۲۰۱۴ء کے انتخابات کے بعد شاید ہی کسی تجزیہ نگار کو یہ اندازہ تھا کہ اس کے نتائج بھارتی سیاسی زندگی میں ایسا زہر کھول دیں گے، جس کا تریاق ڈھونڈنے میں ایک عشرے سے بھی زیادہ عرصہ لگے گا۔
نریندر مودی نے پہلے گجرات میں ایک جانب مذہبی منافرت کے علَم بردار کے رُوپ میں اور دوسری جانب سرمایہ دار دوست اور آزاد منڈی کے نقیب کی شہرت حاصل کی، اور اسی دوران ۱۰سال تک بلا شرکت غیرے ایک مطلق العنان حاکم کی حیثیت سے گجرات کی حکومت چلائی۔ موصوف نے مسلم کش فسادات کو بھڑکایا، جس میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ پھر بھی اس کی حکومت نہ صرف قائم رہی بلکہ دوسری مدت میں بھاری اکثریت سے حکومت بنائی۔ بھارتی جنتا پارٹی، اٹل بہاری واجپائی کی دومسلسل حکومتوں کے بعد، کانگریس کی دو متواتر حکومتوں کی وجہ سے داخلی بحران کا شکار تھی۔ اس پس منظر میں پارٹی کے لیڈروں مودی، امیت شا اور ادتھیا ناتھ یوگی جیسے انتہا پسندوں نے پارٹی پر قبضہ کرلیا اور اس طرح نسل پرست سیاست کے ایک نئے خونیں دور کا آغاز ہوگیا۔
گذشتہ دس برس سے بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کی پامالی ایک معمول بن گیا، خاص طور پر مسلمان اور عیسائی اس درندگی کا نشانہ بنے۔کشمیر کی خصوصی حیثیت کو یک طرفہ طور پر ختم کردیا گیا اور غیر کشمیریوں کے لیے روزگار اور زمین کو خریدنا قانونی بنادیا گیا۔ ایک نئےقانون کے تحت شہریوں کی نئی شناخت کی شرط لگا دی، جس کے تحت کسی بھی شہری کے لیے اپنی شہریت قدیم دستاویزات کے ذریعے ثابت کرنا لازم ہوگیا۔ دراصل اس ساری کھینچاتانی کا اصل ہدف وہ بنگالی مسلمان ہیں، جو پچاس ساٹھ برس پہلے شمال مشرق سرحدی علاقوں میں آبسے تھے۔ اس دورِ حکومت میں پاکستان سے تعلقات سرد مہری اور سخت تنائو کا شکار رہے، جب کہ پلوامہ ڈرامے کی آڑ میں مودی نے پاکستان کی فضائی سرحد کو عبور کرکے غیر آباد علاقے میں میزائل داغ دیا۔ اگلے ہی روز پاک فضائیہ نے اس کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے نہ صرف بھارتی فضائیہ کا ایک لڑاکا طیارہ مار گرایا بلکہ اس کے پائلٹ کو بھی گرفتارکرلیا، جسے بعد ازاں یک طرفہ طور پر خیر سگالی کے جذبے کے تحت واپس کردیا گیا۔ لیکن مودی کا ڈنکا بج رہا تھا، لہٰذا سادہ لوح عوام نے مودی کے اس دعوے کو قبول کرلیا کہ یہ واقعہ تو اس کی بہادری کا مظہر تھا۔ ۲۰۱۹ء کے انتخابات میں مودی نے اور بھی بڑی اکثریت سے حکومت بنائی۔
۲۰۲۴ء کے انتخاب میں مودی بڑے زعم کے ساتھ ’اب کی بار، ۴۰۰ پار‘ نعرے کی گھن گرج کے ساتھ میدان میں اترا۔ مطلب یہ تھا کہ تیسری مودی حکومت کو لوک سبھا میں تقریباً تین چوتھائی اکثریت چاہیے۔ بظاہر مودی نے کہا کہ مَیں اتنی بڑی اکثریت اس لیے مانگ رہا ہوں تاکہ کانگریس اور اس کے اتحادیوں کا راستہ روک سکوں کیونکہ یہ لوگ ملک کی زمین دوسرے ممالک کو بیچ دیں گے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی اکثریت کی خواہش درحقیقت ایسی طاقت کا حصول تھا جس کے ذریعے مودی ملک کے آئین میں من مانی ترامیم کرسکے۔
مودی اور اس کی ’ہندوتوا سیاست‘ کی سرپرست آر ایس ایس (RSS)، اگست ۱۹۴۷ء سے بھارت کے آئین کونہیں مانتی، بلکہ ان کا کھلا موقف ہے کہ یہ آئین ملک کی اکثریت کی خواہشات اور اُمیدوں کی ترجمانی نہیں کرتا۔ آر ایس ایس کے ایک سربراہ سدرشن نے ۲۰۰۰ء میں صاف صاف کہا: ہندوستانی آئین کی جگہ بھارتی مقدس کتابوں پر مبنی آئین ہونا چاہیے۔ آئین ملک کے لوگوں کے لیے کسی کام کا نہیں تھا کیونکہ یہ ۱۹۳۵ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ پر مبنی تھا … ہمیں آئین کو مکمل طور پر تبدیل کرنے سے شرمانے کی ضرورت نہیں ہے…‘‘۔ لہٰذا مودی کا اصل ایجنڈا یہی تھا کہ وہ آئین کو بنیادی طور پر بدل دے۔ ملک کا نام بھارت رکھے، بھارت کو ہندوؤں کا ملک قرار دے اور اقلیتوں کو کمتر درجے کے شہری قرار دے وغیرہ۔
باوجویکہ مودی بڑے عزائم کے ساتھ میدان میں اترا تھا، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ نہ صرف مودی کو تین چوتھائی اکثریت نہیں ملی بلکہ گذشتہ دس برسوں میں پہلی مرتبہ مودی کو ’لوک سبھا‘ میں سادہ اکثریت بھی نہ مل سکی۔ مودی نے تیسری دفعہ وزارتِ عظمیٰ تو سنبھالی ہے، لیکن یہ وزارت اپنے ذاتی سیاسی بل بوتے پر نہیں ہے بلکہ اپنی حلیف جماعتوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ مودی نے لوک سبھا کی ۲۴۰ اور اپنے حلیف ’قومی جمہوری اتحاد‘ (NDA)کے ساتھ مل کر ۲۹۳نشستیں حاصل کی ہیں۔ اس اتحاد کے نامور رہنماؤں میں بہار کے نتیش کمار اور آندھرا پردیش کے چندر بابو نائڈو شامل ہیں، جنھوں نے بالترتیب ۱۶ اور ۱۲ نشستیں جیتی ہیں۔ یہ دونوں سیاست دان نسل پرستانہ سیاست کو پسند نہیں کرتے کیوںکہ ان کے حلقوں میں مسلمانوں کے ایک قابلِ ذکر ووٹ ہیں،جنھیں وہ ناراض نہیں کرنا چاہیں گے۔
مودی کی اس ناکامی کی کئی وجوہ ہیں: جن میں مہنگائی اور بے روزگاری، دولت کی تقسیم کا امیر لوگوں کے حق میں ہونا، چند نامور کاروباری گروہوں کی سرکاری سرپرستی (جس میں اڈانی گروپ کے بانی کے مودی سے گہرے تعلقات ہیں اور شاید وہ مودی کا فرنٹ مین بھی ہے) اور حکومتی فلاحی منصوبے کا غیرمتوازن انداز میں چلایا جانا۔ بعض تجزیہ نگاروں کے نزدیک مندرجہ بالا وجوہ کے برعکس مودی کا نسل پرستانہ منافرت، مسلم دشمنی پر مبنی نعروں پہ تکیہ کرنا عوام کو پسند نہیں آیا۔
لیکن جس قوت نے عوام میں یہ شعور پیدا کیا، وہ حزب اختلاف کا ایک اتحاد تھا، جس کا نام I.N.D.I.A یعنی Indian National Development Inclusive Alliance رکھا گیا اور جس کی قیادت کانگریس کے نوجوان رہنما راہول گاندھی کر رہے تھے۔ بظاہر یوں لگتا تھا کہ مودی کے مذموم عزائم کی تکمیل میں کوئی طاقت آڑے نہیں آسکے گی۔ لیکن ایک طرف نئے اتحاد کی تاسیس اور ددسری طرف راہول نے ایک بھرپور یاترا شروع کی، جس کا نام ’بھات جوڑو یاترا‘ رکھا۔ یہ ایک پُراثر نعرہ تھا، جس کو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی کیونکہ یہ ملک کی اصل ضرورت کی عکاسی کررہا تھا۔ اس پیدل یاترا میں جو کئی مہینوں پر پھیلی ہوئی تھی راہول نے ہزاروں کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا اور اس کا قافلہ زیادہ تر صوبوں سے گزرا۔ یوں حزب اختلاف کا اتحاد اور راہول گاندھی کی متحرک قیادت نے سیاست کی شکل بدل دی۔
مودی کی ناقابلِ یقین شکست کا اندازہ لگانے کے لیے ضروری ہے کہ چند حیرت انگیز حقائق قارئین کے سامنے رہیں: اول، مودی کابینہ کے ۱۸ وزیر اپنی نشستیں ہار گئے۔ دوم، ہندوتوا کے گڑھ یعنی اتر پردیش میں ۸۰ نشستوں میں سے صرف ۳۳ پر مودی کی جماعت جیتی ہے۔ سوم، فیض آباد میں واقع رام مندر جس کی زیر تعمیر عمارت کا جنوری میں مودی نے بڑے شان دار انتظامات کے ساتھ افتتاح کیا تھا، اس کے اطراف میں تمام علاقوں سے مودی کی جماعت کو بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ چہارم، رام مندر کی جزوی تعمیر اور افتتاح کا مودی کی حکمت عملی میں کلیدی کردار تھا، اس نے سمجھ رکھا تھا کہ رام مندر تنہا اُن کی بڑی کامیابی کے لیے کافی ہوگا۔ مگر شومئی قسمت کہ خود رام مندر والے حلقے میں ناکامی لکھی ہوئی تھی۔ اس حلقے میں سماج وادی پارٹی، جو کانگریسی اتحاد میں شامل تھی، کے امیدوار نے مودی کے امیدوار کو بہت بڑے فرق سے ہرایا۔ یاد رہے کہ مودی کے اُمیدوار ’مندر تعمیر کمیٹی‘ کے چیئرمین کے صاحبزادے تھے۔
بحث کا ایک سوال یہ ہے کہ کیا مودی مخلوط حکومت کی سربراہی میں اپنے مخصوص مزاج کے ساتھ کام کر پائے گا؟ اکثر تجزیہ نگار کہتے ہیں: ’’یہ ناممکن ہو گا کیونکہ مودی کو اتحادی سیاست کا فہم نہیں، جس کے لیے اتحادیوں کے ساتھ نرم و دوستانہ رویہ، کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی، کابینہ کے اہم فیصلوں پر انھیں اعتماد میں لینا اور بعض اوقات اتحادیوں کے غیرمعقول مطالبات (مودی کی رائے میں) تسلیم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ گجرات میں دو اور مرکز میں دو حکومتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ مودی پیدائشی طور پر آمرانہ مزاج کی حامل شخصیت ہے، جس کے لیے مختلف الخیال افراد کے ساتھ کام کرنا آسان نہیں۔
اس اتحاد کی پائیداری کا امتحان بہت جلد ہونے والا ہے۔ اول، ابھی مکمل طور پر کابینہ کے عہدوں کا بٹوارہ نہیں ہوا ہے، جو یقیناً مودی کے لیے مشکلات کھڑی کرے گا۔ دوم، مودی کو بہت جلد لوک سبھا سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہے۔ جس کے متعلق تجزیہ نگار کہتے ہیں: یہ مرحلہ خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔ نہ صرف اس میں اتحادی پھسل سکتے ہیں بلکہ مودی کی اپنی پارٹی بھی اس کو اب ایک بوجھ سمجھتے ہوئے اس سے پیچھا چھڑا سکتی ہے۔ سوم، اس اندیشے کو یوں مزید تقویت پہنچتی ہے کہ آر ایس ایس کے چیف موہن بھگوات نے انتخابی نتائج کا ان لوگوں کو ذمہ دار ٹھیرایا ہے، جو مغرور رویوں کے حامل رہے ہیں۔ تمام سیاسی پنڈت کہہ رہے ہیں کہ یہ اشارہ مودی کی طرف ہے۔ آر ایس ایس اور مودی میں دوری انتخابات سے پہلے سے چل رہی ہے۔ چہارم، مودی کی ’ہندوتوا سیاست‘ کو انتخابی میدان میں بُری طرح شکست ہوئی ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ جن حلیف جماعتوں نے مودی کو بیساکھیاں فراہم کی ہیں، وہ اس وقت عوامی دباؤ کا شکار ہیں کیونکہ انھوں نے عوامی رائے کے برخلاف ووٹ دے کر ایک مسترد شدہ شخص کی حکومت بنوائی ہے۔ یہ دونوں، اپنی سیاست میں بہت سے نشیب و فراز سے گزرے ہیں اور بنیادی طور پر لوگوں کو ملانے کی سیاست کرتے ہیں، جو مودی کی تقسیم کی سیاست کو اور خاص طور پر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف باتوں کو، مسترد کرتے ہیں۔ بہت سے مبصرین پہلے ہی مودی سے ہاتھ ملانے کے لیے ان پر تنقید کر رہے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت میں یہ ایک بڑی سیاسی تبدیلی آئی ہے اور بھارتی عوام نے نفرت اور تقسیم کی سیاست کو مسترد کیا ہے ۔بھارت کے سیاسی منظر پر مایوسی اور نومیدی کے گھٹا ٹوپ بادلوں نے ایک صبح کو راستہ دیا ہے۔ رائے دہندگان نے نفرت و تقسیم کی زنجیروں کو توڑا ہے۔ جس سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ یہ سفر مثبت سمت کی جانب رواں رہے۔ مگر دوسری طرف بی جے پی نے جھنجلاہٹ میں بھارت کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں اور ہجومی تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ کیا ہے۔ یقینا یہ واقعات اس نفرت کی سیاست کو دفن کرنے کا سبب بنیں گے۔
پاکستانی معاشیات کی تاریخ غیرمتوازن اور ناہموار ہے۔ اس دوران معاشی ترقی کے مختلف اوقات میں مختلف ماڈلوں کی پیروی کی ہے۔ ان پالیسیوں اور نتائج سے کئی اَدوار ممتاز بھی ہیں۔ ان اَدوار کی کلیدی خصوصیات کی ہم نشان دہی کرتے ہوئے ان کی نمایاں کامیابیوں اور ناکامیوں کا تذکرہ کریں گے۔ اتنے پھیلے موضوع کے ایک مختصر جائزے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس عرصے کے دوران معاشی پالیسی کی نوعیت کیا تھی اور ملک کو کس طرح کی ناکامیوں اور نقصانات کا سامنا کرنا پڑا؟
اس زمانے میں ایک منصوبہ بند معیشت کے تحت سرمایہ داروں کے منتخب گروہ کی معاشی ترقی کے عمل کی سرپرستی کی گئی۔ اس طرح اُس زمانے کے سوشلسٹ ماڈل کے چیلنج کو ناکام بنانے کے لیے ایک فعال معاشی نظم و نسق کو بروئے کار لانے میں بظاہر کامیابی حاصل ہوئی۔ تاہم، ۱۹۶۹ء کی فوجی مداخلت نے اس ماڈل کو پیچھے دھکیل دیا۔
یہ پاکستانی معیشت کا پہلا مرحلہ تھا۔ اس دوران میں کئی حکومتیں برسرِاقتدار آئیں۔ تاہم، اس پورے عرصے کی نمایاں ترین خصوصیت اس کی منصوبہ بند نوعیت تھی۔ اس کا سب سے مرکزی حوالہ ۱۹۵۸ء-۱۹۶۹ء کے دوران فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں سطحی ترقی کا عشرہ شامل ہے۔ سرد جنگ میں امریکا کے اتحادی کے طور پر، پاکستان کو کافی فوجی اور اقتصادی امداد ملی۔ ’ہارورڈ ایڈوائزری گروپ‘ نے جو پلاننگ کمیشن آف پاکستان قائم کیا تھا، وہ اس وقت تمام معاشی منصوبہ بندی اور ترقیاتی وسائل کی تقسیم کا مرکز و محور تھا، جس نے پانچ سالہ منصوبہ بندی کا فریم ورک تیار کیا۔ تمام اہم اقتصادی سرگرمیوں جیسے سرمایہ کاری، درآمدات اور صنعتی مقامات پر وسیع پیمانے پر معاشی کنٹرول اور لائسنسنگ کا نظام رائج کیا گیا۔ ٹرکل ڈاؤن نظریے کی بنیاد پر صنعت کاروں کے ایک منتخب گروپ کو غلبہ پانے کے لیے سرپرستی حاصل تھی۔
پچھلی حکومت کی معاشی ناکامیوں کے نتیجے میں، اور مشرقی پاکستان کے الگ ہوکر بنگلہ دیش بن جانے کے بعد ۲۰دسمبر ۱۹۷۱ء میں برسرِاقتدار آنے والی پاکستان پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں، اب صرف مغربی پاکستان پر مشتمل پاکستان میں معاشی ترقی اور انتظام کے سوشلسٹ ماڈل کو اپنانے کا راستہ چُنا گیا۔ صنعت، تجارت، مالیات اور بنکاری نظام کو بڑے پیمانے پر قومی ملکیت میں لے لیا گیا۔ ملکی معیشت میں ایک بہت بڑا حصہ سرکاری شعبے کی صورت میں اُبھرا۔ بدنامی کی علامت ۲۲ خاندان منظر سے غائب ہوگئے کیونکہ ان کے زیادہ تر اثاثوں کو قومیا لیا گیا تھا۔پانچ سالہ منصوبے کا فریم ورک معطل کردیا گیا۔ پبلک سیکٹر میں بڑے پیمانے پر غیرمنصوبہ بند ترقی ہوئی، کیونکہ معیشت کے تمام اہم شعبوں پر نجی شعبے کے لیے متعدد بنیادی پابندیاں لگا دی گئی تھیں۔ معاشی اقدار کے بدل جانے سے معاشرے میں سرمایہ داروں اور سرمایہ کاروں کا احترام اور مقام کم ہوگیا، جب کہ پیشہ ور مزدور یونینوں کو کافی طاقت اور اختیارات مل گئے۔
نیشنلائزیشن اور سوشلزم کی مخالفت معاشرے میں شدید تر تھی۔ ابتدائی طور پر جنرل محمد ضیاء الحق کی مارشل لا حکومت نے نیشنلائزیشن کو کالعدم کرنے کا عزم کیا، لیکن اس راستے پر قدم رکھتے ہی انھیں احساس ہوا کہ یہ تو سیاسی سرپرستی کے لیے ایک بہت بڑی چابی ہے اور اس سے اقتدار پر اس کی گرفت مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔ حکومت نے پانچ سالہ ترقیاتی فریم ورک کو بحال کردیا،اور آہستہ آہستہ نجی شعبے کے لیے معیشت کو کھولنا شروع کیا۔ دوسری جانب افغانستان پر اشتراکی روسی حملے (۱۹۷۹ء) نے امریکا کی طرف سے بھی اہم حمایت حاصل کرنے میں مدد کی۔
جنرل ضیاء الحق کا دورِ حکومت سمنگٹن /پریسلر ترامیم کے آغاز کے ساتھ اختتام کو پہنچا، جس سے پاکستان کوامریکی مالی امداد کا خاتمہ ہوا۔ ۱۹۹۱ء میں اشتراکی روس (سوویت یونین) کے زوال نے عالم گیریت کے ایک نئے دور کا آغاز کیا، اور فورم آف ایڈ ٹو پاکستان کنسورشیم کے ذریعے فنانسنگ کے روایتی ماڈل کو نئے متحرک نجی سرمائے کے حق میں ختم کر دیا گیا۔ اس مقصد کے لیے بجلی اور ٹیلی کمیونی کیشن جیسے شعبوں کو بین الاقوامی یا قومی نجی شعبے کی سرمایہ کاری کے لیے کھول دیا گیا۔ اس عشرے کو سیاسی عدم استحکام سے تعبیر کیا جاتا ہے، کیونکہ یکے بعد دیگرے حکومتیں تبدیل ہوئیں اور چار حکومتوں کی اوسط مدت تقریباً ڈھائی سال رہی۔ اس دور کی سب سے نمایاں خصوصیت ملک میں آئی ایم ایف کے ایڈجسٹمنٹ پروگراموں کا آغاز تھا، جو بعد میں معاشی انتظام کی باقاعدہ ضرورت اور خصوصیت بن گیا۔
سیاسی عدم استحکام، ایک اور فوجی مداخلت کا باعث بنا۔ بظاہر معاشی نظم و نسق میں بہتری آئی اور نائن الیون کے بعد وسائل کی دستیابی آسان ہوگئی۔ اس عرصے میں قیمتوں میں نمایاں استحکام کے ساتھ اعلیٰ نمو بھی دیکھنے میں آیا۔ آئی ایم ایف کےدو پروگراموں پر عمل کے لیے بنیادی اصلاحات نافذ کی گئیں۔ ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے جلد ہی اقتصادی اور سیاسی صورتِ حال پر گہرے اثرات مرتب ہوئے جس کی ملکی معیشت کو بڑی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔
عدالتی بحران اوردسمبر۲۰۰۷ء میں بے نظیر بھٹو کے المناک قتل کے بعد، ۲۰۰۸ء کے اوائل میں فوجی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ جمہوریت بحال ہوئی اور پیپلزپارٹی کی اگلی مخلوط حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی۔ ۲۰۱۳ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ(ن) نے نئی حکومت بنائی اور اس نے بھی اپنی مدت پوری کی۔
۲۰۱۸ء میں چھوٹی جماعتوں کے اتحاد کے ذریعے ایک نئی سیاسی جماعت اقتدار میں آئی، جس کی قیادت عمران خان نے کی۔ ن لیگ کے آخری دوبرسوں میں بجٹ خسارہ اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ (CAD) دونوں بہت زیادہ بڑھنے کے ساتھ میکرو اکنامک فریم ورک کمزور ہوگیا۔ نئی حکومت کو وراثت میں ملنےوالے بدتر معاشی منظرنامے کے پیش نظر، آئی ایم ایف کے ایک نئے پروگرام کی فوری ضرورت تھی۔ تاہم، پہلے پہل اپنی حکمت عملی کے تحت، حکومت نے اس پروگرام پر عمل کرنے کی مزاحمت کی۔ اس تگ و دو اور تذبذب کی کیفیت میں تقریباً ایک سال ضائع ہوگیا۔ اس طرح آئی ایم ایف پروگرام قبول کرنے سے پہلے ہی، نمایاں کمی اور شرح سود میں اضافہ کیا گیا تھا۔ پروگرام کے ایک حصے کے طور پر، زیادہ قدر میں کمی، شرح سود میں اضافے پر بھاری ٹیکس عائد کے گئے، جس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ ۲۰-۲۰۱۹ء کے دوران، ملک کووڈ ۱۹ کی زد میں آیا جس سے معاشی خلل پڑا۔ دوسرے سال اس وجہ سے منفی ترقی دیکھی گئی۔ یہ تیسرا سال تھا جب معاشی بحالی کا آغاز ۵ء۶ فی صد نمو کے ساتھ ہوا، جس کے بعد ۲۲-۲۰۲۱ء میں اس شرح میں ۶ فی صد تک اضافہ ہوا۔
بظاہر یہ بات مہمل اور متضاد ہے کہ عمران حکومت کی ۲۲-۲۰۲۱ء کی کارکردگی، جس میں اعلیٰ اقتصادی ترقی، اعلیٰ برآمدات اور ترسیلاتِ زر اور زراعت اور صنعت دونوں میں نمایاں نمو دیکھنے میں آئی۔ آخرکار اس کا خاتمہ اسی بیرونی کھاتوں کےعدم توازن پر ہوا، جو اس حکومت کو ورثے میں ملا تھا۔
اگرچہ پی ٹی آئی کے ایک اُمید بھرے دور کا ایسا خاتمہ دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے، لیکن پاکستان کی حالیہ تاریخ میں اسی طرح کے کئی اَدوار اختتام کے گھاٹ اُترے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے ۲۰۱۳ء- ۲۰۱۶ء کے دوران آئی ایم ایف کا پروگرام کامیابی سے مکمل کیا تھا۔ لیکن جلد ہی فوائد کو معیشت کی صلاحیت سے زیادہ ترقی کے راستے پر بڑھانے کی قربان گاہ پہ قربان کر دیا گیا۔ پانامہ پیپرز کا اجرا حکومت کے لیے ایک بڑے بحران میں بدل گیا اور بالآخر وزیراعظم میاں نواز شریف کی نااہلی پر منتج ہوا۔ کامیاب معاشی ٹیم، فنڈ پروگرام کے تحت حاصل ہونے والے فوائد سے لاتعلق تھی اور جولائی ۲۰۱۸ء میں الیکشن ہونے والے تھے۔ مالی سال ۲۰۱۶ء کا مالی خسارہ ۴ء۶فی صد تھا، جو مالی سال ۲۰۱۸ء میں ۶ء۶ فی صد تک پہنچ گیا، جب کہ مالی سال ۲۰۱۶ء میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ ۵ بلین ڈالر سے بڑھ کر ریکارڈ سطح تقریباً ۲۰بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔یہ سب ۵ء۸ فی صد کی بلند شرحِ نمو حاصل کرنے کے لیے کیا گیا تھا، جسے بعد میں جی ڈی پی کی بحالی کے بعد ۶ء۳ فی صد کر دیا گیا۔
اسی طرح کی صورت حال پیپلزپارٹی کی حکومت کے آخری سال کے دوران بھی ہوئی، جس میں کوئی ترقی نہیں ہوئی، لیکن یہ تعطل کا شکار آئی ایم ایف پروگرام کا دوبارہ آغاز کرنے میں ناکامی اور آئی ایم ایف پروگرام کے تحت بنائے گئے ذخائر کے بیش تر حصے کو مایوس کن سطح پر لے جانے کے پس منظر میں مالی سال ۲۰۱۳ء میں اپنی مدت کے اختتام پر پیش آیا۔
یہاں تک کہ صدر جنرل مشرف کی نسبتاً مستحکم حکومت بھی ترقی اور ووٹروں کی خوشنودی کے حصول کے اسی طرح کے دبائو کے سامنے جھک گئی۔ اپنے آخری مالی سال ۰۸-۲۰۰۷ء میں، عدالتی بحران، جنوری ۲۰۰۸ء میں طے شدہ انتخابات، اورعالمی مالیاتی بحران کے پیش نظر حکومت نے پی او ایل کی اُونچی قیمتوں کو عوام تک منتقل نہ کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے نتیجے میں مالیاتی خسارہ ۴ فی صد سے تقریباً ۸ فی صد تک پہنچنے اور دگنا ہونے کا باعث بنا۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ بلند ترین سطح، یعنی جی ڈی پی کا ۸ فی صد تھا۔ پی پی حکومت کو اکتوبر ۲۰۰۸ء میں آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس طرح اس دور کی نسبتاً اچھی کارکردگی کا خاتمہ ایک پریشان کن صورتِ حال پر ہوا۔