جولائی 2025

فہرست مضامین

ایران کی سلامتی یا پورے خطے کی تباہی؟

ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی، ترجمہ: ڈاکٹر محی الدین غازی | جولائی 2025 | عالم اسلام، مقالہ خصوصی

Responsive image Responsive image

ایرانی نژاد امریکی محقق ولی نصر کی تازہ کتاب کا عنوان ہے: ’ایران کی عظیم ترین اسٹرے ٹیجی‘۔ اس کتاب میں انھوں نے ایرانی انقلاب کے مرشد علی خامنہ ای کی ایک گفتگو نقل کی ہے۔ ایرانی سیاست دانوں، دفاعی افسروں اور فقہا کے سامنے انھوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ایران اپنے ’اسٹر یٹی جیکل‘ اہداف کی منزل پر پہنچنے کے قریب ہوچکا ہے۔ اس نے بہت سی بلندیاں سر کرلی ہیں اور پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے کے بالکل قریب ہے۔ چڑھائی کے اس سفر کو اسے ہر حال میں جاری رکھنا ہوگا۔ اس سفر میں تھکن کے احساس سے بچنا ہوگا۔ یاد رہے کہ وہ اس پہاڑ کی آخری چوٹی سے جس قدر قریب ہوگا، امریکا اس کے راستے بند کرنے کی اتنی ہی زیادہ کوشش کرے گا‘‘۔ 

ولی نصر نے اپنی کتاب میں ایرانیوں کی نفسیات کے حوالے سے جا بجا اپنے خیالات  پیش کیے ہیں، لیکن اس وقت ہماری دلچسپی ایرانی مرشد کی مذکو رہ گفتگو کی مجازی تعبیر سے ہے۔ یعنی ایران کا یہ عزم کہ اسے پہاڑ کی چوٹی سر کرنی ہے اور امریکا کی یہ ضد کہ ایران کو چوٹی تک پہنچنے نہیں دینا ہے۔ 

اس مضمون میں ہم پہاڑ کی چوٹی کو لے کر ایران اور اس کے امریکی و اسرائیلی حریف کے درمیان کش مکش کا منظرنامہ دیکھیں گے۔ اس سے ہمیں ایران کے خلاف اسرائیل کی جاری جنگ کو سمجھنے کا موقع ملے گا۔ اس کے ماضی کا پس منظر، اس کے حال کی راہیں اور اس کا ممکنہ انجام۔ یہ جنگ عالم اسلام کے ملکوں اور قوموں کے مستقبل پر سالہاسال کے لیے گہرے نقوش چھوڑنے والی ہے۔  

تاخیر سے ادراک کرنے کی بھاری قیمت 

خامنہ ای نے جس مبہم مجازی تعبیر کا استعمال کیا، دوسروں نے اسے بے لاگ علمی زبان میں کھول دیا ہے۔ متعدد عرب اور مغربی جوہری ماہرین نے واضح کیا ہے کہ ایران ایٹمی طاقت بن جانے کی چوکھٹ پر پہنچ چکا ہے۔ اب محض اتنی دوری رہ گئی ہے کہ سیاسی فیصلہ اور آخری ٹیکنیکل اقدامات۔ 

بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ ایٹمی چوکھٹ تک پہنچ جانا ہی ایران کے خلاف اسرائیلی امریکی جنگ کا حقیقی سبب ہے، جس کے پیش نظر یہ ہے کہ ایران کو پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے نہ دیا جائے۔ 

واضح رہے کہ خامنہ ای نے ایران کی اٹھان اور قوت کے سامنے جس امریکی رکاوٹ کا ذکر کیا ہے، وہ ایران تک منحصر نہیں ہے، بلکہ وہ ایسا منظر نامہ ہے جو ایران سے آگے بڑھ کر خطے کے تمام اہمیت کے حامل ملکوں تک پہنچنے والا ہے۔  

حالیہ جنگ ایک مستقل امریکی اسرائیلی اسٹرے ٹیجی کا حصہ ہے۔ حکمت عملی یہ ہے کہ کسی مسلم ملک کو، خاص طور سے مشرق وسطیٰ میں ہرمسلم ملک کو بڑی قوت حاصل کرنے یا اسٹرے ٹیجک دفاعی قوت تشکیل دینے سے باز رکھا جائے۔ ایران کے موجودہ صدر مسعود بزشکیان نے یہی بات ان لفظوں میں کہہ دی: ’’اسرائیل کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو ایک ایک کرکے نشانہ بنائے‘‘۔ 

ایران اور خطے کے دیگر ملکوں کو یہ اسرائیلی امریکی کوشش بہت مدت پہلے سمجھ لینی چاہیے تھی اور خطے کے لوگوں کی مشترک الجھنوں اور فکرمندیوں کو دیکھنے کے زاویے وسیع تر کرلینے چاہئیں تھے، جو زیادہ وسیع الظرفی، زیادہ انصاف پسندی، زیادہ گہرائی اور زیادہ سچائی پر مشتمل ہوتے۔ 

امریکی اور اسرائیلی پالیسی خطے کے تمام اہم ممالک کو نشانہ بناتی ہے اور اس کے لیے اس کے طریق کار دو طرح کے ہیں: ایک طریقہ ’کنارے لگادینے ‘اور دوسرا طریقہ ’ٹھکانے لگادینے‘ کا ہے۔  

’کنارے لگانے‘ کا طریقہ یہ ہے کہ ان ملکوں کے امکانات کو ضائع کردیا جائے۔ یہ استعماری طریقوں کا ہی انداز ہے جو امریکا نے برطانوی سلطنت سے وراثت میں پایا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ خطے کے ملکوں کو اسٹرے ٹیجک فیصلوں کی خود مختاری اور اسٹرے ٹیجک قوت کی تعمیر سے محروم کردیا جاتا ہے۔ اس کے لیے حکم راں باڈی اور فیصلہ ساز اداروں میں نقب لگائی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ ملک شعوری یا غیرشعوری طور پر امریکی اسرائیلی محور پر چکر کاٹنے لگتے ہیں۔ اپنے ارادے اور موقف میں وہ سلبی ہوجاتے ہیں۔ وہ پورے طور پر غیر محفوظ ہوجاتے ہیں، خواہ ان کا حجم کتنا ہی بڑا اور ان میں موجود قوت کتنی ہی زیادہ ہو۔ 

اس کے لیے مختصر ترین راستہ یہ ہے کہ ریاست کے داخلی اُمور میں چھیڑ چھاڑ کی جائے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اقتدار تک صرف وہی پہنچے جو ہر طرح سے سرنگوں ہوچکا ہو، رضاکارانہ غلامی پر راضی ہوگیا ہو اور دینی، قومی اور وطنی عزت کے احساس سے دست بردار ہوچکا ہو۔ اگرچہ اسے اس کی اجازت حاصل ہو کہ عملی اقدام کے بجائے خالی کھوکھلے نعرے لگاتا رہے۔ امریکا متعدد عرب ملکوں کو کنارے لگانے اور ان کے امکانات رائیگاں کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ 

’ٹھکانے لگانے‘ کا راستہ دراصل ملکوں کی عمارت ڈھادینے اور اس کے ستون ہلادینے کا عمل ہے۔ اس طریقے کا خلاصہ یہ ہے کہ جو ملک اطاعت گزاری کے قلادے کو اتار پھینکیں اور اپنی خود مختاری پر اصرار کریں یا جن کے عوام اپنے ملک میں آزادی اور جمہوریت کو یقینی بنانے کے لیے کوشش کریں، ان کے ڈھانچے کو سلامت نہ رہنے دیا جائے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا جائے۔  

ٹھکانے لگادینے اور طاقت چور چور کردینے سے مذکورہ ملک اسٹرے ٹیجک اُمور سے باہر نکل جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر اس بات کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی کہ اس پر حکومت کون کررہا ہے؟ وہ امریکی اسرائیلی بالادستی کا دست نگر ہے یا اس سے باہر ہے؟ کیوں کہ وہ ہر دو حالت میں بے زور اور بے وزن ہوتا ہے۔ امریکی اسرائیلی اسٹرےٹیجی اس طریق کار کو خطے کے ان بہت سے ملکوں پر آزماچکی ہے، جن کے عوام اس قلادے سے سیاسی یا عسکری طور سے باہر نکلنے لگے۔ ان میں عراق، شام، لیبیا اور سوڈان کا نام لیا جاسکتا ہے۔ 

’ٹھکانے لگادینا‘ کا یہ راستہ انقلابات اور عوامی فسادات کے حالات میں سب سے زیادہ کامیاب ہوتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ اس کش مکش کے نتیجے میں جو دراڑیں پڑتی ہیں، ان میں داخل ہوکر باہم متحارب تمام گروہوں کو تباہ ہونے اور تباہ کرنے کے سامان فراہم کیے جاتے ہیں، ساتھ ہی معرکے کو فیصل کرنے سے ہر فریق کو محروم رکھا جاتا ہے۔ اس طرح یہ خونی بھٹی دہکتی رہتی ہے، یہاں تک کہ ملک کی طاقت پارہ پارہ ہوجاتی ہے۔ اس کے سارے کل پرزے کھل کر الگ الگ ہوجاتے ہیں، اور طاقت کے حساب کتاب سے وہ ملک بالکل باہر ہوجاتا ہے۔  

لیکن ایران اور عرب ممالک صحیح وقت پر یہ ادراک نہیں کرسکے کہ امریکی اور اسرائیلی ان دونوں طریقوں سے اس خطے کو سرنگوں کرنے اور اس کی اقوام کے مستقبل کے فیصلے اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے کس طرح سوچتے ہیں؟ ان سبھی نے سادگی اور خود غرضی کے ساتھ یہ تصور کرلیا کہ وہ اپنے بھائی اور پڑوسی کی لاش کے ٹکڑوں پر شان و شوکت کی عمارت تعمیر کرسکتا ہے۔ اس طرح انھوں نے شب خون مارنے والے ہر دشمن کے لیے اس کا کام آسان کردیا۔ وہ مشترک انجام اور مشترک دشمن کی طرف کبھی کبھار ہی دیکھتے ہیں۔ یہ شعور بھی سرسری سا ہوتا ہے اور وہ بھی اس وقت ہوتا ہے جب وقت گزرجاتا ہے۔ زیادہ تر یہ عین جنگ کی حالت میں ہوتا ہے، جب سر پر کلہاڑی پڑچکی ہوتی ہے۔ ۱۹۹۱ء اور ۲۰۰۳ء میں جب عراق پر تباہ کن امریکی فوج کشی ہوئی تو عراق کے حکمرانوں پر شعور کی یہ کیفیت طاری ہوئی تھی اور حالیہ اسرائیلی جنگ کے دوران ایران کے حکمرانوں پر یہ کیفیت طاری ہے۔ لیکن جب بات سمجھنے میں دیر ہوجاتی ہے تو اس کی قیمت بھی بہت بھاری چکانی پڑتی ہے۔ 

یک بارگی کلی انہدام یا بتدریج انہدام 

امریکی یہودی مفکر ایڈورڈ لوٹواک نے ۱۹۹۹ء میں شائع ہونے والے ایک مشہور مضمون ’جنگ کو موقع دینے کا نظریہ‘ کے تحت ایک طریق کار وضع کیا۔ انھوں نے اس مضمون میں اس بات کی وکالت کی کہ اس خطے میں جنگوں کے خاتمے کے لیے مداخلت نہ کی جائے، بلکہ انھیں خوںریزی کے اپنے راستے پر چلنے دیا جائے اور پھر متحارب فریقین کی طاقتیں ختم ہوجانے کے بعد آگے بڑھ کر ایک امریکی (مراد اسرائیلی) حل کو نافذ کیا جائے۔ 

۲۰۱۴ء میں، لوٹواک نے نیو یارک ٹائمز میں ایک مضمون میں اپنے نظریہ کو شام کی جنگ پر لاگو کرنے کی دعوت دی، جس کا عنوان تھا:’’شام میں امریکا کی ہار ہوگی، اگر کسی بھی فریق کی فتح ہوجاتی ہے‘‘۔ اس میں لوٹواک نے لکھا: ’’اس مرحلے پر طویل مدت تک توانائی خرچ کرانا ہی اس تنازعے کا واحد راستہ ہے، جو امریکی مفادات کو نقصان نہیں پہنچاتا‘‘۔ پھر انھوں نے امریکی فیصلہ سازوں کے لیے ایک نصیحت کرتے ہوئے کہا:’’جب بھی یہ ظاہر ہو کہ مسٹر بشار اسد کی افواج کی طاقت بڑھ رہی ہے تو مزاحمت کاروں کو اسلحہ فراہم کریں، اور جب یہ ظاہر ہو کہ مزاحمت کار جنگ جیتنے والے ہیں تو ان کی حمایت روک دیں‘‘۔ 

لوٹوا ك نے امریکی انتظامیہ کو یہ حکمت عملی اپنانے کا محض مشورہ ہی نہیں دیا، بلکہ اس نے اپنے مضمون میں یہ بھی یقین کے ساتھ کہا اور غلط نہیں کہا کہ جو کچھ اس نے تجویز کیا ہے وہی دراصل شام میں امریکا کا موقف ہے۔ یہ موقف ایک قدیم چینی حکمت عملی پر مبنی ہے کہ ’’جلتے ہوئے گھر کو لوٹ لینا چاہیے‘‘۔ مگر امریکیوں نے اس چینی نصیحت سے آگے بڑھ کر ’’گھر کو لوٹنے سے پہلے اسے جلادو‘‘ پر عمل کیا۔ شام کا دردناک بحران صرف اس لیے طویل ہوا کیوں کہ امریکی حکمت عملی ’جنگ کو موقع دینے‘ کی تھی۔ یہ حکمت عملی اسرائیلی برتری کے حصول اور امریکی اثر و رسوخ کو مستحکم کرنے کے لیے تھی، اور یہ دونوں کام دراصل تسلط، ظلم، اور جارحیت کے ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ 

ٹھکانے لگانے کے طریقے کبھی یکبارگی اور کبھی قسطوں میں انجام دیے جاتے ہیں۔ جب علاقے کے لوگ اپنی سیاسی بے وقوفی، سیاسی خود غرضی اور سنگین خطرات کے ادراک میں کم نظری کے باعث خود اپنے خلاف دشمن کی مدد کرتے ہیں، تو عام طور سے قسطوں والا طریقۂ کار اختیار کیا جاتا ہے، جیسا کہ ۱۹۸۰ء میں عراقی حملے کے دوران ایران اور ۲۰۱۵ء میں ایرانی حملے کے دوران شام میں ہوا، اور جس کے نتیجے میں علاقے کے متعدد ممالک اور عوام پر تلخ اثرات مرتب ہوئے۔ 

بعض اوقات، ٹھکانے لگانے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ماضی کے زخموں کو چھیڑا جائے، تاریخی، قومی اور فرقہ وارانہ مظاہر کے ذریعے قوم میں موجود ساختی دراڑوں کا فائدہ اٹھایا جائے۔ ان بے وقوفوں اور نادانوں کے جذبات کو بھڑکایا جائے، جن کا دیرینہ شوق یہ ہوتا ہے کہ زمانہ حال میں ماضی کی جنگیں لڑی جائیں اور جن کا محبوب مشغلہ مفکر محمد احمری کے الفاظ میں: ’’گڑے مُردے اُکھاڑنا اور زندوں کو موت کے گھاٹ اتارنا‘‘ ہے۔ 

تقریباً ۴۵ برس پہلے، اکتوبر ۱۹۸۰ء میں، رونالڈ ریگن نے، جو اُس وقت ریپبلکن پارٹی کے صدارتی اُمیدوار تھے، اپنے دوست ہنری کسنجر سے ملاقات کی اور اس سے مشورہ کیا کہ صدارتی انتخاب میں کامیاب ہوجانے کی صورت میں ان کی خارجہ پالیسیاں کیا ہونی چاہئیں؟ اُس دن ریگن کے ذہن میں ایک اہم سوال یہ تھا کہ عراق-ایران جنگ کے بارے میں امریکا کی حکمت عملی کیسی ہونی چاہیے؟ کسنجر نے سرد مہری سے جواب دیا: ’’امریکی مفاد یہ ہے کہ عراق-ایران جنگ جاری رہے، اس لیے تمھاری کوشش یہ رہنی چاہیے کہ دونوں ممالک کے درمیان لڑائی جاری رہے‘‘۔ 

اس تباہ کن جنگ کے دوران، جس کی بھاری قیمت آج بھی پورے خطے کو چکانی پڑ رہی ہے، ریگن اور بعد میں جمی کارٹر بھی اس جہنمی مشورے پر عمل پیرا رہے۔ اس کے نتیجے میں، امریکی حکومت ایران اور عراق دونوں کو لڑائی جاری رکھنے کا سامان فراہم کرتی رہی اور دونوں ہی کو جنگ ختم کرنے اور اپنے عوام کے لیے اس مہلک خوںریز بھٹی سے باہر نکلنے سے روکے رکھا۔ 

عراق ایران جنگ کے دوران عراقی فوج کے چیف لیفٹیننٹ جنرل نزار خزرجی نے یہ بات نوٹ کی کہ عراق اور ایران کس طرح اسرائیل کو فائدہ پہنچاتے ہوئے ایک گہری کھائی میں گرگئے ہیں۔ انھوں نے اسے ’ایک تاریک سرنگ‘ قرار دیا جو عراق کے لیے تیار کی گئی تھی، تاکہ وہ ایک طویل تھکادینے والی جنگ میں پھنس جائے، جس کے دو مقاصد تھے: ایک تو عراق کی برتر قوت کو غیر مؤثر کرنا، جو اسرائیلی دشمن کے مقابلے میں ایک اہم عنصر تھا، اور دوسری طرف، جنگ کو جاری رہنے دینا تاکہ وہ جنگ میں شامل دونوں ملکوں سے بھاری ٹیکس وصول کرتی رہے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں متحارب ملکوں کو کمزور کرنا اور ان کا بندوبست کرنا بھی اس جارح ریاست کے مفاد میں تھا۔ (بہ حوالہ: نزار خزرجي، ’مذکرات مقاتل، جنگ جو کی ڈائری‘) 

’بتدریج ٹھکانے لگانے‘ کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ خطے کے فریقوں میں سے کسی ایک فریق اور امت کے اجزا میں سے کسی ایک جزو کو نشانہ بنایا جائے اور اس طرح خطے کی اقوام اور امت کے اجزا کے درمیان باہمی تعاون کے احساس کو ماؤف کردیا جائے۔ نوّے کے عشرے میں برسہابرس عراق کو تباہ کرنا اور اسے لمبے حصار سے دوچار رکھنا، پھر ۲۰۰۳ء کی ابتدا سے اس پر قابض ہوجانا اور اسے ٹھکانے لگادینا، اس کی تلخ مگر کلاسیکل مثال ہے۔  

حالیہ جنگ کی حقیقت 

ان عمومی تمہیدی کلمات کے بعد، ہم حالیہ جنگ کی ماہیت اور نتائج کے حوالے سے تجزیے کی کوشش کریں گے۔ حالیہ جنگ کی ماہیت کو سمجھنے کے لیے ہمیں زیادہ وسیع سیاق میں اسے رکھنا چاہیے۔ بیرونی مداخلت کی حالیہ صورت حال بھی سامنے رکھیں گے اور عام اسٹرے ٹیجک ماحول پر ’طوفان اقصیٰ‘ کے اثرات کو بھی پیش نظر رکھیں گے۔  

اس خطے میں امریکا کے حصے میں برطانوی فوجی استعمار کی وراثت آئی۔ اس نے اسے سیاسی اور ’اسٹر یٹی جیکل‘ استعمار میں تبدیل کردیا جو لمبی مدت تک اسے پھل دیتا رہے۔ آج اسرائیل کے عزائم یہ ہیں کہ امریکی سیاسی استعمار اسے وراثت میں مل جائے۔ ویسے بھی امریکا خطے کے بوجھ کو کم کرنے اور اپنی سرحدوں تک سمٹ جانے، نیز مشرقی ایشیا میں چین کے ساتھ بڑی کش مکش پر توجہ مرکوز کرنے کی طرف پیش قدمی کررہا ہے۔ ایران کے خلاف اسرائیلی جنگ کو ان اسرائیلی عزائم سے الگ نہیں کیا جانا چاہیے۔ اگر یہ نہ ہوتے تو اسرائیل، ایران کے معاملے میں اسے جوہری طاقت سے باز رکھنے کی پالیسی پر اکتفا کرتا۔  

لیکن ایک طرف تو اسرائیل، برطانیہ عظمیٰ یا امریکا جیسی طاقت کا مالک نہیں ہے، دوسری طرف یہ وہ زمانہ نہیں ہے جس میں ان دونوں ملکوں کی بالادستی تھی۔ اس لیے اسرائیلی اسٹرے ٹیجی، جسے امریکا کی پشت پناہی حاصل ہے، خطّے کے بعض لیڈروں کی رضاکارانہ غلامی پر انحصار کرتی ہے۔ یہ لیڈر قدیم دور کے 'استعماری قافلوں کے ہراول دستے بننے کا شوق رکھتے ہیں، حالاں کہ انھیں اس کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔  

لیکن یہ غلامی کا شیوہ ہے، یا ابن خلدون کی اصطلاح میں ’سرفگندگی اور حوالگی کا مذہب‘ ہے۔ حالیہ برسوں میں کچھ عرب ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ پورے ’ایمان واخلاص‘ کے ساتھ نارملائزیشن کے معاہدوں پر دستخط کیے، حالاں کہ نہ تو اسرائیل سے ان کی کوئی کش مکش تھی اور نہ ان کی سرحدیں اسرائیل سے ملتی تھیں۔ ایسے معاہدوں پر ابن خلدون کا مذکورہ بالا قول پوری طرح صادق آتا ہے۔  

اس طرح ان عرب ملکوں نے اسرائیل کی گود میں مفت کی کامیابیاں لاکر ڈال دیں، جس سے اس کی نرگسیت بڑھ گئی اور اس کا دماغ آسمان پر پہنچ گیا۔ ایران کے خلاف اسرائیل کی جنگ سے دراصل اس خطے میں جو اسٹرے ٹیجک خلا پیدا ہوگیا ہے، اسے بھرنے کے اسرائیلی عزائم کی طرف پیش قدمی ہے۔ دوسری طرف اس خطے کے لوگوں نے اپنے لیے یہ پسند کرلیا ہے کہ وہ دائمی کمزوری اور نقاہت کی حالت میں رہیں۔ 

حالیہ جنگ کے آغاز میں سب سے پہلے امریکا کے مبہم اور فریب کار کردار کی طرف نگاہ جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکا کا فیصلہ تو عرصے سے جنگ کے حق میں تھا، لیکن امریکیوں نے اسرائیلیوں کے ساتھ یہ طے کرلیا تھا کہ امریکا شروع میں ذرا پیچھے اور فاصلے پر رہے گا، امداد پر اکتفا کرے گا، ایران کو دھوکا دے کر غفلت میں رکھے گا، یہاں تک کہ اسرائیل اچانک اس پر پہلی ضرب لگانے کی پوزیشن میں آجائے۔  

امریکی صدر ٹرمپ نے اس میدان میں بھرپور اداکاری کی۔ اس نے ایرانیوں کو یہ اطمینان دلایا کہ وہ ان کے ساتھ ایک نیا ایٹمی معاہدہ کرنے کے لیے سنجیدہ ہے، اور خوش گمانی اور لچک کا مصنوعی ماحول بناکر انھیں سُن کردیا۔ یہ بات واضح ہے کہ ایرانی غفلت کے جال میں پھنس گئے۔ پہلی اسرائیلی ضرب کے وقت ان کی طرف سے کسی تیاری کا اظہار نہیں ہوا اور اسی لیے وہ اپنے بہترین اعلیٰ فوجی افسران اور شان دار ایٹمی سائنس دانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ 

ایران کے خلاف اسرائیلی جنگ کا ’طوفان اقصیٰ‘ سے گہرا اور مضبوط تعلق ہے۔ ملٹری سائنس میں کہا جاتا ہے کہ ’’ہر جنگ کے کچھ غیر مطلوبہ ثمرات بھی ہوتے ہیں جو مطلوب ثمرات سے کبھی زیادہ بھی ہوجاتے ہیں‘‘۔ ’طوفان اقصیٰ‘ کے دو ثمرات کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ اسٹرے ٹیجک اہمیت کے پہلو سے وہ مطلوب ثمرات سے بڑھ کر ہیں: ایک بشار اسد سے ملک شام کو آزادی مل جانا اور دوسرا اسرائیل اور ایران کے درمیان حالیہ جنگ کا بھڑک جانا۔  

شہید عظیم یحییٰ سنوار کو توقع تھی کہ ’طوفان اقصیٰ‘ فلسطین کے گردوپیش کے اسٹرے ٹیجک ماحول میں گہری تبدیلی پیدا کرے گا۔ جس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ایران کی اسرائیل کے ساتھ راست مڈبھیڑ ہوگی۔ اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس معاملے میں ان کا اندازہ بالکل درست تھا۔ حالاں کہ میں نے بھی اور بہت سے دوسرے افراد نے بھی اسے بظاہر دور کا خواب سمجھا تھا۔  

بہرحال، اچانک کیا جانے والا پہلا حملہ اگر کامیاب بھی ہوجائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ جنگ بھی جیت لی گئی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو جاپان نے ’پرل ہاربر‘ کے مہلک حملے کے بعد امریکا کو شکست دے دی ہوتی۔ اسرائیل نے اپنی پہلی کامیاب کارروائی کا زیادہ لطف نہیں اٹھایا ۔ حالانکہ وہ ایران کے لیے تکلیف دہ تھی اور جلد ہی اس حملے کا جواب اور ردعمل شروع ہوگیا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اسرائیل کا غیر متوقع حملہ اور اس کے بعد کے حملے، ایرانی جوہری پروگرام کے مرکز تک پہنچنے میں ناکام رہے، خاص طور پر ’فوردو‘ کی محفوظ تنصیبات جو پہاڑ کے قلب میں واقع ہیں، اور ایران کے افزودہ یورینیم کا ذخیرہ۔ 

جنگ کی راہیں اور انجام 

اب ہم جنگ کی درپیش راہوں کا اندازہ کرسکتے ہیں جو بہرحال تقریباً غیر یقینی ہوگا۔ وقت کے گزرتے واقعات کی تبدیلی سے یہ تصور تبدیل بھی ہوسکتا ہے۔ ہر جنگ اپنے طریقے سے مختلف پیچ و خم سے گزرتی ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کی راہوں اور نتیجوں کا تعین کیا جاسکے۔ کیوں کہ ایسے عوامل درپیش ہوسکتے ہیں، جن کا شروع میں منصوبہ بندی کے وقت خیال تک نہیں ہوتا ہے۔ بہرحال، اس جنگ کی اب تک جن راہوں کا تصور کیا جاسکا ہے، وہ حسب ذیل ہیں: 

  • پہلی راہ: ایرانی قیادت سرنگوں ہوجائے اور ٹرمپ کے ساتھ ایک سمجھوتا کرلے، جس کے تحت وہ اپنے جوہری پروگرام اور میزائل ٹکنالوجی سے دست بردار ہوجائے۔ ایسا اس وقت ممکن ہے، جب کہ جنگ کے جاری رہنے سے اسے اپنے وجود کو خطرہ محسوس ہو۔ خاص طور سے اگر امریکا براہِ راست جنگ میں شامل ہوجائے، یا ایرانی قیادت کو امریکی عزائم کا یقین ہوجائے۔ یہ راہ یکسر بعید ہے۔ کئی وجوہ سے، جیسے:ایرانی قوم گہری انتقامی ثقافت کی حامل، اپنے اوپر زیادہ ناز کرنے والی اور دفاعی اور تھکانے والی جنگ میں صبر کرنے والی قوم ہے۔ 

ایٹمی اور میزائل ٹکنالوجی میں سرمایہ کاری ہی ایرانی اسٹرے ٹیجی کا کل سرمایہ ہے۔ یہ کوئی ثانوی چیز نہیں ہے، جس سے دست بردار ہونا آسان ہو۔ 

ایران کی سیاسی اشرافیہ امریکا پر بھروسا نہیں کرتی ہے۔ وہ کسی بھی حالت میں اپنی گردن حوالے نہیں کرے گی، خواہ اسے کسی بڑی طاقت کے ساتھ وجودی جنگ میں اترنا پڑجائے۔ 

  • دوسری راہ: ایران وقت پانے کے لیے سیاسی ’تقیہ‘ اور ڈپلومیٹک خفیہ کاری کا راستہ اختیار کرے۔ یہاں تک کہ ایٹمی دفاعی قوت اسے حاصل ہوجائے۔ 

اس راہ میں ہوسکتا ہے کہ ایران اعلان کردے کہ وہ یورینیم کی افزودگی سے دست بردار ہونے کو تیار ہے، لیکن اپنے ایٹمی اور میزائل پروگرام سے دست بردار نہ ہو۔ اس کے بدلے امریکا جنگ روک دے۔ وہ امریکا اور اس کے حلیفوں کے ساتھ اس مضمون کا نیا ایٹمی معاہدہ کرلے۔ پھر مستقبل میں چپکے سے ایک خفیہ ایٹمی پروگرام کو برقرار رکھے، یہاں تک کہ ایٹمی طاقت بننے کا اس کا خواب پورا ہوجائے۔ 

 یہ راہ بھی قابلِ عمل نہیں لگتی ہے۔ کیوں کہ امریکا اور اسرائیل اس وقت تک راضی نہیں ہوں گے، جب تک ایرانی بالادستی کو پامال کرکے تحقیق وتفتیش کے نام پر اس کی سرزمین کے ہرراستے میں داخل نہ ہوجائیں۔ جیسا کہ اس سے پہلے عراق میں ہوا۔ جب کہ ایرانی قیادت اس کے لیے ہرگز آمادہ نہیں ہوگی کہ وہ سیکوریٹی، فوجی اور سیاسی، ہر پہلو سے سامنے آجائے اور بالکل غیرمحفوظ ہوجائے۔ 

  • تیسری راہ:ایران کے پاس ۶۰ فی صد افزودہ یورینیم ہے۔ اس سے وہ روایتی انداز کا ایٹم بم جلدی سے بنالے۔ اس کے پاس ایسی ۵۰۰ کلو افزودہ یورینیم ہے، جو روایتی قسم کے دس ایٹم بم بنانے کے لیے کافی ہے۔ تاہم، ان کے دھماکے کا اثر ترقی یافتہ ایٹم بموں کے برابر نہیں ہوگا، جن کے لیے ۹۳ فی صد افزودہ یورینیم درکار ہے۔ لیکن بہرحال ایک دفاعی ہتھیار تو وہ ہے۔ 

یہ راہ ممکن اور قابلِ عمل ہے۔ یہ خیال ڈاکٹر یسری ابوشادی کا ہے جو بین الاقوامی ایجنسی برائے ایٹمی توانائی کے تفتیش کاروں کے سابق صدر ہیں۔ انھوں نے اپنے سائنسی تجربے اور ایران کے ایٹمی پروگرام سے آگہی کی بنا پر یقین کے ساتھ کہا کہ ایران کم افزودہ یورینیم سے ایک سے دوہفتے کے اندر ایٹم بم بناسکتا ہے۔ 

ایٹم بم کے ٹیسٹ کے لیے اس کے پاس سائنسی تجربہ، ٹیکنیکل استعداد اور مناسب جگہیں میسر ہیں۔ رچرڈ نیفیو کولمبیا یونی ورسٹی کے محقق ہیں اور صدر بائیڈن کی حکومت میں ایرانی معاملات کے لیے مختص امریکی نمائندے کے اسسٹنٹ رہ چکے ہیں، وہ بھی اس راہ کو بعید نہیں سمجھتے۔ 

  • چوتھی راہ: آگ کا پھیل جانا۔ یہ اس وقت ہوسکتا ہے، جب امریکا جنگ میں داخل ہوجائے اور ایران کے افزودہ یورینیم کو اپنے قبضے میں کرلے یا ایران کو روایتی ایٹم بم بنانے میں اسے استعمال کرنے سے روک دے اور ایران کے میزائل پروگرام کے اہم حصے کو تباہ کردے یا ایرانی مقتدرہ کے وجود کو خطرے سے دوچار کردے۔ 

اس حالت میں ایران کے پاس کچھ کھونے کو نہیں بچے گا، پھر اس کا میلان جنگ کے دائرے کو بڑھانے اور آگ پھیلانے کی طرف ہوگا۔ اپنے ہاتھوں سے یا اپنے حلیفوں کے ذریعے وہ امریکی مفادات کو نشانہ بنائے گا اور توانائی کا عالمی بحران کھڑا کردے گا، جس سے جنگ علاقائی نہ رہ کر عالمی صورت اختیار کرلے گی۔یہاں یہ یاد دلانا اہم ہے کہ روس کے لیے ایران کی غیرمعمولی جیوپولیٹیکل اہمیت ہے اور چین کے لیے توانائی پر مبنی معاشی اہمیت ہے۔ ایران روس کی جنوبی سرحد ہے۔ 

دوسری طرف چین کا ایران سے ’اسٹر یٹی جیکل‘ شراکت کا معاہدہ ہے۔ وہ ایران سے اپنی ضرورت کے بڑے حصے کا پٹرول درآمد کرتا ہے۔ ایران کے خسارے یا تباہی پر خاموشی اختیار کرنا اس کے لیے آسان نہیں ہوگا۔ 

  • پانچویں راہ: امریکا کو یہ یقین ہوجائے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنا اسرائیل کے بس کی بات نہیں ہے۔ امریکا کے موقع دینے کے باوجود وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ دوسری طرف امریکا اس پر مترتب ہونے والے مذکورہ بالا سنگین نتائج کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ طے کرلے کہ وہ راست مداخلت سے باز رہے گا۔ اس صورت میں امریکا اسرائیل کو جنگ بندی کے لیے مجبور کرے گا اور اب تک جو ہوگیا اسے کافی سمجھے گا۔ کیوں کہ فریقین میں سے ہرفریق نے دوسرے کو تکلیف سے دوچار کیا اور اس طرح باہم باز رکھنے کی کیفیت حاصل ہوگئی، ایک طویل جنگ بندی کو یقینی بنانے کے لیے یہ کافی ہے۔  

ان ممکنہ راہوں میں پہلے نمبر پر یہ ہے کہ ایران روایتی ہی سہی ایٹمی طاقت حاصل کرلے۔ اس کے بعد آگ کے پھیل جانے کی راہ ہے۔ جہاں تک سرنگوں ہوجانے یا تقیہ کرنے کی راہ ہے تو وہ قابلِ عمل نہیں لگتی۔ 

جہاں تک عرب پڑوسیوں کی بات ہے، سب سے بہتر راہ پانچویں ہے، جس میں جلد از جلد جنگ رُک جائے۔ دوسرے نمبر پر یہ ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے میں کامیاب ہوجائے۔ کیوں کہ خطہ میں امن وامان ہونہیں سکتا اور خلیج پر اسرائیلی بالادستی کے عزائم پر روک نہیں لگ سکتی، جب تک ایران کو ایٹمی تحفظ حاصل نہ ہوجائے۔ اس کے بعد سیاسی تقیہ کی راہ ہے، گو کہ لانگ ٹرم میں وہ قابلِ عمل نہیں ہے۔  

جہاں تک آگ پھیلنے کی راہ ہے، تو وہ عرب اور مسلم پڑوسی ممالک کے لیے بہت بڑا سانحہ ہوگا اور جہاں تک ایران کے جھک جانے کی بات ہے تو اس کے نتیجے میں صہیونی طاقت کے سامنے ’سیاسی عبودیت‘ کا دروازہ کھل جائے گا اور سبھی لوگ پورے طور پر ’اسٹر یٹی جیکل‘ عدم تحفظ کا شکار ہوجائیں گے۔  

حالیہ جنگ کے ایسے حالات میں مناسب تر اخلاقی اور سیاسی موقف اختیار کرنے کی کم سے کم سطح کیا ہونی چاہیے؟ 

سیاسی حالات کا ہنگامہ 

مشاہدہ کیا گیا ہے کہ جب بھی نئے سیاسی حالات پیدا ہوتے ہیں، اور ایران اس میں ایک فریق ہوتا ہے، تو ایران اور اس کے ماضی اور حال کی پالیسیوں اور اس کی دور و نزدیک کی تاریخ کو لے کر عربی فضا میں ایک ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے۔  

یہ ایک مشکل موضوع ہے، اس میں حق و باطل گڈمڈ ہوجاتے ہیں۔ انصاف پسندی اور عصبیت پسندی کے تقاضے باہم ٹکراتے ہیں۔ جذبات کا جوش اور اسٹرے ٹیجک حساب کتاب میں خلط مبحث ہوجاتا ہے۔ اس بحث میں سب سے بری بات یہ ہے کہ اس کی پشت پر جو یادداشت کام کرتی ہے، اس میں چھید ہوتے ہیں۔ اس مصیبت زدہ خطے میں چند برسوں پہلے جو کچھ بیتی وہ پیش نظر نہیں رہتی ہے۔ اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ یادداشت کو تازہ کیا جائے، کچھ بھولے ہوئے بدیہی مسلّمات کو یاد دلایا جائے اور ماضی قریب سے عبرت پکڑنے کی اپیل کی جائے۔  

ہم اختصار کے ساتھ اس حوالے سے پانچ باتیں پیش کریں گے: 

  • پہلی بات: مسلمان پر اگر ظلم ہو تو مسلمان کا مسلمان پر حق ہے کہ اس کی مدد کی جائے، یہ شریعت کا طے شدہ فریضہ ہے، خواہ وہ مسلمان سُنّی ہو یا شیعہ، سلفی ہو یا غیر سلفی۔ حضرت انس بن مالکؓ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہماری نماز ادا کی، ہمارے قبلہ کو قبلہ بنایا اور ہمارے ذبیحہ کو حلال سمجھا، وہ مسلم ہے، جسے اللہ اور اس کے رسول کی امان حاصل ہے۔ سو ،اللہ کی امان میں سیندھ نہ لگاؤ۔ (صحیح بخاری)  

غرض جب تمام مسلمانوں کا عمومی دشمن کسی پر حملہ آور ہو، تو ان مسلمانوں کی مدد لازم ہے۔ یہ فریضہ اس وقت تک باقی رہے گا جب تک وہ اصل اسلام پر باقی ہے۔ عقائد کے باریک مسائل میں اختلاف، یا سیاسی مفادات میں فرق، یہاں تک کہ امت کے افراد کے آپس کے ظلم و ستم، خواہ وہ کتنے ہی بڑے اور زیادہ ہوں، اس فریضہ پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔اس لیے شرعی طور پر یہ طے شدہ بات ہے کہ اس وقت اسرائیل کے مقابلے میں ایران کے ساتھ کھڑا ہونا لازم ہے، خواہ وہ زبانی اور اخلاقی مدد ہی کیوں نہ ہو۔ 

  • دوسری بات: تازہ یادداشت کے ساتھ جب پورے منظرنامےکو دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ۲۰۲۵ء میں ایران کو اسی طریقے سے نشانہ بنایا جارہا ہے، جس طریقے سے ۲۰۰۳ء میں عراق کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس میں ذرہ برابر فرق نہیں ہے۔ 

آج اگر ایران نشانے پر ہے تو وہ محض ایران نہیں ہے اور کل جب عراق نشانے پر تھا تو محض عراق نہیں تھا۔ دراصل یہ پوری امت کو نشانہ بنانا ہے۔ امریکا اور اسرائیل کا مقصد یہ ہے کہ امت کی قوتِ مدافعت توڑ دی جائے اور اس کی قوت کے پوشیدہ امکانات کو ختم کردیا جائے، خواہ وہ قوت عراقی ہو یا شامی، ایرانی ہو یا ترکی یا پاکستانی۔ البتہ یہ نشانہ بازی قسط وار ہورہی ہے، تاکہ حال میں ڈوبے ہوئے اور اپنے آج سے آگے نہ دیکھ پانے والے بے وقوفوں کو غفلت کا شکار رکھا جائے۔ 

آج جو ایران کو نشانہ بنارہا ہے، اس کا مقصد شام، عراق یا یمن میں بہنے والے خون کا بدلہ لینا نہیں ہے، بلکہ وہ تو آج بھی اس پر بضد ہے کہ اسے ان سب کا خون بہانے اور ان سب کو ذلت و عبودیت میں باقی رکھنے کی قدرت حاصل رہے۔ 

  • تیسری بات:تنقید واحتساب کا وقت، زبان اور پس منظر الگ ہوتا ہے اور مدد و نصرت کا وقت زبان اور پس منظر الگ ہوتا ہے۔جس وقت دشمن امت کی حرمت پامال کررہا ہو، جیسا کہ اس وقت اسرائیل، ایران کے ساتھ کررہا ہے، تو وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ایران کی مدد کی جائے۔ اس وجہ سے نہیں کہ وہ ایران ہے بلکہ اس وجہ سے کہ وہ اس اُمت کا حصہ ہے، جس کی حرمت پامال کی جارہی ہے، اور اس وجہ سے بھی کہ آج ایرانی قوت کو اسی طرح چکنا چور کیا جارہا ہے، جس طرح کل عراق کی قوت کو چکنا چور کیا گیا تھا۔ اس کے بعد پھر پڑوس کی چھوٹی عرب دنیا اوربڑی مسلم دنیا کے ملکوں کی باری بھی آئے گی۔ بالکل ویسے ہی جیسے عراقی قوت کو توڑ دینے کے بعد جزیرۂ عرب اورعرب مشرق کی حُرمت پامال کرنے کے راستے کھل گئے تھے اور جس کے بعد مسلم اُمت کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ 

اس وقت، جب کہ ایران اسرائیلی آگ کی زد میں ہے، ایران کے ساتھ پچھلے حساب چکانے کی بات کرنا، اچھی نیت ہو تو سیاسی حماقت اور بری نیت ہو تو اپنوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا اور حملہ آور دشمن کے قافلے میں شامل ہوجانا ہے۔ یہ روش اُمت کو تباہ کرنے میں مددگار ہوتی ہے۔ 

  • چوتھی بات: آج، جب کہ ایران کو شام سے نکالا جاچکا ہے اور لبنان میں اس کے حلیفوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے، وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اپنے پڑوسیوں پر حملہ کرے یا انھیں اپنی توسیع پسندی کا نشانہ بنائے۔ اور اگر یہ مان بھی لیں تب بھی اس وقت وہ اپنی زمین پر اسرائیل کے ساتھ بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اسلام اور انسانیت کے تمام معیارات کی رُو سے اس کی یہ جنگ جائز دفاعی جنگ ہے۔ امریکی اسرائیل دشمن نے پوری امت کی فصیل میں جو رخنہ پیدا کیا ہے، وہ اسے بند کرنے کی جنگ لڑرہا ہے۔کتنا بڑا فرق ہے اس میں جس کی سرزمین پر ایران حملہ آور ہو اور وہ اپنے ہتھیاروں سے ایران سے جنگ کرے، اور اس میں جس کی سرزمین پر صہیونی حملہ آور ہوں اور وہ صہیونی ہتھیاروں سے ایران سے جنگ کرے۔ 

پہلا گروہ دین، حق اور انسانیت سے آراستہ ہے اور دوسرا گروہ ان سب اوصاف سے عاری ہے۔ اگر ایسا ہوا ہے کہ ایرانی رہنماؤں کو ان کی سیاسی خود غرضی، یا قومی جانب داری، یا فرقہ وارانہ عصبیت نے گم راہ کیا اور انھوں نے خطے کے اہم معاملات میں غلط موقف اختیار کیا، جیسے عراق پر فوج کشی اور شام میں انقلابی تحریک کے سلسلے میں ہوا، تو ظاہر بات ہے کہ وہ اپنے اس رویے میں ہمارے لیے نمونہ نہیں ہیں۔ آج ایران کی آزمائش کے وقت اس کے خلاف سیاسی خود غرضی، قومی جانب داری اور فرقہ وارانہ عصبیت کا دامن تھامنا اس کے شایان شان نہیں ہے جو اللہ، اس کے رسولؐ اور مسلم اُمت کا خیر خواہ ہو۔ 

  • پانچویں بات: جو لوگ سیاسی ڈسکورس کا شعور نہیں رکھتے کہ بات کو صحیح سیاق میں کیسے رکھا جاتا ہے اور جو لوگ اسٹرے ٹیجی کی سمجھ نہیں رکھتے کہ کوششوں کی صحیح جگہ سے آگاہ رہیں، وہ اس وقت جب یہ کہتے ہیں کہ ظالموں کے ہاتھوں ظالم ہلاک ہوجائیں اور وہ درمیان سے بسلامت نکل جائیں، تو دراصل وہ امت میں بے عملی اور منفی عمل کو فروغ دیتے ہیں،جب کہ یہ وقت کوشش و محنت کا تقاضا کرتا ہے۔ 

اور اگر کسی کے دل میں اپنی قوم کے حوالے سے ایران سے بدلہ لینے کی آگ جل رہی ہو، اور وہ اسرائیل کے خلاف ایران کی مدد کے لیے اپنے دل اور زبان کو آمادہ کرنے پر آمادہ نہ ہو، تو اس کے لیے خاموشی بہتر ہے،تاکہ وہ اس دشمن کا ہم رکاب تو نہ ہوجائے جو امت کو صفحۂ ہستی سے مٹادینے کے درپے ہے۔ 

لیکن اگر وہ خاموشی سے آگے بڑھ کر اس بڑی جنگ میں ایران کی مصیبت پر خوشی منائے اور ہمت شکنی کا کام کرے تواس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ بات ہر صاحبِ بصیرت جانتا ہے کہ یہ جنگ صرف ایران تک محدود نہیں رہے گی، بلکہ پورے خطے بلکہ پوری مسلم امت کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔ اس جنگ کے پیچھے دشمن کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے تمام ملکوں اور اقوام کی حُرمت کو پامال کرے اور مسلم امت پر یہودی بالادستی کے ایک نئے دور کو مسلط کرے۔  

اپنے زمانے میں رہنا سیکھیں 

جس کی نگاہِ بصیرت حالات کو دیکھ رہی ہے، جو صہیونی طاقتوں کی اسٹرے ٹیجی اور ترجیحات سے آگاہ ہے، وہ بڑی آسانی سے یہ سمجھ سکتا ہے کہ خدانخواستہ ایران کی شکست کی صورت میں سب سے پہلے جس کے اوپر مصیبت کے بادل گھریں گے وہ جدید ملک شام ہے۔ جو خوںخوار بشار اسد کے اقتدار سے آزاد ہوا ہے، فلسطین کی سرحدوں پر واقع ہے اور ابھرتے ہوئے ترکی کا حلیف ہے۔  

اگر شام کی نئی مقتدرہ سے امریکا نے چشم پوشی سے کام لیا ہے، جب کہ اس کا حریت پسند اسلامی پس منظر ہے اور عالمی سطح پر مجاہدانہ روابط ہیں، تو یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ امت کے اجزا کو تباہ کرنے کے لیے ’قسط وار تباہی‘ کا طریقہ اختیار کیا جارہا ہے۔ اس میں جب ایک مخصوص حصے کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو باقی دوسرے حصوں کو الگ رکھا جاتا ہے۔ امریکا کی قدیم ’اسٹر یٹی جیکل‘ روایتوں میں سے ایک یہ ہے کہ چوڑے محاذوں پر جنگ سے اجتناب کیا جائے اور بیک وقت کئی معرکوں میں مصروف نہ ہوا جائے۔ 

نئے شام کے ساتھ امریکا کی جنگ بندی اس جنگ بندی سے مختلف نہیں ہے، جو امریکا نے عراق پر فوج کشی کرتے ہوئے ایران کے ساتھ کی تھی۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ چودہ سال کی طویل مدت تک صہیونی ایجنڈے کی خاطر شامی عوام کے ساتھ خونی کھلواڑ کرنے کے بعد امریکا نے سچی توبہ کرلی ہو۔ 

یہ درست نہیں ہوگا کہ ہم بھی ’تاخیر سے سمجھنے‘ کی اس غلطی میں پڑجائیں جس کی قیمت آج ایران ادا کررہا ہے۔ اور ہم بھی اسی مہلک گناہ کا ارتکاب کریں، جس کا ارتکاب ایران کرچکا ہے، جب اس نے امریکا کی عراق پر فوج کشی کو ایک غنیمت موقع سمجھا پڑوسی سے دشمنی نکالنے، اس کی داخلی حرمت پامال کرنے اور آزادی کے ساتھ خطے میں اپنے بازو پھیلانے کا۔ اس کا انجام وہی ہوا جو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے پوری امت پر واجب ہے کہ اس وقت ایران کے ساتھ کھڑی ہو اور اس کے سقوط یا بربادی کو روکنے کے لیے تمام تر کوششیں کریں۔ اگر یہ اسلام کے بنیادی محرکات کی بنا پر نہ ہو،تو بھی سیاسی حکمت، عملی مفاد اور اسٹرے ٹیجک شعور کے محرکات کی بنا پر ہی ہو۔  

جیسا کہ مضمون کے شروع میں ذکر ہوا کہ ایران نے دشوار گزار راستہ اپنے لیے پسند کیا۔ پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے کے لیے چلتے رہنے کا عزم و جنون پالا، جب کہ دشمن کی قوت اور راستے کی وحشت بہت تھی۔ ایسے میں عالم عرب کے لیے زیب نہیں دیتا کہ وہ پستی اور پست ہمتی کی زندگی اپنے لیے قبول کرے۔ تیونس کے شاعر ابوالقاسم شابی نے بہت خوب کہا ہے: 

وَمَنْ يتهيَّبْ صعودَ الجبَـال يَعِشْ أبدَ الدَّهر بين الحُفَرْ، جو پہاڑوں کو سر کرنے سے ڈرے گا وہ زندگی بھر گڑھوں میں رہے گا۔ 

ایران آج قیمت ادا کررہا ہے اپنی اس ضد کی کہ وہ اپنی دفاعی قوت بنائے گا، اپنے اسٹرے ٹیجک فیصلوں میں آزاد رہے گا، قدس اور اقصیٰ کے قضیے میں مظلوم فلسطینیوں کی مدد کرے گا۔ اگر وہ اس آزمائش سے بحفاظت نکلنے میں کامیاب ہوگیا، امریکی اسرائیلی رکاوٹ پار کرگیا اور ایٹمی چوکھٹ سے گزرگیا، تو اس میں اس کا بھی فائدہ ہے اور پورے خطے کا بھی، کیوں کہ اس کے بعد امریکی اسرائیلی کالی گھٹا چھٹنے لگے گی۔  

اور اگر ایران حالیہ جارحیت کے سامنے ٹوٹ پھوٹ گیا، تو پورا خطہ ’منحوس غلامی‘ کے تاریک دور میں زندگی گزارے گا۔ کواکبی نے بتایا ہے کہ جب قومیں اپنی اندرونی دراڑوں میں بیرونی لالچیوں کو گھسنے کی راہ دے دیتی ہیں، تو منحوس غلامی میں جاپڑتی ہیں۔ 

اسرائیل اور ایران جنگ کے خطرات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے میرے ایک دانا ترکیہ دوست نے کہا: ’’ضروری ہے کہ ہم ایران کو بچائیں اور یہ بھی ضروری ہے کہ ہم ایران سے اپنے آپ کو بچائیں‘‘۔ پھر اس نے تفصیل سے بتایا کہ اس جنگ کے ترکیہ پر کیا منفی اثرات واقع ہوں گے۔ 

یہ مساوات ایران کے عربی پڑوس پر بھی صادق آتی ہے۔ اسے اس کی بھی ضرورت ہے کہ ایران کو تباہی سے بچایا جائے اور اس کی بھی ضرورت ہے کہ خود اسے مستقبل کی ایرانی حماقتوں سے بچایا جائے۔ اس جنگ سے ایران کو ایک تکلیف دہ سبق تو شاید مل ہی جائے کہ ایڈوانس ڈیفنس کا نظریہ جو پڑوسی کو اہمیت نہیں دیتا ہے، خود بھی پھنستا ہے اور سب کو پھنساتا ہے۔ ایران کی یہ اپروچ جتنی اس کے پڑوسیوں کے لیے خطرناک ہے، اس سے کہیں زیادہ خود اس کے لیے خطرناک ہے۔ 

بہرحال، وقت کا تقاضا یہی ہے کہ ایران کو ٹوٹنے سے اور آگ کو پھیلنے سے روکا جائے۔ میرے دوست عراقی محقق ڈاکٹر لقاء مکی نے ایران سے زبان و تیغ سے برسوں جنگ کی، لیکن اب انھوں نے لکھا: ایران کا معاملہ کچھ بھی ہواور خطے میں اس کا جارحانہ رویہ کیسا بھی رہا ہو، تاہم امریکی اسرائیلی گٹھ جوڑ کے ہاتھوں اس کی تباہی بہت بڑا سانحہ ہوگا۔ اس کے نتیجے میں ہم سب ایک نئے دور کا سامنا کریں گے جو سوبرسوں میں سب سے زیادہ سنگین اور سب سے زیادہ الم ناک ہوگا۔  

عقل مند وہ ہے جو ’نشانہ صحیح باندھے‘ اور جس وقت کا جو تقاضا ہے اسے پورا کرے۔ احمق وہ ہے، جو ماضی کو مستقبل کی بربادی کا سامان بنائے اور ناوقت اپنے پڑوسی کے سامنے اپنے عضلات کی نمائش کرے، جب کہ فریب کار دشمن چھری تیز کررہا ہو تاکہ اس کے پڑوسی کو ذبح کرنے کے بعد پھر اس کی گردن پر پھیرے‘۔