابق مراعات ملنی چاہییں۔
عالم گیریت کے لیے درکار ایک اور چیز سماجی قربت و یگانگت ہے۔ مختلف ملکوں میں بہتر باہمی مفاہمت کے لیے یہ ضروری ہے۔ یہ چیز ایک آفاقی گاؤں کی تعمیر کے لیے راستہ ہموار کرے گی۔ تاہم آفاقی گاؤں کا یہ مطلب نہیں لیا جانا چاہیے کہ اس میں ایک یکساں اور سب کے لیے قابل قبول تہذیب و ثقافت رائج ہوگی۔ اس کے بجاے اسے ایک ایسا گاؤں بنانا ہوگا جس میں ثقافتی تنوع اور رنگا رنگی ہو۔ ایسا اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ ہم دوسری ثقافتوں کو محض برداشت نہ کریں بلکہ ان کا احترام کریں اور ان کی تحقیر سے گریز کرنا بھی سیکھیں۔ یہ توقع رکھنا کہ دنیا کے تمام ممالک ایک ہی مغربی تہذیب و ثقافت کو اپنالیں گے، غیر صحت مند اور غیر حقیقت پسندانہ ہی نہیں بلکہ ایسا ہدف ہے جس کا حصول ناممکن ہے۔ کسی بالادست قوم کی جانب سے باقی دنیا پر اپنا کلچر مسلط کرنے کی کوشش پر دوسرے ملک ناخوش ہوں گے۔ دنیا میں کلچر کے نام سے کوئی ایسی اعلیٰ و ارفع اور یک رنگ چیز نہیں ہے جس میں صرف خوبیاں ہی ہوں اور جو کمزوریوں سے یکسر پاک ہو، جب کہ تنوع اور رنگا رنگی سے دنیا کی خوب صورتی میں اضافہ ہوگا۔
دوسرے لفظوں میں ہمیں سماجی عالم گیریت کو تنوع اور ایک دوسرے کی ثقافتوں اور مذاہب کے احترام کے ساتھ مقصود بنانا چاہیے۔ ہمیں دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں کی اچھی چیزوں کو اپنانے اور ان چیزوں سے دور رہنے کے لیے جو ہمارے نزدیک اس کے برعکس ہوں، عقل و دانش سے کام لینا چاہیے۔ اختلاف و تنوع کے ساتھ اتحاد سے یہی صورت مراد ہے۔ دوسری قوموں پر اپنا کلچر مسلط کرنے کی کوشش، سماجی گلوبلائزیشن کو وجود میں لانے کا غلط طریقہ ہے۔ اس عمل میں مسلسل اصلاحات، برداشت اور باہمی احترام سے انکار کی کوئی گنجایش نہیں۔
قرآن مسلمانوں کو دوسرے انسانوں کی مذہبی علامات یا خداؤں کو برا کہنے سے روکتا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ قرآن کہتا ہے: وہ لوگ علم نہ رکھنے کی بنا پر اللہ کو برا کہنے لگیں گے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں مزید بتاتا ہے کہ ایسا اس لیے ہوگا کیونکہ ہم نے تمام لوگوں کے لیے ان کے اعمال کو پرکشش بنادیا ہے اور وہ لوگ اس رویے سے باز آنے والے نہیں ہیں۔ قرآن اپنے اس بیان سے اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ کسی کے مذہب، اقدار اور ثقافت کی تحقیر و توہین کے نتیجے میں لوگ ہمارے اپنے مذہب اور ثقافت کی تحقیر و توہین کریں گے۔ اس طرح یہ عالم گیریت کا بدترین طریقہ ثابت ہوتا ہے۔ قرآن یہ بھی کہتا ہے:’’اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقے سے___ سواے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہوں___ اور ان سے کہو کہ ’’ہم ایمان لائے ہیں اس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اس چیز پر بھی جو تمھاری طرف بھیجی گئی تھی، ہمارا خدا اور تمھارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اسی کے مُسلم (فرماں بردار) ہیں‘‘۔ (العنکبوت ۲۹:۴۶)
لہٰذا اگر ہمارا اللہ اور ان کا اللہ ایک ہی ہے اور ہم سب کو اسی نے تخلیق کیا ہے تو ایک دوسرے کو برا کیوں کہیں؟ مگر اس کے مطابق ہو نہیں رہا۔ مغربی دنیا میں فی الوقت جو کچھ ہورہا ہے وہ اسلام، قرآن اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر مسلسل لعن طعن ہے۔ یہ غرور و تکبر اور اندھے تعصب کا اظہار ہے، تحمل و برداشت اور مفاہمت کا مظاہرہ نہیں۔ امریکا (گوانتاناموبے) میں قرآن کے بیت الخلا میں پھینکے جانے کے واقعے کو مسلم دنیا کی جانب سے ایک دوستانہ کارروائی کے طور پر کیسے دیکھا جاسکتا ہے؟ اور اس ماحول میں عالم گیریت کیسے وقوع پذیر ہوسکتی ہے؟
سماجی اور معاشی عالم گیریت ایک دوسرے سے گہرے طور پر مربوط ہیں۔ سماجی یگانگت کے بغیر معاشی یگانگت مشکل ہے اور لوگوں کے درمیان مزید اتحاد اور ہم آہنگی کو فروغ دیے بغیر سماجی یگانگت پیدا کرنا ممکن نہیں۔ توہین آمیز واقعات، جو امریکا اور اسی طرح خاصی تعداد میں یورپ میں پیش آئے، کوئی تازہ معاملہ نہیں ہیں جو نائن الیون کا نتیجہ ہو۔ یہ واقعات ایک ایسے ذہنی رویے کی عکاسی کرتے ہیں، جو صدیوں پر محیط ہے۔ اس کا مظاہرہ صلیبی جنگوں میں ہوا تھا اور اس کے بعد قرآن، محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام پر مسلسل حملوں کی شکل میں برابر ہوتا چلا آرہا ہے۔ یہ رویہ بین الاقوامی ہم آہنگی اور عالم گیریت کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔
سیاسی قربت و یگانگت کا یہ مطلب نہیں کہ ایک سوپرپاور کی چھتری تلے دنیا کی تمام قوموں کو ایک قوم بنا دیا جائے۔ سیاسی یگانگت ایک ایسی مقتدرہ ہی کے تحت حقیقت بن سکتی ہے جو انصاف کی ضامن ہو، تنازعات کو کم کرے، اور تمام ملکوں میں امن اور خوش حالی کو فروغ دے۔ اقوامِ متحدہ سے اس کام کی انجام دہی کی امید لگائی گئی تھی لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں اسرائیل کی سنگ دلی اور امریکا کی مدد اور چشم پوشی کی بنا پر مسلسل پامال ہوتی چلی آرہی ہیں۔ ایک منصفانہ عالمی نظام کو حقیقت بنانے کا خواب بھی، جھوٹے الزامات کی بنیاد پر عراق پر امریکا کے حملے کی وجہ سے بکھر چکا ہے۔ اس حملے کے پیچھے دو مقاصد کار فرما تھے۔ ایک تو مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی ہٹ دھرمی کے تسلسل کو یقینی بنائے رکھنا، اور دوسرے اس علاقے کے تیل پر تسلط حاصل کرنا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ خود یورپی ملکوں کے مفاد کے بھی خلاف تھا۔ کوئی اکیلا ملک جو اس علاقے کے تیل پر کنٹرول رکھتا ہو، پوری دنیا پر تسلط قائم کرنے کے بارے میں بھی سوچ سکتا ہے۔ وہ چین، جاپان، حتیٰ کہ بعض یورپی ملکوں کو ایسی پالیسیوں کو ماننے پر مجبور کرنے کے لیے جنھیں وہ پسند نہیں کرتے تیل کے لیے راستہ دینے سے انکار کرسکتا ہے۔ اس صورت حال سے بے پناہ مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ یوں مشرق وسطیٰ کے تیل کا ایک سوپرپاور کے کنٹرول میں لے آیا جانا، ایک انتہائی ناخوش گوار معاملہ ہے۔ امریکا کویت کو عراق سے بچانے کے لیے کویت گیا تھا لیکن پھر وہ خود نو آبادیاتی طاقت بن گیا۔ کویت اب عملاً امریکی کالونی کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد امریکا نے عراق پر حملہ کیا تاکہ دونوں ملکوں کے تیل پر اپنا کنٹرول قائم کرلے اور پورے علاقے کے ملکوں کے تیل کو اپنے دائرۂ اثر میں لے آئے۔ ایران نے مزاحمت کا اعلان کیا اور شاید اسی بنا پر اسے ’برائی کے محور‘ کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔
عراق پر تسلط قائم کرنے کے لیے امریکا کی کوششوں نے اس ملک کو بری طرح تباہ کردیا ہے۔ ۱۵ لاکھ سے زیادہ مرد، عورتیں اور بچے قتل کردیے گئے، ملک کے بنیادی ڈھانچے، صنعت اور زراعت کو برباد کردیا گیا، اور بحیثیت مجموعی ایک خوش حال ملک کو انتہائی غریب بنا دیا گیا۔ عراق کو اس حالت میں واپس آنے کے لیے جس میں یہ ۱۹۷۰ء میں تھا کم از کم دو عشروں تک جدوجہد کرنا پڑے گی۔ کئی یورپی ملک اس بات پر قابل تعریف ہیں کہ انھوں نے عراق کی اس غیر ضروری اور سنگ دلانہ بربادی میں امریکا کی طرف داری نہیں کی (ایسی ہی جارحیت کا نشانہ افغانستان کو بھی بنایا گیا ہے)۔
ایک مسلم ملک پر اس دلیل کی بنیاد پر حملہ کرنا کہ اس کا مقصد اس ملک میں جمہوریت کا قیام ہے، قطعی احمقانہ ہے۔ جمہوریت طاقت کے بل پر نہیں لائی جاتی۔ اس مقصد کے لیے متعدد اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان اقدامات پر گفتگو یہاں ممکن نہیں۔ اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ مسلم ملکوں میں سماجی، معاشی اور سیاسی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اسے ہر ایک مانتا ہے لیکن اس اصلاح کو عمل میں لانا آسان نہیں۔ یہ کام بتدریج ہی ہوسکتا ہے۔ مغربی دنیا تعلیم اور سماجی و معاشی بہتری میں تعاون کرکے اصلاحات کی رفتار کو تیز کرسکتی ہے۔
سیاسی یگانگت بلاشبہہ دنیا کی ضرورت ہے، تاہم اسے طاقت کے استعمال کے ذریعے قائم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کام صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھیں، ایک دوسرے کے مذاہب اور تہذیب و ثقافت کا احترام کریں، ایک دوسرے سے تعاون کریں اور ان سماجی تنازعات سے گریز کریں جو دوسروں کے مذہب، ثقافت اور عقائد کی توہین و تحقیر کا نتیجہ ہیں۔ اگر ہم اس طور پر آگے بڑھیں تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوسکتا۔
آخری بات
ہم بات اس پر ختم کرسکتے ہیں کہ عالم گیریت پوری دنیا کی عظیم تر خوش حالی کے لیے ضروری ہے۔ تاہم، معاشی عالم گیریت، سماجی اور سیاسی عالم گیریت سے الگ نہیں۔ یہ عالم گیریت کے پورے عمل کا ایک حصہ ہے۔ یہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک ہم عدل و انصاف، باہمی مفاہمت اور تعاون کو کھیل کے اصولوں، یعنی ان قوانین کی پابندی کرتے ہوئے یقینی نہ بنائیں جو انبیاے کرام ؑ ہم تک اخلاقی اقدار کے ذریعے لائے۔
۱: تبریزی، مشکوٰۃ المصابیح، نمبر ۴۴۹۸، ج دوم، ص ۶۱۳، بہ سند شعب الایمان از بیہقی۔
۲: بحوالہ القرطبی، تفسیر قرآن، آیت ۴۹: ۱۳، ج ۱۶ ، ص ۳۴۲۔
۳: تبریزی، مشکوٰۃ المصابیح، نمبر ۴۹۶۹، ج دوم، ص ۶۰۸، بہ سند ابوداؤد اور ترمذی۔
۴: مسلم ، مسلم، نمبر ۶، کتاب البر والصلہ والادب، باب تحریم الظلم، از جابر ابن عبد اللہ (ج ۴، ص ۱۹۹۶)
۵: المنذری، الترغیب والترہیب نمبر ۲ (ج ۳، ص ۳۹۰) بہ سند مسلم، ابوداؤد ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور حاکم)
۶: 24۔ Saunders, "The Muslim World on the Eve of Europe's Expansion
۷: ایضاً۔
۸: Sarton, "Introduction to the History of Science", vol.1, 503.
۹: ابن تیمیہ، معجم الفتاویٰ، ج ۱۸، ص ۱۲۲۔
۱۰: ابن خلدون، مقدمہ، ص ۲۸۸۔ مزید دیکھیے روزنتھال کا ترجمہ، ابن خلدون، اور عیساوی کی تالیف "Arab Philosophy of History"
۱۱: ابن خلدون، مقدمہ، ص ۲۸۷۔
۱۲: ایضاً ۳۶۰ اور ۴۰۳۔
۱۳: ورلڈ بنک، ’ورلڈ ڈویلپمنٹ رپورٹ‘، ص ۵۵۔
۱۴: اسلامک ڈویلپمنٹ بنک، Proceedings of Seminar on Accession to WTO"
مقالہ نگار معروف ماہر اقتصادیات ہیں۔ سعودی عرب کے اسٹیٹ بنک اور اسلامی ترقیاتی بنک کے مشیر رہے ہیں