جواب :انسان کے اندر چھچھورا پن تو کم و بیش موجود ہوتا ہے۔ یہ منجملہ انھی اوصاف کے ہے جو اس کی فطرت میں ودیعت کیے گئے ہیں۔ انسان سے انھی عادات و خصائل کا اظہار ہوتا ہے، جو اس کی فطرت میں پوشیدہ ہیں۔
اب انسان کی آزمایش دراصل اس بات میں ہے کہ وہ اپنے فطری اوصاف میں سے کن اوصاف کو اُبھارے اور کن اوصاف کی حوصلہ شکنی کرے۔ اپنے اندر بھلائیاں پرورش کرنے کا جو طریقہ اللہ کی شریعت نے بتایا ہے، اگر اس کے مطابق انسان چلتا رہے تو اس کے نفس کی خرابیاں کم ہوتی جائیں گی اور اس کے اندر اعلیٰ صفات تقویت پکڑ لیں گی۔
انسان کو بنانے اور بگاڑنے میں ماحول مؤثر کردارادا کرتا ہے۔ اگر خدا شناس اور پاکیزہ ماحول اسے میسر آجائے تو ہلکی سی جدوجہد بھی اس کے اندر بہترین اوصاف کو پرورش دینے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ لیکن اگر خدا نا شناس اور غیراخلاقی ماحول اسے ملے تو بُرے اوصاف کے پھلنے پھولنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی اور اعلیٰ صفات کو پرورش کرنے میں اسے سخت جدوجہد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جواب :شرک سے اگر کوئی شخص باز نہ آئے تو اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دے___ اس لیے نہیں کہ اللہ تعالیٰ بے بس ہے بلکہ اس لیے کہ خود اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرما دیا ہے کہ ’میں سارے گناہوں کو بخش دوں گا، لیکن شرک کو نہیں بخشوں گا‘۔ یہ گناہ ایسا ہے جو خاص اللہ تعالیٰ کی ذات سے وابستہ ہے۔ رہے دوسرے گناہ تو ظاہر ہے کہ ان کی کوئی فہرست نہیں دی گئی ہے کہ یہ یہ گناہ معاف کیے جائیں گے اور یہ یہ گناہ معاف نہ ہوسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جب بلاتخصیص یہ اعلان فرمایا ہے کہ سوائے شرک کے تمام گناہ معاف ہوسکتے ہیں، تو کسی کو کیا اختیار ہے کہ ان میں درجہ بندی کرتا پھرے۔
جواب :دراصل جاننے اور ماننے میں ایک لطیف فرق ہے۔ مثلاً آپ دیکھیں گےکہ ایک شخص اللہ تعالیٰ کا منکر ہے، لیکن جب آپ اس سے بات کریں گے، تو معلوم ہوگا کہ وہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کا منکر نہیں ہے، وہ ایک ایسی ہستی کو تسلیم کرتا ہے، جو اس کائنات کا خالق ہے۔ لیکن وہ اسے صاحب ِ ارادہ، صاحب ِ تدبیر و تنظیم اور صاحب ِ قانون و شریعت تسلیم نہیں کرتا۔ وہ خدا کی اس حیثیت کو ماننے سے انکار کردیتا ہے، کہ وہی اس کی قسمت کا بنانے اور بگاڑنے والا اور وہی اسے راہِ ہدایت دکھانے والا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ وہ شخص یہ بات تو جانتا ہے کہ خدا ہی اس کائنات کا خالق ہے، لیکن حقیقت میں وہ اسے مانتا نہیں ہے۔ بس جاننے اور ماننے میں یہی بنیادی فرق ہے۔(۱۹۶۸ء، درس قرآن کے بعد)