۲۰۱۴ء کے انتخابات کے بعد شاید ہی کسی تجزیہ نگار کو یہ اندازہ تھا کہ اس کے نتائج بھارتی سیاسی زندگی میں ایسا زہر کھول دیں گے، جس کا تریاق ڈھونڈنے میں ایک عشرے سے بھی زیادہ عرصہ لگے گا۔
نریندر مودی نے پہلے گجرات میں ایک جانب مذہبی منافرت کے علَم بردار کے رُوپ میں اور دوسری جانب سرمایہ دار دوست اور آزاد منڈی کے نقیب کی شہرت حاصل کی، اور اسی دوران ۱۰سال تک بلا شرکت غیرے ایک مطلق العنان حاکم کی حیثیت سے گجرات کی حکومت چلائی۔ موصوف نے مسلم کش فسادات کو بھڑکایا، جس میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ پھر بھی اس کی حکومت نہ صرف قائم رہی بلکہ دوسری مدت میں بھاری اکثریت سے حکومت بنائی۔ بھارتی جنتا پارٹی، اٹل بہاری واجپائی کی دومسلسل حکومتوں کے بعد، کانگریس کی دو متواتر حکومتوں کی وجہ سے داخلی بحران کا شکار تھی۔ اس پس منظر میں پارٹی کے لیڈروں مودی، امیت شا اور ادتھیا ناتھ یوگی جیسے انتہا پسندوں نے پارٹی پر قبضہ کرلیا اور اس طرح نسل پرست سیاست کے ایک نئے خونیں دور کا آغاز ہوگیا۔
گذشتہ دس برس سے بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کی پامالی ایک معمول بن گیا، خاص طور پر مسلمان اور عیسائی اس درندگی کا نشانہ بنے۔کشمیر کی خصوصی حیثیت کو یک طرفہ طور پر ختم کردیا گیا اور غیر کشمیریوں کے لیے روزگار اور زمین کو خریدنا قانونی بنادیا گیا۔ ایک نئےقانون کے تحت شہریوں کی نئی شناخت کی شرط لگا دی، جس کے تحت کسی بھی شہری کے لیے اپنی شہریت قدیم دستاویزات کے ذریعے ثابت کرنا لازم ہوگیا۔ دراصل اس ساری کھینچاتانی کا اصل ہدف وہ بنگالی مسلمان ہیں، جو پچاس ساٹھ برس پہلے شمال مشرق سرحدی علاقوں میں آبسے تھے۔ اس دورِ حکومت میں پاکستان سے تعلقات سرد مہری اور سخت تنائو کا شکار رہے، جب کہ پلوامہ ڈرامے کی آڑ میں مودی نے پاکستان کی فضائی سرحد کو عبور کرکے غیر آباد علاقے میں میزائل داغ دیا۔ اگلے ہی روز پاک فضائیہ نے اس کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے نہ صرف بھارتی فضائیہ کا ایک لڑاکا طیارہ مار گرایا بلکہ اس کے پائلٹ کو بھی گرفتارکرلیا، جسے بعد ازاں یک طرفہ طور پر خیر سگالی کے جذبے کے تحت واپس کردیا گیا۔ لیکن مودی کا ڈنکا بج رہا تھا، لہٰذا سادہ لوح عوام نے مودی کے اس دعوے کو قبول کرلیا کہ یہ واقعہ تو اس کی بہادری کا مظہر تھا۔ ۲۰۱۹ء کے انتخابات میں مودی نے اور بھی بڑی اکثریت سے حکومت بنائی۔
۲۰۲۴ء کے انتخاب میں مودی بڑے زعم کے ساتھ ’اب کی بار، ۴۰۰ پار‘ نعرے کی گھن گرج کے ساتھ میدان میں اترا۔ مطلب یہ تھا کہ تیسری مودی حکومت کو لوک سبھا میں تقریباً تین چوتھائی اکثریت چاہیے۔ بظاہر مودی نے کہا کہ مَیں اتنی بڑی اکثریت اس لیے مانگ رہا ہوں تاکہ کانگریس اور اس کے اتحادیوں کا راستہ روک سکوں کیونکہ یہ لوگ ملک کی زمین دوسرے ممالک کو بیچ دیں گے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی اکثریت کی خواہش درحقیقت ایسی طاقت کا حصول تھا جس کے ذریعے مودی ملک کے آئین میں من مانی ترامیم کرسکے۔
مودی اور اس کی ’ہندوتوا سیاست‘ کی سرپرست آر ایس ایس (RSS)، اگست ۱۹۴۷ء سے بھارت کے آئین کونہیں مانتی، بلکہ ان کا کھلا موقف ہے کہ یہ آئین ملک کی اکثریت کی خواہشات اور اُمیدوں کی ترجمانی نہیں کرتا۔ آر ایس ایس کے ایک سربراہ سدرشن نے ۲۰۰۰ء میں صاف صاف کہا: ہندوستانی آئین کی جگہ بھارتی مقدس کتابوں پر مبنی آئین ہونا چاہیے۔ آئین ملک کے لوگوں کے لیے کسی کام کا نہیں تھا کیونکہ یہ ۱۹۳۵ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ پر مبنی تھا … ہمیں آئین کو مکمل طور پر تبدیل کرنے سے شرمانے کی ضرورت نہیں ہے…‘‘۔ لہٰذا مودی کا اصل ایجنڈا یہی تھا کہ وہ آئین کو بنیادی طور پر بدل دے۔ ملک کا نام بھارت رکھے، بھارت کو ہندوؤں کا ملک قرار دے اور اقلیتوں کو کمتر درجے کے شہری قرار دے وغیرہ۔
باوجویکہ مودی بڑے عزائم کے ساتھ میدان میں اترا تھا، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ نہ صرف مودی کو تین چوتھائی اکثریت نہیں ملی بلکہ گذشتہ دس برسوں میں پہلی مرتبہ مودی کو ’لوک سبھا‘ میں سادہ اکثریت بھی نہ مل سکی۔ مودی نے تیسری دفعہ وزارتِ عظمیٰ تو سنبھالی ہے، لیکن یہ وزارت اپنے ذاتی سیاسی بل بوتے پر نہیں ہے بلکہ اپنی حلیف جماعتوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ مودی نے لوک سبھا کی ۲۴۰ اور اپنے حلیف ’قومی جمہوری اتحاد‘ (NDA)کے ساتھ مل کر ۲۹۳نشستیں حاصل کی ہیں۔ اس اتحاد کے نامور رہنماؤں میں بہار کے نتیش کمار اور آندھرا پردیش کے چندر بابو نائڈو شامل ہیں، جنھوں نے بالترتیب ۱۶ اور ۱۲ نشستیں جیتی ہیں۔ یہ دونوں سیاست دان نسل پرستانہ سیاست کو پسند نہیں کرتے کیوںکہ ان کے حلقوں میں مسلمانوں کے ایک قابلِ ذکر ووٹ ہیں،جنھیں وہ ناراض نہیں کرنا چاہیں گے۔
مودی کی اس ناکامی کی کئی وجوہ ہیں: جن میں مہنگائی اور بے روزگاری، دولت کی تقسیم کا امیر لوگوں کے حق میں ہونا، چند نامور کاروباری گروہوں کی سرکاری سرپرستی (جس میں اڈانی گروپ کے بانی کے مودی سے گہرے تعلقات ہیں اور شاید وہ مودی کا فرنٹ مین بھی ہے) اور حکومتی فلاحی منصوبے کا غیرمتوازن انداز میں چلایا جانا۔ بعض تجزیہ نگاروں کے نزدیک مندرجہ بالا وجوہ کے برعکس مودی کا نسل پرستانہ منافرت، مسلم دشمنی پر مبنی نعروں پہ تکیہ کرنا عوام کو پسند نہیں آیا۔
لیکن جس قوت نے عوام میں یہ شعور پیدا کیا، وہ حزب اختلاف کا ایک اتحاد تھا، جس کا نام I.N.D.I.A یعنی Indian National Development Inclusive Alliance رکھا گیا اور جس کی قیادت کانگریس کے نوجوان رہنما راہول گاندھی کر رہے تھے۔ بظاہر یوں لگتا تھا کہ مودی کے مذموم عزائم کی تکمیل میں کوئی طاقت آڑے نہیں آسکے گی۔ لیکن ایک طرف نئے اتحاد کی تاسیس اور ددسری طرف راہول نے ایک بھرپور یاترا شروع کی، جس کا نام ’بھات جوڑو یاترا‘ رکھا۔ یہ ایک پُراثر نعرہ تھا، جس کو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی کیونکہ یہ ملک کی اصل ضرورت کی عکاسی کررہا تھا۔ اس پیدل یاترا میں جو کئی مہینوں پر پھیلی ہوئی تھی راہول نے ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا اور اس کا قافلہ زیادہ تر صوبوں سے گزرا۔ یوں حزب اختلاف کا اتحاد اور راہول گاندھی کی متحرک قیادت نے سیاست کی شکل بدل دی۔
مودی کی ناقابلِ یقین شکست کا اندازہ لگانے کے لیے ضروری ہے کہ چند حیرت انگیز حقائق قارئین کے سامنے رہیں: اول، مودی کابینہ کے ۱۸ وزیر اپنی نشستیں ہار گئے۔ دوم، ہندوتوا کے گڑھ یعنی اتر پردیش میں ۸۰ نشستوں میں سے صرف ۳۳ پر مودی کی جماعت جیتی ہے۔ سوم، فیض آباد میں واقع رام مندر جس کی زیر تعمیر عمارت کا جنوری میں مودی نے بڑے شان دار انتظامات کے ساتھ افتتاح کیا تھا، اس کے اطراف میں تمام علاقوں سے مودی کی جماعت کو بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ چہارم، رام مندر کی جزوی تعمیر اور افتتاح کا مودی کی حکمت عملی میں کلیدی کردار تھا، اس نے سمجھ رکھا تھا کہ رام مندر تنہا اُن کی بڑی کامیابی کے لیے کافی ہوگا۔ مگر شومئی قسمت کہ خود رام مندر والے حلقے میں ناکامی لکھی ہوئی تھی۔ اس حلقے میں سماج وادی پارٹی، جو کانگریسی اتحاد میں شامل تھی، کے امیدوار نے مودی کے امیدوار کو بہت بڑے فرق سے ہرایا۔ یاد رہے کہ مودی کے اُمیدوار ’مندر تعمیر کمیٹی‘ کے چیئرمین کے صاحبزادے تھے۔
بحث کا ایک سوال یہ ہے کہ کیا مودی مخلوط حکومت کی سربراہی میں اپنے مخصوص مزاج کے ساتھ کام کر پائے گا؟ اکثر تجزیہ نگار کہتے ہیں: ’’یہ ناممکن ہو گا کیونکہ مودی کو اتحادی سیاست کا فہم نہیں، جس کے لیے اتحادیوں کے ساتھ نرم و دوستانہ رویہ، کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی، کابینہ کے اہم فیصلوں پر انھیں اعتماد میں لینا اور بعض اوقات اتحادیوں کے غیرمعقول مطالبات (مودی کی رائے میں) تسلیم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ گجرات میں دو اور مرکز میں دو حکومتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ مودی پیدائشی طور پر آمرانہ مزاج کی حامل شخصیت ہے، جس کے لیے مختلف الخیال افراد کے ساتھ کام کرنا آسان نہیں۔
اس اتحاد کی پائیداری کا امتحان بہت جلد ہونے والا ہے۔ اول، ابھی مکمل طور پر کابینہ کے عہدوں کا بٹوارہ نہیں ہوا ہے، جو یقیناً مودی کے لیے مشکلات کھڑی کرے گا۔ دوم، مودی کو بہت جلد لوک سبھا سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہے۔ جس کے متعلق تجزیہ نگار کہتے ہیں: یہ مرحلہ خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔ نہ صرف اس میں اتحادی پھسل سکتے ہیں بلکہ مودی کی اپنی پارٹی بھی اس کو اب ایک بوجھ سمجھتے ہوئے اس سے پیچھا چھڑا سکتی ہے۔ سوم، اس اندیشے کو یوں مزید تقویت پہنچتی ہے کہ آر ایس ایس کے چیف موہن بھگوات نے انتخابی نتائج کا ان لوگوں کو ذمہ دار ٹھیرایا ہے، جو مغرور رویوں کے حامل رہے ہیں۔ تمام سیاسی پنڈت کہہ رہے ہیں کہ یہ اشارہ مودی کی طرف ہے۔ آر ایس ایس اور مودی میں دوری انتخابات سے پہلے سے چل رہی ہے۔ چہارم، مودی کی ’ہندوتوا سیاست‘ کو انتخابی میدان میں بُری طرح شکست ہوئی ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ جن حلیف جماعتوں نے مودی کو بیساکھیاں فراہم کی ہیں، وہ اس وقت عوامی دباؤ کا شکار ہیں کیونکہ انھوں نے عوامی رائے کے برخلاف ووٹ دے کر ایک مسترد شدہ شخص کی حکومت بنوائی ہے۔ یہ دونوں، اپنی سیاست میں بہت سے نشیب و فراز سے گزرے ہیں اور بنیادی طور پر لوگوں کو ملانے کی سیاست کرتے ہیں، جو مودی کی تقسیم کی سیاست کو اور خاص طور پر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف باتوں کو، مسترد کرتے ہیں۔ بہت سے مبصرین پہلے ہی مودی سے ہاتھ ملانے کے لیے ان پر تنقید کر رہے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت میں یہ ایک بڑی سیاسی تبدیلی آئی ہے اور بھارتی عوام نے نفرت اور تقسیم کی سیاست کو مسترد کیا ہے ۔بھارت کے سیاسی منظر پر مایوسی اور نومیدی کے گھٹا ٹوپ بادلوں نے ایک صبح کو راستہ دیا ہے۔ رائے دہندگان نے نفرت و تقسیم کی زنجیروں کو توڑا ہے۔ جس سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ یہ سفر مثبت سمت کی جانب رواں رہے۔ مگر دوسری طرف بی جے پی نے جھنجلاہٹ میں بھارت کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں اور ہجومی تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ کیا ہے۔ یقینا یہ واقعات اس نفرت کی سیاست کو دفن کرنے کا سبب بنیں گے۔