مرزا یاور بیگ


بعض حلقے یہ بات کہتے ہیں کہ ’’مسلم دُنیا کی نظریاتی تحریکیں کوئی دیرپا کامیابی حاصل نہیں کرسکیں، خاص طور پر کئی مسلم ادارے یا تنظیمیں‘‘۔ اس بات کے اسباب کا تعین نہ پیچیدہ ہے نہ مشکل، لیکن مسئلہ کے حل پر عمل کرنا تقریباً مشکل ہے۔ ناکامی یا ضُعف کی مثالیں گنوانے کے بجائے صرف یہ چاہوں گا کہ یہ سوال اٹھے کہ ’’آخر ایسا کیوں سوچا جاتا ہے؟‘‘ حقیقت کا دکھائی دینا مشکل نہیں، مگر اس کو قبول کرنا مشکل ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کو کرۂ ارض پر ایک ایسا نظام قائم کرنے کے لیے بھیجا ہے، جو انصاف، ہمدردی اور اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس پر قائم ہو اور اس وجہ سے سب باشندگانِ زمین کے حق میں بہتر ہو۔ اس قابل بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے اپنی کتاب، قرآن مجید کی شکل میں نازل کی اور بہترین استاد اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں بھیجے، جنھوں نے ہمیں اللہ کے تجویز کردہ نظام کے مطابق رہنا سکھایا اور رہ کر دکھلایا۔

اللہ کی یہ لا محدود رحمت ،ہمارے لیے سکون، اطمینان اور خوش حالی کی زندگی کو ہمارا مقدر بنانے کے لیے ہے۔ اسی لیے اسلام انسانی زندگی کے ہر شعبے کے لیے ہدایات کا جامع نظام دیتا ہے، تاکہ انسان اپنی پوری زندگی پر محیط معاملات کی انجام دہی کے قابل ہو جائے۔ معاملات خواہ سماجی ہوں یا معاشرتی، عدالتی ہوں یا انتظامی، شادی بیاہ کے ہوں یا وراثت کے، جنگ سے متعلق ہوں یا امن کے، کھانےپینے اور پہننے کے ہوں یا دوسروں کی امداد کرنے کے، کمانے سے متعلق ہوں یا خرچ سے، نماز، عبادت کے بارے میں ہوں یا ایثار اور قربانی کے___ اسلام ہر شعبۂ زندگی کے لیے نظام کار وضع کرنے کے لیے ہدایات دیتا ہے۔اس لیے، اسلام صرف ایک تصوراتی نظریہ نہیں، بلکہ مجسم اور متحرک عمل ہے۔اس کی طاقت، اس کی ہدایات کا محض علم رکھنے پر نہیں، ان پر عمل کرنے میں ہے۔علم اور عمل میں فرق کا پیدا ہونا ہی وہ جال ہے جس سے ہمیں بچنا ہے۔

اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ہمیں ذرائع اور اوزار چاہییں۔ مثال سے یوں سمجھیے کہ ہمارے پاس گاڑیاں بنانے کے لیے لکھی گئی کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہے۔ ہم ہر صبح کا آغاز کتابیں پڑھنے سے کرتے ہیں، گاڑیاں بنانے کے طریقوں اور صنعت کے متعلق اپنی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں، اور پھر شام کو گھر چلے جاتے ہیں۔ مگر کتابیں پڑھتے رہنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ اگر واقعی اپنے علم کو بروئے کار لانا ہے تو اس کے لیے ہم کو گاڑیاں بنانے والا کارخانہ قائم کرنا ہوگا۔ اس طرح نہ صرف ہم خود اپنی سواری کے لیے گاڑی بنا لیں گےبلکہ دنیا کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلیں گے۔

اب اگر کوئی یہ پوچھے:’’جب ہمارے پاس انجن کے کام کو جاننے والے زبردست اہلِ علم موجود ہیں، تو ہمیں ان سب کارکنوں اور انجینئروںوغیرہ کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘ تو اس کو آپ یہی جواب دیں گےکہ ’’محض یہ جاننے سے کہ انجن کس طرح کام کرتا ہے اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں ہو گا جب تک تم خود انجن نہ بنا لو گے، اور ایک ایسے نظام میں لگائو گے جو انجن کی پیدا کردہ طاقت کو حرکت میں بدل کر گاڑی چلا دے‘‘۔ اس لیے یہ سوال کہ ’’زیادہ اہمیت کس کی ہے —سائنس دان کی، انجینئر کی، یا ڈرائیور کی ؟‘‘ ایک بے معنی بات ہے، ہر ایک کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔

نظریاتی تنظیموں یا تحریکوں کو پائے دار کامیابی نہ ملنے کی ایک وجہ دانش وروں کا کارکنوں کے کام کو اہم نہ سمجھنا، یا کارکنوں کا اہلِ دانش کے علم اور اُن کی فکرمندی کو اہمیت نہ دینا ہے۔ ناکامی کی وجہ نہ نظریہ ہےاورنہ طریق کار، بلکہ ایک بالکل مختلف معاملہ ہے، دونوں سے زیادہ اہم، اور وہ ہے انسانی رویہ۔

ہم اس قابل نہیں کہ اختلاف کے ساتھ معاملہ نبھائیں، اختلاف رائے کے ہوتے آگے بڑھیں، علم اور تجربہ اور مہارت کا احترام کریں۔ ناکامی اس لیے سامنے آتی ہے کہ ہم میں یہ احساس نہیں کہ ہمیں واقعی ’دوسرے‘کی ضرورت ہے، اور یہ کہ’ دوسرے‘ کے بغیر ہمارا ’اپنا‘ نظریاتی عمل نامکمل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم روایتی غلطیوں سے سبق حاصل کریں اور ان کو دُہرانے سے بچیں۔ اس ضمن میں اکثر ایسے سوالات پوچھے جاتے ہیں:

’’کیا اقامت دین کے لیے بپا تحریک کا کام یہ بھی ہے کہ وہ مختلف انسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے ادارے قائم کرے ؟‘‘

اس کا انحصار اس بات پر ہےکہ آیا وہ تحریک اپنے نظریے پر عمل درآمد میں سنجیدہ ہے، یا نہیں۔یہ بالکل اس طرح کا سوال ہے کہ کیا صحت عامہ کے لیے چلائی جانے والی مہم کوہسپتال قائم کرنا یا قائم شدہ ہسپتالوں کی امداد بھی کرنا چاہیے؟ظاہر ہے کہ یہ موشگافی بے معنی ہے، درحقیقت تنظیمیں تو ذرائع کی طرح ہیں۔ یہ نظریاتی ’کیوں‘ کاعملی جواب ’کیسے‘ ہوتی ہیں۔نظریہ جہاں جدوجہد کا مقصد بتاتا ہے وہاں تنظیم اس مقصد کے حصول کے لیے ذرائع فراہم کرتی ہے۔

مثال کہ طور پر دیکھیے کہ سودی کاروبار کی ممانعت کے حکم الٰہی کا نفاذاقامت ِدین کا ایک جزو ہے۔ اسلامی بنیادوں پر بینک یا اس جیسے ادارے قائم کیے بغیر آپ یہ کام کیسے کر سکتے ہیں؟ اگر اسلام کی تعلیمات کے مطابق لوگوں کے لیے ادھار رقم حاصل کرنے کاکوئی طریقہ نہ ہو، تو بے شک آپ سارا دن سود کے حرام ہونے کی گردان کرتے رہیں، کبھی کوئی مثبت پیش رفت نہ ہوگی۔ ویسٹ منسٹر فلر کے الفاظ میں:’’کسی فرسودہ نظام سے چھٹکارا پانے کے لیے آپ اس سے متعلق سوچ کے اندرتبدیلی نہیں لاتے، بلکہ ایک نئی سوچ بروئے کار لا کرپرانی سوچ کو ختم کرتے اور نیا نظام لاتے ہیں‘‘۔

تنظیمیں وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے نظریے کو حقیقت کی دنیا میں پائے دار بنیادوں پر نافذ کیا جاتا ہے۔ تنظیموں کے بغیر ایک نظریے پر عمل درآمدمحض وقتی اور’جھٹ پٹ‘ قسم کا ہو گا کہ جس کا کبھی اطلاق ہوا بھی تو وہ جزوی ہی ہو گا، اور کبھی اتنا بھی نہیں ہو گا۔

ایک اور مثال لیجیے: ۲ہجری تک زکوٰۃ فرض ہو چکی تھی اور مال غنیمت کی تقسیم سے متعلق قوانین (سورئہ انفال) واضح کر دیے گئے تھے، لیکن باقاعدہ مربوط معاشرتی بہبود کا کام حضرت عمرؓ کےدورمیں بیت المال کا ادارہ قائم ہونے کے بعد ہی شروع ہوا۔اس سے پہلے خیرات کا کام ’اچانک‘ اور ’ہنگامی‘ طور پر ہوتا تھا۔ مگر اب بیت المال کے ادارے کاقیام ہر ضرورت مند کو بروقت امداد ملنے کا ضامن بنا۔

اسی طرح کا معاملہ ایک مسقل سپاہ اور فوج کے قیام کا ہے۔ جس میں سپاہیوں اور کارکنوں کو دشمن سے ملنے والے مال غنیمت یا زمینوں پر قبضے کے بجائے باقاعدہ تنخوہ اور مشاہرہ ملنے شروع ہوئے۔اس سے پہلے، جنگ میں ملنے والی دشمن کی ہزاروں مربع کلومیٹر رقبے کی زمین بے کار پڑی رہتی تھی کہ اس کے نئے مالکان کو کاشت کاری سے کوئی واسطہ نہ تھا اور پرانے مالکان جو کسان تھے وہ اس سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ایسی مفتوحہ زمینوں کو ریاست کے نظم میں لے کر سخت مخالفت کے باوجود ان کے پرانے مالکان کے حوالے کر دیا اور محصولات (ٹیکس) کا ایسا نظام وضع کیا جیسا کہ اللہ کے رسولؐ نے فصلوں اور پیداوار پر عشر کے حوالے سے دیا تھا۔ اس اقدام سے ریاست کو بہت فائدہ ہوا، جو بصورت دیگروسیع زمین فتح کرنے کے باوجود وسائل کی کمی کا شکار رہتی۔

ایک اور مثال لیجیے، جس سے واضح ہو گا کہ تنظیموں اور خاطر خواہ انتظام کے بغیر خلوص نیت بارآور نہیں ہوتا۔ کوئی مسلمان اور اس کے والدین تزکیہ نفس اور تعمیر اخلاق کی ضرورت سے انکاری نہیں۔ مگر، اپنے ارد گرد دیکھیے۔ کیا مسلمان معاشرے میں کہیں بھی ان کا کوئی اثر نظر آتا ہے؟ آپ کے گھر میں؟ خود آپ پر؟ اگر کچھ اثر ہے تو وہ آپ کا کمال ہے یا استثنائی صورت؟ برسرِ زمین حقیقی صورت حال تو یہی ہے کہ ہمارے معاشرتی اور باہمی مسائل کی بڑی بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات کے ان دونوں عناصر کا فقدان ہے۔

’’جب سب مانتے ہیں کہ یہ ضروری ہے تویہ ہوتا کیوں نہیں؟‘‘

 اس لیے کہ اس کے نفاذ کے لیے ادارے یا تنظیم نہیں ہے۔ محض بیانات میں اس پر زور دینے سے اپنا اور معاشرے کا تزکیہ ممکن نہیں ہے۔

ایک اور مثال معروف مذہبی جماعت میں تقسیم در آنے کی ہے۔ جس میں اَنا اور ہٹ دھرمی نے دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ایک مفید نظریاتی تحریک کو تقسیم کر کے رکھ دیا۔ ایک صدی تک منبر سے اکرامِ مسلم کی باتوں کے بعد جب باہمی اکرام کاوقت آیا تو قیادت توازن پیدا کرنے کا سبق بھول کر نقصان کے راستے پر گامزن ہو گئی۔ تنازعے کے حل کے لیے نہ کوئی نظام ہے، نہ کوئی ایسا ادارہ جو بیچ بچائو اور مصالحت کرا دے۔ ایسا اس لیے نہیں ہو رہاکہ کوئی نظریہ موجود نہیں ، بلکہ یہ اس لیے ہو رہا ہے کہ تنظیم نہیں ہے، اور اس وجہ سے یہ اُفتاد پڑی ہے۔

’’کیا اداروں کے قیام سے اقامت دین کے کام میں حرج ہوتا ہے، یا فائدہ؟‘‘

نہ صرف یہ کہ اداروں کے قیام سے اقامت دین کے کام میں کوئی حرج نہیں ہوتا، بلکہ ان کے نہ ہونے سے اقامت دین کا کام ہو ہی نہیں سکتا۔

  • ’’مگر اداروں کی کامیابی کا دارومدار محض اخلاص پر نہیں بلکہ اخلاص کے ساتھ پیشہ ورانہ قابلیت اور ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ اداروں کی سمت کا تعین نظریہ سے ہوتا ہے، جس کے لیے دانشور درکار ہوتے ہیں۔ دونوں ضرورتوں کو بیک وقت کیسے پورا کیا جا سکتا ہے؟‘‘

یہ اس وقت ممکن ہے جب ایک شخص ’دوسرے‘ شخص کے تجربے کا احترام کرے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اختلاف اور مختلف رائے کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں پایا جاتا۔ ہم اختلاف رائے کو سرکشی اور بغاوت گردانتے اور اس سے اسی طرح نمٹتے ہیں۔ منصوبہ خواہ کچھ ہو، اس رویے سے تعاون کی بنیاد ہی ڈھے جاتی ہے جس کا مطلب ناکامی مقدر ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ کامیاب ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہمیں معلوم ہو کہ کامیاب کیسے ہوا جاسکتا ہے؟ اور تبدیلی کا آغاز’اپنے‘ سے ہی ہوتا ہے۔

’’تحریک کے قائم کردہ اداروں کا احتساب کیسے ہو گا؟ اس کی مثالی شکل کیا ہوگی؟‘‘

احتساب کے عمل کا آغاز باہمی تعاون سے ہدف کے تعین، کامیابی کے پیمانوں کے متعلق فیصلے اور کارکردگی کے جائزے سے ہوتا ہے۔ ’باہم‘ اس لیے کہتا ہوں کہ احتساب کی بنیاد مختلف افراد کی مختلف مہارتوں، علم اور ہنر پر ہو گی، نہ کہ آجر اور اجیر یا قائد اور ماتحت کی بنیاد پر۔ یہ ترقی اور بڑھوتری کا اندازہ لگانے کی اجتماعی کوشش ہو گی اور یہ عمل اعتراض سے پاک ہونا چاہیے اور اس کا ہدف واضح ہونا چاہیے: مقصد کے حصول میں کامیابی کے لیے احتساب سے پہلے باہم احترام کی فضا قائم کرنا ہو گی۔

’’تحریک کے زیر اثر چلنے والے اکثر ادارے عمدہ کارکردگی دکھانے میں اکثر ناکام کیوں ہوجاتے ہیں؟ اور اس کمی سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے؟‘‘

جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے، یہ ادارےکامیابی کے لیے مناسب ذرائع و اوزار استعمال نہ کرنے کی وجہ سے ناکام ہوتے ہیں۔ جذبہ، لگن اور خلوص کی اہمیت اپنی جگہ، مگر مہارت اور ہنرمندی کی ضرورت بھی اپنی جگہ۔ اللہ کے رسولؐ نے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ یا حضرت علیؓ کو سپاہ کی قیادت کے لیے مقرر نہیں فرمایا، گو کہ یہ سب حضرات علوم اسلامی میں گہری نگاہ رکھنے والے، مخلص اور ایثار کیش، اور مختلف مہارتوں کے حامل تھے۔ اللہ کے رسول نے اس کام کے لیے حضرت خالدبن ولیدؓ کو نامزد فرمایا، جوعلم ومرتبہ میں تو ان اصحاب جیسے نہ تھے مگر سپہ گیری میں مشاق اور غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل جنگی قائد تھے۔ اللہ کے رسولؐ نے اہلیت کی بنیاد پر فیصلہ فرمایا، نہ کہ دوستی، رشتہ داری یا پسند و ناپسند کی بنیاد پر۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ مقصد ہمیشہ نگاہ میں رہے اور ذاتی انا، یا پسند و ناپسند کو بیچ میں آ کرکامیابی کا راستہ کھوٹہ نہ کرنے دیا جائے۔ ہمیں اپنے فیصلوں پر کڑی نظر رکھنا ہو گی، خاص طور پر جب معاملہ کسی ایسے شخص کا ہو جو کام کے لیے تو موزوں ہو مگر جس کی رائے سے ہم کو اختلاف ہویا جسے ہم زیادہ پسند نہ کرتے ہوں۔

’’کیا اداروں کی اہمیت ابہام کا شکار ہے؟ اور اعتدال کا راستہ کیا ہے؟‘‘

ابہام تو مشاہدے میں آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو حضرات مختلف نظریاتی تحریکوں کے اہم مناصب پر فائز ہیں۔ انھیں اختیارات اور ذمہ دایوں کی تقسیم، پیشہ ورانہ تعاون، اور مل جل کر مختلف اُمور کی انجام دہی جیسے عوامل کا شعور نہیں ہے۔زیادہ تر ’یونی ورسٹی یا مدرسہ‘ کی تعلیم کے ساتھ ’حاکمانہ‘ انداز رکھتے ہیں، اندھی پیروی اور بے چون و چرا ہر بات تسلیم کرنے کو خوبی گردانتے، جب کہ سوال اٹھانے کو گستاخی یا بغاوت سمجھتے ہیں۔ اس طرزِ عمل کو بدلنا ایک مشکل کام ہے۔ مگر جب تک ایک دوسرے کا احترام کرنا نہیں سیکھیں گے، اکٹھے ہو کر کوئی فائدہ مند کام انجام نہ دے سکیں گے۔ اکثرنظریاتی رہنماؤں کا حال یہ ہے کہ وہ خودپسند ہوتے ہیں، اور اختلاف کی جرأت کرنے والوں کی اپنے سامنے یا پشت پیچھے تحقیر کرتے ہیں۔ اس رویے کی درستی کے بغیر بہتری ممکن نہیں۔

زندگی میں صرف غالب آنے والوں کو ہی انعام دیا جاتا ہے، محنت کا بدلہ دینے والا صرف اللہ ہے، لیکن اس دنیا میں نہیں، اس دنیا میں آپ کو صرف نتائج کی شکل میں بدلہ ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں کوشش کے بارے میں فرمایا:

وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى۝۳۹ۙ (النجم۵۳:۳۹) اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے(اچھا یا بُرا)۔

غالب آنے والوں کی درجہ بندی اس چیلنج کی شدت سے کی جاتی ہے، جس پر انھوں نے قابو پایا، جتنا بڑا چیلنج اتنا ہی بڑا اعزاز۔ ماؤنٹ ایورسٹ ۸ کلومیٹر بلند ہے، اگر میں ۱۰ کلومیٹر پیدل چلوں اور یہ دعویٰ کروں کہ مجھے ایوارڈ دیا جائے کیونکہ میں سر ایڈمنڈ ہلیری اور ٹینزنگ نورگے سے زیادہ پیدل چلا تو لوگ مجھ پر ہنسیں گے۔ اگر میں بحث کرنے کی کوشش کروں اور کہوں کہ وہ اور میں، دونوں زمین ہی پر تو چلے،تو لوگ اور بھی زور سے ہنسیں گے، کیونکہ یہ زمین پر فاصلہ طے کرنا نہیں بلکہ زمین کا زاویہ ہے جو ان کے کارنامے کو یادگار اور متاثر کن بناتا ہے۔ اگر وہ چڑھنے کی کوشش کرتے لیکن چوٹی تک پہنچنے میں ناکام رہتے تو کسی کو یاد نہ ہوتا۔ اگر وہ ہیلی کاپٹر سے چوٹی پر اُتارے جاتے، تو یہ 'پہاڑ کی پیمایش کے طور پر شمار نہیں ہوتا۔ کام کی مشکل ہی اسے باعزّت اور قابلِ قدر بناتی ہے۔

 لہٰذا اپنے آپ سے پوچھنے اور جواب سننے کے لیے، آپ کو اس بیرونی شور کو بند کرنا ہوگا، جو ہم نے اپنی مرضی سے اپنے آپ پر مسلّط کیا ہے۔ آپ اپنے دل کی بات سن سکتے ہیں، یا فون کو سن سکتے ہیں، آپ دونوں ایک ساتھ نہیں سن سکتے۔ براہِ مہربانی غور کریں آپ اپنے آپ سے کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا آپ کہہ رہے ہیں، 'میں کامیاب ہو سکتا ہوں؟ یا 'کوشش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ میں ضرور ناکام ہو جاؤں گا۔ دونوں جملےحقیقت نہیں ہیں، لیکن آپ کے لیے، دونوں درست ہو سکتے ہیں۔ یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ کس کو اکثر استعمال کرتے ہیں۔ میرے دوست ڈاکٹر فریڈولن سٹاری مجھے بتاتے ہیں کہ جرمن زبان میں ایک کہاوت ہے: ’’اُمید آخر میں مرتی ہے‘‘۔ ہمیں امید کو کبھی مرنے نہیں دینا چاہیے، اور اُمید کو حقیقت بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ لہٰذا، پوچھیں کہ آپ اپنے آپ سے کیا کہہ رہے ہیں؟ یہ وہیں سے شروع ہوتا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اور توکّل کے تعلق کے بارے میں فرمایا:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْہِمْ اٰيٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰي رَبِّہِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ۝۲ۚۖ (الانفال۸:۲) مومن تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل لرز جاتے ہیں اور جب انھیں اللہ کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے، اور وہ اپنے رب پرمکمل بھروسا کرتے ہیں۔

 آپ براہِ مہربانی اپنے آپ سے پوچھیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پر کھڑے ہو کر اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی تو آپؐ کے دل پر کیا گزری ہو گی؟ جس چیز نے ان کو برقرار رکھا اور سہارا دیا وہ اللہ سے آپؐ کا تعلق تھا اور اللہ آپ کے لیے حقیقت تھا۔ ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تہجد کے لیے بیدار ہوتے تو فرماتے:

اَللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ، لَكَ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ، وَوَعْدُكَ الْحَقُّ، وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ، وَقَوْلُكَ حَقٌّ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ، وَمُحَمَّدٌ صَلَّى الله عَلَيهِ وَسَلَّم حَقٌّ، وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَاِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَاِلَيْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لَا  اِلٰهَ اِلَّا أَنْتَ ـ أَوْ لاَ اِلٰهَ غَيْرُكَ ،    اے میرے اللہ ! ہر طرح کی تعریف تیرے ہی لیے زیبا ہے ، تو آسمان اور زمین اور ان میں رہنے والی تمام مخلوق کا سنبھالنے والا ہے اور حمد تمام کی تمام بس تیرے ہی لیے مناسب ہے۔ آسمان اور زمین اور ان کی تمام مخلوقات پر حکومت صرف تیرے ہی لیے ہے اور تعریف تیرے ہی لیے ہے ، تو آسمان اور زمین کا نور ہے اور تعریف تیرے ہی لیے زیبا ہے ، تو سچا ہے ، تیرا وعدہ سچا ، تیری ملاقات سچی ، تیرا فرمان سچا ہے ، جنت سچ ہے ، دوزخ سچ ہے ، انبیا ؑ سچے ہیں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں اور قیامت کا ہونا سچ ہے۔ اے میرے اللہ ! میں تیرا ہی فرماں بردار ہوں اور تجھی پر ایمان رکھتا ہوں ، تجھی پر بھروسا ہے ، تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں ، تیرے ہی عطا کیے ہوئے دلائل کے ذریعے بحث کرتا ہوں اور تجھی کو حکم بناتا ہوں ، پس جو خطائیں مجھ سے پہلے ہوئیں اور جو بعد میں ہوں گی ان سب کی مغفرت فرما ، خواہ وہ ظاہر میں ہوئی ہوں یا پوشیدہ ، آگے کرنے والا اور پیچھے رکھنے والا تو ہی ہے ، معبود صرف تو ہی ہے ۔

 ہمارا سب سے بڑا پریشان کن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ ایک تصور اور ایک خیال ہیں۔ کیا اللہ تعالیٰ ہمارے لیے حقیقت ہیں ؟ اس بات کی نشانی کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے حقیقت ہیں ، ہمارے اعمال میں مضمر ہے۔ جن کے لیے اللہ تعالیٰ حقیقت ہیں وہ کبھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے، وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اور وہ کبھی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ یہی تقویٰ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے ناراض ہونے کا خوف ہے، چونکہ ہم اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔

سب سے مشکل کام لوگوں کے ذہنوں، عقائد اور رویوں کو بدلنا ہے، لیکن یہ وہ کام تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کام سونپتے وقت، مقصد کو پورا کرنے کے لیےکوئی مادی مدد نہیں دی گئی۔

یہی وجہ ہے کہ فرانسیسی مؤرخ الفونس ڈی لامارٹین جیسے شخص نے بھی جو اسلام پر بہت تنقید کرتا تھا، اپنی کتاب تاریخ   ترکی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا ہے کہ ’’اگر مقصد کی عظمت، اسباب کی کمی اور حیران کن نتائج تین معیار ہیں ایک انسانی ذہانت کا، تو کون تاریخ کے کسی عظیم انسان کا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے موازنہ کرنے کی جرأت کر سکتا ہے؟‘‘

یہیں سے عقیدہ کے یقین کا مسئلہ آتا ہے۔ رسول اکرمؐ کی دعوت میں سب سے پہلی اور سب سے زیادہ امتیازی خوبی، ان کا اپنے پیغام کی سچائی اور اہمیت پر مکمل ایمان، اعتماد اور یقین تھا۔ اس کے بغیر وہ کبھی اپنی کوشش کو جاری نہیں رکھ سکتے تھے اور کامیابی کا بظاہر کوئی نشان نہ ہونے کے باوجود مسلسل اپنی پوری کوشش کرتے رہے۔ یہی مقصد کی طاقت ہے۔ جب آپ اپنے مقصد کو جانتے ہیں، تو یہ آپ کو مضبوط کرتا ہے ، یہ آپ کو توجہ مرکوز رکھنے اور اپنے خوف سے لڑنے میں مدد کرتا ہے۔

 مشہور مصنف مارک ٹوین نے کہا تھا کہ ’’ہر آدمی کی دو سالگرہ ہوتی ہیں، جس دن وہ پیدا ہوا تھا اور جس دن اسے پتہ چلا کہ کیوں؟‘‘۔ میں جانتا ہوں کہ میں کس دن پیدا ہوا تھا، لیکن کیا یہ بھی جانتا ہوں کہ کیوں پیدا ہوا؟ اللہ تعالیٰ نے مجھے کس لیے پیدا کیا؟ مجھے اپنی زندگی میں کیا کرنا ہے، جس کی بنیاد پر میرا فیصلہ کیا جائے گا؟ اب ذرا خاموشی سے بیٹھیں اور اپنے آپ سے تین سوال پوچھیں:

۱-میں کیوں زندہ ہوں؟

۲-کیا کھوجائے گا اور کس کے لیے، جب میں اس زندگی سے رخصت ہو جاؤں گا؟

۳- میں اپنے وجود کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے کیا کر رہا ہوں؟

یاد رکھیں کہ اس میں کافی وقت لگ سکتا ہے، لیکن یہ سب سے اہم چیز ہے جو آپ کر سکتے ہیں اور جو آپ کو سب سے بہترین نتائج دے گی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی عمر کتنی ہے؟ فرق پڑتا ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زندگی قابل قدر ہو یا نہیں، یہی آپ کی حقیقی سالگرہ ہوگی۔ وہ دن نہیں جس دن آپ پیدا ہوئے تھے، بلکہ جس دن آپ کو معلوم ہوا کیوں پیدا ہوئے؟ جو زندگی، ایک عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے گزاری گئی، انسان کی زندگی ہے، جو زندگی ہرخواہش اور شوق کو پورا کرنے کے لیے گزاری گئی، وہ تو محض ایک جانور کی سی زندگی ہے۔ ہمیں اپنے لیے انتخاب کرنا ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے زندگی کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۝۵۶  مَآ اُرِيْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ۝۵۷  اِنَّ اللہَ ہُوَالرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِيْنُ۝۵۸ (الذاریات۵۱:۵۶-۵۸)

میں نے جِنّ اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ میں اُن سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ اللہ تو خود ہی رزّاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی رضا کے لیے پیدا کیا ہے۔ اُس نے باقی مخلوقات کو لوگوں کی خدمت کے لیے بنایا جو اُسے خوش کرتے ہیں۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے میں مشغول ہوتے ہیں تو سب کچھ اپنی جگہ پر آ جاتا ہے۔ ہم مطمئن اور معزز رہتے ہیں، اثر و رسوخ کے مالک بنائے جاتے ہیں، دوسروں کے ساتھ ہم آہنگی سے رہتے ہیں، اور خوش رہتے ہیں۔ جب ہم ان سب کو اپنے طور پر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس بات کی پروا کیے بغیر، کہ ہمارے اعمال اللہ تعالیٰ کو راضی کرتے ہیں یا نہیں، تو ہم تناؤ، پریشانی، خوف، ذلت اور افسردگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے پہلے ہی لکھ دیا ہے اس کا پیچھا کرنا اور اللہ تعالیٰ نے جس چیز پر ہمیں قابو میں دیاہے اسے نظر انداز کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ اختیار دیا ہے کہ ہم آخرت میں اپنے لیے جو چاہیں لکھیں۔ اگر ہم اس کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں تو ہم اس زندگی میں مطمئن ہوں گے اور آخرت میں جنت حاصل کریں گے، اگر نہیں، تو اس کے برعکس ہونے کا امکان ہے۔

امام حسن بصریؒ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے کس طرح قناعت کی زندگی گزاری اور کسی چیز کے بارے میں آپ کو تناؤ سے دوچار نہیں ہونا پڑا؟ انھوں نے کہا کہ ’’میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور عبادت کوئی اور میرے لیے نہیں کر سکتا، اس لیے میں اللہ تعالیٰ کی عبادت پر توجہ دیتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے جو کچھ لکھا ہے وہ کوئی اور نہیں لے سکتا، اس لیے میں اس کی فکر نہیں کرتا۔ میں جانتا ہوں کہ ایک دن میں مر جاؤں گا، اس لیے میں اس دن کی تیاری کرتا ہوں، اور میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے، اس لیے مجھے ہر وہ کام کرتے ہوئے شرم آتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے‘‘۔ میں اپنے آپ کو اور آپ کو اس پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔

اسلام ہمیں دنیا میں کسی کام سے نہیں روکتا بشرطیکہ وہ حلال ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں رہنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے امکانات پیدا کیے ہیں، اور ساتھ ہی اس کے لیے سرحدیں بھی متعین کردی ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ممانعتیں ہیں۔ جب تک ہمارے اعمال ان حدود میں ہیں اور ہم ان چیزوں سے دور رہیں گے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے، تو اللہ کی اطاعت میں اس صبر کا نتیجہ ہم جنت میں حاصل کریں گے۔ چونکہ انتخاب ہمارا ہے، لہٰذا دانش مندی سے انتخاب کریں۔

تحریری پیڈ اور پنسل ہاتھ میں رکھیں، اپنے مقصد کے بارے میں اپنے خیالات لکھیں۔ میں پنسل کہتا ہوں کیونکہ آپ کچھ چیزوں کو مٹا کر ان پر لکھنا چاہیں گے، وہ ضرور کریں، ہچکچاہٹ نہ کریں، آخر میں ۸/۱۰  الفاظ میں اپنےمقصد کو بیان کریں۔ اپنے مشینی یا الیکٹرانک آلات پر ایسا کرنے کی کوشش نہ کریں، کاغذ اور پنسل کا استعمال کریں۔ لکھنا دماغ کی طاقت کو جس طرح دعوت دیتا ہے، وہ فون یا ٹیبلٹ کے ساتھ نہیں ہوتا ہے۔ لکھیں کہ یہ لکھنا ہمیں جانوروں سے ممتاز کرتا ہے۔

 پھر اپنے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے آپ سے پوچھیں:’’آگے بڑھنے کے لیے مجھے کون سی تین چیزیں کرنی ہیں؟‘‘ یاد رکھیں، ہم ' آخری نتیجہ کی بات نہیں کر رہے ہیں ، ہم اس عمل کی بات کر رہے ہیں جو ہمیں آگے لے جائے گا۔ اگر آپ کسی منزل کی طرف گاڑی چلا رہے ہیں، اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ آیا آپ صحیح سمت میں جا رہے ہیں؟ آپ اپنی منزل کے راستے میں پہلے شہر کے نشانات تلاش کرتے ہیں، پھر اگلا یہاں تک کہ آپ کو اپنی منزل کے آثار نظر آنے لگیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں صراط مانگنا سکھایا، الصراط المستقیم، سیدھا راستہ، ثابت قدمی کا راستہ، انبیا علیہم السلام کا اور ان لوگوں کا جن پر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا۔ اسلام میں راستہ اور منزل دونوں یکساں اہمیت کے حامل ہیں، طریقے اور ذرائع۔ لہٰذا مقصد کو اپنے سامنے رکھیں اور پوچھیں: ’’اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مجھے سب سے پہلے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟‘‘ یہ آپ کے جاگنے کے وقت کو تبدیل کرنا ہو سکتا ہے، یا آپ کا روزانہ کا شیڈول، یا اپنے دوستوں کی فہرست۔ عام طور پر، یہ تینوں تبدیل کرنا پڑتا ہے۔

 یہ تبدیلی تکلیف دہ ہو سکتی ہے۔ اس لیے آپ کو مقصد کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ آپ کو یاد دلائے گا کہ کام کی مشکل ہی اسے باعزت اور قابل قدر بناتی ہے۔

اپنے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے آپ سے پوچھیں:’’ آگے بڑھنے کے لیے مجھے تین چیزیں کیا کرنی ہیں؟‘‘ اپنی فہرست میں پہلی چیز پر توجہ دیں، جب آپ اسے ختم کر لیں تو اگلے پر جائیں۔ اگر آپ کو خلل پڑتا ہے، تو واپس جائیں، اور پہلا کام مکمل کریں۔ اپنی ترجیحی فہرست میں کسی کام کو کبھی نہ چھوڑیں، چاہے وجہ کچھ بھی ہو۔ ان وجوہ کو ختم کر دیں جو آپ کو اپنی ترجیحات سے دُور لے جاتی ہیں۔ ارتکاز یا فوکس غیر ضروری چیزیں نظر انداز کرنے کا فن ہے، جب کہ ملٹی ٹاسکنگ اور بہت سے جھنجٹ پالنا خلفشار کا دوسرا نام ہے۔ جب آپ ایک چیز پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، تو آپ کو جان بوجھ کر باقی تمام چیزوں کو نظر انداز کرنا چاہیے۔ زندگی کی ہر چیز میں کامیابی کا راز یہی ہے۔ جیتنے والے ایک کام پر توجہ مرکوز کرتے ہیں جب تک کہ یہ مکمل نہ ہوجائے۔ جیتنے والوں اور ہارنے والوں کے درمیان فرق ارتکاز ہے۔

انٹرنیٹ کی بدولت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ معلومات تک رسائی کے ذرائع ہی کئی گنا بڑھے ہیں اور بدل گئے ہیں، مگر سیکھنے کا قانون ہرگز تبدیل نہیں ہوا۔ کشش ثقل کے قانون کی طرح، یہ ایک بنیادی قانون ہے، یہ کبھی نہیں بدلتا۔ سیکھنے کا قانون یہ ہے کہ سیکھنا اخلاص، ارتکاز اور استقامت کا عنصر ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ معلومات تک رسائی کے لیے کون سے ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ یہ گہرے غور و فکر، سوچ سمجھ کر مشق کرنے اور اسباق کو تصور کرنے کے بعد ہی علم میں ڈھلتا ہے۔ ہم معلومات کو علم کے ساتھ الجھاتے ہیں اور حکمت کے بارے میں سوچتے بھی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار وہی غلطیاں کرتے ہیں اور بلاوجہ نقصان اٹھاتے ہیں۔ الیکٹرانک گیجٹس کو بھول جائیں اور ارتکاز پیدا کریں۔

 اللہ تعالیٰ نے نماز میں ارتکاز کا ذکر فرمایا:

الَّذِيْنَ ہُمْ فِيْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ۝۲ۙ (المؤمنون۲۳:۲) جو اپنی نمازیں پورے خلوص اور پوری تواضع کے ساتھ پڑھتے ہیں۔

نماز میں ’خشوع‘ ارتکاز کا عنصر ہے۔ اندرونی اور بیرونی تمام خلفشار کو نظر انداز کرنے اور صرف اللہ پر توجہ مرکوز کرنے کا نام ’خشوع‘ ہے۔ آج ہم ایسے دور میں رہتے ہیں، جہاں ارتکاز کی کمی کو ایک خوبی بنا دیا گیا ہے۔ اساتذہ، سرپرستوں، یہاں تک کہ والدین کو بتایا جاتا ہے کہ بچے کسی بھی بات یا کام پر ۳۰سیکنڈ سے زیادہ توجہ مرکوز نہیں کر سکتے ۔ آپ کو پوچھنا چاہیے کہ یہ کس کے بچے ہیں؟ انسانی بچے یا بندر کے بچے؟ حقیقت یہ ہے کہ ارتکاز، پٹھوں کی طرح، محنت سے بنتا ہے۔ اگر آپ نے اپنے بچوں کو ۳۰سیکنڈ سے زیادہ ارتکاز اور تحمل نہیں سکھایا تو آپ کو یہی نتیجہ ملے گا۔ ایک لمحے کے لیے رُکیں اور پوچھیں کہ وہی بچے جن کے بارے میں آپ دعویٰ کرتے ہیں، کہ ۳۰سیکنڈ سے زیادہ کوئی فائدہ مند بات نہیں سن سکتے، وہ ٹی وی اسکرین پر فیفا کے میچ  یا ون ڈے کرکٹ کو دن یا رات کے کسی بھی وقت گھنٹوں چپکے بیٹھ کر کیسے دیکھتے ہیں؟

گویا کہ یہ توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت کا یا رضامندی کا سوال ہے۔ رضامندی، وجہ پر منحصر ہے۔ اگر ہم اس میں قدر دیکھتے ہیں تو ہم توجہ مرکوز کر سکتے ہیں۔ ہم کس چیز کی قدر دیکھتے ہیں، جس کے لیے ہم اپنے پاس موجود واحد غیر قابل تجدید وسیلہ خرچ کرنے کے لیے ہروقت تیار ہیں۔ یہ غیرقابل تجدید وسیلہ یعنی ہمارا وقت ہے، جو زندگی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ کیونکہ وقت کے ختم ہونے کا نام ’موت‘ ہے ۔ اپنے آپ سے پوچھیں کہ آپ واقعی یہاں کیا دیکھ رہے ہیں؟ آپ اُن غلاموں کی مجبور زندگی کو دیکھ رہے ہیں جو بدمعاش قائدین کے ہاتھ کے کھلونے ہوتے ہیں، جیسا چاہا استعمال کر لیا۔ غلامی ایک ذہنیت ہے۔ کیا آپ اپنے اور اپنے بچوں کے لیے یہ چاہتے ہیں؟ اگر نہیں، تو اس کے بارے میں کچھ کیجیے۔ یاد رکھیں کہ غلامی کی زنجیریں ذہن میں ہیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ آپ فیصلہ کریں کہ آپ کے لیے کیا اچھا ہے اور جو اچھا ہے اسے کرنا سیکھیں۔ ہرنئی چیز، بغیرکسی استثناء کے، سب سے پہلے تکلیف دہ ہوتی ہے۔ ہرمعاملے کے بعد،ہر وہ چیز جس کے لیے آپ نے وقت گزارا، ہمیشہ اپنے آپ سے پوچھیں: ’’مجھے اس سے کیا حاصل ہوا؟ اور میں نے کیا سیکھا؟‘‘ یہ سوال سوچنا آپ کی زندگی کا قرینہ بدل دے گا، مکمل طور پر۔

دوسرا سب سے اہم کام مسئلہ حل کرنے والی ذہنیت کو تیار کرنا ہے۔ جب کسی چیلنج کا سامنا ہو تو دیکھیں کہ آپ کے اختیار میں کیا ہے، اور اسے کریں۔ جس چیز پر آپ قابو نہیں پا سکتے، اس میں نہ پھنسیں۔ لوگ کبھی کبھی اپنے اردگرد موجود مصیبتوں کو دیکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں، 'خدا تمام بیماروں اور بھوک سے مرنے والے لوگوں کے بارے میں کچھ کیوں نہیں کرتا؟ جواب ہے، 'خدا نے پہلے ہی انسان کو بہت کچھ عطا کر دیا ہے۔ اس نے آپ کو پیدا کیا ہے۔ آپ کو کم از کم ایک بھوکے کو کھانا کھلانے، ایک بچے کی تعلیم کا خرچہ برداشت کرنے، ایک بیمار کے ہسپتال کا بل ادا کرنے کے ذرائع عطا فرمائے۔ اگر آپ سو آدمیوں کو نہیں کھلا سکتے تو ایک کو ضرور کھلائیں۔ اگر آپ اسکول نہیں بناسکتے تو ایک بچے کے اسکول کی فیس ادا کریں۔ ہم ہرمسئلے کو عالم گیر بنادیتے ہیں اور پھر یہ کہہ کر اپنی بے عملی کا جواز پیش کرتے ہیں:’’آخر میں صرف ایک شخص ہوں، میں کچھ نہیں کر سکتا‘‘۔ اس کے برعکس ، سمجھ دار لوگ عالمی مسئلے کو مقامی بناتے ہیں اور پوچھتے ہیں:’’میں کیا کر سکتا ہوں؟‘‘ وہ لوگ جو مدد کرنا چاہتے ہیں، دوسروں پر الزام نہ دھریں بلکہ خود سے پوچھیں، 'میں کیا کر سکتا ہوں؟ اسلام ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ ہم عمل کریں، محض شکایات کا دفتر نہ کھولیں۔ مسائل کو شکایات نہیں، حل کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں ایک ایسا وقت آتا ہے جب ایک کھڑکی کھلتی ہے، اور ان کے پاس اثر انداز ہونے کا منفرد موقع ہوتا ہے۔ کامیابی کے لیے ہمیں تیاری، اور ہمت کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔

ہماری ترقی اور خوشی کے لحاظ سے ہمارا انتخاب بڑے مختلف نتائج مرتب کرتا ہے ۔ لیکن ہرانتخاب کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ بے وقوف لوگ پہلے قیمت معلوم کیے بغیر انتخاب کرتے ہیں اور پھر جب انتخاب کی قیمت کی ادائیگی کا وقت آتا ہے تو حیران اور مایوس ہوتے ہیں۔

زندگانی کے اس میدان میں’شکار‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو مشکلات اور مصائب کے بارے میں محض شکایت کرتے رہتے ہیں، بہانے سوچتے ہیں، دوسروں پر الزام لگاتے ہیں، اُمید کھو دیتے ہیں، اور فنا ہو جاتے ہیں۔ ایسا ’شکار‘ افراد، گروہ، یا قومیں ہو سکتی ہیں۔ ’شکار‘ ذہنیت کا موقف ایک جیسا ہی ہوتا ہے : شکایت اور الزام۔ جب ’شکار‘ ذہنیت رکھنے والے لوگ اپنے آپ کو مشکلات میں پاتے ہیں، تو وہ کسی اور کو قصوروار ٹھیرانے کے لیے قربانی کے بکرے ڈھونڈتے ہیں ۔ وہ سازشی نظریات ایجاد کرتے ہیں اور ایسی 'محصور ذہنیت کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں۔ وہ ہر کسی کو یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے مسائل کی واحد وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ہر کوئی انھیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ وہ یہ سوچنے سے باز نہیں آتے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس پر الزام لگاتے ہیں۔ لیکن اگر وہ اپنی کوتاہی اور بے علمی کو خود پر لاگو کرتے تو فوراً جاگ جاتے!

دوسری طرف سمجھ دار وہ لوگ ہیں، جو مشکل اور مصیبت کا سامنا ہونے پر پہلے اپنے آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ اس صورت حال میں کیسے اور کیوں آئے؟ پھر وہ اس صورتِ حال کے لیے حل تلاش کرتے ہیں۔ ان میں نئے طریقے آزمانے کی ہمت ہوتی ہے۔یہ کامیابی کا راستہ ہے کیونکہ اگر ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہم نے صورتِ حال پیدا کی ہے، تو ہم اس کا حل بھی نکال سکتے ہیں۔