’’سرمئی علاقے (Grey Area) میں آپ کا استقبال ہے!‘‘ جب میں اپنے طلبہ کو سیاسی اخلاقیات یا بین الاقوامی تعلقات کی اخلاقیات کا مضمون پڑھانا شروع کرتا ہوں، تو انھیں اس جملے سے خوش آمدید کہتا ہوں۔ جب طلبہ پوچھتے ہیں: ’’سرمئی علاقہ کون سا ہے؟‘‘ تو جواب دیتا ہوں کہ ’’سیاسی عمل کا علاقہ عام طور سے سرمئی علاقہ ہوا کرتا ہے‘‘۔
ذہن میں اٹھنے والے ’مجرد مثالی خیالات‘ کو ٹھوس سیاسی عمل نہیں کہتے ہیں۔ سیاسی عمل تو ’خیال‘ کو ’یقینی‘ بنانے کا وہ فن ہے، جس میں ’مشترک علاقے‘ (Common Areas) وجود میں لائے جاتے ہیں اور زمان و مکان کی مساواتوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ سیاسی عمل مشترک علاقوں کے ذریعے ہی نتیجہ خیز ہوسکتا ہے، خواہ یہ اندرون میں ایک ملک کے شہریوں کے ساتھ ہو یا بیرون ملک، دوسرے ملکوں اور اداروں کے ساتھ ہو۔ بہت سے مواقع پر مشترک علاقوں کی تشکیل کے لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ناپسندیدہ چیزوں سے آنکھیں بند کرلی جائیں،ایک مخالف کے ساتھ مل کر دوسرے مخالف کے خلاف گٹھ جوڑ بنایا جائے اور کسی دشمن کے خلاف کسی دوسرے دشمن سے مدد لی جائے۔
’مشترک سیاسی میدانوں‘ کی تشکیل ایک دین، ایک مسلک یا ایک متفق علیہ نظریے کی حدوں تک محصور نہیں رہتی ہے، کیوں کہ اس پر حکمرانی ’معتبر مصالح مرسلہ‘ کے اسلامی قانون کی ہوتی ہے۔ یہ قانون شرطوں سے بوجھل نہیں ہوتا ہے، اس میں صرف اخلاق و مصالح کے ضوابط کی پابندی ضروری ہوتی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میدان میں ہمارے لیے رہنما سیاسی اصول مقرر کیے ہیں۔ آپؐ نے قریش کے مشرکین کے ظلم و استبداد سے بچنے کے لیے ایمان نہ لانے والے قریش مکہ ہی سے اپنے چچا ابوطالب کے مقام و منصب میں پناہ لی۔ اپنے ساتھیوں کو حبشہ کے عیسائی بادشاہ کے پاس بھیجا تاکہ مکہ کے کافروں کے مظالم سے نجات پانے کے لیے وہ اس کے یہاں پناہ گزین ہوجائیں۔ عبداللہ بن اریقط کو اپنے سفر ہجرت میں گائیڈ کے طور پر ساتھ لیا، ’’اس وقت وہ اپنی قوم کے مذہب کے مطابق مشرک تھے‘‘۔ (صحیح بخاری)
مکہ کے مشرکوں کے مقابلے میں آپ نے مطعم بن عدی کی امان حاصل کی۔ مشرک سردار صفوان بن امیہ سے ہتھیار مستعار لیے اور مقامِ حنین میں قبیلہ ہوازن کے مشرکین کے ساتھ جنگ میں انھیں استعمال کیا۔ ابوسفیان کی قیادت میں مشرکین کی فوج کے خلاف نفسیاتی جنگ کی خاطر مشرک شاعر معبد بن ابی معبد کی صلاحیت اور ابلاغی قوت کو استعمال کیا۔ قبیلہ خزاعہ کے دورِ جاہلیت میں بنو ہاشم کے ساتھ قدیم تعلقات تھے، اسے بنیاد بناکر اس قبیلے کے ساتھ معاہدہ کیا اور اسے اپنا حلیف بنایا۔ اس وقت وہ قبیلہ مسلمان اور مشرک دونوں پر مشتمل تھا: ’’تہامہ کے علاقے میں خزاعہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خیرخواہ قبیلہ تھا‘‘۔ (سیرت ابن ہشام)
دوسروں کے ساتھ مل کر مشترک علاقے تشکیل دینا ایک ایسی ضرورت ہے، جس سے عملی سیاست میں کوئی مفر نہیں۔ اس سے وسائل کو بتدریج لگانا، معرکے کے میدان کو چھوٹے سے چھوٹا کرنا، اور دُور تک پھیلے ہوئے محاذوں پر وسائل لگانے سے بچنا ممکن ہوجاتا ہے۔ یاد رکھیے، جو شخص ’مشترک میدان‘ تشکیل نہیں دے سکتا ہے، وہ عملی سیاست کے شعور کا پوری طرح ادراک نہیں رکھتا۔ یہ بات تو ممکن ہے کہ وہ بلاغت سے بھرپور واعظ یا شعلہ نوا مقرر، تخلیقیت سے آراستہ مصنف اور شاعر اور اپنے تجریدی خیالات میں منہمک فلسفی تو بن جائے، لیکن وہ ہرگز ہرگز سیاسی میدانِ عمل کا شہ سوار نہیں بن سکتا۔ کیوں کہ عملی سیاست میں وہ چیز درکار ہوتی ہے جسے الجیریا کے مفکر مالک بن نبی [۱۹۰۵ء- ۱۹۷۳ء]نے ’عملی منطق‘ (Practical Logic)کا نام دیا ہے۔
عملی سیاست میں کامیابی، اور اس کے لیے لازمی طور پر دوسروں کے ساتھ ’مشترک محاذوں‘ کی تشکیل کے تین لازمی تقاضے ہیں:
دوسرا تقاضا: اسٹرے ٹیجک حِس (Strategic Sense): اسلامی روایت میں لفظ ’حکمت‘ کے مفہوم کا یہ معاصر مترادف ہے۔ اگر قدیم زمانے میں ’حکمت‘ کی تعریف کی گئی تھی ’’چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھنا‘‘، تو آج ’اسٹرے ٹیجک حِس‘ کی تعریف یہ کی جاسکتی ہے: ’’وسائل کو اس کی صحیح جگہ کام میں لانا‘‘، ’’مطلوب مقاصد کو کم سے کم قیمت اور مختصر ترین راستے سے حاصل کرنا‘‘، یا ’’کم از کم قربانیوں اور ثمرات کے درمیان توازن کا ہونا‘‘۔ ہاں، اگر یہ حقیقت سامنے آئے کہ قربانیاں بہت بڑی اور ثمرات بہت معمولی ہیں، جیسا کہ ہمارے دور کے بیش تر سیاسی اور عسکری تجربات کا حال رہا ہے، تو یہ واضح ثبوت ہے اس بات کا کہ ہماری ’اسٹرے ٹیجک حِس‘ میں کوئی خلل پایا جاتا ہے۔
’عمل کے مشترک میدانوں‘ کی تشکیل کا کام اس وقت بے حد مشکل ہوجاتا ہے جب کئی محاذ کھول لیے جاتے ہیں اور مختلف محاذوں کی سرحدیں ایک دوسرے میں گتھم گتھا ہوجاتی ہیں، جیسی کہ ہماری موجودہ صورت حال ہے۔ اُمت کا جسم زخموں سے چُور ہے اور دل چھید چھید ہوگیا ہے۔ اس طرح کے دھواں دار منظر نامے میں ہوسکتا ہے کہ تمھارا مددگار وہ ہو جو تمھارے بھائی کی گردن پر چھری چلا رہا ہے اور اس کا مددگار وہ ہو جو تمھاری شہ رگ پر چھری چلا رہا ہے۔ اس صورت حال میں ان رہروؤں کے لیے اپنی راہوں کا تعین حیران کن ہوجاتا ہے، جو ’مشکل سوالوں‘ کا آسان جواب تلاش کرنے کے رسیا ہوتے ہیں۔ وہ سادہ دماغ جو ’سرمئی علاقوں‘ کے ساتھ تعامل کرنے کی مہارت نہیں رکھتے، ان گتھیوں کو لے کر اُلجھتے اور اُلجھتے ہی چلے جاتے ہیں (یہ الگ بات ہے کہ اپنی ان نادانیوں کو بھی بقلم خود ’کامیابیاں‘ قرار دینے پر اصرار بھی کرتے ہیں)۔
دورِ حاضر کی انقلابی کوششوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کوئی بھی انقلابی کوشش بیرونی مدد اور تعاون سے پاک نہیں رہی۔ ۱۷۷۶ء میں امریکا میں انقلابی تحریک برپا ہوئی، اس کی مدد ملوکیت کے حامل فرانس نے کی، جس کا مقصد برطانوی شہنشاہیت کو زک پہنچانا تھا، جس نے اس سے کچھ ہی سال قبل سات سالہ جنگ (۱۷۵۶ء- ۱۷۶۳ء)میں فرانس کی قوت ضائع کی تھی۔ یہ تاریخ کی معلوم حقیقت ہے کہ آمریت کے دل دادہ شاہ فرانس لوئی شش از دہم (۱۷۵۴ء- ۱۷۹۳ء)نے امریکا کی انقلابی تحریک کی مدد اس کی جمہوری قدروں پر یقین رکھنے کی وجہ سے نہیں کی تھی، وہ تو یورپ کے بادشاہوں میں سب سے زیادہ استبدادی اور فسادی بادشاہ تھا۔ لیکن سیاسی عمل میں اثرات کی اہمیت، مقاصد سے زیادہ اہم ہوجاتی ہے، جب کہ امریکی انقلابیوں کو فرانسیسی مدد کے اثرات سے دلچسپی تھی، انھیں فرانسیسی بادشاہ کے مقاصد سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔
وہ انقلابی تحریکیں جو سیاق فہمی، اسٹرے ٹیجک حس اور گردوپیش کے ماحول کا ادراک رکھتی ہیں، اس بات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کہ مدد کرنے والوں کے مقاصد کیا ہیں؟ وہ بیرونی مدد کے ساتھ حکمت پر مبنی اور عملیت پر مبنی تعامل (interaction)کرسکتی ہیں۔وہ ایک طرف تو ان مبالغہ پسندیوں اور مثالیت پسندیوں سے دور رہتی ہیں جو انھیں بیرونی مدد سے بالاتر باور کرائیں، جب کہ کسی انقلاب کے لیے اس سے بے نیازی ممکن نہیں ہے۔ دوسری طرف وہ مدد کرنے والوں کے جال میں نہیں پھنستی ہیں اور بڑی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان مقاصد کا شکار نہیں ہوتی ہیں، جن کا انقلاب کے مقاصد سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔
انقلابی تحریکوں اور ان کے بین الاقوامی مددگاروں کے درمیان تعلق اسی طرح کا ہوتا ہے جس طرح دو الگ الگ منزلوں کی طرف رواں دواں مسافر راستے کی کچھ مسافت ایک ساتھ طے کرتے ہیں۔ منزل کا الگ الگ ہونا اس میں رکاوٹ نہیں بنتا کہ اتنی دور تک ایک دوسرے کے لیے اچھے رفیقِ سفر ثابت ہوں، البتہ یہ احتیاط ضروری ہے کہ کوئی ایک اپنے حُسنِ سلوک اور میٹھی باتوں سے دل جیت لینے کے بعد غفلت کے کسی انجانے لمحے میں اپنے ساتھی کا رُخ ہی بدل ڈالے۔ راستہ چلتے وجود میں آنے والے اس تعلق کی پیچیدگی کو فلسفی شاعر علامہ اقبال نے بڑے بلیغ انداز سے بیان کیا ہے:
میں اپنی راہ میں ہر رہرو کے ساتھ چلتا ہوں اور اسے اپنی راہ کا کچھ حصہ دیتا ہوں۔
میں راستے میں کسی کو راہبر نہیں پاتا ہوں، جو منزل تک میرا ساتھ دینے کے لیے آمادہ ہو۔
انقلابی تحریکوں اور قومی آزادی کی تحریکوں کو بیرون سے مدد کرنے والے بیش تر حالات میں ایمان واخلاص کے جذبے سے مدد نہیں کرتے ہیں، بلکہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے مدد کرتے ہیں جو کہ ان خاص حالات میں ان تحریکوں کے مفاد سے وقتی طور پر ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے طویل تر مقاصد انقلابیوں کے حقیقی مقصد کی ضد ہوں۔ اس مدد کا محرک زیادہ تر تو اپنے حریفوں کو نقصان پہنچانا ہی ہوتا ہے، انقلابیوں کی کامیابی نہیں ہوتا۔
اس ضمن میں ’مدد لینے اور مدد دینے والوں‘ کی حکمت عملی کے حوالے سے چند مثالیں درج ذیل ہیں:
ایسا بہت مرتبہ ہوتا ہے کہ انقلابی تحریکوں اور ان کے بیرونی مددگاروں کے درمیان تعلق و ربط کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، ایسی صورت میں، جب کہ مددگار ملک کے مقاصد مدد پانے والے کے مقاصد کی تکمیل سے پہلے تکمیل پاجاتے ہیں۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیرونی مددگار اس انقلابی تحریک کے مقاصد کا دشمن ہوتا ہے جس کی وہ مدد کررہا ہوتا ہے۔ ایسے میں وہ اپنے حریفوں کو نقصان پہنچانے کے لیے وقتی طور پر اس کی مدد کرتا ہے۔ دوسری طرف ساتھ ہی ساتھ انقلابی تحریک کو اندر سے سبوتاژ کرنے کے لیے خفیہ کوششیں بھی کرتا ہے۔ مالی اور عسکری امداد انقلابی تحریکوں کے سفر پر کنٹرول کرنے اور انھیں اندر سے تباہ کردینے کا سب سے زیادہ مؤثر ذریعہ ہیں۔ انقلابی تحریکوں اور قومی آزادی کی تحریکوں کے ساتھ تعامل کرنے کا یہ ایک خبیث طریقہ ہے، جس میں مغربی طاقتیں بڑی مہارت رکھتی ہیں، جب کہ اس حوالے سے مشرقی قوتیں دورُخے پن اور منافقت میں ان سے کم تر ہیں۔
بلکہ بعض عرب حکام جنھوں نے امریکی چھتری کے نیچے شام کی انقلابی تحریکوں کی مال اور ہتھیار سے مدد کی تھی، ایک لمحہ ضائع کیے بغیر حالیہ برسوں میں بشار الاسد کی پوزیشن بحال کرنے اور اس کے ظالمانہ اقتدار کو جواز دینے میں لگ گئے۔ عرب لیگ کی چوٹی کی کانفرنسوں میں اسے دعوت دے کر انھوں نے کھلا ثبوت پیش کردیا کہ وہ اپنا کوئی ’اسٹرے ٹیجک‘ فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں، بلکہ وہ امریکی ہاتھوں میں معمولی درجے کے حقیر کھلونے ہیں۔ امریکا اپنے جہنمی نظریے ’جنگ کو ایک موقع دیا جائے‘ کو نافذ کرنے میں انھیں استعمال کرتا ہے۔ اس نظریے کی غرض و غایت ملکوں کو شکست و ریخت سے دوچار کرنا ہوتا ہے۔
افغان مجاہدین، کمیونسٹ روس کے خلاف جنگ کو اپنے وجود کی جنگ سمجھ کر لڑ رہے تھے، اور حقیقت میں وہ تھی بھی اور اس کے نتائج کو افغانی قوم کے و جود و عدم سے جوڑ کر دیکھ رہے تھے، مگر وہیں امریکا اور اس کے مخلص پیروکار اس میں اپنی چال چلنے کا سنہری موقع دیکھ رہے تھے۔ ان کے نزدیک روس کو کم زور کرنے کے لیے یہ افغان مجاہدین کو کچھ وقت کے لیے استعمال کرنے کا ایک نایاب موقع تھا۔ اس جنگ میں جو افغانی خون کا دریا بہتا رہا، ان مدد کرنے والوں کی نظر میں اس کی یہ قیمت نہیں بنتی تھی کہ اس کے بدلے افغانیوں کو آزادی، اسلامی قدریں، استحکام اور خودمختاری حاصل ہو۔ دوسری طرف یہی وہ مقاصد تھے جن کے حصول کے لیے افغانیوں نے مردانگی کے ساتھ یہ جنگ لڑی تھی۔
شام کی انقلابی اسلامی تحریکوں نے بھی بشار الاسد کے خلاف جنگ کو اپنی بقا کی جنگ سمجھا تھا اور بلاشبہہ وہ تھی بھی ایسی ہی، لیکن امریکیوں کے نزدیک وہ ایک موقع تھا جس میں شام کے انقلابیوں کا وقتی استعمال کرنا تھا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اسرائیل کے ایک سرحدی عرب ملک کو تباہ و برباد کردیا جائے، امریکی خون کی ادائیگی کے بغیر داعش کی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ تاہم، شام کی اسلامی انقلابی تحریک اور قوم چاہتی تھی کہ اسے خود اپنے ملک میں آزادی اور عزت کی زندگی حاصل ہو اور اسے اس خوں خوار فرقہ پرست نظام سے نجات ملے، جو اس کے اُوپر نصف صدی سے مسلط ہے۔
عرب دُنیا میں سیاسی آزادی اور اسٹرے ٹیجکل خود مختاری کا مطلب ہے صہیونی ریاست کے گردوپیش کے اسٹرے ٹیجک ماحول میں بڑی تبدیلی۔ یہ وہ نہایت سنجیدہ سرخ لائن ہے جسے پارکرنے کی امریکا ہرگز اجازت نہیں دے سکتا۔ جب کہ دیگر باتیں تو محض واہمہ ہیں جن کا ذکر امریکی صدر باراک اوباما نے عرب سماعتوں اور ریاستوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے کیا تھا جیسے یہ بات کہ ’’بشار الاسد شامی قوم کے خلاف کیمیاوی اسلحوں کا استعمال کرسکتا ہے‘‘۔
اوسلو کے دو ادارے ہیں: ’پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اوسلو‘ اور ’نارویجین انسٹی ٹیوٹ آف فارن افیئرز‘۔ ان سے وابستہ دو محققین سیلویک (Selvik ) اور رولینڈسین (Rolandsen) نے ۲۰۲۰ءمیں ایک مشترکہ اکیڈمک تحقیق شائع کرائی، اس کا عنوان ہے، Disposable Rebels یعنی ایسے ’باغی جو وقتی استعمال‘ کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ مقالہ ایک نمونے کا مطالعہ ہوسکتا ہے یہ جاننے کے لیے کہ مدد کرنے والوں اور مدد پانے والوں کے مقاصد کے درمیان کتنا بڑا فاصلہ ہوتا ہے۔ اس مقالے کا عنوان ہماری معاصر تاریخ کی متعدد سیاسی قوتوں اور ملکوں پر صادق آتا ہے۔ چونکہ اس وقت دیکھا جائے تو ہم ایک ایسی قوم ہیں جو انفعالیت (passive) کا کردار پسند کرتی ہے اور طویل عرصہ ہوا فاعلیت (active)کے کردار سے دست بردار ہوچکی ہے۔ اس لیے ہمارے یہاں بے شمار حکمران، سیاسی قوتیں بلکہ ریاستیں تک وقتی استعمال کے لیے بروئے کار آتی رہی ہیں، بلکہ ابھی تک!
اس مقالے کے اہم نتائج میں لکھا ہے کہ شام کی انقلابی تحریکوں کے لیے امریکی مدد اس امر کی مثال ہے کہ مدد کرنے والے اور مدد پانے والے کے مقاصد الگ الگ ہوسکتے ہیں اور یہ کہ سیاسی اور عسکری حلیفوں کے درمیان یہ چیز معمولی اور فطری ہے۔ یہ مدد جنگ جاری رکھنے کی بھی ایک مثال ہے، جس کا مقصد امریکا کی خارجی سیاست کے اہداف کا حصول تھا۔ یہ چیز امریکی اسٹرے ٹیجی میں کوئی نئی نہیں ہے۔ اس مقالے میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ’’یہ مدد خالص طور پر امریکی اہداف کی خاطر تھی۔ شام کے انقلاب کی کامیابی سے اس کا کچھ بھی لینا دینا نہیں تھا‘‘۔ امریکی اہداف یہ تھے:
۱- تمام متحارب فریقوں پر کنٹرول اور کسی فریق کو دوسرے پر فتح پانے سے روکنا۔
۲- علاقائی سطح پر مدد کرنے والوں کی مدد کی سطح کو کنٹرول کرنا اور شام کے اندر مدد پانے والے فریقوں کے رویے کو قابو میں رکھنا۔
۳- شام اور عراق سے ’داعش‘ کے صفایا کے دوران امریکی خون اور مال کا کم سے کم خرچ کرنا۔
۴- جن ملکوں کے لوگ امریکی افواج کو اپنے یہاں نہیں دیکھنا چاہتے، وہاں کھل کر سامنے نہیں آنا۔
۵- انقلابیوں کو ہتھیاروں کی کھلی خریداری سے روکنا، کیوں کہ اس سے انھیں فیصلے لینے کی اسٹرے ٹیجک خود مختاری حاصل ہوجائے گی۔
۶- انقلابی تحریک کی سیاسی قیادت کو ثانوی درجے میں رکھنا،مگر عسکری گروہوں سے براہِ راست معاملہ کرنا اور اس طرح انقلابیوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنا۔
۷- یقینی بنانا کہ انقلابیوں کو کامیابی کے لیے جتنی مدد کی ضرورت ہے، اس سے کم مدد انھیں ملے اور وہ بھی مدد کرنے والے کے ساتھ وفاداری کی سطح سے مربوط رہے۔
۸- حکومت کے خلاف انقلابیوں کی عسکری کارروائیوں کی مقدار، ان کے رُخ اور نتائج پر کنٹرول رکھنا۔
۹- عسکری مدد کو استعمال کرنے کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کرنا اور عسکری اہداف کے تعیین پر بھی کنٹرول رکھنا۔
۱۰- جنگ کو طویل مدت تک جاری رکھنا، جس میں کوئی غالب اور کوئی مغلوب نہ ہوپائے، تاکہ تمام متحارب فریقوں کو مسلسل نقصان پہنچاتے ہوئے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا جائے۔
دونوں محققین نے انقلابی تحریکات کو ملنے والی عسکری مدد کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے: ایک مدد اس لیے کہ جس فریق کی مدد کی جارہی ہے اسے فتح حاصل ہوجائے۔ دوسری مدد اس لیے کہ بس وہ فریق باقی رہے، کیوں کہ اس صورت میں مدد کرنے والے کا مقصد تمام فریقوں کو بے جان کرکے، ملکوں کو تباہ اور معاشروں کو تقسیم کرنا ہوتا ہے۔ ان کے الفاظ میں: ’’کبھی باغیوں کی مدد کرنے والے کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ حکمراں طبقہ مسلسل جنگ میں مبتلا رہے اور باغی زندہ رہیں‘‘۔ امریکا نے شام کی اسلامی انقلابی تحریکوں کے ساتھ یہی کیا۔
مستقبل میں جب ایران ایٹمی ہتھیار بنالے گا، جس کے بعد اسے صہیونی ریاست کے خلاف اس آتشیں طوق کی ضرورت نہیں رہے گی، جس سے اس نے صہیونی ریاست کو گھیر رکھا ہے، اور اس طرح متعدد عرب ملکوں کی حرمت پامال کرنے کا بہانہ بھی بناتا ہے، اس وقت ایران کا سیاسی رویہ کیا ہوگا اور فلسطینی مزاحمت کے ساتھ اس کے تعلقات کیسے ہوں گے؟ اس کی پیش گوئی کوئی نہیں کرسکتا ہے۔ بہرحال، اگر مدد کرنے والے کے مقاصد مدد پانے والے کے مقاصد کی تکمیل سے پہلے تکمیل پاجائیں، تو زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ دونوں کے تعلقات میں تبدیلی ہوجائے جو مدد پانے والے کے مفاد میں نہ ہو۔
اس بات سے انکار نہیں ہے کہ ایران کے ایٹمی طاقت بن جانے سے فلسطینی مسئلے کو ضمنی طور پر فائدہ ہوگا۔ اہم ترین اثر تو نفسیاتی ہوگا، وہ یہ کہ جب علاقے میں صہیونیوں کی ایٹمی اجارہ داری ٹوٹے گی، تو ایٹمی دوڑ کی دہشت کے نتیجے میں وہ صہیونی معاشرہ جو مختلف انسانی گروہوں کا نادرست مرکب ہے، امید ہے کہ ٹوٹ پھوٹ کر دنیا کے کونوں میں بکھرجائے گا۔ اس مطالعے سے میرا مقصود یہ ہے کہ فلسطینی تحریک مزاحمت کو ابھی سے منصوبہ بندی کرنی چاہیے کہ ایران کے ایٹمی منصوبے کی تکمیل کے بعد وہ اپنا سفر نئے ہم سفروں کی رفاقت میں کیسے جاری رکھے گی؟ اُس وقت ایران اپنے اسٹرے ٹیجک عقائد پر نظر ثانی کرے گا، اور دنیا کا اس کے سلسلے میں نقطۂ نظر بنیادی تبدیلیوں سے دوچار ہوگا، خود عالمی طاقتوں بشمول امریکا کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کی ضرورت پیش آئے گی۔
ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے یہ جواز نہیں نکلتا ہے کہ ہم افغان مجاہدوں، شام کے انقلابیوں یا فلسطین کے مزاحمت کاروں کو ملامت کریں کہ انھوں نے ایسے مددگارو ںکی مدد کیوں قبول کی؟ حقیقت یہ ہے کہ ڈوبنے والے کے ہاتھ ایک تنکا بھی آجائے تو وہ چھوڑتا نہیں ہے، اسی طرح جن کی جانیں ارزاں مان لی گئیں اور انھیں ان کے گھروں سے ناحق نکال دیا گیا، ان کے سامنے بیرون سے مالی، سیاسی اور عسکری مدد قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ مدد کرنے والوں کے ساتھ تعلقات کے دوران ان کے خفیہ مقاصد اور اسٹرے ٹیجک اہداف سے آگہی ہو۔ ان کے ساتھ سادہ دلی اور حُسن نیت کے ساتھ معاملہ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ کوشش کی جائے کہ انھیں اپنے میدانوں اور اپنے مقصد سے قریب لایا جائے، ہوشیار رہا جائے کہ وہ اپنے میدانوں اور مقصد کی طرف کھینچ کر نہ لے جائیں۔ ساتھ ہی تعلقات میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کے لیے تیار رہا جائے، خاص طور سے اگر مددگار کے اہداف آپ کے اہداف کی تکمیل سے پورے تکمیل پاگئے ہوں۔
زیربحث موضوع کے حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ جب محاذ کئی ایک ہوں اور ہرمحاذ کے حالات جداگانہ ہوں تو مدد کے حوالے سے پختگی اور معروضیت ضروری ہوتی ہے۔ یہ لازم ہوتا ہے کہ ذمہ دار افراد، دیگر محاذوں پر ڈٹے ہوئے لوگوں کے معاملے میں انصاف کا دامن تھامے رہیں۔ اب یہ تو انصاف کی بات نہیں ہے کہ میں خود تو رخصت پر عمل کرکے اپنے بھائی کے دشمن سے سیاسی اور عسکری مدد حاصل کروں، پھر اپنے بھائی کو ملامت کروں کہ اس نے میرے دشمن سے مدد کیوں قبول کی؟ یہ بات بھی اہم ہے کہ مقامی فعالیت (activism)پر عمومی حمایت سے زیادہ توجہ مرکوز کی جائے۔ نصرت کے کئی ایک محاذ کھل جائیں اور بند راستے میں اِدھر اُدھر بہت سے رخنے پیدا ہوجائیں، تو امت کو زیادہ فائدہ ہوگا اور اس کی امیدوں کو زیادہ جِلا ملے گی۔ اس کے مقابلے میں کہ دور سے جذباتی اور زبانی حمایت کی جائے اور زمین پر اس کا کوئی واقعی اثر نہ ہو۔
الجیریا کے عظیم انقلاب کی تاریخ (۱۹۵۴ء- ۱۹۶۲ء) اس حوالے سے اپنے اندر قیمتی نصیحت رکھتی ہے۔ جب الجیریا میں انقلابی تحریک برپا ہوئی، –یاد رہے کہ وہ ہماری معاصر تاریخ کا عظیم ترین مجاہدانہ تجربہ تھا۔ اس وقت الجیریا کے انقلابیوں نے بالکل ابتدائی سفارتی سرگرمیوں کے تحت ویت نام کا تاریخی دورہ وہاں کے کمیونسٹ رہنما ’ہوچی منہہ‘ کی دعوت پر اور چین کا دورہ وہاں کے کمیونسٹ رہنما ’ماؤ زے تنگ‘ کی دعوت پر کیا۔ الجیریا کی جلاوطن انقلابی حکومت کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والے تین ملک تھے، جنھوں نے ایک دن کے اندر اسے تسلیم کرلیا تھا: چین، شمالی کوریا اور شمالی ویت نام (اس وقت ویت نام ایک نہیں تھا)۔ اسی طرح یوگوسلاویہ کے کمیونسٹ رہنما جوزف ٹیٹو کا الجیریا کے انقلاب کی عسکری اور سیاسی مدد کرنے والوں میں اہم مقام تھا۔
الجیریا کے انقلابیوں کو سیاق فہمی اور اسٹرے ٹیجکل حس کا بڑا حصہ ملا تھا۔ انھوں نے اپنی انقلابی کوششیں اس وقت برپا کیں، جب کہ ’کمیونسٹ مشرق‘ اور ’کیپٹلسٹ مغرب‘ کے درمیان ’سرد جنگ‘ اپنے عروج پر تھی۔ انھیں ادراک تھا کہ عالمی اقتدار کی اس تقسیم سے انھیں بہت فائدہ ہوگا، کیوں کہ اس وقت جس نے بھی مغربی بالادستی کے خلاف سر اٹھایا مشرقی محاذ کی طرف سے اسے بھر پور مدد ملی، جس کا مقصد مغرب کو زک پہنچانا تھا۔ الجیریا کے انقلابیوں کو فرائض کی درجہ بندی کا فہم تھا کہ ان کی اوّلین شرعی اور انسانی ذمہ داری فرانسیسی استعمار سے الجیریا کی قوم کو آزاد کرانا ہے۔
الجیریا کے انقلابیوں کی اکثریت اسلام دوستوں، روایت پسند قوم پرستوں اور دین دار وطن پسندوں پر مشتمل تھی۔ ان سے یہ بات مخفی نہیں تھی کہ عالمی سطح کے وہ کمیونسٹ رہنما، جو ان کی مدد کررہے تھے، عقیدے کے اعتبار سے وہ دنیا کے شدید ترین ملحدین تھے، اور ساتھ ہی وہ اس زمانے میں مغربی چین، وسطی ایشیا اور بلقان کی ان مسلم اقوام پر ظلم ڈھارہے تھے، جن کی قدیم شان دار اسلامی تاریخ تھی۔ لیکن اُس وقت الجیریا کے انقلابیوں کے بس میں یہ بات نہیں تھی کہ وہ تاجک، ازبک، بوسنیائی یا ایغور مسلمانوں کو کمیونسٹوں کے مظالم سے بچاسکیں، حالانکہ ان کے دلوں میں فطری طور پر ان کے لیے اخوت کے جذبات موجزن تھے۔
یہ بھی حکمت کے خلاف تھا کہ وہ کمیونسٹ رہنماؤں اور ان کی اسلام دشمنی کے خلاف زبانی بیان بازیاں کرکے اپنے متعین فریضے___ فرانسیسی قبضے سے قوم کی آزادی ___ کو نقصان پہنچاتے۔ یہ بیان بازیاں ان کے دینی بھائیوں کو تو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتی تھیں، مگر ان کے مشن کو ضرور نقصان پہنچاسکتی تھیں۔ متعدد محاذوں کی سمجھ اور ان محاذوں کے ’سرمئی علاقوں‘ کے فہم میں یہ اہم سبق ہے۔ انقلابی تحریک کے لیے یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے اُوپر عائد فرض کو نقصان پہنچائے، اس دلیل کی بناپر کہ وہ اپنے دینی بھائیوں کی مدد کرنا چاہتی ہے حالاں کہ وہ ان کے لیے کچھ نہیں کرسکتی ہے۔ اس کے اپنے مخصوص محاذ پر اس کا فعال کردار، آخری نتیجے کے اعتبار سے اس کے لیے بھی مفید ہوگا اور اس کے دوسرے مظلوم دینی بھائیوں کے لیے بھی۔
الجیریا کے اسلامی انقلابیوں نے ’سرد جنگ‘ کی عالمی تقسیم سے زبردست فائدہ اٹھایا، کمیونسٹ محاذ سے خوب سیاسی اور عسکری مدد بھی حاصل کی، تاہم انھوں نے اس کا پورا خیال رکھا کہ مصلحتوں کے دباؤ میں کمیونسٹ دھارے کے رنگ میں انھیں نہیں رنگ جانا ہے۔ الجیریا کی جلاوطن انقلابی حکومت کے صدر فرحات عباس نے اس مقدمے کو یوں بیان کیا: ’’ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اپنے مسئلے کے حق میں کمیونسٹ اقوام کی ہمدردی حاصل کرنے کا عمل، کمیونسٹ کیمپ سے کسی گہرے رشتے کی صورت اختیار کرلے‘‘۔ اسی حکومت کے وزیر خارجہ کریم بالقاسم نے اسی طرح کی بات کہی: ’’کمیونسٹ روسی اتحاد ہماری جدوجہد آزادی میں ہم سے تعاون کرنا چاہتا ہے، اس لیے ہمیں اس آمادگی سے فائدہ اٹھانا چاہیے، لیکن اپنی طرف سے مستقبل کے لیے کوئی شرط قبول کیے یا کچھ گروی رکھے بغیر‘‘۔
اس وقت یہ بات سوچنا، کہنا اور کرنا کچھ آسان بھی نہیں تھی۔ تاہم، بعض کمیونسٹ عناصر، اسلامی انقلابی تحریک میں سیندھ لگانے میں کامیاب ہوگئے تھے اور اسے اس کی اسلامی ڈگر سے ہٹانے کے درپے تھے۔ تریپولی کانفرنس ۱۹۵۹ء میں یہ چیز اُبھر کر سامنے آئی، لیکن الجیریا کی انقلابی قیادت کے شعور میں پختگی کے نتیجے میں اور پھر اسلامی مدافعانہ قوت کی وجہ سے جو محمدبشیر الابراہیمی (۱۸۸۹ء-۱۹۶۵ء) کی قیادت میں ’الحرکۃ الاصلاحیۃ الجزائریۃ‘ کے علماء نے الجیریائی قوم کے دلوں میں بوئی تھی، مدد دینے والی کمیونسٹ طاقتوں کو انقلاب پر قابو پانے میں کامیابی نہیں ملی۔
اشتراکی روس اور چین کے کمیونسٹ رہنماؤں کی تمنا تو یہ تھی کہ الجیریا سے مغربی اثر و رسوخ کا خاتمہ ہو اور اس کی جگہ کمیونسٹ نظام کو مل جائے، تاہم الجیریائی انقلابیوں نے اس تمنا کی پہلی شق سے فائدہ اٹھایا اور دوسری شق کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ انھوں نے کمیونسٹ کیمپ کے ساتھ مشترک علاقہ ایک محدود دائرے میں تشکیل دیا اور وہ تھا مغربی نفوذ کا مقابلہ۔ اس کے بعد وہ اپنی صفوں میں ہر طرح کے کمیونسٹ نفوذ کو روکتے رہے۔ انھوں نے اپنی انقلابی ڈگر کا اسلامی رخ پہلی چنگاری کے پھوٹتے ہی طے کردیا تھا۔ نومبر ۱۹۵۴ء میں ان کی پہلی قرارداد میں یہ صراحت تھی ’’ایک جمہوری سماجی الجیریائی ریاست کا قیام، جو اسلامی اصولوں کے دائرے میں بالادستی کی حامل ہوگی‘‘۔
ٹھوس سیاسی عمل کے یہ نشان راہ ہیں: گہرا سیاقی فہم، حساس اسٹرے ٹیجک حِس، گردوپیش کے ماحول کا ادراک، زمان و مکان اور امکان کے مطابق فرائض و واجبات کی درجہ بندی، ہر چیز جو مشن کے لیے مددگار ہو اسے حاصل کرنے کی کوشش، نیز ہر نفع بخش قوت کے ساتھ ’مشترک علاقوں‘ کی تشکیل اور اس کے آخری مقاصد سے قطع نظر اس کے ساتھ راستے کا کچھ حصہ طے کرلینا۔ جب کہ ’خوابوں میں رہنے والی‘ سادہ مزاج سیاست کا حال کچھ اور ہوتا ہے۔ اس کے علَم بردار سمجھتے ہیں کہ وہ ایسے عالم میں سرگرم ہیں جس میں ان کے سوا کوئی اور نہیں رہتا ہے، اس لیے وہ ’مشترک علاقوں‘ کی تشکیل کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتے۔ جب حالات کا جبر اور عملی ضرورتیں انھیں مجبور کردیتی ہیں کہ وہ کسی ناپسندیدہ فریق سے مدد حاصل کریں تو وہ حیرانی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنی ستھری شخصیت اور پاکیزہ سیرت کو اس سے بَری قرار دینے کی کوششیں کرنے لگتے ہیں، حالانکہ اس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ مزید مضحکہ خیز بات یہ کہ انھی کی طرح سے جب دوسرے لوگ رخصت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے کسی ایسے بیرونی فریق سے مدد حاصل کرتے ہیں جو امت کے کسی دوسرے محاذ پر ظلم و زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے، تو یہ بلاجھجک ان کے خلاف بے فائدہ بیان بازی کرتے ہیں اور ان پر الزام دھرتے ہیں کہ انھیں اپنے مظلوم بھائیوں کا خیال نہیں ہے‘‘۔
ماضی میں تو یہ ممکن تھا کہ افغان مجاہدین، وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ریگن سے ملاقات کریں، پھر پریس کے سامنے بیان دیں کہ ’’ہم تو اسلام کی دعوت دینے گئے تھے اور کسی بھی طرح کی امریکی مدد کے ملنے سے انکار کردیں، تاکہ سادہ لوح عوام کے سامنے ان کی تصویر محفوظ رہے۔ لیکن ابلاغ رسانی کے موجودہ زمانے میں بہتر یہ ہے کہ اس طرح کے انقلابی بچپنے سے چھٹکارا پایا جائے۔ عملی ذہانت اور اخلاقی انکسار کے ساتھ، کسی ریا کاری یا کٹ حجتی کے بغیر عملی سیاست کو اس کے اصولوں کے مطابق انجام دیا جائے۔ یہاں تک کہ ایک دشمن سے دوسرے دشمن کے خلاف مدد لینا بھی سیاسی عمل میں ایک فطری امر اور اس کے ’سرمئی علاقوں‘ کا اصلی حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ جیساکہ امریکی ادارے RAND کے اسٹرے ٹیجک مفکر البرٹ ووہلسٹیٹر(Albert Wohlstetter) کا کہنا ہے: ’’یہ ضروری نہیں ہے کہ ہمارے اہداف لازمی طور پر ہمارے دشمنوں کے اہداف سے متضاد ہوں‘‘۔
یہ افغان مجاہدین کی مدد کے لیے راولپنڈی اور پشاور کے چیمبر ہوں، یا شامی انقلابیوں کی مدد کے لیے موک (Military Operation Center) اور موم (Musteek Operayson Merkezi) کے چیمبر، ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ سب اسٹرے ٹیجک کمرے ہیں، جہاں سے علاقائی قوتیں عالمی قوتوں کی نیابت میں جنگی کارروائیاں انجام دیتی ہیں۔ اینٹی کرافٹ اسٹینگر میزائل جو آٹھویں دہائی میں امریکا نے افغان مجاہدین کو فراہم کیے اور اینٹی ٹینک ٹاو میزائل جو کچھ سال قبل امریکا نے شامی انقلابیوں کو فراہم کیے تھے، دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ سب امریکی ہتھیار ہیں، جو اللہ کو راضی کرنے کے لیے نہیں دیے جاتے ہیں اور نہ امریکا کے لائسنس کے بغیر بیچے جاتے ہیں۔ نہ تو ماضی میں افغان مجاہدین کے لیے انھیں قبول کرنا عیب کی بات تھی اور نہ موجودہ حالات میں شامی انقلابیوں کے لیے انھیں حاصل کرنا عیب کی بات ہے اور نہ مدد کی کوئی دوسری صورت قابلِ ملامت ہے، اس سے قطع نظر کہ مدد کرنے والوں کی نیتیں کیا ہیں۔
کچھ لوگ بحث کرسکتے ہیں کہ ’’اصولوں کو ٹکڑوں میں نہیں بانٹا جاسکتا ہے‘‘، یہ درست نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ایک محاذ پر اُس طاقت سے مدد لی جائے جو دوسرے محاذ پر امت سے برسرپیکار ہو اور یہ کہ امت کی وحدت کا لازمی تقاضا ہے کہ معرکے کے تمام محاذ متحد ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف تجریدی سطح پر اصولوں کے ٹکڑے نہیں ہوسکتے، لیکن عملی سطح پر اصولوں کے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ یہ اجزا باہم کش مکش بھی کرتے ہیں اور ان کے درمیان تقدیم و تاخیر، نیز تطبیق کے وقت سیاق کی رعایت بھی ضروری ہوتی ہے۔ سیاسی عمل کو انجام دینے والے کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہوتا ہے کہ باہم دست و گریباں اصولوں اور باہم متضاد مصلحتوں سے کیسے صحیح تعامل کرے؟ اگر معاملات سیاہ اور سفید کی طرح ہوتے تو سیاسی عمل پانی پینے کی طرح آسان ہوتا، لیکن وہ تو کیمیائی فارمولے کی طرح پیچیدہ ہوتا ہے۔
اُمت کی وحدت کے اصول پر ہم ان بحث کرنے والوں کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں، لیکن محاذوں کی وحدت صرف مثالی دنیا میں درست ہوسکتی ہے، یعنی جب امت سیاسی طور پر ایک ہو اور اس کی قانونی ذمہ داری ایک ہو۔ یہ وہ مثالی حالت ہے جس پر یہ حدیث نبویؐ منطبق ہوتی ہے: ’’مسلمانوں کے خون برابر ہوتے ہیں، ان کے کسی عام شخص کی دی ہوئی امان سب کے لیے محترم ہوتی ہے اور وہ دوسروں کے مقابلے میں ایک ہاتھ کی طرح ہیں‘‘ (مسند احمد)۔ ایسے مثالی منظرنامے میں مطلوب اخلاقی سطح کو بلند کیا جاسکتا ہے اور تمام محاذوں پر مصروف لوگوں سے مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ دوسرے محاذ والوں کے ساتھ برابری کا معاملہ کریں یہ مان کر کہ تمام سرحدیں ایک محاذ ہے، اسے وہ ’ولاء وبراء‘ کا اصول بنادیں اور سیاسی تعلقات کو منضبط کرنے کا پیمانہ بنادیں۔
تاہم، موجودہ صورت حال میں، جب کہ امت کا شیرازہ پارہ پارہ ہے اور فرقہ بندی کا دور دورہ ہے، اللہ کی رحمتیں ہو اس پر جو اپنی قدر پہچان لے اور اپنے محاذ پر حسن کارکردگی کے ساتھ ساری توجہ دے۔ تیونس سے اسلامی مفکر راشد غنوشی (اللہ ان کو اسیری اور بے بسی کے کرب سے نجات عطا کرے) ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ’’مسلم امت ایک دن میں پوری دفعتاً زوال کا شکار نہیں ہوئی، بلکہ ایک ایک اینٹ گرتی گئی، اور اس کی تعمیرِ نو بھی اسی طرح ہی ہوگی‘‘۔ اس لیے آج کسی محاذ کے لوگوں کو دوسرے محاذ والوں سے ناحق توقعات نہیں رکھنی چاہییں، بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ ہر محاذ کے لوگ اپنے محاذ اور میدان میں، اپنی عملی سیاست پر عمل کریں، نیز کسی بھی دوسرے محاذ پر اپنے بھائیوں کی کامیابی حاصل کرنے پر خوش ہوتے رہیں، خواہ وہ کامیابی ایسی علاقائی اور عالمی طاقتوں کی مدد لے کر حاصل ہوئی ہو، جن کے مظالم کا دوسرے محاذ والے نشانہ بن رہے ہوں۔
ہماری تاریخ ایسے مسلم امرا سے بھری پڑی ہے، جنھوں نے مسلمانوں پر ظلم ڈھائے اور داخلی سیاسی معرکوں میں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے، پھر انھوں نے ہی سچائی اور شجاعت کے ساتھ کفر کے لشکروں سے مقابلہ کیا جو بیرون سے امت پر حملہ آور ہوئے، اور اُن کے منہ پھیر دیئے۔ امت کے علما نے ان امرا کے مظالم کی مذمت کی، لیکن بیرونی دشمن کے خلاف جہاد میں ان کے ساتھ کھڑے ہونے میں ذرا تردّداور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان ظالم امرا کے ساتھ ان کے کھڑے ہونے کی وجہ ان سے محبت یا ان کی لاقانونیت پر اطمینان نہیں تھا، بلکہ امت کے وجود اور اسلام کے مستقبل کی حفاظت سے پیش نظر تھی۔
اگر علمائے اسلام ان تضادات کو اس نگاہ سے دیکھتے، جس نگاہ سے موجودہ زمانے کے یہ سادہ لوح اور حجت پسند لوگ دیکھتے ہیں، تو امت پر حملہ آور دشمنوں کے خلاف جہاد نہ کرنے کی دلیل دے کر جہاد موقوف کردیتے کہ ’’جو شخص مسلمانوں کو قتل کرے، یا ان پر ظلم کرے، اس کا دشمن کو دفع کرنا قابل قبول نہیں ہے اور اس کے جہاد اور دفاعِ امت کی تائید نہیں کی جائے گی‘‘۔ لیکن اس کے برعکس علمائے اسلام نے اس کا ادراک کیا کہ اس سلسلے میں اضافی مصلحتوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جائے گا، نیز یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ ’’اس دین کو فاجر شخص اور بے نصیب افراد کے ذریعے بھی قوت عطا کرے گا‘‘، جیسا کہ احادیث میں ذکر ہے۔ مزید برآں یہ واقعاتی حقیقت کہ انسانوں میں بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی رہتی ہے، جن کی سیرتوں میں نیک اعمال اور بُرے اعمال کا اختلاط پایا جاتا ہے۔
اسی لیے علمائے اسلام نے واضح کیا ہے کہ ’’ایسا ہوسکتا ہے کہ مسلمان کچھ لوگوں سے ایک پہلو سے محبت کرے تو دوسرے پہلو سے نفرت کرے، ایک پہلو سے دوست بنائے تو دوسرے پہلو سے دشمنی رکھے‘‘۔ یہ نظریہ امام ابن تیمیہؒ کی تحریروں میں بہت بار ذکر ہوا ہے۔ انھیں بھی بالکل ہمارا جیسا پیچیدہ زمانہ ملا تھا، کہ جب امت کی حرمت پامال کی جارہی تھی، پشت پناہوں اور مددگاروں کی شدید قلت تھی اور کوئی اسلامی علاقہ مسائل سے پاک نہیں تھا۔
ابن تیمیہ اپنے زمانے میں کتیبۃ الاسلام (اسلامی دستے) کی نصرت کے لیے کوشاں تھے۔ یہ مصر اور شام میں ممالیک کی جواں سال ریاست تھی، جس کے بارے میں انھوں نے لکھا: ’’یہ گروہ جو شام اور مصر میں اس وقت ہے وہ اسلام کا دستہ ہے، اس کی عزت اسلام کی عزت ہے اور اس کی ذلت اسلام کی ذلت ہے۔ اگر تاتاروں نے اس پر قبضہ کرلیا تو اسلام کے لیے نہ عزت بچے گی، نہ کلمہ بلند رہے گا، نہ غالب گروہ، کہ جس سے اہل باطل ڈریں۔ اس لیے ہم ان کی طرف سے جنگ کریں گے‘‘۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ)
غرض اُس زمانے میں، جب کہ اُمت کا شیرازہ بکھر گیا تھا اور وہ ٹکڑوں میں بٹ گئی تھی، مغرب سے صلیبی دشمن حملہ آور تھا اور مشرق سے منگول، اس وقت امام ابن تیمیہ نے اپنے متعین فرض کا ادراک کیا تھا اور وہ تھا اپنے زمان و مکان میں ’اسلامی دستے‘ کی مدد۔ وہ اُمت کو درپیش مختلف مسائل سے ناواقف نہیں تھے، امت کے جسم پر رِستے ہوئے زخموں کی کثرت بھی ان کے سامنے تھی، لیکن انھوں نے اپنا ہاتھ معرکے کے قلب پر رکھ دیا۔ اس وقت معرکے کا قلب جہاں سارے راستے آکر ملتے تھے، اور چیلنجوں اور خطرات کا جہاں ہجوم تھا وہ منگولوں کا حملہ تھا، جو عراق اور شام کو روندتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اگر بیسان کے قریب عین جالوت کے معرکے میں ممالیک کی فوج نے اسے شکست نہ دی ہوتی تو فلسطین کے دروازے سے وہ طوفان مصر پہنچ جاتا۔ غرض وہ فلسطین کا دروازہ تھا، جس کے راستے منگولوں نے آخری جواں سال مسلم طاقت یعنی مصر میں ممالیک کی سلطنت کو کچلنے کی کوشش کی تھی، اور پھر وہ غزہ کا دروازہ ہی تھا جس سے داخل ہوکر برطانوی افواج نے یروشلم کی حرمت کو پامال کیا تھا۔ ۱۹۱۷ء میں جنرل النبی کی قیادت میں یہ فوج مصر کی طرف سے داخل ہوئی اور اس نے وہ زخم دیا، جس سے آج تک خون رس رہا ہے۔
آج غزہ کے مجاہدین پر امام ابن تیمیہ کا وہی قول صادق آتا ہے، جو انھوں نے مصر اور شام کے لوگوں کے بارے میں فرمایا تھا: ’’ان کی سربلندی اسلام کی سربلندی ہے اور ان کی ذلت اسلام کی ذلت ہے‘‘۔ آج غزہ کے لوگ جس معرکے میں جوہرِ شجاعت دکھارہے ہیں، وہ آنے والی نسل کے لیے اس امت کا مستقبل طے کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا: غلبہ و سربلندی یا شکست و رُسوائی۔ اس وقت ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم اُس مجاہد عالم کی اقتدا کریں جو جذبۂ عمل سے سرشار تھا اور غزہ میں برسر پیکار ’اسلامی دستے‘ کی نصرت کریں۔ کیوں کہ اس کی نصرت پوری اُمت کی قوتِ مدافعت بڑھائے گی اور اگر خدا نخواستہ اسے شکست ہوگئی تو پوری امت کی حرمت پامال ہوجائے گی۔ کتنا اچھا ہو اگر تمام محاذوں کے لوگ اس بھرپور منظرنامے کو سمجھ لیں، جو آج ’طوفانِ اقصی‘ پیش کررہا ہے۔
متعدد محاذوں کے فہم کا حاصل جسے ہم یہاں نمایاں کرنا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ شامیوں پر تنقید کریں کہ وہ امریکی عسکری امداد کیوں قبول کرتے ہیں اور امریکا کا اس پر شکریہ ادا کیوں کرتے ہیں؟ کیوں کہ سیاسی تعلقات اور سفارتی روابط کا یہ بدیہی تقاضا ہے۔ اسی طرح شامیوں یا عراقیوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ فلسطینیوں پر تنقید کریں کہ وہ ایرانی عسکری امداد کیوں قبول کرتے ہیں اور اس پر ایران کا شکریہ کیوں ادا کرتے ہیں؟ کیوں کہ سیاسی تعلقات اور سفارتی روابط کا یہ بدیہی تقاضا ہے۔ سیاسی حکمت عملی کا تقاضا یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کی قوت کو اپنی قوت سمجھے اور جو چیز اس کے لیے نفع بخش ہو اس کے حصول کی فکر کرے۔
یہ انصاف کی بات نہیں ہے کہ حماس اور دیگر تنظیموں کے فلسطینی مزاحمت کاروں کو ایران سے مالی اور عسکری امداد قبول کرنے پر ملامت کا نشانہ بنایا جائے۔ اس سے قطع نظر کہ ایران کے مقاصد، اس کی اسٹرے ٹیجی اور دوسرے محاذوں، خاص کر شام کے محاذ پر اس کا کردار بہت خراب رہا ہے۔ اپنے بھائی سے یہ مطالبہ نہ کرو کہ وہ تمھارے دشمن سے برأت کا اعلان کرے، جب کہ تم اس کے دشمن سے مدد حاصل کررہے ہو، بلکہ اس کے حالات کو سمجھو اور اس سے توقع رکھو کہ وہ تمھارے حالات کو سمجھے۔ اگر نیتیں درست ہوں اور دلوں میں خلوص ہو، تو دلوں کا دائمی رشتہ وقتی سیاسی مفادات کے ٹکراؤ سے زیادہ طاقت ور ہوتا ہے۔
البتہ تمام لوگوں کا تمام لوگوں پر یہ حق ہمیشہ قائم رہے گا کہ کوئی اپنے بھائی کے خلاف کسی ظالم کی مدد نہ کرے اور اپنے بھائی پر کسی ظالم کے ظلم کو جائز نہ ٹھیرائے۔ دین، خون، تاریخ اور جغرافیہ کے رشتوں کا یہ کم سے کم لازمی تقاضا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ وہ چیز ہے جس کا اصولی التزام ان محاذوں کا سوادِ اعظم کرتا ہے۔ اس کی وجہ ایمانی اور انسانی اسباب ہیں جو سیاسی مصالح سے ماورا اور بالا تر ہوتے ہیں۔
اچھی طرح واضح رہے کہ ’مشترک محاذوں‘ کے بارے میں یہ بحث کسی بھی حال میں ہرگز اس دشمن سے مدد لینے کی گنجائش نہیں رکھتی ہے، جو سب کا مشترک جانی دشمن ہے، یعنی صہیونی ریاست۔ جس کے وجود، جس کی عداوت اور جس کے مغربی پشت پناہوں کی عداوت کی بھاری قیمت علاقے کی تمام قومیں مسلسل ادا کررہی ہیں۔ امت کے قلب میں پیوست اس خنجر کی وجہ سے عراقی اور شامی اقوام جس الم سے دوچار ہیں، وہ فلسطینیوں کے الم سے کم نہیں ہے۔
ہماری یہ بحث اس سے نہیں روکتی کہ ہر محاذ کے لوگوں کو اپنے سیاسی تعلقات بہتر انداز میں برتنے کے سلسلے میں مشورے اور نصیحتیں کی جائیں۔ خود ہم نے اس سے پہلے کئی بار حماس کو سیاسی تعلقات برتنے اور اس سلسلے میں مناسب تعبیرات اختیار کرنے کے سلسلے میں ناقدانہ توجہ دلائی ہے۔ لیکن تنقید کا وقت بھی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ بھی سیاق فہمی کا ایک حصہ ہے۔ امن وسکون کے زمانے میں وہ تنقید محفوظ تر اور مؤثر تر ہوتی ہے۔ لیکن جب کسی محاذ کے لوگ ہلاکت خیز جنگ کا سامنا کررہے ہوں جیسا کہ آج غزہ والوں کا حال ہے، تو ایسے میں مدد اور پشت پناہی، کسی دانش ورانہ تنقید اور وعظ پر مقدم ہوتی ہے۔
اس وقت، جب کہ حماس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور فنا کردینے کی کوشش ہورہی ہے، حماس کے خلاف مہم چھیڑ دینا اور اس بات پر سختی سے ان کا محاسبہ کرنا تنگی کی گھڑی میں ایران کی اسٹرے ٹیجیکل مدد کے جواب میں ایرانی رہنماؤں کی تعریف میں اُن بے چاروں نے چند الفاظ بول دیے ہیں، یہ بتاتا ہے کہ آج عربوں کی سیاسی ثقافت بچکانہ پن کے امراض میں کس طرح گرفتار ہے۔ ناحق توقعات، انصاف سے پہلوتہی، اسٹرے ٹیجیکل حِس کا ضعف اور سیاقی فہم کا فقدان وہ امراض ہیں جن میں یہ لوگ گرفتار ہیں۔
کتنا اچھا ہو اگر متعدد محاذوں کے وہ لوگ جو باہم لفظی جنگ میں مصروف ہیں، مصر کے بھائیوں سے سبق سیکھتے۔ متعدد محاذوں کے حوالے سے بڑے خواب دیکھنے والے، بڑا دل رکھنے والے، بھاری ایثار کرنے والے اور ان کے حالات کو اچھی طرح سمجھنے والے، مصر کے حریت پسندوں جیسے میں نے نہیں دیکھے۔ ان کے اپنے ملک میں انھیں مارا پیٹا اور کچلا دبایا گیا، قید و بند اور جلاوطنی سے وہ دوچار رہے، لیکن فلسطین کے حریت پسند جب مصری حکومت کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں یا اس کی تعریف کرتے ہیں تو ہم ان کی زبان سے مذمت کا کوئی ایک لفظ نہیں سنتے ہیں۔ اسی طرح جب یمن اور سوڈان کے حریت پسند مصری حکومت سے مدد مانگتے ہیں یا اس کی پناہ لیتے ہیں، تو ان کے خلاف بھی کوئی ایک لفظ نہیں سنتے ہیں۔
اس بات پر مجھے بہت خوشی ہے کہ جماعتِ اسلامی سے وابستہ اپنے بھائیوں اور بہنوں سے ملاقات کا موقع مل رہا ہے۔ میرے لیے علّامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے شہر لاہور میں آنا بھی بے پناہ خوشی کا باعث ہے، کیونکہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جنھیں علّامہ اقبال کے سیکڑوں اشعار کا عربی ترجمہ زبانی یاد ہے۔ اسی دوران مجھے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے مرقد پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی، جن سے مجھے بے حد محبت ہے اور میں نے ان کی کتب اور ملفوظات سے بہت فیض حاصل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سیّدی مودودی کی قبر پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے، آمین!
مَیں چونکہ بین الاقوامی تعلقات کی کلاسیں پڑھاتا ہوں، لہٰذا ذرا گہرائی میں جا کر موجودہ عالمی سیاسی منظرنامہ کے اندر اُمتِ مسلمہ کی صورت حال پر عمومی بات کروں گا۔ دورِ حاضر میں ہم دُنیا میں زمینی سطح پر اور سمندروں میں بڑی طاقت ور عالمی قوتوں کے درمیان ایک تاریخی کش مکش کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ موجودہ عالمی سیاست میں بَرّی طاقتوں سے مراد چین، روس اور ہندستان جیسے مشرقی ممالک ہیں،جب کہ بحری طاقتوں سے مراد امریکا اور یورپ ہیں۔
گذشتہ چند عشروں میں کارفرما یک قطبی (Uni-polar)عالمی سیاست میں بین الاقوامی نظام کی باگ ڈور بلاشرکت غیرےامریکا کے ہاتھ میں رہی ہے۔ اب ہم بین الاقوامی نظام میں ایک نئی ٹوٹ پھوٹ کا مشاہدہ کررہے ہیں، اور عالمی طاقت مغرب سے مشرق کی طرف بالخصوص چین کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تزویراتی مفکرین کی اکثریت آج چین کی اُبھرتی ہوئی طاقت کے ظہور کی بات کر رہی ہے۔ ’چین کا طلوع‘ (Rise of China) ایک ایسی اصطلاح ہے، جس کی تکرار مغربی مفکرین،روزانہ کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔ اسی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے سامنے عالمی میدان میں ایک مسابقت اور ایک کش مکش کو پروان چڑھتا دیکھ رہے ہیں، جسے سردجنگ (Cold War) کی نئی شکل بھی کہا جا سکتاہے، اوراسے پہلے سے قائم سپر پاورزاور ’نئی اُبھرتی سپرپاورز‘ (Emerging Powers )کے درمیان ہمیشہ رہنے والے ٹکراؤ سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں ۔
آج ایک طرف چین اور روس کی ابھرتی طاقتیں ہیں اور دوسری طرف امریکا و یورپ روایتی سپرپاورز کے درمیان ٹکراؤ چل رہا ہے ۔اس ٹکراؤ اور کش مکش کو سمجھنا اور اس کا ادراک کرنا مسلم دُنیا کے ایک ایک فرد کےلیے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ ہم وہ لوگ ہیں جو ان دونوں بَرّی طاقتوں اور بحری قوتوں کے درمیان پس رہے ہیں، موجودہ سپرپاورز اور نئی اُبھرتی ہوئی پاورز کے درمیان پس رہےہیں۔
ہم اُمتِ وسط ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے محلِ وقوع اور جغرافیہ کے لحاظ سے بھی اُمتِ وسط ہیں، اور اس لحاظ سے بھی کہ ہم نہ مشرقی بلاک کا حصہ ہیں اور نہ مغربی بلاک کا۔ لاشرقية لاغربية، إسلامية إسلامية کا نعرہ میرے خیال میں اُمت ِ مسلمہ کی سیاسی و جغرافیائی پوزیشن کا درست اظہار ہے۔ اُمتِ مسلمہ نہ شرقی ہے اور نہ غربی، بلکہ یہ اُمتِ وسط ہے۔ یہ نہ محض خشکی پر ہے اور نہ صرف بحرپر متمکن بلکہ یہ بحروبر کی طاقت کا ایک امتزاج ہے۔
اللہ عزّوجل کی حکمت کاکس قدر خوب صورت مظاہرہ ہے، جو اللہ نے اپنا پیغام انسانیت تک پہنچاتے ہوئے دنیا کو دکھایا۔ آپ دیکھیے کہ اسلام کا ظہور مکہ میں ہوا، جو ہے توایشیا کے شمال میں ، مگر ایک جانب وہ برِاعظم افریقہ سے بہت قریب ہے اور دوسری جانب یورپ سے بھی اس کا فاصلہ انتہائی کم ہے ۔ گویا اسلام کا سوتا جہاں پھوٹا وہ سرزمین تین بڑے براعظموں کے سنگم پر واقع ہے۔ اور پھر اسلام جزیرہ نما عرب سے ،پَر پھیلائے ایک ایسے بڑے پرندے کی مانند پھیلتا چلا گیا، جس کا ایک پَر ایشیا کے جنوب میں تھا تو دوسرا افریقہ کے شمال پر محیط۔ آپ جانتے ہیں کہ اقبال نے اپنی شاعری میں مسلمانوں کے لیے عام طور پر ’شاہین‘ کی تمثیل استعمال کی ہے۔مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مسلم دنیا کی جغرافیائی ہیئت ایک عظیم الجثہ ’شاہین‘ کی مانند ہے، جس کا دل مکہ و مدینہ ہے اور اس کے پَر ایشیا کا جنوب اور افریقہ کا شمال ہیں۔ یہی وہ جیو پولیٹیکل تناظر ہے، جو طاقت کی بحری و برّی طاقتوں اورحالیہ سپر پاورز اور اُبھرتی ہوئی نئی سپر پاورز کے درمیان درپیش رہا ہے ۔
چین کی اُبھرتی طاقت جسے شکاگو یونی ورسٹی کے پروفیسر جان میرشیمر (Mearsheimer) کی اصطلاح میں ’زور پکڑتا طوفان‘(The Chinese Gathering Storm) کہا جا سکتا ہے۔ گویا چین ایک ایسا طوفان ہے جو تمام عالم کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے قوت پکڑ رہا ہے۔ اسی دوران ہم، بے سمتی کے کچھ برسوں کے بعد روس کوبھی ایک نئی کروٹ لیتا دیکھ رہے ہیں ۔ بے سمتی کا یہ عرصہ گورباچوف اور بورس یلسن کے اقتدار پر محیط رہا، جس کے بعد ولادی میر پیوٹن ایک زخمی بھیڑیئے کی روح سمائے روس کا مطلق العنان حکمران بن گیا۔ پیوٹن روس کو عظیم بنانا چاہتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے ڈونلڈ ٹرمپ کا نعرہ امریکا کو دوبارہ عظیم تر بنانے کا تھا۔
طاقت کاتیسرا مشرقی کھلاڑی ہے ہندستان۔ یہ عالمی سیاست کا ایک نہایت گنجلک کیس ہے۔ یہ بحری و برّی دونوں طرح کی طاقت رکھنے کے باوجود کئی تضادات کا شکار ہے۔ تاریخی طور پر ہندستان دنیا کی ایک عظیم مسلم سلطنت مغل بادشاہت کی سرزمین رہا ہے، تاہم آج یہ مسلم اکثریتی ملک بھی نہیں ہے۔ انڈونیشیا اور پاکستان کے بعد تیسری بڑی مسلم آبادی رکھتا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ مسلم ملک نہیں ہے۔ ہندستان مسلم جغرافیہ کے بیچوں بیچ واقع ہےکہ یہ مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ایشیا کے مسلمانوں کو جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں سے جدا کررہاہے۔ مزید یہ کہ ہندستان اپنے جغرافیہ اور اپنی آرزوؤں کے درمیان بٹا ہوا ہے ۔ جغرافیائی طور پر مشرق میں واقع ہے ، لیکن اس کی اُمنگوں کی منزل مغرب ہے۔ گویا گھر تو اس کا ایشیا ہے، مگر دل یورپ میں ہے۔ یقیناً مسلم دُنیا کے لیے ہندستان بہ حیثیت ایک نسل پرست ہندو ریاست کے، ایک بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان کے لیے تو یہ ہمیشہ ہی سے ایک مسئلہ رہا ہے، مگر جب سے مودی اقتدار میں ہے، آج کا ہندستان اپنے ملک میں سیکڑوں برسوں سے آباد مقامی ہندستانی مسلمانوں کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ فاشزم کے راج اور فاشزم کے خواب نے اسے بڑی خطرناک صورت حال میں لاکھڑا کیا ہے۔
سرد جنگ اور حریفانہ کشاکش کے اس منظرنامہ میں عالم اسلام کی حیثیت، جنگ کے ایک میدان کی سی ہے ۔ برطانوی ماہرسیاسیات جیمز فیرگریو نے ’تباہی کا علاقہ‘ (Crash Zone) کی اصطلاح استعمال کی ہے ۔ہم اس کشاکش میں بطور فریق شریک نہیں ہیں بلکہ اس حریفانہ کش مکش کا شکار ہیں۔ گویا عالمِ اسلام طاقت کے اس کھیل میں بطور ’جنگی اکھاڑہ‘ (Battle field) کے استعمال تو ہورہا ہے، لیکن بطور کھلاڑی شریک نہیں ہے ۔یہ مسئلہ آج کا نہیں ہے بلکہ جب سے مسلم اُمہ، دو عظیم طاقتوں (یعنی) مغلیہ سلطنت اور عثمانی خلافت سے محروم ہوئی ہے، عالم اسلام کی حیثیت اوروں کے لیے ایک میدانِ جنگ ہی کی بن کر رہ گئی ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ مسلمان آج عالمی نظام کا فعال حصہ نہیں رہے۔اُمت اس وقت اندرونی خلفشار کا شکار ہے اور اور بیرونی طاقتوں کے سامنے بے آسرا ۔ ایک ایسی امت کا یہ حال بہت افسوس ناک ہے کہ جس نےانسانیت کی رہنمائی اورقیادت کرنی تھی ، اور جسے شهداء على الناس بننا تھا۔ تزویراتی طور پر جب آپ بے آسرا، دفاعی حوالے سے کمزور،اور معاشی و سیاسی انتشار کا شکار ہوں تو کبھی بھی شهداء على الناس نہیں بن سکتے۔ جب آپ عالمی اتار چڑھاوٴ میں کوئی وزن ہی نہیں رکھتے، پوری انسانیت کے لیے حجت اور شہادت کیوں کر بن سکتے ہیں ؟
بطور امت ہمیں آج جن خوفناک چیلنجوں کا سامنا ہے، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایمان اور اتحاد کی قوت درکار ہے۔ مسلمانوں کے درمیان وحدت اور اتحاد، وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور ہمیں اس وحدت کے قیام کی کوشش کرنی ہے۔ وحدت سے میری مراد ایک عالم گیر خلافت کے تحت قائم سیاسی وحدت نہیں ہے، بلکہ میری مراد مسلم دنیا کے مابین اسٹرے ٹیجک ارادے اور عزم (Will)کی وحدت ہے۔آپ جانتے ہیں کہ مغربی دنیا سیاسی طور پر ایک نہیں ہے۔ ۲۴سرکاری زبانوں اور بہت سی نسلی اکائیوں کے حامل ۲۸ ممالک،’یورپی یونین‘ (EU)کہلاتے ہیں۔ یورپ کے باسیوں کے درمیان قدرِ مشترک یا تو ان کا مسیحی پس منظر ہے، یا ان کا یونانی و رومی ورثہ مشترک ہے، جس کی بنیاد پر یہ ممالک اپنا اسٹرے ٹیجک ارادہ ایک بنانے میں کامیاب ہوئے۔ فرانس اورجرمنی، پولینڈ اور برطانیہ اور دیگر یورپی قوموں کا اتحادان مشترکات پر قائم ہے۔حالانکہ ان قوموں کے درمیان بڑی خوں ریز جنگوں کی ایک طویل تاریخ، یہاں کے لوگوں کو اَزبر بھی ہے۔ ان کے مقابلے میں ہم مسلمانوں کے درمیان اس سے کہیں زیادہ مماثلتیں اورمشترکات موجود ہیں۔ طویل یکساں تاریخ، مشترک عقیدہ، ایک ہی قبلہ اور ایک ہی کتاب ہماری بڑی طاقت ہیں۔
مسلم دنیا جغرافیائی لحاظ سے بھی مغرب سے کہیں زیادہ باہم مربوط ہے۔بطور مثال اگر ہم آسٹریلیا کو دیکھیں ،آسٹریلیا اور برطانیہ کا درمیانی فاصلہ کتنا زیادہ ہے ؟لگ بھگ ۱۵ہزار کلومیٹر ۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ، امریکا سے کس قدر فاصلہ پر ہیں ؟وہی ۱۵ ہزار کلومیٹر کی مسافت پر ۔ مسلم دنیا میں ہمیں باہم اس قدر فاصلہ کہیں نہیں ملتا ۔ مثال کے طور پر مسلم دنیا کے قلب (خطۂ حجاز) سے بعید ترین ملک کا فاصلہ ، مثلاً یمن کا انڈونیشیا سے فاصلہ اگر لیں تو ۵ہزارکلومیٹر سے زیادہ نہیں ہوگا۔
گویا مسلم دنیا میں اسٹرے ٹیجک اتحاد و یگانگت کی صلاحیت اور امکان کہیں زیادہ ہے۔ اگر یہ اتحاد بروئے کار آجائے تو عالمی منظرنامے پر اس کی موجودگی اور اس کا اثر بہت گہرا ہوگا۔ مسلم دنیا کے روایتی حدود کو بتانے کے لیے مسلم جغرافیہ دان ایک اصطلاح استعمال کرتے آئے ہیں من فرغانا اِلٰى غانا (فرغانہ سے گھانا تک)۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں فرغانہ، ازبکستان میں ہے ، اور گھانا مغربی افریقہ میں ۔اور آج بھی عالم اسلام کی حد بندی یہی ہے ۔اس دور کے عظیم الجزائری مفکر مالک بن نبی نے مسلم دنیا کی حدود بتانے کے لیے من طنجا اِلٰى جاكرتا (طنجا سے جکارتا تک) کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ مراکش کےشہر طنجا سے لے کر انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ تک مسلم دنیا کے حدودہیں۔یہ کم و بیش وہی جغرافیہ ہے جس کا احاطہ مشہور سیاح ابن بطوطہ نے اپنےسفرنامے میں کیا تھا۔ ابن بطوطہ چودھویں صدی کے سیاح تھے۔انھوں نے اپنے سفر کا آغاز طنجا سے کیا،اور بہت سے مسلم ممالک ،اوراس وقت کی اصطلاح میں بلاد الهند والسند یعنی برصغیر ہند و پاک میں بھی آئے۔وہ آٹھ برس تک ہندستان میں قیام پذیر رہے اور نہ صرف یہاں قاضی کے فرائض انجام دیئے بلکہ ہندستانی فرماںروا کے سفیر بن کر چینی بادشاہ کے ہاں بھی گئے۔ اس طرح انھوں نے مغربی افریقہ سے جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا تک تمام مسلم دنیا میں سفر بھی کیا اور قیام بھی ۔ لہٰذا، ہمیں مسلم دنیا کے اسی تاریخی اسٹرے ٹیجک اتحاد کی بازیافت کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔
ہمیں مسلمانوں کے اسٹرے ٹیجک ارادے اور خواب کو ایک کرنے کی ضرورت ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہم ایک سیاسی اکائی بن جائیں ۔ہمیں مسلم ممالک کے درمیان اپنی باہمی سرحدیں کھولنے کی ضرورت ہے ۔مسلم ممالک کے درمیان باہمی طور پر معاشی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ہمیں عالم اسلام میں فوجی اتحادوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر عرض کرتا ہوں، ویسا ہی دفاعی معاہدہ جیسا کہ مغرب میں ’ناٹو‘ ہے ۔ہمیں ایسی چیز کی ضرورت ہے، جسے اقبال نے ’اسلامی دولت مشترکہ‘ کہا تھا ۔ انھوں نے ’مسلم کامن ویلتھ‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے اور ’مسلم لیگ آف نیشنز ‘کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے ۔ دوسرے اسلامی محققین نے بھی اس کے بارے میں بات کی ہے ۔جیسا کہ مالک بن نبی نے اپنی کتاب اسلامک کامن ویلتھ میں اور سنہوری نے اپنی کتاب خلافت میں بات کی ہے، کہ کیسے ایک ’اسلامک لیگ آف نیشنز‘ کو ترقی دی جاسکتی ہے ۔موجودہ زمانے کے محققین بھی اس طرح کی ملتی جلتی فکر پیش کررہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وقت آچکا ہے کہ ہم اپنے محدود تصوراتی خول سے نکلیں اور عالمی تناظر میں اس معاملے کو دیکھیں۔ مسلمانوں کی آج کے عالمی منظرنامے میں کیا پوزیشن ہے یا کیا پوزیشن ہوسکتی ہے؟ اس پر غور کریں۔اس مقصد کے حصول کے لیے ہمیں ایک حکمت عملی پر مبنی فکر کی ضرورت ہے۔
دنیا بھر کی تحریکات اسلامیہ کو نئی سوچ بچار (thinking) کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں اسٹرے ٹیجک تعلیم کی نئی طرح ڈالنی ہوگی۔ ہم سب تحریک اسلامی سے وابستہ لوگ ہیں اور تحریک اسلامی کے تربیتی پروگراموں سے گزرے ہیں، لیکن افسوس اور حسرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ مجھے ان سارے تربیتی مرحلوں میںکہیں اسٹرے ٹیجک تھنکنگ اور اسٹرے ٹیجک تعلیم کے بارے میں کوئی سنجیدہ پروگرام یاد نہیں آتا کہ ہواہو۔میری پختہ رائے ہے کہ ہمیں اپنی نئی نسل کے لیے اسٹرے ٹیجک تھنکنگ کا نیا پراگرام متعارف کرانا چاہیے ۔
دراصل اسٹرے ٹیجک تھنکنگ نہ ہوئی تو قربانی و ایثار کا سلسلہ تو بڑھتا چلا جائے گا، لیکن نتیجہ انتہائی محدود برآمد ہوگا۔یہ اسٹرے ٹیجک سینس کی کمیابی کی علامت ہے ۔جب قربانیاں عظیم تر ہوں اور کامیابیاں انتہائی قلیل ہوں تو اس کا سیدھا مطلب اسٹرے ٹیجک تھنکنگ کا قحط ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے ہاں اسی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہمیں تزویراتی تعلیم (Strategic Education) کی راہ اپنانی چاہیے۔ چنانچہ اس قسم کی سوچ کی افزائش کے لیے ہمیں تحریکِ اسلامی کی نئی نسل کے لیے نئے پروگرامات ترتیب دینا ہوں گے۔ تزویراتی سوچ کے بغیر قربانیوں کا سلسلہ جاری رہے گا اور یہ بات پھر دُہرائوں گا کہ ان قربانیوں کا ثمر بہت قلیل رہے گا۔ کسی مقصد کی راہ میں بڑی قیمت چکانے کے باوجود قابلِ ذکر نتائج کا حاصل نہ ہونا اس بات کی علامت ہےکہ منصوبہ سازوں کے ہاں تزویراتی بصیرت اور فہم کا فقدان اور افلاس پایا جاتا ہے۔
اپنی یونی ورسٹی میں عسکری تاریخ کا مضمون پڑھاتا ہوں اور اس دوران میں میری کوشش ہوتی ہے کہ طلبہ کو اسٹرے ٹیجک سوچ پر کلاسیکل کتب سے متعارف کرواؤں۔ چنانچہ اس سلسلے میں طلبہ کا تعارف The Art of War کے عنوان سے چار مختلف ماہرینِ حرب کی لکھی کتابوں سے کرواتا ہوں۔ یہ چار ماہرینِ حرب: سن زو (Sun Tzu)، میکیاولی(Machiavelli)، کلازوٹز (Clausewitz) اور جومینی(Jomini) ہیں۔ ان سب نے ایک ہی عنوان The Art of War پہ کتب تصنیف کی ہیں۔ یاد رہے کہ تزویراتی سوچ کا آغاز دراصل عسکری منصوبہ بندی کے تناظر میں ہی ہوا تھا۔
ہمیں اس تاریخی ذخیرے کی طرف لوٹنے اور اسے نئی نسل تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ ضروری ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارک اور اسلامی فتوحات کا احوال تزویراتی نقطۂ نظر سے پڑھیں۔ کچھ اہلِ علم نےیہ کام بڑی خوش اسلوبی سے کیا بھی ہے، جیسے بریگیڈئیر محمود خطاب نے الرسول القائد کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اسی طرح ان کی ایک کتاب سفراء النبی ؐ کے عنوان سے ہے۔اپنے عسکری پس منظر کی وجہ سے مصنف نے سیرتِ نبویؐ کو کامیاب حربی اور تزویراتی منصوبہ بندی کے تناظر میں ہی دیکھا ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے غزوات کو محض معجزات کے ایک سلسلے کے طور پر ہی نہیں دیکھتے بلکہ آپؐ کی کامیاب حربی حکمتِ عملی اور کامیاب ترین جنگی چالوں (Tactics)کا تجزیہ بھی کرتے ہیں۔ آج ہمارے مطالعۂ سیرت اور عمومی تعلیم میں یہ عنصر بڑی حد تک ناپید ہے ۔اپنی تعلیم میں موجود اس کمی کو دور کرنے کے لیے ہمیں بہت محنت کی ضرورت ہے۔
تزویراتی طرزِ فکر ایک خالص تخلیقی، حکیمانہ، ہمہ جہتی طرزِ فکر کا نام ہے۔ تخلیقی اس لیے کہ ہمیں مقصد کے حصول کے لیے درکار ذرائع کو بدلتے رہنا ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ زندگی میں ہماری بہت سی ناکامیوں کاسبب عام طور پر ہماری سابقہ کامیابیاں ہوتی ہیں۔ ہم ایک مخصوص صورت حال میں کامیابی کے لیے کچھ ذرائع اختیار کرتے ہیں۔ پھر صورت حال میں تو تبدیلی واقع ہوجاتی ہے، لیکن ہمارے نقطۂ نظر اوراس کے لیے ہمارے اختیار کردہ ذرائع میں تبدیلی نہیں آئی ہوتی، یوں نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔ بالکل اسی طرح آج کے دور میں بھی اسلامی تحریکات کے تنظیمی ڈھانچہ میں موجود بہت سی چیزوں میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ تنظیمی ڈھانچے میں، قیادت کی نوعیت اور اسلوب میں ، حکمتِ عملی اور اس کے اسلوب میں ، معاشرے کے ساتھ اپنے ربط و ضبط اور تعامل کے طریقوں میں ،دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ معاملات کرنے کے انداز میں ، نظام عالم اور عالمی طاقتوں کو دیکھنے کے روایتی انداز میں ، اور اپنی سرزمین پر ان کی موجودگی اور ان کے اثر ونفوذکو پرکھنے کے انداز میں بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ہمیں تجزیہ کرنا ہے کہ ہم ان سب چیزوں کو کس زاویۂ نظر سے دیکھتے ہیں، اور پھر کئی حوالوں سے ان سب میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
ہمیں تبدیلی کی مختلف حکمتِ عملیوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ تحریکِ اسلامی مثبت تبدیلی لانے والی قوت کا نام ہے، اس لیے ہمیں تبدیلی کی اسٹرے ٹیجی کو بھی سمجھنا چاہیے ۔تبدیلی خاموش انقلاب کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے اور ایک پُرشور، ہنگامہ خیز انقلاب کی شکل میں بھی۔ یہ تبدیلی سیاسی قوتوں اورطاقت کے مراکز مثلاًفوج کے مزاج، اس کی گرفت اور کردار کو سمجھنے سے بھی ہوسکتی ہے، جیسا کہ بعض جنوبی امریکی ممالک میں ہوا۔تبدیلی کئی طرح کی ہوتی ہے اور ہر تبدیلی کا سیاق و سباق بھی الگ ہی ہوتا ہے ۔
امریکی مفکر جوزف نائے(Joseph Nye) جس نے ’سافٹ پاور‘ اور ’سمارٹ پاور‘ کی اصطلاحات متعارف کروائی ہیں، اس کی ایک اور اہم اصطلاح ’Contextual Intelligence‘ بھی ہے، جس کا مطلب ہے ایسی ذہانت کا حامل ہونا، جس کے بل پر ہر چیز کا سیاق و سباق اور موقع محل متعین کیا جاسکے۔ حقیقی قائدین، کامیاب سیاست دان اور کامیاب مصلحین وہی ہوتے ہیں، جو اپنی ذات اور اس کے تناظر کی درست تفہیم رکھتے ہیں۔ چنانچہ تحریکات اسلامیہ کو ایک ہی مقصد اور ایک ہی منزل ہونے کے باوجود ایک ہی انداز میں کام نہیں کرتے رہنا چاہیے ۔ ہر ایک کا اپنا پس منظر اور ماحول (context) ہے، آج ہمیں کامیابی کے لیے کچھ اسی طرح کی Contextual Intelligence درکار ہے ۔
ڈاکٹر محمدمختار: میری رائے میں ہمیں گفت و شنید اور عملی اقدامات میں ہم آہنگی اور توازن لانے کی ضرورت ہے۔ نظریاتی مباحث اہم ہیں۔ نظریاتی رہنمائی کے بغیر ہم طویل المدت منصوبہ بندی سے محروم رہ کر ہر چیز کو محدود زاویے سے ہی دیکھ پاتے ہیں۔ اس لیے قلیل المدت ترجیح کے طور پر، سب سے پہلے ہمیں تزویراتی سوچ کا رویہ پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ہمیں اپنے سابقہ تجربات کا ناقدانہ تجزیہ کرنے، ان کے نتائج و عواقب، فوائد و نقصانات پر غور کرنے اور خواہشات پر مبنی تجزیوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے تحریکِ اسلامی کے ماضی کے سفر کا بے لاگ جائزہ لینے اور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
آپ جانتے ہوں گے کہ حکمت عملی کے ماہرین ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں ’Net assessment‘۔ہر اسٹرے ٹیجک غور و فکر کا آغاز Net assessment سے ہوتا ہے ۔ تحریک اسلامی اور مسلم معاشروں کے تجربات میں مثبت اور طاقت ور پہلو کیا تھے اور ان کے کمزور پہلو کون کون سے ہیں؟ اس مقصد کے لیے ہمیں صرف اسلامی تحریک ہی کو مدنظر رکھ کر نہیں سوچنا چاہیے ، نہ اسلامی تحریک کوکسی فرقے اور جماعت تک محدود رہنا چاہیے، بلکہ ہمیں پوری امت اور سارے مسلمانوں کو مدنظر رکھ کر اپنی سوچ اور حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے اور تجزیے کے بعد عملی سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔ اسی طرح مسلمان نوجوان کی تعلیم و تربیت میں جو عنصر غائب یا نظرانداز ہے وہ نظریاتی ہے۔ہمیں اس کی فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔
جواب:میرے نزدیک اس کا بنیادی سبب حکمرانوں کی قانونی حیثیت کا فقدان ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر حکمران کی قانونی حیثیت جائز (Legitimate )حکمران کی ہوجائے تو اس سے حاکم اور محکوم دونوں کے درمیان مکمل اتفاق اورہم آہنگی وجود میں آجائے گی۔ ایسی حکومت کو ہیکل نے مکمل ہم آہنگ ریاست کا نام دیا ہے۔ مکمل ہم آہنگ ریاست میں حاکم اور محکوم کی خواہش ایک ہی سمت میں ہوتی ہے ۔جہاں تک ہماری صورت حال ہے، مسلم دُنیا کے اندر سیاسی ہیئت حاکمہ یامقتدرہ کے قانونی و دستوری جوازکے فقدان کی بنا پر عوام اور ہیئت مقتدرہ کی آرزوؤں اور اُمنگوں کے درمیان ایک کش مکش اور تصادم جاری رہتا ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری قوتیں اور صلاحیتیں کسی تعمیرو ترقی میں نہیں کھپتیں بلکہ باہمی کش مکش کی نذر ہوتی رہتی ہیں۔ مسلم معاشروں میں برپا اسی سیاسی کشاکش کی بنا پر ہی ہم کبھی ترقی نہیں کرپاتے اور پسماندگی ہی ہمارا مقدر رہتی ہے ۔اسی سوال کا جواب دینے کے لیے میں نے ایک کتاب تالیف کی ہے جس کانام اسلامی تمدن میں دستوری بحران ہے ۔اس کتاب کی بنیادی فکر اور بنیادی فلسفہ یہی ہے کہ مقتدرہ کی قانونی حیثیت اور جواز کا مسئلہ ،اسلامی تہذیب و تمدن کا دیرینہ مسئلہ ہے ۔معروف کتاب الملل والنحل کے مصنف امام شہرستانی، نویں صدی ہجری میں اس مسئلہ پر بات کرتے ہوئے کتاب کے آغاز میں ہی لکھتے ہیں : ’’اُمت میں دَر آنے والا اوّلین اختلاف امامت و خلافت کے باب میں تھا۔ کسی دینی اصول اور قاعدے پر اتنی تلواریں نہیں چلیں جتنی ہر زمانے میں امامت و خلافت کے مسئلے پر چلیں‘‘۔
مقتدرہ کا دستوری و قانونی اور شرعی جواز ہمارے معاشرے کا کمزور ترین پہلو ہے۔ اسی لیے ہر مسلمان قوم پر اس اہم اسٹرکچرل پرابلم کا حل نکالنا واجب ہے ۔میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ ہمارے ملکوں میں جہاں جہاں فی الحقیقت جائز مقتدرہ ہوگی وہاں قومی اُمنگوں اور حکومتی کارگزاریوں میں تناقض جنم ہی نہیں لے گا ۔علّامہ اقبالؒ کا ایک قول ہے جس کا عربی ترجمہ مجھے یاد ہے:
ان السادۃ يدينون للعبيد بسيادتهم فلو لم يقبلوهم سادۃ لما سادوا، یعنی سرداروں کی سرداری غلاموں کے مرہون منت ہے۔ اگر غلام انھیں سردار نہ تسلیم کرتے تو سردار، سردار نہ ہوتے۔
اس لیے جب تک مسلم دنیا اندرونی آقاوٴں یعنی مطلق العنان آمریتوں سے چھٹکارا نہیں پائے گی،بیرونی غلامی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ہنری کسنجر کا عرب سیاست کے بارے میں ایک مشہور نظریہ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’عرب دنیا میں جائو تو سمجھو کہ عوام کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اور کوئی عوامی ادارہ نہیں ہے۔ اس لیے عرب دنیا کو ایک بدو قبیلے کے طور پر لو ،اور سب سے بڑا خیمہ قبیلے کے سردار کا ہوگا، اسی کے ساتھ معاملات طے کرو۔ عوام کی کوئی فکر نہ کرو ۔ سردار اپنے لوگوں کو خود مطمئن کر لے گا‘‘۔افسوس کہ اس مشاہدے میں مبالغہ نہیں ہے۔
مغربی حکمران اور دیگر استعماری طاقتیں جب تک مسلم عوام اور اداروں کو نظرانداز کرکے انفرادی طور پر آمر حکمرانوں سے معاملہ بندی اور سمجھوتہ کرتی رہیں گی ،صورتِ حال میں کوئی تبدیل نہیں آئےگی۔ جارج بش، مصری ڈکٹیٹر حسنی مبارک کو فون کرتا ہے اور جو چاہتا ہے حاصل کرلیتا ہے، یا پاکستانی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو ایک فون کال کرکے اپنے من پسند نتائج حاصل کرلیتا ہے، اور فرانسیسی صدر الجزائر کے صدر کو فون کرکے جو بات چاہتا ہے منوا لیتا ہے، قطع نظر اس کے کہ پاکستانی ،مصری یا الجزائری عوام کی خواہش کیا ہے ۔ یہ ہے ہمارا سب سے بڑا چیلنج ۔یہ چیلنج ہمیں واپس جس جگہ پہنچادیتا ہے وہ ہے ’قانونی و سیاسی قبولیت‘ (Political Legitimacy) کا بحران۔ ہربحران یہیں سے جنم لیتا ہے اور اس کا اختتام بھی اسی نکتے پر ہوتاہے۔ہمیں اپنے اپنے ممالک میں موجود اس اس بڑے ہی بنیادی سقم (structural problem) کو دُور کرنا ہوگا ۔ اس کے بغیر ہم آگے بڑھنے کے قابل کبھی نہیں ہو پائیں گے ۔
’بروکنگز فاؤنڈیشن،امریکا کے ریسرچ اسکالر اور ’عرب بہار‘ کے بعد تحریکات اسلامیہ کے اُمور پر گہری نظر رکھنے والے شادی حمید، راشد الغنوشی کا قول نقل کرتے ہیں: اسلام پسندو ں کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے لوگ ان سے اور ان کی سوچ اور نظریہ سے محبت رکھتے ہیں اور جب وہ اقتدار میں آجاتے ہیں تو ان سے بے زار ہونے لگتے ہیں۔ تحقیق نگار نے انتخابی کارکردگی پر غور کی دعوت دی ہے:
یہ مضمون اسی طرح کے سنجیدہ سوالات کاجواب دیتا ہے جو یقینا آج کی عرب بلکہ ساری مسلم دنیا کے لیے یکساں اہمیت کے حامل ہیں ۔
اسلامی تحریکوں کی عوامی مقبولیت میں کمی کا سبب کوئی ایک نہیں ہے۔کہیں اس کی وجہ ماحول کا جبر ہے ، اور کسی جگہ حکمت عملی اور تجزیہ ناقص ہے۔ عرب ملکوں میں مسلط استبدادی نظام اور اس نظام کی طرف سے خون خرابہ اور جان و مال کے ضیاع کے ذریعے ان تحریکوں کا استیصال کرنا،الیکشن میں سیکولر ،فسطائی اور غیر جمہوری قوتوں کی دھاندلی ، الیکشن قوانین میں رد و بدل جیسے ہتھکنڈے، نیزعالمی برادری کا اسلامی تہذیب، ثقافت اور شناخت سے دشمنی پر مبنی رویہ ہے۔
حکمت عملی اور اندرونی کمزوری کی ایک مثال تحریک کے بنیادی اوراعلان شدہ مسلّمہ اصولوں پرسمجھوتا کر لینا ،اسٹیبلشمنٹ کی چالوں اور تدبیروں کے مقابل سیاسی ناپختگی، صورت حال کا صحیح ادراک نہ کرنا اور اپنی حکمت عملی کو ٹھیک سے ترتیب نہ دینا۔ پھر قیادت کا مواقع اور امکانات کو ضائع کرنا وغیرہ ہیں ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زندگی کے طوفانی تھپیڑوں کے آگے کبھی نہیں جھکے تھے، جیساکہ بہت سے ترکِ دنیا کے علَم بردار اور زاہد دُنیوی مصالح اور مشکلات کے آگے جھکتے رہے ہیں، بلکہ آپؐ نے امور دنیا کی زمامِ کار سنبھالی اور پوری قوت و شوکت سے اسے حق کی اطاعت پر لگا دیا۔ یوں ایک ایسا اخلاقی ،تشریعی ، سیاسی ،مکمل اور کامل نظام دیا جس میں ضمیر، معاشرے اور ریاست کی سبھی قوتوں کو حق اور عدل پھیلانے کے لیے مجتمع کردیا گیا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ اسلام تزکیہ نفس کرکے صرف ضمیر کو بیدار کرنے تک محدود رہتا ہے اور سوسائٹی اور ریاست کی مؤثر قوت کو یکسر نظر انداز کردیتا ہے بلکہ یہ دین فطرت ہے اور دین حقیقت وواقعیت ۔ یہ جیتے جاگتے، چلتے پھرتے انسانوں کے لیے اتارا گیا ہے، فرشتوں کے لیے نہیں۔فرشتوں کے لیے ہوتا تو انسان نہیں فرشتہ اتارا جاتا۔ قرآن کریم کا ارشاد موجود ہے: قُلْ لَّوْ كَانَ فِي الْاَرْضِ مَلٰۗىِٕكَۃٌ يَّمْشُوْنَ مُطْمَىِٕنِّيْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْہِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا۹۵ (بنی اسرائیل ۱۷:۹۵) ’’ان سے کہو اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو اُن کے لیے پیغمبربنا کر بھیجتے‘‘۔
آپؐ کی اس سیاست کی عملی سنت کی نہ بدھ ازم میں کوئی مثال موجود ہے اور نہ مسیحی دنیا ہی اس کی کوئی مثال پیش کرسکی ہے ۔ یہ آپؐ کی طرف سے پیغام وحی کی عملی تفسیر اور تطبیق تھی ۔ یہ اسوۂ حسنہ کا وہ بنیادی پہلو ہے، جس کی پیروی کا اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا ہے۔
لہٰذا، کسی اسلام پسند پارٹی کی انتخابات میں کامیابی، دین اسلام کی فطرت اور طبیعت کو تبدیل نہیں کرسکتی اور نہ کسی حکومت ،پارٹی اور سیاسی قوت کی ناکامی، اسلام کے جامع پیغام پر شمہ برابر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے ۔
آج جو لوگ تاریخ کے نئے مرحلےمابعد اسلامی احیائی دور (Post Islamism )کی نوید سنا رہے ہیں اور مبارک باد دے لے رہے ہیں، میں ان سے کہوں گا کہ ان کی خوشی قبل از وقت ہے۔ہوسکتا ہے انھیں ماضی کی طرح پھر گہرا صدمہ جھیلنا پڑے ۔
مجھے یقین ہے کہ اگر موجودہ اسلامی تحریکیں کسی وجہ سے مطلوبہ تبدیلی نہ لاسکیں تو بھی کچھ اور نئی قوتیں ان کی جگہ ضرور لیں گی، اس لیے کہ جسے ’سیاسی اسلام‘ کہا جارہا ہے وہ دراصل امت کے شعور اوروجدان کی تعبیر ہے۔ یہ اُس تعلق کا ایک اظہار ہے جو دین اسلام کا ملت اسلامیہ کے ساتھ ہے، اور جس سے مسلمان جذبۂ عمل حاصل کرتے ہیں ۔
ان اصولی باتوں کے بعد اسلام پسند پارٹیوں کی بظاہر کم ہوتی مقبولیت پر کچھ کلام کرتے ہیں۔
’عرب بہار‘ اسلام پسندوں کے لیے قبل از وقت اور بہت اچانک تھی ۔جب یہ بہار آئی تو اسلام پسندوں کے لیے انتظام مملکت سنبھالنا ابھی قبل از وقت اور نہایت غیر موزوں تھا۔ اس وقت اقتدار میں آنے کا ان کا نہ کوئی ارادہ تھا اور نہ امور جہانبانی سنبھالنے اور حکمرانی کرنے کی ان کی کوئی تیاری تھی بلکہ یہ عوام الناس کی خواہش تھی، جو استبدادی اور بدترین ظالمانہ اور کرپٹ حکومتوں کی سختیاں جھیل جھیل کر تنگ آچکے تھے ۔انھی عوام نے اسلام پسندوں کو سیاست میں رہنما کردار ادا کرنے پر مجبور کیا ۔
اگرچہ ’عرب بہار‘ سے پہلے بھی چند ممالک میں اسلام پسندوں کو شراکتِ اقتدار کا تجربہ ہوا تھا، یعنی یمن اور اردن وغیرہ میں۔ تاہم، ایک ایسے وقت میں جب عرب دنیا میں انقلاب اور مخالف انقلاب کی کش مکش ابھی عروج پر تھی اور دوسری طرف تنگ آئے ہوئے عوام کی توقعات آسمان کو چھورہی تھیں اور خدشات خطرناک ترین سطح پر تھے۔ ان حالات میں اسلامی قوتوں کے لیے بہتر طرزِ عمل یہ تھا کہ اس معاملے کو زیادہ تدبر اور صبر کے ساتھ دیکھتے اور بے خطر اس میں کود نہ پڑتے۔ اسلام پسندوں کو ملنے والے اقتدار کو شادی حمید نے اپنی کتاب میں ’یرغمالی اقتدار‘سے تعبیر کیا ہے۔
دراصل ’عرب بہار‘ کے بعد اسلام پسندوں کو ملنے والا اقتدار حقیقی تھا ہی نہیں۔ انقلاب کے بعد پہلے آزادانہ انتخابات میں منتخب ہونے والے مصری صدر مرسی شہید، ریاست مصر میں ہرگز فیصلہ کن اختیار و اقتدار کے مالک نہیں تھے بلکہ فیصلہ سازی کا اصل اختیار برسوں سے مسلط فوجی جنتا کے ہاتھ میں تھا یا مقتدر سیکولر اشرافیہ اور ان دونوں کی پشتی بان عالمی مقتدرہ کے ہاتھوں میں یرغمال تھا ۔
اسی طرح اسلام پسندوں کے وزیر اعظم ہوں یا پارلیمان کے اسپیکرز کسی کے پاس بھی حقیقی اختیار و اقتدار نہیں تھا اور نہ انھیں دستور کی دی ہوئی طاقت کو ،جو انتخابات میں کامیابی کے بعد ان کا استحقاق تھی ، استعمال کرنے پر کبھی قادر رہنے دیا گیا۔
دوسری جانب مراکش میں بھی وزیر اعظم تو اسلامی احیا پسندوں کا تھا،لیکن فیصلہ کن طاقت اوراصل اختیار و اقتدار، مطلق العنان بادشاہ کے ہاتھ میں رہا۔ پھر تیونس میں سیکولر قوتوں کی ہٹ دھرمی اور اپنی انتخابی شکست کو تسلیم نہ کرنا اور ہارنے کے بعد تیونس کو انتقاماً اہل تیونس ہی پر ڈھادینے کی ان کی کوششوں نے النہضۃ کے قائدین کو کبھی سُکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔ انھیں مجبور کیا گیا کہ پارٹی کی انتخابی کامیابی اور انقلاب کے ثمرات میں سے کسی ایک کو چنیں ۔
تیسری بات یہ ہے کہ اسلام پسند کہیں خود بھی صرف نمایشی اختیار و اقتدار پر قانع ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان پر عوامی توقعات کا بوجھ تو پڑگیا، لیکن تبدیلی کا حقیقی اختیار ان کے پاس تھا ہی نہیں کہ کچھ کرپاتے ۔مصر، تیونس ،مراکش ہر جگہ کم و بیش ایک سی صورت حال تھی ۔بعد ازاں واضح بھی ہوگیا کہ یہ حکمت عملی کی فاش غلطی تھی، جس کی بڑی قیمت چکانا پڑی ۔ نہ تو انھوں نے دستور میں لکھے اور قوم کے دئیے ہوئے انتخابی مینڈیٹ اور اختیارات کو اسٹیبلشمنٹ سے زبردستی چھین کرلیا اور نہ ایسے نمایشی اختیار و اقتدار کو ٹھوکر ماری اور استعفا دے کر قوم سے دوبارہ رجوع کیا کہ ان کی اخلاقی برتری قائم رہتی اور حقیقی اختیار سے خالی ان منصبوں کابوجھ نہ اٹھانا پڑتا۔ ان پر مشہور تابعی امام عامر الشعبی رحمۃ اللہ کی وہ بات صادق آتی ہے، جو انھوں نے حجاج بن یوسف کے پھیلائے ہوئے فتنے کے دور میں کہی تھی : تلك فتنة لم نكن فيها بررة أتقياءَ، ولا فجَرة أقوياء ’’ایسا فتنہ تھا جس میں نہ تو ہم مخلص فرماں بردار تھے اور نہ طاقتورباغی و سرکش‘‘ ۔
اگر اسلام پسند سیاست کرنے والوں کے پاس چھٹی حس ہوتی اور ان کی سیاسی تدبیروں میں لچک رہتی، تو وہ قوم کے دئیے ہوئے مینڈیٹ اور اختیار کو غاصبوں سے چھین لیتے ورنہ جونہی انھیں احساس ہوگیا تھا کہ یہ نمایشی اور یرغمالی اقتدار ان پر ایک اخلاقی بوجھ ہے تو ایسے لاحاصل اقتدار کو چھوڑ دیتے ۔
چوتھی بات یہ ہے کہ کچھ اسلامی تحریکوں خصوصاً مراکش کی حزب العدالۃ والتنمیۃ نے صاف ستھری سیاست اور کارکردگی دکھانے کی پالیسی کو ترجیح دی، نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں سے ہی ہاتھ دھونا پڑے۔اسلامی تحریک کے لیے معاشرے میں کچھ جاذبیت اگر ہے تو اس کی اصول پسندی، معاشرے کے معروف اخلاقی قاعدوں پر چلنے ،اپنی اسلامی شناخت پر اصرار، اسلامی اصولوں کے پرچار اور اندرونی استبداد اور بیرونی غلامی کے مقابل اس کی اخلاقی برتری کی وجہ سے ہے ۔
بعض تحریکوں کو یہ خوف لاحق رہا کہ سیاسی سطح پر جو کچھ ہم نے حاصل کیا ہے، اسے برقرار رکھ پائیں گے یا نہیں؟ وہ سیاسی کامیابی کی بقاء کے لالچ میں پڑگئے اور تحریک اسلامی کے بنیادی اصولوں اور موقف کو ہاتھ سے جانے دیا۔ ان کا نقطۂ نظرتھا کہ ہماری معاشی اور اجتماعی کارکردگی ہماری اصول پرستی چھوڑ بیٹھنے کو سہارا دے لے گی۔ وہ یہ بھول گئے کہ ان کے پاس معاشی اور اجتماعی سطح پر کارکردگی دکھا پانے کی صلاحیت موجود ہی نہیں ۔اس طرح وہ ایک ساتھ دونوں محاذوں پر شکست کھاگئے ۔اخلاقی برتری بھی گئی اور کارکردگی بھی صفر رہی ۔ پھر مراکش کی حزب العدالۃ والتنمیۃ ایسے سیاسی معاملات میں اُلجھی جو اس کے دائرے سے باہر تھے، جیسے اسرائیل کو تسلیم کرنا، فرانسیسی کو ذریعۂ تعلیم بنانا،اور بھنگ کی کاشت وغیرہ۔ ان معاملات کی بڑی سیاسی قیمت چکانا پڑی۔
عبد الالہ بن کیران ( حزب العدالۃ والتنمیۃ کی پہلی حکومت میں وزیر اعظم اور اس وقت پارٹی کے سیکرٹری جنرل) بادشاہ کے اقتدار اور اثر و نفوذ اور منتخب حکومت کے اقتدار و اختیار کے درمیان توازن رکھنے میں کامیاب رہے تھے ۔ مگر ان کے بعد آنے والے مراکش کے وزیر اعظم (پارٹی کے دوسرے سیکرٹری جنرل) سعد الدین عثمانی کامیاب نہیں ہوپائے ۔یہی وجہ تھی کہ بن کیران کی عوامی پذیرائی اور سیاسی تدبیروں نے، عوامی لب و لہجہ میں ان کی جملہ بازی نے پارٹی کو بہت فائدہ پہنچایا تھا ۔ا سی طرح ان کا دیگر، خصوصا کرپٹ سیاسی رہنماؤں پر مسلسل دبائو، جنھیں وہ مگرمچھوں سے تعبیر کرتے تھے اور ضمناً بادشاہ پر بھی کبھی کبھار کی تنقید نے بن کیران کی رہنمائی میں مراکش کے اسلام پسندوں کی حفاظت کی اور عوام کے ذہنوں میں اس تصور کو راسخ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی غلطیوں میں اسلامی احیا کے علَم برداروں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
مراد یہ ہے کہ پارٹی کی قسمت پر لیڈر شپ کا تسلسل کتنا گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اگر کرشماتی اور مضبوط قیادت ہو تو وہ پہلے سے موجود سیاسی قیادت اور نئی آنے والی سیاسی قیادت کے درمیان توازن پیدا کرلیتی ہے ۔اور اگر قیادت کمزور ہو تو وہ پہلے کے اثرات کو بھی نقصان پہنچادیتی ہے۔
مراکش کی حزب العدالۃ والتنمیۃ نے جب بن کیران کی کرشماتی قیادت کو کھودیا (بعض حلقوں کے نزدیک بادشاہ ان کی عوامی مقبولیت سے خائف تھا اور اسی کے دباؤ پر پارٹی نے سعدالدین عثمانی کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا تھا )اور ان کی جگہ ایک اکیڈمک پروفیسر بیوروکریٹک رویے کے حامل ، کمزور، سیاسی وژن سے عاری اور پرانے سیاسی گرووں کے خلاف مضبوط سیاسی اقدامات کی جرأت سے خالی فرد کی نامزدگی تھی، جس کی سیاست کا انحصار معاشرے کے عوام کی دل جوئی کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی رضاجوئی اور بادشاہ کی فرماں برداری پر تھا ۔ جب انھیں آگے لایا گیا تو توازنِ سیاست بگڑ گیا جس کا خمیازہ پارٹی کو اقتدار کے بعد شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
اس طرح مراکشی تجربہ حزب العدالۃ والتنمیۃ کو اپنے ڈھب پہ لانا اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے گھیرا تنگ کرنا اور بالآخر پارٹی کو گہری دلدل میں پھنسا دینے کا منصوبہ مکمل ہوگیا ۔بالکل اُسی انداز میں کہ جس طرح ماضی میں مراکش کی کئی سیاسی قوتیں بے دست و پا بنائی جاچکی تھیں: حزبِ استقلال اور اشتراکی اتحاد وغیرہ ۔
تحریک اسلامی مراکش کا وہ فخر بھی اسے کچھ فائدہ نہ دے سکا اور نہ وہ لمبے چوڑے دعوے کہ ہم اخوان المسلمون سے زیادہ سیاسی شعور کے مالک ا ورمیدانِ سیاست کے پختہ کار کھلاڑی ہیں۔ یہ تفاخر دراصل ایک اور قسم کی غلطی کا ارتکاب تھا۔
’زیادہ سے زیادہ کی حکمت عملی‘ جس پر مصر میں اخوان المسلمون کاربند ہوئی اور صدارتی الیکشن میں قبل از وقت شرکت کی، یہی پالیسی انھیں استبداد کے عادی ظالم مصری نظام کی دیوار سے سر پھوڑنے کی طرف لے گئی۔مگر مراکش میں ’کم سے کم کی حکمت عملی‘ اختیار کی گئی، جوتحریک اسلامی کو مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ڈھب پر ڈھالنے اور انھیں اپنے اخلاقی پیغام سے محروم کرنے پر منتج ہوئی کہ جس پیغام میں عوام کے لیے اصل جاذبیت تھی۔ا نھیں طاقت سے دُور اور کسی عملی کارنامے سے محروم رکھا گیا کہ جو اخلاقی برتری سے محرومی کا عوضانہ بن جاتا ہے۔ ۹۰کی دہائی میں یہی طریقہ الجزائر کے انقلابی فوجیوں نے اخوان کے ساتھ روا رکھا تھا، پھر اسے موریتانیہ، مراکش، تیونس اور لیبیا میں دہرایا اور آزمایا جاتا رہا ۔
تاہم، اقتدار میں آنے کے بعد اسلامی قوتوں کی اس کمزوری اور کوتاہی کے برعکس عالمِ عرب کی سیکولر قوتوں کی حالت زار اسلام پسندوں سے کہیں زیادہ گئی گزری ہے ۔سیکولرسٹوں کے لیے کئی مسلم ملکوں کے اقتدار کا دروازہ مدتوں کھلا رہا ہے، لیکن یہ قوتیں اپنی قوم کو ترقی دینے کے میدان میں مکمل طور پر ناکام ہوئیں۔دراصل آزادی کا معرکہ اور اپنی شناخت کا معرکہ ان سیکولرسٹوں کی ترجیح اور ان کے ایجنڈے کا حصہ تھا ہی نہیں ۔
معرکۂ حریت و آزادی اور اسلامی شناخت قائم رکھنے کے معرکہ میں اسلامی تحریکات کو بڑی بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں ۔ معاشرے کی اسلامی شناخت برقرار رکھنے کے اس معرکے میں یہ اسلامی تحریکیں ایک فوجی قلعہ کی مانند مضبوط ثابت ہوئیں ۔
اسی طرح عوامی انقلاب، ’عرب بہار‘ کو کامیاب بنانے میں بھی اصل کردار انھی اسلامی تحریکات کا تھا ۔اسی لیے علاقائی اور عالمی طاقتوں کی استحصالی چکّی میں بھی یہی قوتیں پس رہی ہیں۔ اس لیے کہ لوگ انھی سے توقع باندھے ہوئے ہیں، سیکولر قوتوں سے نہیں۔تاہم، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تحریکات اسلامیہ جب بھی اقتدار میں آئیں یا شریکِ اقتدار ہوئیں، ترقی کی دوڑ میں وہ بھی ابھی تک کوئی خاص کارنامہ اپنے دامن میں سمیٹ نہیں پائیں۔
شاید سب سے بڑا خطرہ اس وقت جو ان تحریکات کو درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ ان کے عزائم اور ارادے بہت قلیل ہیں ۔یہ تھوڑے پر قناعت کرجاتی ہیں ۔یہاں تک کہ ان میں سے بعض میدان عمل میں اپنی موجودگی ہی کو اور زندگی ہی کو کامیابی کی دلیل شمار کرنے لگتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ ان کا سیاسی اور تہذیبی تبدیلی کا پروگرام اسی حد تک تھا، جو کامیاب ہوچکا ہے ۔ بعض تحریکات بلاوجہ اور بے فائدہ اپنے اسلامی رنگ ڈھنگ اور اسلوب وانداز، حتیٰ کہ طریق کار تک سے علیحدگی اختیار کرلیتی ہیں اور یوں ایک ایسے معاشرے میں اپنا اخلاقی جواز ہی گم کربیٹھتی ہیں، جہاں سارے ہی، ریاکاری پر مبنی کھوکھلے نعروں سےا پنے وجود کا جواز حاصل کرتے ہیں۔
دوسرے ان میں سیاسی ناپختگی بھی موجود ہے۔ اس کمزوری کا مطلب انفعال و ارتجال اور محض ردِعمل کی سیاست ہے۔ یہ ساری زندگی ایک دائرے میں گھرے اتار چڑھاؤ کے درمیان جینے کے سفر جیسا ہے، جہاں کچھ بن نہ پارہا ہو، نہ کوئی قابل ذکر کامیابی ہی مل رہی ہو ۔
اصلاح و تجدید کی تحریکوں کے لیے وقتاً فوقتاً مصلح اور مجدد کی ضرورت رہتی ہے، جو ان کی رہنمائی کرے اور ان میں کار تجدید انجام دیتا رہے ۔اور آج تحریکات اسلامیہ کو تبدیلی و تجدید کی شدید ضرورت ہے تاکہ ان میں سیاسی پختہ کاری کی داغ بیل پڑے اور یہ زیادہ واقف اور باشعور ہوں، میدانِ سیاست سے بھی اور دنیا کی سیاست سے بھی۔
یہ دلیل کافی نہیں ہے، جو بعض اسلام پسند آج دے رہے ہیں کہ تحریکات اسلامیہ خود ناکام نہیں ہوئیں بلکہ ان کے داخلی اور خارجی دشمنوں نے انھیں ناکام بنایا ہے ۔یہ دلیل دیتے ہوئے ہم لوگ بھول جاتے ہیں کہ آسانی سے ناکام ہوجانا تو خود اپنی جگہ ناکامی ہے اور محاصرے میں گھرجانا خود ایک بڑی کمزوری ہے۔ سیا ست تو کامیابی اور قوت کے حصول کے لیے مسلسل کش مکش کا نام ہے، سیاست صرف تقریروں اور اچھی نیتوں کا نام نہیں ہے !