جولائی 2025

فہرست مضامین

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ماحول کا تحفظ

پروفیسر محمدسعودعالم قاسمی | جولائی 2025 | اسوۂ حسنہ

Responsive image Responsive image

صنعتی انقلاب کے نتیجے میں روز افزوں متنوع صنعت گاہوں کے قیام اور نت نئے تیزرفتار ذرائع آمدورفت کی مسلسل ایجادات نے گذشتہ کئی عشروں سے ماحول کے تحفظ کو عالمی توجہ کا موضوع بنا دیا ہے، کیوں کہ ماحول کی آلودگی انسانی صحت اور زندگی کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ وہ زمین جس پر انسان رہتا اور بستا ہے اس کے بعض حصوں پر غلاظتوں اور گندگی کا اتنا انبار ہے کہ انسانی زندگی اس کے تعفن سے اذیت میں مبتلا ہے۔ صنعتی ترقی کے لیے جنگلوں اور پیڑوں کے غیرمتناسب استعمال بلکہ استحصال نے موسمی تغیرات کا رخ بدل دیا ہے۔ وہ ہوا جس میں ہم سانس لیتے ہیں صنعت گاہوں، کارخانوں اور کیمیاوی تجربہ گاہوں کے چھوڑے ہوئے فضلات اور بڑی چھوٹی موٹرگاڑیوں کی لمبی قطاروں کی کثافتوں سے اس حد تک زہرآلود ہوچکی ہے کہ انسان تنفس ، پھیپھڑے، جگر ، قلب اور جلد کی اَن گنت بیماریوں کا شکار ہو رہا ہے۔ جانور اور پرندے بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں اور نت نئی بیماریاں جغرافیائی حدود کو پار کررہی ہیں۔  

یہاں تک کہ اوزون پرت (Ozone layer) جو سورج کی شعاعوں کے مضر اثرات سے ہماری زمین کی فضا کی حفاظت کرتی ہے، اس میں سوراخ ہورہا ہے اور انسانی زندگی کے لیے خطرات روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ وہ پانی جسے انسان خود پیتا ہے اور اپنے مویشیوں کو پلاتا اور کھیتوں کو سیراب کرتا ہے، اس میں کیمیاوی مادوں اور زہریلے فضلات کی آمیزش اس قدر ہورہی ہے کہ پانی کے جانداروں کے ساتھ ساتھ انسانی جسم و جان میں بھی زہریلے اثرات منتقل ہورہے ہیں اور وہ مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہورہا ہے۔ کسی صنعتی شہر میں دن گزار کر جب آپ گھرلوٹیں تو اپنے لباس اور جسم پر اور اپنے منہ اور ناک میں کثافتوں کی سیاہی واضح طور پر محسوس کرسکتے ہیں۔ 

قومی اور بین الاقوامی جنگوں میں آتشیں ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال کے علاوہ بڑے پیمانے پر کیمیاوی گیسوں، بارودی مواد اور لیزر کی شعاعوں کا استعمال بھی کیاجانے لگا ہے۔ یہ تباہ کن ہتھیار صرف اپنے نشانہ کو ہی برباد نہیں کرتے بلکہ ایک خاص فاصلے تک پائے جانے والے ہرجاندار اور مجموعی ماحول پر بھی انتہائی مضر اثرات مرتب کرتے ہیں، جو زمین کا نمو ختم کرکے اس میں زہر بھر دیتے ہیں اور درجۂ حرارت بڑھا کر ماحول کا توازن بگاڑ دیتے ہیں۔ 

اس صورتِ حال میں حکومتوں، عالمی تنظیموں، رفاہی انجمنوں، علمی اور تحقیقاتی اداروں کی تشویش بجا اور برملا ہے۔ ہر طرف سے یہ مطالبہ ہورہا ہے کہ ماحول کا تحفظ کیا جائے، صاف ستھری فضا کو برقرار رکھنے کے لیے آلودگی پر قابو پایا جائے۔ معروضی غفلت کی وجہ سے انسان کو کسی چیز کی حفاظت کا احساس عام طور پر اس وقت ہوتا ہے جب اس کے وجود اور صحت کو خطرہ لاحق ہو۔ آنکھ میں درد ہوتا ہے تو انسان آنکھ کی فکر کرتا ہے۔ ہاتھ پائوں میں تکلیف ہوتی ہے تو انسان مالش اور معالج کی فکر کرتا ہے، ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے۔ غرض یہ کہ اصلاح کی فکر اس وقت ہوتی ہے جب فساد نظر آنے لگتا ہے۔ ماحولیات کی اصلاح اور پاکیزگی کی فکر بھی انسان کو اس وقت ہورہی ہے جب ماحول میں فساد اور کثافت پھیل گئی ہے اور لوگ اس کی زہرناکی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ 

خاتم المرسلینؐ کی تعلیمات کی ہمہ گیریت 

ذرا تصور کیجیے کہ آج سے چودہ سو برس پہلے جب نہ تو موٹر گاڑیوں کا وجود تھا اور نہ دیوہیکل کارخانے وجود میں آئے تھے۔ نہ جنگلات فنا ہورہے تھے اور نہ دریائوں میں زہر گھل رہا تھا۔ اور ماحول میں آلودگی تو آج کی طرح رچی بسی ہی نہ تھی۔ مگر چونکہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول تھے جن کے بعد قیامت تک کوئی اور نبی یا رسول مبعوث ہونے والا نہیں تھا۔ اس لیے قیامت تک آنے والے تمام حالات و تحدیات (چیلنجز) میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی ہدایت و رہنمائی کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے فراہمی ناگزیر تھی کیوں کہ ان ہدایات کے بغیر نہ دین مکمل ہوتا نہ ہرانسان کے لیے دین اسلام میں پورے کا پورا داخل ہونے کے فریضے کی ادائیگی ممکن ہوتی جسے اللہ ربّ العزت نے ہر انسان کی دُنیا و آخرت میں کامیابی کا معیار مقرر فرمایا تھا (البقرہ ۲:۲۰۸)۔ اس لیے  اللہ کے آخری رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کو ماحول کو کثافت سے پاک رکھنے اور فضا کو آلودگی سے محفوظ رکھنے کی جامع تعلیم و تلقین فرمائی۔ اصولی ہدایات، مؤثر تعلیمات اور عملی اقدامات، تینوں طرح سے ماحول کی پاکیزگی کو یقینی بنایا۔ یہ کائنات انسانوں کے لیے خالقِ حقیقی کی صناعی کا خوب صورت تحفہ ہے اور اس کی تمام جاندار اور بے جان چیزیں انسانوں کے لیے ربّ العزت کی حسین نعمت ہیں۔ اس کائنات کی خوب صورتی اور تازگی کی حفاظت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف تعلیم دی بلکہ اسے فروغ دینے میں اپنی تمام تر قوت و صلاحیت لگانے کی ضرورت کا احساس دلایا، اور فطرت کے عطیات کو فطری قوانین کے مطابق برتنے کی تلقین فرمائی، تاکہ انسان خود بھی ماحول کی پاکیزگی سے لطف اندوز ہوسکے اور دوسرے جانداروں کو بھی راحت پہنچا سکے اور ربِّ کریم کا شکر ادا کرے: 

مَا يُرِيْدُ اللہُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّلٰكِنْ يُّرِيْدُ لِيُطَہِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۶ (المائدہ۵:۶) اللہ تم پر تنگی کرنا نہیں چاہتا ، لیکن وہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک صاف کرے اور تم پر اپنی نعمت تمام کرے تاکہ تم شکرگزار بنو۔ 

خالقِ کائنات کے عطیات کا ادراک 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان و زمین، سمندر، پہاڑ، حیوانات، نباتات، پرندے، جنگلات، باغات، وادیوں اور آبادیوں، سب کچھ کو خالقِ کائنات کے متوازن نظام کا شاہکار قرار دیتے ہوئے ان کی تخلیق پر غور کرنے، ان میں کارفرما ربّ العزت کی حکمتوں کو سمجھنے اور ان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی تعلیم فرمائی۔ آپؐ نے انسانوں تک اللہ کا یہ پیغام پہنچایا: 

اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِيْہَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّۃٍ  ۝۰۠ وَّتَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۝۱۶۴ (البقرہ۲:۱۶۴) بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، رات اور دن کے ایک دوسرے کے بعد آنے جانے میں، ان کشتیوں میں جو انسانوں کی نفع رسانی کا سامان لیے سمندر میں چلتی ہیں، بارش کے اس پانی میں جسے اللہ آسمان سے برساتا ہے اور اس کے ذریعے زمین کو زندہ کردیتا ہے اور ہر طرح کی جاندار مخلوق کو زمین میں پھیلانے میں، اور ہوائوں کی گردش میں اور آسمانوں و زمین کے درمیان مسخر بادلوں میں عقل مند لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ 

قرآن حکیم کی اس آیت میں دس چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کا تعلق براہِ راست ماحولیات سے ہے:

۱- آسمان

۲- زمین

۳- دن اور رات یعنی وقت

۴-جہازرانی ۵-سمندر کے سینے پر چلنے والے سفینوں میں انسانوں کی نفع رسانی

۶-بارش ۷-زمین کی روئیدگی، کاشت کاری اور شجرکاری

۸-حیوانات کی زندگی

۹-ہوائوں کی گردش

۱۰- بادلوں کا فضا میں معلق ہونا۔
کثیرجہتی ماحولیاتی نظام کے اُن عجائبات اور ان کا انسان کے معاشرتی ماحول اور اس کی راحت رسانی کے تعلق کو، قرآن پاک میں بار بار مشاہدہ، مطالعہ اور سبق آموزی کے لیے انسانوں کے سامنے پیش کیا گیاہے۔ اس آیت میں بھی ان حکمتوں کو سمجھنے اور ان سے استفادہ کرنے کی ضرورت کا احساس دلایا گیا ہے کیوں کہ اس سے انسانی زیست کے ماحول کی تشکیل ہوتی ہے اور توازن برقرار رہتا ہے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ربّ العزت کا یہ سبق بھی انسانوں کو ذہن نشین کرایا ہے کہ کائنات کی ان ساری چیزوں کو خاص اہتمام ، انداز، توازن اور اعتدال کے ساتھ بنایا اور سنوارا جانا بامقصد ہے۔ قرآن پاک میں متعدد مواقع پر کائنات کے نظم وتوازن اور اللہ کے مقرر کردہ معیار و مقدار پر غوروفکر کو حق تک رسائی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، مثلاً ایک جگہ ارشاد ہے: 

اِنَّ اللہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰى۝۰ۭ يُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْـحَيِّ۝۰ۭ ذٰلِكُمُ اللہُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ۝۹۵ فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ۝۰ۚ وَجَعَلَ الَّيْلَ سَكَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْـبَانًا۝۰ۭ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ۝۹۶ (الانعام ۶:۹۵-۹۶) بے شک دانے اور گٹھلی کو (زمین میں) پھاڑنے والا اللہ ہے۔ وہی زندہ کو مُردہ سے نکالتا ہے۔ اور وہی مُردہ کو زندہ سے نکالنے والا ہے، یہ اللہ کے کرشمے ہیں، تم کدھر بہکے جارہے ہو؟ رات کے پردہ سے وہی دن نکالتا ہے اور اسی نے رات کو وجۂ سکون بنایا ہے اور شمس و قمر کی گردش مقرر کی ہے۔ یہ اسی غالب اور علم رکھنے والے اللہ کے ٹھیرائے ہوئے قوانین ہیں۔ 

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے: 

سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى۝۱ۙ الَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰى۝۲۠ۙ وَالَّذِيْ قَدَّرَ فَہَدٰى۝۳۠ۙ وَالَّذِيْٓ اَخْرَجَ الْمَرْعٰى۝۴۠ۙ  (الاعلٰی۸۷: ۱ - ۴) اپنے ربّ برتر کی تسبیح کرو جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا، جس نے اندازہ مقرر کیا اور راہ دکھائی اور جس نے نباتات اُگائیں۔ 

کائنات کاتوازن نہ بگاڑو 

ربّ العزت نے جس طرح اپنی تخلیق میں تناسب، توازن اور اعتدال کا اہتمام رکھا ہے اس کا تاکیدی حکم ہے کہ بندے بھی اسی طرح اپنے عمل میں اعتدال و توازن رکھیں اور اللہ کے نظامِ تخلیق کا توازن نہ بگاڑیں۔ ربّ العزت کے مقرر کردہ اس توازن کی حکمت کو سمجھنا، اسے اپنی عملی سرگرمیوں کے لیے رہنما بنانا، اسے اپنی نفع رسانی سے جوڑنا، اس سے استفادہ کرنا، اس کا توازن برقرار رکھنا، اس میں خلل پیدا نہ کرنا، انسان کی ضرورت بھی ہے اور ذمہ داری بھی: 

اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْـبَانٍ۝۵۠  وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدٰنِ۝۶  وَالسَّمَاۗءَ رَفَعَہَا وَوَضَعَ الْمِيْزَانَ۝۷ۙ  اَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيْزَانِ۝۸  وَاَقِيْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيْزَانَ۝۹  وَالْاَرْضَ وَضَعَہَا لِلْاَنَامِ۝۱۰ۙ  فِيْہَا فَاكِہَۃٌ۝۰۠ۙ وَّالنَّخْلُ ذَاتُ الْاَكْمَامِ۝۱۱ۖ  وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحَانُ۝۱۲ۚ  فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۝۱۳ (الرحمٰن ۵۵:۵-۱۳)سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں اور تارے اور درخت سب سجدہ ریز ہیں۔ آسمان کو اسی نے بلند کیا اور توازن قائم فرمایا۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو، انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو۔ زمین کو اس نے سب مخلوقات کے لیے بنایا۔ اس میں ہرطرح کے پھل ہیں۔ کھجور کے درخت ہیں، جن کے پھل غلافوں میں ہیں، ہر طرح کے غلّے ہیں جن میں بھوسا بھی ہے اور دانہ بھی، تو اے جنِّ و انس! تم اپنے ربّ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے؟ 

آیت میں شمس و قمر کی گردش کا حساب ، پیڑ پودوں کی شادابی، آسمان کی بلندی، زمین کی تخلیق، غلّے اور پھل پھول کی پیدائش جیسی نعمتوں کو انسان کے سپرد کرنے کے ساتھ یہ ہدایت کی گئی ہے کہ یہ سب کچھ قدرت کے ایک متوازن نظام اورمعتدل انتظام کا حصہ ہیں۔ اس نظام میں خلل ڈالنے اور اس حُسنِ انتظام میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کرو۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے عطیات سے اگر ربّ العزت کے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق استفادہ کیا جائے تو یہ اصلاح ہے اور اگر ان اصولوں سے انحراف کیا جائے تو یہ فساد کا باعث ہے۔ ربّ العزت صرف عطیات ہی عطا نہیں کرتے بلکہ طریقۂ استعمال کی ہدایات بھی دیتے ہیں۔ انسان ربّ العزت کے ان عطیات سے کماحقہٗ استفادہ صرف ربّ العزت کی ہدایات کے مطابق ہی کرسکتا ہے۔ 

ماحول کا فساد 

قرآن مجید میں صاف اور صریح لفظوں میں تاکید کی گئی ہے کہ ماحول میں فساد نہ کرو: وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ  اِصْلَاحِہَا (الاعراف ۷: ۵۶) ’’اور زمین میںاس کی اصلاح کے بعد فساد نہ کرو‘‘۔فساد اور اصلاح قرآنِ کریم کی دو اہم اصطلاحیں ہیں جو بڑی معنی خیز ہیں۔ اصلاح کے معنی اللہ کی تخلیق کردہ فطری ترتیب، نظام اور توازن کے ہیں، یعنی ہرچیز کو اپنی فطری جگہ پر قائم رکھنا، اور فساد کے معنی اس فطری ترتیب اور توازن و نظم میں انتشار، خلل اور بگاڑ پیدا کرنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ربّ العزت نے کائنات میں ہر چیز اندازے، قرینے، اہتمام اور اعتدال کے ساتھ رکھی ہے۔ اس میں اپنی بے راہ روی اور بداعمالی سے خلل نہ ڈالو، بگاڑ نہ پیدا کرو۔ اس کا استعمال اپنی خواہش کے مطابق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق کرو۔ ماحول کے اس نظم و توازن کا فائدہ خود انسانوں کو ہوگا اور اگر وہ اس میں بگاڑ پیدا کرے گا تو اس کے نقصانات اور مضر اثرات بھی اسی کو بھگتنے پڑیں گے۔ اس طرح انسان اپنی تباہی کا آپ ہی ذمہ دار ہوگا، ارشاد خداوندی ہے: 

ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۝۴۱(الروم ۳۰:۴۱) خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ اُن کو اُن کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے، شاید کہ وہ باز آجائیں۔ 

فساد کا ایک عمومی مطلب تو یہ ہے کہ انسانوں نے اپنے باغیانہ خیالات اور سرکشی اور باہم تنازع و تصادم کرکے زمین میں فساد برپا کرلیا ہے۔ مگر اس آیت کا اہم مصداق ماحول بھی ہے جس کے لیے خاص طور پر زمین کے ساتھ ساتھ بحریعنی دریا و سمندر کا تذکرہ کیا گیا ہے، یعنی ماحول میں آلودگی، فکروخیال اور اعمال کی گندگی، بداخلاقی اور کج روی کی وجہ سے بھی ہے اور ربّ العزت کے عطیات کے غلط استعمال اور استحصال اور ان میں انسانی کثافتوں کی آمیزش کی وجہ سے بھی ہے۔ ماحول کی آلودگی اسی وقت دُور ہوسکتی ہے کہ انسان اپنے فکروعمل کا قبلہ درست کرے اور کائنات کے تعلق بارے اپنے رویے میں مثبت تبدیلی لائے۔ 

قرآن اور خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی اس اصولی تعلیم کے ساتھ ساتھ ماحولیات کے متعلق متعین ہدایات بھی انسانوں کو دربارِ نبوت سے ملتی ہیں۔ ماقبل صنعتی عہد میں ماحول کی آلودگی ابتدائی اور سادہ شکل میں پائی جاتی تھی، مگر رسولؐ اللہ نے ماحول کی آلودگی بارے انسانی شعور کو بیدار کیا اور عملی اقدامات سے متعلق جامع اور واضح ہدایات فرمائیں۔یہ ہدایات آج بھی ماحولیات کے تحفظ اور پاکیزگی کے لیے رہنما خطوط اور سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ 

گندگی نہ پھیلاؤ 

ماحول کے تحفظ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بنیادی حکم یہ ہے کہ گندگی پھیلانے سے پرہیز کیا جائے، خاص طور پر پبلک مقامات کو گندگی سے بچایا جائے۔ رسولؐ اللہ  نے سایہ دار درخت کے نیچے، راستے میں اور مسجد میں گندگی پھیلانے سے منع فرمایا۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوچیزوں سے پرہیز کرو ۔صحابہؓ نے پوچھا: وہ موجب ِ لعنت چیزیں کیا ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ لوگوں کے راستے میں اور سایہ میں غلاظت کی جائے۔( صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب النہی عن الاستنجاء بالیمین) 

پبلک مقام کی جامع شکل عہد نبویؐ میں مسجد تھی۔ چنانچہ آپؐ نے مسجد میں تھوکنے سے بھی منع فرمایا۔(سنن النسائی ، کتاب المساجد، باب البصاق فی المسجد) 

قربانی کے دنوں میں بڑی تعداد میں جانور ذبح کیے جاتے ہیں۔ سماجی شعور کی کمی کی وجہ سے قربانی کے فضلات سڑکوں پر اور نالیوں میں بکھرے نظر آتے ہیں، گندگی پھیلتی ہے، بیماری بڑھتی ہے۔ اسلامی تعلیم یہ ہے کہ قربانی کے فضلات کو دفن کر دیا جائے۔ اگر اس ہدایت پر عمل درآمد ہو تو ماحول کی آلودگی سے بچا جاسکتا ہے۔ شریعت محمدیؐ نے ایسے ایندھن کے استعمال سے روکا ہے جس کا دھواں پڑوسی کے گھر میں جاتا ہو۔ فضائی آلودگی سے بچنے کے لیے یہ حکم ایک اصول اور کلیہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کی روشنی میں آج کل کی گاڑیوں اور فیکٹریوں کے دھوئیں کو ضابطہ کا پابند بنایا جاسکتا ہے۔ 

پاکی اور صفائی کا اہتمام کرو 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ماحولیاتی تعلیم و تربیت کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ روح، جسم، لباس اور مکان کے ساتھ ماحول کی صفائی کا پورا اہتمام کیا جائے۔ مسلمانوں کی صفت یہ بتائی گئی کہ وہ صفائی کا خاص اہتمام کرنے والے ہوتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں اہل قباء کی یوں تعریف کی گئی:  

فِيْہِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَہَّرُوْا۝۰ۭ وَاللہُ يُحِبُّ الْمُطَّہِّرِيْنَ۝۱۰۸ (التوبہ ۹:۱۰۸) اس (قباء)میں وہ لوگ ہیں جو پاکی اور صفائی کا بہت زیادہ اہتمام کرتے ہیں اور اللہ پاک اور صاف لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفائی کو ایمان کا حصہ قرار دیا اور فرمایا: النَّظَافَۃُ تَدْعُوْ اِلَی الْاِیْمَانِ وَالْاِیْمَانُ مَعَ صَاحِبِہِ فِی الْجَنَّۃِ (معجم الاوسط للطبرانی، باب العین، باب المیم من اسمہ محمد، حدیث: ۷۴۵۰) ’’صفائی ایمان کی طرف لے جاتی ہے اور ایمان اپنے ساتھی کو جنّت میں لے جاتا ہے‘‘۔ 

ہرانسان جنّت میں جانےکا آرزومند ہے۔ ہرشخص جنّت کی نعمتیں حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے ایمان و عمل سے تیاری کرتا ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس انقلابی تعلیم پر غور کیجیے کہ اگر جنّت میں گھر بنانا چاہتے ہو تو پہلے اپنے ماحول کو پاک صاف کرکے جنّت نشان بنائو تاکہ تم صحیح معنوں میں جنّت کے حق دار بن سکو۔ 

قرآن و سنت کی اس صحت آفریں تعلیم کا تقاضا یہ ہے کہ ہرمسلمان اپنے ماحول کو پاک و صاف رکھنے کی فکر کرے۔ اپنے محلّہ اور بستی میں صفائی کی مہم چلائے اور گندگی جمع نہ ہونے دے ۔ وہ یہ بھی دیکھے کہ کہیں اس کی بے توجہی جراثیم کے پھیلنے اور فضائی آلودگی کا سبب تو نہیں بن گئی ہے۔اس کے گھر کے باہر ایسا کوڑا تو نہیں جمع رہتا ہے جو دوسروں کے لیے اذیت کا سبب بنے۔ اگر ایسا ہے تو پہلی توجہ صفائی ستھرائی پر دینی چاہیے۔ 

استعمال کرو، اسراف نہ کرو 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ماحولیاتی تعلیم کا تیسرا اہم پہلو بقدرِ ضرورت استعمال کا نظریہ ہے جسے Conservationکہا جاتا ہے۔ دُنیا کی ہرچیز اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے استعمال کے لیے بنائی ہے، اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے: 

وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا (الجاثیہ۴۵: ۱۳) اللہ نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں تمھارے (استعمال کے)لیے مسخر کردی ہیں۔ 

ایک دوسری جگہ ارشاد ہے: 

ہُوَالَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِيْ مَنَاكِبِہَا وَكُلُوْا مِنْ رِّزْقِہٖ۝۰ۭ وَاِلَيْہِ النُّشُوْرُ۝۱۵(الملک۶۷: ۱۵) وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے زمین کو تابع بنایا، اس کی راہوں میں چلو، اس کا دیا ہوا رزق کھائو اور اسی کی طرف تم کو اُٹھایا جانا ہے۔ 

اللہ ربّ العزت نے اپنی نعمتیں انسان کو استعمال کے لیے دی ہیں مگر ان کا استعمال، سلیقہ اور طریقہ سے ہونا چاہیے، بقدرِ ضرورت ہونا چاہیے۔ نہ تو بلاضرورت ہونا چاہیے اور نہ ضرورت سے زیادہ ہونا چاہیے۔ ماحول میں توازن برقرار رکھنے کے لیے استعمال نہ کہ اسراف کے لیے۔ اسراف سے بچنے کی حکیمانہ تعلیم ایک خوب صورت تناظر میں اس طرح دی گئی ہے: 

 وَہُوَالَّذِيْٓ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّغَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُہٗ وَالزَّيْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِہًا وَّغَيْرَ مُتَشَابِہٍ۝۰ۭ كُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّہٗ يَـوْمَ حَصَادِہٖ۝۰ۡۖ وَلَا تُسْرِفُوْا۝۰ۭ اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ۝۱۴۱(الانعام ۶: ۱۴۱) وہ اللہ ہی ہے جس نے طرح طرح کے باغ اور تاکستان اور نخلستان پیدا کیے، کھیتیاں اُگائیں جن سے قسم قسم کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں، زیتون اور انار کے درخت پیدا کیے جن کے پھل صورت میں مشابہ اور مزے میں مختلف ہوتے ہیں۔ کھائو ان کی پیداوار، جب کہ یہ پھلیں، اور اللہ کا حق ادا کرو جب اُن کی فصل کاٹو، اوراستعمال میں حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ 

قرآن کریم میں مزید واضح لفظوں میں تاکید کی گئی ہے کہ: 

وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا۝۰ۚ اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ۝۳۱ (الاعراف۷:۳۱) اور کھائو، پیو مگر اسراف (استعمال میں حد سے گزرنا) نہ کرو کیوں کہ اللہ حد سے گزرنے والوں سے محبت نہیں فرماتا۔ 

’استعمال نہ کہ اسراف‘ کے اس بنیادی اصول کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو ماحولیات میں عدم توازن کا مسئلہ پیدا ہی نہ ہو اور اس اصول کو موجودہ صورتِ حال میں مسلسل اپنانے سے ماحولیاتی آلودگی اور عدم توازن کا مسئلہ ایک معقول مدت میں حل بھی ہوسکتا ہے۔ پانی، جنگلات، حیوانات، پرندے، معدنیات، توانائی ، قدرتی وسائل اور خورونوش اور استعمال کی تمام ضروری اشیا میں بقدرِ ضرورت استعمال (Conservation) کا اصول تحفظ اور توازن کا ماحول پیدا کرے گا اور انسان جن پریشانیوں میں مبتلا ہے اس سے نکلنے کا راستہ پاسکے گا۔ اللہ کے اس حکم کے مخاطب حکومت، ادارے، عوام، معاشرہ اور فرد سب ہیں، اور ہرفرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حکم کی تعمیل کرے۔ 

پانی کا تحفظ کرو 

پانی کو اللہ ربّ العزت کی عطا کردہ نعمتوں اور وسائل میں ایک بنیادی اور نہایت گراں قدر اہمیت حاصل ہے۔ انسانی زندگی بہت حد تک پانی پر منحصر ہے۔ اس کے استعمال میں عدم توازن اور اس میں آلودگی کی وجہ سے انسانی ماحول کو شدیدخطرات کا سامنا ہے۔ قرآن کے نقطۂ نظر سے پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہی نہیں بلکہ زندگی کی بنیاد بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ۝۰ۭ (الانبیاء۲۱:۳۰) ہم نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ہے۔ 

دوسری جگہ ارشادہے: 

وَاللہُ خَلَقَ كُلَّ دَاۗبَّۃٍ مِّنْ مَّاۗءٍ۝۰ۚ (النور۲۴:۴۵) اللہ نے ہر جان دار کو پانی سے پیدا کیا ہے۔ 

پانی کو اس کی فطری حالت پر باقی رکھنا اور اس کے استعمال میں سلیقہ کا لحاظ رکھنا انسانوں کی ذمہ داری ہے، تاکہ اس سے زندگی بخشنے والی صلاحیت ختم نہ ہوجائے۔ پانی میں رہنے والے جاندار بھی زندہ رہ سکیں اور پانی استعمال کرنے والے انسان و حیوان اور نباتات بھی زندگی پاسکیں۔  

عبداللہ بن عمروؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعدؓ کے پاس سے گزرے۔ اس وقت وہ وضو کر رہے تھے اور ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کر رہے تھے۔ رسول ؐ اللہ نے فرمایا: یہ کیسی فضول خرچی ہے؟ حضرت سعدؓ نے پوچھا: کیا وضو میں بھی فضول خرچی ہوتی ہے؟ رسولؐ اللہ نے جواب میں فرمایا: نَعَمْ وَاِنْ کُنْتَ عَلٰی نَھْرٍ جَارٍ ’’ہاں، اگرچہ تم بہتی نہر کے کنارے ہی کیوں نہ وضو کر رہے ہو‘‘۔(سنن ابن ماجہ، ابواب الطہارۃ، باب ماجاء فی القصد فی الوضوء) 

خلاصہ یہ ہے کہ پانی کا استعمال بھی سلیقہ سے کیا جائے اور پانی کو آلودگی سے محفوظ بھی کیا جائے۔ اسی لیے رسولؐ اللہ نے پانی میں غلاظت اور کثافت پھیلانے سے بھی منع فرمایا ہے: 

جابرؓ بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ اِنَّ  رَّسُوْلَ اللہِ نَھَی أَنْ یُبَالَ فِی الْمَاءِ الدَّائِمِ، ’’رسولؐ اللہ نے منع فرمایا ہے کہ ٹھیرے ہوئے پانی میں پیشاب کیا جائے‘‘۔ (الصحیح المسلم، کتاب الطہارۃ، باب النہی عن البول فی الماء الراکد) 

حیوانات ماحول کی زینت ہیں 

حیوانات انسان ہی کی طرح اللہ کی مخلوق اور ہمارے ماحول کا حصہ ہیں۔ انسانوں کی ضرورت اور انسانی ماحول کی زینت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہماری خدمت اور نفع بخش استعمال کے لیے بنایا ہے۔ اس لیے ان کی نسلوں کا تحفظ اور ان کی دیکھ بھال کرنا انسانوں کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 

وَالْاَنْعَامَ خَلَقَہَا۝۰ۚ لَكُمْ فِيْہَا دِفْءٌ وَّمَنَافِعُ وَمِنْہَا تَاْكُلُوْنَ۝۵۠ وَلَكُمْ فِيْہَا جَمَالٌ حِيْنَ تُرِيْحُوْنَ وَحِيْنَ تَسْرَحُوْنَ۝۶۠  وَتَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ اِلٰى بَلَدٍ لَّمْ تَكُوْنُوْا بٰلِغِيْہِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِ۝۰ۭ اِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝۷ۙ  وَّالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْہَا وَزِيْنَۃً۝۰ۭ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۝۸ (النحل ۱۶:۵-۸) اور جانوروں کو بھی اس نے پیدا کیا۔ ان میں تمھارے لیے پوشاک ہے اور بہت سے فائدے ہیں، اور ان میں سے بعض کو تم کھاتے ہو۔ جب شام کو انھیں جنگل سے لاتے ہو اور جب صبح کو چرانے لے جاتے ہو تو ان میں تمھاری خوب صورتی ہے اور دُور دراز مقامات جہاں تم شدید محنت کے بغیر نہیں پہنچ سکتے وہ تمھارے بوجھ کو اُٹھا کر لے جاتے ہیں۔ بے شک تمھارا ربّ شفیق و مہربان ہے اور اسی نے گھوڑے ، خچر اور گدھے پیدا کیے تاکہ تم ان کی سواری کرو، وہ تمھارے لیے زینت اور رونق بھی ہیں۔ اور وہ پیدا کرتا ہے جس کی تم کو خبر نہیں ہے۔ 

یہ آیت وائلڈ لائف کنزرویشن یعنی جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے عظیم تحریک فراہم کرتی ہے۔ اس میں جانوروں کی تخلیق، ضرورت، مقصد اور ماحول کی ان سے زینت کے بہت سے گوشے روشن کردیئے گئے ہیں۔ خاص طور پر ایک ایسے معاشرے میں جس کی معیشت میں گلہ بانی مرکزی حیثیت رکھتی ہو، جانوروں کا صبح کو گھر سے نکلنا، چراگاہوں میں جانا اور شام کو واپس آنا ایسا خوش نما منظر پیش کرتا ہے جو انسانوں کی خوشی کا ذریعہ ہے۔ 

بلاوجہ درخت نہ کاٹو 

پیڑ پودے، جنگلات اور باغات ماحول کو سازگار بنانے اور موسم کو معتدل رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ماحول میں خوش گواری اور خوب صورتی پیدا کرتے ہیں۔ جن علاقوں میں پودے، درخت اور باغات کثرت سے پائے جاتے ہیں وہاں انسان راحت اور مسرت محسوس کرتا ہے، اور جہاں پیڑ پودے نہیں ہوتے وہاں انسان گھٹن محسوس کرتے ہیں۔ اسی لیے سیروتفریح کے لیے انسان ایسے مقامات کا انتخاب کرتا ہے جہاں کے مناظر دیدہ زیب اور فضا خوش گوار ہو۔ چنانچہ ماحولیات کا تقاضا ہے کہ پیڑپودے برباد نہ کیے جائیں ورنہ موسمی بلائیں دَر آئیں گی۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے کہ بلاضرورت درختوں کو نہ کاٹا جائے۔ ہرے پیڑ انسان اور حیوانات دونوں کی راحت رسانی کرتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ حدودِ حرم مکہ میں پیڑوں کا کاٹنا اور جانوروں کا مارنا ممنوع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے فرمایا: جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم بنایا تھا اسی طرح مَیں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں ۔ نہ تو یہاں پیڑوں کو کاٹا جائے اور نہ جانوروں کو ہلاک کیا جائے۔ ایندھن کی لکڑیاں اور جانوروں کاچارہ اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ (نورالدین علی بن احمد السمہودی، وفاء الوفا باخبار المصطفٰی، جلد۱،ص ۱۱۱، پوربند، گجرات) 

جنگ میں بہت سی وہ چیزیں اختیار کی جاتی ہیں جو غیراخلاقی اور غیر انسانی ہوتی ہیں تاکہ دشمن پر قابو پایا جاسکے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ میں بھی دشمن کے درختوں کو بلاضرورت کاٹنے سے منع فرمایا ہے۔ 

پیڑ پودے لگاؤ 

ماحول میں ہریالی، موسم کی سازگاری اور انسانوں اور جانوروں کی نفع رسانی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیڑ پودوں کو لگانے کی اہمیت کا احساس دلایا۔ حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

مَا مِنْ مُسْلِمٍ غَرَسَ غَرْسًا ، فَأَكَلَ مِنْهُ إنْسَانٌ أوْ دَابَةٌ ، إلّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ  (صحيح البخاری، كتاب الأدب،  باب رحمة الناس والبهائم - حدیث: ۵۶۷۳) جو مسلمان کوئی پیڑ لگاتا ہے یا کاشتکاری کرتا ہے اور اس پیڑ پودے سے انسان، پرندے یا جانور کھاتے ہیں تو یہ پیڑ لگانے والے کے لیے صدقہ ہے۔ 

شجرکاری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی اہمیت دی ہے کہ قیامت تک اس کام کو کرتے رہنے کی ہدایت فرمائی۔ حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا:  

اِنْ قَامَتْ السَّاعَۃُ وَ بِیَدِ اَحَدِکُمْ فَسِیْلَۃً فَاِنِ اسْتَطَاعَ اَنْ لَا یَقُوْمَ حَتّٰی یَغْرِسَھَا فَلْیَفْعَلُ (احمد بن حنبل، المسند، جلد۳، ص ۱۹۱) اگر قیامت کا وقت آجائے اور تم میں سے کسی شخص کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو اور قیامت کے برپا ہونے سے پہلے وہ اسے لگاسکتا ہو تو اسے ضرور لگا دینا چاہیے۔ 

شجرکاری کے ذریعے ماحول کا تحفظ کرنے کی اہمیت بارے اس سے بڑی بات نہیں کہی جاسکتی کہ قیامت برپا ہونے میں چند لمحات بھی باقی ہوں تو بھی اگر انسان ایک درخت بھی لگانے کی مہلت بھی پائے تو اسے اس کو لگا دینا اس کی ذمہ داری ہے۔ حالانکہ جب کسی شخص کو اگلے لمحے دُنیا سے رخصت ہونے کا خیال آتا ہے تو وہ تعمیروترقی کے سارے کام بھول جاتا ہے، اور بس اپنی نجات کے لیے فکرمند ہوتا ہے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی کہ مرتے وقت تک ماحول کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا بھی آخرت میں سرخرو ہونے کا ذریعہ ہے۔ یہ انقلابی تعلیم آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے انسانیت کو مل سکتی ہے۔ 

عملی مثال 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دُنیا کے عام قائدین کی طرح محض لوگوں کو زبانی تعلیم ہی نہیں دیتے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جو کچھ فرماتے ہیں، خود اس کی صداقت پر عمل کرکے دکھاتے ہیں۔ چنانچہ ہم متعدد مواقع پر دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھوں سے پیڑ لگاتے ہیں اور وہ پیڑ برگ و بار بھی لاتا ہے۔ 

مدینہ سے کوئی ۲۰میل کی دُوری پر وادیٔ عقیق ہے۔ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کے لیے ایک چراگاہ بنائی جسے حمی النقیع کہا جاتا ہے۔ اس چراگاہ میں آپؐ نے پیڑپودے لگوائے، سبزیاں لگوائیں۔ کچھ عرصہ بعد اس وادی میں اتنی ہریالی ہوگئی کہ گھوڑے پر سوار ہوکرانسان ان پیڑوں کی چھائوں میں غائب ہوسکتا تھا۔ اس ہریالی کے باعث یہ صرف گھوڑوں کی چراگاہ نہ رہی بلکہ انسانوں کی سیرگاہ بھی بن گئی۔ اس سیرگاہ کی حدودرسولؐ اللہ نے اس طرح مقرر فرمائی کہ ایک شخص کو کھجور کے پیڑ پر چڑھ کر بلند آواز لگانے کو کہا۔ آواز کی گونج جہاں تک سنائی دی وہاں تک اس کی حدود مقرر ہوئیں۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ علمی اور عملی مثالیں ماحولیات کے تحفظ کے سلسلے میں آج کے دانش مندوں ، رفاہی اداروں اور ماہرین علوم کے لیے بصیرت اور مہمیز کا کام دیتی ہیں۔ 

ذمہ داری اور جواب دہی 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا سب سے اہم حصہ یہ ہے کہ آپؐ نے انسان کے اندر ذمہ داری اور جواب دہی کا احساس پیدا کیا ہے۔ آپؐ نے زمین و آسمان کی نفع بخش چیزوں اور ماحول کی ساری نعمتوں کو ذمہ داری کے ساتھ استعمال کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اگر اس ذمہ داری کو پورا نہ کیا تو دُنیا میں چاہے حکومت اور معاشرہ بازپُرس نہ کرے مگر قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے حضور ضرور جواب دینا ہوگا۔ 

قرآن کریم میں ہے: ثُمَّ لَتُسْـَٔــلُنَّ يَـوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ۝۸ۧ (التکاثر۱۰۲ :۸) ’’روزِقیامت ان نعمتوں کے بارے میں تم سے ضرور سوال کیا جائے گا‘‘۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کی بقدرِ ضرورت استعمال کے اصول پر عمل پیرا ہوکر مکمل حفاظت کی جائے اور اسراف، فسادوبگاڑ سے بچاجائے۔