جب ایسٹ انڈیا کمپنی نےاختیارات اپنے ہاتھ میں لیے،تو اس نے اہلِ ہند کے خلاف برطانیہ میں ، یہ بے بنیاد پروپیگنڈا کیا کہ اہلِ ہند اَن پڑھ، بے تہذیب اور وحشی ہیں، لہٰذا انھیں تعلیم دینے اور مہذب بنانے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ تاجِ برطانیہ نے اہلِ ہند کی تعلیم کے لیے ۱۸۱۳ء میں، کمپنی کے چارٹر میں ، ایک لاکھ امداد کی مد شامل کی، اور پس پردہ تعلیمی نظام کو اپنے ہاتھ میں لینے کا منصوبہ بنایا۔
ابتدائی دور میں تعلیم حسبِ سابق ، فارسی و عربی میں دی جاتی تھی۔مگر ۱۸۳۵ء میں یہاں رہنے والوں کو اپنے علمی ورثے سے محروم کرنے اور ماضی کی تاریخ سے اس کا رشتہ منقطع کرنے کےلیے، انگریزی زبان میں تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا، اور ملازمت کا حصول انگریزی زبان کے ساتھ مشروط کر دیا گیا۔یہی وہ آرزو اور خواہش تھی جو چارلس گرانٹ نے برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کی تھی کہ پارلیمنٹ ،حکومت اہلِ ہند کی تعلیم کی ذمہ داری قبول کرے، انھیں مغربی علوم، سائنس و ٹکنالوجی کے علاوہ عیسائیت کی تعلیم دے، اور ذریعۂ تعلیم انگریزی کو بناتے ہوئے انگریزی زبان و ادب کو نصاب میں شامل کرے۔ اس وقت علما انگریزی سیکھنے کے مخالف نہ تھے، اور بہت سے نامی گرامی علمانے انگریزی اور پرتگالی زبانیں سیکھی تھیں ۔۱؎ خودشاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے انگریزی سیکھنے کے جواز کا فتویٰ دیا تھا ۔۲؎
مسلمان جس چیز کے خلاف تھے، وہ عیسائی مدارس کے اندر مسیحیت کی تعلیم، ان کی تہذیب، لباس و اطوار اور بائیبل کی لازمی تدریس تھی، جب کہ پروپیگنڈا یہ کیا گیا کہ مسلمان تعلیم کے خلاف ہیں۔ ۱۸۴۰ء میں ایک اور حکم نافذ کیا گیا، جو مسلمانوں کے لیے ایک نئی اور عجیب چیز تھی، کہ پڑھانے کے عوض ہرطالب علم سے فیس وصول کی جائے ۔۳؎ یعنی تعلیم کو پہلی دفعہ کمائی کا ذریعہ بنایا گیا۔
یہ وہ دور تھا کہ جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے ٹیکسوں کی بھرمار تھی۔ اہلِ ہند عموماً، اور مسلمان بالخصوص اِن کا شکار تھے۔ ایسی حالت میں، جب کہ لوگ پیٹ بھرنے کی فکر میں تھے، ان پر تعلیم کی مد میں مزید فیس عائد کرنے کا مطلب، انھیں تعلیم سے محروم کرنا تھا۔ اس حکم نامے سے ہندوؤں سے زیادہ، مسلمان متاثر ہوئے، اور یہ چیز انھیں تعلیم کے میدان میں پیچھے دھکیلنے کا سبب بنی۔ اس حقیقت کا اعتراف اس وقت کےسیکریٹری وزارتِ داخلہ ہیلی (۱۸۶۰ء ) نےبھی کیا ہے: ’’کیا یہ حیرت کا مقام ہے کہ مسلمان ایک ایسے نظام سے کنارہ کش رہے، جو پورے طور پر ان کے مفاد کے منافی تھا، اور ان کی تمام مجلسی روایات کے خلاف تھا۔ تعلیم یافتہ مسلمان دیکھ رہا ہے کہ اسے اختیارات کے حصے اور حکومتی مراعات سے محروم رکھا گیا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ زندگی کے تمام فوائد ہندؤوں کے حوالے کر دیئے گئے ہیں‘‘ ۔۴؎
مسلمان علما نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کو تعلیم کے میدان میں پیچھے دھکیلا جا رہا ہے ، اور ہندوؤں کو ترجیح دی جارہی ہے، تو انھوں نے خود جدید مدارس قائم کرنے کی طرف توجہ دی۔مگر انھیں اپنی مرضی سے جدید مدارس قائم کرنے کی اجازت نہ تھی۔مفتی ولایت اللہ نے اپنے خرچ پر فتح گڑھ میں سکول کی ایک خوب صورت عمارت بنوائی ، اور اس کے لیے کچھ سرمایہ وقف کیا۔ پھر کلکتہ کی مجلسِ تعلیمات سے اس کی منظوری لینے کے لیے درخواست دے دی، جو ٹال مٹول کے بعد بالآخر سرد خانے کی نذر ہوئی ۔۵؎
مسلمانوں کے ’وقف‘ سے چلنے والے بہت سارے تعلیمی اداروں کی پہلے گرانٹ بند کر دی گئی، پھر اگلے مرحلے میں انھیں اپنے کنٹرول میں لے لیا گیا۔ اس پر مزید ظلم یہ کیا گیا کہ اس وقف املاک کی رقم سے انگریزی کالج بنائے گئے، اور پھر زیادتی یہ بھی کی گئی کہ ان کالجوں میں ہندو طلبہ کو داخلے دیے گئے، اور کسی مسلمان کو ان میں داخل نہ ہونے دیا گیا۔ اسی فتح پور کے کالج میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی برتاؤ پر جب مسلمانوں نے بھر پور احتجاج کیا ، تو صرف ۳۰طلبہ کو داخلہ دیا گیا، جب کہ اس کالج میں ہندو طلبہ کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ تھی ۔۶؎
یہ تمام حربے اہلِ ہند کو ، بالخصوص مسلمانوں کو تعلیم سے دُور رکھنے کے لیے استعمال کیے جارہے تھے۔اس کی وجہ کمپنی کے ڈائریکٹر جیکسن نے واشگاف الفاظ میں برطانوی پارلیمنٹ میں بیان کی تھی:’’ ہم نے امریکا میں اسکول اور کالج کھولے ، امریکا کو کھو دیا۔ اب ہم ہندوستان میں اس غلطی کا اعادہ نہیں کریں گے‘‘ ۔۷؎
اس دور میں اردو ، ہندوستان کی قومی زبان کی حیثیت اختیار کر چکی تھی اور ملک کے طول و عرض میں بولی اور سمجھی جاتی تھی۔مگر جب پرتگیزی گورے آئے تو انھوں نے پرتگالی میں تعلیم دینی شروع کی، اور جب انگریز گوروں نے قبضہ جمایا تو انھوں نے انگریزی کو بطورِ ذریعۂ تعلیم لازمی قرار دیتے ہوئے اسے نافذ کیا۔مگر ساتھ ساتھ سامراج نے اپنی انتظامی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے علاقائی زبانوں کو بھی تعلیم میں شامل کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ ہی عرصےبعد، ملک میں ،ایک ہندوستانی کے بجائے مرہٹی، بنگالی، سندھی اور کوکنی وغیرہ قومیتیں ابھرنے لگیں۔ اردو جو کہ قومی زبان تھی، اس کے مقابلے میں دیوناگری زبان کو زندہ کرنے اور رائج کرنےکی ناکام کوششیں کی گئیں ۔۸؎
تعلیم کے میدان میں ایک اور بڑا انقلابی قدم یہ اٹھایا گیا، کہ تعلیم کی ذمہ داری عیسائی مذہبی پیشواؤں کے سپرد کی گئی۔ عیسائی مشنریوں نے ملک کے طول و عرض میں تعلیمی ادارے کھولے، جہاں عیسائیت کی لازمی تعلیم دی جاتی تھی۔ساتھ ہی، انھوں نے دیگر مذاہب، بالخصوص اسلام پر کھل کر اعتراضات کرنے شروع کیے، مناظرہ بازی کو ترویج دی گئی، اور نصابات کے ذریعے ہندؤوں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کیا گیا۔ حالانکہ ہندو اور مسلمان صدیوں سے یہاں اکٹھے رہ رہے تھے اور عمومی طور پر ان کے درمیان اس طرح کے مذہبی جھگڑے پیدا نہ ہوئے تھے۔ ہندستانی امور کے وزیر، جارج سیل فرانسس ہملین، نے ۲۶ مارچ ۱۸۸۸ء کو لکھا تھا: ’’ہمیں نصابی کتب اس طرح تیار کرنی چاہئیں کہ مختلف [نسلی و لسانی و مذہبی] فرقوں کے درمیان اختلافات کو تقویت حاصل ہو‘‘ ۔۹؎ اس سے کوئی ڈیڑھ ماہ قبل، کراس نامی ایک اور انگریز نے گورنر جنرل ڈفرن کو لکھا: ’’مذہبی اختلافات ہمارے لیے فائدہ مند ہیں۔مجھے امید ہے کہ ہندستانی تعلیم و تدریس سے متعلق کمیٹی، اس بات کا خیال رکھے گی‘‘۔۱۰؎
ہندستان کی نئی نسل کو جسمانی طور سے کمزور، مزاج کے لحاظ سے کند اور عقل کے لحاظ مفلوج کرنے کے لیے ، پورے منصوبے کے تحت جنوبی امریکا سے لال مرچ، تمباکو اور افیون کو لاکر یہاں کاشت کیا گیا۔لارڈ میکالے نے اپنے ایک بیان میں اسے کھل کر یوں بیان کیا: ’’ہم افیون کے کاشت کی منظوری پوری قوم کو افیون کا عادی بنانے کے لیے نہیں دیں گے،بلکہ اس مذموم مقصد کے لیے دیں گے کہ وہ ہمارے غلبے کو قبول کریں‘‘۔۱۱؎ ڈپٹی نذیر احمد کے بقول:’’ہندوستان میں بچوں کو افیون دینے کا ایسا رواج ہے کہ شاید ہی کوئی مسلمان بچہ اس سے محفوظ ہو‘‘۔۱۲؎
یہی وہ نشہ اور تعلیمی نظام ہے، جس کے بارے میں میکالے کے بہنوئی چارلس ٹریویلین نے ۱۸۳۸ء میں اپنی کتاب میں لکھا تھا: ’’غلام ہندوستان کے پاس آزادی حاصل کرنےکے دو راستے ہیں: ایک انقلاب کا اور دوسرا اصلاح کا۔انقلاب کی صورت میں ایک مہینہ میں ’مرہٹہ‘ یا ’اسلامی حکومت‘ قائم کی جا سکتی ہے۔لیکن اصلاح کے ذریعے ہندوستان کو آزادی کے لیے ایک صدی درکار ہوگی‘‘۔۱۳؎ ان کا یہ تجزیہ وقت نے درست ثابت کیا، کہ اہلِ ہند نے آزادی کے لیے انقلاب کے بجائے اصلاح کا راستہ اختیار کیا تو ۱۸۳۸ء سے ۱۹۴۷ء تک انھیں ایک صدی سے زیادہ عرصہ لگا۔
دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں یورپ و امریکا طاقت کے ذریعے ملکوں پر قبضہ کرنے سے بہت بدنام ہوئے ، تو اس سامراج نے ان ملکوں کو غلام بنائے رکھنے کے لیے بالواسطہ طریقہ اختیار کیا۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں (MNCs) نے اقوام متحدہ (یو این او) بنائی۔ اقوامِ متحدہ کی چھتری کے نیچے ورلڈ بنک، ایشین بنک اور ’انٹرنیشنل مانٹیری فنڈ‘ (آئی ایم ایف)جیسے ادارے بنائے گئے۔ اور پھر ان ممالک میں این جی اوز بناکر،امداد کے نام پر، اپنی شرائط کے تحت، سودی قرضے دے کر، ملکوں کے نظام کو اپنے کنٹرول میں لیا۔
این جی اوز کو ۱۹۸۰ء کے عشرے سے کھل کر کھیلنے کا موقع ملا اور اکیسویں صدی کے آغاز میں پاکستان پر ڈکٹیٹرجنرل پرویز مشرف نے بین الاقوامی دبائو کے تابع آکر تعلیمی پالیسی کے خدوخال وضع کیے۔یہ پالیسی ۲۰۰۶ء میں تیار کرکے تعلیمی میدان میں تبدیلی لانے کے لیے نافذ کی گئی۔ یہ تعلیمی پالیسی بھی وزارتِ تعلیم کے نصابات ونگ میں تیار نہیں ہوئی، بلکہ یہ اسلام آباد میں،’ پیس‘ نامی امریکی این جی اوکے ادارہ میں بیٹھ کر بنائی گئی۔۱۴؎ درحقیقت اس تعلیمی پالیسی کے نتیجے میں ہی این جی اوز کی سرگرمیوں میں بڑی وسعت آئی۔
ہم یہاں ڈیرہ اسماعیل خان کی مثال دیتے ہیں، جہاں کرپشن کی ثابت شدہ انکوائریوں میں ایک فرد کو ، جسے یونی ورسٹی سینڈیکیٹ نےا س کے انتظامی عہدے کے لیے نا اہل قرار دیا تھا، اسے بورڈ میں کنٹرولر لگا دیا گیا۔ شکایات پر اسے وہاں سے ہٹادیا گیا، مگر ساتھ ہی اسے ایک یونی ورسٹی میں وائس چانسلر بنا دیا گیا۔ یونی ورسٹی کے ایک ایڈیشنل کنٹرولر کو، جس پر کئی افراد کو جعلی ڈگریاں دینے کا الزام عدالت سے ثابت ہو چکا تھا، اسے وہاں سے اٹھا کر یونی ورسٹی کا کُل وقتی کنٹرولر بنادیا گیا۔ ملک بھر میں وائس چانسلرز کو میرٹ کے بجائے چیف منسٹرز کی خواہش پر لگا یا جاتا ہے، اور اس کا نتیجہ آئے روز مختلف سکینڈلز کی صورت میں، اخبارات کی زینت بنتا رہتا ہے۔یوں تعلیم کو سیاستدانوں اور کرپٹ مافیا کا کھلونا بنا دیا گیا ہے۔
اس وقت سیاسی ، معاشرتی اور تعلیمی میدان میں انہی خطوط پر این جی اوز کام کر رہی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ موجودہ نظریاتی بنیادوں کو اکھاڑ پھینکا جائے، اداروں اور ملک کو توڑا جائے اور پھر نئے سرے سے ایک ملک وجود میں آئے جس کا نام ’اکھنڈ بھارت‘ ہو۔اس توڑ پھوڑ اور ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے نقشے بنا کر بچوں کی کتابوں میں شامل کر دیے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں مخصوص نظریات کی حامل این جی اوز نے ریاست کے اندر ایک اور ریاست قائم کر رکھی ہے۔ اربابِ اختیار مال کے مزے لوٹ رہے ہیں تو این جی اوز نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت، اخلاق و تہذیب کی بربادی پراپنے آقاؤں سے داد وصول کر رہی ہیں۔
۱- سب سے بنیادی اور پہلا کام تعلیم کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔تعلیمی نظام کو اسلامی خطوط پر تشکیل دیا جائے۔ تعلیم کو صنعت کے بجائے پھر سے عبادت اور فرض کا درجہ دیا جائے اوراسے ریاست کی ذمہ داری قرار دیا جائے۔
۲- پوری دنیا کی طرح تعلیم کو مرکز کے ماتحت کرنے کے لیے آئینی ترمیم لائی جائے اور صوبوں میں دھکیلنے سے واپسی کا راستہ اپنایا جائے۔
۳- ایک آزاد اور خود مختار تعلیمی کمیشن بنایا جائے، جوپبلک سیکٹر کی جامعات، کالجوں، ہائی اور پرائمری اسکولوں کے ماہرینِ تعلیم، اساتذہ اور طلبہ نمائندوں پر مشتمل ہو،جو نہ صرف خرابیوں کا جائزہ لے سکے، بلکہ اصلاحات تجویز کرتے ہوئے ان کو عملاً نافذ بھی کرسکے۔
۴- پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے لیے ایک ہی نصاب، قومی زبان ذریعۂ تدریس ہو، ایک ہی نظامِ امتحانات اور ایک ہی لباس ہو۔دونوں سیکٹرز یعنی پبلک و پرائیویٹ کوایک ہی قانون اور نظام کا پابند بنایا جائے، اورتعلیم میں تجارتی رجحان کا خاتمہ کیا جائے۔
۵- تعلیمی اداروں میں سیاسی و بیرونی مداخلت کو قانوناً ممنوع قرار دیا جائے اور اسے ممتا ز خود مختار ماہرین تعلیم پر مشتمل کمیشن کے ماتحت کیا جائے۔
۶- تعلیمی نظام اور اداروں میں غیر ملکی این جی اوز کی مداخلت پر پابندی لگائی جائے، اور اب تک تعلیم کے نام سے خرچ کیے جانے والے اربوں کے اخراجات کا آڈٹ کیا جائے۔ کرپشن میں ملوث اور تعلیم کی آڑ میں ملکی نظریات اور مفاد کے خلاف کام کرنے والی این جی اوز پر پابندی لگائی جائےاور ملوث ذمہ داراں کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا جائے۔
۷- ملک کے اندر تعلیمی نجکاری کی پالیسی کو ختم کی جائے ۔
۱- ڈاکٹر معین الدین عقیل، مسلمان اور مغربی تعلیم، ص۵۳-۵۴
۲- فتاویٰ عزیزیہ، بحوالہ سید محمد سلیم،ص ۲۶
۳- سیّد محمد سلیم، مسلمان اور مغربی تعلیم، ص۲۰۶
۴- ایضاً، ص ۲۰۷
۵- عبداللہ یوسف علی، انگریزی عہد میں ہندوستان کے تمدن کی تاریخ، ص ۱۷۲
۶- ایضاً
۷- مسلمان اور مغربی تعلیم، ص۱۳۸
۸- سیّد مصطفیٰ علی بریلوی، مسلمانانِ سندھ کی تعلیم، آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس، کراچی، ۱۹۸۶ء، ص۶۵-۶۸
۹- سیّد عابد علی وجدی، تاریخِ ریاستِ بھوپال، مقدمہ ص۷
۱۰- ایضاً
۱۱- مسلمان اور مغربی تعلیم، ص ۷۰-۷۲
۱۲- ایضاً
۱۳- ناصر عباس نیر، تعلیمی زاویئے: نوآبادیاتی تعلیمی دور، ۲۴؍ اگست ۲۰۱۶ء
۱۴- تعلیمی پالیسی ۲۰۰۶ء، تعارف۔