گذشتہ صدی کے آخر میں ’نئے عالمی نظام‘ [New World Order]، ’تہذیبوں کے تصادم‘ [Clash of Civilization] اور اختتام تاریخ [End of History] کی بحثوں کا شور برپا تھا۔ لیکن گذشتہ کچھ عرصے میں مغرب میں ’عظیم تعمیرِنو‘ [The Great Reset] کی بحث نہ صرف پوری قوت سے جاری ہے بلکہ دنیا کے طاقت ور افراد کھل کر اس کے حق میں یا مخالفت میں اپنی اپنی رائے کا اظہار بھی کررہے ہیں بلکہ اپنی دولت اور اثرورسوخ کے بل بوتے پر اپنے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں بھی لگے ہیں۔
دنیا کے مال دار ترین امریکی سیٹھ ایلون مسک نے گذشتہ دنوں اپنی ایکس پوسٹ میں کہا :
The True battle is Extinctionists who want a holocaust for all of Humanity. Vs Expansionists who want to reach the stars and Understand the Universe.
اصل لڑائی دو قوتوں کے درمیان ہے: ’معدومیت پسند‘ ،کہ جو پوری انسانیت کے لیے ہولوکاسٹ چاہتے ہیں، اور’ توسیع پسند‘، کہ جو ستاروں تک پہنچنا اور کائنات کو سمجھنا چاہتے ہیں۔
یہ ذومعنی ’ٹویٹ‘ یا ’پوسٹ‘ گذشتہ کئی عشروں سے جاری 'تہذیبی تصادم کے تناظر میں نظر آئے گی، لیکن ایلون مسک نے اگلے ٹویٹ میں اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھا:
Now Imagine if the Extinctionist philosophy is programmed into Al- No need to imagine - this is already the case with Gemini and ChatGPT.
اب ذرا تصور کریں کہ اگر ’معدومیت پسندوں‘ کے فلسفے کو ’مصنوعی ذہانت‘ [کے پروگرام] میں شامل کردیا جائے۔ [بلکہ] تصور کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ کام جیمینی [گوگل کا ’اے آئی‘ پروگرام ] اور چیٹ جی پی ٹی [Chat GPT] پہلے ہی کررہے ہیں۔
ایلون مسک نے یہ پوسٹ ایک خبر کے جواب میں کی ہے، جس کے مطابق ایک مشہور انگریزی فلم [Planet of The Apes] کے اداکاروں نے ایک انٹرویو میں کہا: ’’یوں تو وہ فلم میں انسانوں کو بندروں سے بچاتے نظر آتے ہیں، لیکن حقیقی زندگی میں وہ بندروں کے ساتھ شامل ہونا پسند کریں گے، تاکہ بندروں کے ساتھ مل کر انسانوں کا خاتمہ کرسکیں کیونکہ انسانوں نے دنیا کو برباد کردیا ہے۔ بظاہر تو یہ پوری گفتگو ہی بے معنی اور بےتکی لگتی ہے۔ لیکن صورتِ حال اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ ایلون مسک نے ہنسی مذاق کے ماحول میں ہونے والی اس گفتگو کے پیچھے اُس اصل سوچ پر تنقید کی ہے، جو زمین کے بچائو کے لیے انسانوں کے خاتمے کی حامی ہے۔
اسی سوچ کے حامل یونی ورسٹی کالج، لندن میں ماحولیاتی آلودگی کے پروفیسر بل مک گیوری (Bill McGuire ) نے برطانوی اخبار دی گارڈین (۱۱ مئی ۲۰۲۴ء )میں شائع ہونے والے ایک تجزیے ’ہم انسانی برڈ فلو کے لیے کتنے تیار ہیں؟‘ [How Prepared are We for Human Bird Flu?] کو ٹوئیٹر یا ایکس پر شیئر کرتے ہوئے لکھا:
If I am brutally honest, the only realistic way I see emissions falling as fast as they need to, to avoid catastrophic climate breakdown,is the killing of the human population by a pandemic with a very high fatality rate.
اگر میں کڑوا سچ بولوں تو [زہریلی گیس کے] اخراج میں کمی کا تیز ترین اور کسی تباہ کن ماحولیاتی المیے سے بچنے کا حقیقت سے قریب راستہ صرف ایک ہی ہے، [اور وہ ہے] کسی ایسی وبا کے ذریعے انسانی آبادیوں کا صفایا، جس میں موت کی شرح بے حد زیادہ ہو۔
اس پوسٹ کے بعد پروفیسر مک گیوری کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد انھوں نے پہلے تو اپنی یہ پوسٹ ہٹادی اور پھر وضاحت دیتے ہوئے لکھا کہ ’’میں صرف معاشی سرگرمی میں کمی کے حوالے سے گفتگو کر رہا تھا‘‘۔
کچھ اہل دانش کے خیال میں یہ سوچ اور پیغام جان بوجھ کر پھیلایا جارہا ہے، تاکہ ذہن آہستہ آہستہ ایسی بربادی کو قبول کرنے یا اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوتے جائیں۔ اس سوچے سمجھے منصوبے کے پیچھے دنیا کے بہت سے طاقت ور اور مال دار افراد کا پورا طائفہ ہے جن میں ورلڈ اکنامک فورم کے کلاز سواب [Klaus Schwab] ، مشہور لوجسٹ بل گیٹس [ Bill Gates] وغیرہ شامل ہیں۔ اس منصوبے کو ’ایک عظیم تعمیرِنو‘ [The Great Reset] کا نام دیا گیا ہے۔
آخر یہ ’ایک عظیم تعمیرِنو‘ منصوبہ کیا ہے؟ دنیا کے یہ طاقت ور افراد کیا سوچ رہے ہیں؟ اور اپنے وسائل کہاں خرچ کررہے ہیں، اور ان کی نظر میں دنیا کا مستقبل کیسا ہوگا؟
یہ منصوبہ ’عالمی اقتصادی فورم‘ [World Economic Forum] کی جانب سے کورونا کووڈ کی وبا کے بعد ۲۰۲۰ء میں پیش کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد کورونا وبا کی وجہ سے ہونے والے ناقابلِ تلافی نقصانات کے ازالے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا تھا۔ ’عالمی اقتصادی فورم‘ (WEF) ایک غیر سرکاری تنظیم ہے، جس کو ۱۹۷۱ء میں کلاز سواب نے قائم کیا تھا۔ اس تنظیم کا مقصد دنیا بھر کے اہم لوگوں کو، چاہے ان کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہو، اکٹھا کرکے منصوبہ بندی کرنا ہے تاکہ دنیا کو رہنے کے لیے بہتر سے بہتر بنایا جاسکے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پلیٹ فارم اتنا اہم ہوگیا ہے کہ دنیا بھر کے حکمران، ارب پتی کاروباری اور اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین اس پلیٹ فارم سے گفتگو کرنا اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔
اس منصوبے کے بنانے والوں کے خیال میں کورونا کی وبا نے ایسا موقع فراہم کیا ہے، جس کا فائدہ اٹھا کر دنیا کو درست سمت میں چلایا جاسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ۲۰۳۰ء کے پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ پائیدار ترقی کا یہ منصوبہ ۲۰۱۵ء میں اقوام متحدہ نے منظور کیا تھا، جس کا مقصد ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانا اور کرۂ ارض کو محفوظ و مامون بنانا ہے۔
اگلے دس برسوں میں جو معاملہ دنیا کے ہر اہم معاملے پر سبقت رکھے گا اور گذشتہ کچھ عرصے میں سب سے زیادہ شور جس مسئلے پر مچا ہے، وہ ماحولیاتی تبدیلی یا Climate Change کا ہے، جسے اکثر ’گلوبل وارمنگ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ اس عمل کو کہتے ہیں، جس کی وجہ سے زمین کا درجۂ حرارت بڑھنا شروع ہوجائے، جس کی وجہ سے مختلف ماحولیاتی تبدیلیاں جنم لیں، جس میں سیلاب کی زیادتی، سردیوں کے موسم میں مسلسل کمی ہونا اور گرمیوں کا شدید سے شدید تر ہوجانا شامل ہے۔ زمین پر موسمیاتی تبدیلیاں اگرچہ قدرتی وجوہ کی بنا پر ہمیشہ ہوتی رہی ہیں، لیکن آخری ۳۰۰ برسوں میں ’صنعتی انقلاب‘ کے بعد موسمیاتی تبدیلیوں کی اصل وجہ قدرت کے مظاہر نہیں بلکہ خود ہم بن گئے ہیں۔ اور اس کی بنیادی وجہ زہریلی گیسوں مثلاً کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین کا اخراج ہے۔ اس کی اہم وجہ ایندھن یعنی تیل، گیس اور کوئلے کا بڑھتا ہوا استعمال ہے، جو بڑھتے بڑھتے اب اتنا زیادہ ہوگیا ہے کہ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو کچھ ہی عرصے میں کرۂ ارض انسانوں کے لیے ناقابلِ رہایش ہوجائے گا۔
اس مسئلے پر توجہ دلانے کے لیے ماحولیاتی تنظیموں نے مشہور لوگوں کو اپنا ہم نوا بنا کر گذشتہ کچھ عرصے سے تحریک شروع کررکھی ہے، اور تقریباً ہر ملک میں مختلف کانفرنسوں کا انعقاد کرکے اس مسئلے پر توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح اس تحریک کے حامی اس مسئلے پر توجہ دلانے کے لیے کبھی تو ٹرکوں کے آگے لیٹ جاتے ہیں اور کبھی کسی مشہور آرٹسٹ کی پینٹنگ پر رنگ پھینک کر توجہ حاصل کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں زمین کے بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت پر قابو پانے کے حل کے لیے اقوام متحدہ کے زیر سایہ ہر ملک نے اپنے اپنے حصے کا کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور مختلف اہداف طے کیے ہیں۔
یہی وہ اہداف ہیں، جن کی وجہ سے اس تحریک کے مخالفین بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ جو اس عمل کو ’انسانیت کو قابو کرنے‘ اور ’عالمی حکومت کے قیام‘ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس مخالفت کی ایک بڑی وجہ وہ غیر سنجیدگی ہے، جو اس تحریک کے سرکردہ رہنماؤں کے رویئے میں نظر آتی ہے۔ مثلاً اس تحریک کے اکثر سرکردہ حامی وہ امیر لوگ ہیں، جو ایک طرف تو ان کانفرنسوں میں شرکت کے لیے تن تنہا اپنے پرائیوٹ جہازوں پر سفر کرتے ہیں، ان کانفرنسوں کے بعد ہونے والی پارٹیوں میں مختلف طرح کے کھانے اُڑاتے ہیں، مگر عام انسانوں کو گائے کا گوشت کے بجائے 'متبادل اورماحول دوست کھانا کھانے پر زور دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ ایک اندازے کے مطابق ایک پرائیوٹ جیٹ اپنے صرف ایک گھنٹے کے سفر میں تقریباً ۲ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس پیدا کردیتا ہے، جس کے مقابلے میں ایک آدمی پورے سال میں صرف ۵ سے ۸ ٹن گیسوں کے اخراج کا سبب بنتا ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ماضی میں اکثر ماحولیاتی تبدیلیوں کی تحریکوں کو ’پیسہ کمانے اور ملازمتیں چھیننے کا بہانہ ‘کہتے رہے ہیں۔ سی بی ایس نیوز کے مطابق ٹرمپ نے کہا:
I think something's happening. Something's changing and it'll change back again... I don't think it's a hoax. I think there's probably a difference. But I don't know that it's manmade. I will say this: I don't want to give trillions and trillions of dollars. I don't want to lose millions and millions of jobs
میرے نزدیک کچھ [مسئلہ] ہورہا ہے۔ [ماحول میں] کوئی چیز تبدیل ہورہی ہے لیکن یہ واپس [پرانی شکل میں] آجائے گی۔ میں اسے ہوّا نہیں سمجھتا۔ کچھ تو مسئلہ ہے لیکن یہ انسانوں کا پیدا کردہ نہیں ہے۔ میں صرف یہ کہوں گا کہ [بحیثیت صدر] میں اس مسئلے کے لیے ٹریلین ڈالرز نہیں دے سکتا، اور نہ لاکھوں ملازمتیں ختم کرنا چاہوں گا۔
گائے کے گوشت کے بجائے جھینگر کھانے کا مشورہ
ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے میں تقریباً ۳۰ فی صد حصہ فوڈ انڈسٹری کا ہے۔ زہریلی میتھین گیس کے اخراج کا ایک بڑا سبب گائے بھینسوں کے وہ کمرشل فارم ہیں، جو دنیا بھر میں سستا اور معیاری گوشت فراہم کررہے ہیں۔ گائے بھینسیں چارہ ہضم کرتے ہوئے میتھین گیس کا اخراج کرکے زمینی درجۂ حرارت کے بڑھانے میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ ماحولیاتی تنظیموں کے چند حامی اس مسئلے کے حل کے طور پر گوشت کی جگہ جھینگر کھانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں:’’ کیونکہ لائیو اسٹاک فارمنگ کے مقابلے میں جھینگر فارمنگ کم خرچ بھی ہے اور ماحول دوست بھی‘‘۔
دوسری طرف کیڑے مکوڑوں کی فارمنگ کے ساتھ ساتھ لیباریٹری میں تیار گوشت کے حمایتی بھی اس مہم کا حصہ بن رہے ہیں۔ اس مہم کے سب سے بڑے وکیل مشہور لوجسٹ بل گیٹس ہیں، جن کے خیال میں ترقی یافتہ ممالک کو مکمل طور پرمصنوعی گوشت کا استعمال شروع کردینا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے مشہور امریکی یونی ورسٹی ایم آئی ٹی (MIT )کے میگزین کو اپنی کتاب How to Avoid a Cilimate Disaster? کے حوالے سے انٹرویو دیتَے ہوئے کیا۔
واضح رہے کہ بل گیٹس جو اب 'خوراک اور صحت کی بہتری پر اپنی ساری توجہ مرکوز کرچکے ہیں نہ صرف ایسی بہت سی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کررہے ہیں، جو مصنوعی گوشت پر تحقیق کررہی اور اس کو عام کرنے کی کوشش کررہی ہیں، بلکہ اس وقت امریکا کے سب سے بڑے زمین دار بھی بل گیٹس بن چکے ہیں، جنھوں نے مختلف امریکی ریاستوں میں بے حساب زرخیز زمین خرید رکھی ہے۔ بل گیٹس نے اپنی دولت کا ۸۰ فی صد حصہ جو تقریباً ۳۶ بلین ڈالر بنتا ہے، ’گیٹس فاونڈیشن‘ میں لگادیا ہے جس کا ایک مقصد لوگوں کی 'صحت کو بہتر بنانا ہے۔
’لائیو اسٹاک فارمنگ‘ کے ساتھ زیادہ فصل حاصل کرنے کے لیے کھادوں کے استعمال نے بھی ماحول پر منفی اثر ڈالا ہے۔ اس سب پر قابو پانے کے لیے مختلف یورپی حکومتوں نے سخت پابندیاں لگانی شروع کردی ہیں۔ مثلاً ہالینڈ، جو زراعت اور لائیو اسٹاک سے وابستہ چیزوں اور مصنوعات کا امریکا کے بعد دوسرا بڑا ایکسپورٹر ہے، اس کی پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا گیا کہ ’’ملک میں لائیو اسٹاک فارمنگ کے بڑے بڑے فارموں کو بند کردیا جائے اور لائیو اسٹاک کی تعداد کو آدھا کردیا جائے‘‘۔ اس بل کے پیش ہونے کے بعد ہالینڈ میں زراعت اور لائیو اسٹاک سے وابستہ کسانوں نے مظاہرے شروع کردیے، جو آہستہ آہستہ اب پورے یورپ میں پھیل رہے ہیں۔
ایک طرف یہ کارروائیاں ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے نام پر ہو رہی ہیں، تو دوسری طرف کسی نئے ممکنہ وائرس سے بچنے کے لیے بھی لائیو اسٹاک سیکٹر میں سخت اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ امریکی ویب سائٹ این بی سی کے مطابق ’’گذشتہ دنوں امریکی ریاست آئیوا میں پولٹری فارم مالکان کو تقریباً ۴۰ لاکھ مرغیاں مارنے کا حکم دیا گیا، کیونکہ ایک فارم پر ’برڈ فلو وائرس‘ پایا گیا تھا۔ امریکی محکمۂ زراعت کے مطابق امریکا میں ۲۰۲۲ء سے اب تک تقریباً ۹ کروڑ مرغیوں کو اسی وجہ سے مارا جاچکا ہے، کیونکہ کسی علاقے میں ’برڈ فلو وائرس‘ پایا گیا تھا۔ اور وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے علاقے میں موجود تمام مرغیوں کو مار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ سائنس دانوں کے خیال میں پہلے بےضرر سمجھا جانے والا ’برڈ فلو وائرس‘ وقت گزرنے کے ساتھ طاقت ور ہوچکا ہے اور اب مرغیوں سے دوسرے جانوروں اور انسانوں میں بھی پھیل سکتا ہے‘‘۔
اسی طرح کے ایک اقدام میں نیوزی لینڈ میں شہد پیدا کرنے والے فارم مالکان کو اپنے شہد کی مکھیوں کے فارم پر موجود شہد کی تمام مکھیوں کو مارنے کا حکم ملا کیونکہ شہد کی مکھیوں میں ممکنہ طور پر ایک خطرناک وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔
اس عمل کے مخالفین کے خیال میں ایک طرف تو یہ سب ہمارے کھانے پینے کی عادات اور اطوار کو تبدیل کرنے کے لیے کیا جارہا ہے، تو دوسری طرف اس کا مقصد ادویات بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے نئی ویکسینز (Vaccines) متعارف کرا کر اپنے منافع کو بڑھانا ہے۔ ساتھ ہی ان کے خیال میں یہ ’طاقت ور وائرس‘ قدرتی نہیں بلکہ انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں اور اس شبہے کو یہ نظریہ بھی تقویت دیتا ہے کہ کورونا وائرس اصل میں چین کے صوبے ووہان [Wuhan] کی ایک لیبارٹری میں تیار کیا گیا تھا اور اس لیبارٹری کو امریکی حکومت کی فنڈنگ ہوتی تھی۔ ۲۲؍ اپریل ۲۰۲۴ء کی امریکی ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک خبر کے مطابق چینی حکومت نے وائرس پھیلنے کے بالکل ابتدائی دنوں ہی میں مختلف لیباریٹریوں کو بند کرکے، غیرملکی سائنس دانوں کو ملک سے نکال دیا تھا اور مقامی سائنس دانوں کے بیرون ملک جانے پر پابندی لگادی تھی۔ جس کے باعث کسی بھی طرح سے کورونا وائرس کے پھیلنے کی اصل وجہ جاننا تقریباً ناممکن ہوگیا۔
’’کیا جھینگر یا دوسرے کیڑے مکوڑے کھانا اور مصنوعی گوشت استعمال کرنا حلال ہے یا حرام؟‘‘ اس بحث کو اگر چھوڑ بھی دیں تو دوسرا بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے ہماری صحت پر کیا اثر پڑے گا؟ اس سوال کا جواب شاید ابھی کسی کے پاس نہ ہو، لیکن یہ سب جینیٹکس انجینیرنگ سے ممکن ہوا ہے۔ دو عشرے قبل جو ٹیسٹ ٹیوب بچوں کا شور اُٹھا تھا، وہ اب ہمارے دسترخوان تک پہنچ گیا ہے۔ آپ نے گذشتہ دنوں پاکستان میں مرغیوں کی خوراک کے لیے منگوائی جانے والے سویابین پر حکومتی پابندی کا تو سنا ہوگا کیونکہ وہ [ GMO - Genetically Modified Organism] کے زمرے میں آتا ہے اور بیش تر ممالک میں اس پر پابندی ہے کیونکہ اس کو بڑھتے ہو ئے کینسر کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔
اسی سے ملتا جلتا معاملہ ایم آر این اے [MRNA] ویکسینز کا ہے۔ امریکی کمپنی فائزر، اپنی کورونا وبا سے مقابلے کے لیے متعارف کرائی گئی ویکسین کی وجہ سے شدید تنقید کی زد میں ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے لوگوں کو دیگر بہت سی طبّی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گذشتہ دنوں امریکی محکمۂ صحت کے سربراہ ڈاکٹر انتھونی فاوچی کو امریکی پارلیمنٹ میں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ نیوز ویک کے مطابق امریکی ریاست جارجیا سے تعلق رکھنے والی پارلیمنٹیرین ماہجوری ٹیلر گرین [Marjorie Taylor Greene] نے ڈاکٹر فاوچی پر انسانیت کے اجتماعی قتل کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا کیونکہ ڈاکٹر فاوچی نے کورونا ویکسین کو اپنے کاروباری مقاصد کے لیے محفوظ قرار دیا تھا۔ کچھ امریکی کمپنیوں نے اپنی کورونا ویکسین مارکیٹ سے اٹھانا شروع کردی ہیں، لیکن بل گیٹس اب بھی ان ویکسینوں کے استعمال کی حمایت کرتے ہیں۔
دوسری طرف بل گیٹس کے مخالفین کے خیال میں امریکا میں پیدا ہونے والے بچوں میں بڑھتے ہوئے آٹزم [Autism]کی وجہ ان ویکسینوں میں استعمال ہونے والی چیزیں مثلاً مرکری اور دوسری دھاتیں شامل ہیں۔ اسی طرح خوراک کو محفوظ کرنے کے لیے استعمال کی جانے والی پلاسٹک کو، جسے پہلے سائنس دانوں نے محفوظ قرار دے دیا تھا، اب انسانی شرح پیدائش میں مسلسل کمی کا باعث سمجھا جارہا ہے۔ اسی طرح نت نئی ’لوجی‘ سے تیارکردہ مختلف قسم کے تیار کھانے [Processed food] وغیرہ بچیوں میں قبل از وقت بلوغت کے مسائل پیدا کررہے ہیں۔
پائیدار ترقی کے منصوبے میں سبز توانائی [Green Energy] کو مرکزیت حاصل ہے۔ پہلےجہاں سڑکوں پر تیل اور گیس سے چلتی گاڑیاں نظر آتی تھیں، اب بجلی سے چلنے والی گاڑیوں نے جگہ لینی شروع کردی ہے۔ یہ بجلی کیونکہ سورج سے توانائی حاصل کرکے بنائی جاتی ہے، اس لیے اس سے زہریلی گیسوں کا اخراج بہت کم ہوتا ہے۔
گو کہ یہ ’لوجی‘ ابھی نئی ہے اور اس بجلی کو محفوظ کرنے کے طریقے یا بیٹریاں ابھی مہنگی ہونے کے ساتھ ساتھ مختصرعرصے میں ناقابل استعمال ہوتی ہیں، لیکن یہ سیکٹر سرمایہ کاری کا مرکز بن گیا ہے۔ جہاں یہ تبدیلی سستے اور صاف ایندھن کی فراہمی میں معاون ہوگی، وہاں اس نے تیل کی دولت سے مالا مال ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے کا امکان مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک مثلاً سعودی عرب، کویت وغیرہ کا ہے۔
عرب ممالک نے اس خطرے کو بھانپتے ہوئے اپنی اپنی معیشتوں کو تیل کے علاوہ دوسرے طریقوں سے بھی مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسا ہی ایک منصوبہ ایک پائیدار، صاف اور کم اخراج والی توانائی سے چلنے والے شہر نیوم [NEOM] کے بنانے کا ہے۔ سعودی عرب اس منصوبے پر اربوں ڈالر لگا رہا ہے۔
کسی بھی چیز کے فوائد یا خطرات کی بحث تو ہمیشہ جاری رہے گی، لیکن آپ کیڑے مکوڑے کھانا چاہیں یا گائے کا گوشت؟ برقی گاڑیوں میں سفر کریں گے یا نہیں، آپ کو کاربن ٹیکس ہر حال میں دینا پڑے گا اور یہ کاربن ٹیکس آنے والے دنوں میں ہر چیز پر لگ جائے گا۔ اگر کسی چیز کو بنانے کی وجہ سے زہریلی گیسوں کا اخراج زیادہ ہوتا ہے تو اس چیز پر کاربن ٹیکس بھی زیادہ ہوگا، اور آپ کسی صورت ایسے کسی ٹیکس سے بھاگ نہیں پائیں گے، کیونکہ اگلے دس برسوں میں دنیا بھر میں معیشت کو ڈیجیٹلایز کردیئے جانے کی تیاریاں ہورہی ہیں اور اس عمل میں سب سے اہم کردار مختلف ممالک کے مرکزی بینکوں کی طرف سے جاری کردہ ڈیجیٹل کرنسیوں [CBDC- سنٹرل بنک ڈیجیٹل کرنسیز]کا ہوگا، جو کیش یا کاغذی کرنسی کی جگہ لے لیں گی۔
انٹرنیٹ نے زندگی کے ہر شعبے کو تبدیل کردیا ہے۔ جہاں پہلے خطوط لکھ کر دل کا حال سنایا جاتا تھا، تو اب اسمارٹ فون پر سات سمندر پار بیٹھے لوگوں سے جب دل چاہے گفتگو ہوجاتی ہے۔ بازار جاکر خریداری کے جھمیلوں سے ای کامرس کی وجہ سے تقریباً جان چھوٹ رہی ہے۔
معیشت کو ڈیجٹلایز کرنے کی یہ تحریک سب سے پہلے ’بٹ کوائن‘ (Bitcoin)سے شروع ہوئی تھی، جس نے گذشتہ دس بارہ برسوں میں صحیح غلط، قانونی اور غیرقانونی اور دیگر لاتعداد بحثوں اور سوالات کو پیچھے چھوڑ کر ’ڈیجیٹل گولڈ‘ کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔ بٹ کوائن کو ۲۰۰۸ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد بڑھتے ہوئے افراط زر اور دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کی جانب سے اندھا دھند کرنسی کی چھپائی کی وجہ سے ہونے والی گراوٹ کے مقابلے کے لیے لایا گیا تھا۔ بٹ کوائن بنانے والوں کے خیال میں ڈالر اور دیگر کاغذی کرنسیاں کوئی حقیقی اہمیت نہیں رکھتیں بلکہ یہ عوام کو غلام بنائے رکھنے کا طریقہ ہے، کیونکہ امریکا میں ۱۹۷۱ء میں گولڈ اسٹینڈرڈ کے خاتمے کے بعد جب حکومت کا دل چاہتا ہے وہ ڈالر چھاپ لیتی ہے، جس کے پیچھے کو ئی اصل دولت مثلاً سونا تو نہیں ہوتا، مگر اس کا اثر عام آدمی پر افراط زر کی صورت پڑتا ہے۔
واضح رہے کہ امریکا اپنی عالمی طاقت کی حیثیت کو بچانے کے لیے بے تحاشا ڈالر چھاپ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے امریکا کا قومی قرضہ ۳۵ ٹریلین ڈالرز تک پہنچ گیا ہے۔ یہ قرض کتنا زیادہ ہے؟ اس کو بآسانی سمجھنے کے لیے اس سے اندازہ کرلیں کہ اگر ہم ایک ملین سیکنڈ پیچھے جائیں تو یہ صرف ۱۲ دن کا عرصہ بنتا ہے۔ لیکن اگر ہم ایک بلین سکینڈ پیچھے جائیں تو یہ تقریباً ۳۱ سال کا عرصہ بنتا ہے اور اگر ہم ایک ٹریلین سکینڈ پیچھے چلے جائیں تو یہ عرصہ ۳۱ ہزار برسوں کا بن جاتا ہے۔
گو کہ سارے ممالک ہی اپنی اپنی کرنسی چھاپ کر معیشت بچانے میں لگے ہیں، لیکن امریکی ڈالر کی عالمی ریزرو کرنسی کی حیثیت امریکی ڈالر کی چھپائی کے عمل کو جہاں امریکی حکومت کے لیے اپنی عالمی طاقت منوانے میں بغیر کسی محنت کے فائدہ پہنچاتی ہے، وہیں عام عوام کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کو بھی اس افراط زر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ بین الاقوامی تجارت کے لیے ان کو اپنے پاس ڈالر کے ذخائر رکھنے پڑتے ہیں، جب کہ امریکا یہی کام بغیر کسی محنت کے کرلیتا ہے۔ چین، روس، انڈیا اور چند دوسرے ممالک نے اس معاملے سے نمٹنے کے لیے بریکس [BRICS] نامی تنظیم بنالی ہے، جو اپنی مشترکہ کرنسی لانے پر غور کررہی ہے۔
'مرکزی بینک کی ڈیجیٹل کرنسی یا [سنٹرل بنک ڈیجیٹل کرنسی - CBDC] کے ساتھ ساتھ ’پیسے کی نجکاری‘ [Privatization of Money] اور کاربن کریڈٹس [Carbon Credits] کا تصور بھی پیش کردیا گیا ہے۔ جسے بعض محتاط تجزیہ نگار کمزور ممالک کے لیے قرضوں کا نیا جال کہہ رہے ہیں۔ عالمی معیشت پر اس سب کے کیا اثرات ہوں گے؟ کمزور ممالک کے لیے قرضوں کا نیا جال کیسا ہوگا؟ اس سب کا فیصلہ کرنا ابھی تو مشکل ہے، لیکن نجی زندگی اور پرائیوسی کے حامی اس کے سخت مخالف ہیں کیونکہ کرنسی کو ڈیجیٹلائز کرنے کے بعد حکومتوں کے لیے عام لوگوں کی نگرانی کرنا اور ان پر پابندیاں لگانا بہت آسان ہوجائے گا۔
اوپر جو بات پروفیسر مک گیوری نے واضح انداز میں کہہ دی تھی اسی بات کو مشہور اسرائیلی دانش ور یووال ہراری [Yuval Noah Harari] نے ایک سوال کے طور پر پیش کیا ہے: ’’مصنوعی ذہانت کے عام ہوجانے کے بعد کیا ہوگا؟‘‘ یعنی جب ربوٹس انسانوں کی جگہ لے لیں گے، تو اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب اپنی کتاب ’سیپینز: انسان کی مختصر تاریخ‘ [Sapiens: A Brief History of Humankind] سے شہرت پانے والا مصنف ایک انٹریو میں کہتا ہے:
We see the creation of a new massive class of useless people as computers become better and better in more and more fields........ the big political and economic question of the 21st century will be what do we need humans for or at least what do we need so many humans for… at present the best guess we have is to keep them happy with drugs and computer games.
[کیونکہ] کمپیوٹروں کے [زندگی کے] مختلف شعبہ جات میں کام کرنے کی صلاحیت میں [مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے] اضافہ ہورہا ہے۔ [اس لیے مستقبل میں] ہم بیکار لوگوں کا ایک بہت بڑا طبقہ پیدا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ اکیسویں صدی کا سب سے اہم سیاسی اور معاشی سوال یہ ہوگا کہ آخر انسانوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بالخصوص اتنے سارے انسانوں کی کیا ضرورت ہے؟ فی الحال تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ ان کو کمپیوٹر گیمز اور منشیات سے خوش رکھا جائے گا۔
لیکن نوح ہراری ’مصنوعی ذہانت‘ (Artificial Intelligence - AI)اور بائیو ٹکنالوجی (Bio Technology) کے ملاپ سے زندگی کی نئی شکلیں پیدا کرنے پر بھی بہت پُراُمید ہے :
In the coming decades, AI and Biotechnology will give us godlike abilities to re-engineer life, and even to create completely new life-forms.After four billion years of organic life shaped by natural selection, we are about to enter a new era of inorganic life shaped by intelligent design, our intelligent design!
آنے والے عشروں میں مصنوعی ذہانت اور بائیوٹکنالوجی کے ملاپ سے ہم کو خدائی انداز کی زندگی بخشنے والی صلاحیتیں حاصل ہوجائیں گی۔ جس سے ہم زندگی کی نئی شکلوں [یا نئی حیات] کا اجرا کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ چار ارب برسوں تک قدرت کی جانب سے زندگی کے فیصلوں کے کیے جانے کے بعد اب ہم ایسے دور میں داخل ہورہے ہیں جہاں ہم خود زندگی [اور اس کی شکلوں] کا غیرقدرتی اور بہتر تعین کرسکیں گے۔
ظاہر ہے مصنوعی ذہانت کے عام ہونے کے بعد اگلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب انسانوں کے پاس کام کرنے کو نہیں ہوگا تو وہ کمائیں گے کیا، اور کھائیں گے کہاں سے؟ تو اس کے حل کے طور پر 'ایک جیسی بنیادی تنخواہ یا [Universal Basic Income] کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ یعنی مصنوعی ذہانت کے عام ہونے اور معیشت کے ڈیجیٹلائز ہونے کے بعد آپ کو ہر مہینہ ایک بنیادی تنخواہ دے دی جایا کرے گی، جو آپ کے روزمرہ کے اخراجات کے لیے کافی ہوگی۔ بعض افلاطون اس خیال کو عالمی سطح پر غربت کے خاتمے کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔
اس منصوبے کے سب سے بڑے حامی چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی اوپن ائے آئی [ChatGPT - Open AI] کے سربراہ سام الٹمین ہیں۔ انھوں نے ایک نیا منصوبہ ’ورلڈ کوائن‘ [World Coin] کے نام سے متعارف کرادیا ہے۔ گو اس کے خدوخال ابھی واضح نہیں، لیکن افریقی ملک کینیا میں جب یہ منصوبہ شروع کیا گیا تو کینیا کی حکومت کو اس پر پابندی لگانی پڑی، کیونکہ اس کرنسی کے حصول کے لیے آپ کو اپنی آنکھوں کا بائیو میٹرک کرانا پڑتا ہے، اور یہ محفوظ نہیں ہے۔
ایلون مسک بھی سام الٹمین کے 'ایک جیسی بنیادی تنخواہ کے خیال سے متفق نظر آتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں ہونے والی ’عالمی حکومت کانفرنس‘ [World Government Summit] سے خطاب میں زندگی کے ہر شعبے میں ’مصنوعی ذہانت‘ کے چھا جانے کے بعد کی صورتِ حال پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا:
What to do about mass unemployment. This is going to be a massive social challenge. And I think ultimately we will have to have some kind of universal basic incom.I don't think we have gonna choice.... The harder challenge much harder challenge is how do people then have meaning. Like a lot of people drive their meaning from their employment ... If you are not needed, if there is not a need for your labor... what is the meaning? Do you feel useless.?
[مصنوعی ذہانت کے بعد] بڑے پیمانے پر پھیلی بے روزگاری کا کیا حل ہے؟ یہ ایک بہت بڑا معاشرتی مسئلہ ہوگا۔ اور میرے خیال میں 'ایک جیسی بنیادی تنخواہ (universal basic income) کے علاوہ اس کا کوئی حل نہیں ہوگا___ لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہوگا کہ لوگوں کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ بہت سارے لوگ اپنی ملازمت اور کام میں زندگی کا مقصد تلاش کرتے ہیں۔ [اب اچانک] اگر آپ کی ضرورت ہی نہیں ہے اور آپ کی محنت کی [معاشرے کو] ضرورت ہی نہیں ہے تو پھر زندگی کا مقصد کیا رہ جاتا ہے؟ کیا آپ اپنے آپ کو بیکار محسوس کرنا شروع کردیں گے؟
جو بات ایلون مسک نے زندگی کے مقصد کے حوالے سے کی ہے، وہی بات نوح ہراری بھی کرچکے ہیں کہ ’’شاید مصنوعی ذہانت کے عام ہونے کے بعد ہم کو انسانوں کو کمپیوٹر گیمز اور نشے سے مصروف رکھنا ہوگا‘‘۔ اور اس مسئلے کے حل کے لیے سب سے زیادہ پُرامید اور پُرجوش سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کے بانی مارک زکربرگ ہیں۔ انھوں نے ۴۶ بلین ڈالرز کی خطیر رقم سے ’میٹاورس‘(Metaverse )کو حقیقت کا رُوپ دینے کا ارادہ کیا ہے۔ میٹاورس ایک ایسی مصنوعی یا ڈیجیٹل دنیا ہوگی جہاں آپ کے بجائے آپ کا ڈیجیٹل اوتار(Avatar) زندگی بسر کرے گا اور آپ اپنے آرام دہ بستر پر لیٹے یا کسی کرسی پر بیٹھے اپنی آنکھوں پر چشمے کی طرح کا ورچوئل ہیڈسیٹ (Virtual headset) پہنے اس زندگی سے لطف اندوز ہوں گے۔
ابھی تو اس منصوبے پر کام کا آغاز ہے لیکن ’مصنوعی ذہانت‘ یا AI کو ترقی دینے میں سب سے اہم کردار سوشل میڈیا پلیٹ فارموں نے کیا ہے۔ ذرا تصور کریں اگر حقیقی زندگی میں ایک بندہ آپ کے ساتھ سائے کی طرح دن رات لگا رہے اور آپ کے کھانے پینے، کپڑے پہننے سے لے کر آپ کی گفتگو اور ہر معمولی چیز پر نظر رکھنا شروع کردے، تو نہ صرف آپ پریشان ہوجائیں گے بلکہ وہ بندہ بھی آپ کی تمام تفصیلات سے واقف ہوکر آپ پر مختلف طریقوں سے اثرانداز ہوسکتا ہے۔ لیکن یہی کام ہم بے فکر ہوکر سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر کررہے ہیں۔
’مصنوعی ذہانت‘ کو کسی قابل بنانے کے لیے جس ڈیٹا کی ضرورت ہوتی ہے ،وہ خود ہم نے اپنے اپنے پسندیدہ سوشل پلیٹ فارموں پر مختلف طریقوں سے رضاکارانہ طور پر فراہم کیا ہے۔ آپ فیس بک پر کیا کمنٹ کرتے ہیں، کون سی پوسٹ پسند کرتے ہیں اور کونسی پوسٹ پر کتنا وقت صرف کرتے ہیں؟ یہ سب معلومات سوشل میڈیا کمپنیاں اپنے اپنے ڈیٹا سینٹرز میں جمع کرتی رہتی ہیں اور پھر آپ کا ایک نفسیاتی خاکہ بنالیتی ہیں۔ اور یہی ڈیٹا AI کو دے کر ایسے الگورتھمز تیار کیے جاتے ہیں، جن کا خطرہ ایٹم بم سے زیادہ اور جن کی اہمیت تیل کی دولت سے زیادہ ہے۔
ایسا ہی ایک الگورتھم ڈوپامائن بڑھانے والی مصنوعی ذہانت یا Mechanism for Maximizationکہلاتا ہے۔ سائنس کے مطابق ہم کو کسی کام کرنے میں جو لطف اور طمانیت ملتی ہے، وہ دماغ میں پیدا ہونے والے ڈوپاماِئن کیمیکلز کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب ان سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کو آپ سے متعلق مطلوبہ مواد مل جاتا ہے تو پھر وہ اس ’الگورتھم‘ کے ذریعے آپ کو مسلسل آپ کا پسندیدہ ایسا مواد دکھاتی ہیں، جو آپ کے دماغ میں ڈوپامائن کی مقدار کو ایسے ہی بڑھانا شروع کردیتا ہے، جیسے کسی نشہ آور شے کا استعمال اور نتیجتاً ایک نشے کی طرح آپ اپنے اسمارٹ فون پر دنیا و مافیا سے بے خبر مصروف رہتے ہیں۔ مشہور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹویٹر‘ کے بانی جیک ڈورسی (Jack Dorsey )اس صورتِ حال کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
This is going to sound a little bit crazy, but I think that the free speech is a complete distraction right now. I think the real debate should be about free will and we feel it right now because we are being programmed... And I think the only answer to this is.... to give people a choice of what algorithm they want to use.
شاید یہ آپ کو عجیب لگے، لیکن [آج کے دور میں] میرے خیال میں آزادیٔ اظہار کی باتیں محض توجہ ہٹانے کا طریقہ ہیں۔ اصل بحث آزادی یا خود اختیاری سوچ پر ہونی چاہیے۔ اور اب ہم نے اس بات کو محسوس کرنا شروع کردیا ہے، کیونکہ ہماری سوچ یا مرضی کو [سوشل میڈیا الگورتھمز کے ذریعے] بدلا جارہا ہے۔ اور میرے خیال میں اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے لوگوں کو اس بات کی آزادی دی جائے کہ وہ اس بات کا تعین خود کرسکیں کہ وہ کون سا ’الگورتھم‘ استعمال کرنا چاہتے ہیں اور کون سا نہیں۔
پاکستانی مسلح افواج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے سوشل میڈیا کو ’شیطانی میڈیا‘ کہا تو لوگوں نے اس بات کو پابندیٔ اظہار کے زمرے میں شمار کیا۔ لیکن یہ صورتِ حال اتنی خطرناک ہے کہ چین نے اپنے عوام کی معلومات کو سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کے ذریعے مغرب تک پہنچنے سے روکنے کے لیے انٹرنیٹ پر سخت پابندیاں لگا کر تمام مغربی سوشل پلیٹ فارموں پر مکمل پابندی لگا دی ہے، اور صرف اپنے ملک میں بنے سوشل پلیٹ فارموں کو کام کرنے کی اجازت دی ہے۔
’آزادی کے دیوتا‘ کی پرستش کرنے والا یورپ بھی اس مسئلے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مختلف اقدامات کررہا ہے۔ امریکا، جہاں آزادیٔ اظہار کی مکمل آزادی ہے، وہاں بھی عوام کے مواد یا ڈیٹا کو چین تک پہنچنے سے روکنے کے لیے چینی سوشل میڈیا کمپنی ’ٹک ٹاک‘ پر پابندی لگادی گئی ہے۔
یہ ’الگورتھمز‘ کتنے طاقت ور ہیں؟ اسی صورتِ حال پر نوح ہراری نے بھی روشنی ڈالی ہے:
We humans are now hackable animals.The whole idea that humans have a soul or spirit and they have free will and nobody knows what is happening inside me so whatever I choose whether in election or whether in the super market and this is my free will! That's over.
ہم انسان اب محض ایک ایسا جانور بن گئے ہیں، جس کو سدھایا جاسکتا ہے۔ یہ خیال کہ انسان کے پاس روح یا مرضی ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ میرے دل پر کیا بیت رہی ہے، اس لیے میں الیکشن میں جس کو منتخب کروں یا بازار میں جو خریداری کروں وہ اپنی مرضی سے کروں گا، یہ سچ نہیں رہا۔
انھی بحثوں میں ڈنمارک کی رکن پارلیمنٹ ایڈا اوکن [Ida Auken] نے یہ کہہ کر اپنا حصہ ڈالا ہے کہ ’’مستقبل میں آپ کے پاس کچھ نہیں ہوگا لیکن آپ خوش ہوں گے۔ ’عالمی اقتصادی فورم‘ کے پلیٹ فارم سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات جب ڈینش رکن پارلیمنٹ نے کی، تو اسے نجی زندگی اور نجی ملکیت کے حقوق پر ڈاکا قرار دیا گیا۔اسی صورتِ حال پر آسٹریلین رکن پارلیمنٹ میلکم روبرٹس [Malcolm Roberts] نے کڑی تنقید کی:
Klaus Schwab's 'life by subscription' is really serfdom. It's lavery. Billionaire, globalist corporations will own everything—homes, factories, farms, cars, furniture—and everyday citizens will rent what they need, if their social credit score allows. The plan of the Great Reset is that you will die with nothing. Senators in this very chamber today who support the great reset threaten our privacy, freedom, and dignity.
کلاز سواب کا ’کرایے پر زندگی‘ ' [Life by Subscription] کا منصوبہ، جبری مشقت کا منصوبہ اور غلامی ہے۔ طاقت ور ارب پتی اور عالمی ادارے ہر چیز پر قبضہ کرلیں گے۔ گھر، فیکٹریاں، کھیت، گاڑیاں، فرنیچر وغیرہ غرض یہ کہ روزانہ آپ اس چیز کو کرایہ پر لیا کریں گے، جس کی آپ کو ضرورت ہوگی، لیکن صرف اسی صورت میں، جب کہ آپ کا سماجی کریڈٹ اسکور اس کی اجازت دے۔ ’عظیم تعمیرنو منصوبہ‘ یہ ہے کہ آپ جب مریں گے تو آپ کی ملکیت میں کچھ نہ ہوگا۔ [آسٹریلیا کی] سینیٹ کے جو ممبران آج اس منصوبے کا دفاع کررہے ہیں، ہماری آزادی، ہمارے وقار اور ہماری نجی ملکیت کا سودا کررہے ہیں۔
ان منصوبہ سازوں کے مطابق اگلے کچھ برسوں میں ہماری زندگی کا ہر شعبہ یکسر بدل جائے گا۔ بالکل یہ سوال آپ کے ذہن میں ضرور اٹھ رہا ہوگا کہ یہ سب کیسے ہوگا؟ اس کا حل بھی کہانی سنانے کی خداداد صلاحیت رکھنے والے نوح ہراری نے دے دیا ہے:
In this time of crisis, you have to follow science. It's often said that you should never allow a good crisis to go to waste because the crisis is an opportunity to also do good reforms that in normal times people will never agree to but in a crisis, you see you have no chance.
[کورونا کی] اس بحرانی کیفیت میں آپ کو سائنس سے رہنمائی لینی چاہیے۔ یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ [معاشرے میں] مثبت تبدیلی کے لیے بحران ایک اچھا موقع ہوتا ہے، اس لیے کسی بھی اچھے بحران کو ضائع کرنے کے بجائے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، کیونکہ عام حالات میں لوگ ایسی تبدیلیوں کو قبول نہیں کرتے، لیکن کسی بحرانی کیفیت میں ان کے پاس ان تبدیلیوں کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
گویا کہ اپنے منصوبے پر عمل کرنے کے لیے پے درپے بحران پیدا کرکے لوگوں کو تبدیلی پر تیار کیا جائے۔ ’عظیم تعمیرنو منصوبے‘ کے مخالفین کے خیال میں ایک طرف تو کورونا کی وبا کے بعد اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے سخت اقدامات کے باعث خوراک اور صحت کا نیا بحران سراٹھا رہا ہے اور مختلف ممالک جنگوں میں الجھ کر معاشی صورتِ حال کو اُلجھا رہے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ ایک خطرناک معاشی بحران کی صورت میں نکلتا نظر آرہا ہے۔ جو اس منصوبے پر عمل کا بہترین موقع ہوگا۔
مستقبل کی دنیا کیسی ہوگی؟ کے موضوع پر جو بحث برسوں قبل شروع ہوئی تھی، ایسا لگتا ہے کہ اب ان بحثوں میں رنگ بھرنے کی تیاریاں مکمل ہیں۔ ’عظیم تعمیرنو‘ کی بحث صرف بحث ہی نہیں رہ گئی بلکہ اس نے مستقبل کا ایک نیا منظرنامہ پیش کردیا ہے۔ بادی النظر میں یہ بحث نہیں بلکہ نئے نظام عالم [New World Order] کو نافذ کرنے کا عملی منصوبہ زیادہ لگتا ہے۔ ایک طرف تو نجی تنظیمیں اور بارسوخ شخصیات اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں لگے ہیں، تو دوسری طرف اقوام متحدہ اپنی مختلف قراردادوں کے ذریعے حکومتوں پر دباؤ بڑھاتی نظر آرہی ہے۔
بظاہر ان طاقت ور لوگوں میں شاید اگلے ممکنہ نظام عالم کی تفصیلات پر اتفاق نہیں ہے اور دو مختلف کیمپوں میں تقسیم واضح نظر آتی ہے۔ مگر ماضی میں جب بھی عالمی سطح پر تبدیلیاں آئیں دنیا کے طاقت ور مختلف کیمپوں میں اور آپس میں لڑتے ہی نظر آئے۔یہاں بھی یہی معاملہ نظر آتا ہے۔ آپ ’توسیع پسندوں‘ کے کیمپ میں ہوں یا ’معدودیت پسندوں‘ کے کیمپ میں، دونوں صورتوں ہی میں دال گلتی نظر نہیں آتی۔ ایک گروہ اگر زمین کو بچانے کے لیے انسانیت کا خاتمہ چاہتا ہے، تو دوسرا گروہ وسائل کے بے دریغ استعمال کے ذریعے جلد ہی زمین کو ناقابلِ رہایش بناتا نظر آرہا ہے۔