جنوری ۱۹۶۴ء میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں کے دورِ حکومت میں جب جماعت اسلامی پاکستان پر پابندی عائد کی گئی ، اور مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی سمیت جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کے پچاس ارکان کو قید کردیا گیا تو حکومت نے اپنے عتاب کا نشانہ ترجمان القرآن کو بھی بنایا۔ جس کے نتیجے میں جنوری سے جون ۱۹۶۴ء کے دوران چھے ماہ تک پرچہ شائع نہ ہوسکا۔ ترجمان کے نائب مدیر پروفیسر عبدالحمید صدیقی نے پابندی ختم ہونے پر جو ’اشارات‘ (جولائی ۱۹۶۴ء) تحریر کیے، ان کا پہلا حصہ دیا جارہاہے، تاکہ قارئین کو معلوم ہوسکے کہ ترجمان اور اُس کے مدیر کن مراحل سے گزر کر رہنمائی کا چراغ روشن کرتے رہے۔ادارہ
چھے ماہ کی بندش کے بعد ترجمان القرآن پھر شائع ہو رہا ہے، بِسْمِ اللہِ مَجْؔــرٖىہَا وَمُرْسٰىہَا۰ۭ اِنَّ رَبِّيْ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۴۱ (ھود۱۱:۴۱)
ترجمان القرآن پر جو اُفتاد پڑی ہے، صحیح صورتِ حال کی تفصیلات سےکم حضرات آگاہ ہوں گے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ضروری واقعات یہاں اختصار سے پیش کر دیئے جائیں:
ترجمان اکتوبر ۱۹۶۳ء کے شمارے میں ایک مضمون: ’ایران میں دین اور لادینی کی کش مکش‘ [خلیل احمد حامدی] کے زیرعنوان چھاپا گیا تھا۔ اس پر مغربی پاکستان کے شعبۂ اطلاعات کی جانب سے ایک مراسلہ ۱۲نومبر ۱۹۶۳ء ناشر ترجمان کو موصول ہوا، جس میں تحریر تھا: ’’مذکورہ بالا مضمون سے حکومت پاکستان اور حکومت ِ ایران کے مابین دوستانہ روابط خراب ہونے کا امکان ہے، اس لیے آپ سات دن کے اندر وجہ بتائیں کہ ویسٹ پاکستان پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی ننس ۱۹۶۳ء کے تحت آپ کے خلاف کیوں کارروائی نہ کی جائے، آپ کے رسالے کا ڈیکلریشن معطل کیوں نہ کیا جائے اور آپ سے دس ہزار روپے کی ضمانت کیوں نہ لی جائے؟ اگر آپ بالمشافہہ صفائی پیش کرنا چاہیں تو شعبۂ مذکورہ کے ڈپٹی سیکرٹری صاحب سے ۱۹نومبر کو ملاقات بھی کرسکتے ہیں‘‘۔
اس نوٹس کے جواب میں ۱۸نومبر کو حسب ذیل توضیحات سیکرٹری صاحب کی خدمت میں تحریراً پیش کی گئیں:
۱- ہمارے اکتوبر ۱۹۶۳ء کے شمارے میں ’ایران میں دین اور لادینی کی کش مکش‘ کے زیرعنوان جو مضمون شائع ہوا ہے، اس میں کوئی چیز مقالہ نگار نے اپنی طرف سے نہیں لکھی ہے بلکہ وہ ایران اور عراق کے معروف اہل علم کی شائع شدہ تحریروں کا خلاصہ ہے اور وہ شائع شدہ مواد ہمارے پاس موجود ہے۔ علاوہ بریں جن واقعات کا اس میں ذکر کیا گیا ہے،و ہ دُنیا کی خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعے سے بھی پاکستان کے اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو، روزنامہ نوائے وقت لاہور، ۲۵ جنوری ۱۹۶۳ء اور ۶ جون ۱۹۶۳ء۔
۲- اس مضمون کے جواب میں سفارت خانہ ایران{ FR 685 } کی طرف سے ایک مضمون ہمارے پاس آچکا ہے، جسے ہم لفظ بلفظ زیرطبع پرچے میں دے رہے ہیں۔ یہ پرچہ یکم دسمبر ۱۹۶۳ء کو شائع ہونے والا ہے۔ کوئی پرچہ اگر تصویر کے دونوں رُخ بے کم و کاست لوگوں کے سامنے رکھ دے تو اس کے متعلق یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے بدنیتی کے ساتھ کام کیا ہے، یا اس کے پیش نظر کوئی خرابی برپا کرنا ہے، بلکہ یہ فعل دُنیا کے معروف صحافتی آداب سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے۔
۳- مغربی پاکستان کے مختلف اخبارات و رسائل میں متعدد دوست ملکوں اور ان کی حکومتوں کے حالات پر بحث و تنقید کی جاتی رہی ہے۔ ان پر کوئی کارروائی نہ ہونے سے ہم یہ تصور کرنے میں حق بجانب تھے کہ ویسٹ پاکستان پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی ننس کا منشا یہ نہیں ہے کہ دوست ممالک کے اچھے یا بُرے حالات کو شائع کرنا یا ان پر تبصرہ کرنا سرے سے ہی جرم ہے۔ نیز یہ تصور کرنا بھی ہمارے لیے مشکل ہے کہ قانون کا اطلاق سب اخبارات و رسائل پر یکساں نہ ہوگا، یا دوست ممالک کے درمیان فرق کیا جائے گا۔
۴- ترجمان کے متعلق اسی طرح کی شکایت [پر] آرڈی ننس کی دفعہ ۲۷ کے تحت تنبیہہ پر اکتفا کیا جاسکتا ہے۔
دسمبر [۱۹۶۳ء]کے پرچے میں سفارت خانہ ایران کی جانب سےموصولہ مضمون شائع کردیا گیا۔ اس کے بعد حکومت مغربی پاکستان کے ہوم سیکرٹری صاحب کی طرف سے ایک حکم نامہ مؤرخہ یکم جنوری ۱۹۶۴ء کو وصول ہوا، جس میں یہ درج تھا کہ ’’ترجمان کے مضمون ’ایران میں دین اور لادینی کی کش مکش‘ سے چونکہ حکومت پاکستان اور حکومت ایران کے تعلقات بگڑجانے کا امکان ہے اور نوٹس کے جواب میں اس کے ناشر کی جانب سے پیش کردہ وضاحت غیرتسلی بخش ہے۔اس لیے گورنر صاحب مغربی پاکستان آرڈی ننس مذکورہ کی دفعہ ۲۷ کے تحت ترجمان کے ڈیکلریشن کو چھ ماہ کے لیے معطل فرماتے ہیں‘‘۔
اس کارروائی کے بعد ۱۲فروری ۱۹۶۴ء کو مغربی پاکستان ہائی کورٹ میں ناشر ترجمان القرآن نے ایک درخواست داخل کی، جس میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ ’’جس آرڈی ننس کے تحت ترجمان کے خلاف کارروائی کی گئی ہے، وہ ۱۰؍اکتوبر ۱۹۶۳ء کو نافذ ہوا ہے اور ترجمان کےجس مضمون پر اعتراض کیا گیا ہے، وہ ۲؍اکتوبر ۱۹۶۳ء کو پریس میں چھپ گیا تھا اور ۵؍اکتوبر کو اس کی بڑی تعداد قارئین کے ہاتھوں میں پہنچ چکی تھی، اس لیے اس کی اشاعت آرڈی ننس مذکور کی زد میں نہیں آتی‘‘۔ اس درخواست میں یہ بھی اعتراض کیا گیا تھا کہ ’’بیرونی ممالک سے تعلقات کی خرابی کا مسئلہ مرکزی حکومت کے حیطۂ اختیار میں ہے، اس لیے صوبائی حکومت اس ضمن میں کوئی قانون سازی یا انتظامی اقدام نہیں کرسکتی۔ آرڈی ننس مذکور کو اس بنا پر بھی چیلنج کیا گیا تھا کہ یہ دستور کے بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر استدعا کی گئی تھی کہ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی ننس کو بنیادی حقوق کے منافی اور کالعدم قرار دیا جائے اور ترجمان القرآن کی معطلی کا حکم بھی غیرقانونی ٹھیرایا جائے‘‘۔
اس درخواست پر ہائی کورٹ نے جلد تاریخ مقرر کرنے کا حکم صادر فرمایا، لیکن تقریباً تین ماہ تک کوئی تاریخ متعین نہ ہوسکی۔ پھر مزید ایک درخواست اس امر کی پیش کی گئی کہ اس مقدمے کی سماعت کے لیے تاریخ کا تعین کیا جائے، ورنہ دادرسی کا مقصد فوت ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ اس پر معزز عدالت نے دوبارہ حکم دیا کہ ’’بہت جلد تاریخ مقرر کی جائے‘‘۔ لیکن تاریخ مقرر ہونے سے پہلے پابندی کی میعاد ختم ہوچکی ہے اور یہ پرچہ بندش کی پوری مدت ختم ہوجانے کے بعد اسی وقت پر شائع ہورہا ہے، جس وقت پر یہ عدالت سے رجوع نہ کرنے کی صورت میں شائع ہوتا۔
قارئین ترجمان کو یہ بھی معلوم ہے کہ ترجمان القرآن کی اشاعت پر پابندی کے صرف پانچ روز بعد مدیر ترجمان مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کو بھی جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کے ارکان سمیت نظربند کردیا گیاتھا۔ اس نظربندی کی جو وجوہ مولانا کو جیل میں حکومت ِ پاکستان کی جانب سے بتائی گئی تھیں ان میں اس مضمون کی اشاعت کا ذکر کیا گیا تھا، جس کی بنا پر ترجمان کو بند کیا گیا تھا۔
اس کا جو جواب مدیر ترجمان القرآن سیّدابوالاعلیٰ مودودی کی جانب سے ہوم سیکرٹری صاحب کو دیا گیا تھا، اس کا متعلقہ حصہ نقل کردینا مناسب ہوگا ، اور وہ یہ ہے:
آخری الزام آپ کا میرے اُوپر یہ ہے کہ مَیں نے اپنے رسالے ترجمان القرآن کےاکتوبر ۱۹۶۳ء کے پرچے میں ایک مضمون ایران اور اس کے شاہی خاندان کے خلاف شائع کیا تھا۔اور آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ اس مضمون کی اشاعت سے میرا مقصد ایران کے ساتھ ، جو پاکستان کا روایتی حلیف ہے، پاکستان کے تعلقات کو خراب کرنا تھا۔ اس کے جواب میں چند باتیں گزارش کروں گا:
_______________
مدیر ترجمان کو جن وجوہ کی بنا پر بار بار حوالۂ زنداں کیا جاچکا، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ دست ِ ظلم دراز کرنے والے، اسے سننے والے ، اس ملک کے عوام اور بیرونی دُنیا کا ایک معتدبہ طبقہ اس دل فگار داستان کی ایک ایک کڑی سے پوری طرح واقف ہے اور اُن اسباب پر بھی اچھی طرح نظر رکھتا ہے جس کے نتیجے میں یہ سب کچھ ظہور میں آرہا ہے اور آیندہ جس کے آنے کی توقع ہے۔
ان حالات میں ہم منعمِ حقیقی کی بارگاہ میں سراپا سپاس ہیں کہ اس نے ہم جیسے کمزور اور ناتواں افراد کو جن کے پاس علم و عمل کی کوئی پونجی نہیں ایک ایسی آواز کو بلند کرنے کی توفیق عطا فرمائی، جو مختلف اَدوار میں اللہ تعالیٰ کے انبیا علیہم السلام نے بلند کی تھی اور جسے خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے دُنیا سے تشریف لے جانے کے بعد اُمت کے اَئمہ اور صلحاء نے بڑی دلسوزی اور جرأت مندی کے ساتھ ہرعہد میں بلند کیا تھا۔
ہماری آواز اگرچہ نحیف ہے، لیکن ہمارا دل اس بات پر پوری طرح مطمئن ہے کہ یہ آواز بہرحال وہی ہے، جس کے بلند ہونے کے ساتھ ہی ظلم و استبداد کے ایوانوں میں کھلبلی مچ جاتی ہے۔ جہالت، تنگ نظری، تعصب، خود غرضی کی قوتیں بوکھلا اُٹھتی ہیں، اور وہ سب مل کر اسے دبانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس قسم کے نامساعد حالات میں جب ملک کے پورے ذرائع و وسائل ایک نہایت ہی مختصر طبقے کے ہاتھ میں ہوں، اور وہ اقتدار کے نشے میں اس حد تک بہک چکا ہو کہ کسی معقول سے معقول بات کے سننے سے بھی اُسے ضد اور چڑ پیدا ہوتی ہو، انسان سوائے کارسازِ مطلق کے اور کس ذات پر بھروسا کرسکتا ہے؟ بِسْمِ اللہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہِ اَللّٰھُمَّ اِنَّـا نَعُوْذُبِکَ مِنْ اَنْ نَضِلَّ اَوْ نُضَلَّ اَوْ نَظْلِمَ اَوْ نُظْلَمَ اَوْ نَجْھَلَ اَوْ یُجْھَلَ عَلَیْنَا-
ترجمان اور مدیر ترجمان کے ساتھ اس سلوک پر ہم کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے ، البتہ ہم اتنی بات عرض کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ کوئی اتفاقی حادثہ نہ تھا بلکہ جو کچھ ہوا ہے وہ عین توقع کے مطابق ہوا ہے۔ جب ملک کے سیاسی اُفق پر تاریک گھٹائیں چھا جائیں تو ان کے دامن سے بجلیوں کا گرنا کوئی غیرمتوقع عمل نہیں ہوتا، بلکہ اس کے سوا اگر کوئی دوسری صورت پیدا ہوجائے تو البتہ تعجب کا موجب ہوسکتی ہے۔ ترجمان القرآن جس نصب العین کی طرف مسلمانوں کو بڑھنے کی دعوت دے رہا ہے، یہ سب اُس راہ کے سنگ میل ہیں جن سے آخری منزل کا پتہ چلتا ہے۔
یہاں ہم پھر ایک بار اس امرکی وضاحت کر دینا چاہتے ہیں کہ ترجمان القرآن کوئی تجارتی پرچہ نہیں ہے کہ جس کی پالیسی مادّی نفع و نقصان کے میزانیوں کے مطابق متعین ہوتی ہو۔ ہمارے نزدیک مالی سُود و زیاں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ ہمارے لیے فیصلہ کن چیز صرف ایک ہے کہ کسی طرزِفکر اور کسی طرزِ عمل کے اختیار کرنے میں ہم اپنے خالق و مالک کی کس حد تک رضاجوئی حاصل کررہے ہیں؟ اپنے آقا و مولا کی خوش نودی ہمارا منتہائے مقصود ہے۔ اگر ہمارے کسی کام سے ہمارا فرماںروائے حقیقی ہم سے خوش ہوتا ہے تو ہمیں اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ غرض کے بندے اُس کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، یا اقتدار کی جبینوں پر کس انداز کے شکن پڑتے ہیں۔ ہمیں اگر فکر ہے تو خالق کی ناراضی کی۔ کیونکہ اس کی ناراضی ہمارے لیے دُنیا و آخرت اور آخرت میں بربادی اور نامرادی کا حکم رکھتی ہے۔ اُس کی نگاہِ التفات ہٹ جانے کے بعد ہماری قسمت میں سوائے محرومی کے اور کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔
باقی رہا دُنیاوی ’اقتدار‘ کا غیظ و غضب تو اُس کی ہمیں قطعاً کوئی پروا نہیں ہے۔ ہم ہرقسم کی آزمایش کے لیے مالک ِ حقیقی سے پناہ مانگتے ہیں۔ اس کے لیے ہم دعوت نہیں دیتے، لیکن اس بات سے پوری طرح واقف ہیں کہ دُنیا میں سب سے کمزور اگر کوئی چیز ہے تو وہ اقتدار ہے۔
بیت ِعنکبوت بھی اپنی کوئی بنیاد رکھتا ہے ،لیکن اقتدار کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔