کسی ملک کی معیشت کی سمت کا اندازہ کرنے کے لیے عموماً جو پیمانہ اختیار کیا جاتا ہے، اس میں تین چیزیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں: ایک عام شہری کو روزگار، تعلیم اور صحت کے لحاظ سے کیا سہولیات حاصل ہیں؟ اور ایک عام شہری اپنے روزانہ کے اخراجات کے لیے کم از کم کتنی آمدنی پیدا کر پا رہا ہے؟ آمدنی کا کم از کم پیمانہ عموماً تین اعشاریہ چھ پانچ ڈالر یا ایک ہزار پندرہ روپے سمجھا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان میں ایک محنت کش اس معیار سے بھی کم، یعنی مشکل سے دوڈالر روزانہ میں گزارا کر رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ افراد جو اپنے آپ کو عوام کا نمائندہ کہتے ہیں، عیش و عشرت کی حدود کو بھی پار کر چکے ہیں۔ لیکن ان کی مزید دولت کے حصول کی ہوس میں ذرہ برابر کمی واقع نہیں ہوئی ہے بلکہ اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ملک میں روزانہ بڑھتی ہوئی قیمتیں ، بے روزگاری ، عدم تحفظ، گلی کوچہ و بازار میں جرائم کی وارداتوں میں اضافہ جیسے معاشرتی مسائل نہ ان کو نظر آتے ہیں اور نہ انھیں اس کی کوئی پریشانی ہوتی ہے۔
ملک کے معاشی عدم استحکام کا ایک بڑا بنیادی سبب سیاسی اور فیصلہ کن اداروں پر قابض افراد کا مالی وسائل کو قوم کی ترقی کی جگہ اپنی ذات کے لیے مصرف میں لانا ہے۔ اس سیاسی و معاشی دہشت گردی، بددیانتی، استحصال اور ظلم نے عالمی اداروں کے اندازوں کے مطابق پاکستان کو ترقی پذیر ممالک کی فہرست سے نکال کر غریب ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا ہے،بلکہ کئی غریب افریقی ممالک کی معیشت پاکستان کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے۔
اس معاشی لُوٹ مار میں نوکر شاہی کے ساتھ دیگر ادارے بھی یکساں شریک نظر آتے ہیں۔ ۲۴؍ اپریل ۲۰۲۴ءکے اخبار ایکسپریس ٹریبون کی اشاعت میں سائرہ سموں کے مضمون ’اندرونی دشمن‘کے مطابق ملکی معیشت کی بدحالی کا بڑا سبب اندرونی دشمن یعنی وہ ادارے ہیں جن کا کام معیشت ،صحت، دفاع، تعلیم اور عدل و انصاف کو شفا ف طور پر قائم کرنا تھا، لیکن وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر اقتدار کی باہمی رسّہ کشی کا شکار ہیں۔
حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کی تاریخ رکھنے والی دو بڑی سیاسی جماعتیں اپنی اپنی باری کے دوران ملکی معیشت کو خسارے سے نکالنے کے بجائے خسارے میں مزید اضافے کا کارنامہ انجام دیتی رہی ہیں۔ پاکستانی وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں سالِ رواں کے مالی سال کے پہلے نو ماہ میں مالی خسارہ ۴ ہزار ۳۳۷؍ ارب روپے سے آگے نکل چکا ہے،جب کہ متوقع حکومتی آمدنی ۵ہزار ۳۱۳ ؍ ارب روپے بتائی جاتی ہے۔ملک پر واجب الادا سود کی مد میں اس وقت تک قرض حاصل کی ہوئی رقم پر ۵ہزار ۵۱۷ ارب روپے لگے ہیں، جب کہ اصل قرض جوں کا توں برقرار ہے۔ ناکارہ حکومت کو چلانے کے لیے گذشتہ نو ماہ میں ۵۱۶ ارب روپے خرچ کیے گئے، وہیں حکومت کی جانب سے رعایت (سبسڈیز)دینے پر ۴۷۳؍ ارب روپے صرف ہوئے ہیں۔
یہ اعداد و شمار کسی بھی ہوش مند شخص کے حواس گم کرنے کے لیے کافی ہیں، لیکن حکومت اور پارلیمان سے وابستہ افراد کی شاہ خرچیاں، دورے اور پُرتعیش گاڑیوں کی خریداری میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔حکومت کی آمدن اور اخراجات میں عدم توازن کسی سرکاری عہدے دار کو پریشان نہیں کر رہا۔ یہی شکل درآمدات اور برآمدات میں فرق کی ہے۔ اشیاء کی درآمد سے ملک کو ہر سال کم از کم ۱۲ سے ۱۴؍ ارب ڈالر کا خسارہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے غیر ذمہ داری کی انتہا یہ ہے کہ حال ہی میں ملک میں گندم کی اعلیٰ پیداوار کے باوجود ہم نے بیرون ملک سے گندم درآمد کی کہ چند افراد کمیشن بناسکیں۔
اس وقت ملک میں افراط زر کی شرح۲۵ فی صد ہے اور ایک عام شہری کے لیے ایک اوسط درجہ کے گھر میں بجلی، گیس اور پٹرول کے خرچے کے لیے وسائل سخت تنگ ہو چکے ہیں اور ریاستی بینک (اسٹیٹ بینک) میں بیرونی زر مبادلہ میں صرف آٹھ بلین ڈالر ہیں جو مشکل سے دو ماہ کے درآمدی اخراجات کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
ایک اندازہ کے مطابق نو کروڑ افراد غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں ہر تھوڑے عرصہ بعد اضافہ ایک معمول بن چکا ہے ،جس کا فوری اثر ایک عام آدمی کی زندگی پر پڑتا ہے اور ضروری استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی شہراور شہر سے باہر سفر کے اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر گذشتہ تین برسوں کے دوران اشیائے ضرورت کی قیمتوں کا مقابلہ کیا جائے تو بجلی کا ایک یونٹ جو ۳۲ روپے کا تھا ،آج ۶۰ روپے کا ہے ۔ڈالر جو ۱۸۹روپے کا تھا،آج ۲۷۹روپے کا ہے۔ پٹرول جو ۱۵۰ روپے لیٹر تھا، آج ۳۰۰ روپے کی حد کو چھو رہا ہے ۔
آئی ایم ایف کے ساتھ جب بھی مذاکرات ہوتے ہیں ان کی تان ٹیکس میں اضافہ پر ہی آکر ٹوٹتی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر ہر دور میں حکومت نے سر جھکا کر انھیں قبول کیا اور قرض کے ساتھ ٹیکس میں اضافے کا براہِ راست اثر عام شہری پر ہی پڑا لیکن ملک میں بڑے تجارتی مراکز روزانہ کروڑوں روپے کا کاروبار کر رہے ہیں اور وہ ٹیکس کی گرفت سے آزاد ہیں اورملکی معیشت کی موٹی مچھلیاں ہمیشہ کی طرح محفوظ ہیں ۔ آئی ایم ایف کی تاریخ بتلاتی ہے کہ دنیا کے کسی ملک نے آئی ایم ایف کے قرضوں کے ذریعے اپنی معیشت کوآج تک مستحکم نہیں کیا اورخود انحصاری اختیارکرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ اگر کوئی ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہوا تو صرف اور صرف قرض کے جال سے نکل کر اپنے اندرونی وسائل کے سہارے پیٹ کاٹ کر اخراجات میں کمی ، اپنی درآمدات میں کمی اور بیرونی سرمایہ کاروں کو کاروبار میں زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کر کے ہی کامیاب ہو سکاہے۔
جب تک حکومت ِپاکستان اپنے شاہانہ اخراجات کو کم نہیں کرے گی اور سرکاری افسران، ممبران پارلیمنٹ اور دیگر اداروں کے ممبران رضاکارانہ طور پر اپنی تنخواہوں کو کم اور مراعات کو ختم نہیں کریں گے ،کوئی بیرونی قرض ملکی معیشت کو سہارا نہیں دے سکتا۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی زبوں حالی کا انتہائی فطری تعلق ہے۔ ۷۶ برس سے جو سیاسی جماعتیں باری باری ملکی وسائل کا استحصال کرتی رہی ہیں ،جب تک وہ اپنی فطرت کو نہیں بدلیں گی ملکی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکتی ۔یہ ایسے حقائق ہیں جن کو جاننے کے لیے کسی کا ماہرِ معاشیات ہونا شرط نہیں ہے۔
نو دولتی معاشروں میں نمود و نمائش اور چمک دمک مرکزی مقام حاصل کر لیتی ہے اور وہ افراد جو اپنے کاروبار میں کامیابی کے ساتھ نفع کماتے ہیں بجائے بچت اور اس کے بعد اس کے مناسب مصرف کے اپنی دولت کی نمائش کی طرف مائل ہو جاتے ہیں ۔اس کا اظہار ان گاڑیوں کا شہر میں استعمال ہے جو صرف پیشہ وارانہ ریس ٹریک پر چلنے کے لیے بنتی ہیں۔ ایک جانب کروڑوں روپے کی مالیت کی گاڑیاں ہر شہر میں دندنا رہی ہیں ، دوسری طرف غربت اور بے روز گاری عروج پر ہے ۔ نمود و نمائش کی اس ذہنیت کو ختم کرنے اور اس دولت کو جو نمائش پر ضائع کی جا رہی ہے صحیح استعمال میں لانے کی ضرورت ہے۔
یہ کام تنہا کوئی حکومتی حکم نامہ نہیں کر سکتا ،اس کے لیے ابلاغ عامہ اور سوشل میڈیا پر ایسے مباحثے منعقد کروانے کی ضرورت ہے جن میں ان طبقات کے افراد کو دعوت دی جائے اور اہل دانش ان سے تبادلۂ خیال کے ذریعے انھیں سماجی رویوں کی تبدیلی کی طرف متوجہ کریں۔ مزید یہ کہ ایسی پُر تعیش اشیاء کی درآمد اور ان کے استعمال پرغیر معمولی ٹیکس عائد کیا جائے۔ بعض ممالک مثلاً سنگاپور میں ایک سے زائد گاڑی والوں پر پابندی ہے کہ وہ اپنی پسند کی گاڑی صرف مخصوص دنوں میں استعمال میں لا سکتے ہیں۔
ملکی معیشت کو تباہی کے قریب لانے میں ان تجارتی اداروں کا بھی بڑا دخل ہے جو حکومت کی زیر سرپرستی چل رہے ہیں۔ وزارت خزانہ کی۲۰۲۰- ۲۰۲۲ء کی رپورٹ کی رُو سے اس عرصہ میں ان اداروں سے ۳۹۵ ٹریلین روپے کا خسارہ ہوا،اس نوعیت کے ۲۵؍ اداروں میں مجموعی طور پر ۶۶۵ بلین اور ایسے ہی ۳۱ اداروں کو تقریباً ۳ بلین کا خسارہ ہوا۔صرف ان خساروں میں چلنے والے اداروں کو نفع بخش اداروں میں تبدیل کر لیا جائے تو معیشت کہیں سے کہیں جا سکتی ہے۔لیکن یہی وہ ادارے ہیں جو سیاسی جماعتوں کے ایسے کارکنوں کا مرکز ہیں جنھیں بغیر کسی فنی مہارت کے محض سیاسی وابستگی کی بنیاد پر اداروں میں بھرتی کیا گیا ہے اور جو معاشی تباہی کا ایک سبب ہیں۔ضرورت سے زیادہ افراد کی بھرتی ، انتہائی کمزور اور نااہل قیادت نے ان اداروں کو سفید ہاتھی بنا دیا ہے جو وسائل کھانے میں سب سے آگے ہیں اور پیداوار میں سب سے پیچھے ۔
ان اداروں میں سرفہرست ’پاکستان اسٹیل ملز‘ اور ’پی آئی اے‘ کا نام آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ادارے ملک کی ترقی میں بڑا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، اگر انھیں سیاست کاروں کے تسلط سے نجات مل جائے اور یہ پیشہ ورانہ بنیاد پر کام کریں۔ ان کا اصل مسئلہ ضرورت سے دس گنا افراد کو سیاسی دباؤ سے ملازمت دینا ،جدید ٹکنالوجی کا استعمال نہ کرنا اور ان کے خساروں پر آنکھیں بند رکھنا ہے۔ اب وہی سیاست دان جنھوں نے اپنے پسندیدہ افراد بھرتی کر دیے ہیں اور جو انتظامی امور میں اعلیٰ ترین عہدوں تک نااہل افراد کو مقرر کرانے میں سرگرم رہے ہیں، ان کی کوشش ہے کہ اُونے پونے داموں ان اداروں کو کسی تیسرے فرد کے نام سے خرید کر اپنے ذاتی اثاثوں میں اضافہ کرسکیں۔
قومی تجارتی اداروں کو اچھی انتظامیہ اور غیر سیاسی ماحول کے ذریعے تین برسوں میں نفع بخش بنایا جا سکتا ہے ۔ لیکن اس کے لیے قوم اور ملک کے مفاد پر فوقیت اور مخلص اور پیشہ وارانہ قیادت کی ضرورت ہے ، جس کی کمی نہیں ہے لیکن اسے موقع نہیں دیا گیا ہے ۔ پی آئی اے اور پاکستان ریلوے کو دیانت دار انتظامیہ کے ذریعے نفع بخش اداروں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اگر سیاسی اور غیر ضروری افراد کو اداروں سے فارغ کر دیا جائے اور صرف اہلیت کی بنیاد پر تمام عہدوں پر تقرریاں ہوں۔
حکومت کی جانب سے معاشی ترقی سے لاپرواہی اور چلتے ہوئے اداروں کو زوال کی طرف دھکیلنے کا ظلم عرصہ سے جاری ہے۔اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عطاء الرحمٰن نے اقتصادی ترقی کے حوالے سے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ کراچی کے سائٹ ایریا میں کپڑوں کی رنگائی کی صنعت گذشتہ ۱۵ برسوں میں علاقہ میں پانی کی عدم فراہمی کی بنا پر بند ہو چکی ہے۔ اس وجہ سے بعض ادارے کورنگی منتقل ہو گئے ،بعض نے بنگلہ دیش اور انڈیا میں سرمایہ کاری کر کے اپنا کاروبار وہاں منتقل کر دیا ۔لیکن سندھ کی انتظامیہ کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ ایک چلتی ہوئی صنعت کی ہمت افزائی کر سکے اور اس کی ضروریات کو پورا کرسکے۔یہ صرف ایک مثال ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ جب حکومتیں بھیک مانگ کر اپنی تنخواہوں کی ضمانت حاصل کرنے کی عادی ہو جائیں تو پھر ملک پر غربت اور بے روزگاری کا تسلط ہوتا ہے۔
سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کا ایک فریب یہ ہے کہ وہ ایک عام شہری کو ان تمام اشیاء کی خرید پر اُبھارتا ہے جو اس کی عمومی قوت خرید سے باہر ہوں اور اس غرض کے لیے وہ شیطان کی طرح اسے یقین دلاتا ہے کہ تم جو کچھ خریدنا چاہتے ہو وہ آنکھیں بند کر کے لے لو اور پھرقسطوں میں اس کی رقم ادا کر دینا۔صرف ہر قسط میں تھوڑی سی رقم ’حقِ خدمت‘ کے طور پر تم سے لے لی جائے گی ،جس کا صاف لفظوں میں نام سود ہے۔جو شخص ایک مرتبہ اس جھانسے میں آگیا وہ تمام عمر مقروض رہتا ہے اور ہر ماہ اپنی آمدنی میں سے بمشکل سود کی رقم ادا کر پاتا ہے ،لیکن اصل قرض ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے۔
یہ عمل جہاں ایک فرد کے ساتھ ہوتا ہے ویسے ہی پوری قوم کے ساتھ حکومتی ادارے اس عمل میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ آئی ایم ایف ہو یا ورلڈ بینک یا ایشیائی بینک، ان سب کا کام یہی ہے کہ ملکی ترقی کے منصوبوں کے نام پر ان اداروں سے قرض لیا جاتا ہے ،اور پھر نہ کبھی وہ منصوبے پورے ہوتے ہیں اورنہ کبھی قوم قرض کے جال سے نکل پاتی ہے۔یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ آج تک اگر کسی بھی ملک نے قرض لیا تو معاشی ترقی تو ایک طرف وہ مسلسل اس قرض کی ادائیگی کے چکر میں سود در سود دینے کے بعد بھی مکمل معاشی آزادی حاصل نہیں کر سکا۔ہماری کہانی کچھ مختلف نہیں ہے۔ اگر ہمیں معاشی ترقی کرنی ہے تو اولین ترجیح عالمی اداروں کے قرض سے نجات ہے جو معاشی ماہرین کی رائے کے مطابق ممکن ہے اور ایسے ممالک کی مثال موجود ہے جو قرض سے نکلے اور اس سے نجات پانے کے بعد خود انصاری کی راہ پر گامزن ہوئے ۔
اقوام متحدہ کے عالمی پروگرام برائے ترقی(UNDP) کے انسانی ترقی کے پیمانے Human Development Index کے لحاظ سے ۱۹۲ ممالک میں پاکستان۱۶۴واں ملک ہے جسے’نچلی ترقی‘ کا ملک گردانا جاتا ہے۔ ایسے ہی عالمی ادارہ کے SDG کے ۱۶۹اہداف میں سے پاکستان حد سے حد ۳۵ کو پورا کر پایا ہے،گویا یہاں بھی پاکستان ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے ہے۔ بیرونی ادارےاس کا ایک حل یہ تجویز کرتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کوا عداد و شمار کی قید میں لایا جائے یعنی اسے ڈیجیٹلائز (digitize) کیا جائے تاکہ وہ بہت سے افراد جو حکومت کو کوئی ٹیکس نہیں دے رہے ہیں ان سے بھی مطلوبہ رقوم حاصل کی جا سکیں، لیکن اس تجویز سے صرف اس وقت فائدہ ہو سکتا ہے جب ملک کے بڑے تاجر اور خصوصاًزمیندار اپنی آمدنی پر عائد ٹیکس ادا کریں۔
المیہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ انھی افراد کے قبضے میں ہے، جو سب سے زیادہ ٹیکس کی چوری میں ملوث ہیں اور وہ ہر ایسے قانون کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں، جس سے ان کے ذاتی مفاد پر زد پڑتی ہو۔ جب تک ملک سے بڑی زمینداریاں ختم نہیں ہوں گی اور بڑے کاروباروں کو ٹیکس کا پابند بنانےکے لیے سیاسی قوت استعمال نہیں کی جائے گی مسئلہ کا حل نہیں نکل سکتا۔
ملک کی زرعی پالیسی کو فوری طور پر منظم خطوط پر ترتیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ بڑے زمین داروں سے ٹیکس حاصل کیا جا سکے، ساتھ ہی زراعت کو درپیش مسائل پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔قیام پاکستان سےقبل پنجاب کی زرعی زمینیں پورے ہندوستان کو گندم اور چاول فراہم کرتی تھیں ۔آج ہم اپنی ملکی ضروریات کے لیے بھی باہر سےاناج درآمد کرتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے فصلیں اچھی ہو جائیں، تو کسان کو فائدہ پہنچانے کی جگہ گندم خریدنے میں بھی تردد کرتے ہیں اور ملکی دولت کو اپنے ہاتھوں تباہ کرتے ہیں۔
ملک کو درپیش معاشی زبوں حالی کے اس طائرانہ جائزے کا مقصد نوجوانوں میں پہلے سے موجود تھکاوٹ ،مایوسی اور بے بسی میں اضافہ کرنا نہیں ہے۔ لیکن جب تک مرض کی نوعیت کا تعین نہ ہو علاج تجویز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے چند تلخ حقائق کا جاننا مستقبل کے سنوارنے کے لیے ضروری تھا۔ اب ہم اختصار کے ساتھ مستقبل کی تعمیر کی طرف آتے ہیں۔
اگر کسی درخت کو دیمک لگ جائے تو محض اس کی شاخوں کی تراش خراش اور اس کے تنے پر دوا چھڑکنا کافی نہیں ہو سکتا، جب تک زمین کی گہرائی میں جا کر دیمک کو جڑ سے ختم نہ کیا جائے۔ جس معاشی نظام کی بنیاد ضرورت مند اور محنت کش کے استحصال پر ہو، جو ان ضرورت مندوں کے حقوق کو دن رات پامال کررہا ہو ۔ ایسے جابرانہ نظام میں چند جزوی تبدیلیاں ہو سکتا ہے وقتی طور پر چند افراد کو مطمئن کر دیں لیکن تبدیلیٔ نظام کے بغیر معاشی عدل و انصاف کا قیام ناممکن ہے۔گذشتہ نصف صدی سے سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی جگہ اسلامی عادلانہ نظامِ معیشت کے نفاذ کی مہم چل رہی ہے۔
فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ کے فل بینچ نے حکومت وقت کو مقررہ مہلت میں سودی نظام کی جگہ اسلامی معیشت کے نفاذ کا پورا نقشہ بنا کر دیا ہے، جو صرف سیاسی قوت نافذہ کا منتظر ہے۔ تبدیلی کے آغاز کے لیے کسی توپ و تفنگ کی ضرورت نہیں ،جو مراحل سٹیٹ بینک کی مقررکردہ کمیٹی نے تجویز کیے ہیں، انھیں جب چاہیں عملی شکل دی جا سکتی ہے۔
ملک میں جامع معاشی ترقی کے منصوبہ کی تشکیل اور بہ تدریج نفاذ کے لیے اسلامی معیشت اور بینکاری کے ایک ورکنگ گروپ کو وقت کے تعین کے ساتھ یہ ہدف دیا جا سکتا ہے کہ وہ ملک میں صنعتی اور زرعی ترقی کے لیے ملک کے چیمبرز آف کامرس کے تعاون سے دو ماہ میں ایک منصوبۂ عمل تیار کرے ،جسے پارلیمان کے ذریعے ملک میں عمل میں لایا جائے۔ معاشی ترقی سے مراد چند مراعات زدہ افراد کے مفاد کا تحفظ نہیں ہے بلکہ وسیع پیمانہ پر ملک کے اندر تجارت، زراعت، پھلوں اور پھولوں کی مناسب ترقی کا منصوبہ ہے۔ دنیا کے کئی ممالک صرف زراعت اور پھلوں اور پھولوں کی برآمد کے ذریعے اپنی معیشت کو مستحکم کر رہے ہیں۔ پاکستان کو اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے چار موسم، زرخیز زمینیں اور وہ تمام وسائل دیے ہیں جو زراعت کے لیے بہترین مواقع فراہم کرتے ہیں۔
ملک گیر پیمانے پر قابلِ کاشت زمینوںمیں پیداوار بڑھانے کے ذرائع کا استعمال اور قابلِ کاشت زمینوں کو رہائشی آبادیوں کے تعمیری منصوبوں میں تبدیل کرنے پر قانونی پابندی کی ضرورت ہے، تاکہ آنے والے وقت میں ملکی آبادی میں اضافہ کے بعد غذائی ضروریات کی تکمیل اور غذائی اجناس کے برآمد کے ذریعے معاشی ترقی کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے۔ اس وقت ملک میں ایسے تحقیقی ادارے جو زراعت کے حوالے سے کسان کی عملی رہنمائی کر سکیں انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ ہماری فی ایکڑ پیداوار گندم کی ہو یا چاول کی اور ایسے ہی پھلوں کی، ہم ہر میدان میں دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہیں، جب کہ ہمارے پھل اور چاول کی اس کی اعلیٰ قسم ہونے کی بناپر بھاری مانگ موجود ہے ۔ایک عرصہ سے ہمارے چاول کو ہمارا دشمن ملک اپنے ملک کا ٹھپہ لگا کر فروخت کرتا رہا ہے اور اب اس نے ہمارے یہاں کے بیج اپنے ہاں لگا کر ہماری مارکیٹ کو اپنے قبضے میں کرنا شروع کر دیا ہے ۔لیکن ہم آنکھیں بند کیے یہ سب کچھ گوارا کر رہے ہیں۔ ملک کی صلاحیت کو بہت تنگ نظری کے ساتھ کم تر سمجھ لیا گیا ہے،جب کہ ہماری زراعت سونے کی طرح ملکی معیشت کو استحکام دے سکتی ہے۔ملک کی زرعی پالیسی کی تیاری میں نہ صرف اعلیٰ تعلیمی اداروں بلکہ کسان بورڈوں اور تنظیمات کو بھی شامل کیا جائے تاکہ زمینی حقائق کی روشنی میں ملک گیر پالیسی وہ ہو جو قابلِ عمل ہو اور جسے متعلقہ افراد خود تیار کریں۔
بیرونی سرمایہ صرف اس وقت ملک میں آتا ہے، جب ملک میں سیاسی استحکام کے ساتھ قانونی تحفظ اور شفافیت پائی جائے، معاہدوں کا احترام ہو اور بیرونی صارف کو مقامی قوانین میں سہولت ملے۔ لازمی طور پر کوئی سرمایہ کار بھی اپنے منافع پر سمجھوتہ نہیں کرتا ۔لیکن ملکی قانون نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی صارف کو بھی بغیر طویل کارروائیوں کے ملک میں تجارت کے مواقع فراہم نہیں کرتا۔ مشرق وسطیٰ کے اکثر ممالک میں ایک ماہ کے عرصہ میں ایک بیرونی صارف اپنی کمپنی قائم کرکے کام کا آغاز کر سکتا ہے ۔پاکستان میں فرسودہ نظام اور برقی ذرائع کے استعمال نہ کرنے کی بنا پر اور رشوت اور ناجائز حصہ داری کے مطالبوں کے سبب بیرونی سرمایہ کار آتے ہوئے گھبراتا ہے۔زمینی حقائق کو جانتے ہوئے صورتِ حال کی فوری اصلاح کی ضرورت ہے تاکہ چھوٹے، درمیانی اور بڑے کاروبار کو فروغ دیا جا سکے۔
ملک میں محنت کش اور معاشی کارکن کے مرتبہ اور حقوق کا تحفظ اعلیٰ کارکردگی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔معاشی عدل اور محنت کش کے حقوق کے تحفظ کے لیے مناسب قانون سازی کے ساتھ ایسے اداروں کا قیام ضروری ہے جو جلد انصاف کی فراہمی کریں اور کاروبار کرنے والوں کو قانون کے احترام پر آمادہ کر سکیں ۔اس میں خواتین اور کم عمر معاشی کارکنوں کے حقوق کے تحفظ پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔
پاکستان کو بعض صنعتوں میں خصوصی مقام حاصل رہا ہے ۔ مثلاً سیالکوٹ کے ساتھ کھیل اور جراحت کے سامان کا نام خود بخود ذہن میں ابھر تا ہے۔فیصل آباد ٹیکسٹائل کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ ان میدانوں میں اضافے اور مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ یہاں کی تیار کردہ اشیا اپنے معیار کے لحاظ سے دنیا بھر میں ممتاز رہیں۔ان اشیاء کی تیاری میں جو خام مال اور جو فنی محنت درکار ہوتی ہے اس کی تربیت اور سائنسی اصولوں پر اس میں مہارت کے لیے ان صنعتوں سے وابستہ افراد کو ایسے ادارے ،جامعات کی وابستگی کے ساتھ قائم کرنے پر متوجہ کیا جائے جو ان فنون میں تربیت اور مارکیٹ کی ضروریات کے پیش نظر افرادی قوت تیار کر سکیں۔
ان صنعتوں میں کام کرنے والوں میں خواتین کے لیے خصوصاً ایسا اہتمام کیا جائے کہ وہ اپنے گھر سے صنعتی ترقی کے کاموں میں شرکت کر سکیں اور خاندان کا نظام متاثر نہ ہو اور ان کی صلاحیت کا استعمال بھی کیا جا سکے ۔عالمی طور پر ان صنعتوں میں بچوں کے حوالے سے جو پابندیاں ہیں ان کو ملحوظ رکھا جائے تاکہ ہماری مصنوعات عالمی مارکیٹ میں اپنا وقار قائم رکھ سکیں۔
ملک کی معاشی ترقی خصوصاً طویل المیعاد ترقی میں یونی ورسٹیوں کا بنیادی کردار ابھی تک صحیح طور پر ادا نہیں کیا جا سکا ہے۔یونی ورسٹیوں کے نصابات میں صنعتوں کے حوالے سے نظرثانی اور جدید آئی ٹی کے استعمال کے ساتھ ایجادات پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ دیگر ممالک میں بہت سے فنی ادارے خود اپنی یونی ورسٹیاں قائم کرتے ہیں، مثلاً سام سنگ اور دیگر عالمی مصنوعات بنانے والے اداروں کی اپنی یونی ورسٹیاں ہیں، جو نہ صرف ان کی ضرورت بلکہ ان شعبوں میں اعلیٰ تحقیق کے ذریعے ان مشکلات کا حل نکالتی ہیں جو اس صنعت کی ترقی کے لیے ضروری ہوں۔ پاکستان میں ہماری معلومات کی حد تک کسی ایک دوا ساز کمپنی ،کپڑے کی صنعت اور دیگر شعبوں میں کاروبار کرنے والے بڑے اداروں نے آج تک اپنے شعبے میں تحقیق کے لیے تحقیقی کام پر توجہ نہیں دی۔ اس طرح نہ صرف عمومی تعلیم بلکہ ان شعبوں میں تربیت یافتہ افراد فراہم کیے جا سکتے ہیں، جو ملک اور ملک کے باہر hands on تربیت یافتہ ہوں اور محض نظری طور پر دوا سازی اور انتظامی امور وغیرہ سے واقف نہ ہوں بلکہ اپنے شعبے میں عملاً کام کر کے تجربہ کا سرٹیفکیٹ بھی رکھتے ہوں۔
ہر شعبۂ حیات اپنا ایک اخلاقی ضابطہ رکھتا ہے۔ ہمیں یہ امتیاز حاصل ہے کہ ہمارا دین جامع اور کامل ہونے کی بنا پر ایک ’دیانت دار تاجر‘ (honest trader)کے بارے میں نہ صرف دنیا بلکہ آخرت میں اعلیٰ ترین درجات کا وعدہ فرماتا ہے اور ایسے تاجر کو انبیاؑ ،صلحا اور شہدا کے ساتھ حیاتِ اُخروی میں مقام دیتا ہے۔اس امر کی ضرورت ہے کہ معاشی ترقی کے منصوبہ میں اسلامی معاشی اخلاقیات کو نصابی وزن دیا جائے، تاکہ معاشرہ سرمایہ دارانہ ذہنیت سے محفوظ رہ سکے۔ ہرمعاشی ترقی اپنے ساتھ شیطان کی تیار کردہ پوری ایک فہرست لاتی ہے جو سرمایہ دار کو ایک خودغرض، نفع خور ،نفس پرست شخص میں تبدیل کر دیتی ہے ۔اسلامی معاشی اخلاقیات کی نہ صرف تعلیم بلکہ تجارتی اور زراعتی شعبوں میں ترویج اور اس کا اطلاق ہمارے معاشرے کو ایک عادلانہ، معاونت کرنے والا، ہمدردی اور غم خواری پر مبنی برادری میں تبدیل کر سکتا ہے، اور ان اخلاقیات سے لاپرواہی مغربی سرمایہ دارانہ ظالمانہ استحصالی نظام کے قریب لا سکتی ہے۔ ہماری معاشی ترقی اس وقت اللہ کو راضی کر سکتی ہے جس میں ہم اپنے دین پر مبنی اور قرآن و سنت کے اصولوں کی روشنی میں زراعت ہو یا صنعت، تعلیم ہو یا پیشہ ورانہ تربیت، ہر کام کو اس اخلاق کا پابند بنا لیں جو تمام انسانیت کے لیے فلاح اور ہماری آخرت میں کامیابی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
قرآن کریم کا ترقی کا پیمانہ ہر شعبۂ علم و عمل میں ماہرانہ مقام کا حصول ہے۔ انبیائے کرامؑ نے اقامت دین کے مجموعی تصور کے پیش نظر دعوتِ دین کے ساتھ مختلف شعبوں میں کارکردگی میں امتیاز حاصل کیا ۔حضرت داؤدؑ کا زرہ سازی میں کمال ،حضرت نوحؑ کا جہاز سازی میں مہارت، حضرت سلیمانؑ کا اُمورِ مملکت میں، جب کہ حضرت یوسفؑ کا منصوبہ بندی میں قائد ہونا اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تجارت ہو یا عدالت، ہر شعبہ میں اخلاق کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہونا، نیز خود قرآن کریم نے یہ کہہ کرکہ وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم ۶۸:۴)آپؐ کے ماننے والوں کے لیے ایک زندہ مثال بیان کر دی کہ کسی بھی شعبۂ حیات میں کم تر درجہ ناقابلِ قبول ہے اور زندگی کے ہرمعاملے میں اتقان اور حُسنِ کارکردگی ایمان کا تقاضا ہے۔آج بھی امت مسلمہ کے نوجوانوں میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ معرکۂ حق و باطل میں اپنے سے کئی گنا طاقت ور باطل کو اپنی قوتِ ایمانی سے زیر کرسکتے ہیں۔ تازہ ترین مثال غزہ، فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کی ہے۔