مضامین کی فہرست


جولائی ۲۰۲۴

کسی ملک کی معیشت کی سمت کا اندازہ کرنے کے لیے عموماً جو پیمانہ اختیار کیا جاتا ہے، اس میں تین چیزیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں: ایک عام شہری کو روزگار، تعلیم اور صحت کے لحاظ سے کیا سہولیات حاصل ہیں؟ اور ایک عام شہری اپنے روزانہ کے اخراجات کے لیے کم از کم کتنی آمدنی پیدا کر پا رہا ہے؟ آمدنی کا کم از کم پیمانہ عموماً تین اعشاریہ چھ پانچ ڈالر یا ایک ہزار پندرہ روپے سمجھا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان میں ایک محنت کش اس معیار سے بھی کم، یعنی  مشکل سے دوڈالر روزانہ میں گزارا کر رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ افراد جو اپنے آپ کو عوام کا نمائندہ کہتے ہیں، عیش و عشرت کی حدود کو بھی پار کر چکے ہیں۔ لیکن ان کی مزید دولت کے حصول کی ہوس میں ذرہ برابر کمی واقع نہیں ہوئی ہے بلکہ اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ملک میں روزانہ بڑھتی ہوئی قیمتیں ، بے روزگاری ، عدم تحفظ، گلی کوچہ و بازار میں جرائم کی وارداتوں میں اضافہ جیسے معاشرتی مسائل نہ ان کو نظر آتے ہیں اور نہ انھیں اس کی کوئی پریشانی ہوتی ہے۔

ذاتی مفادات

 ملک کے معاشی عدم استحکام کا ایک بڑا بنیادی سبب سیاسی اور فیصلہ کن اداروں پر قابض افراد کا مالی وسائل کو قوم کی ترقی کی جگہ اپنی ذات کے لیے مصرف میں لانا ہے۔ اس سیاسی و معاشی دہشت گردی، بددیانتی، استحصال اور ظلم نے عالمی اداروں کے اندازوں کے مطابق پاکستان کو ترقی پذیر ممالک کی فہرست سے نکال کر غریب ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا ہے،بلکہ کئی غریب افریقی ممالک کی معیشت پاکستان کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔

اس معاشی لُوٹ مار میں نوکر شاہی کے ساتھ دیگر ادارے بھی یکساں شریک نظر آتے ہیں۔ ۲۴؍ اپریل ۲۰۲۴ءکے اخبار ایکسپریس ٹریبون کی اشاعت میں سائرہ سموں کے مضمون ’اندرونی دشمن‘کے مطابق ملکی معیشت کی بدحالی کا بڑا سبب اندرونی دشمن یعنی وہ ادارے ہیں جن کا کام معیشت ،صحت، دفاع، تعلیم اور عدل و انصاف کو شفا ف طور پر قائم کرنا تھا، لیکن وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر اقتدار کی باہمی رسّہ کشی کا شکار ہیں۔

خسارے میں کثرت

حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کی تاریخ رکھنے والی دو بڑی سیاسی جماعتیں اپنی اپنی باری کے دوران ملکی معیشت کو خسارے سے نکالنے کے بجائے خسارے میں مزید اضافے کا کارنامہ انجام دیتی رہی ہیں۔ پاکستانی وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں سالِ رواں کے مالی سال کے پہلے نو ماہ میں مالی خسارہ ۴ ہزار ۳۳۷؍ ارب روپے سے آگے نکل چکا ہے،جب کہ متوقع حکومتی آمدنی ۵ہزار ۳۱۳ ؍ ارب روپے بتائی جاتی ہے۔ملک پر واجب الادا سود کی مد میں اس وقت تک قرض حاصل کی ہوئی رقم پر ۵ہزار ۵۱۷ ارب روپے لگے ہیں، جب کہ اصل قرض جوں کا توں برقرار ہے۔ ناکارہ حکومت کو چلانے کے لیے گذشتہ نو ماہ میں ۵۱۶ ارب روپے خرچ کیے گئے، وہیں حکومت کی جانب سے رعایت (سبسڈیز)دینے پر ۴۷۳؍ ارب روپے صرف ہوئے ہیں۔

یہ اعداد و شمار کسی بھی ہوش مند شخص کے حواس گم کرنے کے لیے کافی ہیں، لیکن حکومت اور پارلیمان سے وابستہ افراد کی شاہ خرچیاں، دورے اور پُرتعیش گاڑیوں کی خریداری میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔حکومت کی آمدن اور اخراجات میں عدم توازن کسی سرکاری عہدے دار کو پریشان نہیں کر رہا۔ یہی شکل درآمدات اور برآمدات میں فرق کی ہے۔ اشیاء کی درآمد سے ملک کو ہر سال کم از کم ۱۲ سے ۱۴؍ ارب ڈالر کا خسارہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے غیر ذمہ داری کی انتہا یہ ہے کہ حال ہی میں ملک میں گندم کی اعلیٰ پیداوار کے باوجود ہم نے بیرون ملک سے گندم درآمد کی کہ چند افراد کمیشن بناسکیں۔

غربت اور افراطِ زر

اس وقت ملک میں افراط زر کی شرح۲۵ فی صد ہے اور ایک عام شہری کے لیے ایک اوسط درجہ کے گھر میں بجلی، گیس اور پٹرول کے خرچے کے لیے وسائل سخت تنگ ہو چکے ہیں اور ریاستی بینک (اسٹیٹ بینک) میں بیرونی زر مبادلہ میں صرف آٹھ بلین ڈالر ہیں جو مشکل سے دو ماہ کے درآمدی اخراجات کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

ایک اندازہ کے مطابق نو کروڑ افراد غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں ہر تھوڑے عرصہ بعد اضافہ ایک معمول بن چکا ہے ،جس کا فوری اثر ایک عام آدمی کی زندگی پر پڑتا ہے اور ضروری استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی شہراور شہر سے باہر سفر کے اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر گذشتہ تین برسوں کے دوران اشیائے ضرورت کی قیمتوں کا مقابلہ کیا جائے تو بجلی کا ایک یونٹ جو ۳۲ روپے کا تھا ،آج ۶۰ روپے کا ہے ۔ڈالر جو ۱۸۹روپے کا تھا،آج ۲۷۹روپے کا ہے۔ پٹرول جو ۱۵۰ روپے لیٹر تھا، آج ۳۰۰ روپے کی حد کو چھو رہا ہے ۔

قرض کا بوجھ

آئی ایم ایف کے ساتھ جب بھی مذاکرات ہوتے ہیں ان کی تان ٹیکس میں اضافہ پر ہی آکر ٹوٹتی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر ہر دور میں حکومت نے سر جھکا کر انھیں قبول کیا اور قرض کے ساتھ ٹیکس میں اضافے کا براہِ راست اثر عام شہری پر ہی پڑا لیکن ملک میں بڑے تجارتی مراکز روزانہ کروڑوں روپے کا کاروبار کر رہے ہیں اور وہ ٹیکس کی گرفت سے آزاد ہیں اورملکی معیشت کی موٹی مچھلیاں ہمیشہ کی طرح محفوظ ہیں ۔ آئی ایم ایف کی تاریخ بتلاتی ہے کہ دنیا کے کسی ملک نے آئی ایم ایف کے قرضوں کے ذریعے اپنی معیشت کوآج تک مستحکم نہیں کیا اورخود انحصاری اختیارکرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ اگر کوئی ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہوا تو صرف اور صرف قرض کے جال سے نکل کر اپنے اندرونی وسائل کے سہارے پیٹ کاٹ کر اخراجات میں کمی ، اپنی درآمدات میں کمی اور بیرونی سرمایہ کاروں کو کاروبار میں زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کر کے ہی کامیاب ہو سکاہے۔

جب تک حکومت ِپاکستان اپنے شاہانہ اخراجات کو کم نہیں کرے گی اور سرکاری افسران، ممبران پارلیمنٹ اور دیگر اداروں کے ممبران رضاکارانہ طور پر اپنی تنخواہوں کو کم اور مراعات کو ختم نہیں کریں گے ،کوئی بیرونی قرض ملکی معیشت کو سہارا نہیں دے سکتا۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی زبوں حالی کا انتہائی فطری تعلق ہے۔ ۷۶ برس سے جو سیاسی جماعتیں باری باری ملکی وسائل کا استحصال کرتی رہی ہیں ،جب تک وہ اپنی فطرت کو نہیں بدلیں گی ملکی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکتی ۔یہ ایسے حقائق ہیں جن کو جاننے کے لیے کسی کا ماہرِ معاشیات ہونا شرط نہیں ہے۔

 نمود و نمائش کی ذہنیت

نو دولتی معاشروں میں نمود و نمائش اور چمک دمک مرکزی مقام حاصل کر لیتی ہے اور وہ افراد جو اپنے کاروبار میں کامیابی کے ساتھ نفع کماتے ہیں بجائے بچت اور اس کے بعد اس کے مناسب مصرف کے اپنی دولت کی نمائش کی طرف مائل ہو جاتے ہیں ۔اس کا اظہار ان گاڑیوں کا شہر میں استعمال ہے جو صرف پیشہ وارانہ ریس ٹریک پر چلنے کے لیے بنتی ہیں۔ ایک جانب کروڑوں روپے کی مالیت کی گاڑیاں ہر شہر میں دندنا رہی ہیں ، دوسری طرف غربت اور بے روز گاری عروج پر ہے ۔ نمود و نمائش کی اس ذہنیت کو ختم کرنے اور اس دولت کو جو نمائش پر ضائع کی جا رہی ہے صحیح استعمال میں لانے کی ضرورت ہے۔

یہ کام تنہا کوئی حکومتی حکم نامہ نہیں کر سکتا ،اس کے لیے ابلاغ عامہ اور سوشل میڈیا پر ایسے مباحثے منعقد کروانے کی ضرورت ہے جن میں ان طبقات کے افراد کو دعوت دی جائے اور اہل دانش ان سے تبادلۂ خیال کے ذریعے انھیں سماجی رویوں کی تبدیلی کی طرف متوجہ کریں۔ مزید یہ کہ ایسی پُر تعیش اشیاء کی درآمد اور ان کے استعمال پرغیر معمولی ٹیکس عائد کیا جائے۔ بعض ممالک مثلاً سنگاپور میں ایک سے زائد گاڑی والوں پر پابندی ہے کہ وہ اپنی پسند کی گاڑی صرف مخصوص دنوں میں استعمال میں لا سکتے ہیں۔

سرکاری سرپرستی میں چلنے والے ادارے

ملکی معیشت کو تباہی کے قریب لانے میں ان تجارتی اداروں کا بھی بڑا دخل ہے جو حکومت کی زیر سرپرستی چل رہے ہیں۔ وزارت خزانہ کی۲۰۲۰- ۲۰۲۲ء کی رپورٹ کی رُو سے اس عرصہ میں ان اداروں سے ۳۹۵ ٹریلین روپے کا خسارہ ہوا،اس نوعیت کے ۲۵؍ اداروں میں مجموعی طور پر ۶۶۵ بلین اور ایسے ہی ۳۱ اداروں کو تقریباً ۳ بلین کا خسارہ ہوا۔صرف ان خساروں میں چلنے والے اداروں کو نفع بخش اداروں میں تبدیل کر لیا جائے تو معیشت کہیں سے کہیں جا سکتی ہے۔لیکن یہی وہ ادارے ہیں جو سیاسی جماعتوں کے ایسے کارکنوں کا مرکز ہیں جنھیں بغیر کسی فنی مہارت کے محض سیاسی وابستگی کی بنیاد پر اداروں میں بھرتی کیا گیا ہے اور جو معاشی تباہی کا ایک سبب ہیں۔ضرورت سے زیادہ افراد کی بھرتی ، انتہائی کمزور اور نااہل قیادت نے ان اداروں کو سفید ہاتھی بنا دیا ہے جو وسائل کھانے میں سب سے آگے ہیں اور پیداوار میں سب سے پیچھے ۔

ان اداروں میں سرفہرست ’پاکستان اسٹیل ملز‘ اور ’پی آئی اے‘ کا نام آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ادارے ملک کی ترقی میں بڑا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، اگر انھیں سیاست کاروں کے تسلط سے نجات مل جائے اور یہ پیشہ ورانہ بنیاد پر کام کریں۔ ان کا اصل مسئلہ ضرورت سے  دس گنا افراد کو سیاسی دباؤ سے ملازمت دینا ،جدید ٹکنالوجی کا استعمال نہ کرنا اور ان کے خساروں پر آنکھیں بند رکھنا ہے۔ اب وہی سیاست دان جنھوں نے اپنے پسندیدہ افراد بھرتی کر دیے ہیں اور جو انتظامی امور میں اعلیٰ ترین عہدوں تک نااہل افراد کو مقرر کرانے میں سرگرم رہے ہیں، ان کی کوشش ہے کہ اُونے پونے داموں ان اداروں کو کسی تیسرے فرد کے نام سے خرید کر اپنے ذاتی اثاثوں میں اضافہ کرسکیں۔

قومی تجارتی اداروں کو اچھی انتظامیہ اور غیر سیاسی ماحول کے ذریعے تین برسوں میں نفع بخش بنایا جا سکتا ہے ۔ لیکن اس کے لیے قوم اور ملک کے مفاد پر فوقیت اور مخلص اور پیشہ وارانہ قیادت کی ضرورت ہے ، جس کی کمی نہیں ہے لیکن اسے موقع نہیں دیا گیا ہے ۔ پی آئی اے اور پاکستان ریلوے کو دیانت دار انتظامیہ کے ذریعے نفع بخش اداروں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اگر سیاسی اور غیر ضروری افراد کو اداروں سے فارغ کر دیا جائے اور صرف اہلیت کی بنیاد پر تمام عہدوں پر تقرریاں ہوں۔

 بنیادی ضرورتوں کی فراہمی میں مجرمانہ غفلت

حکومت کی جانب سے معاشی ترقی سے لاپرواہی اور چلتے ہوئے اداروں کو زوال کی طرف دھکیلنے کا ظلم عرصہ سے جاری ہے۔اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عطاء الرحمٰن نے اقتصادی ترقی کے حوالے سے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ کراچی کے سائٹ ایریا میں کپڑوں کی رنگائی کی صنعت گذشتہ ۱۵ برسوں میں علاقہ میں پانی کی عدم فراہمی کی بنا پر بند ہو چکی ہے۔ اس وجہ سے بعض ادارے کورنگی منتقل ہو گئے ،بعض نے بنگلہ دیش اور انڈیا میں سرمایہ کاری کر کے اپنا کاروبار وہاں منتقل کر دیا ۔لیکن سندھ کی انتظامیہ کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ ایک چلتی ہوئی صنعت کی ہمت افزائی کر سکے اور اس کی ضروریات کو پورا کرسکے۔یہ صرف ایک مثال ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ جب حکومتیں بھیک مانگ کر اپنی تنخواہوں کی ضمانت حاصل کرنے کی عادی ہو جائیں تو پھر ملک پر غربت اور بے روزگاری کا تسلط ہوتا ہے۔

قرضوں کا متعدی مرض

سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کا ایک فریب یہ ہے کہ وہ ایک عام شہری کو ان تمام اشیاء کی خرید پر اُبھارتا ہے جو اس کی عمومی قوت خرید سے باہر ہوں اور اس غرض کے لیے وہ شیطان کی طرح اسے یقین دلاتا ہے کہ تم جو کچھ خریدنا چاہتے ہو وہ آنکھیں بند کر کے لے لو اور پھرقسطوں میں اس کی رقم ادا کر دینا۔صرف ہر قسط میں تھوڑی سی رقم ’حقِ خدمت‘ کے طور پر تم سے لے لی جائے گی ،جس کا صاف لفظوں میں نام سود ہے۔جو شخص ایک مرتبہ اس جھانسے میں آگیا وہ تمام عمر مقروض رہتا ہے اور ہر ماہ اپنی آمدنی میں سے بمشکل سود کی رقم ادا کر پاتا ہے ،لیکن اصل قرض ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے۔

یہ عمل جہاں ایک فرد کے ساتھ ہوتا ہے ویسے ہی پوری قوم کے ساتھ حکومتی ادارے اس عمل میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ آئی ایم ایف ہو یا ورلڈ بینک یا ایشیائی بینک، ان سب کا کام یہی ہے کہ ملکی ترقی کے منصوبوں کے نام پر ان اداروں سے قرض لیا جاتا ہے ،اور پھر نہ کبھی وہ منصوبے پورے ہوتے ہیں اورنہ کبھی قوم قرض کے جال سے نکل پاتی ہے۔یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ آج تک اگر کسی بھی ملک نے قرض لیا تو معاشی ترقی تو ایک طرف وہ مسلسل اس قرض کی ادائیگی کے چکر میں سود در سود دینے کے بعد بھی مکمل معاشی آزادی حاصل نہیں کر سکا۔ہماری کہانی کچھ مختلف نہیں ہے۔ اگر ہمیں معاشی ترقی کرنی ہے تو اولین ترجیح عالمی اداروں کے قرض سے نجات ہے جو معاشی ماہرین کی رائے کے مطابق ممکن ہے اور ایسے ممالک کی مثال موجود ہے جو قرض سے نکلے اور اس سے نجات پانے کے بعد خود انصاری کی راہ پر گامزن ہوئے ۔

ترقی پذیر ممالک میں پاکستان کا مقام

 اقوام متحدہ کے عالمی پروگرام برائے ترقی(UNDP) کے انسانی ترقی کے پیمانے Human Development Index کے لحاظ سے ۱۹۲ ممالک میں پاکستان۱۶۴واں ملک ہے جسے’نچلی ترقی‘ کا ملک گردانا جاتا ہے۔ ایسے ہی عالمی ادارہ کے SDG کے ۱۶۹اہداف میں سے پاکستان حد سے حد ۳۵ کو پورا کر پایا ہے،گویا یہاں بھی پاکستان ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے ہے۔ بیرونی ادارےاس کا ایک حل یہ تجویز کرتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کوا عداد و شمار کی قید میں لایا جائے یعنی اسے ڈیجیٹلائز (digitize) کیا جائے تاکہ وہ بہت سے افراد جو حکومت کو کوئی ٹیکس نہیں دے رہے ہیں ان سے بھی مطلوبہ رقوم حاصل کی جا سکیں، لیکن اس تجویز سے صرف اس وقت فائدہ ہو سکتا ہے جب ملک کے بڑے تاجر اور خصوصاًزمیندار اپنی آمدنی پر عائد ٹیکس ادا کریں۔

المیہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ انھی افراد کے قبضے میں ہے، جو سب سے زیادہ ٹیکس کی چوری میں ملوث ہیں اور وہ ہر ایسے قانون کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں، جس سے ان کے ذاتی مفاد پر زد پڑتی ہو۔ جب تک ملک سے بڑی زمینداریاں ختم نہیں ہوں گی اور بڑے کاروباروں کو ٹیکس کا پابند بنانےکے لیے سیاسی قوت استعمال نہیں کی جائے گی مسئلہ کا حل نہیں نکل سکتا۔

ملک کی زرعی پالیسی کو فوری طور پر منظم خطوط پر ترتیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ بڑے زمین داروں سے ٹیکس حاصل کیا جا سکے، ساتھ ہی زراعت کو درپیش مسائل پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔قیام پاکستان سےقبل پنجاب کی زرعی زمینیں پورے ہندوستان کو گندم اور چاول فراہم کرتی تھیں ۔آج ہم اپنی ملکی ضروریات کے لیے بھی باہر سےاناج درآمد کرتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے فصلیں اچھی ہو جائیں، تو کسان کو فائدہ پہنچانے کی جگہ گندم خریدنے میں بھی تردد کرتے ہیں اور ملکی دولت کو اپنے ہاتھوں تباہ کرتے ہیں۔

ملک کو درپیش معاشی زبوں حالی کے اس طائرانہ جائزے کا مقصد نوجوانوں میں پہلے سے موجود تھکاوٹ ،مایوسی اور بے بسی میں اضافہ کرنا نہیں ہے۔ لیکن جب تک مرض کی نوعیت کا تعین نہ ہو علاج تجویز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے چند تلخ حقائق کا جاننا مستقبل کے سنوارنے کے لیے ضروری تھا۔ اب ہم اختصار کے ساتھ مستقبل کی تعمیر کی طرف آتے ہیں۔

تبدیلیٔ نظام

اگر کسی درخت کو دیمک لگ جائے تو محض اس کی شاخوں کی تراش خراش اور اس کے تنے پر دوا چھڑکنا کافی نہیں ہو سکتا، جب تک زمین کی گہرائی میں جا کر دیمک کو جڑ سے ختم نہ کیا جائے۔ جس معاشی نظام کی بنیاد ضرورت مند اور محنت کش کے استحصال پر ہو، جو ان ضرورت مندوں کے حقوق کو دن رات پامال کررہا ہو ۔ ایسے جابرانہ نظام میں چند جزوی تبدیلیاں ہو سکتا ہے وقتی طور پر چند افراد کو مطمئن کر دیں لیکن تبدیلیٔ نظام کے بغیر معاشی عدل و انصاف کا قیام ناممکن ہے۔گذشتہ نصف صدی سے سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی جگہ اسلامی عادلانہ نظامِ معیشت کے نفاذ کی مہم چل رہی ہے۔

فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ کے فل بینچ نے حکومت وقت کو مقررہ مہلت میں سودی نظام کی جگہ اسلامی معیشت کے نفاذ کا پورا نقشہ بنا کر دیا ہے، جو صرف سیاسی قوت نافذہ کا منتظر ہے۔ تبدیلی کے آغاز کے لیے کسی توپ و تفنگ کی ضرورت نہیں ،جو مراحل سٹیٹ بینک کی مقررکردہ کمیٹی نے تجویز کیے ہیں، انھیں جب چاہیں عملی شکل دی جا سکتی ہے۔

جامع معاشی ترقی

ملک میں جامع معاشی ترقی کے منصوبہ کی تشکیل اور بہ تدریج نفاذ کے لیے اسلامی معیشت اور بینکاری کے ایک ورکنگ گروپ کو وقت کے تعین کے ساتھ یہ ہدف دیا جا سکتا ہے کہ وہ ملک میں صنعتی اور زرعی ترقی کے لیے ملک کے چیمبرز آف کامرس کے تعاون سے دو ماہ میں ایک منصوبۂ عمل تیار کرے ،جسے پارلیمان کے ذریعے ملک میں عمل میں لایا جائے۔ معاشی ترقی سے مراد چند مراعات زدہ افراد کے مفاد کا تحفظ نہیں ہے بلکہ وسیع پیمانہ پر ملک کے اندر تجارت، زراعت، پھلوں اور پھولوں کی مناسب ترقی کا منصوبہ ہے۔ دنیا کے کئی ممالک صرف زراعت اور پھلوں اور پھولوں کی برآمد کے ذریعے اپنی معیشت کو مستحکم کر رہے ہیں۔ پاکستان کو اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے چار موسم، زرخیز زمینیں اور وہ تمام وسائل دیے ہیں جو زراعت کے لیے بہترین مواقع فراہم کرتے ہیں۔

زرعی پالیسی

ملک گیر پیمانے پر قابلِ کاشت زمینوںمیں پیداوار بڑھانے کے ذرائع کا استعمال اور قابلِ کاشت زمینوں کو رہائشی آبادیوں کے تعمیری منصوبوں میں تبدیل کرنے پر قانونی پابندی کی ضرورت ہے، تاکہ آنے والے وقت میں ملکی آبادی میں اضافہ کے بعد غذائی ضروریات کی تکمیل اور غذائی اجناس کے برآمد کے ذریعے معاشی ترقی کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے۔ اس وقت ملک میں ایسے تحقیقی ادارے جو زراعت کے حوالے سے کسان کی عملی رہنمائی کر سکیں انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ ہماری فی ایکڑ پیداوار گندم کی ہو یا چاول کی اور ایسے ہی پھلوں کی، ہم ہر میدان میں دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہیں، جب کہ ہمارے پھل اور چاول کی اس کی اعلیٰ قسم ہونے کی بناپر بھاری مانگ موجود ہے ۔ایک عرصہ سے ہمارے چاول کو ہمارا دشمن ملک اپنے ملک کا ٹھپہ لگا کر فروخت کرتا رہا ہے اور اب اس نے ہمارے یہاں کے بیج اپنے ہاں لگا کر ہماری مارکیٹ کو اپنے قبضے میں کرنا شروع کر دیا ہے ۔لیکن ہم آنکھیں بند کیے یہ سب کچھ گوارا کر رہے ہیں۔ ملک کی صلاحیت کو بہت تنگ نظری کے ساتھ کم تر سمجھ لیا گیا ہے،جب کہ ہماری زراعت سونے کی طرح ملکی معیشت کو استحکام دے سکتی ہے۔ملک کی زرعی پالیسی کی تیاری میں نہ صرف اعلیٰ تعلیمی اداروں بلکہ کسان بورڈوں اور تنظیمات کو بھی شامل کیا جائے تاکہ زمینی حقائق کی روشنی میں ملک گیر پالیسی وہ ہو جو قابلِ عمل ہو اور جسے متعلقہ افراد خود تیار کریں۔

تجارتی حوصلہ افزائی

بیرونی سرمایہ صرف اس وقت ملک میں آتا ہے، جب ملک میں سیاسی استحکام کے ساتھ قانونی تحفظ اور شفافیت پائی جائے، معاہدوں کا احترام ہو اور بیرونی صارف کو مقامی قوانین میں سہولت ملے۔ لازمی طور پر کوئی سرمایہ کار بھی اپنے منافع پر سمجھوتہ نہیں کرتا ۔لیکن ملکی قانون نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی صارف کو بھی بغیر طویل کارروائیوں کے ملک میں تجارت کے مواقع فراہم نہیں کرتا۔ مشرق وسطیٰ کے اکثر ممالک میں ایک ماہ کے عرصہ میں ایک بیرونی صارف اپنی کمپنی قائم کرکے کام کا آغاز کر سکتا ہے ۔پاکستان میں فرسودہ نظام اور برقی ذرائع کے استعمال نہ کرنے کی بنا پر اور رشوت اور ناجائز حصہ داری کے مطالبوں کے سبب بیرونی سرمایہ کار آتے ہوئے گھبراتا ہے۔زمینی حقائق کو جانتے ہوئے صورتِ حال کی فوری اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ چھوٹے، درمیانی اور بڑے کاروبار کو فروغ دیا جا سکے۔

معاشی کارکن کے حقوق کا تحفظ

ملک میں محنت کش اور معاشی کارکن کے مرتبہ اور حقوق کا تحفظ اعلیٰ کارکردگی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔معاشی عدل اور محنت کش کے حقوق کے تحفظ کے لیے مناسب قانون سازی کے ساتھ ایسے اداروں کا قیام ضروری ہے جو جلد انصاف کی فراہمی کریں اور کاروبار کرنے والوں کو قانون کے احترام پر آمادہ کر سکیں ۔اس میں خواتین اور کم عمر معاشی کارکنوں کے حقوق کے تحفظ پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔

ملکی صنعتوں کی پہچان

پاکستان کو بعض صنعتوں میں خصوصی مقام حاصل رہا ہے ۔ مثلاً سیالکوٹ کے ساتھ کھیل اور جراحت کے سامان کا نام خود بخود ذہن میں ابھر تا ہے۔فیصل آباد ٹیکسٹائل کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ ان میدانوں میں اضافے اور مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ یہاں کی تیار کردہ اشیا اپنے معیار کے لحاظ سے دنیا بھر میں ممتاز رہیں۔ان اشیاء کی تیاری میں جو خام مال اور جو فنی محنت درکار ہوتی ہے اس کی تربیت اور سائنسی اصولوں پر اس میں مہارت کے لیے ان صنعتوں سے وابستہ افراد کو ایسے ادارے ،جامعات کی وابستگی کے ساتھ قائم کرنے پر متوجہ کیا جائے جو ان فنون میں تربیت اور مارکیٹ کی ضروریات کے پیش نظر افرادی قوت تیار کر سکیں۔

ان صنعتوں میں کام کرنے والوں میں خواتین کے لیے خصوصاً ایسا اہتمام کیا جائے کہ وہ اپنے گھر سے صنعتی ترقی کے کاموں میں شرکت کر سکیں اور خاندان کا نظام متاثر نہ ہو اور ان کی صلاحیت کا استعمال بھی کیا جا سکے ۔عالمی طور پر ان صنعتوں میں بچوں کے حوالے سے جو پابندیاں ہیں ان کو ملحوظ رکھا جائے تاکہ ہماری مصنوعات عالمی مارکیٹ میں اپنا وقار قائم رکھ سکیں۔

جامعات اور صنعت و زراعت کا تعلق

ملک کی معاشی ترقی خصوصاً طویل المیعاد ترقی میں یونی ورسٹیوں کا بنیادی کردار ابھی تک صحیح طور پر ادا نہیں کیا جا سکا ہے۔یونی ورسٹیوں کے نصابات میں صنعتوں کے حوالے سے نظرثانی اور جدید آئی ٹی کے استعمال کے ساتھ ایجادات پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ دیگر ممالک میں بہت سے فنی ادارے خود اپنی یونی ورسٹیاں قائم کرتے ہیں، مثلاً سام سنگ اور دیگر عالمی مصنوعات بنانے والے اداروں کی اپنی یونی ورسٹیاں ہیں، جو نہ صرف ان کی ضرورت بلکہ ان شعبوں میں اعلیٰ تحقیق کے ذریعے ان مشکلات کا حل نکالتی ہیں جو اس صنعت کی ترقی کے لیے ضروری ہوں۔ پاکستان میں ہماری معلومات کی حد تک کسی ایک دوا ساز کمپنی ،کپڑے کی صنعت اور دیگر شعبوں میں کاروبار کرنے والے بڑے اداروں نے آج تک اپنے شعبے میں تحقیق کے لیے تحقیقی کام پر توجہ نہیں دی۔ اس طرح نہ صرف عمومی تعلیم بلکہ ان شعبوں میں تربیت یافتہ افراد فراہم کیے جا سکتے ہیں، جو ملک اور ملک کے باہر hands on تربیت یافتہ ہوں اور محض نظری طور پر دوا سازی اور انتظامی امور وغیرہ سے واقف نہ ہوں بلکہ اپنے شعبے میں عملاً کام کر کے تجربہ کا سرٹیفکیٹ بھی رکھتے ہوں۔

تجارتی اخلاقیات

ہر شعبۂ حیات اپنا ایک اخلاقی ضابطہ رکھتا ہے۔ ہمیں یہ امتیاز حاصل ہے کہ ہمارا دین جامع اور کامل ہونے کی بنا پر ایک ’دیانت دار تاجر‘ (honest trader)کے بارے میں نہ صرف دنیا بلکہ آخرت میں اعلیٰ ترین درجات کا وعدہ فرماتا ہے اور ایسے تاجر کو انبیاؑ ،صلحا اور شہدا کے ساتھ حیاتِ اُخروی میں مقام دیتا ہے۔اس امر کی ضرورت ہے کہ معاشی ترقی کے منصوبہ میں اسلامی معاشی اخلاقیات کو نصابی وزن دیا جائے، تاکہ معاشرہ سرمایہ دارانہ ذہنیت سے محفوظ رہ سکے۔ ہرمعاشی ترقی اپنے ساتھ شیطان کی تیار کردہ پوری ایک فہرست لاتی ہے جو سرمایہ دار کو ایک خودغرض، نفع خور ،نفس پرست شخص میں تبدیل کر دیتی ہے ۔اسلامی معاشی اخلاقیات کی نہ صرف تعلیم بلکہ تجارتی اور زراعتی شعبوں میں ترویج اور اس کا اطلاق ہمارے معاشرے کو ایک عادلانہ، معاونت کرنے والا، ہمدردی اور غم خواری پر مبنی برادری میں تبدیل کر سکتا ہے، اور ان اخلاقیات سے لاپرواہی مغربی سرمایہ دارانہ ظالمانہ استحصالی نظام کے قریب لا سکتی ہے۔ ہماری معاشی ترقی اس وقت اللہ کو راضی کر سکتی ہے جس میں ہم اپنے دین پر مبنی اور قرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں زراعت ہو یا صنعت، تعلیم ہو یا پیشہ ورانہ تربیت، ہر کام کو اس اخلاق کا پابند بنا لیں جو تمام انسانیت کے لیے فلاح اور ہماری آخرت میں کامیابی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔

مہارت و بہترین کارکردگی

قرآن کریم کا ترقی کا پیمانہ ہر شعبۂ علم و عمل میں ماہرانہ مقام کا حصول ہے۔ انبیائے کرامؑ نے اقامت دین کے مجموعی تصور کے پیش نظر دعوتِ دین کے ساتھ مختلف شعبوں میں کارکردگی میں  امتیاز حاصل کیا ۔حضرت داؤدؑ کا زرہ سازی میں کمال ،حضرت نوحؑ کا جہاز سازی میں مہارت، حضرت سلیمانؑ کا اُمورِ مملکت میں، جب کہ حضرت یوسفؑ کا منصوبہ بندی میں قائد ہونا اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تجارت ہو یا عدالت، ہر شعبہ میں اخلاق کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونا، نیز خود قرآن کریم نے یہ کہہ کرکہ وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم ۶۸:۴)آپؐ کے ماننے والوں کے لیے ایک زندہ مثال بیان کر دی کہ کسی بھی شعبۂ حیات میں کم تر درجہ ناقابلِ قبول ہے اور زندگی کے ہرمعاملے میں اتقان اور حُسنِ کارکردگی ایمان کا تقاضا ہے۔آج بھی امت مسلمہ کے نوجوانوں میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ معرکۂ حق و باطل میں اپنے سے کئی گنا طاقت ور باطل کو اپنی قوتِ ایمانی سے زیر کرسکتے ہیں۔ تازہ ترین مثال غزہ، فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کی ہے۔

عَنْ اَبِی مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِبِؓ سِبْطِ رَسُوْلِ اللہِ  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَیْـحَانَتِہٖ قَالَ حَفِظْت مِنْ رَسُوْلِ اللہِ  دَعْ مَا یُرِبْیُکَ اِلٰی مَا لَا یُرِبْیُکَ فَاِنَّ الصِّدْقَ طُمَانِیْنَۃٌ وَ اِنَّ الْکَذِبَ رِیْبَۃٌ (ترمذی: ۲۵۲۰)

نواسۂ رسولؐ حضرت حسن ابن علیؓ ابن ابی طالب فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول یاد رکھا ہے کہ ’’جو چیز تمھیں کھٹکے اور شک و شبہہ میں مبتلا کرے، اسے چھوڑ کر جو چیز تمھارے دل میں کھٹک اور شک و شبہہ نہ پیدا کرے اسے اختیار کرلو، کیونکہ سچائی (دل میں) اطمینان پیدا کرتی ہے اور جھوٹ (دل میں) کھٹک پیدا کرنے والا ہے۔

اس حدیث کو نسائی، امام احمد، ابن حبان اور حاکم نے بھی اسی سے ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔ امام احمدکی روایت میں ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ میں نے صدقہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور منہ میں ڈال لی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کھجور میرے منہ سے نکال کر پھر کھجوروں میں ڈال دی۔ ایک شخص نے کہا: یہ کھجور کھالینے میں آپؓ پر کیا حرج تھا۔ آپؓ نے فرمایا: ہم (اہل بیت) صدقہ نہیں کھاتے۔

حضرت حسنؓ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: جو چیز دل میں کھٹک پیدا کرے اسے چھوڑ دو اور اسے اختیار کرو جو کھٹک نہ پیدا کرے، کیونکہ سچائی دل کے لیے اطمینان بخش ہوتی ہے اور جھوٹ دل میں کھٹک پیدا کرتا ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ کی ایک روایت میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: دل میں کھٹک پیدا کرنے والی چیز چھوڑ دو اور جو کھٹک نہ پیدا کرے اسے اختیار کرلو۔

اس شخص نے عرض کیا: مجھے اس کا علم کیسے ہوگا؟

آپؐ نے فرمایا: جب تم کسی چیز کا ارادہ کرو تو اپنے سینے پر ہاتھ رکھو، دل حرام چیز سے مضطرب ہوجاتا ہے اور حلال چیز سے پُرسکون ہوتا ہے اور پرہیزگار مسلمان بڑے گناہ کے ڈر سے چھوٹا گناہ بھی چھوڑ دیتا ہے۔ طبرانی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ آپؐ سے عرض کیا گیا: ’پرہیزگار کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’جو شبہہ کے وقت رُک جائے‘۔

متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے اس مفہوم کے اقوال منقول ہیں۔

حضرت عمرؓ کا قول ہے: ربا اور ریبہ یعنی سود اور دل میں کھٹک اور شبہہ پیدا کرنے والی چیز چھو ڑ دو، چاہے بالکل ثابت نہ ہوچکا ہو کہ وہ سود ہے۔ یعنی مشکوک چیزوں سے رُک جانا چاہیے کیونکہ حلال چیز سے دل میں اطمینان و سکون پیدا ہوتا ہے، جب کہ مشکوک چیزیں دل میں کھٹکتی رہتی ہیں اور دل مضطرب رہتا ہے۔

حضرت فضیلؓ بن عیاض کہتے ہیں: ’’لوگ سمجھتے ہیں پرہیزگاری بہت مشکل چیز ہے ۔ میرے سامنے جب بھی دو صورتیں ہوں تو میں زیادہ سخت صورت کو اختیار کرلیتا ہوں‘‘۔

حضرت عبداللہ ؓ ابن مبارک سے روایت ہے: حضرت حسانؓ ابن سنان کے ایک غلام نے اہواز سے انھیں لکھا : ’گنے کی فصل پر آفت آگئی ہے ۔ آپ اپنے یہاں (زیادہ سے زیادہ) شکر خرید لیجیے‘۔

آپ نے ایک آدمی سے کچھ شکر خرید لی۔ چند ہی دنوں میں دام چڑھ گئے اورانھیں ۳۰ہزار درہم کا فائدہ ہونے لگا۔ آپ نے جس سے شکر خریدی تھی اس کے پاس گئے اور فرمایا: ’میرے غلام نے مجھے پہلے سے اس کی اطلاع دے دی تھی، لیکن میں نے تمھیں نہیں بتایا، لہٰذا اپنی شکر واپس لے لو‘۔

اس نے کہا: ’آپ نے اب بتادیا،میں بخوشی راضی ہوں‘۔ آپ لوٹ آئے لیکن دل کی کھٹک دُور نہیں ہوئی، آپ دوبارہ اس کے پاس گئے اور اس سے کہا: ’بھائی یہ معاملہ صحیح ڈھنگ سے نہیں ہوا، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تم اپنی شکر واپس لے لو‘۔ آپ اسی بات پر اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ وہ شکر واپس لینے پر آمادہ ہوگیا‘۔

انھی حسانؓ کا قول ہے: ’’پرہیزگاری کتنی آسان ہے کہ جو چیز تمھارے دل میں کھٹکے اسے چھوڑ دو‘‘۔ہشام ابن حسان کہتے ہیں: ’’آج جس طرح کے مال میں لوگ کوئی حرج نہیں سمجھتے حضرت محمد بن سیرینؒ نے اس طرح کے چالیس ہزار درہم چھوڑ دیے تھے‘‘۔

حضرت حجاجؒ بن دینار نے اپنے ایک آدمی کو کچھ غذائی سامان لے کر بصرہ بھیجا اور اسے تاکید کی کہ جس دن وہاں پہنچو اسی دن کے نرخ پر بیچ دینا۔ کچھ دنوں بعد اس کا خط آیا:’’میں بصرہ پہنچا تو نرخ کم دیکھا تو کچھ دن سامان روکے رکھا۔ پھر جب نرخ بڑھ گیا تو بیچ دیا اور اس سے اتنا فائدہ ہوا ہے‘‘۔ حضرت حجاجؒ نے اسے جواب دیا:’’ تم نے میرے حکم کے خلاف کرکے خیانت کا ثبوت دیا۔ میرا یہ خط ملتے ہی پوری قیمت بصرہ کے محتاجوں میں تقسیم کر دینا، شاید ایسا کرنے سے مَیں (آخرت کی پکڑ سے) بچ جائوں‘‘۔

حضرت یزیدؒ بن زریع کے والد کسی سرکاری عہدے پر تھے۔ آپ نے ان سے وراثت میں ملے پانچ لاکھ درہم چھوڑ دیئے اور مزدوری کرکے کام چلاتے رہے۔

جناب مسور بن مخرمہ نے کافی غذائی سامان جمع کر رکھا تھا۔ موسم خریف میں بادل آتے دیکھے تو انھیں ناگوار ہوا(کہ بارش ہوئی تو غلہ خوب پیدا ہوگا اور ان کے جمع کیے ہوئے سامان کا خاطرخواہ نفع نہیں ملے گا)۔ تب انھوں نے کہا: ایسا لگتا ہے کہ جس چیز سے عام مسلمانوں کو نفع پہنچنے والا ہے وہ مجھے ناگوار ہوئی؟ لہٰذا انھوں نے اس سامان پر کوئی نفع نہ لینے کی قسم کھالی۔ حضرت عمرؓ کو جب یہ خبر پہنچی تو انھوں نے انھیں دُعا دی۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن چیزوں کی ذخیرہ اندوزی ممنوع ہے، ان کا نفع ترک کردینا چاہیے اور اس طرح کی چیزوں کو صدقہ کر دینا ہی بہتر ہے۔

حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ حالت ِ احرام میں شکار کا گوشت، اگر خود شکار نہ کیا ہو، کھانا چاہیے یا نہیں؟

آپؓ نے فرمایا: چند دنوں کی تو بات ہے جو چیز تمھارے دل میں کھٹکے اسے چھوڑ ہی دو۔

یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ جو لوگ واضح طور پر حرام چیزوں میں ملوث ہیں، وہ معمولی شبہہ والی چیزوں میں پرہیزگاری کا ارادہ کریں تو یہ بالکل بیکار سی، بلکہ قابلِ مذمت بات ہوگی۔

حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے کسی عراقی نے سوال کیا کہ کپڑے پر مچھر کا خون لگ جائے تو نماز ہوگی یا نہیں؟ تو آپؓ نے غصّے میں آکر فرمایا: ’’مجھ سے مچھر کے خون کا مسئلہ پوچھ رہے ہو اور حسینؓ کو قتل کر ڈالا (تو کوئی مسئلہ پوچھنے کی ضرورت نہیں محسوس کی)،جب کہ میں نے رسولؐ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ (حسنؓ و حسینؓ) دُنیا میں میرے پھول ہیں‘‘۔

امام احمدؒ سے کسی نے پوچھا: ایک شخص سبزی خریدتا ہے تو وہ جس رسّی میں بندھی ہوئی ملتی ہے اس کا استعمال کرنا کیسا ہے؟

آپ نے فرمایا: ہاں، اس درجے کے آدمی کے لیے تویہ مسئلہ قابلِ غور ہوسکتا ہے۔

خود امام احمدؒ اس طرح کی پرہیزگاری کیا کرتے تھے۔ آپ نے ایک بار کسی سے کچھ گھی خرید وا کر منگوایا تو وہ ایک کاغذ پر لے آیا۔ آپ نے وہ کاغذ بیچنے والے کو واپس کرایا۔ آپ اپنے ساتھیوں اور شاگردوں کی دوات تک کبھی استعمال نہیں کرتے تھے، بلکہ خود اپنی دوات کی روشنائی سے ہی لکھتے تھے۔

رسولؐ اللہ فرماتے ہیں: ’’سچائی اور بھلائی دل میں سکون و اطمینان پیدا کرتی ہے اور بُرائی و جھوٹ دل میں کھٹکتا ہے۔ اس لیے اگر کسی چیز کے بارے میں دل میں کھٹک پیدا ہوئی تو اپنے دل سے پوچھو، وہ صحیح صورتِ حال فوراً بتا دے گا، چاہے دوسرے لوگ کچھ بھی باتیں بتاتے رہیں‘‘۔

پاکیزگی: عفت، یعنی پاکیزگی دو قسم کی ہوتی ہے: گھٹیا قسم کی خواہشات و ترغیبات سے پاک صاف رہنا اور شک و شبہہ کی جگہوں سے دُور رہنا۔

ہرقسم کا لالچ ذلّت و ملامت کا ذریعہ اور انسانیت کے جوہر کے خلاف ہے۔ لالچ کا علاج (جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے) مایوسی اور (جو کچھ اپنے پاس ہے اس پر) قناعت ہے۔

عبداللہؓ ابن مسعود نے روایت کیا ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’جبرئیلؑ نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ کوئی بھی جان اس وقت تک موت سے ہم کنار نہیں ہوگی جب تک اپنا رزق پورا نہ کرلے۔ لہٰذا، اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور خوب صورت (یعنی حلال و باوقار) ڈھنگ سے رزق تلاش کرو۔  رزق میں تاخیر تمھیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کے ذریعے اسے طلب کرو‘‘۔

حضرت محمدؒ بن علی سے مردانگی کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا: ’’مردانگی یہ ہے کہ پوشیدگی میں بھی کوئی ایسا کام نہ کرو جسے علانیہ کرنے میں شرم محسوس ہو‘‘۔

انسان جو کام کرنا چاہے پہلے اس پر اچھی طرح غوروفکر کرلے، اور پھر بہتر سے بہتر ڈھنگ سے انجام دے اور جب وہ یہ طریقہ اپنائے گا تو حرام اور مشکوک چیزوں سے بچے گا۔

اب عقل مند وہی شخص ہوگا جو حرام چیزوں سے دُور دُور رہنے کی کوشش کرے گا،جو مشکوک و مشتبہ چیزوں کو چھوڑ ے گا اور کھلی ہوئی حرام چیزوں کو بدرجۂ اولیٰ چھوڑ دے گا ۔ اسی لیے حدیث میں آتا ہے:’’بہترین دین پرہیزگاری ہے‘‘۔

پرہیزگاری کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی اپنی جگہ بے حرکت بیٹھا رہ جائے اور اپنی درماندگی ظاہر کرے بلکہ مسلمان کو اپنی دینی بصیرت کی روشنی میں حلال کی جستجو کرنی چاہیے۔ اگر اس کا دل کسی بات پر مطمئن ہوجائے تو اسے اختیار کرلے اور اگر دل مطمئن نہ ہو تو چھوڑ دے، چاہے بتانے والے کچھ بھی بتائیں۔

پرہیزگاری کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ابوسلیمانؓ دارانی کہتے ہیں: جو چیز بھی تمھیں اللہ تعالیٰ سے غافل کردے وہ تمھارے لیے بُری ہے۔

سہیل بن عبداللہؓ نے خالص حلال کے بارے میں کہا: حلال وہ ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کی جائے۔ اور خالص حلال وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کو فراموش نہ کیا جائے۔

ابوبکر شبلیؒ کے بقول: پرہیزگاری یہ ہے کہ تمھارا دل ایک لمحے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے غافل نہ ہو۔

حضرت عمر ؓ پرہیزگاری کے سبب اپنے رشتے داروں کو سرکاری عہدوں سے دُور رکھتے تھے۔

امام ابوحنیفہؒ کپڑوں کی تجارت کرتے تھے اور اتنا نفع مقرر کر رکھا تھا، جس سے ان کی ضروریات پوری ہوجائیں ۔ اگر خریدار خوش دلی سے بھی زیادہ قیمت دینا چاہتے تھے، تب بھی وہ نہیں لیتے تھے۔

جنوری ۱۹۶۴ء میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں کے دورِ حکومت میں جب جماعت اسلامی پاکستان پر پابندی عائد کی گئی ، اور مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی سمیت جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کے پچاس ارکان کو قید کردیا گیا تو حکومت نے اپنے عتاب کا نشانہ ترجمان القرآن  کو بھی بنایا۔ جس کے نتیجے میں جنوری سے جون ۱۹۶۴ء کے دوران چھے ماہ تک پرچہ شائع نہ ہوسکا۔ ترجمان کے نائب مدیر پروفیسر عبدالحمید صدیقی نے پابندی ختم ہونے پر جو ’اشارات‘ (جولائی ۱۹۶۴ء) تحریر کیے، ان کا پہلا حصہ دیا جارہاہے، تاکہ قارئین کو معلوم ہوسکے کہ ترجمان اور اُس کے مدیر کن مراحل سے گزر کر رہنمائی کا چراغ روشن کرتے رہے۔ادارہ

چھے ماہ کی بندش کے بعد ترجمان القرآن پھر شائع ہو رہا ہے، بِسْمِ اللہِ مَجْؔــرٖىہَا وَمُرْسٰىہَا۝۰ۭ اِنَّ رَبِّيْ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۴۱ (ھود۱۱:۴۱)

ترجمان القرآن پر جو اُفتاد پڑی ہے، صحیح صورتِ حال کی تفصیلات سےکم حضرات آگاہ ہوں گے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ضروری واقعات یہاں اختصار سے پیش کر دیئے جائیں:

ترجمان  اکتوبر ۱۹۶۳ء کے شمارے میں ایک مضمون: ’ایران میں دین اور لادینی کی کش مکش‘ [خلیل احمد حامدی] کے زیرعنوان چھاپا گیا تھا۔ اس پر مغربی پاکستان کے شعبۂ اطلاعات کی جانب سے ایک مراسلہ ۱۲نومبر ۱۹۶۳ء ناشر ترجمان  کو موصول ہوا، جس میں تحریر تھا: ’’مذکورہ بالا مضمون سے حکومت پاکستان اور حکومت ِ ایران کے مابین دوستانہ روابط خراب ہونے کا امکان ہے، اس لیے آپ سات دن کے اندر وجہ بتائیں کہ ویسٹ پاکستان پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی ننس ۱۹۶۳ء کے تحت آپ کے خلاف کیوں کارروائی نہ کی جائے، آپ کے رسالے کا ڈیکلریشن معطل کیوں نہ کیا جائے اور آپ سے دس ہزار روپے کی ضمانت کیوں نہ لی جائے؟ اگر آپ بالمشافہہ صفائی پیش کرنا چاہیں تو شعبۂ مذکورہ کے ڈپٹی سیکرٹری صاحب سے ۱۹نومبر کو ملاقات بھی کرسکتے ہیں‘‘۔

اس نوٹس کے جواب میں ۱۸نومبر کو حسب ذیل توضیحات سیکرٹری صاحب کی خدمت میں تحریراً پیش کی گئیں:

۱- ہمارے اکتوبر ۱۹۶۳ء کے شمارے میں ’ایران میں دین اور لادینی کی کش مکش‘ کے زیرعنوان جو مضمون شائع ہوا ہے، اس میں کوئی چیز مقالہ نگار نے اپنی طرف سے نہیں لکھی ہے بلکہ وہ ایران اور عراق کے معروف اہل علم کی شائع شدہ تحریروں کا خلاصہ ہے اور وہ شائع شدہ مواد ہمارے پاس موجود ہے۔ علاوہ بریں جن واقعات کا اس میں ذکر کیا گیا ہے،و ہ دُنیا کی خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعے سے بھی پاکستان کے اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو، روزنامہ نوائے وقت لاہور، ۲۵ جنوری ۱۹۶۳ء اور ۶ جون ۱۹۶۳ء۔

۲- اس مضمون کے جواب میں سفارت خانہ ایران{ FR 685 } کی طرف سے ایک مضمون ہمارے پاس آچکا ہے، جسے ہم لفظ بلفظ زیرطبع پرچے میں دے رہے ہیں۔ یہ پرچہ یکم دسمبر ۱۹۶۳ء کو شائع ہونے والا ہے۔ کوئی پرچہ اگر تصویر کے دونوں رُخ بے کم و کاست لوگوں کے سامنے رکھ دے تو اس کے متعلق یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے بدنیتی کے ساتھ کام کیا ہے، یا اس کے پیش نظر کوئی خرابی برپا کرنا ہے، بلکہ یہ فعل دُنیا کے معروف صحافتی آداب سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے۔

۳- مغربی پاکستان کے مختلف اخبارات و رسائل میں متعدد دوست ملکوں اور ان کی حکومتوں کے حالات پر بحث و تنقید کی جاتی رہی ہے۔ ان پر کوئی کارروائی نہ ہونے سے ہم یہ تصور کرنے میں حق بجانب تھے کہ ویسٹ پاکستان پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی ننس کا منشا یہ نہیں ہے کہ دوست ممالک کے اچھے یا بُرے حالات کو شائع کرنا یا ان پر تبصرہ کرنا سرے سے ہی جرم ہے۔ نیز یہ تصور کرنا بھی ہمارے لیے مشکل ہے کہ قانون کا اطلاق سب اخبارات و رسائل پر یکساں نہ ہوگا، یا دوست ممالک کے درمیان فرق کیا جائے گا۔

۴- ترجمان کے متعلق اسی طرح کی شکایت [پر] آرڈی ننس کی دفعہ ۲۷ کے تحت تنبیہہ پر اکتفا کیا جاسکتا ہے۔

دسمبر [۱۹۶۳ء]کے پرچے میں سفارت خانہ ایران کی جانب سےموصولہ مضمون شائع کردیا گیا۔ اس کے بعد حکومت مغربی پاکستان کے ہوم سیکرٹری صاحب کی طرف سے ایک حکم نامہ مؤرخہ یکم جنوری ۱۹۶۴ء کو وصول ہوا، جس میں یہ درج تھا کہ ’’ترجمان کے مضمون ’ایران میں دین اور لادینی کی کش مکش‘ سے چونکہ حکومت پاکستان اور حکومت ایران کے تعلقات بگڑجانے کا امکان ہے اور نوٹس کے جواب میں اس کے ناشر کی جانب سے پیش کردہ وضاحت غیرتسلی بخش ہے۔اس لیے گورنر صاحب مغربی پاکستان آرڈی ننس مذکورہ کی دفعہ ۲۷ کے تحت ترجمان کے ڈیکلریشن کو چھ ماہ کے لیے معطل فرماتے ہیں‘‘۔

اس کارروائی کے بعد ۱۲فروری ۱۹۶۴ء کو مغربی پاکستان ہائی کورٹ میں ناشر ترجمان القرآن  نے ایک درخواست داخل کی، جس میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ ’’جس آرڈی ننس کے تحت ترجمان کے خلاف کارروائی کی گئی ہے، وہ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۶۳ء کو نافذ ہوا ہے اور ترجمان کےجس مضمون پر اعتراض کیا گیا ہے، وہ ۲؍اکتوبر ۱۹۶۳ء کو پریس میں چھپ گیا تھا اور ۵؍اکتوبر کو اس کی بڑی تعداد قارئین کے ہاتھوں میں پہنچ چکی تھی، اس لیے اس کی اشاعت آرڈی ننس مذکور کی زد میں نہیں آتی‘‘۔ اس درخواست میں یہ بھی اعتراض کیا گیا تھا کہ ’’بیرونی ممالک سے تعلقات کی خرابی کا مسئلہ مرکزی حکومت کے حیطۂ اختیار میں ہے، اس لیے صوبائی حکومت اس ضمن میں کوئی قانون سازی یا انتظامی اقدام نہیں کرسکتی۔ آرڈی ننس مذکور کو اس بنا پر بھی چیلنج کیا گیا تھا کہ یہ دستور کے بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر استدعا کی گئی تھی کہ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی ننس کو بنیادی حقوق کے منافی اور کالعدم قرار دیا جائے اور ترجمان القرآن  کی معطلی کا حکم بھی غیرقانونی ٹھیرایا جائے‘‘۔

اس درخواست پر ہائی کورٹ نے جلد تاریخ مقرر کرنے کا حکم صادر فرمایا، لیکن تقریباً تین ماہ تک کوئی تاریخ متعین نہ ہوسکی۔ پھر مزید ایک درخواست اس امر کی پیش کی گئی کہ اس مقدمے کی سماعت کے لیے تاریخ کا تعین کیا جائے، ورنہ دادرسی کا مقصد فوت ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ اس پر معزز عدالت نے دوبارہ حکم دیا کہ ’’بہت جلد تاریخ مقرر کی جائے‘‘۔ لیکن تاریخ مقرر ہونے سے پہلے پابندی کی میعاد ختم ہوچکی ہے اور یہ پرچہ بندش کی پوری مدت ختم ہوجانے کے بعد اسی وقت پر شائع ہورہا ہے، جس وقت پر یہ عدالت سے رجوع نہ کرنے کی صورت میں شائع ہوتا۔

قارئین ترجمان کو یہ بھی معلوم ہے کہ ترجمان القرآن  کی اشاعت پر پابندی کے صرف پانچ روز بعد مدیر ترجمان مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کو بھی جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کے ارکان سمیت نظربند کردیا گیاتھا۔ اس نظربندی کی جو وجوہ مولانا کو جیل میں حکومت ِ پاکستان کی جانب سے بتائی گئی تھیں ان میں اس مضمون کی اشاعت کا ذکر کیا گیا تھا، جس کی بنا پر ترجمان کو بند کیا گیا تھا۔

اس کا جو جواب مدیر ترجمان القرآن  سیّدابوالاعلیٰ مودودی کی جانب سے ہوم سیکرٹری صاحب کو دیا گیا تھا، اس کا متعلقہ حصہ نقل کردینا مناسب ہوگا ، اور وہ یہ ہے:

آخری الزام آپ کا میرے اُوپر یہ ہے کہ مَیں نے اپنے رسالے ترجمان  القرآن  کےاکتوبر ۱۹۶۳ء کے پرچے میں ایک مضمون ایران اور اس کے شاہی خاندان کے خلاف شائع کیا تھا۔اور آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ اس مضمون کی اشاعت سے میرا مقصد ایران کے ساتھ ، جو پاکستان کا روایتی حلیف ہے، پاکستان کے تعلقات کو خراب کرنا تھا۔ اس کے جواب میں چند باتیں گزارش کروں گا:

  •  اوّلاً، جس مضمون کا آپ نے ذکر کیا ہے وہ ایران اور عراق کے مشہور علما کی شائع شدہ تحریروں کا قریب قریب لفظی خلاصہ تھا۔ ان میں سے ایک علماء ایران کا ایک مفصل خط ہے، جس میں انھوں نے عراق کے سب سے بڑے شیعہ عالم السیّدابوالقاسم الخوئی کو خطاب کرکے ایران کے حالات بیان کیے ہیں اور یہ خط رسالہ من علماء ایران کے نام سے نجف اشرف کے النعمان پریس نے شائع کیا ہے۔ دوسرا پمفلٹ خود سیّد ابوالقاسم الخوئی کا اپنا لکھا ہوا ہے، جس میں انھوں نے ایران کے اندر یہودیوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کی تفصیل، بیان کی ہے اور اس کے خطرناک نتائج پر حکومت ِ ایران کو متنبہ کیا ہے۔ یہ پمفلٹ بھی نجف اشرف سے بعنوان تصریحات خطیرۃ للامام الخوئی شائع ہوا ہے۔ تیسرا مفصل پمفلٹ کفاح العلماء الاسلام کے عنوان سے کربلا کی مجلس ثقافت اسلامیہ نے شائع کیا ہے جس میں ایران کے واقعات کی پوری تفصیل تاریخ اور رُموز بحوالہ بیان کی گئی ہے۔
  • ثانیاً، اس مضمون کی اشاعت کے بعد میرے پاس سفارت خانہ ایران کی طرف سے ایک تردیدی مضمون آیا اور مَیں نے اسے بھی دسمبر ۱۹۶۳ء کے پرچے میں شائع کر دیا (اس رسالے کی ایک کاپی مَیں بورڈ کے سامنے پیش کر رہا ہوں اور خصوصیت کے ساتھ اس مضمون پر ایڈیٹر کی طرف سے جو تعارفی نوٹ دیا گیا ہے، اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں)۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی رسالہ یا اخبار پوری ایمان داری کے ساتھ دونوں طرف کے بیانات شائع کردے، تو دُنیا بھر کے مانے ہوئے اصولِ صحافت کے لحاظ سے اس کی روش پر آخر کیا اعتراض کیا جاسکتا ہے؟
  • ثالثاً، پاکستان کے اخبارات و رسائل سے مَیں کم و بیش پچاس ایسی مثالیں پیش کرسکتا ہوں، جن میں ترکی، مصر، شام، اُردن، سعودی عرب، عراق، کویت اور دوسرے متعدد ملکوں کے متعلق اور ان میں سے بعض کے حکمرانوں کی شخصی زندگیوں کے متعلق اس سے بھی زیادہ سخت مضامین شائع ہوئے ہیں۔ میرے لیے اس وقت جیل میں ان مثالوں کو فراہم کرنا مشکل ہے، لیکن اگر مجھے موقع دیا جائے تو مَیں اصل پرچوں کی کاپیاں پیش کرسکتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ آیا صرف ایران ہی پاکستان کا دوست ملک ہے یا دوسرے ملک بھی ہیں؟ اور اگر یہ دوسرے ملک بھی پاکستان کے دوست ہیں تو ان کے متعلق جو مضامین لکھے گئے تھے، ان پر گرفت نہ کرنے اور ترجمان القرآن پر گرفت کرنے کی کیا معقول وجہ ہے؟ مجھے معلوم ہے کہ ترجمان القرآن  کو اس جرم کی پاداش میں بند کرنے کے بعد ترازو کے پلڑے برابرکرنے کے لیے لائل پور [فیصل آباد] کے ایک اخبار المنبر کو بھی مصر کے خلاف لکھنے کی سزا دی گئی ہے، لیکن اس طرح کے مضامین صرف المنبر ہی میں نہیں نکلے ہیں ۔مَیں اُوپر عرض کرچکا ہوں کہ مَیں دوسرے متعدد اخبارات و رسائل کے کم و بیش پچاس ایسے ہی مضامین پیش کرنے کے لیے حاضر ہوں۔ پھر کیا محض ایک اخبار کے خلاف کارروائی کرنے سے ترازو کے پلڑے برابر ہوجاتے ہیں؟
  • رابعاً،اس مضمون کی اشاعت کی یہ سزا ترجمان القرآن  کو دی جاچکی ہے کہ اسے چھے مہینے کے لیے بند کردیا گیا ہے۔ اب اسی فعل کی سزا مجھے گرفتار اور قید کرنے کی صورت میں دینا انصاف ہے یا جذبۂ انتقام کا اظہار؟
  • خامساً ، ترجمان القرآن  کے مضمون کی اشاعت کی ذمہ داری تنہا مجھ پر ہے۔ مَیں شخصی حیثیت سے اس رسالے کا مالک ہوں۔ جماعت اسلامی کی تشکیل سے بھی پہلے ۹سال سے مَیں اس کو شائع کر رہا تھا۔ اس کے انتظام، ادارت، آمدوخرچ کا کوئی تعلق جماعت اسلامی سے نہیں ہے اور نہ وہ جماعت اسلامی کا کسی معنٰی میں بھی آرگن ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس پرچے میں ایک مضمون شائع ہونے کی ذمہ داری پوری جماعت اسلامی پر عائد کر دینا اور اس کو خلافِ قانون قرار دینے کے علاوہ اس کے پچاس سے زیادہ لیڈروں کو بھی اس گناہ کی پاداش میں قید کردینا، کیا اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ حکومت دراصل جماعت اسلامی کے خلاف خار کھائے بیٹھی تھی، اور ہرطرح کے کردہ و ناکردہ جرائم کا الزام اس پر تھوپ دینے کے لیے تُلی ہوئی تھی۔
  •  سادساً، آپ کو میری اس نیت کا علم کیسے ہوا کہ مَیں نے وہ مضمون پاکستان اور ایران کے تعلقات خراب کرنے کے لیے شائع کیا تھا؟ دُنیا بھر میں یہ قاعدہ ہے کہ جب کوئی حکومت اپنے ملک کے باشندوں پر زیادتی کرتی ہے اور خود ملک کے باشندے اس کی دراز دستیوں کو روکنے سے عاجز رہ جاتے ہیں، تو بیرونی ممالک کی رائے عام کا دبائو اس پر ڈالا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے شہریوں کے ساتھ انصاف کرنے کی ضرورت محسوس کرے۔ ایران کے باشندے ہمارے مسلمان بھائی ہیں اور ہمیں فطری طور پر ان سے ہمدردی ہے۔ میرے علم میں جب ایران اور عراق کے مستند علما کی تحریروں سے یہ بات آئی کہ وہاں یہ ظلم ہورہا ہے، تو مَیں نے اس نیت سے ان کی تحریروں کا خلاصہ شائع کیا کہ ایران کی حکومت پر انصاف کرنے کے لیے اخلاقی اثر ڈالا جاسکے۔ (اسی غرض سے ایران کے ایک دوسرے ہمسایہ ملک عراق کے بھی بااثر لوگوں نے وہ مضامین اور پمفلٹ شائع کیے ہیں، جن کا مَیں نے اُوپر حوالہ دیا ہے)۔ درحقیقت میرے حاشیۂ خیال میں بھی اس مقصد کا کوئی شائبہ نہ تھا کہ مَیں اس ذریعے سے پاکستان اور ایران کے تعلقات خراب کروں، لیکن حکومت نے مجھے مجرم ٹھیرانے کے لیے میرے اس فعل کو اپنی طرف سے بدترین معنی پہنا ڈالے اور میرے ساتھ پوری جماعت اسلامی پر یہ الزام عائد کر دیا (جیساکہ اس کے ۶جنوری کے پریس نوٹ سے واضح ہے) کہ وہ بھی اس بُرے مقصد کی حامل ہے۔ کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ حکومت ہرممکن اقدام ہم پرچسپاں کرنے کے لیے کس قدر بے چین ہے؟

 _______________

مدیر ترجمان کو جن وجوہ کی بنا پر بار بار حوالۂ زنداں کیا جاچکا، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ دست ِ ظلم دراز کرنے والے، اسے سننے والے ، اس ملک کے عوام اور بیرونی دُنیا کا ایک معتدبہ طبقہ اس دل فگار داستان کی ایک ایک کڑی سے پوری طرح واقف ہے اور اُن اسباب پر بھی اچھی طرح نظر رکھتا ہے جس کے نتیجے میں یہ سب کچھ ظہور میں آرہا ہے اور آیندہ جس کے آنے کی توقع ہے۔

ان حالات میں ہم منعمِ حقیقی کی بارگاہ میں سراپا سپاس ہیں کہ اس نے ہم جیسے کمزور اور ناتواں افراد کو جن کے پاس علم و عمل کی کوئی پونجی نہیں ایک ایسی آواز کو بلند کرنے کی توفیق عطا فرمائی، جو مختلف اَدوار میں اللہ تعالیٰ کے انبیا علیہم السلام نے بلند کی تھی اور جسے خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے دُنیا سے تشریف لے جانے کے بعد اُمت کے اَئمہ اور صلحاء نے بڑی دلسوزی اور جرأت مندی کے ساتھ ہرعہد میں بلند کیا تھا۔

ہماری آواز اگرچہ نحیف ہے، لیکن ہمارا دل اس بات پر پوری طرح مطمئن ہے کہ یہ آواز بہرحال وہی ہے، جس کے بلند ہونے کے ساتھ ہی ظلم و استبداد کے ایوانوں میں کھلبلی مچ جاتی ہے۔ جہالت، تنگ نظری، تعصب، خود غرضی کی قوتیں بوکھلا اُٹھتی ہیں، اور وہ سب مل کر اسے دبانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس قسم کے نامساعد حالات میں جب ملک کے پورے ذرائع و وسائل ایک نہایت ہی مختصر طبقے کے ہاتھ میں ہوں، اور وہ اقتدار کے نشے میں اس حد تک بہک چکا ہو کہ کسی معقول سے معقول بات کے سننے سے بھی اُسے ضد اور چڑ پیدا ہوتی ہو، انسان سوائے کارسازِ مطلق کے اور کس ذات پر بھروسا کرسکتا ہے؟ بِسْمِ اللہِ  تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہِ  اَللّٰھُمَّ  اِنَّـا  نَعُوْذُبِکَ     مِنْ  اَنْ  نَضِلَّ  اَوْ نُضَلَّ  اَوْ نَظْلِمَ  اَوْ  نُظْلَمَ  اَوْ  نَجْھَلَ  اَوْ   یُجْھَلَ عَلَیْنَا-

ترجمان اور مدیر ترجمان کے ساتھ اس سلوک پر ہم کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے ، البتہ ہم اتنی بات عرض کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ کوئی اتفاقی حادثہ نہ تھا بلکہ جو کچھ ہوا ہے وہ عین توقع کے مطابق ہوا ہے۔ جب ملک کے سیاسی اُفق پر تاریک گھٹائیں چھا جائیں تو ان کے دامن سے بجلیوں کا گرنا کوئی غیرمتوقع عمل نہیں ہوتا، بلکہ اس کے سوا اگر کوئی دوسری صورت پیدا ہوجائے  تو البتہ تعجب کا موجب ہوسکتی ہے۔ ترجمان القرآن   جس نصب العین کی طرف مسلمانوں کو بڑھنے کی دعوت دے رہا ہے، یہ سب اُس راہ کے سنگ میل ہیں جن سے آخری منزل کا پتہ چلتا ہے۔ 

یہاں ہم پھر ایک بار اس امرکی وضاحت کر دینا چاہتے ہیں کہ ترجمان القرآن  کوئی تجارتی پرچہ نہیں ہے کہ جس کی پالیسی مادّی نفع و نقصان کے میزانیوں کے مطابق متعین ہوتی ہو۔ ہمارے نزدیک مالی سُود و زیاں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ ہمارے لیے فیصلہ کن چیز صرف ایک ہے کہ کسی طرزِفکر اور کسی طرزِ عمل کے اختیار کرنے میں ہم اپنے خالق و مالک کی کس حد تک رضاجوئی حاصل کررہے ہیں؟ اپنے آقا و مولا کی خوش نودی ہمارا منتہائے مقصود ہے۔ اگر ہمارے کسی کام سے ہمارا فرماںروائے حقیقی ہم سے خوش ہوتا ہے تو ہمیں اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ غرض کے بندے اُس کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، یا اقتدار کی جبینوں پر کس انداز کے شکن پڑتے ہیں۔ ہمیں اگر فکر ہے تو خالق کی ناراضی کی۔ کیونکہ اس کی ناراضی ہمارے لیے دُنیا و آخرت اور آخرت میں بربادی اور نامرادی کا حکم رکھتی ہے۔ اُس کی نگاہِ التفات ہٹ جانے کے بعد ہماری قسمت میں سوائے محرومی کے اور کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔

باقی رہا دُنیاوی ’اقتدار‘ کا غیظ و غضب تو اُس کی ہمیں قطعاً کوئی پروا نہیں ہے۔ ہم ہرقسم کی آزمایش کے لیے مالک ِ حقیقی سے پناہ مانگتے ہیں۔ اس کے لیے ہم دعوت نہیں دیتے، لیکن اس بات سے پوری طرح واقف ہیں کہ دُنیا میں سب سے کمزور اگر کوئی چیز ہے تو وہ اقتدار ہے۔

بیت ِعنکبوت بھی اپنی کوئی بنیاد رکھتا ہے ،لیکن اقتدار کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔

’’سرمئی علاقے (Grey Area) میں آپ کا استقبال ہے!‘‘ جب میں اپنے طلبہ کو سیاسی اخلاقیات یا بین الاقوامی تعلقات کی اخلاقیات کا مضمون پڑھانا شروع کرتا ہوں، تو انھیں اس جملے سے خوش آمدید کہتا ہوں۔ جب طلبہ پوچھتے ہیں: ’’سرمئی علاقہ کون سا ہے؟‘‘ تو جواب دیتا ہوں کہ ’’سیاسی عمل کا علاقہ عام طور سے سرمئی علاقہ ہوا کرتا ہے‘‘۔ 

ذہن میں اٹھنے والے ’مجرد مثالی خیالات‘ کو ٹھوس سیاسی عمل نہیں کہتے ہیں۔ سیاسی عمل تو ’خیال‘ کو ’یقینی‘ بنانے کا وہ فن ہے، جس میں ’مشترک علاقے‘ (Common Areas) وجود میں لائے جاتے ہیں اور زمان و مکان کی مساواتوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ سیاسی عمل مشترک علاقوں کے ذریعے ہی نتیجہ خیز ہوسکتا ہے، خواہ یہ اندرون میں ایک ملک کے شہریوں کے ساتھ ہو یا بیرون ملک، دوسرے ملکوں اور اداروں کے ساتھ ہو۔ بہت سے مواقع پر مشترک علاقوں کی تشکیل کے لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ناپسندیدہ چیزوں سے آنکھیں بند کرلی جائیں،ایک مخالف کے ساتھ مل کر دوسرے مخالف کے خلاف گٹھ جوڑ بنایا جائے اور کسی دشمن کے خلاف کسی دوسرے دشمن سے مدد لی جائے۔

’مشترک سیاسی میدانوں‘ کی تشکیل ایک دین، ایک مسلک یا ایک متفق علیہ نظریے کی حدوں تک محصور نہیں رہتی ہے، کیوں کہ اس پر حکمرانی ’معتبر مصالح مرسلہ‘ کے اسلامی قانون کی ہوتی ہے۔ یہ قانون شرطوں سے بوجھل نہیں ہوتا ہے، اس میں صرف اخلاق و مصالح کے ضوابط کی پابندی ضروری ہوتی ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میدان میں ہمارے لیے رہنما سیاسی اصول مقرر کیے ہیں۔ آپؐ نے قریش کے مشرکین کے ظلم و استبداد سے بچنے کے لیے ایمان نہ لانے والے قریش مکہ ہی سے اپنے چچا ابوطالب کے مقام و منصب میں پناہ لی۔ اپنے ساتھیوں کو حبشہ کے عیسائی بادشاہ کے پاس بھیجا تاکہ مکہ کے کافروں کے مظالم سے نجات پانے کے لیے وہ اس کے یہاں پناہ گزین ہوجائیں۔ عبداللہ بن اریقط کو اپنے سفر ہجرت میں گائیڈ کے طور پر ساتھ لیا، ’’اس وقت وہ اپنی قوم کے مذہب کے مطابق مشرک تھے‘‘۔ (صحیح بخاری)

 مکہ کے مشرکوں کے مقابلے میں آپ نے مطعم بن عدی کی امان حاصل کی۔ مشرک سردار صفوان بن امیہ سے ہتھیار مستعار لیے اور مقامِ حنین میں قبیلہ ہوازن کے مشرکین کے ساتھ جنگ میں انھیں استعمال کیا۔ ابوسفیان کی قیادت میں مشرکین کی فوج کے خلاف نفسیاتی جنگ کی خاطر مشرک شاعر معبد بن ابی معبد کی صلاحیت اور ابلاغی قوت کو استعمال کیا۔ قبیلہ خزاعہ کے دورِ جاہلیت میں بنو ہاشم کے ساتھ قدیم تعلقات تھے، اسے بنیاد بناکر اس قبیلے کے ساتھ معاہدہ کیا اور اسے اپنا حلیف بنایا۔ اس وقت وہ قبیلہ مسلمان اور مشرک دونوں پر مشتمل تھا: ’’تہامہ کے علاقے میں خزاعہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خیرخواہ قبیلہ تھا‘‘۔ (سیرت ابن ہشام)

کامیابی کی تین شرطیں

دوسروں کے ساتھ مل کر مشترک علاقے تشکیل دینا ایک ایسی ضرورت ہے، جس سے عملی سیاست میں کوئی مفر نہیں۔ اس سے وسائل کو بتدریج لگانا، معرکے کے میدان کو چھوٹے سے چھوٹا کرنا، اور دُور تک پھیلے ہوئے محاذوں پر وسائل لگانے سے بچنا ممکن ہوجاتا ہے۔ یاد رکھیے، جو شخص ’مشترک میدان‘ تشکیل نہیں دے سکتا ہے، وہ عملی سیاست کے شعور کا پوری طرح ادراک نہیں رکھتا۔ یہ بات تو ممکن ہے کہ وہ بلاغت سے بھرپور واعظ یا شعلہ نوا مقرر، تخلیقیت سے آراستہ مصنف اور شاعر اور اپنے تجریدی خیالات میں منہمک فلسفی تو بن جائے، لیکن وہ ہرگز ہرگز سیاسی میدانِ عمل کا شہ سوار نہیں بن سکتا۔ کیوں کہ عملی سیاست میں وہ چیز درکار ہوتی ہے جسے الجیریا کے مفکر مالک بن نبی [۱۹۰۵ء- ۱۹۷۳ء]نے ’عملی منطق‘ (Practical Logic)کا نام دیا ہے۔   

عملی سیاست میں کامیابی، اور اس کے لیے لازمی طور پر دوسروں کے ساتھ ’مشترک محاذوں‘ کی تشکیل کے تین لازمی تقاضے ہیں: 

  • پہلا تقاضا: جسے امریکا کے سیاسی مفکر جوزف نائے ( Joseph Nye) نے ’سیاق فہمی‘ (Contextual Intelligence) کا نام دیا ہے، یعنی زمان و مکان اور امکان کے متعلقات کو پورے طور پر سمجھنے کی صلاحیت، اور ان پر مبنی ترجیحات کی ترتیب، فرائض کا فرق اور ذمہ داریوں کے مراتب کا ادراک۔ سیاقی ذہانت کی پہلی علامت یہ ہے کہ ہر محاذ کے لوگوں کو ان کے خاص محاذ پر ان کی متعین ذمہ داری کا شعور ہو۔ اس محاذ پر اپنا فرض ادا کرنے کے لیے وہ فعال جدوجہد کریں، اور دوسرے محاذوں پر اپنی صلاحیتوں کو بکھیرنے کے وہ کام نہ کریں، جن کی ذمہ داری اللہ نے ان پر نہیں ڈالی ہے اور جہاں ان کی کوشش کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے، بلکہ دوسرے محاذوں پر جاکر اپنی محنت صرف کرنے کا انجام یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی اپنی متعینہ ذمہ داری کو نقصان پہنچے اور دوسرے محاذوں پر ڈٹے ہوئے ان کے بھائیوں کو کوئی فائدہ نہ ہو۔ 

دوسرا تقاضا: اسٹرے ٹیجک حِس (Strategic Sense): اسلامی روایت میں لفظ ’حکمت‘ کے مفہوم کا یہ معاصر مترادف ہے۔ اگر قدیم زمانے میں ’حکمت‘ کی تعریف کی گئی تھی ’’چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھنا‘‘، تو آج ’اسٹرے ٹیجک حِس‘ کی تعریف یہ کی جاسکتی ہے: ’’وسائل کو اس کی صحیح جگہ کام میں لانا‘‘، ’’مطلوب مقاصد کو کم سے کم قیمت اور مختصر ترین راستے سے حاصل کرنا‘‘، یا ’’کم از کم قربانیوں اور ثمرات کے درمیان توازن کا ہونا‘‘۔ ہاں، اگر یہ حقیقت سامنے آئے کہ قربانیاں بہت بڑی اور ثمرات بہت معمولی ہیں، جیسا کہ ہمارے دور کے بیش تر سیاسی اور عسکری تجربات کا حال رہا ہے، تو یہ واضح ثبوت ہے اس بات کا کہ ہماری ’اسٹرے ٹیجک حِس‘ میں کوئی خلل پایا جاتا ہے۔ 

  • تیسرا تقاضا: گردوپیش کے علاقائی اور بین الاقوامی ماحول کا فہم ہے۔ یہ فہم انقلابی کوششوں اور آزادی کی تحریکوں کا اس پہلو سے مددگار ہوتا ہے کہ وہ اپنے مشن سے ہم آہنگ سیاق (context)میں خود کو رکھ سکیں۔ علاقائی اور بین الاقوامی ماحول کا فہم نہ ہونے کی صورت میں اندیشہ رہتا ہے کہ وہ ایسے معرکے چھیڑ دیں جن کا ابھی وقت نہیں آیا، یا جن کا وقت گزر چکا ہے، یا وہ مشترک علاقوں کے صحیح استعمال میں ناکام ہوجائیں۔ اس طرح کہ ان علاقائی قوتوں پر حد سے زیادہ بھروسا کربیٹھیں جو ظاہر کچھ کرتی ہیں مگر اندر کچھ دوسرا ایجنڈا رکھتی ہیں، یا پھر ان بین الاقوامی قوتوں سے دھوکا کھاجائیں جو انقلابیوں کی قوت، صلاحیت، کمٹ منٹ وغیرہ کو اپنے ایجنڈے کا آلۂ کار بنانا چاہتی ہیں، اور جن کی اسٹرے ٹیجی یہ ہوتی ہے کہ ایسے سادہ لوح ’انقلابیوں‘ کو اپنا آلۂ کار بناکر دوسرے ملکوں کو خانہ جنگی اور انارکی کی آگ میں جھونک دیں اور ان کے عوام کو عزت اور آزادی سے کبھی ہم کنار نہ ہونے دیں۔ 

’عمل کے مشترک میدانوں‘ کی تشکیل کا کام اس وقت بے حد مشکل ہوجاتا ہے جب کئی محاذ کھول لیے جاتے ہیں اور مختلف محاذوں کی سرحدیں ایک دوسرے میں گتھم گتھا ہوجاتی ہیں، جیسی کہ ہماری موجودہ صورت حال ہے۔ اُمت کا جسم زخموں سے چُور ہے اور دل چھید چھید ہوگیا ہے۔ اس طرح کے دھواں دار منظر نامے میں ہوسکتا ہے کہ تمھارا مددگار وہ ہو جو تمھارے بھائی کی گردن پر چھری چلا رہا ہے اور اس کا مددگار وہ ہو جو تمھاری شہ رگ پر چھری چلا رہا ہے۔ اس صورت حال میں ان رہروؤں کے لیے اپنی راہوں کا تعین حیران کن ہوجاتا ہے، جو ’مشکل سوالوں‘ کا آسان جواب تلاش کرنے کے رسیا ہوتے ہیں۔ وہ سادہ دماغ جو ’سرمئی علاقوں‘ کے ساتھ تعامل کرنے کی مہارت نہیں رکھتے، ان گتھیوں کو لے کر اُلجھتے اور اُلجھتے ہی چلے جاتے ہیں (یہ الگ بات ہے کہ اپنی ان نادانیوں کو بھی بقلم خود ’کامیابیاں‘ قرار دینے پر اصرار بھی کرتے ہیں)۔

مدد دینے اور مدد لینے والوں کے مقاصد

دورِ حاضر کی انقلابی کوششوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کوئی بھی انقلابی کوشش بیرونی مدد اور تعاون سے پاک نہیں رہی۔ ۱۷۷۶ء میں امریکا میں انقلابی تحریک برپا ہوئی، اس کی مدد ملوکیت کے حامل فرانس نے کی، جس کا مقصد برطانوی شہنشاہیت کو زک پہنچانا تھا، جس نے اس سے کچھ ہی سال قبل سات سالہ جنگ (۱۷۵۶ء- ۱۷۶۳ء)میں فرانس کی قوت ضائع کی تھی۔ یہ تاریخ کی معلوم حقیقت ہے کہ آمریت کے دل دادہ شاہ فرانس لوئی شش از دہم (۱۷۵۴ء- ۱۷۹۳ء)نے امریکا کی انقلابی تحریک کی مدد اس کی جمہوری قدروں پر یقین رکھنے کی وجہ سے نہیں کی تھی، وہ تو یورپ کے بادشاہوں میں سب سے زیادہ استبدادی اور فسادی بادشاہ تھا۔ لیکن سیاسی عمل میں اثرات کی اہمیت، مقاصد سے زیادہ اہم ہوجاتی ہے، جب کہ امریکی انقلابیوں کو فرانسیسی مدد کے اثرات سے دلچسپی تھی، انھیں فرانسیسی بادشاہ کے مقاصد سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔

وہ انقلابی تحریکیں جو سیاق فہمی، اسٹرے ٹیجک حس اور گردوپیش کے ماحول کا ادراک رکھتی ہیں، اس بات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کہ مدد کرنے والوں کے مقاصد کیا ہیں؟ وہ بیرونی مدد کے ساتھ حکمت پر مبنی اور عملیت پر مبنی تعامل (interaction)کرسکتی ہیں۔وہ ایک طرف تو ان مبالغہ پسندیوں اور مثالیت پسندیوں سے دور رہتی ہیں جو انھیں بیرونی مدد سے بالاتر باور کرائیں، جب کہ کسی انقلاب کے لیے اس سے بے نیازی ممکن نہیں ہے۔ دوسری طرف وہ مدد کرنے والوں کے جال میں نہیں پھنستی ہیں اور بڑی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان مقاصد کا شکار نہیں ہوتی ہیں، جن کا انقلاب کے مقاصد سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔

انقلابی تحریکوں اور ان کے بین الاقوامی مددگاروں کے درمیان تعلق اسی طرح کا ہوتا ہے جس طرح دو الگ الگ منزلوں کی طرف رواں دواں مسافر راستے کی کچھ مسافت ایک ساتھ طے کرتے ہیں۔ منزل کا الگ الگ ہونا اس میں رکاوٹ نہیں بنتا کہ اتنی دور تک ایک دوسرے کے لیے اچھے رفیقِ سفر ثابت ہوں، البتہ یہ احتیاط ضروری ہے کہ کوئی ایک اپنے حُسنِ سلوک اور میٹھی باتوں سے دل جیت لینے کے بعد غفلت کے کسی انجانے لمحے میں اپنے ساتھی کا رُخ ہی بدل ڈالے۔ راستہ چلتے وجود میں آنے والے اس تعلق کی پیچیدگی کو فلسفی شاعر علامہ اقبال نے بڑے بلیغ انداز سے بیان کیا ہے:

میں اپنی راہ میں ہر رہرو کے ساتھ چلتا ہوں اور اسے اپنی راہ کا کچھ حصہ دیتا ہوں۔

میں راستے میں کسی کو راہبر نہیں پاتا ہوں، جو منزل تک میرا ساتھ دینے کے لیے آمادہ ہو۔

انقلابی تحریکوں اور قومی آزادی کی تحریکوں کو بیرون سے مدد کرنے والے بیش تر حالات میں ایمان واخلاص کے جذبے سے مدد نہیں کرتے ہیں، بلکہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے مدد کرتے ہیں جو کہ ان خاص حالات میں ان تحریکوں کے مفاد سے وقتی طور پر ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے طویل تر مقاصد انقلابیوں کے حقیقی مقصد کی ضد ہوں۔ اس مدد کا محرک زیادہ تر تو اپنے حریفوں کو نقصان پہنچانا ہی ہوتا ہے، انقلابیوں کی کامیابی نہیں ہوتا۔

چند مثالیں

اس ضمن میں ’مدد لینے اور مدد دینے والوں‘ کی حکمت عملی کے حوالے سے چند مثالیں درج ذیل ہیں:

  • جب کمیونزم کے عالمی رہنماؤں (ماؤزے تنگ، خروشیف، مارشل ٹيٹو، ہوچی منہہ) نے الجیریا کی عظیم انقلابی تحریک (۱۹۵۴ء- ۱۹۶۲ء)کی پانچویں اور چھٹی دہائیوں میں مدد کی، تو وہ ایمان و اخلاص کے جذبے کے تحت نہیں تھی اور نہ فرانس سے آزاد ہونے کے اس کے حق کی خاطر تھی۔ اس کا مقصد مغربی محاذ کو زک پہنچانا تھا اور اسے مشغول کرنا اور کم زور کرنا تھا۔ اس وقت، جب کہ مشرق کی ’اشتراکیت‘ (Communism) اور مغرب کی ’سرمایہ داریت (Capitalism) کے درمیان ’سرد جنگ‘ (Cold War) اپنے عروج پر تھی۔
  • اسی طرح جب امریکا نے آٹھویں دہائی میں افغان مجاہدین کی مدد کے لیے ’آپریشن سائیکلون‘ (Operation Cyclon ) کے نام سے آپریشن شروع کیا تو وہ بھی ایمان و اخلاص کے جذبے سے نہیں تھا، نہ افغانیوں کے حقِ آزادی اور اسلامی ریاست کے قیام میں مدد کرنا پیش نظر تھا، بلکہ بوڑھی ہوتی کمیونسٹ سلطنت کو کم زور کرنے کے اس تاریخی موقعے کو استعمال کرنا پیش نظر تھا۔ غیور افغانی قوم کے ہاتھوں، افغانستان کی سنگلاخ زمین میں، جو حملہ آوروں کے لشکروں کو خاک چٹاتی رہی ہے، یہاں تک کہ مؤرخین نے اسے سلطنتوں کا قبرستان قرار دے دیا۔
  • جب امریکا نے شام میں حکمران طبقے کے مخالف انقلابیوں کی مال اور ہتھیار سے مدد کی اور اسے Timber Sycamore آپریشن کا نام دیا، تو اس وقت بھی ایمان واخلاص کی وجہ سے نہیں، نہ شام کی انقلابی تحریک کی نصرت کے لیے اور نہ عرب کی انقلابی تحریکوں کی حوصلہ افزائی کے لیے۔ اس کا مقصد بس یہ تھا کہ شامی قوم کی شجاعت میں سرمایہ کاری کرکے ’آگ لگانے‘ کی اپنی اس اسٹرے ٹیجی کو نافذ کرسکے، جو صہیونی ریاست کے پڑوسی عرب ممالک میں وہ اختیار کیا کرتا ہے۔ مزید یہ کہ کسی امریکی کے خون کا تاوان ادا کیے بغیر ’داعش‘ کی دہشت گردی سے چھٹکارا بھی پاسکے۔
  • آج جب ایرانی حکومت، اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کی مدد کررہی ہے، تو اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ مزاحمت اس آتشیں طوق کا اہم حصہ ہے، جس سے ایران، اسرائیل کو گھیرے ہوئے ہے اور اس کے ذریعے خود اپنی حفاظت کرتا ہے، تاکہ اپنی سرحدوں سے بہت دُور صہیونی ریاست کو مصروف رکھے، یہاں تک کہ اپنے ایٹمی منصوبے کی تکمیل کرلے۔ اگر حماس، عیسائی یا کمیونسٹ تحریک ہوتی تو بھی ایران کے لیے اس کی اسٹرے ٹیجک اہمیت کم نہ ہوتی۔ 

 ایسا بہت مرتبہ ہوتا ہے کہ انقلابی تحریکوں اور ان کے بیرونی مددگاروں کے درمیان تعلق و ربط کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، ایسی صورت میں، جب کہ مددگار ملک کے مقاصد مدد پانے والے کے مقاصد کی تکمیل سے پہلے تکمیل پاجاتے ہیں۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیرونی مددگار اس انقلابی تحریک کے مقاصد کا دشمن ہوتا ہے جس کی وہ مدد کررہا ہوتا ہے۔ ایسے میں وہ اپنے حریفوں کو نقصان پہنچانے کے لیے وقتی طور پر اس کی مدد کرتا ہے۔ دوسری طرف ساتھ ہی ساتھ انقلابی تحریک کو اندر سے سبوتاژ کرنے کے لیے خفیہ کوششیں بھی کرتا ہے۔ مالی اور عسکری امداد انقلابی تحریکوں کے سفر پر کنٹرول کرنے اور انھیں اندر سے تباہ کردینے کا سب سے زیادہ مؤثر ذریعہ ہیں۔ انقلابی تحریکوں اور قومی آزادی کی تحریکوں کے ساتھ تعامل کرنے کا یہ ایک خبیث طریقہ ہے، جس میں مغربی طاقتیں بڑی مہارت رکھتی ہیں، جب کہ اس حوالے سے مشرقی قوتیں دورُخے پن اور منافقت میں ان سے کم تر ہیں۔ 

  • جب افغانستان میں امریکی اہداف پورے ہوگئے، کمیونسٹ روسی سلطنت کی فوج نے پسپائی اختیار کی اور اس سلطنت کے بکھرنے کا آغاز ہوا، تو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر امریکا نے افغان مجاہدین کے خلاف پوزیشن سنبھال لی اور ان کے عرب حلیفوں کا ہر جگہ پیچھا کیا اور انھیں ’دہشت گرد تنظیموں‘ کی فہرست میں شامل کردیا۔ اسی طرح جب امریکا کے اہداف شام میں پورے ہوگئے، ملک شام تباہ و برباد ہوگیا اور اسرائیل کے ساتھ معرکہ آرائی کے امکان سے باہر ہوگیا، تو پھر ’داعش‘ بھی بکھر کر قصۂ پارینہ بن گئی۔ امریکا اور اس کے مخلص پیروکاروں نے شام کی انقلابی تحریکوں کی مدد سے ہاتھ اُٹھالیا اور شام کے عوام کو بشار الاسد کی ریاستی درندگی کے سامنے بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔

بلکہ بعض عرب حکام جنھوں نے امریکی چھتری کے نیچے شام کی انقلابی تحریکوں کی مال اور ہتھیار سے مدد کی تھی، ایک لمحہ ضائع کیے بغیر حالیہ برسوں میں بشار الاسد کی پوزیشن بحال کرنے اور اس کے ظالمانہ اقتدار کو جواز دینے میں لگ گئے۔ عرب لیگ کی چوٹی کی کانفرنسوں میں اسے دعوت دے کر انھوں نے کھلا ثبوت پیش کردیا کہ وہ اپنا کوئی ’اسٹرے ٹیجک‘ فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں، بلکہ وہ امریکی ہاتھوں میں معمولی درجے کے حقیر کھلونے ہیں۔ امریکا اپنے جہنمی نظریے ’جنگ کو ایک موقع دیا جائے‘ کو نافذ کرنے میں انھیں استعمال کرتا ہے۔ اس نظریے کی غرض و غایت ملکوں کو شکست و ریخت سے دوچار کرنا ہوتا ہے۔

انقلابی تحریکیں اور وقتی حکمت عملی

افغان مجاہدین، کمیونسٹ روس کے خلاف جنگ کو اپنے وجود کی جنگ سمجھ کر لڑ رہے تھے، اور حقیقت میں وہ تھی بھی اور اس کے نتائج کو افغانی قوم کے و جود و عدم سے جوڑ کر دیکھ رہے تھے، مگر وہیں امریکا اور اس کے مخلص پیروکار اس میں اپنی چال چلنے کا سنہری موقع دیکھ رہے تھے۔ ان کے نزدیک روس کو کم زور کرنے کے لیے یہ افغان مجاہدین کو کچھ وقت کے لیے استعمال کرنے کا ایک نایاب موقع تھا۔ اس جنگ میں جو افغانی خون کا دریا بہتا رہا، ان مدد کرنے والوں کی نظر میں اس کی یہ قیمت نہیں بنتی تھی کہ اس کے بدلے افغانیوں کو آزادی، اسلامی قدریں، استحکام اور خودمختاری حاصل ہو۔ دوسری طرف یہی وہ مقاصد تھے جن کے حصول کے لیے افغانیوں نے مردانگی کے ساتھ یہ جنگ لڑی تھی۔

شام کی انقلابی اسلامی تحریکوں نے بھی بشار الاسد کے خلاف جنگ کو اپنی بقا کی جنگ سمجھا تھا اور بلاشبہہ وہ تھی بھی ایسی ہی، لیکن امریکیوں کے نزدیک وہ ایک موقع تھا جس میں شام کے انقلابیوں کا وقتی استعمال کرنا تھا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اسرائیل کے ایک سرحدی عرب ملک کو تباہ و برباد کردیا جائے، امریکی خون کی ادائیگی کے بغیر داعش کی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ تاہم، شام کی اسلامی انقلابی تحریک اور قوم چاہتی تھی کہ اسے خود اپنے ملک میں آزادی اور عزت کی زندگی حاصل ہو اور اسے اس خوں خوار فرقہ پرست نظام سے نجات ملے، جو اس کے اُوپر نصف صدی سے مسلط ہے۔

 عرب دُنیا میں سیاسی آزادی اور اسٹرے ٹیجکل خود مختاری کا مطلب ہے صہیونی ریاست کے گردوپیش کے اسٹرے ٹیجک ماحول میں بڑی تبدیلی۔ یہ وہ نہایت سنجیدہ سرخ لائن ہے جسے پارکرنے کی امریکا ہرگز اجازت نہیں دے سکتا۔ جب کہ دیگر باتیں تو محض واہمہ ہیں جن کا ذکر امریکی صدر باراک اوباما نے عرب سماعتوں اور ریاستوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے کیا تھا جیسے یہ بات کہ ’’بشار الاسد شامی قوم کے خلاف کیمیاوی اسلحوں کا استعمال کرسکتا ہے‘‘۔

 اوسلو کے دو ادارے ہیں: ’پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اوسلو‘ اور ’نارویجین انسٹی ٹیوٹ آف فارن افیئرز‘۔ ان سے وابستہ دو محققین سیلویک (Selvik ) اور رولینڈسین (Rolandsen) نے ۲۰۲۰ءمیں ایک مشترکہ اکیڈمک تحقیق شائع کرائی، اس کا عنوان ہے، Disposable Rebels یعنی ایسے ’باغی جو وقتی استعمال‘ کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ مقالہ ایک نمونے کا مطالعہ ہوسکتا ہے یہ جاننے کے لیے کہ مدد کرنے والوں اور مدد پانے والوں کے مقاصد کے درمیان کتنا بڑا فاصلہ ہوتا ہے۔ اس مقالے کا عنوان ہماری معاصر تاریخ کی متعدد سیاسی قوتوں اور ملکوں پر صادق آتا ہے۔ چونکہ اس وقت دیکھا جائے تو ہم ایک ایسی قوم ہیں جو انفعالیت (passive) کا کردار پسند کرتی ہے اور طویل عرصہ ہوا فاعلیت (active)کے کردار سے دست بردار ہوچکی ہے۔ اس لیے ہمارے یہاں بے شمار حکمران، سیاسی قوتیں بلکہ ریاستیں تک وقتی استعمال کے لیے بروئے کار آتی رہی ہیں، بلکہ ابھی تک!

اس مقالے کے اہم نتائج میں لکھا ہے کہ شام کی انقلابی تحریکوں کے لیے امریکی مدد اس امر کی مثال ہے کہ مدد کرنے والے اور مدد پانے والے کے مقاصد الگ الگ ہوسکتے ہیں اور یہ کہ سیاسی اور عسکری حلیفوں کے درمیان یہ چیز معمولی اور فطری ہے۔ یہ مدد جنگ جاری رکھنے کی بھی ایک مثال ہے، جس کا مقصد امریکا کی خارجی سیاست کے اہداف کا حصول تھا۔ یہ چیز امریکی اسٹرے ٹیجی میں کوئی نئی نہیں ہے۔ اس مقالے میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ’’یہ مدد خالص طور پر امریکی اہداف کی خاطر تھی۔ شام کے انقلاب کی کامیابی سے اس کا کچھ بھی لینا دینا نہیں تھا‘‘۔ امریکی اہداف یہ تھے:

            ۱-         تمام متحارب فریقوں پر کنٹرول اور کسی فریق کو دوسرے پر فتح پانے سے روکنا۔

            ۲-         علاقائی سطح پر مدد کرنے والوں کی مدد کی سطح کو کنٹرول کرنا اور شام کے اندر مدد پانے والے فریقوں کے رویے کو قابو میں رکھنا۔

            ۳-         شام اور عراق سے ’داعش‘ کے صفایا کے دوران امریکی خون اور مال کا کم سے کم خرچ کرنا۔

            ۴-         جن ملکوں کے لوگ امریکی افواج کو اپنے یہاں نہیں دیکھنا چاہتے، وہاں کھل کر سامنے نہیں آنا۔

            ۵-         انقلابیوں کو ہتھیاروں کی کھلی خریداری سے روکنا، کیوں کہ اس سے انھیں فیصلے لینے کی اسٹرے ٹیجک خود مختاری حاصل ہوجائے گی۔

            ۶-         انقلابی تحریک کی سیاسی قیادت کو ثانوی درجے میں رکھنا،مگر عسکری گروہوں سے براہِ راست معاملہ کرنا اور اس طرح انقلابیوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنا۔

            ۷-         یقینی بنانا کہ انقلابیوں کو کامیابی کے لیے جتنی مدد کی ضرورت ہے، اس سے کم مدد انھیں ملے اور وہ بھی مدد کرنے والے کے ساتھ وفاداری کی سطح سے مربوط رہے۔

            ۸-         حکومت کے خلاف انقلابیوں کی عسکری کارروائیوں کی مقدار، ان کے رُخ اور نتائج پر کنٹرول رکھنا۔

            ۹-         عسکری مدد کو استعمال کرنے کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کرنا اور عسکری اہداف کے تعیین پر بھی کنٹرول رکھنا۔

            ۱۰-       جنگ کو طویل مدت تک جاری رکھنا، جس میں کوئی غالب اور کوئی مغلوب نہ ہوپائے، تاکہ تمام متحارب فریقوں کو مسلسل نقصان پہنچاتے ہوئے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا جائے۔

دونوں محققین نے انقلابی تحریکات کو ملنے والی عسکری مدد کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے: ایک مدد اس لیے کہ جس فریق کی مدد کی جارہی ہے اسے فتح حاصل ہوجائے۔ دوسری مدد اس لیے کہ بس وہ فریق باقی رہے، کیوں کہ اس صورت میں مدد کرنے والے کا مقصد تمام فریقوں کو بے جان کرکے، ملکوں کو تباہ اور معاشروں کو تقسیم کرنا ہوتا ہے۔ ان کے الفاظ میں: ’’کبھی باغیوں کی مدد کرنے والے کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ حکمراں طبقہ مسلسل جنگ میں مبتلا رہے اور باغی زندہ رہیں‘‘۔ امریکا نے شام کی اسلامی انقلابی تحریکوں کے ساتھ یہی کیا۔

مستقبل میں جب ایران ایٹمی ہتھیار بنالے گا، جس کے بعد اسے صہیونی ریاست کے خلاف اس آتشیں طوق کی ضرورت نہیں رہے گی، جس سے اس نے صہیونی ریاست کو گھیر رکھا ہے، اور اس طرح متعدد عرب ملکوں کی حرمت پامال کرنے کا بہانہ بھی بناتا ہے، اس وقت ایران کا سیاسی رویہ کیا ہوگا اور فلسطینی مزاحمت کے ساتھ اس کے تعلقات کیسے ہوں گے؟ اس کی پیش گوئی کوئی نہیں کرسکتا ہے۔ بہرحال، اگر مدد کرنے والے کے مقاصد مدد پانے والے کے مقاصد کی تکمیل سے پہلے تکمیل پاجائیں، تو زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ دونوں کے تعلقات میں تبدیلی ہوجائے جو مدد پانے والے کے مفاد میں نہ ہو۔

اس بات سے انکار نہیں ہے کہ ایران کے ایٹمی طاقت بن جانے سے فلسطینی مسئلے کو ضمنی طور پر فائدہ ہوگا۔ اہم ترین اثر تو نفسیاتی ہوگا، وہ یہ کہ جب علاقے میں صہیونیوں کی ایٹمی اجارہ داری ٹوٹے گی، تو ایٹمی دوڑ کی دہشت کے نتیجے میں وہ صہیونی معاشرہ جو مختلف انسانی گروہوں کا نادرست مرکب ہے، امید ہے کہ ٹوٹ پھوٹ کر دنیا کے کونوں میں بکھرجائے گا۔ اس مطالعے سے میرا مقصود یہ ہے کہ فلسطینی تحریک مزاحمت کو ابھی سے منصوبہ بندی کرنی چاہیے کہ ایران کے ایٹمی منصوبے کی تکمیل کے بعد وہ اپنا سفر نئے ہم سفروں کی رفاقت میں کیسے جاری رکھے گی؟ اُس وقت ایران اپنے اسٹرے ٹیجک عقائد پر نظر ثانی کرے گا، اور دنیا کا اس کے سلسلے میں نقطۂ نظر بنیادی تبدیلیوں سے دوچار ہوگا، خود عالمی طاقتوں بشمول امریکا کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کی ضرورت پیش آئے گی۔  

ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے یہ جواز نہیں نکلتا ہے کہ ہم افغان مجاہدوں، شام کے انقلابیوں یا فلسطین کے مزاحمت کاروں کو ملامت کریں کہ انھوں نے ایسے مددگارو ںکی مدد کیوں قبول کی؟ حقیقت یہ ہے کہ ڈوبنے والے کے ہاتھ ایک تنکا بھی آجائے تو وہ چھوڑتا نہیں ہے، اسی طرح جن کی جانیں ارزاں مان لی گئیں اور انھیں ان کے گھروں سے ناحق نکال دیا گیا، ان کے سامنے بیرون سے مالی، سیاسی اور عسکری مدد قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے۔ 

اصل سوال یہ ہے کہ مدد کرنے والوں کے ساتھ تعلقات کے دوران ان کے خفیہ مقاصد اور اسٹرے ٹیجک اہداف سے آگہی ہو۔ ان کے ساتھ سادہ دلی اور حُسن نیت کے ساتھ معاملہ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ کوشش کی جائے کہ انھیں اپنے میدانوں اور اپنے مقصد سے قریب لایا جائے، ہوشیار رہا جائے کہ وہ اپنے میدانوں اور مقصد کی طرف کھینچ کر نہ لے جائیں۔ ساتھ ہی تعلقات میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کے لیے تیار رہا جائے، خاص طور سے اگر مددگار کے اہداف آپ کے اہداف کی تکمیل سے پورے تکمیل پاگئے ہوں۔

 زیربحث موضوع کے حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ جب محاذ کئی ایک ہوں اور ہرمحاذ کے حالات جداگانہ ہوں تو مدد کے حوالے سے پختگی اور معروضیت ضروری ہوتی ہے۔ یہ لازم ہوتا ہے کہ ذمہ دار افراد، دیگر محاذوں پر ڈٹے ہوئے لوگوں کے معاملے میں انصاف کا دامن تھامے رہیں۔ اب یہ تو انصاف کی بات نہیں ہے کہ میں خود تو رخصت پر عمل کرکے اپنے بھائی کے دشمن سے سیاسی اور عسکری مدد حاصل کروں، پھر اپنے بھائی کو ملامت کروں کہ اس نے میرے دشمن سے مدد کیوں قبول کی؟ یہ بات بھی اہم ہے کہ مقامی فعالیت (activism)پر عمومی حمایت سے زیادہ توجہ مرکوز کی جائے۔ نصرت کے کئی ایک محاذ کھل جائیں اور بند راستے میں اِدھر اُدھر بہت سے رخنے پیدا ہوجائیں، تو امت کو زیادہ فائدہ ہوگا اور اس کی امیدوں کو زیادہ جِلا ملے گی۔ اس کے مقابلے میں کہ دور سے جذباتی اور زبانی حمایت کی جائے اور زمین پر اس کا کوئی واقعی اثر نہ ہو۔

الجیریا کے انقلاب کا سبق

 الجیریا کے عظیم انقلاب کی تاریخ (۱۹۵۴ء- ۱۹۶۲ء) اس حوالے سے اپنے اندر قیمتی نصیحت رکھتی ہے۔ جب الجیریا میں انقلابی تحریک برپا ہوئی، –یاد رہے کہ وہ ہماری معاصر تاریخ کا عظیم ترین مجاہدانہ تجربہ تھا۔ اس وقت الجیریا کے انقلابیوں نے بالکل ابتدائی سفارتی سرگرمیوں کے تحت ویت نام کا تاریخی دورہ وہاں کے کمیونسٹ رہنما ’ہوچی منہہ‘ کی دعوت پر اور چین کا دورہ وہاں کے کمیونسٹ رہنما ’ماؤ زے تنگ‘ کی دعوت پر کیا۔ الجیریا کی جلاوطن انقلابی حکومت کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والے تین ملک تھے، جنھوں نے ایک دن کے اندر اسے تسلیم کرلیا تھا: چین، شمالی کوریا اور شمالی ویت نام (اس وقت ویت نام ایک نہیں تھا)۔ اسی طرح یوگوسلاویہ کے کمیونسٹ رہنما جوزف ٹیٹو کا الجیریا کے انقلاب کی عسکری اور سیاسی مدد کرنے والوں میں اہم مقام تھا۔

الجیریا کے انقلابیوں کو سیاق فہمی اور اسٹرے ٹیجکل حس کا بڑا حصہ ملا تھا۔ انھوں نے اپنی انقلابی کوششیں اس وقت برپا کیں، جب کہ ’کمیونسٹ مشرق‘ اور ’کیپٹلسٹ مغرب‘ کے درمیان ’سرد جنگ‘ اپنے عروج پر تھی۔ انھیں ادراک تھا کہ عالمی اقتدار کی اس تقسیم سے انھیں بہت فائدہ ہوگا، کیوں کہ اس وقت جس نے بھی مغربی بالادستی کے خلاف سر اٹھایا مشرقی محاذ کی طرف سے اسے بھر پور مدد ملی، جس کا مقصد مغرب کو زک پہنچانا تھا۔ الجیریا کے انقلابیوں کو فرائض کی درجہ بندی کا فہم تھا کہ ان کی اوّلین شرعی اور انسانی ذمہ داری فرانسیسی استعمار سے الجیریا کی قوم کو آزاد کرانا ہے۔

الجیریا کے انقلابیوں کی اکثریت اسلام دوستوں، روایت پسند قوم پرستوں اور دین دار وطن پسندوں پر مشتمل تھی۔ ان سے یہ بات مخفی نہیں تھی کہ عالمی سطح کے وہ کمیونسٹ رہنما، جو ان کی مدد کررہے تھے، عقیدے کے اعتبار سے وہ دنیا کے شدید ترین ملحدین تھے، اور ساتھ ہی وہ اس زمانے میں مغربی چین، وسطی ایشیا اور بلقان کی ان مسلم اقوام پر ظلم ڈھارہے تھے، جن کی قدیم شان دار اسلامی تاریخ تھی۔ لیکن اُس وقت الجیریا کے انقلابیوں کے بس میں یہ بات نہیں تھی کہ وہ تاجک، ازبک، بوسنیائی یا ایغور مسلمانوں کو کمیونسٹوں کے مظالم سے بچاسکیں، حالانکہ ان کے دلوں میں فطری طور پر ان کے لیے اخوت کے جذبات موجزن تھے۔  

یہ بھی حکمت کے خلاف تھا کہ وہ کمیونسٹ رہنماؤں اور ان کی اسلام دشمنی کے خلاف زبانی بیان بازیاں کرکے اپنے متعین فریضے___ فرانسیسی قبضے سے قوم کی آزادی ___  کو نقصان پہنچاتے۔ یہ بیان بازیاں ان کے دینی بھائیوں کو تو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتی تھیں، مگر ان کے مشن کو ضرور نقصان پہنچاسکتی تھیں۔ متعدد محاذوں کی سمجھ اور ان محاذوں کے ’سرمئی علاقوں‘ کے فہم میں یہ اہم سبق ہے۔ انقلابی تحریک کے لیے یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے اُوپر عائد فرض کو نقصان پہنچائے، اس دلیل کی بناپر کہ وہ اپنے دینی بھائیوں کی مدد کرنا چاہتی ہے حالاں کہ وہ ان کے لیے کچھ نہیں کرسکتی ہے۔ اس کے اپنے مخصوص محاذ پر اس کا فعال کردار، آخری نتیجے کے اعتبار سے اس کے لیے بھی مفید ہوگا اور اس کے دوسرے مظلوم دینی بھائیوں کے لیے بھی۔

الجیریا کے اسلامی انقلابیوں نے ’سرد جنگ‘ کی عالمی تقسیم سے زبردست فائدہ اٹھایا، کمیونسٹ محاذ سے خوب سیاسی اور عسکری مدد بھی حاصل کی، تاہم انھوں نے اس کا پورا خیال رکھا کہ مصلحتوں کے دباؤ میں کمیونسٹ دھارے کے رنگ میں انھیں نہیں رنگ جانا ہے۔ الجیریا کی جلاوطن انقلابی حکومت کے صدر فرحات عباس نے اس مقدمے کو یوں بیان کیا: ’’ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اپنے مسئلے کے حق میں کمیونسٹ اقوام کی ہمدردی حاصل کرنے کا عمل، کمیونسٹ کیمپ سے کسی گہرے رشتے کی صورت اختیار کرلے‘‘۔ اسی حکومت کے وزیر خارجہ کریم بالقاسم نے اسی طرح کی بات کہی: ’’کمیونسٹ روسی اتحاد ہماری جدوجہد آزادی میں ہم سے تعاون کرنا چاہتا ہے، اس لیے ہمیں اس آمادگی سے فائدہ اٹھانا چاہیے، لیکن اپنی طرف سے مستقبل کے لیے کوئی شرط قبول کیے یا کچھ گروی رکھے بغیر‘‘۔

اس وقت یہ بات سوچنا، کہنا اور کرنا کچھ آسان بھی نہیں تھی۔ تاہم، بعض کمیونسٹ عناصر، اسلامی انقلابی تحریک میں سیندھ لگانے میں کامیاب ہوگئے تھے اور اسے اس کی اسلامی ڈگر سے ہٹانے کے درپے تھے۔ تریپولی کانفرنس ۱۹۵۹ء میں یہ چیز اُبھر کر سامنے آئی، لیکن الجیریا کی انقلابی قیادت کے شعور میں پختگی کے نتیجے میں اور پھر اسلامی مدافعانہ قوت کی وجہ سے جو محمدبشیر الابراہیمی (۱۸۸۹ء-۱۹۶۵ء) کی قیادت میں ’الحرکۃ الاصلاحیۃ الجزائریۃ‘ کے علماء نے الجیریائی قوم کے دلوں میں بوئی تھی، مدد دینے والی کمیونسٹ طاقتوں کو انقلاب پر قابو پانے میں کامیابی نہیں ملی۔ 

اشتراکی روس اور چین کے کمیونسٹ رہنماؤں کی تمنا تو یہ تھی کہ الجیریا سے مغربی اثر و رسوخ کا خاتمہ ہو اور اس کی جگہ کمیونسٹ نظام کو مل جائے، تاہم الجیریائی انقلابیوں نے اس تمنا کی پہلی شق سے فائدہ اٹھایا اور دوسری شق کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ انھوں نے کمیونسٹ کیمپ کے ساتھ مشترک علاقہ ایک محدود دائرے میں تشکیل دیا اور وہ تھا مغربی نفوذ کا مقابلہ۔ اس کے بعد وہ اپنی صفوں میں ہر طرح کے کمیونسٹ نفوذ کو روکتے رہے۔ انھوں نے اپنی انقلابی ڈگر کا اسلامی رخ پہلی چنگاری کے پھوٹتے ہی طے کردیا تھا۔ نومبر ۱۹۵۴ء میں ان کی پہلی قرارداد میں یہ صراحت تھی ’’ایک جمہوری سماجی الجیریائی ریاست کا قیام، جو اسلامی اصولوں کے دائرے میں بالادستی کی حامل ہوگی‘‘۔    

 ٹھوس سیاسی عمل کے یہ نشان راہ ہیں: گہرا سیاقی فہم، حساس اسٹرے ٹیجک حِس، گردوپیش کے ماحول کا ادراک، زمان و مکان اور امکان کے مطابق فرائض و واجبات کی درجہ بندی، ہر چیز جو مشن کے لیے مددگار ہو اسے حاصل کرنے کی کوشش، نیز ہر نفع بخش قوت کے ساتھ ’مشترک علاقوں‘ کی تشکیل اور اس کے آخری مقاصد سے قطع نظر اس کے ساتھ راستے کا کچھ حصہ طے کرلینا۔ جب کہ ’خوابوں میں رہنے والی‘ سادہ مزاج سیاست کا حال کچھ اور ہوتا ہے۔ اس کے علَم بردار سمجھتے ہیں کہ وہ ایسے عالم میں سرگرم ہیں جس میں ان کے سوا کوئی اور نہیں رہتا ہے، اس لیے وہ ’مشترک علاقوں‘ کی تشکیل کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتے۔ جب حالات کا جبر اور عملی ضرورتیں انھیں مجبور کردیتی ہیں کہ وہ کسی ناپسندیدہ فریق سے مدد حاصل کریں تو وہ حیرانی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنی ستھری شخصیت اور پاکیزہ سیرت کو اس سے بَری قرار دینے کی کوششیں کرنے لگتے ہیں، حالانکہ اس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ مزید مضحکہ خیز بات یہ کہ انھی کی طرح سے جب دوسرے لوگ رخصت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے کسی ایسے بیرونی فریق سے مدد حاصل کرتے ہیں جو امت کے کسی دوسرے محاذ پر ظلم و زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے، تو یہ بلاجھجک ان کے خلاف بے فائدہ بیان بازی کرتے ہیں اور ان پر الزام دھرتے ہیں کہ انھیں اپنے مظلوم بھائیوں کا خیال نہیں ہے‘‘۔ 

ماضی میں تو یہ ممکن تھا کہ افغان مجاہدین، وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ریگن سے ملاقات کریں، پھر پریس کے سامنے بیان دیں کہ ’’ہم تو اسلام کی دعوت دینے گئے تھے اور کسی بھی طرح کی امریکی مدد کے ملنے سے انکار کردیں، تاکہ سادہ لوح عوام کے سامنے ان کی تصویر محفوظ رہے۔ لیکن ابلاغ رسانی کے موجودہ زمانے میں بہتر یہ ہے کہ اس طرح کے انقلابی بچپنے سے چھٹکارا پایا جائے۔ عملی ذہانت اور اخلاقی انکسار کے ساتھ، کسی ریا کاری یا کٹ حجتی کے بغیر عملی سیاست کو اس کے اصولوں کے مطابق انجام دیا جائے۔ یہاں تک کہ ایک دشمن سے دوسرے دشمن کے خلاف مدد لینا بھی سیاسی عمل میں ایک فطری امر اور اس کے ’سرمئی علاقوں‘ کا اصلی حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ جیساکہ امریکی ادارے RAND کے اسٹرے ٹیجک مفکر البرٹ ووہلسٹیٹر(Albert Wohlstetter) کا کہنا ہے: ’’یہ ضروری نہیں ہے کہ ہمارے اہداف لازمی طور پر ہمارے دشمنوں کے اہداف سے متضاد ہوں‘‘۔

یہ افغان مجاہدین کی مدد کے لیے راولپنڈی اور پشاور کے چیمبر ہوں، یا شامی انقلابیوں کی مدد کے لیے موک (Military Operation Center) اور موم (Musteek Operayson Merkezi) کے چیمبر، ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ سب اسٹرے ٹیجک کمرے ہیں، جہاں سے علاقائی قوتیں عالمی قوتوں کی نیابت میں جنگی کارروائیاں انجام دیتی ہیں۔ اینٹی کرافٹ اسٹینگر میزائل جو آٹھویں دہائی میں امریکا نے افغان مجاہدین کو فراہم کیے اور اینٹی ٹینک ٹاو میزائل جو کچھ سال قبل امریکا نے شامی انقلابیوں کو فراہم کیے تھے، دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ سب امریکی ہتھیار ہیں، جو اللہ کو راضی کرنے کے لیے نہیں دیے جاتے ہیں اور نہ امریکا کے لائسنس کے بغیر بیچے جاتے ہیں۔ نہ تو ماضی میں افغان مجاہدین کے لیے انھیں قبول کرنا عیب کی بات تھی اور نہ موجودہ حالات میں شامی انقلابیوں کے لیے انھیں حاصل کرنا عیب کی بات ہے اور نہ مدد کی کوئی دوسری صورت قابلِ ملامت ہے، اس سے قطع نظر کہ مدد کرنے والوں کی نیتیں کیا ہیں۔ 

ظالم حکمران اور مصلحت پسندی

کچھ لوگ بحث کرسکتے ہیں کہ ’’اصولوں کو ٹکڑوں میں نہیں بانٹا جاسکتا ہے‘‘، یہ درست نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ایک محاذ پر اُس طاقت سے مدد لی جائے جو دوسرے محاذ پر امت سے برسرپیکار ہو اور یہ کہ امت کی وحدت کا لازمی تقاضا ہے کہ معرکے کے تمام محاذ متحد ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف تجریدی سطح پر اصولوں کے ٹکڑے نہیں ہوسکتے، لیکن عملی سطح پر اصولوں کے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ یہ اجزا باہم کش مکش بھی کرتے ہیں اور ان کے درمیان تقدیم و تاخیر، نیز تطبیق کے وقت سیاق کی رعایت بھی ضروری ہوتی ہے۔ سیاسی عمل کو انجام دینے والے کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہوتا ہے کہ باہم دست و گریباں اصولوں اور باہم متضاد مصلحتوں سے کیسے صحیح تعامل کرے؟ اگر معاملات سیاہ اور سفید کی طرح ہوتے تو سیاسی عمل پانی پینے کی طرح آسان ہوتا، لیکن وہ تو کیمیائی فارمولے کی طرح پیچیدہ ہوتا ہے۔

اُمت کی وحدت کے اصول پر ہم ان بحث کرنے والوں کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں، لیکن محاذوں کی وحدت صرف مثالی دنیا میں درست ہوسکتی ہے، یعنی جب امت سیاسی طور پر ایک ہو اور اس کی قانونی ذمہ داری ایک ہو۔ یہ وہ مثالی حالت ہے جس پر یہ حدیث نبویؐ منطبق ہوتی ہے: ’’مسلمانوں کے خون برابر ہوتے ہیں، ان کے کسی عام شخص کی دی ہوئی امان سب کے لیے محترم ہوتی ہے اور وہ دوسروں کے مقابلے میں ایک ہاتھ کی طرح ہیں‘‘ (مسند احمد)۔ ایسے مثالی منظرنامے میں مطلوب اخلاقی سطح کو بلند کیا جاسکتا ہے اور تمام محاذوں پر مصروف لوگوں سے مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ دوسرے محاذ والوں کے ساتھ برابری کا معاملہ کریں یہ مان کر کہ تمام سرحدیں ایک محاذ ہے، اسے وہ ’ولاء وبراء‘ کا اصول بنادیں اور سیاسی تعلقات کو منضبط کرنے کا پیمانہ بنادیں۔

تاہم، موجودہ صورت حال میں، جب کہ امت کا شیرازہ پارہ پارہ ہے اور فرقہ بندی کا دور دورہ ہے، اللہ کی رحمتیں ہو اس پر جو اپنی قدر پہچان لے اور اپنے محاذ پر حسن کارکردگی کے ساتھ ساری توجہ دے۔ تیونس سے اسلامی مفکر راشد غنوشی (اللہ ان کو اسیری اور بے بسی کے کرب سے نجات عطا کرے) ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ’’مسلم امت ایک دن میں پوری دفعتاً زوال کا شکار نہیں ہوئی، بلکہ ایک ایک اینٹ گرتی گئی، اور اس کی تعمیرِ نو بھی اسی طرح ہی ہوگی‘‘۔ اس لیے آج کسی محاذ کے لوگوں کو دوسرے محاذ والوں سے ناحق توقعات نہیں رکھنی چاہییں، بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ ہر محاذ کے لوگ اپنے محاذ اور میدان میں، اپنی عملی سیاست پر عمل کریں، نیز کسی بھی دوسرے محاذ پر اپنے بھائیوں کی کامیابی حاصل کرنے پر خوش ہوتے رہیں، خواہ وہ کامیابی ایسی علاقائی اور عالمی طاقتوں کی مدد لے کر حاصل ہوئی ہو، جن کے مظالم کا دوسرے محاذ والے نشانہ بن رہے ہوں۔

ہماری تاریخ ایسے مسلم امرا سے بھری پڑی ہے، جنھوں نے مسلمانوں پر ظلم ڈھائے اور داخلی سیاسی معرکوں میں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے، پھر انھوں نے ہی سچائی اور شجاعت کے ساتھ کفر کے لشکروں سے مقابلہ کیا جو بیرون سے امت پر حملہ آور ہوئے، اور اُن کے منہ پھیر دیئے۔ امت کے علما نے ان امرا کے مظالم کی مذمت کی، لیکن بیرونی دشمن کے خلاف جہاد میں ان کے ساتھ کھڑے ہونے میں ذرا تردّداور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان ظالم امرا کے ساتھ ان کے کھڑے ہونے کی وجہ ان سے محبت یا ان کی لاقانونیت پر اطمینان نہیں تھا، بلکہ امت کے وجود اور اسلام کے مستقبل کی حفاظت سے پیش نظر تھی۔

 اگر علمائے اسلام ان تضادات کو اس نگاہ سے دیکھتے، جس نگاہ سے موجودہ زمانے کے یہ سادہ لوح اور حجت پسند لوگ دیکھتے ہیں، تو امت پر حملہ آور دشمنوں کے خلاف جہاد نہ کرنے کی دلیل دے کر جہاد موقوف کردیتے کہ ’’جو شخص مسلمانوں کو قتل کرے، یا ان پر ظلم کرے، اس کا دشمن کو دفع کرنا قابل قبول نہیں ہے اور اس کے جہاد اور دفاعِ امت کی تائید نہیں کی جائے گی‘‘۔ لیکن اس کے برعکس علمائے اسلام نے اس کا ادراک کیا کہ اس سلسلے میں اضافی مصلحتوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جائے گا، نیز یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ ’’اس دین کو فاجر شخص اور بے نصیب افراد کے ذریعے بھی قوت عطا کرے گا‘‘، جیسا کہ احادیث میں ذکر ہے۔ مزید برآں یہ واقعاتی حقیقت کہ انسانوں میں بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی رہتی ہے، جن کی سیرتوں میں نیک اعمال اور بُرے اعمال کا اختلاط پایا جاتا ہے۔

اسی لیے علمائے اسلام نے واضح کیا ہے کہ ’’ایسا ہوسکتا ہے کہ مسلمان کچھ لوگوں سے ایک پہلو سے محبت کرے تو دوسرے پہلو سے نفرت کرے، ایک پہلو سے دوست بنائے تو دوسرے پہلو سے دشمنی رکھے‘‘۔ یہ نظریہ امام ابن تیمیہؒ کی تحریروں میں بہت بار ذکر ہوا ہے۔ انھیں بھی بالکل ہمارا جیسا پیچیدہ زمانہ ملا تھا، کہ جب امت کی حرمت پامال کی جارہی تھی، پشت پناہوں اور مددگاروں کی شدید قلت تھی اور کوئی اسلامی علاقہ مسائل سے پاک نہیں تھا۔

 ابن تیمیہ اپنے زمانے میں کتیبۃ الاسلام (اسلامی دستے) کی نصرت کے لیے کوشاں تھے۔ یہ مصر اور شام میں ممالیک کی جواں سال ریاست تھی، جس کے بارے میں انھوں نے لکھا: ’’یہ گروہ جو شام اور مصر میں اس وقت ہے وہ اسلام کا دستہ ہے، اس کی عزت اسلام کی عزت ہے اور اس کی ذلت اسلام کی ذلت ہے۔ اگر تاتاروں نے اس پر قبضہ کرلیا تو اسلام کے لیے نہ عزت بچے گی، نہ کلمہ بلند رہے گا، نہ غالب گروہ، کہ جس سے اہل باطل ڈریں۔ اس لیے ہم ان کی طرف سے جنگ کریں گے‘‘۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ)

غرض اُس زمانے میں، جب کہ اُمت کا شیرازہ بکھر گیا تھا اور وہ ٹکڑوں میں بٹ گئی تھی، مغرب سے صلیبی دشمن حملہ آور تھا اور مشرق سے منگول، اس وقت امام ابن تیمیہ نے اپنے متعین فرض کا ادراک کیا تھا اور وہ تھا اپنے زمان و مکان میں ’اسلامی دستے‘ کی مدد۔ وہ اُمت کو درپیش مختلف مسائل سے ناواقف نہیں تھے، امت کے جسم پر رِستے ہوئے زخموں کی کثرت بھی ان کے سامنے تھی، لیکن انھوں نے اپنا ہاتھ معرکے کے قلب پر رکھ دیا۔ اس وقت معرکے کا قلب جہاں سارے راستے آکر ملتے تھے، اور چیلنجوں اور خطرات کا جہاں ہجوم تھا وہ منگولوں کا حملہ تھا، جو عراق اور شام کو روندتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اگر بیسان کے قریب عین جالوت کے معرکے میں ممالیک کی فوج نے اسے شکست نہ دی ہوتی تو فلسطین کے دروازے سے وہ طوفان مصر پہنچ جاتا۔ غرض وہ فلسطین کا دروازہ تھا، جس کے راستے منگولوں نے آخری جواں سال مسلم طاقت یعنی مصر میں ممالیک کی سلطنت کو کچلنے کی کوشش کی تھی، اور پھر وہ غزہ کا دروازہ ہی تھا جس سے داخل ہوکر برطانوی افواج نے یروشلم کی حرمت کو پامال کیا تھا۔ ۱۹۱۷ء میں جنرل النبی کی قیادت میں یہ فوج مصر کی طرف سے داخل ہوئی اور اس نے وہ زخم دیا، جس سے آج تک خون رس رہا ہے۔

 آج غزہ کے مجاہدین پر امام ابن تیمیہ کا وہی قول صادق آتا ہے، جو انھوں نے مصر اور شام کے لوگوں کے بارے میں فرمایا تھا: ’’ان کی سربلندی اسلام کی سربلندی ہے اور ان کی ذلت اسلام کی ذلت ہے‘‘۔ آج غزہ کے لوگ جس معرکے میں جوہرِ شجاعت دکھارہے ہیں، وہ آنے والی نسل کے لیے اس امت کا مستقبل طے کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا: غلبہ و سربلندی یا شکست و رُسوائی۔ اس وقت ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم اُس مجاہد عالم کی اقتدا کریں جو جذبۂ عمل سے سرشار تھا اور غزہ میں برسر پیکار ’اسلامی دستے‘ کی نصرت کریں۔ کیوں کہ اس کی نصرت پوری اُمت کی قوتِ مدافعت بڑھائے گی اور اگر خدا نخواستہ اسے شکست ہوگئی تو پوری امت کی حرمت پامال ہوجائے گی۔ کتنا اچھا ہو اگر تمام محاذوں کے لوگ اس بھرپور منظرنامے کو سمجھ لیں، جو آج ’طوفانِ اقصی‘  پیش کررہا ہے۔

علاقائی حکمت عملی کے پیش نظر ہدفِ تنقید بنانا

 متعدد محاذوں کے فہم کا حاصل جسے ہم یہاں نمایاں کرنا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ شامیوں پر تنقید کریں کہ وہ امریکی عسکری امداد کیوں قبول کرتے ہیں اور امریکا کا اس پر شکریہ ادا کیوں کرتے ہیں؟ کیوں کہ سیاسی تعلقات اور سفارتی روابط کا یہ بدیہی تقاضا ہے۔ اسی طرح شامیوں یا عراقیوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ فلسطینیوں پر تنقید کریں کہ وہ ایرانی عسکری امداد کیوں قبول کرتے ہیں اور اس پر ایران کا شکریہ کیوں ادا کرتے ہیں؟ کیوں کہ سیاسی تعلقات اور سفارتی روابط کا یہ بدیہی تقاضا ہے۔ سیاسی حکمت عملی کا تقاضا یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کی قوت کو اپنی قوت سمجھے اور جو چیز اس کے لیے نفع بخش ہو اس کے حصول کی فکر کرے۔

یہ انصاف کی بات نہیں ہے کہ حماس اور دیگر تنظیموں کے فلسطینی مزاحمت کاروں کو ایران سے مالی اور عسکری امداد قبول کرنے پر ملامت کا نشانہ بنایا جائے۔ اس سے قطع نظر کہ ایران کے مقاصد، اس کی اسٹرے ٹیجی اور دوسرے محاذوں، خاص کر شام کے محاذ پر اس کا کردار بہت خراب رہا ہے۔ اپنے بھائی سے یہ مطالبہ نہ کرو کہ وہ تمھارے دشمن سے برأت کا اعلان کرے، جب کہ تم اس کے دشمن سے مدد حاصل کررہے ہو، بلکہ اس کے حالات کو سمجھو اور اس سے توقع رکھو کہ وہ تمھارے حالات کو سمجھے۔ اگر نیتیں درست ہوں اور دلوں میں خلوص ہو، تو دلوں کا دائمی رشتہ وقتی سیاسی مفادات کے ٹکراؤ سے زیادہ طاقت ور ہوتا ہے۔

البتہ تمام لوگوں کا تمام لوگوں پر یہ حق ہمیشہ قائم رہے گا کہ کوئی اپنے بھائی کے خلاف کسی ظالم کی مدد نہ کرے اور اپنے بھائی پر کسی ظالم کے ظلم کو جائز نہ ٹھیرائے۔ دین، خون، تاریخ اور جغرافیہ کے رشتوں کا یہ کم سے کم لازمی تقاضا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ وہ چیز ہے جس کا اصولی التزام ان محاذوں کا سوادِ اعظم کرتا ہے۔ اس کی وجہ ایمانی اور انسانی اسباب ہیں جو سیاسی مصالح سے ماورا اور بالا تر ہوتے ہیں۔

 اچھی طرح واضح رہے کہ ’مشترک محاذوں‘ کے بارے میں یہ بحث کسی بھی حال میں ہرگز اس دشمن سے مدد لینے کی گنجائش نہیں رکھتی ہے، جو سب کا مشترک جانی دشمن ہے، یعنی صہیونی ریاست۔ جس کے وجود، جس کی عداوت اور جس کے مغربی پشت پناہوں کی عداوت کی بھاری قیمت علاقے کی تمام قومیں مسلسل ادا کررہی ہیں۔ امت کے قلب میں پیوست اس خنجر کی وجہ سے عراقی اور شامی اقوام جس الم سے دوچار ہیں، وہ فلسطینیوں کے الم سے کم نہیں ہے۔ 

ہماری یہ بحث اس سے نہیں روکتی کہ ہر محاذ کے لوگوں کو اپنے سیاسی تعلقات بہتر انداز میں برتنے کے سلسلے میں مشورے اور نصیحتیں کی جائیں۔ خود ہم نے اس سے پہلے کئی بار حماس کو سیاسی تعلقات برتنے اور اس سلسلے میں مناسب تعبیرات اختیار کرنے کے سلسلے میں ناقدانہ توجہ دلائی ہے۔ لیکن تنقید کا وقت بھی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ بھی سیاق فہمی کا ایک حصہ ہے۔ امن وسکون کے زمانے میں وہ تنقید محفوظ تر اور مؤثر تر ہوتی ہے۔ لیکن جب کسی محاذ کے لوگ ہلاکت خیز جنگ کا سامنا کررہے ہوں جیسا کہ آج غزہ والوں کا حال ہے، تو ایسے میں مدد اور پشت پناہی، کسی دانش ورانہ تنقید اور وعظ پر مقدم ہوتی ہے۔

اس وقت، جب کہ حماس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور فنا کردینے کی کوشش ہورہی ہے، حماس کے خلاف مہم چھیڑ دینا اور اس بات پر سختی سے ان کا محاسبہ کرنا تنگی کی گھڑی میں ایران کی اسٹرے ٹیجیکل مدد کے جواب میں ایرانی رہنماؤں کی تعریف میں اُن بے چاروں نے چند الفاظ بول دیے ہیں، یہ بتاتا ہے کہ آج عربوں کی سیاسی ثقافت بچکانہ پن کے امراض میں کس طرح گرفتار ہے۔ ناحق توقعات، انصاف سے پہلوتہی، اسٹرے ٹیجیکل حِس کا ضعف اور سیاقی فہم کا فقدان وہ امراض ہیں جن میں یہ لوگ گرفتار ہیں۔

 کتنا اچھا ہو اگر متعدد محاذوں کے وہ لوگ جو باہم لفظی جنگ میں مصروف ہیں، مصر کے بھائیوں سے سبق سیکھتے۔ متعدد محاذوں کے حوالے سے بڑے خواب دیکھنے والے، بڑا دل رکھنے والے، بھاری ایثار کرنے والے اور ان کے حالات کو اچھی طرح سمجھنے والے، مصر کے حریت پسندوں جیسے میں نے نہیں دیکھے۔ ان کے اپنے ملک میں انھیں مارا پیٹا اور کچلا دبایا گیا، قید و بند اور جلاوطنی سے وہ دوچار رہے، لیکن فلسطین کے حریت پسند جب مصری حکومت کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں یا اس کی تعریف کرتے ہیں تو ہم ان کی زبان سے مذمت کا کوئی ایک لفظ نہیں سنتے ہیں۔ اسی طرح جب یمن اور سوڈان کے حریت پسند مصری حکومت سے مدد مانگتے ہیں یا اس کی پناہ لیتے ہیں، تو ان کے خلاف بھی کوئی ایک لفظ نہیں سنتے ہیں۔

  • خلاصہ یہ ہے کہ ذہین انقلابی اس چیز پر نظر رکھتا ہے، جو اس کے مشن کے لیے مفید ہو اور اس کے محاذ کو قوت عطا کرے۔ وہ اپنی فعالیت پر ارتکاز رکھتا ہے اور دوسرے محاذوں پر ڈٹے ہوئے اپنے بھائیوں کے حالات کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔ وہ انھیں ان چیزوں پر ملامت نہیں کرتا جو ان کے لیے نفع بخش ہوں۔ وہ ان کی سیاسی اور عسکری حلیف سازیوں کے سلسلے میں تنگ نظری سے کام نہیں لیتا ہے۔ وہ ’قوموں کے کھیل‘ کو ذہانت اور چابک دستی سے اپنے حق میں استعمال کرتا ہے۔ بڑی قوتوں کے بیچ میں جو شگاف پڑتے ہیں ان سے وہ اپنا کام نکالتا ہے اور ان کے جال میں پڑنے سے خود کو بچائے رکھتا ہے۔ وہ کسی علاقائی یا عالمی قوت سے یہ امید نہیں رکھتا ہے کہ وہ ایمان و اخلاص کے جذبے سے اس کی مدد کرے گی۔ وہ جانتا ہے کہ یہ قوتیں تو اپنے مخصوص اہداف کے حصول کے لیے مدد کرتی ہیں، مگر آپ ان کی مدد اپنے مخصوص اہداف کے حصول میں لگاتے ہیں، جو ہوسکتا ہے ان کے مفاد میں نہ ہوں۔ اس طرح ہر ایک کو اپنی سمجھ داری اور حکمت عملی کے مطابق نتیجہ ملتا ہے، اور قیامت کے دن سب اپنی اپنی نیتوں کے ساتھ پیش ہوں گے۔

انڈین خفیہ ایجنسی ’را‘ کے زیرنگرانی چلنے والے نام نہاد ’بنگلہ دیش انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ (ICT) اور پھر بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے بنگلہ دیش بننے کے چالیس برس بعد اچانک ایک عدالتی ڈراما شروع کیا۔ جس کے تحت وہاں کے معزز سیاسی و دینی رہنمائوں مطیع الرحمٰن نظامی[۱۱مئی ۲۰۱۶ء]،  علی احسن مجاہد[۲۲ نومبر۲۰۱۵ء]، میرقاسم علی [۳ستمبر ۲۰۱۶ء]، قمر الزماں [۱۱؍اپریل ۲۰۱۵ء]، عبدالقادر مُلّا[۱۲دسمبر۲۰۱۳ء]،صلاح الدین قادری چودھری [۲۲نومبر ۲۰۱۵ء]کو پھانسی دے دی، جب کہ پروفیسر غلام اعظم (م: ۲۳؍اکتوبر ۲۰۱۴ء)، اے کے ایم یوسف (م: ۹فروری ۲۰۱۴ء)، مولانا عبدالسبحان (م:۱۴فروری ۲۰۲۰ء) ، دلاور حسین سعیدی (م:۱۴؍اگست ۲۰۲۳ء) کو قیدکے دوران موت کی وادی میں دھکیل دیا۔

دوسری طرف جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے متعدد رہنمائوں کو غیرحاضری میں پھانسی کی سزائیں سنادیں۔ پھر ایک بڑی تعداد اِن جعلی عدالتوں کی بے مغز اور بے ثبوت کارروائیوں کے بوجھ تلے آج تک جیلوں میں بند ہے۔ جماعت اسلامی بحیثیت سیاسی پارٹی، قومی یا بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی۔جماعت کو اجتماع کرنے کی آزادی نہیں ہے۔ اس کے رفاہی ادارے تباہ کردیئے گئے ہیں، یا ان پر عوامی لیگی حکومت نے قبضہ کر لیا ہے۔ مولانا مودودی کی کتب کو دو مرتبہ لائبریریوں سے نکال نکال کر جلایا یا ضائع کیا گیا ہے۔ حالیہ عرصے میں جماعت اور جمعیت کے کارکنوں کے قاتلوں کو کھلی چھٹی دی گئی ہے۔

اس تمام بے انصافی، ظلم اور انسانی حقوق کی پامالی پر برصغیر (بنگلہ دیش، انڈیا، پاکستان) میں انسانی حقوق کے علَم بردار خاموش اور قاتل حسینہ واجد کے طرف دار ہیں۔ مذکورہ بالا عدالتی ڈرامے میں، بنگلہ دیش کی انھی کنگرو عدالتوں نے چودھری معین الدین (فی الوقت بنگلہ نژاد برطانوی شہری) کو بھی غیرموجودگی میں سزائے موت سنائی تھی۔یاد رہے معین الدین زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ ڈھاکہ سے وابستہ تھے، لیکن انتخابات کے سال ۱۹۷۰ء اور فساد کے سال ۱۹۷۱ء میں وہ ایک ممتاز اور فعال صحافی کی حیثیت سے  خدمات انجام دے رہے تھے۔ سزائے موت سنانے کے بعد بنگلہ دیش حکومت نے ریڈ وارنٹ جاری کراتے ہوئے، معین الدین کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔

۲۰۱۹ء میں برطانوی ہوم ڈیپارٹمنٹ نے اپنی رپورٹ میں انھیں ایک سزایافتہ اور جنگی مجرم کے طور پر درج کیا۔ جس پر معین الدین چودھری نے برطانوی سپریم کورٹ میں ’ہتک ِ عزّت‘ کا دعویٰ کیا۔ انھوں نے بنگلہ دیشی عدالتی کارروائی اور فیصلے کو جعلی، ظالمانہ، بے بنیاد اور توہین آمیز قرار دیتے ہوئے دادرسی کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، جس پر جمعرات ۲۰جون ۲۰۲۴ء کو برطانوی سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے، معین چودھری کو بنگلہ دیشی عدالت کے نام نہاد فیصلے سے بری قرار دیا اور پُرزور لفظوں میں حسینہ واجد کی غلام ’عدالتوں‘ کی حیثیت کو بے نقاب کر دیا۔ یہاں پر اسی فیصلے کی روشنی میں چند حقائق پیش کیے جارہے ہیں۔

برطانوی سپریم کورٹ میں ممتاز مسلم کمیونٹی رہنما چودھری معین الدین کی جانب سے برطانوی ہوم سیکرٹری کے خلاف ہتک عزّت کا مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے صدر لارڈ ریڈ نے اس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد متفقہ تاریخی فیصلے کا اعلان کیا۔ کیس کی سماعت یکم و ۲ نومبر ۲۰۲۳ء کو ہوئی، لارڈ ریڈ کی سربراہی میں سماعت کرنے والے بنچ میں جسٹس لارڈ سیلز، لارڈ ہیمبلن، لارڈبروز اور لارڈ رچرڈز شامل تھے۔

دسمبر ۲۰۱۹ء میں، چودھری معین الدین نے قانونی فرم ’کارٹرک‘ کے ذریعے ہوم آفس کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ شروع کیا۔ اس کی قانونی ٹیم میں سینئر وکیل ایڈم ٹیوڈر اور مشیر جیکب ڈین اور للی واکر پار شامل تھے۔ چودھری معین نے برطانوی ہوم آفس کے کمیشن برائے انسداد انتہا پسندی کی ۲۰۱۹ء کی رپورٹ کی مناسبت سے ہوم سیکرٹری کے خلاف:’’منافرت انگیز انتہا پسندی کو چیلنج ‘‘کے عنوان سے کارروائی شروع کرائی۔ دراصل ہوم آفس کی رپورٹ میں چودھری معین الدین پر ’انتہا پسندی‘ کا الزام لگاتے ہوئے بنگلہ دیش میں نام نہاد ’جنگی جرائم کی عدالت‘ کے متنازعہ فیصلے کا حوالہ دیاگیا تھا۔ ۱۹۷۱ء میں پاکستان کے خلاف جنگ کے دوران چودھری معین الدین نے اپنے پر لگنے والے تمام ’جنگی جرائم‘ کے تمام الزامات کی سختی سے تردید کی اور بنگلہ دیشی حکام کے الزامات کو مکمل طور پر بے بنیاد اور سیاسی محرک قرار دیا۔

برطانوی سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا ہے: چودھری معین الدین ۱۹۴۸ء میں مشرقی بنگال میں پیدا ہوئے، جو اس وقت پاکستان کا حصہ تھا۔ بنگلہ دیش نے دسمبر ۱۹۷۱ء میں جنگ سے گزر کر پاکستان سے علیحدگی اختیار کی۔۱۹۷۳ء سے، چودھری معین الدین برطانیہ کے رہائشی ہیں اور ۱۹۸۴ء سے برطانوی شہری ہیں۔ برطانیہ میں اپنے قیام کے دوران، انھوں نے متعدد سماجی اور رفاہی اداروں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح کئی اعلیٰ سطحی شہری اور انسانی ہمدردی کے عہدوں پر فائز رہے ہیں، جن میں کونسل برائے مساجد برطانیہ اور آئرلینڈ کے سیکرٹری جنرل اور برطانوی وزارت صحت کے تحت ایک پراجیکٹ 'NHS میں مسلم اسپرچوئل کیئر پروویژن کے ڈائریکٹر شامل ہیں۔ وہ بین الاقوامی انسانی فلاحی تنظیم ’مسلم ایڈ یو کے‘ کے بانی ممبر اور چیئرمین تھے۔ انھوں نے ایک متنوع کثیر العقیدہ اتحاد کی سربراہی کی، جس میں عالمی مذہبی گروہ شامل ہیں، جن میں مسلم، عیسائی، یہودی، ہندو، بودھ مت اور دیگر مذہبی کمیونیٹیوں کے معزز لوگ شامل ہیں۔

 فیصلے میں کہا گیا ہے: چودھری معین الدین نے بنگلہ دیش میں چلنے والے مقدمے تک، ۴۱سال کے دوران برطانیہ میں کھلے عام اور فعال زندگی گزاری۔ بنگلہ دیشی حکومت اس پورے عرصے میں ان کے ٹھکانے سے باخبر تھی۔ بنگلہ دیشی خصوصی عدالت کا یہ کہنا کہ ’’وہ یا تو 'مفرور تھے یا 'خود کو چھپا لیا تھا‘‘، واضح طور پر غلط مفروضہ ہے۔ فیصلے میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ چودھری معین الدین کو ۲۰۱۳ء میں بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (ICT) نے ۱۹۷۱ء کی جنگ کے دوران انسانیت کے خلاف مبینہ جرائم کے الزام میں ۴۰ سال بعد اچانک غیرحاضری میں سزائے موت سنائی تھی۔

 اپنی کارروائی کے دوران قابلِ قبول عدالتی معیارات کو برقرار رکھنے میں ICT بُری طرح ناکام رہا۔ اس نے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے ان گواہوں کی گواہی پیش کی، جو اس وقت نابالغ تھے۔ ان شواہد، اور میڈیا رپورٹس کی اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی عدالتی، قانونی اور انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے بڑے پیمانے پر تنقید اور مذمت کی گئی ہے۔ یورپی یونین، اور بہت سی غیر ملکی حکومتیں انھیں مسترد کرچکی ہیں۔

 فیصلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے:انٹرپول نے ابتدائی طور پر بنگلہ دیش کی حکومت کی درخواست پر چودھری معین الدین کے خلاف ’ریڈوارنٹ‘ جاری کیا تھا، لیکن بعد میں ICTکے قانونی طریق کار کی بے ضابطگیوں اور مضحکہ خیز حرکتوں کا حوالہ دیتے ہوئے اسے منسوخ کر دیا گیا، جو بین الاقوامی منصفانہ سماعت کے معیارات کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے سزائیں دے رہا ہے۔

فیصلے میں انٹرپول کمیشن کے حوالے سے ان بین الاقوامی اداروں کی ایک طویل فہرست بھی دی گئی ہے، جنھوں نے آئی سی ٹی کی کارروائیوں پر تنقید کی تھی جیسے: اقوام متحدہ(ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق، ججوں اور وکلا کی آزادی کے لیے خصوصی نمائندے، خصوصی نمائندہ ماورائے عدالت، سزائے موت اور تشدد پر خصوصی ورکنگ گروپ) مختلف غیر ملکی حکومتیں اور قومی ادارے (امریکا کے خصوصی سفیر برائے عالمی فوجداری انصاف)، ریاستہائے متحدہ کانگریس کے ٹام لینٹوس، انسانی حقوق کمیشن، یورپی یونین پارلیمنٹ، برطانیہ کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں یعنی ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ، انٹرنیشنل سینٹر فار ٹرانزیشنل جسٹس وغیرہ___ یہ سبھی ادارے بنگلہ دیشی ٹریبونل (ICT) کے طریق کار پر شدید تحفظات اور سخت تشویش کا اظہار اور گواہوں کے اغوا، دھمکیوں کے واقعات کی دستاویز پیش کرتے آئے ہیں۔   دفاعی وکیل، میڈیا سنسرشپ، حکومت کی طرف سے مجرم کو سزا دینے کا دباؤ، عدالتی افسران کی آزادی کا فقدان بھی شامل ہے۔ خود بنگلہ دیشی حکام کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر صاف طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ معین چودھری کے خلاف انٹرپول کے آئین یا انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے مطابق آئی سی ٹی کی شفاف کارروائی نہیں کی گئی۔

برطانوی ہوم سیکرٹری نے معین الدین کے دعوے کو مسترد کرنے کے لیے عدالت میں درخواست دائر کی تھی اور کہا تھا کہ معین الدین کا ہتک عزت کا مقدمہ برطانوی ہائی کورٹ میں قابلِ سماعت نہیں ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ۱۹۹۵ء میں چینل۴ کی دستاویزی فلم میں جنگی مجرم قرار دینے اور بنگلہ دیشی عدالت سے سزا کی بنیاد پر معین الدین کی ساکھ ختم ہوگئی ہے۔ عدالت نے ہوم آفس کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ چینل ۴ کی دستاویزی فلم کے بعد سے، معین الدین نے ایچ ایم دی کوئین اور موجودہ بادشاہ اور اس وقت کے پرنس آف ویلز سے کئی مواقع پر ملاقات کی، بکنگھم پیلس میں کوئینز گارڈن پارٹیوں میں شرکت کی۔ سپریم کورٹ کے صدر لارڈ ریڈ نے کارروائی کی نگرانی کرتے ہوئے لکھا: ’’کسی بھی فرد کے لیے عدالتوں تک رسائی کا بنیادی شہری حق ہے۔ اس حق کو صدیوں سے عام قانون اور میگنا کارٹا کے ذریعے تسلیم کیا گیا ہے، اور یہ انسانی حقوق ایکٹ ۱۹۹۸ء کے تحت محفوظ ہے‘‘۔

برطانوی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایک تاریخی عدالتی فتح ہے۔ اگر بنگلہ دیش کا نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل (ICT) واقعی ’انٹرنیشنل‘ اور ایک عدل و انصاف کا فورم ہوتا تو دُنیا اس کے فیصلوں کو مانتی۔ اس نوعیت کا ڈراما تو اس سے قبل دوسری جنگ ِ عظیم کے بعد نیورمبرگ اور ٹوکیو ٹرائلز میں بھی نہیں کھیلا گیا تھا، مگر بنگلہ دیش میں یہ سنگین، صریح اور کھلی بے انصافی کی گئی۔ برطانوی ہوم سیکرٹری کو چودھری معین کی بلندپایہ قانونی ٹیم اور درخواست کے مندرجات کی سچائی اور بنگلہ دیشی عدالت کی بددیانتی کا پردہ چاک ہونے کی بنیاد پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے صدر جج لارڈر یڈ کی جانب سے برطانوی ہوم سیکرٹری کے استدلال کو ’بیہودہ‘ قرار دینا ایک اہم موڑ تھا۔ یاد رہے اس فیصلے کو لکھنے والے تمام افراد غیرپاکستانی اور غیرمسلم ہیں، کہ جن پر کسی حوالے سے پاکستانی یا اسلامی ہونے کے ’تعصب‘ کی پھبتی نہیں کَسی جاسکتی۔ انھوں نے فیصلہ خالص قانون اور عدل کی بنیاد پر دیا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ دُنیا بھر میں جن لوگوں پر، بے گناہ پھانسی پانے والے افراد کی مظلومیت کا کیس پیش کرنے کی ذمہ داری ہے، ان پر لازم ہے کہ وہ اخبارات، ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا، سیمی ناروں اور تحقیقی و تجزیاتی مقالات کی صورت میں مظلوم مقتولین کا کیس پیش کریں اور بنگلہ دیشی قاتل حکومت کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کریں۔

ہم میں سے بہت سے لوگ سال میں چند بار پرندوں کا گوشت کھاتے ہیں، لیکن دنیا بھر میں لوگوں کی ایک غیر معمولی تعداد ان کی بھی ہے جو فطری ماحول میں ان کا مشاہدہ کرکے خوش ہوتی ہے۔ غزہ شہر کی چالیس سالہ دو جڑواں بہنیں میندی اور لارا سردہ بھی پرندوں کا ان کے فطری ماحول میں مشاہدہ کرنے کی شوقین ہیں۔ تقریباً ایک عشرہ قبل انھوں نے اپنے گھر کے پچھواڑے میں پرندوں کی تصویریں بنانا شروع کر دی تھیں۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر اپنی تصویریں پوسٹ کرنا شروع کیں، آخرکار غزہ کی پٹی میں دلدل اور پرندوں کی متحرک سرگرمیوں کے دیگر مقامات کا دورہ کیا۔ ۲۰۲۳ء میں غزہ کے پرندوں کی دستاویزبندی اور ان کی پہلی فہرست کی اشاعت میں بنیادی کردار ادا کیا۔

اگر یہاں اسرائیلی قبضہ نہ ہوتا — اور موجودہ بڑے پیمانے پر جنگ جس میں ۳۴ ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں، جن میں سے ۷۲ فی صد خواتین اور بچے ہیں، اور ۶۲ فی صد مکانات کو نقصان پہنچا یا یا تباہ کر دیا گیا ہے، — تو غزہ پرندوں کے لیے مثالی آماج گاہ ہوتا۔ مشرق وسطیٰ کے بیش تر حصوں کی طرح، یہ علاقہ لاکھوں نقل مکانی کرنے والے پرندوں کے لیے دنیا کی عظیم فضائی گزرگاہوں میں سے ایک ہے۔ بحیرۂ روم سے جڑا اس کا ساحل پرندوں کو راغب کرتا ہے۔ وادیٔ غزہ، ایک ندی سے چلنے والا گھاٹی اور سیلابی میدان جو غزہ کے وسط میں پرندوں کی ۱۰۰سے زیادہ اقسام کے ساتھ ساتھ نایاب پرندوں کا گھر ہے۔ دوسرے لفظوں میں، زمین کی وہ پٹی پرندوں کی جنت ہے۔

پرندوں کی اس جنّت کو کن مسائل کا سامنا ہے؟ اس کی طرف ڈیلی بیسٹ نے ایک سال پہلے رپورٹ میں اشارہ کیا تھا: غزہ میں پرندوں کی نگرانی کرنے کا مطلب لامتناہی پابندیوں کا سامنا کرنا ہے۔ اسرائیل مصر کی سرحد کے علاوہ غزہ کے علاقائی پانیوں، فضائی حدود اور لوگوں اور سامان کی نقل و حمل کو کنٹرول کرتا ہے۔ زیادہ تر فلسطینی جو ۲۰۰۷ء میں مسلط کردہ پابندیوں کے بعد سے غزہ میں پلے بڑھے ہیں، جب سے حماس کی زیر قیادت فلسطینی اتھارٹی کا کنٹرول حاصل ہوا ہے، انھوں نے ۳۷کلومیٹر لمبی اور ۱۰کلومیٹر چوڑی پٹی کو کبھی نہیں عبور کیا۔

غزہ میں پرندوں کا مشاہدہ کرنے کے لیے مختلف آلات کا حصول غزہ سے باہر نکلنے سے بھی زیادہ دشوار ہے بلکہ تقریباً ناممکن ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ ٹیلی فوٹو لینز کے ساتھ دوربین یا کیمرے خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں، تو اسرائیلی حکومت اس طرح کے آلات کو ممکنہ طور پر فوجی اور شہری مقاصد کے لیے کام کرنے کے طور پر دیکھتی ہے اور اس لیے ان اشیاء کو حاصل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر غزہ میں پرندوں کے بارے مطالعے کی غرض سے سازوسامان کو لانے کے لیے لارا سردہ کو اجازت کے لیے مختلف دستاویزات درکار تھیں۔

غزہ سے باہر نکلنا اور کسی دوسرے ملک جانا تقریباً ناممکن ہے۔ اس کے ۲۳ لاکھ باشندوں میں سے زیادہ تر کی طرح دونوں بہنیں پرندوں کی کانفرنسوں میں شرکت کرنے، اپنی فوٹو گرافی کی نمائشوں کا اہتمام کرنے، یا اپنے کام پر ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے بھی علاقہ چھوڑ نہیں سکتی تھیں۔ گویا وہ زمین کی ایک پٹی میں قید ہیں۔ ذرا تصور کیجیے کہ اس چھوٹی سی جگہ پر ۲۳ لاکھ لوگوں کو دھکیلنا، اس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بموں اور میزائلوں سے ان کا پیچھا کرنا اور اس سب کے باوجود ایک بار پھر سب کچھ شروع کرنا کیسا ہوگا؟ جیسا کہ اسرائیل لاکھوں پناہ گزینوں کے ساتھ جنوبی غزہ کے شہر رفح میں کرنے جا رہا ہے۔

lتعلیمی اداروں کی تباہی کا ہدف: لاراسردہ نے اپنے پرندوں کی جانچ پڑتال کے منصوبے میں پروفیسر عبدالفتاح کے ساتھ تعاون کیا، جو غزہ کی اسلامی یونی ورسٹی میں ماحولیاتی علوم کے ایک بہت ہی معزز پروفیسر ہیں۔ وہ غزہ میں پرندوں اور دیگر جنگلی حیات کے مطالعے اور تحفظ کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے ہوئے ہیں۔ غزہ کی اسلامی یونی ورسٹی موجودہ جنگ کے پہلے ادارہ جاتی اہداف میں سے ایک تھی۔ اس پر ۱۱؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو اسرائیلی افواج نے بمباری کی تھی۔ اسرائیلی اخبار ہارٹیز کے مطابق، غزہ میں علم کے وسیع ذخیرے اور تعلیمی اداروں کو مٹانے کا منصوبہ بنیادی طور پر مکمل ہو چکا ہے۔

غزہ میں یونی ورسٹیوں کی مکمل تباہی، جنگ کے پہلے ہفتے میں اسلامی یونی ورسٹی پر بمباری سے شروع ہوئی اور ۴ نومبر سے اسراء یونی ورسٹی پر فضائی حملوں کے ساتھ جاری رہی۔ اس کے بعد سے، غزہ کے تمام تعلیمی ادارے تباہ ہو چکے ہیں، اور ساتھ ہی بہت سی لائبریریاں، آرکائیوز اور دیگر تعلیمی ادارے بھی اپنی کتب، دستاویزات، لیبارٹریوں اور تمام امتحانی ریکارڈ سمیت تباہ ہوچکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمیشن کے مطابق: ’’غزہ میں ۸۰ فی صد سے زیادہ اسکولوں کو نقصان پہنچا یا یا تباہ کر دیا گیا ہے۔ فلسطینی تعلیمی نظام کو جامع طور پر تباہ کرنے کی جان بوجھ کر کوشش کی جا رہی ہے۔ یقینا یہ ایک کارروائی بطور ’علمی قتل‘ ہی ہے!

اقوام متحدہ کے ماہرین کی رپورٹ کے مطابق:چھ ماہ کے فوجی حملے کے بعد، غزہ میں ۱۷ہزار سے زیادہ بچے، ۵ہزار ۴سو ۶۹ سے زیادہ طلبہ، ۲۶۱؍ اساتذہ اور یونی ورسٹیوں کے ۹۵پروفیسر مارے جا چکے ہیں، اور ۷ہزار ۸سو۱۹ سے زیادہ طلبہ اور ۷۵۶؍ اساتذہ زخمی ہوچکے ہیں۔ یہ تعداد ہر روز بڑھ رہی ہے۔ کم از کم ۶۰ فی صد تعلیمی سہولیات بشمول ۱۳ پبلک لائبریریوں کو نقصان پہنچایا یا تباہ کیا جاچکا ہے اور کم از کم۶ لاکھ ۲۵ ہزار طلبہ کی تعلیم تک رسائی نہیں رہی۔ مزید ۱۹۵ تاریخی مقامات، ۲۲۷ مساجد اور تین گرجا گھروں کو بھی نقصان پہنچایا گیا یا تباہ کردیا گیا ہے، جن میں غزہ کے مرکزی آرکائیوز بھی شامل ہیں، جن میں ۱۵۰ سال کی تاریخ اور سیکڑوں برس پرانے مخطوطے تھے۔ اسراء یونی ورسٹی، غزہ کی آخری باقی ماندہ یونی ورسٹی کو اسرائیلی فوج نے ۱۷جنوری ۲۰۲۴ء کو مسمار کر دیا۔

میں جاننا چاہتی تھی کہ کیا پروفیسر عبدالفتاح ان ۹۵  یونی ورسٹی فیکلٹی پروفیسروں میں شامل تھے، جو غزہ کی جنگ میں اب تک مارے گئے تھے؟ میں نے انھیں ’گوگل‘ کیا اور ان کا ’فیس بک پیج‘ تلاش کیا۔ پتا چلا کہ وہ ابھی زندہ ہیں اور حال ہی میں مایوس کن حالات، بیماری، آلودگی، تباہ شدہ سیوریج کے بارے میں پوسٹ کر رہے ہیں۔ عارضی پناہ گاہوں میں پناہ گزینوں کو جس کا سامنا تھا، ان کی انھوں نے ایک تصویر پوسٹ کی۔ کچھ دن پہلے، انھوں نے ایک اور ذاتی تصویر اَپ لوڈ کی تھی: سفید چیزوں کا ایک پلاسٹک بیگ، جس پر نیلے عربی حروف میں لکھا ہوا تھا: ’بارش کا پہلا قطرہ‘۔ انھوں نے لکھا: ’’الحمدللہ، آٹے کا پہلا تھیلا مہینوں بعد میرے گھر میں مدد کے طور پر ملا۔سردا اور اس کی جڑواں بہن بھی زندہ ہیں، اور وہ اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر پوسٹ کرتی ہیں۔

’اسکولوں کے قتل عام‘ کے ساتھ ساتھ، اہل غزہ ایک انسانیت کش ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جیسا کہ گارڈین  کی رپورٹ کے مطابق، غزہ نے تقریباً نصف درخت اور کھیتی باڑی کی ساری بنیاد کھو دی ہے، جس کا بیش تر حصہ زمین میں تیل اور گولہ باری سے برباد اور پانی اور فضا زہریلے مادوں سے آلودہ ہوچکے ہیں۔ سمندر کا پانی سیوریج اور فضلہ کے ساتھ آلودہ ہوگیا ہے۔ غزہ بنیادی طور پر ناقابلِ رہائش بن چکا ہے، اور آنے والے برسوں تک اسی صورتِ حال سے دوچار رہے گا۔ اور پھر بھی لاکھوں لوگ وہاں رہنے پر مجبور ہیں۔ انسان اس بات پر حیران ہوتا ہے کہ کیا زہریلے مادوں سے اَٹی فضا، اذیت ناک ماحولیات اور دیگر اُمور انسانی زندگی برقرار رہنے کا باعث ہوسکتے ہیں؟

lغزہ کے پرندے:غزہ کے جنگلی پرندوں کے ساتھ ساتھ پنجروں میں بند چہکنے والے پرندے اب بھی بازاروں میں خریدے جاسکتے ہیں اور رفح کے کچھ مایوس باشندے انھیں تلاش کرتے ہیں، اس امید پر کہ ان کی آوازوں میں بھری موسیقی جنگ کی آوازوں کو چھپادے گی۔ وائس آف امریکا نے نقل مکانی کرنے والی ایک خاتون کی رُوداد سنائی، جس نے سفر کے دوران محسوس کیا کہ اس نے اپنے پرندوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ وہ پنجرے میں بند ایوئین کو بچانے کے لیے واپس آئی، اور یوں ان پرندوں کے ساتھ گہری محبت کا مظاہرہ کیا۔ تاہم، پروفیسر عبدالفتاح کہتے ہیں: ’’زیرتسلط افراد کے طور پر ہمیں پرندوں کو پنجروں میں قید نہیں رکھنا چاہیے‘‘۔

’غزہ کے پرندے‘ بھی ایک بین الاقوامی آرٹ پروجیکٹ کا نام ہے، جو جنگ میں مارے گئے بچوں کی یاد منانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس پروجیکٹ کی بنیاد سادہ ہے: دنیا بھر کے بچے ایک مخصوص مقتول فلسطینی بچے کا انتخاب کریں، اور اس کے اعزاز میں پرندے کو پینٹ کریں۔ ۶ہزار۵ سو سے زیادہ بچوں کا ڈیٹا بیس میں سے انتخاب کرسکتے ہیں جو گذشتہ اکتوبر سے غزہ میں مرچکے ہیں، پھر اپنی تخلیقات کی تصاویر برڈز آف غزہ کی ویب سائٹ پر اَپ لوڈ کر سکتے ہیں۔ دُنیا بھر میں بچے ایسا کر رہے ہیں۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ فلسطین کا ایک قومی پرندہ بھی ہے؟ ’فلسطینی سن برڈ‘ ایک خوب صورت پرندہ ہے، جس نے چمک دار سبز اور نیلے رنگ کے پروں کا تاج پہنا ہوا ہے۔  مغربی کنارے کے فلسطینی مصور خالد جرار نے ’سن برڈ‘ کا جشن مناتے ہوئے ڈاک ٹکٹ ڈیزائن کیا۔وہ کہتے ہیں: ’’یہ پرندہ آزادی اور تحریک کی علامت ہے۔یہ کہیں بھی اڑ کر جاسکتا ہے‘‘۔

lایک بہتر دُنیا کے لیـے پرندوں کی نگہداشت:آیئے واپس امریکا چلتے ہیں جہاں برڈ کلب پرندوں کے مشاہدے کو کسی کے لیے قابلِ رسائی بنانے کے لیے پُرعزم ہے،  خاص طور پر وہ لوگ جنھیں ماضی میں مختلف علاقوں میں پرندوں کے مشاہدے کے لیے محفوظ رسائی حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ ان کا کہنا ہے: ’’اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم پرندوں کے لیے تقاریب منعقد نہیں کرسکتے اور ایک ہی وقت میں مساوات اور انصاف کے بارے میں اپنے محبوب نظریات کی حمایت نہیں کرسکتے‘‘۔ ہمارے لیے ، یہ ’ہے‘ یا پھر’ نہیں ہے‘۔ پچھلے سال ایک کتاب برڈنگ فار اے بیٹر ورلڈ شائع ہوئی۔ یہ کتاب اس بارے میں ہے کہ لوگ کیسے حقیقی طور پرندوں سے جڑ سکتے ہیں؟  ’برڈ کلب‘ ماہنامہ برڈز فار فلسطین کو سپانسر کرتا ہے، جس میں شرکا سیکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنے پرندوں سمیت فلسطین کے لوگوں کی مدد کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟

جب میں اپنے صحن میں برڈ فیڈر پر شان دار پیلے رنگ کے گولڈ فنچز کو اپنے پروں کو کھرچتے ہوئے دیکھ رہی ہوں، یہ جانتے ہوئے کہ، اس خوب صورت چھوٹے سے جزیرے پر، میں اتنی ہی محفوظ ہوں جتنا کہ ایک شخص ہو سکتا ہے۔ پھر میں فلسطین کی ہولناکیوں کے بارے میں  سوچتی ہوں کہ میرے ٹیکس کی بنیاد پر امریکی کانگریس نے صرف اسرائیل کے لیے براہِ راست    فوجی امداد کے لیے مزید اربوں ڈالر کی منظوری دی، اور دوسری طرف محکمۂ خارجہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق اپنی۲۰۲۳ء کی رپورٹیں بھی جاری کیں۔ اُن میں یروشلم پوسٹ  کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل کی انسانی حقوق کی بہت سی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں ماورائے عدالت قتل، تشدد، بلاجواز حراست، جنسی تشدد وغیرہ شامل ہیں۔ اس سب کے باوجود، تباہ حال غزہ میں ظلم و درندگی کے شکار فلسطینیوں کے ساتھ، پرندوں کی حالت ِ زار پر کچھ لوگ تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ (Tom Dispatch، مئی ۲۰۲۴ء)

کشمیر کی سیاسی تاریخ خیانت، جوڑ توڑ، منظم ڈھانچے کی ٹوٹ پھوٹ، عسکری ریاستی تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بھری پڑی ہے۔ طاقت ور حکمران، سیاست دان، فوجی بیوروکریسی اور بھارتی میڈیا میں موجود نسل پرست مقبوضہ علاقے میں ظلم و ستم کے ذمہ دار ہیں۔

بھارت کے نوآبادیاتی منصوبے کا ایک اہم حصہ کشمیریوں پر جبر اور بے اختیاری میں پوشیدہ ہے، جسے انضمام کی حکمت نے اور بھی زیادہ بدنُما بنادیا ہے۔ اس ظلم و زیادتی کے دوران کشمیری عوام کو غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنانے کی کوششوں کے ذریعے یہاں تاریخ کو بے دریغ کچلا گیا ہے۔ بین الاقوامی قانونی ماہرین نے ان خلاف ورزیوں کو 'انسانیت کے خلاف جرائم کے طور پر بیان کیا ہے۔

زندگی کے ہر شعبے میں چھایا ہوا خوف

ایک بے چین، دُکھی اور غم و غصہ پر مبنی ماحول کشمیر کے سماجی اور سیاسی منظر نامے پر چھایا ہوا ہے۔ پوری وادی پختہ فوجی مورچوں، برقی لہر میں ڈوبی تاروں، غیر نشان زدہ اجتماعی قبروں، ڈیجیٹل نگرانی کے ایک آکاس بیل اور عسکری چھائونیوں سے اَٹی ہوئی ہے۔ بڑی تعداد میں عورتوں کی عصمت دری اور مردوں کو قتل، اندھے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، لاپتہ اور قید کیا گیا ہے۔

فوجی حکام نے پچھلے کچھ برسوں میں اپنی جابرانہ حکومتوں کو تیز تر کیا ہے، جس میں انسانی حقوق کے علَم برداروں، صحافیوں، ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کے ارکان کی آوازوں کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرنے کی نیت سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

انڈین حکومت کو انصاف میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ انصاف جوانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ختم کرتا ہے، اور مخالفین کو قتل کرنے، معذور کرنے یا خاموش کرنے سے روکتا ہے۔

’کشمیر لا اینڈ جسٹس پروجیکٹ‘ (KLJP) کی ایک جامع سروے رپورٹ، جس کا عنوان ہے: They Should be Beaten and Skinned Alive: The Final Phase of India's War on Kashmir [انھیں مارا پیٹا جائے اور زندہ کھالیں، ادھیڑ دیں: کشمیر سول سوسائٹی کے خلاف ہندوستان کی جنگ کا آخری مرحلہ]، اس میں ان صحافیوں کے مقدمات کی دستاویز مرتب کی گئی ہے، جنھیں حراست میں لیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، یا وہ اپنے پاسپورٹ سے محروم ہیں۔

یونی ورسٹیوں نے متعدد ماہرین تعلیم کو برخاست کر دیا ہے اور انھیں بغیر کسی کارروائی کے جیل میں ڈال دیا ہے۔ اسکالرز اور ماہرین تعلیم قریبی نگرانی، ڈرانے دھمکانے اور ہراساں کیے جانے کا شکار ہیں۔اپنی خانہ زاد عدالتوں کے ذریعے جبر کو قانونی شکل دے کر اور کشمیر مخالف اور پاکستان مخالف بیان بازی کو اُبھارا گیا ہے۔ میڈیا میں اپنے ’سپاہیوں‘ کے ذریعے ہندو قوم پرست حکومت نے نوآبادیاتی علاقوں سے اٹھنے والی آوازوں کو دبا کر رکھ دیا ہے۔

ہیلی ڈشنسکی اور ایس این گوش نے 'پیشہ ورانہ آئین پرستی کے طور پر بیان کیا ہے، وزیراعظم مودی کی حکمراں ہندو قوم پرست پارٹی نے بے شرمی سے کشمیر میں جبر کو قانونی شکل دی ہے۔ نوآبادیاتی حکام کی طرف سے کشمیریوں کو دبانے کے لیے استعمال کیے جانے والے قانونی حکم ناموں کی ایک سیریز میں جموں و کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ ۱۹۷۸ (PSA ایکٹ)، اور آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ، ۱۹۹۰ (AFSPA) شامل ہیں۔

’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ کے مطابق PSA ایک ایسا 'غیرقانونی ہتھیار ہے، جو اختلافی آوازوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، تاکہ انھیں من مانے اور غیر معینہ مدت کے لیے قید کیا جاسکے۔ دوسری طرف AFSPA تلوار اور ڈھال دونوں کے طور پر کام کرتا ہے۔ خود کو احتساب اور قانونی نتائج سے بچاتے ہوئے، ہندوستانی فوج نے AFSPA کو مخالفین کے خلاف تیزدھار تلوار کے طور پر استعمال کیا ہے۔

بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، یہ قوانین بغیر کسی مقدمے کے دو سال تک حراست میں رکھنے کی اجازت دینے کے علاوہ، انصاف کے بنیادی اصولوں جیسے مساوی سلوک کو برقرار رکھنے میں بھی ناکام رہتے ہیں۔ بدترین مذاق یہ ہے کہ وہ لوگ جواب دہ نہیں ہیں جو قتل کے تمغے جیتنے کے لیے ان قوانین کو بے دریغ قتل عام کے آلے کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

دسمبر ۲۰۲۰ء میں ایک جعلی پولیس مقابلے کے دوران، ایک سولہ سالہ نوجوان اطہر کو دودیگر شہریوں کے ساتھ، قتل کر دیا گیا تھا۔ اور پھر والدین اور خاندان کے دیگر افراد پر انسداددہشت گردی کے جرائم کا الزام عائد کیا گیا، جب انھوں نے میت کی تدفین کا مطالبہ کیا۔

روزمرہ زندگی میں ہرطرف پھیلا ہوا خوف

فوجی حکام ٹکنالوجی کی مدد سے نگرانی اور پیش گوئی کرنے والے آلات استعمال کرتے ہیں، بشمول چہرے کی شناخت کرنے والے سافٹ ویئر کے۔ کاروباری اداروں کو سی سی ٹی وی سسٹم لگانے اور روزانہ کی فوٹیج حکام کو جمع کرانے پر مجبور کیا گیا ہے، جس سے شہری آزادیوں اور رازداری کو خطرہ لاحق ہے۔ ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کی ان ٹکنالوجیز کے ذریعے، افراد کو ان کے سیاسی عقائد یا سرگرمیوں کی وجہ سے شناخت کیا اور نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ لوگ محسوس کرسکتے ہیں کہ انھیں انتقام کے خوف سے خاموش رہنا چاہیے، اس عمل سے سیلف سنسرشپ کا کلچر جنم لے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ قابض افواج اس ڈیٹا کا غلط استعمال کریں۔

قابض حکام نے حال ہی میں بھارت اور کشمیر میں انسانی حقوق کے مسائل کو اجاگر کرنے پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بھارت کے دفتر کو بند کر دیا ہے۔ این جی اوز کو پولیس کے ذریعے ڈرایا اور ہراساں کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے پر بھارت سے دیگر چیزوں کے علاوہ، ’مصنوعی ذہانت‘ (AI)استعمال کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تاکہ حکومتی کارروائی کی قانونی بنیاد فراہم کی جاسکے۔شاعروں اور موسیقاروں سمیت کشمیری فنکاروں کو ڈرایا دھمکایا گیا، ہراساں کیا گیا اور حراست میں لیا گیا، مگر اس کے باوجود وہ بے خوف رہتے ہیں اور زیر زمین احتجاجی موسیقی اور نغمے بناتے رہتے ہیں۔

بھارتی عدالتوں میں قانونی نمائندگی کی عدم موجودگی میں، کشمیری طالب علموں کو چوکس گروہوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے مارا پیٹا جاتا ہے، ہراساں کیا جاتا ہے، ڈرایا جاتا ہے یا بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔ ۲۰۲۱ء میں، طالب علموں پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے T20 ورلڈ کپ کے دوران پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بھارت کے خلاف جیت کا کیوں جشن منایا تھا؟

’نرم جبر‘ (Soft Repression)کا سب سے تیز دھار آلہ جھوٹ پر مبنی ہتھیاروں سے لیس میڈیا ہے۔ قوم پرست مزاحمتی بیانیہ کو ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے تماشے کی پکار لگاتے ہوئے اور پاکستان مخالف اور کشمیر دشمنی کو بھڑکاتے ہوئے میڈیا، کشمیریوں کے خلاف بھارتی فوجی تشدد کے لیے جوازگھڑتا ہے۔نوآبادیاتی حکام نے حال ہی میں کئی مزاحمتی گروپوں کو غیرقانونی انجمنیں قرار دیتے ہوئے ان پر پابندی لگا دی۔ مزاحمتی تنظیموں کو بدنام کیا اور غیرقانونی قرار دیا جاتا ہے۔

اس جبر کی نشاندہی، نیم فوجی اہلکاروں کی طرف سے ان تنظیموں کے ارکان کی بے حرمتی، ہراساں کرنے، نگرانی، ممانعتوں، حراستوں، تشدد، اور ٹارگٹ اور حراستی قتل سے ہوتی ہے۔ پولیس اور فوج کے ذریعے نوآبادیاتی حکام کشمیریوں کی سیاسی مزاحمت کو ناکام بنانے میں مصروف ہیں۔ وہ عسکریت پسندانہ جوابی کارروائی کا جواز پیش کرتے ہیں۔

اس کے برعکس بھارت کو دُنیا کے سامنے تسلیم کرنا پڑے گا کہ کشمیری مزاحمتی تحریک کا خونیں بھارتی قوانین کو مسترد کرنا اور برہمنی نوآبادیاتی آباد کاروں کو مسترد کرنا لازم و ملزوم ہے۔ یہ وہ ہتھیار ہیں جس کے ذریعے بھارتی حکمران آبادکار نوآبادیاتی ہندو ریاست کو وجود میں لاتے ہیں۔

کشمیر بطور ایک آبادکار نوآبادیاتی تجربہ گاہ

کشمیر، حکمران ہندو قوم پرست پالیسی کے لیے ’ہندوتوا‘ نوآبادیاتی تجربہ گاہ بن چکا ہے۔ وہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے اپنے قبضے میں رکھنے کے لیے مستعد ہیں۔ وہ ریاست کی طرف سے سنگدل تشدد مسلط کرتے ہیں، کشمیریوں کو پاکستان کے حامی (لہٰذا انڈیا مخالف) ایجنٹ کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ جنھیں ’دہشت گرد دشمن‘ کے طور پر مارا جانا چاہیے یا بصورت دیگر طویل عرصے تک سماجی اور سیاسی زندگی سے مستقل طور پر ہٹا دیا جانا چاہیے۔ مسلسل جیل کی سزائیں او ر نوآبادیاتی تسلط کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کاجنون دیکھتے ہوئے کشمیری بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔ کیونکہ وہ اس جبر کی طویل سیاہ رات میں مادی، نفسیاتی اور جسمانی اثرات کا شکار ہوچکے ہیں۔ ایک طویل سفر ان کے آگے ہے۔ فی الحال، وہ بندوقوں کے سائے میں کھدائی کر رہے ہیں۔

؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء سے مقبوضہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی مسئلہ ہے۔ پاکستان کا مستقل موقف ہے کہ ’’تنازعہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (UNSC) کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے‘‘۔ اپنے اصولی موقف کو برقرار رکھتے ہوئے، اسلام آباد نے نئی دہلی کو تنازعے کے پُرامن حل کے لیے قائل کرنے کے لیے مختلف طریقے آزمائے ہیں۔

پاکستان نے تقریباً تمام عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازعات کے حل کے طریقوں کو اپنانے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان نے ’شملہ معاہدے‘ کے ذریعے دو طرفہ نقطۂ نظر جیسے کئی سفارتی ذرائع آزمائے۔ اسی طرح پاکستان نے تیسرے ملک کو بطور ثالث استعمال کرنے کی کوشش کی، لیکن سب بے سود۔ صدر ضیاءالحق اور وزیراعظم راجیو گاندھی کے زمانۂ حکومت میں اسلام آباد نے نسبتاً چھوٹے تنازعات پر مذاکرات (battom-up approach) کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی جس میں کم پیچیدہ سیاسی مسائل جیسے سیاچن، سر کریک، ویزا نظام سے متعلق مسائل اور عوام سے عوام کے رابطوں میں بہتری پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ امید تھی کہ مذاکرات کے لیے سازگار ماحول بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل پر مجبور کر دے گا۔

انڈین وزرائے اعظم آئی کے گجرال سے لے کر منموہن سنگھ تک ۱۹۹۰ء اور ۲۰۰۰ء کے عشروں کے دوران، پاکستان کی اعلیٰ سول اور فوجی قیادت نے کشمیر پر بھارت کی مغرورانہ ذہنیت کو تبدیل کرنے کی حکمت عملی کے طور پر اعتماد سازی کے اقدامات (CBMs) اور ’جامع مذاکرات‘ کا راستہ اپنانے کی کوشش کی۔ مگر اس دوران میں انڈیا میں برسرِاقتدار آنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے دورِ حکومت میں تنازع میں مزید پیچیدگیوں کی پرتیں شامل ہو گئیں۔ اس کے نتیجے میں، ۲۰۱۹ءکے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تنائو بڑھ گیا ہے۔

اسلام آباد میں حال ہی میں دو مسائل پر بات چیت جاری ہے: مقبوضہ کشمیر اور پاک بھارت تعلقات کا مستقبل۔ پاک بھارت تعلقات کے مختلف پہلوؤں اور تنازعہ کشمیر کو سمجھنے کے لیے اس طرح کے مذاکرات اہم ہیں۔ تاہم، کشمیر پر ایک طویل المدتی، متحرک اور مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ معاشی اور سیاسی طور پر اس مشکل وقت میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی حکمت عملی چار اصولوں پر مبنی ہونی چاہیے: اندرونی استحکام، اسٹرے ٹیجک برداشت، عالمی شراکت داری کو فروغ دینا، اور ایک ’مربوط کشمیر حکمت عملی‘ تیار کرنا۔

پاکستانی سول اور فوجی قیادت پر قوم کو سیاسی طور پر استحکام اور معاشی طور پر بحال کرنے کے لیے ’اندرونی استحکام‘ کے لیے ایک واضح روڈ میپ کا خاکہ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں وہ تمام جوہری اجزا موجود ہیں، جو ایک جدوجہد کرنے والی قوم کو سیاسی اور اسٹرے ٹیجک طور پر دنیا کی ایک بااثر ریاست میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ ایک اہم جیو اسٹرے ٹیجک محل وقوع، اہم بندرگاہوں، مضبوط افواج، نوجوانوں کی افرادی قوت، بھرپور ورثہ اور ثقافت، سافٹ پاور اور متحرک سول سوسائٹی کے ساتھ، پاکستان دنیا کی ترقی پذیر اقوام کی دوڑ میں شامل ہونے کی بخوبی صلاحیت رکھتا ہے۔

اس مقصد کے لیے ۱۰، ۱۵  سال کے دوران میں اندرونی استحکام کے ایک واضح روڈ میپ کی ضرورت ہے، جہاں پاکستان کو کئی گمبھیر مسائل سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔ ادائیگیوں کے توازن کے بحران، قومی قرضوں، تجارتی خسارے اور توانائی کے شعبے میں گردشی قرض، بہتر برآمدی صلاحیت، چین پاکستان اقتصادی راہداری کی کامیاب تکمیل اور براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے سے اقتصادی بحالی ممکن ہے۔

دوسرا یہ کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے آزاد کشمیر میں ریاستی اداروں اور عوامی سطح پر، تزویراتی برداشت کی ضرورت ہے۔ قومی سطح پر محض و قتی اصلاحات کی ذہنیت کی حوصلہ شکنی اور  ٹھوس اصلاحات کی ضرورت ہے۔ قدرتی طور پر، اندرونی استحکام کے دور میں، ساختی اصلاحات کا ایک تکلیف دہ عمل لوگوں کی حوصلہ شکنی کر سکتا ہے۔ سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ وہ اندرونی استحکام کے وقت عوام کو متحد اور بلند حوصلہ رکھے۔ اسی طرح، ریاستی اداروں ’ سول اور ملٹری‘ کی جانب سے بھی نئی دہلی کو یک طرفہ مراعات سے متعلق پیش کشوں سے گریز کرنا چاہیے۔ درحقیقت، نئی دہلی، اسلام آباد کے مثبت اشاروں سے حوصلہ افزائی پاتے ہوئے کشمیر کے بارے میں پاکستان کے نقطۂ نظر کی غلط تشریح کرتا ہے۔

 تیسرا، بین الاقوامی برادری کے ساتھ شراکت داری کو فروغ دینا ایک عملی حل لگتا ہے۔ چھوٹی جنوبی ایشیائی ریاستوں سے لے کر دنیا کے اہم دارالحکومتوں تک، پاکستان کو بین الاقوامی سیاست میں تزویراتی طور پر فعال کردار ادا کرنے کے لیے مضبوط تعاون پر مبنی اور متحرک تعلقات استوار کرنے ہوں گے۔ چھوٹی جنوبی ایشیائی ریاستوں جیسے مالدیپ، سری لنکا اور نیپال کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ دفاعی تعاون، عوام کے درمیان روابط اور دوطرفہ تجارت کو بڑھانا جنوبی ایشیا کی چھوٹی ریاستوں کے لیے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیادی خصوصیات ہونی چاہیے۔ اسی طرح خلیجی ممالک اور ویٹو کلب ریاستوں کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانا بھی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اس سے نہ صرف پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر حمایت حاصل کرنے میں مدد ملے گی بلکہ پاکستان کو تنہا کرنے کی انڈین حکمت عملی کو بھی شکست ہوگی۔

آخر میں، قومی سطح پر ایک طویل المدتی 'مربوط کشمیر حکمت عملی (IKS: انٹیگریٹڈ کشمیر اسٹرے ٹیجی) کی ضرورت ہے۔ معذرت خواہ ہوئے بغیر، پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تعلیمی اداروں، سفارتی ذرائع اور میڈیا کو بین الاقوامی آگاہی کے لیے ایک مؤثر ذریعے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنے موقف کا دفاع کرنا چاہیے۔

اسی طرح اسلام آباد کو مقبوضہ کشمیر میں انڈین سفارتی اور فوجی اقدامات کا جواب دینے کے لیے تمام ریاستی اداروں ’سول اور ملٹری‘ پر مشتمل ایک جامع حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کے حوالے سے انڈین قیادت کی طرف سے درپردہ اور براہِ راست دھمکیوں پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے اور سیاسی اور حکمت عملی کی سطح پر یکساں برابر جارحانہ لہجے کے ساتھ جواب دینا چاہیے۔ معا ملات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے، اسلام آباد کے لیے لازم ہے کہ 'خطرے کا فہم رکھنے والی 'صلاحیت پر مبنی پالیسیوں میں تسلسل اور وسعت لائے، جن میں پاکستان کا معاشی اثر و رسوخ، اسٹرے ٹیجک مطابقت، سفارتی قبولیت اور کشمیر پرمتفقہ اور اصولی موقف کو وزن حاصل ہو۔

۲۰۱۴ء کے انتخابات کے بعد شاید ہی کسی تجزیہ نگار کو یہ اندازہ تھا کہ اس کے نتائج بھارتی سیاسی زندگی میں ایسا زہر کھول دیں گے، جس کا تریاق ڈھونڈنے میں ایک عشرے سے بھی زیادہ عرصہ لگے گا۔

نریندر مودی نے پہلے گجرات میں ایک جانب مذہبی منافرت کے علَم بردار کے رُوپ میں اور دوسری جانب سرمایہ دار دوست اور آزاد منڈی کے نقیب کی شہرت حاصل کی، اور اسی دوران ۱۰سال تک بلا شرکت غیرے ایک مطلق العنان حاکم کی حیثیت سے گجرات کی حکومت چلائی۔ موصوف نے مسلم کش فسادات کو بھڑکایا، جس میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ پھر بھی اس کی حکومت نہ صرف قائم رہی بلکہ دوسری مدت میں بھاری اکثریت سے حکومت بنائی۔ بھارتی جنتا پارٹی، اٹل بہاری واجپائی کی دومسلسل حکومتوں کے بعد، کانگریس کی دو متواتر حکومتوں کی وجہ سے داخلی بحران کا شکار تھی۔ اس پس منظر میں پارٹی کے لیڈروں مودی، امیت شا اور ادتھیا ناتھ یوگی جیسے انتہا پسندوں نے پارٹی پر قبضہ کرلیا اور اس طرح نسل پرست سیاست کے ایک نئے خونیں دور کا آغاز ہوگیا۔

 گذشتہ دس برس سے بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کی پامالی ایک معمول بن گیا،   خاص طور پر مسلمان اور عیسائی اس درندگی کا نشانہ بنے۔کشمیر کی خصوصی حیثیت کو یک طرفہ طور پر ختم کردیا گیا اور غیر کشمیریوں کے لیے روزگار اور زمین کو خریدنا قانونی بنادیا گیا۔ ایک نئےقانون کے تحت شہریوں کی نئی شناخت کی شرط لگا دی، جس کے تحت کسی بھی شہری کے لیے اپنی شہریت قدیم دستاویزات کے ذریعے ثابت کرنا لازم ہوگیا۔ دراصل اس ساری کھینچاتانی کا اصل ہدف وہ بنگالی مسلمان ہیں، جو پچاس ساٹھ برس پہلے شمال مشرق سرحدی علاقوں میں آبسے تھے۔ اس دورِ حکومت میں پاکستان سے تعلقات سرد مہری اور سخت تنائو کا شکار رہے، جب کہ پلوامہ ڈرامے کی آڑ میں مودی نے پاکستان کی فضائی سرحد کو عبور کرکے غیر آباد علاقے میں میزائل داغ دیا۔ اگلے ہی روز پاک فضائیہ نے اس کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے نہ صرف بھارتی فضائیہ کا ایک لڑاکا طیارہ مار گرایا بلکہ اس کے پائلٹ کو بھی گرفتارکرلیا، جسے بعد ازاں یک طرفہ طور پر خیر سگالی کے جذبے کے تحت واپس کردیا گیا۔ لیکن مودی کا ڈنکا بج رہا تھا، لہٰذا سادہ لوح عوام نے مودی کے اس دعوے کو قبول کرلیا کہ یہ واقعہ تو اس کی بہادری کا مظہر تھا۔ ۲۰۱۹ء کے انتخابات میں مودی نے اور بھی بڑی اکثریت سے حکومت بنائی۔

 ۲۰۲۴ء کے انتخاب میں مودی بڑے زعم کے ساتھ ’اب کی بار، ۴۰۰ پار‘ نعرے کی گھن گرج کے ساتھ میدان میں اترا۔  مطلب یہ تھا کہ تیسری مودی حکومت کو لوک سبھا میں تقریباً تین چوتھائی اکثریت چاہیے۔ بظاہر مودی نے کہا کہ مَیں اتنی بڑی اکثریت اس لیے مانگ رہا ہوں تاکہ کانگریس اور اس کے اتحادیوں کا راستہ روک سکوں کیونکہ یہ لوگ ملک کی زمین دوسرے ممالک کو بیچ دیں گے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی اکثریت کی خواہش درحقیقت ایسی طاقت کا حصول تھا جس کے ذریعے مودی ملک کے آئین میں من مانی ترامیم کرسکے۔

مودی اور اس کی ’ہندوتوا سیاست‘ کی سرپرست آر ایس ایس (RSS)، اگست ۱۹۴۷ء سے بھارت کے آئین کونہیں مانتی، بلکہ ان کا کھلا موقف ہے کہ یہ آئین ملک کی اکثریت کی خواہشات اور اُمیدوں کی ترجمانی نہیں کرتا۔ آر ایس ایس کے ایک سربراہ سدرشن نے ۲۰۰۰ء میں صاف صاف کہا: ہندوستانی آئین کی جگہ بھارتی مقدس کتابوں پر مبنی آئین ہونا چاہیے۔ آئین ملک کے لوگوں کے لیے کسی کام کا نہیں تھا کیونکہ یہ ۱۹۳۵ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ پر مبنی تھا … ہمیں آئین کو مکمل طور پر تبدیل کرنے سے شرمانے کی ضرورت نہیں ہے…‘‘۔ لہٰذا مودی کا اصل ایجنڈا یہی تھا کہ وہ آئین کو بنیادی طور پر بدل دے۔ ملک کا نام بھارت رکھے، بھارت کو ہندوؤں کا ملک قرار دے اور اقلیتوں کو کمتر درجے کے شہری قرار دے وغیرہ۔

باوجویکہ مودی بڑے عزائم کے ساتھ میدان میں اترا تھا، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔  نہ صرف مودی کو تین چوتھائی اکثریت نہیں ملی بلکہ گذشتہ دس برسوں میں پہلی مرتبہ مودی کو ’لوک سبھا‘ میں سادہ اکثریت بھی نہ مل سکی۔ مودی نے تیسری دفعہ وزارتِ عظمیٰ تو سنبھالی ہے، لیکن یہ وزارت اپنے ذاتی سیاسی بل بوتے پر نہیں ہے بلکہ اپنی حلیف جماعتوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ مودی نے لوک سبھا کی ۲۴۰ اور اپنے حلیف ’قومی جمہوری اتحاد‘ (NDA)کے ساتھ مل کر ۲۹۳نشستیں حاصل کی ہیں۔ اس اتحاد کے نامور رہنماؤں میں بہار کے نتیش کمار اور آندھرا پردیش کے چندر بابو نائڈو شامل ہیں، جنھوں نے بالترتیب ۱۶ اور ۱۲ نشستیں جیتی ہیں۔ یہ دونوں سیاست دان نسل پرستانہ سیاست کو پسند نہیں کرتے کیوںکہ ان کے حلقوں میں مسلمانوں کے ایک قابلِ ذکر ووٹ ہیں،جنھیں وہ ناراض نہیں کرنا چاہیں گے۔

کانگریسی اتحاد

مودی کی اس ناکامی کی کئی وجوہ ہیں: جن میں مہنگائی اور بے روزگاری، دولت کی تقسیم کا امیر لوگوں کے حق میں ہونا، چند نامور کاروباری گروہوں کی سرکاری سرپرستی (جس میں اڈانی گروپ  کے بانی کے مودی سے گہرے تعلقات ہیں اور شاید وہ مودی کا فرنٹ مین بھی ہے) اور حکومتی فلاحی منصوبے کا غیرمتوازن انداز میں چلایا جانا۔ بعض تجزیہ نگاروں کے نزدیک مندرجہ بالا وجوہ کے برعکس مودی کا نسل پرستانہ منافرت، مسلم دشمنی پر مبنی نعروں پہ تکیہ کرنا عوام کو پسند نہیں آیا۔

لیکن جس قوت نے عوام میں یہ شعور پیدا کیا، وہ حزب اختلاف کا ایک اتحاد تھا، جس کا نام I.N.D.I.A  یعنی Indian National Development Inclusive Alliance رکھا گیا اور جس کی قیادت کانگریس کے نوجوان رہنما راہول گاندھی کر رہے تھے۔ بظاہر یوں لگتا تھا کہ مودی کے مذموم عزائم کی تکمیل میں کوئی طاقت آڑے نہیں آسکے گی۔ لیکن ایک طرف نئے اتحاد کی تاسیس اور ددسری طرف راہول نے ایک بھرپور یاترا شروع کی، جس کا نام ’بھات جوڑو یاترا‘ رکھا۔ یہ ایک پُراثر نعرہ تھا، جس کو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی کیونکہ یہ ملک کی اصل ضرورت کی عکاسی کررہا تھا۔ اس پیدل یاترا میں جو کئی مہینوں پر پھیلی ہوئی تھی راہول نے ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا اور اس کا قافلہ زیادہ تر صوبوں سے گزرا۔ یوں حزب اختلاف کا اتحاد اور راہول گاندھی کی متحرک قیادت نے سیاست کی شکل بدل دی۔

مودی کی ناقابلِ یقین شکست کا اندازہ لگانے کے لیے ضروری ہے کہ چند حیرت انگیز حقائق قارئین کے سامنے رہیں: اول، مودی کابینہ کے ۱۸ وزیر اپنی نشستیں ہار گئے۔ دوم، ہندوتوا کے گڑھ یعنی اتر پردیش میں ۸۰ نشستوں میں سے صرف ۳۳ پر مودی کی جماعت جیتی ہے۔ سوم، فیض آباد میں واقع رام مندر جس کی زیر تعمیر عمارت کا جنوری میں مودی نے بڑے شان دار انتظامات کے ساتھ افتتاح کیا تھا، اس کے اطراف میں تمام علاقوں سے مودی کی جماعت کو بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ چہارم، رام مندر کی جزوی تعمیر اور افتتاح کا مودی کی حکمت عملی میں کلیدی کردار تھا، اس نے سمجھ رکھا تھا کہ رام مندر تنہا اُن کی بڑی کامیابی کے لیے کافی ہوگا۔ مگر شومئی قسمت کہ خود رام مندر والے حلقے میں ناکامی لکھی ہوئی تھی۔ اس حلقے میں سماج وادی پارٹی، جو کانگریسی اتحاد میں شامل تھی، کے امیدوار نے مودی کے امیدوار کو بہت بڑے فرق سے ہرایا۔ یاد رہے کہ مودی کے اُمیدوار ’مندر تعمیر کمیٹی‘ کے چیئرمین کے صاحبزادے تھے۔

مودی اور اتحادی حکومت

بحث کا ایک سوال یہ ہے کہ کیا مودی مخلوط حکومت کی سربراہی میں اپنے مخصوص مزاج کے ساتھ کام کر پائے گا؟ اکثر تجزیہ نگار کہتے ہیں: ’’یہ ناممکن ہو گا کیونکہ مودی کو اتحادی سیاست کا فہم نہیں، جس کے لیے اتحادیوں کے ساتھ نرم و دوستانہ رویہ، کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی، کابینہ کے اہم فیصلوں پر انھیں اعتماد میں لینا اور بعض اوقات اتحادیوں کے غیرمعقول مطالبات (مودی کی رائے میں) تسلیم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ گجرات میں دو اور مرکز میں دو حکومتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ مودی پیدائشی طور پر آمرانہ مزاج کی حامل شخصیت ہے، جس کے لیے مختلف الخیال افراد کے ساتھ کام کرنا آسان نہیں۔

اس اتحاد کی پائیداری کا امتحان بہت جلد ہونے والا ہے۔ اول، ابھی مکمل طور پر کابینہ کے عہدوں کا بٹوارہ نہیں ہوا ہے، جو یقیناً مودی کے لیے مشکلات کھڑی کرے گا۔ دوم، مودی کو بہت جلد لوک سبھا سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہے۔ جس کے متعلق تجزیہ نگار کہتے ہیں: یہ مرحلہ خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔ نہ صرف اس میں اتحادی پھسل سکتے ہیں بلکہ مودی کی اپنی پارٹی بھی اس کو اب ایک بوجھ سمجھتے ہوئے اس سے پیچھا چھڑا سکتی ہے۔ سوم، اس اندیشے کو یوں مزید تقویت پہنچتی ہے کہ آر ایس ایس کے چیف موہن بھگوات نے انتخابی نتائج کا ان لوگوں کو ذمہ دار ٹھیرایا ہے، جو مغرور رویوں کے حامل رہے ہیں۔ تمام سیاسی پنڈت کہہ رہے ہیں کہ یہ اشارہ مودی کی طرف ہے۔ آر ایس ایس اور مودی میں دوری انتخابات سے پہلے سے چل رہی ہے۔ چہارم، مودی کی ’ہندوتوا سیاست‘ کو انتخابی میدان میں بُری طرح شکست ہوئی ہے۔

آخری بات یہ ہے کہ جن حلیف جماعتوں نے مودی کو بیساکھیاں فراہم کی ہیں، وہ اس وقت عوامی دباؤ کا شکار ہیں کیونکہ انھوں نے عوامی رائے کے برخلاف ووٹ دے کر ایک مسترد شدہ شخص کی حکومت بنوائی ہے۔ یہ دونوں، اپنی سیاست میں بہت سے نشیب و فراز سے گزرے ہیں اور بنیادی طور پر لوگوں کو ملانے کی سیاست کرتے ہیں، جو مودی کی تقسیم کی سیاست کو اور خاص طور پر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف باتوں کو، مسترد کرتے ہیں۔ بہت سے مبصرین پہلے ہی مودی سے ہاتھ ملانے کے لیے ان پر تنقید کر رہے ہیں۔

 ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت میں یہ ایک بڑی سیاسی تبدیلی آئی ہے اور بھارتی عوام نے نفرت اور تقسیم کی سیاست کو مسترد کیا ہے ۔بھارت کے سیاسی منظر پر مایوسی اور نومیدی کے گھٹا ٹوپ بادلوں نے ایک صبح کو راستہ دیا ہے۔ رائے دہندگان نے نفرت و تقسیم کی زنجیروں کو توڑا ہے۔ جس سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ یہ سفر مثبت سمت کی جانب رواں رہے۔ مگر دوسری طرف بی جے پی نے جھنجلاہٹ میں بھارت کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں اور ہجومی تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ کیا ہے۔ یقینا یہ واقعات اس نفرت کی سیاست کو دفن کرنے کا سبب بنیں گے۔

گذشتہ صدی کے آخر میں ’نئے عالمی نظام‘ [New World Order]، ’تہذیبوں کے تصادم‘ [Clash of Civilization] اور اختتام تاریخ [End of History] کی بحثوں کا شور برپا تھا۔ لیکن گذشتہ کچھ عرصے میں مغرب میں ’عظیم تعمیرِنو‘ [The Great Reset] کی بحث نہ صرف پوری قوت سے جاری ہے بلکہ دنیا کے طاقت ور افراد کھل کر اس کے حق میں یا مخالفت میں اپنی اپنی رائے کا اظہار بھی کررہے ہیں بلکہ اپنی دولت اور اثرورسوخ کے بل بوتے پر اپنے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں بھی لگے ہیں۔

دنیا کے مال دار ترین امریکی سیٹھ ایلون مسک نے گذشتہ دنوں اپنی ایکس پوسٹ میں کہا :

The True battle is Extinctionists who want a holocaust for all of Humanity. Vs Expansionists who want to reach the stars and Understand the Universe.

اصل لڑائی دو قوتوں کے درمیان ہے: ’معدومیت پسند‘ ،کہ جو پوری انسانیت کے لیے ہولوکاسٹ چاہتے ہیں، اور’ توسیع پسند‘، کہ جو ستاروں تک پہنچنا اور کائنات کو سمجھنا چاہتے ہیں۔

یہ ذومعنی ’ٹویٹ‘ یا ’پوسٹ‘ گذشتہ کئی عشروں سے جاری 'تہذیبی تصادم کے تناظر میں نظر آئے گی، لیکن ایلون مسک نے اگلے ٹویٹ میں اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھا:

Now Imagine if the Extinctionist philosophy is programmed into Al- No need to imagine - this is already the case with Gemini and ChatGPT.

اب ذرا تصور کریں کہ اگر ’معدومیت پسندوں‘ کے فلسفے کو ’مصنوعی ذہانت‘ [کے پروگرام] میں شامل کردیا جائے۔ [بلکہ] تصور کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ کام جیمینی [گوگل کا ’اے آئی‘ پروگرام ] اور چیٹ جی پی ٹی [Chat GPT] پہلے ہی کررہے ہیں۔

ایلون مسک نے یہ پوسٹ ایک خبر کے جواب میں کی ہے، جس کے مطابق ایک مشہور انگریزی فلم [Planet of The Apes] کے اداکاروں نے ایک انٹرویو میں کہا: ’’یوں تو وہ فلم میں انسانوں کو بندروں سے بچاتے نظر آتے ہیں، لیکن حقیقی زندگی میں وہ بندروں کے ساتھ شامل ہونا پسند کریں گے، تاکہ بندروں کے ساتھ مل کر انسانوں کا خاتمہ کرسکیں کیونکہ انسانوں نے دنیا کو برباد کردیا ہے۔ بظاہر تو یہ پوری گفتگو ہی بے معنی اور بےتکی لگتی ہے۔ لیکن صورتِ حال اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ ایلون مسک نے ہنسی مذاق کے ماحول میں ہونے والی اس گفتگو کے پیچھے اُس اصل سوچ پر تنقید کی ہے، جو زمین کے بچائو کے لیے انسانوں کے خاتمے کی حامی ہے۔

اسی سوچ کے حامل یونی ورسٹی کالج، لندن میں ماحولیاتی آلودگی کے پروفیسر بل مک گیوری (Bill McGuire ) نے برطانوی اخبار دی گارڈین  (۱۱ مئی ۲۰۲۴ء )میں شائع ہونے والے ایک تجزیے ’ہم انسانی برڈ فلو کے لیے کتنے تیار ہیں؟‘  [How Prepared are We for Human Bird Flu?] کو ٹوئیٹر یا ایکس پر شیئر کرتے ہوئے لکھا:

If I am brutally honest, the only realistic way I see emissions falling as fast as they need to, to avoid catastrophic climate breakdown,is the killing of the human population by a pandemic with a very high fatality rate.

اگر میں کڑوا سچ بولوں تو [زہریلی گیس کے] اخراج میں کمی کا تیز ترین اور کسی تباہ کن ماحولیاتی المیے سے بچنے کا حقیقت سے قریب راستہ صرف ایک ہی ہے، [اور وہ ہے] کسی ایسی وبا کے ذریعے انسانی آبادیوں کا صفایا، جس میں موت کی شرح بے حد زیادہ ہو۔  

اس پوسٹ کے بعد پروفیسر مک گیوری کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد انھوں نے پہلے تو اپنی یہ پوسٹ ہٹادی اور پھر وضاحت دیتے ہوئے لکھا کہ ’’میں صرف معاشی سرگرمی میں کمی کے حوالے سے گفتگو کر رہا تھا‘‘۔

کچھ اہل دانش کے خیال میں یہ سوچ اور پیغام جان بوجھ کر پھیلایا جارہا ہے، تاکہ ذہن آہستہ آہستہ ایسی بربادی کو قبول کرنے یا اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوتے جائیں۔ اس سوچے سمجھے منصوبے کے پیچھے دنیا کے بہت سے طاقت ور اور مال دار افراد کا پورا طائفہ ہے جن میں ورلڈ اکنامک فورم کے کلاز سواب [Klaus Schwab] ، مشہور لوجسٹ بل گیٹس [ Bill Gates]  وغیرہ شامل ہیں۔ اس منصوبے کو ’ایک عظیم تعمیرِنو‘ [The Great Reset] کا نام دیا گیا ہے۔

آخر یہ ’ایک عظیم تعمیرِنو‘ منصوبہ کیا ہے؟ دنیا کے یہ طاقت ور افراد کیا سوچ رہے ہیں؟ اور اپنے وسائل کہاں خرچ کررہے ہیں، اور ان کی نظر میں دنیا کا مستقبل کیسا ہوگا؟

’ایک عظیم تعمیرِ نو‘  منصوبہ کیا ہـے؟

یہ منصوبہ ’عالمی اقتصادی فورم‘ [World Economic Forum] کی جانب سے کورونا کووڈ کی وبا کے بعد ۲۰۲۰ء میں پیش کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد کورونا وبا کی وجہ سے ہونے والے ناقابلِ تلافی نقصانات کے ازالے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا تھا۔ ’عالمی اقتصادی فورم‘ (WEF) ایک غیر سرکاری تنظیم ہے، جس کو ۱۹۷۱ء میں کلاز سواب نے قائم کیا تھا۔ اس تنظیم کا مقصد دنیا بھر کے اہم لوگوں کو، چاہے ان کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہو، اکٹھا کرکے منصوبہ بندی کرنا ہے تاکہ دنیا کو رہنے کے لیے بہتر سے بہتر بنایا جاسکے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پلیٹ فارم اتنا اہم ہوگیا ہے کہ دنیا بھر کے حکمران، ارب پتی کاروباری اور اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین اس پلیٹ فارم سے گفتگو کرنا اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔

اس منصوبے کے بنانے والوں کے خیال میں کورونا کی وبا نے ایسا موقع فراہم کیا ہے، جس کا فائدہ اٹھا کر دنیا کو درست سمت میں چلایا جاسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ۲۰۳۰ء کے پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ پائیدار ترقی کا یہ منصوبہ ۲۰۱۵ء میں اقوام متحدہ نے منظور کیا تھا، جس کا مقصد ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانا اور کرۂ ارض کو محفوظ و مامون بنانا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیاں ،  حقیقت یا ہَوّا؟

اگلے دس برسوں میں جو معاملہ دنیا کے ہر اہم معاملے پر سبقت رکھے گا اور گذشتہ کچھ عرصے میں سب سے زیادہ شور جس مسئلے پر مچا ہے، وہ ماحولیاتی تبدیلی یا Climate Change کا ہے، جسے اکثر ’گلوبل وارمنگ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ اس عمل کو کہتے ہیں، جس کی وجہ سے زمین کا درجۂ حرارت بڑھنا شروع ہوجائے، جس کی وجہ سے مختلف ماحولیاتی تبدیلیاں جنم لیں، جس میں سیلاب کی زیادتی، سردیوں کے موسم میں مسلسل کمی ہونا اور گرمیوں کا شدید سے شدید تر ہوجانا شامل ہے۔ زمین پر موسمیاتی تبدیلیاں اگرچہ قدرتی وجوہ کی بنا پر ہمیشہ ہوتی رہی ہیں، لیکن آخری ۳۰۰ برسوں میں ’صنعتی انقلاب‘ کے بعد موسمیاتی تبدیلیوں کی اصل وجہ قدرت کے مظاہر نہیں بلکہ خود ہم بن گئے ہیں۔ اور اس کی بنیادی وجہ زہریلی گیسوں مثلاً کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین کا اخراج ہے۔ اس کی اہم وجہ ایندھن یعنی تیل، گیس اور کوئلے کا بڑھتا ہوا استعمال ہے، جو بڑھتے بڑھتے اب اتنا زیادہ ہوگیا ہے کہ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو کچھ ہی عرصے میں کرۂ ارض انسانوں کے لیے ناقابلِ رہایش ہوجائے گا۔

اس مسئلے پر توجہ دلانے کے لیے ماحولیاتی تنظیموں نے مشہور لوگوں کو اپنا ہم نوا بنا کر گذشتہ کچھ عرصے سے تحریک شروع کررکھی ہے، اور تقریباً ہر ملک میں مختلف کانفرنسوں کا انعقاد کرکے اس مسئلے پر توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح اس تحریک کے حامی اس مسئلے پر توجہ دلانے کے لیے کبھی تو ٹرکوں کے آگے لیٹ جاتے ہیں اور کبھی کسی مشہور آرٹسٹ کی پینٹنگ پر  رنگ پھینک کر توجہ حاصل کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں زمین کے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت پر قابو پانے کے حل کے لیے اقوام متحدہ کے زیر سایہ ہر ملک نے اپنے اپنے حصے کا کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور مختلف اہداف طے کیے ہیں۔

 یہی وہ اہداف ہیں، جن کی وجہ سے اس تحریک کے مخالفین بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ جو اس عمل کو ’انسانیت کو قابو کرنے‘ اور ’عالمی حکومت کے قیام‘ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس مخالفت کی ایک بڑی وجہ وہ غیر سنجیدگی ہے، جو اس تحریک کے سرکردہ رہنماؤں کے رویئے میں نظر آتی ہے۔ مثلاً اس تحریک کے اکثر سرکردہ حامی وہ امیر لوگ ہیں، جو ایک طرف تو  ان کانفرنسوں میں شرکت کے لیے تن تنہا اپنے پرائیوٹ جہازوں پر سفر کرتے ہیں، ان کانفرنسوں کے بعد ہونے والی پارٹیوں میں مختلف طرح کے کھانے اُڑاتے ہیں، مگر عام انسانوں کو گائے کا گوشت کے بجائے 'متبادل اورماحول دوست کھانا کھانے پر زور دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ ایک اندازے کے مطابق ایک پرائیوٹ جیٹ اپنے صرف ایک گھنٹے کے سفر میں تقریباً ۲ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس پیدا کردیتا ہے، جس کے مقابلے میں ایک آدمی پورے سال میں صرف ۵ سے ۸ ٹن گیسوں کے اخراج کا سبب بنتا ہے۔ 

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ماضی میں اکثر ماحولیاتی تبدیلیوں کی تحریکوں کو ’پیسہ کمانے اور ملازمتیں چھیننے کا بہانہ ‘کہتے رہے ہیں۔ سی بی ایس نیوز کے مطابق ٹرمپ نے کہا:

I think something's happening. Something's changing and it'll change back again... I don't think it's a hoax. I think there's probably a difference. But I don't know that it's manmade. I will say this: I don't want to give trillions and trillions of dollars. I don't want to lose millions and millions of jobs

میرے نزدیک کچھ [مسئلہ] ہورہا ہے۔ [ماحول میں] کوئی چیز تبدیل ہورہی ہے لیکن یہ واپس [پرانی شکل میں] آجائے گی۔ میں اسے ہوّا نہیں سمجھتا۔ کچھ تو مسئلہ ہے لیکن یہ انسانوں کا پیدا کردہ نہیں ہے۔ میں صرف یہ کہوں گا کہ [بحیثیت صدر] میں اس مسئلے کے لیے ٹریلین ڈالرز نہیں دے سکتا، اور نہ لاکھوں ملازمتیں ختم کرنا چاہوں گا۔

گائے کے گوشت کے بجائے جھینگر کھانے کا مشورہ

ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے میں تقریباً ۳۰ فی صد حصہ فوڈ انڈسٹری کا ہے۔ زہریلی میتھین گیس کے اخراج کا ایک بڑا سبب گائے بھینسوں کے وہ کمرشل فارم ہیں، جو دنیا بھر میں سستا اور معیاری گوشت فراہم کررہے ہیں۔ گائے بھینسیں چارہ ہضم کرتے ہوئے میتھین گیس کا اخراج کرکے زمینی درجۂ حرارت کے بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ ماحولیاتی تنظیموں کے چند حامی اس مسئلے کے حل کے طور پر گوشت کی جگہ جھینگر کھانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں:’’ کیونکہ لائیو اسٹاک فارمنگ کے مقابلے میں جھینگر فارمنگ کم خرچ بھی ہے اور ماحول دوست بھی‘‘۔

دوسری طرف کیڑے مکوڑوں کی فارمنگ کے ساتھ ساتھ لیباریٹری میں تیار گوشت کے حمایتی بھی اس مہم کا حصہ بن رہے ہیں۔ اس مہم کے سب سے بڑے وکیل مشہور لوجسٹ بل گیٹس ہیں، جن کے خیال میں ترقی یافتہ ممالک کو مکمل طور پرمصنوعی گوشت کا استعمال شروع کردینا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے مشہور امریکی یونی ورسٹی ایم آئی ٹی (MIT )کے میگزین کو اپنی کتاب How to Avoid a Cilimate Disaster? کے حوالے سے انٹرویو دیتَے ہوئے کیا۔

واضح رہے کہ بل گیٹس جو اب 'خوراک اور صحت کی بہتری پر اپنی ساری توجہ مرکوز کرچکے ہیں نہ صرف ایسی بہت سی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کررہے ہیں، جو مصنوعی گوشت پر تحقیق کررہی اور اس کو عام کرنے کی کوشش کررہی ہیں، بلکہ اس وقت امریکا کے سب سے بڑے زمین دار بھی بل گیٹس بن چکے ہیں، جنھوں نے مختلف امریکی ریاستوں میں بے حساب زرخیز زمین خرید رکھی ہے۔ بل گیٹس نے اپنی دولت کا ۸۰ فی صد حصہ جو تقریباً ۳۶ بلین ڈالر بنتا ہے، ’گیٹس فاونڈیشن‘ میں لگادیا ہے جس کا ایک مقصد لوگوں کی 'صحت کو بہتر بنانا ہے۔

’لائیو اسٹاک فارمنگ‘ کے ساتھ زیادہ فصل حاصل کرنے کے لیے کھادوں کے استعمال نے بھی ماحول پر منفی اثر ڈالا ہے۔ اس سب پر قابو پانے کے لیے مختلف یورپی حکومتوں نے سخت پابندیاں لگانی شروع کردی ہیں۔ مثلاً ہالینڈ، جو زراعت اور لائیو اسٹاک سے وابستہ چیزوں اور مصنوعات کا امریکا کے بعد دوسرا بڑا ایکسپورٹر ہے، اس کی پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا گیا کہ ’’ملک میں لائیو اسٹاک فارمنگ کے بڑے بڑے فارموں کو بند کردیا جائے اور لائیو اسٹاک کی تعداد کو آدھا کردیا جائے‘‘۔ اس بل کے پیش ہونے کے بعد ہالینڈ میں زراعت اور لائیو اسٹاک سے وابستہ کسانوں نے مظاہرے شروع کردیے، جو آہستہ آہستہ اب پورے یورپ میں پھیل رہے ہیں۔

ایک طرف یہ کارروائیاں ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے نام پر ہو رہی ہیں، تو دوسری طرف کسی نئے ممکنہ وائرس سے بچنے کے لیے بھی لائیو اسٹاک سیکٹر میں سخت اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ امریکی ویب سائٹ این بی سی کے مطابق ’’گذشتہ دنوں امریکی ریاست آئیوا میں پولٹری فارم مالکان کو تقریباً ۴۰ لاکھ مرغیاں مارنے کا حکم دیا گیا، کیونکہ ایک فارم پر ’برڈ فلو وائرس‘ پایا گیا تھا۔ امریکی محکمۂ زراعت کے مطابق امریکا میں ۲۰۲۲ء سے اب تک تقریباً ۹ کروڑ مرغیوں کو اسی وجہ سے مارا جاچکا ہے، کیونکہ کسی علاقے میں ’برڈ فلو وائرس‘ پایا گیا تھا۔ اور وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے علاقے میں موجود تمام مرغیوں کو مار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ سائنس دانوں کے خیال میں پہلے بےضرر سمجھا جانے والا ’برڈ فلو وائرس‘ وقت گزرنے کے ساتھ طاقت ور ہوچکا ہے اور اب مرغیوں سے دوسرے جانوروں اور انسانوں میں بھی پھیل سکتا ہے‘‘۔

اسی طرح کے ایک اقدام میں نیوزی لینڈ میں شہد پیدا کرنے والے فارم مالکان کو اپنے شہد کی مکھیوں کے فارم پر موجود شہد کی تمام مکھیوں کو مارنے کا حکم ملا کیونکہ شہد کی مکھیوں میں ممکنہ طور پر ایک خطرناک وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔

اس عمل کے مخالفین کے خیال میں ایک طرف تو یہ سب ہمارے کھانے پینے کی عادات اور اطوار کو تبدیل کرنے کے لیے کیا جارہا ہے، تو دوسری طرف اس کا مقصد ادویات بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے نئی ویکسینز (Vaccines) متعارف کرا کر اپنے منافع کو بڑھانا ہے۔ ساتھ ہی ان کے خیال میں یہ ’طاقت ور وائرس‘ قدرتی نہیں بلکہ انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں اور اس شبہے کو یہ نظریہ بھی تقویت دیتا ہے کہ کورونا وائرس اصل میں چین کے صوبے ووہان [Wuhan] کی ایک لیبارٹری میں تیار کیا گیا تھا اور اس لیبارٹری کو امریکی حکومت کی فنڈنگ ہوتی تھی۔ ۲۲؍ اپریل ۲۰۲۴ء کی امریکی ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک خبر کے مطابق چینی حکومت نے وائرس پھیلنے کے بالکل ابتدائی دنوں ہی میں مختلف لیباریٹریوں کو بند کرکے، غیرملکی سائنس دانوں کو ملک سے نکال دیا تھا اور مقامی سائنس دانوں کے بیرون ملک جانے پر پابندی لگادی تھی۔ جس کے باعث کسی بھی طرح سے کورونا وائرس کے پھیلنے کی اصل وجہ جاننا تقریباً ناممکن ہوگیا۔

جینیٹکس انجینیرنگ اور خوراک و صحت کے مسائل

’’کیا جھینگر یا دوسرے کیڑے مکوڑے کھانا اور مصنوعی گوشت استعمال کرنا حلال ہے یا حرام؟‘‘ اس بحث کو اگر چھوڑ بھی دیں تو دوسرا بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے ہماری صحت پر کیا اثر پڑے گا؟ اس سوال کا جواب شاید ابھی کسی کے پاس نہ ہو، لیکن یہ سب جینیٹکس انجینیرنگ سے ممکن ہوا ہے۔ دو عشرے قبل جو ٹیسٹ ٹیوب بچوں کا شور اُٹھا تھا، وہ اب ہمارے دسترخوان تک پہنچ گیا ہے۔ آپ نے گذشتہ دنوں پاکستان میں مرغیوں کی خوراک کے لیے منگوائی جانے والے سویابین پر حکومتی پابندی کا تو سنا ہوگا کیونکہ وہ [ GMO - Genetically Modified Organism] کے زمرے میں آتا ہے اور بیش تر ممالک میں اس پر پابندی ہے کیونکہ اس کو بڑھتے ہو ئے کینسر کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔

اسی سے ملتا جلتا معاملہ ایم آر این اے [MRNA] ویکسینز کا ہے۔ امریکی کمپنی فائزر، اپنی کورونا وبا سے مقابلے کے لیے متعارف کرائی گئی ویکسین کی وجہ سے شدید تنقید کی زد میں ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے لوگوں کو دیگر بہت سی طبّی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گذشتہ دنوں امریکی محکمۂ صحت کے سربراہ ڈاکٹر انتھونی فاوچی کو امریکی پارلیمنٹ میں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔  نیوز ویک کے مطابق امریکی ریاست جارجیا سے تعلق رکھنے والی پارلیمنٹیرین ماہجوری ٹیلر گرین [Marjorie Taylor Greene] نے ڈاکٹر فاوچی پر انسانیت کے اجتماعی قتل کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا کیونکہ ڈاکٹر فاوچی نے کورونا ویکسین کو اپنے کاروباری مقاصد کے لیے محفوظ قرار دیا تھا۔ کچھ امریکی کمپنیوں نے اپنی کورونا ویکسین مارکیٹ سے اٹھانا شروع کردی ہیں، لیکن بل گیٹس اب بھی ان ویکسینوں کے استعمال کی حمایت کرتے ہیں۔

 دوسری طرف بل گیٹس کے مخالفین کے خیال میں امریکا میں پیدا ہونے والے بچوں میں بڑھتے ہوئے آٹزم [Autism]کی وجہ ان ویکسینوں میں استعمال ہونے والی چیزیں مثلاً مرکری اور دوسری دھاتیں شامل ہیں۔ اسی طرح خوراک کو محفوظ کرنے کے لیے استعمال کی جانے والی پلاسٹک کو، جسے پہلے سائنس دانوں نے محفوظ قرار دے دیا تھا، اب انسانی شرح پیدائش میں مسلسل کمی کا باعث سمجھا جارہا ہے۔ اسی طرح نت نئی ’لوجی‘ سے تیارکردہ مختلف قسم کے تیار کھانے [Processed food] وغیرہ بچیوں میں قبل از وقت بلوغت کے مسائل پیدا کررہے ہیں۔

توانائی کے بدلتے ذرائع

پائیدار ترقی کے منصوبے میں سبز توانائی [Green Energy] کو مرکزیت حاصل ہے۔ پہلےجہاں سڑکوں پر تیل اور گیس سے چلتی گاڑیاں نظر آتی تھیں، اب بجلی سے چلنے والی گاڑیوں نے جگہ لینی شروع کردی ہے۔ یہ بجلی کیونکہ سورج سے توانائی حاصل کرکے بنائی جاتی ہے، اس لیے اس سے زہریلی گیسوں کا اخراج بہت کم ہوتا ہے۔

گو کہ یہ ’لوجی‘ ابھی نئی ہے اور اس بجلی کو محفوظ کرنے کے طریقے یا بیٹریاں ابھی مہنگی ہونے کے ساتھ ساتھ مختصرعرصے میں ناقابل استعمال ہوتی ہیں، لیکن یہ سیکٹر سرمایہ کاری کا مرکز بن گیا ہے۔ جہاں یہ تبدیلی سستے اور صاف ایندھن کی فراہمی میں معاون ہوگی، وہاں اس نے تیل کی دولت سے مالا مال ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے کا امکان مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک مثلاً سعودی عرب، کویت وغیرہ کا ہے۔

عرب ممالک نے اس خطرے کو بھانپتے ہوئے اپنی اپنی معیشتوں کو تیل کے علاوہ دوسرے طریقوں سے بھی مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسا ہی ایک منصوبہ ایک پائیدار، صاف اور کم اخراج والی توانائی سے چلنے والے شہر نیوم [NEOM] کے بنانے کا ہے۔ سعودی عرب اس منصوبے پر اربوں ڈالر لگا رہا ہے۔

کاربن ٹیکس، ڈیجیٹل معیشت اور قرضوں کا نیا جال؟

کسی بھی چیز کے فوائد یا خطرات کی بحث تو ہمیشہ جاری رہے گی، لیکن آپ کیڑے مکوڑے کھانا چاہیں یا گائے کا گوشت؟ برقی گاڑیوں میں سفر کریں گے یا نہیں، آپ کو کاربن ٹیکس ہر حال میں دینا پڑے گا اور یہ کاربن ٹیکس آنے والے دنوں میں ہر چیز پر لگ جائے گا۔ اگر کسی چیز کو بنانے کی وجہ سے زہریلی گیسوں کا اخراج زیادہ ہوتا ہے تو اس چیز پر کاربن ٹیکس بھی زیادہ ہوگا، اور آپ کسی صورت ایسے کسی ٹیکس سے بھاگ نہیں پائیں گے، کیونکہ اگلے دس برسوں میں دنیا بھر میں معیشت کو ڈیجیٹلایز کردیئے جانے کی تیاریاں ہورہی ہیں اور اس عمل میں سب سے اہم کردار مختلف ممالک کے مرکزی بینکوں کی طرف سے جاری کردہ ڈیجیٹل کرنسیوں [CBDC- سنٹرل بنک ڈیجیٹل کرنسیز]کا ہوگا، جو کیش یا کاغذی کرنسی کی جگہ لے لیں گی۔

انٹرنیٹ نے زندگی کے ہر شعبے کو تبدیل کردیا ہے۔ جہاں پہلے خطوط لکھ کر دل کا حال سنایا جاتا تھا، تو اب اسمارٹ فون پر سات سمندر پار بیٹھے لوگوں سے جب دل چاہے گفتگو ہوجاتی ہے۔ بازار جاکر خریداری کے جھمیلوں سے ای کامرس کی وجہ سے تقریباً جان چھوٹ رہی ہے۔

معیشت کو ڈیجٹلایز کرنے کی یہ تحریک سب سے پہلے ’بٹ کوائن‘ (Bitcoin)سے شروع ہوئی تھی، جس نے گذشتہ دس بارہ برسوں میں صحیح غلط، قانونی اور غیرقانونی اور دیگر لاتعداد بحثوں اور سوالات کو پیچھے چھوڑ کر ’ڈیجیٹل گولڈ‘ کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ بٹ کوائن کو ۲۰۰۸ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد بڑھتے ہوئے افراط زر اور دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کی جانب سے اندھا دھند کرنسی کی چھپائی کی وجہ سے ہونے والی گراوٹ کے مقابلے کے لیے لایا گیا تھا۔ بٹ کوائن بنانے والوں کے خیال میں ڈالر اور دیگر کاغذی کرنسیاں کوئی حقیقی اہمیت نہیں رکھتیں بلکہ یہ عوام کو غلام بنائے رکھنے کا طریقہ ہے، کیونکہ امریکا میں ۱۹۷۱ء میں گولڈ اسٹینڈرڈ کے خاتمے کے بعد جب حکومت کا دل چاہتا ہے وہ ڈالر چھاپ لیتی ہے، جس کے پیچھے کو ئی اصل دولت مثلاً سونا تو نہیں ہوتا، مگر اس کا اثر عام آدمی پر افراط زر کی صورت پڑتا ہے۔

واضح رہے کہ امریکا اپنی عالمی طاقت کی حیثیت کو بچانے کے لیے بے تحاشا ڈالر چھاپ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے امریکا کا قومی قرضہ ۳۵ ٹریلین ڈالرز تک پہنچ گیا ہے۔ یہ قرض کتنا زیادہ ہے؟ اس کو بآسانی سمجھنے کے لیے اس سے اندازہ کرلیں کہ اگر ہم ایک ملین سیکنڈ پیچھے جائیں تو یہ صرف ۱۲ دن کا عرصہ بنتا ہے۔ لیکن اگر ہم ایک بلین سکینڈ پیچھے جائیں تو یہ تقریباً ۳۱ سال کا عرصہ بنتا ہے اور اگر ہم ایک ٹریلین سکینڈ پیچھے چلے جائیں تو یہ عرصہ ۳۱ ہزار برسوں کا بن جاتا ہے۔

گو کہ سارے ممالک ہی اپنی اپنی کرنسی چھاپ کر معیشت بچانے میں لگے ہیں، لیکن امریکی ڈالر کی عالمی ریزرو کرنسی کی حیثیت امریکی ڈالر کی چھپائی کے عمل کو جہاں امریکی حکومت کے لیے اپنی عالمی طاقت منوانے میں بغیر کسی محنت کے فائدہ پہنچاتی ہے، وہیں عام عوام کے  ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کو بھی اس افراط زر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ بین الاقوامی تجارت کے لیے ان کو اپنے پاس ڈالر کے ذخائر رکھنے پڑتے ہیں، جب کہ امریکا یہی کام بغیر کسی محنت کے کرلیتا ہے۔ چین، روس، انڈیا اور چند دوسرے ممالک نے اس معاملے سے نمٹنے کے لیے بریکس [BRICS] نامی تنظیم بنالی ہے، جو اپنی مشترکہ کرنسی لانے پر غور کررہی ہے۔

'مرکزی بینک کی ڈیجیٹل کرنسی یا [سنٹرل بنک ڈیجیٹل کرنسی - CBDC] کے ساتھ ساتھ ’پیسے کی نجکاری‘ [Privatization of Money] اور کاربن کریڈٹس [Carbon Credits] کا تصور بھی پیش کردیا گیا ہے۔ جسے بعض محتاط تجزیہ نگار کمزور ممالک کے لیے قرضوں کا نیا جال کہہ رہے ہیں۔ عالمی معیشت پر اس سب کے کیا اثرات ہوں گے؟ کمزور ممالک کے لیے قرضوں کا نیا جال کیسا ہوگا؟ اس سب کا فیصلہ کرنا ابھی تو مشکل ہے، لیکن نجی زندگی اور پرائیوسی کے حامی اس کے سخت مخالف ہیں کیونکہ کرنسی کو ڈیجیٹلائز کرنے کے بعد حکومتوں کے لیے عام لوگوں کی نگرانی کرنا اور ان پر پابندیاں لگانا بہت آسان ہوجائے گا۔

مصنوعی ذہانت کے عام ہونے کے بعد کیا ہوگا؟

اوپر جو بات پروفیسر مک گیوری نے واضح انداز میں کہہ دی تھی اسی بات کو مشہور اسرائیلی دانش ور یووال ہراری [Yuval Noah Harari] نے ایک سوال کے طور پر پیش کیا ہے: ’’مصنوعی ذہانت کے عام ہوجانے کے بعد کیا ہوگا؟‘‘ یعنی جب ربوٹس انسانوں کی جگہ لے لیں گے، تو اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب اپنی کتاب ’سیپینز: انسان کی مختصر تاریخ‘ [Sapiens: A Brief History of Humankind] سے شہرت پانے والا مصنف ایک انٹریو میں کہتا ہے:

We see the creation of a new massive class of useless people as computers become better and better in more and more fields........ the big political and economic question of the 21st century will be what do we need humans for or at least what do we need so many humans for… at present the best guess we have is to keep them happy with drugs and computer games.

[کیونکہ] کمپیوٹروں کے [زندگی کے] مختلف شعبہ جات میں کام کرنے کی صلاحیت میں [مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے] اضافہ ہورہا ہے۔ [اس لیے مستقبل میں] ہم بیکار لوگوں کا ایک بہت بڑا طبقہ پیدا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ اکیسویں صدی کا سب سے اہم سیاسی اور معاشی سوال یہ ہوگا کہ آخر انسانوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بالخصوص اتنے سارے انسانوں کی کیا ضرورت ہے؟ فی الحال تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ ان کو کمپیوٹر گیمز اور منشیات سے خوش رکھا جائے گا۔

لیکن نوح ہراری ’مصنوعی ذہانت‘ (Artificial Intelligence - AI)اور بائیو ٹکنالوجی (Bio Technology) کے ملاپ سے زندگی کی نئی شکلیں پیدا کرنے پر بھی بہت پُراُمید ہے :

In the coming decades, AI and Biotechnology will give us godlike abilities to re-engineer life, and even to create completely new life-forms.After four billion years of organic life shaped by natural selection, we are about to enter a new era of inorganic life shaped by intelligent design, our intelligent design!

آنے والے عشروں میں مصنوعی ذہانت اور بائیوٹکنالوجی کے ملاپ سے ہم کو خدائی انداز کی زندگی بخشنے والی صلاحیتیں حاصل ہوجائیں گی۔ جس سے ہم زندگی کی نئی شکلوں  [یا نئی حیات] کا اجرا کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ چار ارب برسوں تک قدرت کی جانب سے زندگی کے فیصلوں کے کیے جانے کے بعد اب ہم ایسے دور میں داخل ہورہے ہیں جہاں ہم خود زندگی [اور اس کی شکلوں] کا غیرقدرتی اور بہتر تعین کرسکیں گے۔

یونیورسل بیسک انکم کا منصوبہ

ظاہر ہے مصنوعی ذہانت کے عام ہونے کے بعد اگلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب انسانوں کے پاس کام کرنے کو نہیں ہوگا تو وہ کمائیں گے کیا، اور کھائیں گے کہاں سے؟ تو اس کے حل کے طور پر 'ایک جیسی بنیادی تنخواہ یا [Universal Basic Income] کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ یعنی مصنوعی ذہانت کے عام ہونے اور معیشت کے ڈیجیٹلائز ہونے کے بعد آپ کو ہر مہینہ ایک بنیادی تنخواہ دے دی جایا کرے گی، جو آپ کے روزمرہ کے اخراجات کے لیے کافی ہوگی۔ بعض افلاطون اس خیال کو عالمی سطح پر غربت کے خاتمے کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔

اس منصوبے کے سب سے بڑے حامی چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی اوپن ائے آئی [ChatGPT - Open AI] کے سربراہ سام الٹمین ہیں۔ انھوں نے ایک نیا منصوبہ ’ورلڈ کوائن‘ [World Coin] کے نام سے متعارف کرادیا ہے۔ گو اس کے خدوخال ابھی واضح نہیں، لیکن افریقی ملک کینیا میں جب یہ منصوبہ شروع کیا گیا تو کینیا کی حکومت کو اس پر پابندی لگانی پڑی، کیونکہ اس کرنسی کے حصول کے لیے آپ کو اپنی آنکھوں کا بائیو میٹرک کرانا پڑتا ہے، اور یہ محفوظ نہیں ہے۔

ایلون مسک بھی سام الٹمین کے 'ایک جیسی بنیادی تنخواہ کے خیال سے متفق نظر آتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں ہونے والی ’عالمی حکومت کانفرنس‘ [World Government Summit] سے خطاب میں زندگی کے ہر شعبے میں ’مصنوعی ذہانت‘ کے چھا جانے کے بعد کی صورتِ حال پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا:

What to do about mass unemployment. This is going to be a massive social challenge. And I think ultimately we will have to have some kind of universal basic incom.I don't think we have gonna choice.... The harder challenge much harder challenge is how do people then have meaning. Like a lot of people drive their meaning from their employment ... If you are not needed, if there is not a need for your labor... what is the meaning? Do you feel useless.?

 [مصنوعی ذہانت کے بعد] بڑے پیمانے پر پھیلی بے روزگاری کا کیا حل ہے؟ یہ ایک بہت بڑا معاشرتی مسئلہ ہوگا۔ اور میرے خیال میں 'ایک جیسی بنیادی تنخواہ (universal basic income) کے علاوہ اس کا کوئی حل نہیں ہوگا___ لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہوگا کہ لوگوں کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ بہت سارے لوگ اپنی ملازمت اور کام میں زندگی کا مقصد تلاش کرتے ہیں۔ [اب اچانک] اگر آپ کی ضرورت ہی نہیں ہے اور آپ کی محنت کی [معاشرے کو] ضرورت ہی نہیں ہے تو پھر زندگی کا مقصد کیا رہ جاتا ہے؟ کیا آپ اپنے آپ کو بیکار محسوس کرنا شروع کردیں گے؟

سوشل نیٹ ورکس یا نہ ختم ہونے والا نشہ؟

جو بات ایلون مسک نے زندگی کے مقصد کے حوالے سے کی ہے، وہی بات نوح ہراری بھی کرچکے ہیں کہ ’’شاید مصنوعی ذہانت کے عام ہونے کے بعد ہم کو انسانوں کو کمپیوٹر گیمز اور نشے سے مصروف رکھنا ہوگا‘‘۔ اور اس مسئلے کے حل کے لیے سب سے زیادہ پُرامید اور پُرجوش سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کے بانی مارک زکربرگ ہیں۔ انھوں نے ۴۶ بلین ڈالرز کی خطیر رقم سے ’میٹاورس‘(Metaverse )کو حقیقت کا رُوپ دینے کا ارادہ کیا ہے۔ میٹاورس ایک ایسی مصنوعی یا ڈیجیٹل دنیا ہوگی جہاں آپ کے بجائے آپ کا ڈیجیٹل اوتار(Avatar) زندگی بسر کرے گا اور آپ اپنے آرام دہ بستر پر لیٹے یا کسی کرسی پر بیٹھے اپنی آنکھوں پر چشمے کی طرح کا ورچوئل ہیڈسیٹ (Virtual headset) پہنے اس زندگی سے لطف اندوز ہوں گے۔

ابھی تو اس منصوبے پر کام کا آغاز ہے لیکن ’مصنوعی ذہانت‘ یا AI کو ترقی دینے میں سب سے اہم کردار سوشل میڈیا پلیٹ فارموں نے کیا ہے۔ ذرا تصور کریں اگر حقیقی زندگی میں ایک بندہ آپ کے ساتھ سائے کی طرح دن رات لگا رہے اور آپ کے کھانے پینے، کپڑے پہننے سے لے کر آپ کی گفتگو اور ہر معمولی چیز پر نظر رکھنا شروع کردے، تو نہ صرف آپ پریشان ہوجائیں گے بلکہ وہ بندہ بھی آپ کی تمام تفصیلات سے واقف ہوکر آپ پر مختلف طریقوں سے اثرانداز ہوسکتا ہے۔ لیکن یہی کام ہم بے فکر ہوکر سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر کررہے ہیں۔

’مصنوعی ذہانت‘ کو کسی قابل بنانے کے لیے جس ڈیٹا کی ضرورت ہوتی ہے ،وہ خود ہم نے اپنے اپنے پسندیدہ سوشل پلیٹ فارموں پر مختلف طریقوں سے رضاکارانہ طور پر فراہم کیا ہے۔ آپ فیس بک پر کیا کمنٹ کرتے ہیں، کون سی پوسٹ پسند کرتے ہیں اور کونسی پوسٹ پر کتنا وقت صرف کرتے ہیں؟ یہ سب معلومات سوشل میڈیا کمپنیاں اپنے اپنے ڈیٹا سینٹرز میں جمع کرتی رہتی ہیں اور پھر آپ کا ایک نفسیاتی خاکہ بنالیتی ہیں۔ اور یہی ڈیٹا AI کو دے کر ایسے الگورتھمز تیار کیے جاتے ہیں، جن کا خطرہ ایٹم بم سے زیادہ اور جن کی اہمیت تیل کی دولت سے زیادہ ہے۔

 ایسا ہی ایک الگورتھم ڈوپامائن بڑھانے والی مصنوعی ذہانت یا Mechanism for Maximizationکہلاتا ہے۔ سائنس کے مطابق ہم کو کسی کام کرنے میں جو لطف اور طمانیت ملتی ہے، وہ دماغ میں پیدا ہونے والے ڈوپاماِئن کیمیکلز کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب ان سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کو آپ سے متعلق مطلوبہ مواد مل جاتا ہے تو پھر وہ اس ’الگورتھم‘ کے ذریعے آپ کو مسلسل آپ کا پسندیدہ ایسا مواد دکھاتی ہیں، جو آپ کے دماغ میں ڈوپامائن کی مقدار کو ایسے ہی بڑھانا شروع کردیتا ہے، جیسے کسی نشہ آور شے کا استعمال اور نتیجتاً ایک نشے کی طرح آپ اپنے اسمارٹ فون پر دنیا و مافیا سے بے خبر مصروف رہتے ہیں۔ مشہور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹویٹر‘ کے بانی جیک ڈورسی (Jack Dorsey )اس صورتِ حال کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

This is going to sound a little bit crazy, but I think that the free speech is a complete distraction right now. I think the real debate should be about free will and we feel it right now because we are being programmed... And I think the only answer to this is.... to give people a choice of what algorithm they want to use.

شاید یہ آپ کو عجیب لگے، لیکن [آج کے دور میں] میرے خیال میں آزادیٔ اظہار کی باتیں محض توجہ ہٹانے کا طریقہ ہیں۔ اصل بحث آزادی یا خود اختیاری سوچ پر ہونی چاہیے۔ اور اب ہم نے اس بات کو محسوس کرنا شروع کردیا ہے، کیونکہ ہماری سوچ یا مرضی کو [سوشل میڈیا الگورتھمز کے ذریعے] بدلا جارہا ہے۔ اور میرے خیال میں اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے لوگوں کو اس بات کی آزادی دی جائے کہ وہ اس بات کا تعین خود کرسکیں کہ وہ کون سا ’الگورتھم‘ استعمال کرنا چاہتے ہیں اور کون سا نہیں۔

پاکستانی مسلح افواج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے سوشل میڈیا کو ’شیطانی میڈیا‘ کہا تو لوگوں نے اس بات کو پابندیٔ اظہار کے زمرے میں شمار کیا۔ لیکن یہ صورتِ حال اتنی خطرناک ہے کہ چین نے اپنے عوام کی معلومات کو سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کے ذریعے مغرب تک پہنچنے سے روکنے کے لیے انٹرنیٹ پر سخت پابندیاں لگا کر تمام مغربی سوشل پلیٹ فارموں پر مکمل پابندی لگا دی ہے، اور صرف اپنے ملک میں بنے سوشل پلیٹ فارموں کو کام کرنے کی اجازت دی ہے۔

’آزادی کے دیوتا‘ کی پرستش کرنے والا یورپ بھی اس مسئلے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مختلف اقدامات کررہا ہے۔ امریکا، جہاں آزادیٔ اظہار کی مکمل آزادی ہے، وہاں بھی عوام کے مواد یا ڈیٹا کو چین تک پہنچنے سے روکنے کے لیے چینی سوشل میڈیا کمپنی ’ٹک ٹاک‘ پر پابندی لگادی گئی ہے۔

یہ ’الگورتھمز‘ کتنے طاقت ور ہیں؟ اسی صورتِ حال پر نوح ہراری نے بھی روشنی ڈالی ہے:

We humans are now hackable animals.The whole idea that humans have a soul or spirit and they have free will and nobody knows what is happening inside me so whatever I choose whether in election or whether in the super market and this is my free will! That's over.

ہم انسان اب محض ایک ایسا جانور بن گئے ہیں، جس کو سدھایا جاسکتا ہے۔ یہ خیال کہ انسان کے پاس روح یا مرضی ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ میرے دل پر کیا بیت رہی ہے، اس لیے میں الیکشن میں جس کو منتخب کروں یا بازار میں جو خریداری کروں وہ اپنی مرضی سے کروں گا، یہ سچ نہیں رہا۔

آپ کے پاس کچھ نہیں ہوگا مگر .....

انھی بحثوں میں ڈنمارک کی رکن پارلیمنٹ ایڈا اوکن [Ida Auken] نے یہ کہہ کر اپنا حصہ ڈالا ہے کہ ’’مستقبل میں آپ کے پاس کچھ نہیں ہوگا لیکن آپ خوش ہوں گے۔ ’عالمی اقتصادی فورم‘ کے پلیٹ فارم سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات جب ڈینش رکن پارلیمنٹ نے کی، تو اسے نجی زندگی اور نجی ملکیت کے حقوق پر ڈاکا قرار دیا گیا۔اسی صورتِ حال پر آسٹریلین رکن پارلیمنٹ میلکم روبرٹس [Malcolm Roberts] نے کڑی تنقید کی:

Klaus Schwab's 'life by subscription' is really serfdom. It's lavery. Billionaire, globalist corporations will own everything—homes, factories, farms, cars, furniture—and everyday citizens will rent what they need, if their social credit score allows. The plan of the Great Reset is that you will die with nothing. Senators in this very chamber today who support the great reset threaten our privacy, freedom, and dignity.

کلاز سواب کا ’کرایے پر زندگی‘ ' [Life by Subscription] کا منصوبہ، جبری مشقت کا منصوبہ اور غلامی ہے۔ طاقت ور ارب پتی اور عالمی ادارے ہر چیز پر قبضہ کرلیں گے۔ گھر، فیکٹریاں، کھیت، گاڑیاں، فرنیچر وغیرہ غرض یہ کہ روزانہ آپ اس چیز کو کرایہ پر لیا کریں گے، جس کی آپ کو ضرورت ہوگی، لیکن صرف اسی صورت میں، جب کہ آپ کا سماجی کریڈٹ اسکور اس کی اجازت دے۔ ’عظیم تعمیرنو منصوبہ‘ یہ ہے کہ آپ جب مریں گے تو آپ کی ملکیت میں کچھ نہ ہوگا۔ [آسٹریلیا کی] سینیٹ کے جو ممبران آج اس منصوبے کا دفاع کررہے ہیں، ہماری آزادی، ہمارے وقار اور ہماری نجی ملکیت کا سودا کررہے ہیں۔

یہ سب کیسے ممکن ہوگا؟

ان منصوبہ سازوں کے مطابق اگلے کچھ برسوں میں ہماری زندگی کا ہر شعبہ یکسر بدل جائے گا۔ بالکل یہ سوال آپ کے ذہن میں ضرور اٹھ رہا ہوگا کہ یہ سب کیسے ہوگا؟ اس کا حل بھی کہانی سنانے کی خداداد صلاحیت رکھنے والے نوح ہراری نے دے دیا ہے:

In this time of crisis, you have to follow science. It's often said that you should never allow a good crisis to go to waste because the crisis is an opportunity to also do good reforms that in normal times people will never agree to but in a crisis, you see you have no chance.

[کورونا کی] اس بحرانی کیفیت میں آپ کو سائنس سے رہنمائی لینی چاہیے۔ یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ [معاشرے میں] مثبت تبدیلی کے لیے بحران ایک اچھا موقع ہوتا ہے، اس لیے کسی بھی اچھے بحران کو ضائع کرنے کے بجائے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، کیونکہ عام حالات میں لوگ ایسی تبدیلیوں کو قبول نہیں کرتے، لیکن کسی بحرانی کیفیت میں ان کے پاس ان تبدیلیوں کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ 

گویا کہ اپنے منصوبے پر عمل کرنے کے لیے پے درپے بحران پیدا کرکے لوگوں کو تبدیلی پر تیار کیا جائے۔ ’عظیم تعمیرنو منصوبے‘ کے مخالفین کے خیال میں ایک طرف تو کورونا کی وبا کے بعد اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے سخت اقدامات کے باعث خوراک اور صحت کا نیا بحران سراٹھا رہا ہے اور مختلف ممالک جنگوں میں الجھ کر معاشی صورتِ حال کو اُلجھا رہے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ ایک خطرناک معاشی بحران کی صورت میں نکلتا نظر آرہا ہے۔ جو اس منصوبے پر عمل کا بہترین موقع ہوگا۔

مستقبل کی دنیا کیسی ہوگی؟ کے موضوع پر جو بحث برسوں قبل شروع ہوئی تھی، ایسا لگتا ہے کہ اب ان بحثوں میں رنگ بھرنے کی تیاریاں مکمل ہیں۔ ’عظیم تعمیرنو‘ کی بحث صرف بحث ہی نہیں رہ گئی بلکہ اس نے مستقبل کا ایک نیا منظرنامہ پیش کردیا ہے۔ بادی النظر میں یہ بحث نہیں بلکہ نئے نظام عالم [New World Order] کو نافذ کرنے کا عملی منصوبہ زیادہ لگتا ہے۔ ایک طرف تو نجی تنظیمیں اور بارسوخ شخصیات اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں لگے ہیں، تو دوسری طرف اقوام متحدہ اپنی مختلف قراردادوں کے ذریعے حکومتوں پر دباؤ بڑھاتی نظر آرہی ہے۔

بظاہر ان طاقت ور لوگوں میں شاید اگلے ممکنہ نظام عالم کی تفصیلات پر اتفاق نہیں ہے اور دو مختلف کیمپوں میں تقسیم واضح نظر آتی ہے۔ مگر ماضی میں جب بھی عالمی سطح پر تبدیلیاں آئیں دنیا کے طاقت ور مختلف کیمپوں میں اور آپس میں لڑتے ہی نظر آئے۔یہاں بھی یہی معاملہ نظر آتا ہے۔ آپ ’توسیع پسندوں‘ کے کیمپ میں ہوں یا ’معدودیت پسندوں‘ کے کیمپ میں، دونوں صورتوں ہی میں دال گلتی نظر نہیں آتی۔ ایک گروہ اگر زمین کو بچانے کے لیے انسانیت کا خاتمہ چاہتا ہے، تو دوسرا گروہ وسائل کے بے دریغ استعمال کے ذریعے جلد ہی زمین کو ناقابلِ رہایش بناتا نظر آرہا ہے۔

’اشتراکیت‘ تہذیب ِمغرب کا خانہ زاد نظریہ ہے، اور بقول کارل مارکس یورپ کو اس ’آسیب‘ (Specter) کے لپٹنے کا مدتوں دھڑکا لگا رہا۔ سرمایہ داری سے یورپ ایک ایسا ’عفریت‘ (Monster) بن چکا تھا کہ ’آسیب‘ بھی اس سے پناہ مانگتے تھے۔ اس ’عفریت‘ سے پیدا ہونے والا یہ ’آسیب‘ جہاں جہاں اترا ہے، اسے دیکھ کر انسان سوچتا ہے کہ کہیں اشتراکیت، سرمایہ داری نظام کا ہراول ہی تو نہیں؟

اس میں کچھ شک نہیں کہ مارکسی فکر ہم عصر دنیا کے نفسی، سماجی اور سیاسی علوم میں بہت گہرائی تک سرایت کر چکی ہے۔ سرمایہ داری نظام پر گہرا اور ثقہ علمی نقد اور فکری ردعمل اشتراکیت ہی کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ گذشتہ ڈیڑھ صدی کی طرح، موجودہ تاریخی صورت حال میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کی درست علمی تفہیم، اور اس کے خلاف فکری اور عملی مزاحمت اشتراکی فکر کے بغیر سامنے نہیں لائی جا سکتی۔

یہ بھی درست ہے کہ دنیا کے بڑے مذاہب کی علمی روایت کے بیش تر علَم برداروں کے  قلم سے موجودہ عہد میں کوئی ایسی توجہ کھینچ لینے والی چیز سامنے نہیں آسکی، جو سرمایہ دارانہ نظام کی تفہیم اور اس کے زبردست محاکمے پر مشتمل ہو۔ اگر کسی مذہبی آدمی کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے اور اپنے مذہب کی قرارِ واقعی وضاحت کرتے ہوئے سرمایہ داری کو چیلنج کرسکتا ہے، تو اسے تھوڑی دیر کے لیے اس دنیا کو اپنی حسرت کے بجائے شعور کی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بہرحال، سرمایہ داری نظام کے عالم گیر جبر و استحصال کے خلاف انسانی ضمیر کی اب بھی نمایندگی باقی ماندہ اشتراکی فکر ہی کر رہی ہے۔

ہمیں یاد ہے کہ اقبال نے اشتراکیت کی بجائے اسلام کو سرمایہ داری کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ اقبال کا یہ ایقانی مشاہدہ ایک تہذیبی امکان کی بنیاد پر تھا، جسے ’عصر حاضر کے خلاف اعلان جنگ‘ کو ایک تہذیبی مزاحمت کے طور پر ہی بروئے کار لایا جا سکتا تھا۔ مسلم ذہن ابھی الوہی ہدایت کی مکتبی تفہیم میں غلطاں ہے، اور اسلام کے تہذیبی امکانات اس کے ذہن میں غالب نہیں آرہے۔ ہم ایسی کوئی فکر سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہو سکے جو کسی مزاحمانہ تہذیبی عمل کی بنیاد بن سکے، اور جو ہماری دینی اقدار سے ہم آہنگ بھی ہو۔

گزری ہوئی جہانبانی کے ناسٹیلجیا (پرانی یادوں کے سرور) اور موجود دنیا کے جبر نے ہمارے اعصاب کو اس قدر مضمحل کر دیا ہے کہ دُنیا کے معاملات، تضادات اور تقاضوں کو دیکھنے کی استعداد بہم نہ ہو سکی۔ اس وقت علم اور عمل میں مسلمانوں کے جو تہذیبی مظاہر دنیا کے سامنے ہیں،  ان پر صرف افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اقدارِ ہدایت کے علمی اور عملی مظاہر دنیا کے سامنے پیش کریں، جو الحق اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحمت العالمینی کا مظہر ہوں۔ جدیدیت کے اثرات اس قدر گہرے ہیں کہ مسلمان اہل دانش نے چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے اپنی دینی اقدار کو سرمایہ دارانہ نظام کو مسلسل جواز دینے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ چونکہ اشتراکیت نے بڑے پُرزور انداز سے سرمایہ داریت کو چیلنج کیا تھا، اس لیے اس اشتراکیت کے زوال وانہدام کے بعد اس کو اَزسرنو دیکھنے کی کوشش ضروری ہے۔

سرمایہ داری اور اشتراکیت کی وجودی حقیقت

سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت دونوں مغرب کی تاریخی اور علمی روایت کا ثمر ہیں۔ ان کی فکری رگوں میں تنویری منصوبے (The Enlightenment Project) کے ’کارخانے‘ میں   سفید و سفاک لہو یکساں گردش کر رہا ہے۔ سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کی وجودیات (Ontology) ایک ہے۔ ان کی وجودی سطح وجود ایک اور مادی ہے۔ دونوں ایک ایسے تہذیبی شعور کا حاصل ہیں جس میں ماورا کے سارے روشندان بند کر دیے گئے ہیں۔ یہ ایک ایسی تاریخ کا ثمر ہیں جس کے ماورائی دروازے میخیں ٹھونک کر بند کر دیے گئے ہیں۔ دونوں کا تصورِ کائنات ایک ہے، ان کا تصورِ انسان ایک ہے، ان کا تصورِ اخلاق ایک ہے۔ ان دونوں کا انسان کے بنیادی سوالات کی بابت جواب ایک ہے۔ انسانی زندگی کی بنیادوں پر اگر سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کا جواب ایک ہے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں، کیونکہ ان دونوں نے یہ جوابات اپنے مشترک تصورِ حیات (World View) ’جدیدیت‘ (Modernity)سے ورثے میں پائے ہیں۔

ان کا اختلاف معاشرے کی معاشی تشکیل اور ریاست کے فرائض اور سرمائے کے انتظام پر ہے۔ جدیدیت، شعور و عمل کی ایک مربوط روایت ہے۔ یہ فکر میں انکار اور عمل میں بغاوت ہے۔ سرمایہ داری نظام میں انکار پہلے ہے، اور بغاوت اس کے جلو میں ہے۔ اشتراکیت اپنی رومانوی نہاد کے باعث انکار اور بغاوت کو بیک وقت سامنے لاتی ہے۔

سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت کے تاریخی مظاہر میں ایک مماثلت ایسی ہے، جس پر بہت کم گفتگو ہوئی ہے، اور وہ ہے دونوں کا استعماری (Imperialistic) ذوق، مزاج اور عمل کا حامل ہونا۔ سوویت اشتراکیت نے زارِ روس کے نظامِ قوت اور معیشت کو بالکل منہدم کر دیا، لیکن اس کے زیرقبضہ مسلم علاقوں کو نہ صرف جبری قبضے تلے جوں کا توں رکھا بلکہ ان کے روایتی مذہبی اور سماجی ڈھانچے کو بھی فنا کر دیا۔ باقی دنیا میں استعماری مقبوضات تو جنگ عظیم دوم کے بعد آزاد ہونا شروع ہوئے، لیکن وسطی ایشیا کے مسلم محکوم خطوں پر اشتراکی جبر اور ظلم کی طویل رات نوّے کے عشرے کے اوائل تک باقی رہی، اور اشتراکی روس کے انہدام کے ساتھ وہ علاقہ جات بھی نام کی آزادی حاصل کر پائے۔ یہی حال اشتراکی روس کے ہاتھوں مشرقی یورپ کا رہا۔ اشتراکیت کے فکری نسب اور تاریخی مظاہر کی بنیاد پر یہ کہنا ممکن نہیں کہ دنیا کی مقہور و محکوم اقوام کے لیے اشتراکیت سیاسی اور تہذیبی امید کا کوئی پہلو رکھتی تھی۔

اصلاحات، انقلاب اور ریاست، سرمایہ داری نظام کے پیدا کردہ تاریخی مظاہر ہیں۔ برطانوی تاریخ میں سیاسی عمل اصلاحات کی شکل میں آگے بڑھا، جب کہ فرانس کے قومی سیاسی عمل میں انقلاب کو مرکزیت حاصل ہو گئی۔ دونوں کا مقصد ریاستی مداخلت سے سرمایہ دارانہ مقاصد کو آگے بڑھانا تھا۔ اشتراکیت، ان اصلاحات پر یقین نہیں رکھتی، اور اس نے انقلاب اور ریاست کو اپنے سیاسی اور معاشی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ جدید ریاست چونکہ سرمایہ داری کے سانچے پر وجود میں آئی تھی، اس لیے مارکس اس کے ازخود تحلیل ہو جانے کی رومانوی اور افسانوی آرزومندی پر یقین رکھتا تھا۔

اشتراکیت سرمایہ داری کا ہراول کیوں ہـے؟

جدیدیت کے اصل ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں اشتراکیت نے سرمایہ داری نظام سے کہیں زیادہ جوش اور ولولہ دکھایا۔ جو کام جدیدیت نے سرمایہ دارانہ معاشروں میں صدیاں لگا کے کیا تھا، وہ اشتراکیت نے یورپ اور یورپ سے باہر کے معاشروں میں چند عشروں کے دوران میں حاصل کر دکھایا۔ اور یہ مقصد روایت اور مذاہب کی بنیاد پر بنے ہوئے معاشروں کے اسٹرکچر کو  توڑ کر فرد کو سرمائے کے قانونی اور معاشی اسٹرکچر میں لانا تھا۔ ابھی ہم اس بحث میں نہیں آتے کہ مذہب ضروری ہے یا نہیں، بلکہ ہمارا مسئلہ اس سے زیادہ گہرا ہے۔

سرمایہ داری نظام کو جو معاشی انسان درکار تھا اور ہے، اس کی کچھ اساسی خصوصیات ہیں، مثلاً یہ کہ وہ بیگانگی اور اپنی ذات کے لطف و سکون سے عبارت ہو، تاکہ انسانی معاشرت کا مکمل خاتمہ ہو سکے۔ جو اپنی ذات کے صرف جسمانی تقاضوں یعنی روٹی اور جنس کی تسکین ہی کو زندگی کا منتہائے مقصود سمجھتا ہو۔ یہی ’مسخ شدہ انسان‘ صنعتی معاشرے کا آئیڈیل ہے، کیونکہ سرمایہ داری اور اشتراکی معاشرے کی سطحِ وجود ایک ہے اور دونوں میں انسان کا آدرش انفرادی غرض مندی ہے۔ ایسا فرد جو اپنی ذات اور انسانی معاشرت سے منقطع ہو چکا ہو اور مکمل طور پر ریاستی نظام قانون اور معاش کا متوسل ہو، سرمائے کی ارتکازی حرکیات میں ایک زبردست  کل پُرزہ بن جاتا ہے۔

روایتی معاشرت کے مکمل خاتمے اور معاشی انسان کی تیاری اور پیداوار میں اشتراکیت نے زیادہ مستعدی اورسُرعت کا مظاہرہ کیا ہے۔ سرمایہ داری نظام نے یہ مقاصد زیادہ تر قانون سازی، تعلیم اور کلچر کے ذریعے ایک طویل تاریخی سفر میں حاصل کیے تھے اور براہ راست ریاستی جبر کو بوقت ضرورت استعمال کیا تھا۔ اس کے برعکس اشتراکیت نے یہی مقاصد براہ راست ریاستی جبر سے حاصل کیے۔

’اشتراکیت‘ کو ’سرمایہ داری نظام کا ہراول‘ کہتے ہوئے چند بنیادی مقدمات کا ذکر ضروری ہے:

۱-  سرمایہ داری کے اساسی ایجنڈے میں مذہبی تصورِ زندگی کا جبری انخلا، مذہبی معاشرت کی فنا، خاندان کی تشکیلِ نو، انسانی زندگی کی نئی تقویم، ایک خالص معاشی انسان کی ایجاد اور اس کی واقعاتی تیاری، تاریخ سے اقدار کی جلاوطنی، سرمایہ داری نظام سے مزاحم ہر تصور، سماجی ہیئت اور نفسی بناوٹ کی ٹوٹ پھوٹ سرفہرست ہیں۔ یہ سرمایہ داری نظام کے وہ تاریخی مقاصد ہیں، جن کے حصول میں سرمایہ داری نظام کو اپنے تمام تر علمی، ثقافتی اور اقتداری وسائل کے باوجود سخت دشواریاں پیش آتی رہی ہیں۔

اشتراکیت نے اپنی سیاسی جدوجہد اور سیاسی عروج میں سرمایہ داری نظام کے ان دُور رس اور طویل المیعاد تاریخی مقاصد کو حاصل کرنے میں ہمہ گیر، زبردست اور فوری کامیابی حاصل کرکے اس کو معاونت فراہم کی ہے۔ جن انسانی معاشروں سے اشتراکیت کا بلڈوزر گزر جائے، وہ سرمایہ داری نظام کے لیے مقناطیسی کشش پیدا کر لیتے ہیں، اور آخرکار اس کی گود میں آ گرتے ہیں۔ روس اور چین اس کی بڑی روشن مثالیں ہیں۔

۲- سرمایہ داری نظام کا ورلڈ ویو یا تصورِ حیات، ’جدیدیت‘ ہے۔ ’تنویری منصوبہ‘ اور ’خردمندی کی پرستش‘ اس کی رسمی اور سیاسی تشکیل تھی، اور رومانویت اس کے خلاف ایک ردعمل۔ ’تنویری منصوبے‘ کی اساس عقل انسانی پر رکھی گئی تھی، جب کہ رومانویت انسانی مزاج کے انفجار (explosion) کا مظہر تھی۔ تنویری منصوبے اور رومانویت نے مغرب کے سیاسی عمل کو بالکل نئے سرے سے مرتب کیا ہے۔ اوّل الذکر کے سیاسی ایجنڈے میں ’اصلاحات‘ (reforms) کو بنیادی حیثیت حاصل تھی،جب کہ سیاسی رومانویت کا بنیادی ایجنڈا ’انقلاب‘ (revolution) رہا ہے۔

’رومانوی آدرش پرستی‘ (Romantic Idealism) اصلاً تحریکِ تنویر اور ثقافتی رومانویت کے امتزاج سے سامنے آئی، اور مغرب کی سیاسی تاریخ میں اس کا رول غیرمعمولی رہا ہے۔ رومانوی آدرش پرستی ایک سیاسی تصور ہے، جو مذہبی معاشروں میں معاش اور سماج کے روایتی اسٹرکچر کو ایک لمحے کے لیے برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتا، اور اصلاحات کو لغو خیال کرتا ہے۔ مذہبی معاشروں کی روایتی ساختوں کو توڑنے کے لیے رومانویت آدرش پرستی ’انقلاب‘ کو بروئے کار لاتی ہے۔ اس کے برعکس سرمایہ داری نظام روایتی معاشروں کو ’اصلاحات‘ کے طویل عمل سے گزار کر جدید بنانا چاہتا تھا، تاکہ جدیدیت کے ورلڈ ویو کو تاریخی حقیقت بنایا جا سکے، جب کہ ’رومانویت آدرش پرستی‘ عین یہی مقاصد ایک ہی ہلے میں حاصل کرنا چاہتی ہے۔

 ’اصلاحات‘ اور ’انقلاب‘ جدیدیت کے دو بڑے اور بنیادی سیاسی ہتھیار ہیں جو سرمایہ پرور سیاست اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اشتراکیت چونکہ جدید سیاست کی ’رومانوی آدرش پرستی‘ کا زیادہ شفاف (crystallized) سیاسی اظہار ہے، اس لیے انقلاب اس کے لیے کہیں زیادہ لبھاؤ رکھتا ہے۔ اگر اشتراکیت نے انقلاب کو اپنی سیاسی اور معاشی پیش قدمی کے لیے استعمال کیا ہے تو اس کا فائدہ آخر کار اور حتمی طور پر سرمایہ داری نظام ہی کو پہنچا ہے۔ سرمایہ داری نظام، منہدم اشتراکی انقلابوں کا ملبہ سمیٹنے میں بہت طاق اور ہوشیار واقع ہوا ہے۔

۳- اشتراکیت اپنے ’سائنسی‘ تجزیے اور ’تاریخی‘ دعوے کے قطعی برعکس جن جن معاشروں میں اقتدار پر متمکن ہوئی، وہ بنیادی طور پر زرعی، روایتی اور مذہبی معاشرے تھے۔ یہ ’آسیب‘ ڈراوے تو صنعتی یورپ کو دیتا رہا، لیکن چمٹا بے خبر بے چارے ہل چلانے والوں کو جا کے۔ انسانی معاشروں کی تبدیلی اور ان کی تشکیلِ نو میں اشتراکیت کا ایجنڈا زیادہ انقلابی تھا۔ اشتراکیت نے جدیدیت کے اساسی ایجنڈے کے مطابق، جس میں یہ سرمایہ داری نظام کے عین مشابہ ہے، ان معاشروں کو ایک ثقافتی اور سماجی، بلکہ درست تر معنوں میں ایک تہذیبی ریگزار بنا کر اور ایک سسکتے، کراہتے صنعتی نظام میں جکڑ باندھ کر، سرمایہ دارانہ نظام کے لیے تیار کیا اور پھر اس کے سپرد کر دیا۔ اشتراکیت نے سرمایہ داری نظام کے ہراول دستے کا کام کرتے ہوئے زرعی یا نیم زرعی معاشروں کی روایتی ساخت کو مکمل طور پر توڑ دیا، اور شناختوں پر کالک پھیر دی۔ روایتی کلچر کو مکمل طور پر فنا کر دیا اور سرمایہ دارانہ نظام کے لیے زیادہ کھلا اور زیادہ صاف راستہ ہموار کیا۔

سرمایہ دارانہ نظام کے بے پایاں جبر اور استحصال کے سامنے روایتی معاشروں کی ساخت جو مزاحمت کھڑی کرتی ہے، اشتراکیت نے اسے یک قلم صاف کر دیا اور سرمایہ داری نظام کی آمد کا اسٹیج تیار کیا۔ چین، روس اور کسی حد تک بھارت میں سرمایہ داری نظام کی فتح اگر غور کیا جائے تو اپنے گہرے پن اور وسعت میں انقلابِ فرانس کو پیچھے چھوڑ چکی ہے، کیونکہ اب تک تو انقلابِ فرانس ہی سرمایہ داری نظام اور ’رومانویت آدرش پرستی‘ کی سب سے بڑی فتح خیال کیا جاتا رہا ہے۔

سرمایہ داری نظام اور مزاحمت

سرمایہ داری نظام کو اپنی تاریخ میں دو بڑی اور طویل مزاحمتوں کا سامنا ہوا: ایک وجودی اور سماجی تھی اور دوسری فکری اور سیاسی۔ پہلے زمرے میں دنیا کے تمام مذاہب آتے ہیں، اور دوسرے زمرے میں اشتراکیت ہے۔ ایک طرح سے مذہب کی مزاحمت ’خارجی‘ اور اشتراکی مزاحمت ’داخلی‘ تھی۔ بدقسمتی سے دونوں کو سرمایہ داری کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اب چونکہ دونوں کا دنیا کا دیکھنے کا انداز غالب طور پر نظریاتی ہے، یعنی وہ حالات کو تبدیل کرنے کے لیے دیکھتے ہیں، سبق حاصل کرنے کے لیے نہیں، اس لیے دونوں ایک ’رومانوی انکار‘ (self‪-denial ) کی سی حالت میں ہیں، اور اپنے اوپر آنے والے تاریخی فیصلے کو تسلیم کرنے اور اس کے مضمرات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اب عالمی منظرنامے کو دیکھیں تو مذہب تقریباً صرف انفرادی اور سماجی سطح پر زندہ ہیں، اور اشتراکیت صرف سماجی اور سیاسی فکر کی سطح پر۔ اجتماعی سطح پر اقتدار، سرمایے اور میڈیا پر مذہب اور اشتراکیت کا اظہار تو کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے مگر اختیار ختم ہو چکا ہے۔

تاہم، سرمایہ داری نظام کے سامنے اشتراکیت اور مذہب دونوں کی شکست میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اشتراکیت ایک سیاسی نظریے اور آدرش کے ساتھ ساتھ جدید دُنیا کی حرکیات کو مکمل طور پر بیان کرنے والا علم بھی رکھتی ہے۔ مذاہب صرف سیاسی آدرش رکھتے ہیں، اور جدید دنیا کو سمجھنے والے مقدمات کا جواب دینے میں حیرانگی کا شکار ہیں۔ یعنی مذہبی علوم موجودہ تاریخی صورت حال سے کوئی متوازیت نہیں رکھتے۔ اسی فرق کا نتیجہ ہے اشتراکیت اپنی سیاسی شکست میں سرمایہ داری نظام کا آلۂ کار نہیں بنی، جب کہ مذاہب کے بیش تر رہنما جدیدیت اور سرمایہ داری کے سامنے اپنی تہذیبی شکست کے بعد دامے، درمے، سخنے سرمایہ داری نظام کے بڑے آلۂ کار بننے سے نہ بچ سکے۔

 عیسائیت اور یہودیت کی تقدیر تو ہمارے سامنے ہے، اب یہی امر اسلام کے ساتھ بھی دہرایا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ مذاہب اپنی روحانی صداقتوں، اخلاقی مسلّمات اور تہذیبی اقدار کو ایسے علم کی صورت دینے میں ناکام رہے ہیں، جس کے پیچھے چلتے چلتے جدید آدمی ان بیان کردہ حقائق تک رسائی پا سکے، اگر وہ ان کی تفہیم کی کوئی طلب اپنے اندر پاتا ہو۔ مذہبی حقائق کو صرف لامتناہی طورپر دُہراتے چلے جانے سے اب کام بننے کا نہیں۔ روایتی معاشروں میں انسان ان حقائق کے براہ راست روحانی اور اخلاقی انجذاب کی صلاحیت رکھتا تھا، لیکن سرمایہ داری نظام کی میکانکی معاشرت اور مالی سیاست میں رہتے رہتے جدید انسان میں ایسی ذہنی اور نفسی تبدیلیاں دَر آئی ہیں کہ وہ الوہی حقائق کی فطری قبولیت کی صلاحیت باقی نہیں رکھ سکا۔

اشتراکیت، تاریخی اور فکری تناظر میں

اہل نظر واقف ہیں کہ کارل مارکس نے جس Primitive Accumulation کا ذکر کیا ہے، وہ سرمایہ داری کے ایام طفولیت تھے، اور اس عہد میں جدید ریاست نے سرمایہ داری کی دستگیری کے لیے زبردست کمک اور رسد کا بندوبست کیا تھا۔ تفصیلی بحث کو مؤخر کرتے ہوئے جدید ریاست کے بارے میں ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ سرمایہ داری نظام کے سانچے پر بنائی گئی ہے۔ جدید ریاست نے سرمایے کے ارتکاز کے قانونی راستے بنائے اور علم سے ان کی یاوری کی، اور معاشی ارتکاز کے بے پایاں جبر کو مستقل سیاسی جواز فراہم کیا۔ یہ جدید ریاست کا فوری مقصد تھا۔

ابتدائی دور میں جدید ریاست کی فراواں قانون سازی کا دوسرا اور دور رس مقصد یورپی معاشروں میں مذہبی معاشرت کو تحلیل کر کے فرد اور کنبے کی پرولتار سازی تھی۔ اس کا مقصد انسانی اجتماع کو، معاشرتی اساس کے بجائے سیاسی اساس بنانا تھا، یعنی انسانی رشتے کی سماجی جہتوں کو ختم کر کے انھیں مکمل طور پر قانونی اور معاشی بنانا تھا۔ معاشرت میں گُندھا ہوا انسان سرمایہ داری نظام میں کام کے قابل نہیں ہوتا، اور روایتی مذہبی معاشرت کی دُنیا اور پرولتار سازی سے افراد کو ’لیبرمارکیٹ‘ میں لانا ممکن ہو جاتا ہے۔ جدید ریاست کے پاس سرمائے کے ارتکاز کو قانونی کمک فراہم کرنے کا واحد راستہ جبر تھا۔ اس ابھرتے ہوئے نظام کے سامنے سیاسی مزاحمت بھی ہوئی جسے ریاست نے آن کی آن میں بے دردی سے کچل کر رکھ دیا۔ لیکن سب سے بڑی مزاحمت وہ طرزِ حیات تھا، وہ معاشرت تھی، زندگی کا وہ انداز تھا جو مذہب نے تشکیل دیا تھا اور فرد اس معاشرت میں ’ گندھا‘ ہوا تھا۔ یہیں پر جدید ریاست کا نظامِ کار سب سے زیادہ معاون ثابت ہوا۔

سرمایہ داری نظام نے علم کی قلمرو سے باہر مذہب پر براہِ راست سیاسی حملے اور اسے بالجبر ختم کرنے سے گریز کیا ہے۔ مذہبی معاشرت کو تحلیل کرنے، انسانوں کی نفسی اور بدنی زندگی پر اپنی حکومت قائم کرنے اور سرمایہ داری نظام کو ’لنڈورا‘ فرد (پرولتار) مہیا کرنے کے لیے جدید ریاست نے قانون سازی کو استعمال کیا۔ اس قانون سازی کا مقصد اس طرزِ معاشرت کو فنا کرنا تھا، جو پرولتار سازی میں مزاحم تھا، اور جو معاشرت ابھرتے ہوئے سرمایہ داری نظام کے تحت پروان چڑھ رہی تھی۔ جدیدیت نے مذہب کی اساس کو نئے علم سے، اور مذہب کے تابع معاشرت کو جدید ریاست نے پارلیمانی اور عدالتی اور بین الاقوامی قانون سازی سے نابود کیا۔ نئے نظام کو جو نیا انسان چاہیے تھا، وہ فراہم کرنا چونکہ ریاست کی ذمہ داری تھی، لہٰذا اس نے تعلیم اور قانون سازی کے ذریعے یہ کام سرانجام دیا۔ جدید ریاست نے اس پیش رفت میں غیرمعمولی احتیاط اور فراست و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ معاشرے میں مذہب اور مذہب سے پیدا ہونے والی معاشرت کو جبری طور پر تبدیل کرنےکے لیے براہ راست ریاستی طاقت کو استعمال کرنے سے بڑی حد تک گریز کیا۔ سوائے ان مواقع کے، جب مجبور و مقہور عوام نے ننگے اور وحشی استحصال کے خلاف راست اقدام کی کوشش کی۔

یہاں اس امر کو سامنے رکھنا اشد ضروری ہے کہ جدید ریاست میں طاقت کا ارتکاز اور مسلسل نمو، اور سرمایہ داری نظام میں سرمائے کا ارتکاز اور مسلسل نمو تاریخ میں بالکل متوازی ہیں۔ اس پالیسی میں جدیدیت کی غیرمعمولی فراست کو دخل ہے کہ اس نے ان دونوں اداروں، یعنی ریاست اور سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کو ایک تہذیبی شبہے یا دھوکے کی خاطر الگ الگ رکھا۔ دوسری طرف اشتراکیت نے اپنے انقلابی جوش میں طاقت اور سرمائے کو ایک ہی ادارے میں جمع کرنے کی کوشش کی اور تاریخ کی عدالت میں اس کی پیشی ہوئی۔ علمی طور پر انکار اور عملی طور پر التباس جدیدیت کی دو دھاری تلوار ہے، جس کا استعمال سیکھنے سے پہلے اشتراکیت نے اسے ہتھیانے کی نامراد کوشش کی۔ اگر مذہبی پیرائے میں بات کی جائے تو اشتراکی، مذہب ِجدیدیت کے خوارج ہیں۔

 یہاں اس امر کا اعادہ بھی ضروری ہے کہ سرمایہ داری نظام اور اس کا اساسی تصورِ حیات، یعنی مذہب جدیدیت، روایتی مذہب کی مطلق ضد ہے۔ جدیدیت اور مذہب کی پیکار اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک مذہب اپنے اساسی بیانات پر مداہنت اور معاشرت پر اثراندازی سے دست بردار نہ ہوجائے۔ ان آثار کے پیدا ہوتے ہی جدیدیت، مذہب سے جنگ بندی کا اعلان ہی نہیں کرتی، بلکہ سراپا شیر و شکر ہو جاتی ہے اور اسے فوراً اپنی نوکری میں بھرتی کر لیتی ہے۔

کیا یہ بات ہماری نظروں سے اوجھل ہے کہ جدیدیت کی پہلی جنگ عیسائیت سے ہوئی؟ اور یہ کہ جب اس جنگ میں عیسائیت نے جدیدیت کی تمام شرائط تسلیم کرلیں، تو یہی مذہب مشنری تحریک بن کر استعمار میں بھرتی ہو گیا؟ اور یہ کہ استعمار کے لیے سب سے زیادہ جواز سازی بھی اسی تحریک نے مہیا کی ہے؟ افسوس کہ چنگیز کو یہ سہولت میسر نہ آئی۔ بھرتی سرمایہ داری نظام کا آفاقی طریقہ ہے۔ یہاں ہر نوع کے، ہر رنگ کے، ہر نسل کے، ہر علم کے، ہر ہنر کے، ہر مذہب کے، ہرنظریے کے، ہر زبان کے، ہر کلچر کے آدمی کو نوکری مل جاتی ہے، اگر وہ چند بنیادی شرائط پوری کردے۔ اور وہ شرائط عالم میں مشتہر ہیں، یہاں تک کہ اب مسلمانوں کو بھی اس کا پتہ چل گیا ہے اور وہ دین کی نئی نئی تعبیرات کے تمغے سینے پر سجاکر جناب سرسیّد کے پیچھے صف بندی کرتے نظر آرہے ہیں، جیسے ابھی نوکریوں کی دستار بندی ہونے والی ہے۔

اشتراکیت اور کیمیائے انقلاب

جدید تاریخ میں انقلاب کی ’کیمیا گری‘ کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ سرمایہ داری نظام خود میں ایک تاریخی اور سماجی صورت حال ہے، اور اس کی فکری اساس جدیدیت ہے۔ سرمایہ داری نظام ایک صورت حال کے طور پر تیز تر سماجی تبدیلی کا تاریخی اسٹیج سجاتا ہے، جو اپنی جگہ ایک مشینی سسٹم ہے۔ انسانی معاشرہ اس سسٹم میں لپٹا ہوا ہے۔ انسانی معاشرے کو اس سسٹم میں جو چیز ٹھونسے اور جکڑے رکھتی ہے، اس کا نام ریاست ہے۔ معاشرے کو اس نظام کے مطابق بنائے رکھنے کا کام ریاست کی ذمہ داری ہے، اور وہ یہ کام قانون سازی، تعلیم اور ثقافتِ زر سے کرتی ہے، اور یہ سارے کام ’اصلاحات‘ کے نام سے سامنے لاتی ہے۔

سرمایہ داری نظام میں تبدیلی کی رفتار چونکہ فطری سے زیادہ میکانکی ہوتی ہے، اس لیے فرد اپنی نفسی حالت میں اور انسانی معاشرہ اپنی اجتماعی حالت میں اس کا ہم قدم نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہی ہم قدمی پیداواری سرمایے کی اولین ضرورت ہے، اور اس کے بغیر سرمایہ داری نظام زندہ نہیں رہ سکتا۔ انسانی معاشرت بھلے وہ مذہبی بنیادوں پر استوار کی گئی ہو، یا الحاد کی بنیادوں پر قائم کی گئی ہو، تیزتر تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ لہٰذا، اس کے بتدریج خاتمے کے لیے ریاست ’اصلاحات‘ کے نام پر تعلیمی تبدیلیاں اور قانونی طومار سازی کا کام نہایت تیزی سے کرتی ہے۔ جس طرح قیدیوں کے قافلے کے سُست گام افراد کو چلانے کے لیے کوڑے برسائےجاتے ہیں اور اس ’محنت‘ میں اُن بے چاروں کی کھال تک ادھڑ جاتی ہے، اسی طرح ’اصلاحات‘ کے سرمایہ دارانہ کوڑے ریاستی قانون بنا کر عام، بے بس اور نادار لوگوں کی پشت پر اس کثرت اور تسلسل سے برسائے جاتے ہیں کہ معاشرت کی چادر تار تار ہو جاتی ہے۔

’اصلاحات‘ کے باوجود اگر معاشرے میں تبدیلی کی رفتار سرمایہ دارانہ نظام کے تقاضوں اور ضرورت کے مطابق نہ ہو، تو تبدیلی کے لیے تاریخی دباؤ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس تاریخی دباؤ کا معاشرے کی سیاسی اور معاشی کایاکلپ میں ظاہر ہو جانا انقلاب ہے۔ ایسا انقلاب، انسانی معاشرے کو سرمائے کی ترجیحات کے مطابق رکھنے کے لیے ایک راست اقدام ہے، جس کی بڑی مثال فرانسیسی انقلاب ہے۔ اس تناظر میں ہمارے خیال میں انقلابِ فرانس، سرمایہ داری نظام کی آج تک کی سب سے بڑی فتح ہے، اور یہ ایسے تاریخی حالات میں برپا ہوا، جب فرانسیسی معاشرے کے سیاسی حالات اور معاشی حقائق میں ایک زبردست عدم توازن پیدا ہو چکا تھا اور روایتی سیاسی اور سماجی اسٹرکچر نئی معاشی قوتوں کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ معاشی اور سیاسی حالات میں تضاد اور عدم توازن انقلاب جیسی بڑی تبدیلی کو ناگزیر بنا دیتے ہیں۔ اشتراکیت نے انقلاب کو اپنی سیاسی پالیسی کے طور پر اپنایا، اور متحدہ پرولتار کے جنگ جویانہ (violent) سیاسی عمل سے سرمائے اور سیاسی طاقت کے وسائل پر قبضے کے راستے تلاش کیے۔

کارل مارکس نے تاریخ کی حرکت کو ’مادی جدلیات‘ کے قانون میں دریافت کیا۔ معاشرے کی معاشی طبقہ بندی اور معاشی وسائل کے لیے کشاکش تاریخ کا اصولِ حرکت ہے۔ کسی بھی معاشرے میں دو طبقات معاشی وسائل کے حصول اور ان پر قبضے کے لیے باہم پیکار میں ہیں، اور تاریخ مسلسل حالتِ جنگ کا نام ہے۔ تاریخ کی اصل حقیقت یہی جدلیات ہے، اور رسمیات، تصورات، نظریات، اخلاقیات، اقدار بھی اسی جنگ کا ایندھن ہیں۔ ہر مرحلۂ جنگ اپنے اختتام پر نئے تصورات، نئی رسمیات، نئی اخلاقیات، نئے نظریات ازخود پیدا کرتا ہے، جو دراصل ایک نئے مرحلۂ جنگ کا ایندھن بن جاتے ہیں، اور ترقی بھی اسی سفر کا نام ہے۔

کارل مارکس، سرمایہ داریت پر مبنی معاشرے کے ایک خاص لمحے میں تاریخ کی واقعیت اور حرکت کے تجزیاتی عمل کو ایک مخصوص زاویے سے دیکھتا ہے۔ وہ اس میں کسی آرزو، کسی آدرش، کسی تمنا، کسی قدر، کسی وہم، کسی مروت، کسی رعایت، کسی اعزاز، کسی رسم، کسی روایت، کسی تعلق، کسی خوف، کسی مفاد، کسی نظریے، کسی مابعدالطبیعیات، کسی عینیت، کسی وجدانیت، کسی موضوعیت، کسی رومانویت، کسی مذہبیت، کسی علاقائیت، کسی نسلیت، کسی لسانیت، کسی نسبیت کو ذرا بھر گنجائش دینے کے لیے بھی قطعی تیار نہیں۔ اس لیے کہ وہ تاریخی صو رتِ حال (situation) کو ممکنہ انسانی حد تک، اسی کے فراہم کردہ حقائق ( facts)کے مطابق سمجھنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ اپنے ہم عصر معاشرے کے تمام علمی، فکری اور تجزیاتی لٹریچر تک رسائی کو لازم قرار دیتا ہے۔

کارل مارکس، انسانی شعور میں کسی ترجیح اور انسانی معاشرے میں کسی ماضی کی روایت کو سرے سے تسلیم نہیں کرتا۔ اُس کا خیال ہے کہ اسی معروضی اور ’سائنسی‘ تجزیے سے نئی سیاسی اقدار اور نیا نظریہ پیدا ہوگا، جو ایک نئے اور مکمل سیاسی عمل کی درست بنیاد فراہم کرے گا۔ وہ اپنے غیرمعمولی عقلی اور بے رحمانہ (ruthless ) فکری تجزیے کے حاصلات کو درست تو خیال کرتا ہی ہے، لیکن اس میں انسانی آرزؤں کا کوئی سامان نہیں پاتا۔ اپنے تجزیے کو لبھاؤ دینے کے لیے ایک نہایت غیر عقلی، تصوراتی اور رومانوی بات کرتا ہے۔

کارل مارکس کے بقول ’مادی جدلیات‘ کا عمل ایک دن ازخود ختم ہو جائے گا، اور تاریخ کا عمل، امتزاج (synthesis ) کی صورت میں اپنی منزلِ مراد پر پہنچ جائے گا۔ گویا کہ انسانی عقل جب تجزیے کی منزل پر پہنچ جاتی ہے تو انسانی آرزؤں کے آگے سپر انداز ہو جاتی ہے۔ ’مادی جدلیات‘ کے قرار پکڑنے، اور ریاست کے ازخود ختم ہو جانے کی آرزو وہ حتمی امتزاج ہے، جو ارضی جنت کی صورت میں ظاہر ہو گی اور اشتراکیت انقلاب کے ذریعے اسی کی طرف لپکتی ہے۔

سرمایہ دارانہ فکر نے بھی ’تاریخ کی انتہا‘ ( End of History )سے اسی ’جنت ارضی‘ کے قیام کی خبر دی ہے، اور اس کا اختتامِ تاریخ بھی یہی ’امتزاج‘ ہے۔ ایسی جنت ارضی، یورپ کے بگڑے اور باغی انسان کی وجودی منزل ہے، خیر سے وہ اشتراکی ہو یا بھلے سرمایہ دار۔

اشتراکیت کے ’آسیب‘ اور سرمایہ داری کے ’عفریت‘ کی تشکیل کردہ جدید دنیا میں ہمیں اپنے ورلڈ ویو کی تہذیبی معنویت کو ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اوّل سوال یہ ہے کہ ’’کیا ہمیں اس ذمہ داری کا ادراک ہے؟‘‘ دوسرا سوال یہ ہے کہ ’’کیا ہم اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے تیار ہیں؟‘‘

سوال :  جب انسان کی تخلیق میں ہی چھچھورا پن ہے تو وہ سلیم الطبع کیسے ہوسکتا ہے؟

جواب :انسان کے اندر چھچھورا پن تو کم و بیش موجود ہوتا ہے۔ یہ منجملہ انھی اوصاف کے ہے جو اس کی فطرت میں ودیعت کیے گئے ہیں۔ انسان سے انھی عادات و خصائل کا اظہار ہوتا ہے، جو اس کی فطرت میں پوشیدہ ہیں۔

اب انسان کی آزمایش دراصل اس بات میں ہے کہ وہ اپنے فطری اوصاف میں سے کن اوصاف کو اُبھارے اور کن اوصاف کی حوصلہ شکنی کرے۔ اپنے اندر بھلائیاں پرورش کرنے کا جو طریقہ اللہ کی شریعت نے بتایا ہے، اگر اس کے مطابق انسان چلتا رہے تو اس کے نفس کی خرابیاں کم ہوتی جائیں گی اور اس کے اندر اعلیٰ صفات تقویت پکڑ لیں گی۔

انسان کو بنانے اور بگاڑنے میں ماحول مؤثر کردارادا کرتا ہے۔ اگر خدا شناس اور پاکیزہ ماحول اسے میسر آجائے تو ہلکی سی جدوجہد بھی اس کے اندر بہترین اوصاف کو پرورش دینے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ لیکن اگر خدا نا شناس اور غیراخلاقی ماحول اسے ملے تو بُرے اوصاف کے پھلنے پھولنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی اور اعلیٰ صفات کو پرورش کرنے میں اسے سخت جدوجہد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

شرک اور دوسرے گناہ

سوال :  شرک بغیر توبہ کیے معاف نہیں ہوگا۔ کیا اس سے خودبخود یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ دوسرے جرم و گناہ بغیر توبہ کیے معاف ہوسکتے ہیں، جیسے چوری، ڈکیتی، زنا اور فساد فی الارض وغیرہ ؟

جواب :شرک سے اگر کوئی شخص باز نہ آئے تو اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دے___ اس لیے نہیں کہ اللہ تعالیٰ بے بس ہے بلکہ اس لیے کہ خود اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرما دیا ہے کہ ’میں سارے گناہوں کو بخش دوں گا، لیکن شرک کو نہیں بخشوں گا‘۔ یہ گناہ ایسا ہے جو خاص اللہ تعالیٰ کی ذات سے وابستہ ہے۔ رہے دوسرے گناہ تو ظاہر ہے کہ ان کی کوئی فہرست نہیں دی گئی ہے کہ یہ یہ گناہ معاف کیے جائیں گے اور یہ یہ گناہ معاف نہ ہوسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جب بلاتخصیص یہ اعلان فرمایا ہے کہ سوائے شرک کے تمام گناہ معاف ہوسکتے ہیں، تو کسی کو کیا اختیار ہے کہ ان میں درجہ بندی کرتا پھرے۔

جاننا اور ماننا

سوال : آپ نے فرمایا ہے کہ ’’کچھ لوگ ایسے ہیں جو جانتے ہیں، لیکن مانتے نہیں ہیں‘‘۔ کیا صورتِ حال یہ نہیں ہے کہ جو مانتے نہیں ہیں وہ دراصل جانتے ہی نہیں ہیں، کیونکہ اگر وہ جان جاتے تو ضرور مان لیتے؟

جواب :دراصل جاننے اور ماننے میں ایک لطیف فرق ہے۔ مثلاً آپ دیکھیں گےکہ ایک شخص اللہ تعالیٰ کا منکر ہے، لیکن جب آپ اس سے بات کریں گے، تو معلوم ہوگا کہ وہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کا منکر نہیں ہے، وہ ایک ایسی ہستی کو تسلیم کرتا ہے، جو اس کائنات کا خالق ہے۔ لیکن وہ اسے صاحب ِ ارادہ، صاحب ِ تدبیر و تنظیم اور صاحب ِ قانون و شریعت تسلیم نہیں کرتا۔ وہ خدا کی اس حیثیت کو ماننے سے انکار کردیتا ہے، کہ وہی اس کی قسمت کا بنانے اور بگاڑنے والا اور وہی اسے راہِ ہدایت دکھانے والا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ وہ شخص یہ بات تو جانتا ہے کہ خدا ہی اس کائنات کا خالق ہے، لیکن حقیقت میں وہ اسے مانتا نہیں ہے۔ بس جاننے اور ماننے میں یہی بنیادی فرق ہے۔(۱۹۶۸ء، درس قرآن کے بعد)

لوگ اپنی جہالت و نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ جسے کوئی نعمت مل رہی ہے وہ لازماً اس کی اہلیت و قابلیت کی بنا پر مل رہی ہے، اور اس نعمت کا ملنا اُس کے مقبو لِ بارگاہِ الٰہی ہونے کی علامت یا دلیل ہے۔ حالانکہ یہاں جس کو جو کچھ بھی دیا جارہا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمایش کے طور پر دیا جارہا ہے۔ یہ امتحان کا سامان ہے نہ کہ قابلیت کا انعام، ورنہ آخر کیا وجہ ہے کہ بہت سے قابل آدمی خستہ حال ہیں اور بہت سے ناقابل آدمی نعمتوں میں کھیل رہے ہیں۔

اسی طرح یہ دُنیوی نعمتیں مقبولِ بارگاہ ہونے کی علامت بھی نہیں ہیں۔ ہرشخص دیکھ سکتا ہے کہ دُنیا میں بکثرت ایسے نیک آدمی مصائب میں مبتلا ہیں، جن کے نیک ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور بہت سے بُرے آدمی، جن کی قبیح حرکات سے ایک دُنیا واقف ہے، عیش کر رہے ہیں۔

اب کیا کوئی صاحب ِ عقل آدمی ایک کی مصیبت اور دوسرے کے عیش کو اس بات کی دلیل بناسکتا ہے کہ نیک انسان کو اللہ پسند نہیں کرتا اور بد انسان کو وہ پسند کرتا ہے؟(’تفہیم القرآن ‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۶۱، عدد۵، جولائی ۱۹۶۴ء، ص۱۷-۱۸)