’’سرمئی علاقے (Grey Area) میں آپ کا استقبال ہے!‘‘ جب میں اپنے طلبہ کو سیاسی اخلاقیات یا بین الاقوامی تعلقات کی اخلاقیات کا مضمون پڑھانا شروع کرتا ہوں، تو انھیں اس جملے سے خوش آمدید کہتا ہوں۔ جب طلبہ پوچھتے ہیں: ’’سرمئی علاقہ کون سا ہے؟‘‘ تو جواب دیتا ہوں کہ ’’سیاسی عمل کا علاقہ عام طور سے سرمئی علاقہ ہوا کرتا ہے‘‘۔
ذہن میں اٹھنے والے ’مجرد مثالی خیالات‘ کو ٹھوس سیاسی عمل نہیں کہتے ہیں۔ سیاسی عمل تو ’خیال‘ کو ’یقینی‘ بنانے کا وہ فن ہے، جس میں ’مشترک علاقے‘ (Common Areas) وجود میں لائے جاتے ہیں اور زمان و مکان کی مساواتوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ سیاسی عمل مشترک علاقوں کے ذریعے ہی نتیجہ خیز ہوسکتا ہے، خواہ یہ اندرون میں ایک ملک کے شہریوں کے ساتھ ہو یا بیرون ملک، دوسرے ملکوں اور اداروں کے ساتھ ہو۔ بہت سے مواقع پر مشترک علاقوں کی تشکیل کے لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ناپسندیدہ چیزوں سے آنکھیں بند کرلی جائیں،ایک مخالف کے ساتھ مل کر دوسرے مخالف کے خلاف گٹھ جوڑ بنایا جائے اور کسی دشمن کے خلاف کسی دوسرے دشمن سے مدد لی جائے۔
’مشترک سیاسی میدانوں‘ کی تشکیل ایک دین، ایک مسلک یا ایک متفق علیہ نظریے کی حدوں تک محصور نہیں رہتی ہے، کیوں کہ اس پر حکمرانی ’معتبر مصالح مرسلہ‘ کے اسلامی قانون کی ہوتی ہے۔ یہ قانون شرطوں سے بوجھل نہیں ہوتا ہے، اس میں صرف اخلاق و مصالح کے ضوابط کی پابندی ضروری ہوتی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میدان میں ہمارے لیے رہنما سیاسی اصول مقرر کیے ہیں۔ آپؐ نے قریش کے مشرکین کے ظلم و استبداد سے بچنے کے لیے ایمان نہ لانے والے قریش مکہ ہی سے اپنے چچا ابوطالب کے مقام و منصب میں پناہ لی۔ اپنے ساتھیوں کو حبشہ کے عیسائی بادشاہ کے پاس بھیجا تاکہ مکہ کے کافروں کے مظالم سے نجات پانے کے لیے وہ اس کے یہاں پناہ گزین ہوجائیں۔ عبداللہ بن اریقط کو اپنے سفر ہجرت میں گائیڈ کے طور پر ساتھ لیا، ’’اس وقت وہ اپنی قوم کے مذہب کے مطابق مشرک تھے‘‘۔ (صحیح بخاری)
مکہ کے مشرکوں کے مقابلے میں آپ نے مطعم بن عدی کی امان حاصل کی۔ مشرک سردار صفوان بن امیہ سے ہتھیار مستعار لیے اور مقامِ حنین میں قبیلہ ہوازن کے مشرکین کے ساتھ جنگ میں انھیں استعمال کیا۔ ابوسفیان کی قیادت میں مشرکین کی فوج کے خلاف نفسیاتی جنگ کی خاطر مشرک شاعر معبد بن ابی معبد کی صلاحیت اور ابلاغی قوت کو استعمال کیا۔ قبیلہ خزاعہ کے دورِ جاہلیت میں بنو ہاشم کے ساتھ قدیم تعلقات تھے، اسے بنیاد بناکر اس قبیلے کے ساتھ معاہدہ کیا اور اسے اپنا حلیف بنایا۔ اس وقت وہ قبیلہ مسلمان اور مشرک دونوں پر مشتمل تھا: ’’تہامہ کے علاقے میں خزاعہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خیرخواہ قبیلہ تھا‘‘۔ (سیرت ابن ہشام)
دوسروں کے ساتھ مل کر مشترک علاقے تشکیل دینا ایک ایسی ضرورت ہے، جس سے عملی سیاست میں کوئی مفر نہیں۔ اس سے وسائل کو بتدریج لگانا، معرکے کے میدان کو چھوٹے سے چھوٹا کرنا، اور دُور تک پھیلے ہوئے محاذوں پر وسائل لگانے سے بچنا ممکن ہوجاتا ہے۔ یاد رکھیے، جو شخص ’مشترک میدان‘ تشکیل نہیں دے سکتا ہے، وہ عملی سیاست کے شعور کا پوری طرح ادراک نہیں رکھتا۔ یہ بات تو ممکن ہے کہ وہ بلاغت سے بھرپور واعظ یا شعلہ نوا مقرر، تخلیقیت سے آراستہ مصنف اور شاعر اور اپنے تجریدی خیالات میں منہمک فلسفی تو بن جائے، لیکن وہ ہرگز ہرگز سیاسی میدانِ عمل کا شہ سوار نہیں بن سکتا۔ کیوں کہ عملی سیاست میں وہ چیز درکار ہوتی ہے جسے الجیریا کے مفکر مالک بن نبی [۱۹۰۵ء- ۱۹۷۳ء]نے ’عملی منطق‘ (Practical Logic)کا نام دیا ہے۔
عملی سیاست میں کامیابی، اور اس کے لیے لازمی طور پر دوسروں کے ساتھ ’مشترک محاذوں‘ کی تشکیل کے تین لازمی تقاضے ہیں:
دوسرا تقاضا: اسٹرے ٹیجک حِس (Strategic Sense): اسلامی روایت میں لفظ ’حکمت‘ کے مفہوم کا یہ معاصر مترادف ہے۔ اگر قدیم زمانے میں ’حکمت‘ کی تعریف کی گئی تھی ’’چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھنا‘‘، تو آج ’اسٹرے ٹیجک حِس‘ کی تعریف یہ کی جاسکتی ہے: ’’وسائل کو اس کی صحیح جگہ کام میں لانا‘‘، ’’مطلوب مقاصد کو کم سے کم قیمت اور مختصر ترین راستے سے حاصل کرنا‘‘، یا ’’کم از کم قربانیوں اور ثمرات کے درمیان توازن کا ہونا‘‘۔ ہاں، اگر یہ حقیقت سامنے آئے کہ قربانیاں بہت بڑی اور ثمرات بہت معمولی ہیں، جیسا کہ ہمارے دور کے بیش تر سیاسی اور عسکری تجربات کا حال رہا ہے، تو یہ واضح ثبوت ہے اس بات کا کہ ہماری ’اسٹرے ٹیجک حِس‘ میں کوئی خلل پایا جاتا ہے۔
’عمل کے مشترک میدانوں‘ کی تشکیل کا کام اس وقت بے حد مشکل ہوجاتا ہے جب کئی محاذ کھول لیے جاتے ہیں اور مختلف محاذوں کی سرحدیں ایک دوسرے میں گتھم گتھا ہوجاتی ہیں، جیسی کہ ہماری موجودہ صورت حال ہے۔ اُمت کا جسم زخموں سے چُور ہے اور دل چھید چھید ہوگیا ہے۔ اس طرح کے دھواں دار منظر نامے میں ہوسکتا ہے کہ تمھارا مددگار وہ ہو جو تمھارے بھائی کی گردن پر چھری چلا رہا ہے اور اس کا مددگار وہ ہو جو تمھاری شہ رگ پر چھری چلا رہا ہے۔ اس صورت حال میں ان رہروؤں کے لیے اپنی راہوں کا تعین حیران کن ہوجاتا ہے، جو ’مشکل سوالوں‘ کا آسان جواب تلاش کرنے کے رسیا ہوتے ہیں۔ وہ سادہ دماغ جو ’سرمئی علاقوں‘ کے ساتھ تعامل کرنے کی مہارت نہیں رکھتے، ان گتھیوں کو لے کر اُلجھتے اور اُلجھتے ہی چلے جاتے ہیں (یہ الگ بات ہے کہ اپنی ان نادانیوں کو بھی بقلم خود ’کامیابیاں‘ قرار دینے پر اصرار بھی کرتے ہیں)۔
دورِ حاضر کی انقلابی کوششوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کوئی بھی انقلابی کوشش بیرونی مدد اور تعاون سے پاک نہیں رہی۔ ۱۷۷۶ء میں امریکا میں انقلابی تحریک برپا ہوئی، اس کی مدد ملوکیت کے حامل فرانس نے کی، جس کا مقصد برطانوی شہنشاہیت کو زک پہنچانا تھا، جس نے اس سے کچھ ہی سال قبل سات سالہ جنگ (۱۷۵۶ء- ۱۷۶۳ء)میں فرانس کی قوت ضائع کی تھی۔ یہ تاریخ کی معلوم حقیقت ہے کہ آمریت کے دل دادہ شاہ فرانس لوئی شش از دہم (۱۷۵۴ء- ۱۷۹۳ء)نے امریکا کی انقلابی تحریک کی مدد اس کی جمہوری قدروں پر یقین رکھنے کی وجہ سے نہیں کی تھی، وہ تو یورپ کے بادشاہوں میں سب سے زیادہ استبدادی اور فسادی بادشاہ تھا۔ لیکن سیاسی عمل میں اثرات کی اہمیت، مقاصد سے زیادہ اہم ہوجاتی ہے، جب کہ امریکی انقلابیوں کو فرانسیسی مدد کے اثرات سے دلچسپی تھی، انھیں فرانسیسی بادشاہ کے مقاصد سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔
وہ انقلابی تحریکیں جو سیاق فہمی، اسٹرے ٹیجک حس اور گردوپیش کے ماحول کا ادراک رکھتی ہیں، اس بات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کہ مدد کرنے والوں کے مقاصد کیا ہیں؟ وہ بیرونی مدد کے ساتھ حکمت پر مبنی اور عملیت پر مبنی تعامل (interaction)کرسکتی ہیں۔وہ ایک طرف تو ان مبالغہ پسندیوں اور مثالیت پسندیوں سے دور رہتی ہیں جو انھیں بیرونی مدد سے بالاتر باور کرائیں، جب کہ کسی انقلاب کے لیے اس سے بے نیازی ممکن نہیں ہے۔ دوسری طرف وہ مدد کرنے والوں کے جال میں نہیں پھنستی ہیں اور بڑی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان مقاصد کا شکار نہیں ہوتی ہیں، جن کا انقلاب کے مقاصد سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔
انقلابی تحریکوں اور ان کے بین الاقوامی مددگاروں کے درمیان تعلق اسی طرح کا ہوتا ہے جس طرح دو الگ الگ منزلوں کی طرف رواں دواں مسافر راستے کی کچھ مسافت ایک ساتھ طے کرتے ہیں۔ منزل کا الگ الگ ہونا اس میں رکاوٹ نہیں بنتا کہ اتنی دور تک ایک دوسرے کے لیے اچھے رفیقِ سفر ثابت ہوں، البتہ یہ احتیاط ضروری ہے کہ کوئی ایک اپنے حُسنِ سلوک اور میٹھی باتوں سے دل جیت لینے کے بعد غفلت کے کسی انجانے لمحے میں اپنے ساتھی کا رُخ ہی بدل ڈالے۔ راستہ چلتے وجود میں آنے والے اس تعلق کی پیچیدگی کو فلسفی شاعر علامہ اقبال نے بڑے بلیغ انداز سے بیان کیا ہے:
میں اپنی راہ میں ہر رہرو کے ساتھ چلتا ہوں اور اسے اپنی راہ کا کچھ حصہ دیتا ہوں۔
میں راستے میں کسی کو راہبر نہیں پاتا ہوں، جو منزل تک میرا ساتھ دینے کے لیے آمادہ ہو۔
انقلابی تحریکوں اور قومی آزادی کی تحریکوں کو بیرون سے مدد کرنے والے بیش تر حالات میں ایمان واخلاص کے جذبے سے مدد نہیں کرتے ہیں، بلکہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے مدد کرتے ہیں جو کہ ان خاص حالات میں ان تحریکوں کے مفاد سے وقتی طور پر ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے طویل تر مقاصد انقلابیوں کے حقیقی مقصد کی ضد ہوں۔ اس مدد کا محرک زیادہ تر تو اپنے حریفوں کو نقصان پہنچانا ہی ہوتا ہے، انقلابیوں کی کامیابی نہیں ہوتا۔
اس ضمن میں ’مدد لینے اور مدد دینے والوں‘ کی حکمت عملی کے حوالے سے چند مثالیں درج ذیل ہیں:
ایسا بہت مرتبہ ہوتا ہے کہ انقلابی تحریکوں اور ان کے بیرونی مددگاروں کے درمیان تعلق و ربط کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، ایسی صورت میں، جب کہ مددگار ملک کے مقاصد مدد پانے والے کے مقاصد کی تکمیل سے پہلے تکمیل پاجاتے ہیں۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیرونی مددگار اس انقلابی تحریک کے مقاصد کا دشمن ہوتا ہے جس کی وہ مدد کررہا ہوتا ہے۔ ایسے میں وہ اپنے حریفوں کو نقصان پہنچانے کے لیے وقتی طور پر اس کی مدد کرتا ہے۔ دوسری طرف ساتھ ہی ساتھ انقلابی تحریک کو اندر سے سبوتاژ کرنے کے لیے خفیہ کوششیں بھی کرتا ہے۔ مالی اور عسکری امداد انقلابی تحریکوں کے سفر پر کنٹرول کرنے اور انھیں اندر سے تباہ کردینے کا سب سے زیادہ مؤثر ذریعہ ہیں۔ انقلابی تحریکوں اور قومی آزادی کی تحریکوں کے ساتھ تعامل کرنے کا یہ ایک خبیث طریقہ ہے، جس میں مغربی طاقتیں بڑی مہارت رکھتی ہیں، جب کہ اس حوالے سے مشرقی قوتیں دورُخے پن اور منافقت میں ان سے کم تر ہیں۔
بلکہ بعض عرب حکام جنھوں نے امریکی چھتری کے نیچے شام کی انقلابی تحریکوں کی مال اور ہتھیار سے مدد کی تھی، ایک لمحہ ضائع کیے بغیر حالیہ برسوں میں بشار الاسد کی پوزیشن بحال کرنے اور اس کے ظالمانہ اقتدار کو جواز دینے میں لگ گئے۔ عرب لیگ کی چوٹی کی کانفرنسوں میں اسے دعوت دے کر انھوں نے کھلا ثبوت پیش کردیا کہ وہ اپنا کوئی ’اسٹرے ٹیجک‘ فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں، بلکہ وہ امریکی ہاتھوں میں معمولی درجے کے حقیر کھلونے ہیں۔ امریکا اپنے جہنمی نظریے ’جنگ کو ایک موقع دیا جائے‘ کو نافذ کرنے میں انھیں استعمال کرتا ہے۔ اس نظریے کی غرض و غایت ملکوں کو شکست و ریخت سے دوچار کرنا ہوتا ہے۔
افغان مجاہدین، کمیونسٹ روس کے خلاف جنگ کو اپنے وجود کی جنگ سمجھ کر لڑ رہے تھے، اور حقیقت میں وہ تھی بھی اور اس کے نتائج کو افغانی قوم کے و جود و عدم سے جوڑ کر دیکھ رہے تھے، مگر وہیں امریکا اور اس کے مخلص پیروکار اس میں اپنی چال چلنے کا سنہری موقع دیکھ رہے تھے۔ ان کے نزدیک روس کو کم زور کرنے کے لیے یہ افغان مجاہدین کو کچھ وقت کے لیے استعمال کرنے کا ایک نایاب موقع تھا۔ اس جنگ میں جو افغانی خون کا دریا بہتا رہا، ان مدد کرنے والوں کی نظر میں اس کی یہ قیمت نہیں بنتی تھی کہ اس کے بدلے افغانیوں کو آزادی، اسلامی قدریں، استحکام اور خودمختاری حاصل ہو۔ دوسری طرف یہی وہ مقاصد تھے جن کے حصول کے لیے افغانیوں نے مردانگی کے ساتھ یہ جنگ لڑی تھی۔
شام کی انقلابی اسلامی تحریکوں نے بھی بشار الاسد کے خلاف جنگ کو اپنی بقا کی جنگ سمجھا تھا اور بلاشبہہ وہ تھی بھی ایسی ہی، لیکن امریکیوں کے نزدیک وہ ایک موقع تھا جس میں شام کے انقلابیوں کا وقتی استعمال کرنا تھا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اسرائیل کے ایک سرحدی عرب ملک کو تباہ و برباد کردیا جائے، امریکی خون کی ادائیگی کے بغیر داعش کی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ تاہم، شام کی اسلامی انقلابی تحریک اور قوم چاہتی تھی کہ اسے خود اپنے ملک میں آزادی اور عزت کی زندگی حاصل ہو اور اسے اس خوں خوار فرقہ پرست نظام سے نجات ملے، جو اس کے اُوپر نصف صدی سے مسلط ہے۔
عرب دُنیا میں سیاسی آزادی اور اسٹرے ٹیجکل خود مختاری کا مطلب ہے صہیونی ریاست کے گردوپیش کے اسٹرے ٹیجک ماحول میں بڑی تبدیلی۔ یہ وہ نہایت سنجیدہ سرخ لائن ہے جسے پارکرنے کی امریکا ہرگز اجازت نہیں دے سکتا۔ جب کہ دیگر باتیں تو محض واہمہ ہیں جن کا ذکر امریکی صدر باراک اوباما نے عرب سماعتوں اور ریاستوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے کیا تھا جیسے یہ بات کہ ’’بشار الاسد شامی قوم کے خلاف کیمیاوی اسلحوں کا استعمال کرسکتا ہے‘‘۔
اوسلو کے دو ادارے ہیں: ’پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اوسلو‘ اور ’نارویجین انسٹی ٹیوٹ آف فارن افیئرز‘۔ ان سے وابستہ دو محققین سیلویک (Selvik ) اور رولینڈسین (Rolandsen) نے ۲۰۲۰ءمیں ایک مشترکہ اکیڈمک تحقیق شائع کرائی، اس کا عنوان ہے، Disposable Rebels یعنی ایسے ’باغی جو وقتی استعمال‘ کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ مقالہ ایک نمونے کا مطالعہ ہوسکتا ہے یہ جاننے کے لیے کہ مدد کرنے والوں اور مدد پانے والوں کے مقاصد کے درمیان کتنا بڑا فاصلہ ہوتا ہے۔ اس مقالے کا عنوان ہماری معاصر تاریخ کی متعدد سیاسی قوتوں اور ملکوں پر صادق آتا ہے۔ چونکہ اس وقت دیکھا جائے تو ہم ایک ایسی قوم ہیں جو انفعالیت (passive) کا کردار پسند کرتی ہے اور طویل عرصہ ہوا فاعلیت (active)کے کردار سے دست بردار ہوچکی ہے۔ اس لیے ہمارے یہاں بے شمار حکمران، سیاسی قوتیں بلکہ ریاستیں تک وقتی استعمال کے لیے بروئے کار آتی رہی ہیں، بلکہ ابھی تک!
اس مقالے کے اہم نتائج میں لکھا ہے کہ شام کی انقلابی تحریکوں کے لیے امریکی مدد اس امر کی مثال ہے کہ مدد کرنے والے اور مدد پانے والے کے مقاصد الگ الگ ہوسکتے ہیں اور یہ کہ سیاسی اور عسکری حلیفوں کے درمیان یہ چیز معمولی اور فطری ہے۔ یہ مدد جنگ جاری رکھنے کی بھی ایک مثال ہے، جس کا مقصد امریکا کی خارجی سیاست کے اہداف کا حصول تھا۔ یہ چیز امریکی اسٹرے ٹیجی میں کوئی نئی نہیں ہے۔ اس مقالے میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ’’یہ مدد خالص طور پر امریکی اہداف کی خاطر تھی۔ شام کے انقلاب کی کامیابی سے اس کا کچھ بھی لینا دینا نہیں تھا‘‘۔ امریکی اہداف یہ تھے:
۱- تمام متحارب فریقوں پر کنٹرول اور کسی فریق کو دوسرے پر فتح پانے سے روکنا۔
۲- علاقائی سطح پر مدد کرنے والوں کی مدد کی سطح کو کنٹرول کرنا اور شام کے اندر مدد پانے والے فریقوں کے رویے کو قابو میں رکھنا۔
۳- شام اور عراق سے ’داعش‘ کے صفایا کے دوران امریکی خون اور مال کا کم سے کم خرچ کرنا۔
۴- جن ملکوں کے لوگ امریکی افواج کو اپنے یہاں نہیں دیکھنا چاہتے، وہاں کھل کر سامنے نہیں آنا۔
۵- انقلابیوں کو ہتھیاروں کی کھلی خریداری سے روکنا، کیوں کہ اس سے انھیں فیصلے لینے کی اسٹرے ٹیجک خود مختاری حاصل ہوجائے گی۔
۶- انقلابی تحریک کی سیاسی قیادت کو ثانوی درجے میں رکھنا،مگر عسکری گروہوں سے براہِ راست معاملہ کرنا اور اس طرح انقلابیوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنا۔
۷- یقینی بنانا کہ انقلابیوں کو کامیابی کے لیے جتنی مدد کی ضرورت ہے، اس سے کم مدد انھیں ملے اور وہ بھی مدد کرنے والے کے ساتھ وفاداری کی سطح سے مربوط رہے۔
۸- حکومت کے خلاف انقلابیوں کی عسکری کارروائیوں کی مقدار، ان کے رُخ اور نتائج پر کنٹرول رکھنا۔
۹- عسکری مدد کو استعمال کرنے کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کرنا اور عسکری اہداف کے تعیین پر بھی کنٹرول رکھنا۔
۱۰- جنگ کو طویل مدت تک جاری رکھنا، جس میں کوئی غالب اور کوئی مغلوب نہ ہوپائے، تاکہ تمام متحارب فریقوں کو مسلسل نقصان پہنچاتے ہوئے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا جائے۔
دونوں محققین نے انقلابی تحریکات کو ملنے والی عسکری مدد کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے: ایک مدد اس لیے کہ جس فریق کی مدد کی جارہی ہے اسے فتح حاصل ہوجائے۔ دوسری مدد اس لیے کہ بس وہ فریق باقی رہے، کیوں کہ اس صورت میں مدد کرنے والے کا مقصد تمام فریقوں کو بے جان کرکے، ملکوں کو تباہ اور معاشروں کو تقسیم کرنا ہوتا ہے۔ ان کے الفاظ میں: ’’کبھی باغیوں کی مدد کرنے والے کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ حکمراں طبقہ مسلسل جنگ میں مبتلا رہے اور باغی زندہ رہیں‘‘۔ امریکا نے شام کی اسلامی انقلابی تحریکوں کے ساتھ یہی کیا۔
مستقبل میں جب ایران ایٹمی ہتھیار بنالے گا، جس کے بعد اسے صہیونی ریاست کے خلاف اس آتشیں طوق کی ضرورت نہیں رہے گی، جس سے اس نے صہیونی ریاست کو گھیر رکھا ہے، اور اس طرح متعدد عرب ملکوں کی حرمت پامال کرنے کا بہانہ بھی بناتا ہے، اس وقت ایران کا سیاسی رویہ کیا ہوگا اور فلسطینی مزاحمت کے ساتھ اس کے تعلقات کیسے ہوں گے؟ اس کی پیش گوئی کوئی نہیں کرسکتا ہے۔ بہرحال، اگر مدد کرنے والے کے مقاصد مدد پانے والے کے مقاصد کی تکمیل سے پہلے تکمیل پاجائیں، تو زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ دونوں کے تعلقات میں تبدیلی ہوجائے جو مدد پانے والے کے مفاد میں نہ ہو۔
اس بات سے انکار نہیں ہے کہ ایران کے ایٹمی طاقت بن جانے سے فلسطینی مسئلے کو ضمنی طور پر فائدہ ہوگا۔ اہم ترین اثر تو نفسیاتی ہوگا، وہ یہ کہ جب علاقے میں صہیونیوں کی ایٹمی اجارہ داری ٹوٹے گی، تو ایٹمی دوڑ کی دہشت کے نتیجے میں وہ صہیونی معاشرہ جو مختلف انسانی گروہوں کا نادرست مرکب ہے، امید ہے کہ ٹوٹ پھوٹ کر دنیا کے کونوں میں بکھرجائے گا۔ اس مطالعے سے میرا مقصود یہ ہے کہ فلسطینی تحریک مزاحمت کو ابھی سے منصوبہ بندی کرنی چاہیے کہ ایران کے ایٹمی منصوبے کی تکمیل کے بعد وہ اپنا سفر نئے ہم سفروں کی رفاقت میں کیسے جاری رکھے گی؟ اُس وقت ایران اپنے اسٹرے ٹیجک عقائد پر نظر ثانی کرے گا، اور دنیا کا اس کے سلسلے میں نقطۂ نظر بنیادی تبدیلیوں سے دوچار ہوگا، خود عالمی طاقتوں بشمول امریکا کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کی ضرورت پیش آئے گی۔
ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے یہ جواز نہیں نکلتا ہے کہ ہم افغان مجاہدوں، شام کے انقلابیوں یا فلسطین کے مزاحمت کاروں کو ملامت کریں کہ انھوں نے ایسے مددگارو ںکی مدد کیوں قبول کی؟ حقیقت یہ ہے کہ ڈوبنے والے کے ہاتھ ایک تنکا بھی آجائے تو وہ چھوڑتا نہیں ہے، اسی طرح جن کی جانیں ارزاں مان لی گئیں اور انھیں ان کے گھروں سے ناحق نکال دیا گیا، ان کے سامنے بیرون سے مالی، سیاسی اور عسکری مدد قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ مدد کرنے والوں کے ساتھ تعلقات کے دوران ان کے خفیہ مقاصد اور اسٹرے ٹیجک اہداف سے آگہی ہو۔ ان کے ساتھ سادہ دلی اور حُسن نیت کے ساتھ معاملہ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ کوشش کی جائے کہ انھیں اپنے میدانوں اور اپنے مقصد سے قریب لایا جائے، ہوشیار رہا جائے کہ وہ اپنے میدانوں اور مقصد کی طرف کھینچ کر نہ لے جائیں۔ ساتھ ہی تعلقات میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کے لیے تیار رہا جائے، خاص طور سے اگر مددگار کے اہداف آپ کے اہداف کی تکمیل سے پورے تکمیل پاگئے ہوں۔
زیربحث موضوع کے حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ جب محاذ کئی ایک ہوں اور ہرمحاذ کے حالات جداگانہ ہوں تو مدد کے حوالے سے پختگی اور معروضیت ضروری ہوتی ہے۔ یہ لازم ہوتا ہے کہ ذمہ دار افراد، دیگر محاذوں پر ڈٹے ہوئے لوگوں کے معاملے میں انصاف کا دامن تھامے رہیں۔ اب یہ تو انصاف کی بات نہیں ہے کہ میں خود تو رخصت پر عمل کرکے اپنے بھائی کے دشمن سے سیاسی اور عسکری مدد حاصل کروں، پھر اپنے بھائی کو ملامت کروں کہ اس نے میرے دشمن سے مدد کیوں قبول کی؟ یہ بات بھی اہم ہے کہ مقامی فعالیت (activism)پر عمومی حمایت سے زیادہ توجہ مرکوز کی جائے۔ نصرت کے کئی ایک محاذ کھل جائیں اور بند راستے میں اِدھر اُدھر بہت سے رخنے پیدا ہوجائیں، تو امت کو زیادہ فائدہ ہوگا اور اس کی امیدوں کو زیادہ جِلا ملے گی۔ اس کے مقابلے میں کہ دور سے جذباتی اور زبانی حمایت کی جائے اور زمین پر اس کا کوئی واقعی اثر نہ ہو۔
الجیریا کے عظیم انقلاب کی تاریخ (۱۹۵۴ء- ۱۹۶۲ء) اس حوالے سے اپنے اندر قیمتی نصیحت رکھتی ہے۔ جب الجیریا میں انقلابی تحریک برپا ہوئی، –یاد رہے کہ وہ ہماری معاصر تاریخ کا عظیم ترین مجاہدانہ تجربہ تھا۔ اس وقت الجیریا کے انقلابیوں نے بالکل ابتدائی سفارتی سرگرمیوں کے تحت ویت نام کا تاریخی دورہ وہاں کے کمیونسٹ رہنما ’ہوچی منہہ‘ کی دعوت پر اور چین کا دورہ وہاں کے کمیونسٹ رہنما ’ماؤ زے تنگ‘ کی دعوت پر کیا۔ الجیریا کی جلاوطن انقلابی حکومت کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والے تین ملک تھے، جنھوں نے ایک دن کے اندر اسے تسلیم کرلیا تھا: چین، شمالی کوریا اور شمالی ویت نام (اس وقت ویت نام ایک نہیں تھا)۔ اسی طرح یوگوسلاویہ کے کمیونسٹ رہنما جوزف ٹیٹو کا الجیریا کے انقلاب کی عسکری اور سیاسی مدد کرنے والوں میں اہم مقام تھا۔
الجیریا کے انقلابیوں کو سیاق فہمی اور اسٹرے ٹیجکل حس کا بڑا حصہ ملا تھا۔ انھوں نے اپنی انقلابی کوششیں اس وقت برپا کیں، جب کہ ’کمیونسٹ مشرق‘ اور ’کیپٹلسٹ مغرب‘ کے درمیان ’سرد جنگ‘ اپنے عروج پر تھی۔ انھیں ادراک تھا کہ عالمی اقتدار کی اس تقسیم سے انھیں بہت فائدہ ہوگا، کیوں کہ اس وقت جس نے بھی مغربی بالادستی کے خلاف سر اٹھایا مشرقی محاذ کی طرف سے اسے بھر پور مدد ملی، جس کا مقصد مغرب کو زک پہنچانا تھا۔ الجیریا کے انقلابیوں کو فرائض کی درجہ بندی کا فہم تھا کہ ان کی اوّلین شرعی اور انسانی ذمہ داری فرانسیسی استعمار سے الجیریا کی قوم کو آزاد کرانا ہے۔
الجیریا کے انقلابیوں کی اکثریت اسلام دوستوں، روایت پسند قوم پرستوں اور دین دار وطن پسندوں پر مشتمل تھی۔ ان سے یہ بات مخفی نہیں تھی کہ عالمی سطح کے وہ کمیونسٹ رہنما، جو ان کی مدد کررہے تھے، عقیدے کے اعتبار سے وہ دنیا کے شدید ترین ملحدین تھے، اور ساتھ ہی وہ اس زمانے میں مغربی چین، وسطی ایشیا اور بلقان کی ان مسلم اقوام پر ظلم ڈھارہے تھے، جن کی قدیم شان دار اسلامی تاریخ تھی۔ لیکن اُس وقت الجیریا کے انقلابیوں کے بس میں یہ بات نہیں تھی کہ وہ تاجک، ازبک، بوسنیائی یا ایغور مسلمانوں کو کمیونسٹوں کے مظالم سے بچاسکیں، حالانکہ ان کے دلوں میں فطری طور پر ان کے لیے اخوت کے جذبات موجزن تھے۔
یہ بھی حکمت کے خلاف تھا کہ وہ کمیونسٹ رہنماؤں اور ان کی اسلام دشمنی کے خلاف زبانی بیان بازیاں کرکے اپنے متعین فریضے___ فرانسیسی قبضے سے قوم کی آزادی ___ کو نقصان پہنچاتے۔ یہ بیان بازیاں ان کے دینی بھائیوں کو تو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتی تھیں، مگر ان کے مشن کو ضرور نقصان پہنچاسکتی تھیں۔ متعدد محاذوں کی سمجھ اور ان محاذوں کے ’سرمئی علاقوں‘ کے فہم میں یہ اہم سبق ہے۔ انقلابی تحریک کے لیے یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے اُوپر عائد فرض کو نقصان پہنچائے، اس دلیل کی بناپر کہ وہ اپنے دینی بھائیوں کی مدد کرنا چاہتی ہے حالاں کہ وہ ان کے لیے کچھ نہیں کرسکتی ہے۔ اس کے اپنے مخصوص محاذ پر اس کا فعال کردار، آخری نتیجے کے اعتبار سے اس کے لیے بھی مفید ہوگا اور اس کے دوسرے مظلوم دینی بھائیوں کے لیے بھی۔
الجیریا کے اسلامی انقلابیوں نے ’سرد جنگ‘ کی عالمی تقسیم سے زبردست فائدہ اٹھایا، کمیونسٹ محاذ سے خوب سیاسی اور عسکری مدد بھی حاصل کی، تاہم انھوں نے اس کا پورا خیال رکھا کہ مصلحتوں کے دباؤ میں کمیونسٹ دھارے کے رنگ میں انھیں نہیں رنگ جانا ہے۔ الجیریا کی جلاوطن انقلابی حکومت کے صدر فرحات عباس نے اس مقدمے کو یوں بیان کیا: ’’ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اپنے مسئلے کے حق میں کمیونسٹ اقوام کی ہمدردی حاصل کرنے کا عمل، کمیونسٹ کیمپ سے کسی گہرے رشتے کی صورت اختیار کرلے‘‘۔ اسی حکومت کے وزیر خارجہ کریم بالقاسم نے اسی طرح کی بات کہی: ’’کمیونسٹ روسی اتحاد ہماری جدوجہد آزادی میں ہم سے تعاون کرنا چاہتا ہے، اس لیے ہمیں اس آمادگی سے فائدہ اٹھانا چاہیے، لیکن اپنی طرف سے مستقبل کے لیے کوئی شرط قبول کیے یا کچھ گروی رکھے بغیر‘‘۔
اس وقت یہ بات سوچنا، کہنا اور کرنا کچھ آسان بھی نہیں تھی۔ تاہم، بعض کمیونسٹ عناصر، اسلامی انقلابی تحریک میں سیندھ لگانے میں کامیاب ہوگئے تھے اور اسے اس کی اسلامی ڈگر سے ہٹانے کے درپے تھے۔ تریپولی کانفرنس ۱۹۵۹ء میں یہ چیز اُبھر کر سامنے آئی، لیکن الجیریا کی انقلابی قیادت کے شعور میں پختگی کے نتیجے میں اور پھر اسلامی مدافعانہ قوت کی وجہ سے جو محمدبشیر الابراہیمی (۱۸۸۹ء-۱۹۶۵ء) کی قیادت میں ’الحرکۃ الاصلاحیۃ الجزائریۃ‘ کے علماء نے الجیریائی قوم کے دلوں میں بوئی تھی، مدد دینے والی کمیونسٹ طاقتوں کو انقلاب پر قابو پانے میں کامیابی نہیں ملی۔
اشتراکی روس اور چین کے کمیونسٹ رہنماؤں کی تمنا تو یہ تھی کہ الجیریا سے مغربی اثر و رسوخ کا خاتمہ ہو اور اس کی جگہ کمیونسٹ نظام کو مل جائے، تاہم الجیریائی انقلابیوں نے اس تمنا کی پہلی شق سے فائدہ اٹھایا اور دوسری شق کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ انھوں نے کمیونسٹ کیمپ کے ساتھ مشترک علاقہ ایک محدود دائرے میں تشکیل دیا اور وہ تھا مغربی نفوذ کا مقابلہ۔ اس کے بعد وہ اپنی صفوں میں ہر طرح کے کمیونسٹ نفوذ کو روکتے رہے۔ انھوں نے اپنی انقلابی ڈگر کا اسلامی رخ پہلی چنگاری کے پھوٹتے ہی طے کردیا تھا۔ نومبر ۱۹۵۴ء میں ان کی پہلی قرارداد میں یہ صراحت تھی ’’ایک جمہوری سماجی الجیریائی ریاست کا قیام، جو اسلامی اصولوں کے دائرے میں بالادستی کی حامل ہوگی‘‘۔
ٹھوس سیاسی عمل کے یہ نشان راہ ہیں: گہرا سیاقی فہم، حساس اسٹرے ٹیجک حِس، گردوپیش کے ماحول کا ادراک، زمان و مکان اور امکان کے مطابق فرائض و واجبات کی درجہ بندی، ہر چیز جو مشن کے لیے مددگار ہو اسے حاصل کرنے کی کوشش، نیز ہر نفع بخش قوت کے ساتھ ’مشترک علاقوں‘ کی تشکیل اور اس کے آخری مقاصد سے قطع نظر اس کے ساتھ راستے کا کچھ حصہ طے کرلینا۔ جب کہ ’خوابوں میں رہنے والی‘ سادہ مزاج سیاست کا حال کچھ اور ہوتا ہے۔ اس کے علَم بردار سمجھتے ہیں کہ وہ ایسے عالم میں سرگرم ہیں جس میں ان کے سوا کوئی اور نہیں رہتا ہے، اس لیے وہ ’مشترک علاقوں‘ کی تشکیل کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتے۔ جب حالات کا جبر اور عملی ضرورتیں انھیں مجبور کردیتی ہیں کہ وہ کسی ناپسندیدہ فریق سے مدد حاصل کریں تو وہ حیرانی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنی ستھری شخصیت اور پاکیزہ سیرت کو اس سے بَری قرار دینے کی کوششیں کرنے لگتے ہیں، حالانکہ اس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ مزید مضحکہ خیز بات یہ کہ انھی کی طرح سے جب دوسرے لوگ رخصت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے کسی ایسے بیرونی فریق سے مدد حاصل کرتے ہیں جو امت کے کسی دوسرے محاذ پر ظلم و زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے، تو یہ بلاجھجک ان کے خلاف بے فائدہ بیان بازی کرتے ہیں اور ان پر الزام دھرتے ہیں کہ انھیں اپنے مظلوم بھائیوں کا خیال نہیں ہے‘‘۔
ماضی میں تو یہ ممکن تھا کہ افغان مجاہدین، وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ریگن سے ملاقات کریں، پھر پریس کے سامنے بیان دیں کہ ’’ہم تو اسلام کی دعوت دینے گئے تھے اور کسی بھی طرح کی امریکی مدد کے ملنے سے انکار کردیں، تاکہ سادہ لوح عوام کے سامنے ان کی تصویر محفوظ رہے۔ لیکن ابلاغ رسانی کے موجودہ زمانے میں بہتر یہ ہے کہ اس طرح کے انقلابی بچپنے سے چھٹکارا پایا جائے۔ عملی ذہانت اور اخلاقی انکسار کے ساتھ، کسی ریا کاری یا کٹ حجتی کے بغیر عملی سیاست کو اس کے اصولوں کے مطابق انجام دیا جائے۔ یہاں تک کہ ایک دشمن سے دوسرے دشمن کے خلاف مدد لینا بھی سیاسی عمل میں ایک فطری امر اور اس کے ’سرمئی علاقوں‘ کا اصلی حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ جیساکہ امریکی ادارے RAND کے اسٹرے ٹیجک مفکر البرٹ ووہلسٹیٹر(Albert Wohlstetter) کا کہنا ہے: ’’یہ ضروری نہیں ہے کہ ہمارے اہداف لازمی طور پر ہمارے دشمنوں کے اہداف سے متضاد ہوں‘‘۔
یہ افغان مجاہدین کی مدد کے لیے راولپنڈی اور پشاور کے چیمبر ہوں، یا شامی انقلابیوں کی مدد کے لیے موک (Military Operation Center) اور موم (Musteek Operayson Merkezi) کے چیمبر، ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ سب اسٹرے ٹیجک کمرے ہیں، جہاں سے علاقائی قوتیں عالمی قوتوں کی نیابت میں جنگی کارروائیاں انجام دیتی ہیں۔ اینٹی کرافٹ اسٹینگر میزائل جو آٹھویں دہائی میں امریکا نے افغان مجاہدین کو فراہم کیے اور اینٹی ٹینک ٹاو میزائل جو کچھ سال قبل امریکا نے شامی انقلابیوں کو فراہم کیے تھے، دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ سب امریکی ہتھیار ہیں، جو اللہ کو راضی کرنے کے لیے نہیں دیے جاتے ہیں اور نہ امریکا کے لائسنس کے بغیر بیچے جاتے ہیں۔ نہ تو ماضی میں افغان مجاہدین کے لیے انھیں قبول کرنا عیب کی بات تھی اور نہ موجودہ حالات میں شامی انقلابیوں کے لیے انھیں حاصل کرنا عیب کی بات ہے اور نہ مدد کی کوئی دوسری صورت قابلِ ملامت ہے، اس سے قطع نظر کہ مدد کرنے والوں کی نیتیں کیا ہیں۔
کچھ لوگ بحث کرسکتے ہیں کہ ’’اصولوں کو ٹکڑوں میں نہیں بانٹا جاسکتا ہے‘‘، یہ درست نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ایک محاذ پر اُس طاقت سے مدد لی جائے جو دوسرے محاذ پر امت سے برسرپیکار ہو اور یہ کہ امت کی وحدت کا لازمی تقاضا ہے کہ معرکے کے تمام محاذ متحد ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف تجریدی سطح پر اصولوں کے ٹکڑے نہیں ہوسکتے، لیکن عملی سطح پر اصولوں کے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ یہ اجزا باہم کش مکش بھی کرتے ہیں اور ان کے درمیان تقدیم و تاخیر، نیز تطبیق کے وقت سیاق کی رعایت بھی ضروری ہوتی ہے۔ سیاسی عمل کو انجام دینے والے کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہوتا ہے کہ باہم دست و گریباں اصولوں اور باہم متضاد مصلحتوں سے کیسے صحیح تعامل کرے؟ اگر معاملات سیاہ اور سفید کی طرح ہوتے تو سیاسی عمل پانی پینے کی طرح آسان ہوتا، لیکن وہ تو کیمیائی فارمولے کی طرح پیچیدہ ہوتا ہے۔
اُمت کی وحدت کے اصول پر ہم ان بحث کرنے والوں کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں، لیکن محاذوں کی وحدت صرف مثالی دنیا میں درست ہوسکتی ہے، یعنی جب امت سیاسی طور پر ایک ہو اور اس کی قانونی ذمہ داری ایک ہو۔ یہ وہ مثالی حالت ہے جس پر یہ حدیث نبویؐ منطبق ہوتی ہے: ’’مسلمانوں کے خون برابر ہوتے ہیں، ان کے کسی عام شخص کی دی ہوئی امان سب کے لیے محترم ہوتی ہے اور وہ دوسروں کے مقابلے میں ایک ہاتھ کی طرح ہیں‘‘ (مسند احمد)۔ ایسے مثالی منظرنامے میں مطلوب اخلاقی سطح کو بلند کیا جاسکتا ہے اور تمام محاذوں پر مصروف لوگوں سے مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ دوسرے محاذ والوں کے ساتھ برابری کا معاملہ کریں یہ مان کر کہ تمام سرحدیں ایک محاذ ہے، اسے وہ ’ولاء وبراء‘ کا اصول بنادیں اور سیاسی تعلقات کو منضبط کرنے کا پیمانہ بنادیں۔
تاہم، موجودہ صورت حال میں، جب کہ امت کا شیرازہ پارہ پارہ ہے اور فرقہ بندی کا دور دورہ ہے، اللہ کی رحمتیں ہو اس پر جو اپنی قدر پہچان لے اور اپنے محاذ پر حسن کارکردگی کے ساتھ ساری توجہ دے۔ تیونس سے اسلامی مفکر راشد غنوشی (اللہ ان کو اسیری اور بے بسی کے کرب سے نجات عطا کرے) ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ’’مسلم امت ایک دن میں پوری دفعتاً زوال کا شکار نہیں ہوئی، بلکہ ایک ایک اینٹ گرتی گئی، اور اس کی تعمیرِ نو بھی اسی طرح ہی ہوگی‘‘۔ اس لیے آج کسی محاذ کے لوگوں کو دوسرے محاذ والوں سے ناحق توقعات نہیں رکھنی چاہییں، بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ ہر محاذ کے لوگ اپنے محاذ اور میدان میں، اپنی عملی سیاست پر عمل کریں، نیز کسی بھی دوسرے محاذ پر اپنے بھائیوں کی کامیابی حاصل کرنے پر خوش ہوتے رہیں، خواہ وہ کامیابی ایسی علاقائی اور عالمی طاقتوں کی مدد لے کر حاصل ہوئی ہو، جن کے مظالم کا دوسرے محاذ والے نشانہ بن رہے ہوں۔
ہماری تاریخ ایسے مسلم امرا سے بھری پڑی ہے، جنھوں نے مسلمانوں پر ظلم ڈھائے اور داخلی سیاسی معرکوں میں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے، پھر انھوں نے ہی سچائی اور شجاعت کے ساتھ کفر کے لشکروں سے مقابلہ کیا جو بیرون سے امت پر حملہ آور ہوئے، اور اُن کے منہ پھیر دیئے۔ امت کے علما نے ان امرا کے مظالم کی مذمت کی، لیکن بیرونی دشمن کے خلاف جہاد میں ان کے ساتھ کھڑے ہونے میں ذرا تردّداور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان ظالم امرا کے ساتھ ان کے کھڑے ہونے کی وجہ ان سے محبت یا ان کی لاقانونیت پر اطمینان نہیں تھا، بلکہ امت کے وجود اور اسلام کے مستقبل کی حفاظت سے پیش نظر تھی۔
اگر علمائے اسلام ان تضادات کو اس نگاہ سے دیکھتے، جس نگاہ سے موجودہ زمانے کے یہ سادہ لوح اور حجت پسند لوگ دیکھتے ہیں، تو امت پر حملہ آور دشمنوں کے خلاف جہاد نہ کرنے کی دلیل دے کر جہاد موقوف کردیتے کہ ’’جو شخص مسلمانوں کو قتل کرے، یا ان پر ظلم کرے، اس کا دشمن کو دفع کرنا قابل قبول نہیں ہے اور اس کے جہاد اور دفاعِ امت کی تائید نہیں کی جائے گی‘‘۔ لیکن اس کے برعکس علمائے اسلام نے اس کا ادراک کیا کہ اس سلسلے میں اضافی مصلحتوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جائے گا، نیز یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ ’’اس دین کو فاجر شخص اور بے نصیب افراد کے ذریعے بھی قوت عطا کرے گا‘‘، جیسا کہ احادیث میں ذکر ہے۔ مزید برآں یہ واقعاتی حقیقت کہ انسانوں میں بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی رہتی ہے، جن کی سیرتوں میں نیک اعمال اور بُرے اعمال کا اختلاط پایا جاتا ہے۔
اسی لیے علمائے اسلام نے واضح کیا ہے کہ ’’ایسا ہوسکتا ہے کہ مسلمان کچھ لوگوں سے ایک پہلو سے محبت کرے تو دوسرے پہلو سے نفرت کرے، ایک پہلو سے دوست بنائے تو دوسرے پہلو سے دشمنی رکھے‘‘۔ یہ نظریہ امام ابن تیمیہؒ کی تحریروں میں بہت بار ذکر ہوا ہے۔ انھیں بھی بالکل ہمارا جیسا پیچیدہ زمانہ ملا تھا، کہ جب امت کی حرمت پامال کی جارہی تھی، پشت پناہوں اور مددگاروں کی شدید قلت تھی اور کوئی اسلامی علاقہ مسائل سے پاک نہیں تھا۔
ابن تیمیہ اپنے زمانے میں کتیبۃ الاسلام (اسلامی دستے) کی نصرت کے لیے کوشاں تھے۔ یہ مصر اور شام میں ممالیک کی جواں سال ریاست تھی، جس کے بارے میں انھوں نے لکھا: ’’یہ گروہ جو شام اور مصر میں اس وقت ہے وہ اسلام کا دستہ ہے، اس کی عزت اسلام کی عزت ہے اور اس کی ذلت اسلام کی ذلت ہے۔ اگر تاتاروں نے اس پر قبضہ کرلیا تو اسلام کے لیے نہ عزت بچے گی، نہ کلمہ بلند رہے گا، نہ غالب گروہ، کہ جس سے اہل باطل ڈریں۔ اس لیے ہم ان کی طرف سے جنگ کریں گے‘‘۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ)
غرض اُس زمانے میں، جب کہ اُمت کا شیرازہ بکھر گیا تھا اور وہ ٹکڑوں میں بٹ گئی تھی، مغرب سے صلیبی دشمن حملہ آور تھا اور مشرق سے منگول، اس وقت امام ابن تیمیہ نے اپنے متعین فرض کا ادراک کیا تھا اور وہ تھا اپنے زمان و مکان میں ’اسلامی دستے‘ کی مدد۔ وہ اُمت کو درپیش مختلف مسائل سے ناواقف نہیں تھے، امت کے جسم پر رِستے ہوئے زخموں کی کثرت بھی ان کے سامنے تھی، لیکن انھوں نے اپنا ہاتھ معرکے کے قلب پر رکھ دیا۔ اس وقت معرکے کا قلب جہاں سارے راستے آکر ملتے تھے، اور چیلنجوں اور خطرات کا جہاں ہجوم تھا وہ منگولوں کا حملہ تھا، جو عراق اور شام کو روندتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اگر بیسان کے قریب عین جالوت کے معرکے میں ممالیک کی فوج نے اسے شکست نہ دی ہوتی تو فلسطین کے دروازے سے وہ طوفان مصر پہنچ جاتا۔ غرض وہ فلسطین کا دروازہ تھا، جس کے راستے منگولوں نے آخری جواں سال مسلم طاقت یعنی مصر میں ممالیک کی سلطنت کو کچلنے کی کوشش کی تھی، اور پھر وہ غزہ کا دروازہ ہی تھا جس سے داخل ہوکر برطانوی افواج نے یروشلم کی حرمت کو پامال کیا تھا۔ ۱۹۱۷ء میں جنرل النبی کی قیادت میں یہ فوج مصر کی طرف سے داخل ہوئی اور اس نے وہ زخم دیا، جس سے آج تک خون رس رہا ہے۔
آج غزہ کے مجاہدین پر امام ابن تیمیہ کا وہی قول صادق آتا ہے، جو انھوں نے مصر اور شام کے لوگوں کے بارے میں فرمایا تھا: ’’ان کی سربلندی اسلام کی سربلندی ہے اور ان کی ذلت اسلام کی ذلت ہے‘‘۔ آج غزہ کے لوگ جس معرکے میں جوہرِ شجاعت دکھارہے ہیں، وہ آنے والی نسل کے لیے اس امت کا مستقبل طے کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا: غلبہ و سربلندی یا شکست و رُسوائی۔ اس وقت ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم اُس مجاہد عالم کی اقتدا کریں جو جذبۂ عمل سے سرشار تھا اور غزہ میں برسر پیکار ’اسلامی دستے‘ کی نصرت کریں۔ کیوں کہ اس کی نصرت پوری اُمت کی قوتِ مدافعت بڑھائے گی اور اگر خدا نخواستہ اسے شکست ہوگئی تو پوری امت کی حرمت پامال ہوجائے گی۔ کتنا اچھا ہو اگر تمام محاذوں کے لوگ اس بھرپور منظرنامے کو سمجھ لیں، جو آج ’طوفانِ اقصی‘ پیش کررہا ہے۔
متعدد محاذوں کے فہم کا حاصل جسے ہم یہاں نمایاں کرنا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ شامیوں پر تنقید کریں کہ وہ امریکی عسکری امداد کیوں قبول کرتے ہیں اور امریکا کا اس پر شکریہ ادا کیوں کرتے ہیں؟ کیوں کہ سیاسی تعلقات اور سفارتی روابط کا یہ بدیہی تقاضا ہے۔ اسی طرح شامیوں یا عراقیوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ فلسطینیوں پر تنقید کریں کہ وہ ایرانی عسکری امداد کیوں قبول کرتے ہیں اور اس پر ایران کا شکریہ کیوں ادا کرتے ہیں؟ کیوں کہ سیاسی تعلقات اور سفارتی روابط کا یہ بدیہی تقاضا ہے۔ سیاسی حکمت عملی کا تقاضا یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کی قوت کو اپنی قوت سمجھے اور جو چیز اس کے لیے نفع بخش ہو اس کے حصول کی فکر کرے۔
یہ انصاف کی بات نہیں ہے کہ حماس اور دیگر تنظیموں کے فلسطینی مزاحمت کاروں کو ایران سے مالی اور عسکری امداد قبول کرنے پر ملامت کا نشانہ بنایا جائے۔ اس سے قطع نظر کہ ایران کے مقاصد، اس کی اسٹرے ٹیجی اور دوسرے محاذوں، خاص کر شام کے محاذ پر اس کا کردار بہت خراب رہا ہے۔ اپنے بھائی سے یہ مطالبہ نہ کرو کہ وہ تمھارے دشمن سے برأت کا اعلان کرے، جب کہ تم اس کے دشمن سے مدد حاصل کررہے ہو، بلکہ اس کے حالات کو سمجھو اور اس سے توقع رکھو کہ وہ تمھارے حالات کو سمجھے۔ اگر نیتیں درست ہوں اور دلوں میں خلوص ہو، تو دلوں کا دائمی رشتہ وقتی سیاسی مفادات کے ٹکراؤ سے زیادہ طاقت ور ہوتا ہے۔
البتہ تمام لوگوں کا تمام لوگوں پر یہ حق ہمیشہ قائم رہے گا کہ کوئی اپنے بھائی کے خلاف کسی ظالم کی مدد نہ کرے اور اپنے بھائی پر کسی ظالم کے ظلم کو جائز نہ ٹھیرائے۔ دین، خون، تاریخ اور جغرافیہ کے رشتوں کا یہ کم سے کم لازمی تقاضا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ وہ چیز ہے جس کا اصولی التزام ان محاذوں کا سوادِ اعظم کرتا ہے۔ اس کی وجہ ایمانی اور انسانی اسباب ہیں جو سیاسی مصالح سے ماورا اور بالا تر ہوتے ہیں۔
اچھی طرح واضح رہے کہ ’مشترک محاذوں‘ کے بارے میں یہ بحث کسی بھی حال میں ہرگز اس دشمن سے مدد لینے کی گنجائش نہیں رکھتی ہے، جو سب کا مشترک جانی دشمن ہے، یعنی صہیونی ریاست۔ جس کے وجود، جس کی عداوت اور جس کے مغربی پشت پناہوں کی عداوت کی بھاری قیمت علاقے کی تمام قومیں مسلسل ادا کررہی ہیں۔ امت کے قلب میں پیوست اس خنجر کی وجہ سے عراقی اور شامی اقوام جس الم سے دوچار ہیں، وہ فلسطینیوں کے الم سے کم نہیں ہے۔
ہماری یہ بحث اس سے نہیں روکتی کہ ہر محاذ کے لوگوں کو اپنے سیاسی تعلقات بہتر انداز میں برتنے کے سلسلے میں مشورے اور نصیحتیں کی جائیں۔ خود ہم نے اس سے پہلے کئی بار حماس کو سیاسی تعلقات برتنے اور اس سلسلے میں مناسب تعبیرات اختیار کرنے کے سلسلے میں ناقدانہ توجہ دلائی ہے۔ لیکن تنقید کا وقت بھی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ بھی سیاق فہمی کا ایک حصہ ہے۔ امن وسکون کے زمانے میں وہ تنقید محفوظ تر اور مؤثر تر ہوتی ہے۔ لیکن جب کسی محاذ کے لوگ ہلاکت خیز جنگ کا سامنا کررہے ہوں جیسا کہ آج غزہ والوں کا حال ہے، تو ایسے میں مدد اور پشت پناہی، کسی دانش ورانہ تنقید اور وعظ پر مقدم ہوتی ہے۔
اس وقت، جب کہ حماس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور فنا کردینے کی کوشش ہورہی ہے، حماس کے خلاف مہم چھیڑ دینا اور اس بات پر سختی سے ان کا محاسبہ کرنا تنگی کی گھڑی میں ایران کی اسٹرے ٹیجیکل مدد کے جواب میں ایرانی رہنماؤں کی تعریف میں اُن بے چاروں نے چند الفاظ بول دیے ہیں، یہ بتاتا ہے کہ آج عربوں کی سیاسی ثقافت بچکانہ پن کے امراض میں کس طرح گرفتار ہے۔ ناحق توقعات، انصاف سے پہلوتہی، اسٹرے ٹیجیکل حِس کا ضعف اور سیاقی فہم کا فقدان وہ امراض ہیں جن میں یہ لوگ گرفتار ہیں۔
کتنا اچھا ہو اگر متعدد محاذوں کے وہ لوگ جو باہم لفظی جنگ میں مصروف ہیں، مصر کے بھائیوں سے سبق سیکھتے۔ متعدد محاذوں کے حوالے سے بڑے خواب دیکھنے والے، بڑا دل رکھنے والے، بھاری ایثار کرنے والے اور ان کے حالات کو اچھی طرح سمجھنے والے، مصر کے حریت پسندوں جیسے میں نے نہیں دیکھے۔ ان کے اپنے ملک میں انھیں مارا پیٹا اور کچلا دبایا گیا، قید و بند اور جلاوطنی سے وہ دوچار رہے، لیکن فلسطین کے حریت پسند جب مصری حکومت کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں یا اس کی تعریف کرتے ہیں تو ہم ان کی زبان سے مذمت کا کوئی ایک لفظ نہیں سنتے ہیں۔ اسی طرح جب یمن اور سوڈان کے حریت پسند مصری حکومت سے مدد مانگتے ہیں یا اس کی پناہ لیتے ہیں، تو ان کے خلاف بھی کوئی ایک لفظ نہیں سنتے ہیں۔