ہندستان کے [برطانوی غلامی میں] پریشان کن حالات میں ایک ایسی اصولی اسلامی دعوت ظہور پذیر ہوئی، جو قومی تعصبات اور جغرافیائی نعروں، نسل پرستی کے میلانات اور مغربیت کے تصورات سے پاک تھی۔ ایک سچّی اور حقیقی دعوت، جو کتاب اللہ کے چشمۂ صافی سے پھوٹنے والی، سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابِ رسولؐ کے جہاد زندگانی سے ماخوذ تھی۔ دینِ مبین کی طرف رجوع کرنے اور اس سے وابستگی کی وہ ہمہ گیر دعوت کہ انسان کو زندگی کے مختلف پہلوؤں اور شعبوں میں جو بھی مسائل و مشکلات پیش آئیں، وہ ان کا حل اسلام ہی میں تلاش کرے۔
یہ تحریک اقامت ِدین اور دینِ صحیح کے ان روشن امتیازی نشانات کو زندہ وتابندہ کرنے کی دعوت کی صورت میں سامنے آئی۔ اسلام کی صاف شفاف فکر میں در آنے والی مشرقی خرافات اور مغربی اوہام نے مسلم معاشروں میں ٹیڑھے ترچھے راستے اور خودساختہ طریقے ایجاد کر لیے تھے۔ گذشتہ صدیوں کے دوران عالم اسلام میں رفتہ رفتہ پروان چڑھتے انحطاط، فکروعمل پر مسلط جمود، اور بے عملی سے وابستہ اندھی تقلید پر مشتمل بدعات کے خاتمے کی یہ دعوت، ۱۹۳۰ء کے عشرے کے تھوڑی ہی دیر بعد ظہور میں آئی۔ اُس وقت، جب برصغیر میں مسلم قومیت اور متحدہ قومیت کی تحریکیں برسرِپیکار تھیں۔ ہر مخلص مسلمان ورطۂ حیرت میں تھا کہ وہ ان حالات میں کیا کرے؟ اس پریشان کن صورت حال میں اُن کو حیرت سے نکالنے اور ہدایت وحق کے نور سے منور ہونے کی خوش خبری پر مشتمل یہ دعوت ظہور پذیر ہوئی۔ اسی دعوت نے یہ ذمہ داری اٹھائی کہ جہدوعمل کے ایک واضح لائحہ عمل اور صاف سیدھے طریق کو ان کے سامنے روشن کرے۔
اس دعوت کو برپا کرنے والوں کا اوّلین ہدف، نظرئیے اور تصور کی درستی، حقیقت دین کے بیان، عقیدۂ توحید کو گم کرنے والے مشرکانہ تصورات کی تطہیر اور اسلام کی صاف ستھری تعلیمات کو وقت گزرنے کے ساتھ دَر آنے والی آلودگیوں سے پاک کرنا تھا۔
چونکہ یہ کام اسلام کے حقیقی مفہوم، اسلام کے مطلوب اغراض و اہداف اور واضح اصول و مبادی پر مشتمل ہے۔ اس لیے اس نے انفرادی اور اجتماعی تربیت، معاشرتی اصلاح اور نظامِ حکومت کو اسلام کے انھی تصورات کے زیر سایہ انجام دینا طے کیا۔ بدقسمتی سے ماضی میں باطل نظریات، گمراہ کن افکار اور جمود کی گرد میں اسلام کی حقیقی فکر دب کر رہ گئی تھی، اور یہ بات کسی صاحب ِدانش سے قطعاً مخفی نہیں ہے۔
اسلام ___ جیسا کہ کتاب اللہ اور سنت رسولؐ اللہ سے سمجھ میں آتا ہے، خاص طور پر اور جیسا کہ اس دعوت کے اٹھانے والوں نے اپنی تصنیفات اور رسائل و اخبارات میں بیان کیا ہے، یہی وہ دین ہے جس کے سوا کسی اور دین کو اللہ تعالیٰ اپنے پسندیدہ بندوں کے لیے قبول نہیں کرے گا:
وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُ۰ۚ وَھُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۸۵ (اٰل عمرٰن۳:۸۵)اور اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے، اس کا وہ طریقہ ہرگزقبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔
یعنی دینِ اسلام ہی انسانی زندگی میں فکرو عمل کے لیے واحد، حقیقی اور موزوںطریقہ ہے، اسی میں اس کی کامیابی ہے۔ انسانی زندگی کے لیے اسلام کی اس مناسبت و موزونیت پر اس بات کا اضافہ بھی کر لیجیے کہ یہی انسانی زندگی کے انفرادی و اجتماعی تمام گوشوں اور پہلوئوں کا احاطہ کرنے والا جامع لائحہ عمل ہے۔ یہ کسی ایک خطۂ زمین کے لیے کچھ، اور دوسرے قطعۂ ارض کے لیے کچھ اور نہیں، ایک زمانے کے لیے کچھ، اور دوسرے زمانے کے لیے کچھ اور نہیں، ایک قوم کے لیے کچھ، اور دوسری کے لیے کچھ مختلف نہیں ہے۔جیسا کہ ارشاد خداوندی سے ظاہر ہے: اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ ۰ۣ (اٰل عمرٰن ۳:۱۹)’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے‘‘۔
دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ، تمام ترانسانی زندگی کا احاطہ کرنے اور ہر دور کے مسائل وضروریات کی کفایت کرنے والا، واحد صحیح دین اسلام ہے۔ مغربی تہذیب اور افکار کی چمک سے متاثر ہو جانے والے بعض فریب خوردہ سمجھتے ہیں کہ اسلام بندے اور اللہ کے درمیان محض ایک انفرادی اور ذاتی معاملہ ہے، اس کا معاشرے اور نظامِ حکومت سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ مفروضہ بے خبری یا دانستہ کج بحثی پر مبنی ہے۔
یہ امر واضح ہے کہ اسلام، عیسائیت یا یہودیت اور بدھ مت وغیرہ کی طرح چند متعین رسوم اور معلوم طریقوں کی مانند مذہب نہیں ہے، جنھیں بندہ اپنے اوقات کے محدود حصے میں اپنے رب کے سامنے ادا کرتا ہے اور معاملات زندگی میں اسی رب کی مرضی سے بالکل آزاد و بے مہار ہو جاتا ہے، اور پھر جیسا چاہتا ہے کرتا پھرتاہے اور اپنے اوپر کوئی پابندی نہیں قبول کرتا۔ اس کے مقابلے میں اسلام، انسان کی مکمل انفرادی اوراجتماعی زندگی کا نظام ہے۔ وہ انسان کو مکمل طور پر زندگی کی ارفع و اعلیٰ قدریں اپنانے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ انسانوں کو آخرت کی جواب دہی کا احساس دلا کر سیدھے راستے کی پیروی کی طرف بلاتا ہے۔
ان کے سامنے زندگی کے ہر جزو، ہر پہلو، ہر گوشے اور ہر شعبے میں مثالی طریقے روشن کرتا ہے۔ اسلام کی یہ رہنمائی فرد سے لے کر خاندان تک، سیاست سے لے کر شہریت تک، جنگ سے لے کر صلح و امن تک کے تمام امور اور مسائل میں یکساں اور مثالی ہے۔
یہی اسلام کی بے آمیز اور خالص فکر ہے اور یہی دینِ اسلام کا حقیقی مفہوم ہے۔ اسلام کسی سطحی سوچ اور بے سمت عقیدے کا نام نہیں ہے۔ یہ وہ عملی طریق زندگی ہے جورسولِ خدا، حضرت محمد بن عبدالله صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا، اور جس کی پیروی واتباع کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دیا ہے، اور جس کے واضح خطوط اور روشن اصول و ضوابط کے نفاذ و تنفیذ کی ہدایت دی گئی ہے۔
یہی ہے وہ بندگی جس کے لیے انسان کی تخلیق ہوئی، اور یہی فریضہ اقامت دین کا مفہوم ہے، جس کا حکم اللہ تعالی نے اپنے انبیا علیہم السلام کو دیا، اور پھر تمام اہل ایمان کو بھی اس کی پیروی کی ہدایت کی۔ جیسا کہ ه قادرِ مطلق نے فرمایا:
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِہٖٓ اِبْرٰہِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْہِ۰ۭ (الشورٰی۴۲:۱۳) اُس نے تمھارے لیے دِین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو دے چکے ہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جائو۔
اس لیے یہ بات واضح ہے کہ اسلام کس ارفع و اعلیٰ عقیدے اور جامع نظامِ زندگی کی دعوت دیتا ہے اور یہ بھی کہ اسلام کا وہ حقیقی پیغام کیا ہے جو وہ روئے زمین پر پھیلانا اور تمام خطوں اور تمام انسانوں میں عام کرنا چاہتا ہے۔ اُمت مسلمہ تو برپا ہی اس لیے کی گئی ہے کہ وہ اس پیغام کو دنیا بھر میں پہنچائے، اس عقیدے کو پھیلائے اور اس نظام کو عمل میں لاکر دکھائے:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۰ۭ (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
تاریخ نے ان زندہ ه مشاہدات کو اپنے سینے میں محفوظ کر رکھا ہے، جو زبانِ حال سے اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ پہلے دور میں امت نے اپنے اس فریضے کی بہترین طریقے سے ادائیگی کی تھی، جس میں صحابہؓ و تابعینؒ اور مابعد کے دورِ سلف صالحینؒ شامل تھے۔ مگر دل جس خیال سے رنجیدہ اور غم زدہ ہو جاتا ہے وہ یہ ہے کہ بعد کے ادوار میں اُمت اس فریضے کی ادائیگی سے غافل ہوگئی اور اب تک غافل چلی آرہی ہے۔ اس فریضے کی انجام دہی میں خطرناک حد تک گناہ کی مرتکب ہے جس فریضے کی ادائیگی کی ذمہ داری اس کے کندھوں پر ڈالی گئی تھی ___ ان حالات میں اس سے زیادہ ضرورت مند کون سی امت اور قوم ہو سکتی ہے کہ اس میں ایک خالص اسلامی تحریک برپا ہو، جو د عوتِ دین کا کام اَز سرِ نو انجام دے اور نئے سرے سے اپنے مقصودو منزل کی طرف عازمِ سفر ہو۔ جو اپنے قول وفعل کے ذریعے حق کی شہادت دے اور اللہ کے خالص دین کو انسانیت کے سامنے پیش کرے۔ دنیا وآخرت کی خیر وفلاح لوگوں کے سامنے رکھے اور اس کا جامع اور مکمل عالمی نظام اُن کے سامنے پیش کرے ___ وہ دین جودنیاوی و اُخروی کامیابیوں اور سعادتوں کا ضامن ہے، جو جلد حاصل ہونے والے فائدے کی ضمانت بھی دیتا ہے اور دیر سے ملنے والے نفع کی نوید بھی سناتا ہے۔
سعادت مندی اور کامیابی و کامرانی کا یہ کام واضح دلائل، روشن براہین،جدید اسالیب، مؤثر حکیمانہ طریقوں اور دلوں کی گہرائیوں میں اتر جانے والے طرزِ کلام کے ذریعے ہوگا۔ ایسا طرزِ کلام جو اس دور میں عوام کے فہم وشعور اور اندازِ غوروفکر سے ہم آہنگ ہو اور سننے پڑھنے والوں کے طبائع اور زمانے کے ذوق سے مناسبت رکھتا ہو، کیونکہ ہر دور اور زمانے میں حالات اور اسالیب بدلتے رہتے ہیں ۔لہٰذا بنیادی اصولوں پر پختگی سے قائم رہتے ہوئے لوگوں کو مخاطب کرنے کے انداز بدلنے ضروری ہیں۔ تاکہ مؤثر طریقے سے ابلاغ ہو، اور حق بات بڑے پیمانے پر ہر خاص و عام تک پہنچے۔
اس دعوت کے خدوخال دعوت کے داعی سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے پوری وضاحت کے ساتھ بیان کر دیے تھے، جو حسب ذیل ہیں:
اگر ہم اس دعوتِ دین، حق اور اسلام کی خالص دعوت اور اس کے اہداف و مقاصد کو مختصر الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو ان کو تین نکات کی صورت میں بیان کر سکتے ہیں:
۱- یہ کہ ہم بندگانِ خدا کو بالعموم اور جو پہلے سے مسلمان ہیں ان کو بالخصوص اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
۲- یہ کہ جو شخص بھی اسلام قبول کرنے یا اس کو ماننے کا دعویٰ یا اظہار کرے، اس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اور تناقض (دو رنگی)کو خارج کر دے اور جب وہ مسلمان ہے، یا بنا ہے، تو مخلص مسلمان بنے، اور اسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہو جائے۔
۳- یہ کہ زندگی کا نظام جو آج باطل پرستوں اور فُساق و فُجار کی راہ نمائی اور قیادت و فرماںروائی میں چل رہا ہے، اور معاملاتِ دُنیا کے نظام کی زمامِ کار، جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ ہم یہ دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور راہ نمائی وامامت، نظری اور عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین و صالحین کے ہاتھ میں منتقل ہو۔
یہ تینوں نکات اگرچہ اپنی جگہ بالکل واضح ہیں، لیکن ایک مدت دراز سے ان پر غفلتوں اور غلط فہمیوں کے پردے پڑے رہے ہیں۔ اس لیے بدقسمتی سے آج غیرمسلموں کے سامنے ہی نہیں، جن کو اسلام کی دعوت اور تعلیم سے آگاہی نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کے سامنے بھی ان کی تشریح کی ضرورت پیش آگئی ہے۔ لہٰذا ہم یہاں ان کی وضاحت کیے دیتے ہیں:
اللہ کی بندگی سے مراد، جس کی طرف ہم دعوت دیتے ہیں، صرف یہ نہیں ہے کہ بندہ اللہ کی بندگی کا اقرار کر لے اور پھر عملی زندگی میں اس سے مطلقاً آزاد رہے، جیسا کہ وہ جاہلیت کی زندگی میں تھا۔ پھر اس سے مراد یہ بھی نہیں ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے کا عقیدہ رکھے، اسے ہرجان دار کا رازق مانے، تمام مخلوقات میں اس کی عبادت کا حق تسلیم کرے، لیکن دنیاوی زندگی کے امور و مسائل میں اس کی کوئی حکمرانی تسلیم نہ کرے۔ اسی طرح بندگی کا یہ مفہوم بھی نہیں ہے کہ زندگی کو دو حصوں میں بانٹ لیا جائے۔ ایک حصہ مذہبی اور دینی امور سے متعلق ہو، اور دوسرا دنیا کے امور و معاملات سے متعلق ہو۔ بندگی و عبادت رائج تصور کے مطابق صرف عقائد وعبادات اور اُن مسائل تک محدود ہو، جو انفرادی زندگی اور شخصی حالات سے متعلق ہوں۔ رہی دُنیوی زندگی اور اس کے اُمور و مسائل جو تمدن و معاشرت، سیاست و معیشت، علوم و فنون اور آداب و اخلاق وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں، اُن میں اللہ کی حکمرانی کو نہ مانا جائے اور نہ اس کے اوامر و احکام کو یہاں نافذ کیا جائے۔ ان میں بندہ بالکل آزاد ہو، جو چاہے کرے، اور حکومت و سلطنت وغیرہ میں جیسا چاہے نظام وضع کرے۔
چونکہ دین ایک ہی ہے جو کبھی بدلا نہیں، اور کتاب بھی ایک ہی ہے، جس میں کہیں سے بھی باطل داخل نہیں ہو سکتا، اس لیے اس دعوت کے داعی اس ملک میں بھی اور تمام اقصائے عالم میں بھی یہ یقین رکھتے ہیں کہ بندگی کے مذکورہ سارے مفاہیم بنیادی طورپر باطل ہیں۔ لہٰذا، وہ کفر وجاہلیت اور شرک و اباحیت کے ان نظاموں کا جڑ سے خاتمہ چاہتے ہیں۔ کیونکہ بندگی کے اس ناقص اور ترمیم شدہ مفہوم اور ان کی من مانی تعبیرات نے اسلام کا حقیقی چہرہ مسخ کر رکھا ہے اور دین کا حقیقی تصوّر چھپا کر رکھ دیا ہے۔
جس بات پر ہمارا پختہ یقین اور اعتقاد ہے اورجس کی طرف ہم لوگوں کو دعوت دیتے ہیں وہ اللہ کی بندگی ہے جس کی طرف برگزیدہ انبیا ورُسل، ابوالبشر سیّدنا آدمؑ سے لے کر خاتم الرسل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک نے بلایا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ یہ اقرار اور عقیدہ ہو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اور اللہ ہی اپنے بندوں کا حقیقی حاکم اور لائقِ اتباع واطاعت ذات ہے۔ وہی قانون و دستور کا شارع اور امور و معاملات کا مالک ہے۔ وہی ان کے امور و معاملات کا متصرف اور وہی ان کے اعمال و افعال کامحاسب ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ بندہ اسی مقتدر و قادرِ مطلق اللہ کے حوالے اپنی پوری زندگی کر دے اور اپنے دین کو اسی بلند وبرتر کے لیے خالص کرلے۔ اپنی انفرادی واجتماعی زندگی کے اخلاقی و سیاسی، معاشی و سماجی تمام امور میں اسی کی عبادت و عبودیت کا عقیدہ دل و دماغ میں بٹھا لے۔ اسی مفہوم میں قرآن عظیم کی یہ آیت نازل ہوئی:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَاۗفَّۃً ۰۠ (البقرۃ۲:۲۰۸) اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو۔
وہی اللہ اس آیت میں اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ مکمل طور پر اس کے دین میں داخل ہو جائیں۔ اپنی پوری زندگی کو اس کے دین کے تابع کر دیں۔ تاکہ کوئی شے اس کی حکمرانی سے باہر اور زندگی کے شعبوں میں سے کوئی شعبہ اس کی حکمرانی کے دائرۂ نفوذ و نفاد سے باہر نہ رہے۔ تمھارے لیے یہ مناسب ہی نہیں ہے کہ تم اپنی زندگی کے گوشوں میں سے کسی گوشے اور شعبے میں اُس کی کامل بندگی سے اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھو، یا اپنے معاملات میں جن خود ساختہ طریقوں اور نظاموں کو چاہو اختیار کر لو، اور جن دساتیر و قوانین کی چاہو پیروی کرو۔ بندگی کا یہ مفہوم ہم تمام مسلمانوں اور غیرمسلموں میں پھیلانا اور عام کرنا چاہتے ہیں اور اسی کی ہم دعوت دیتے اور تبلیغ کرتے ہیں، کہ تمام انسانیت اسی کو قبول کرے، اسی پر ایمان و یقین رکھے۔
دوسری چیز جس کا ہم ایمان کے دعوے داروں سے مطالبہ کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو نفاق کی تمام شکلوں اور اپنے اعمال کو تناقض کے تمام مظاہر سے پاک کرلیں۔
نفاق یا منافقت سے ہماری مراد یہ ہے کہ انسان ایک خاص نظام پر ایمان کا دعویٰ کرے، اور اس کی طرف نسبت و انتساب کا سچا جھوٹا مظاہرہ بھی کرے۔ پھر اسی نظام کے بالکل برخلاف نظامِ حیات میں راضی و مطمئن زندگی گزارتا رہے۔ اپنے ایمان کے منافی نظام کے خلاف اس کے دل میں کوئی اضطراب پیدا نہ ہو۔ وہ اپنے دین کے نفاذ کے لیے کبھی جدوجہد نہ کرے، بلکہ اس کے برعکس وہ اپنی صلاحیتوں اور طاقتوں کو، اپنی مساعی اور کاوشوں کو اسی فاسد و فاسق اور ظالم نظام کی جڑیں مضبوط کرنے، یا ایک باطل نظام کی جگہ دوسرے باطل نظام کو قائم کرنے میں اپنی طاقتیں صرف کر دے، یا پھر اسی ظالمانہ نظام کے فروغ و ارتقا میں اپنی زندگی کھپا دے اور اپنے آپ کو پُرسکون و مطمئن اور مومن و مسلمان بھی سمجھتا رہے۔ ایسے لوگوں کو منافق ہی سے تشبیہ دی جاسکتی ہے کیونکہ ایمان کسی ایک نظام پر رکھنا اور مطمئن کسی دوسرے نظام پر ہوجانا،آپس میں بالکل متضاد باتیں ہیں۔ یہ ایسی بات اور صورت حال ہے جس کو سن کر کان اس کی تصدیق کے لیے تیار نہ ہوں، عقل اس کو تسلیم کرنے کے لیے آمادہ نہ ہو، اور شریعت کی میزان پراس کو تولا جائے تو وہاں اس کا کوئی وزن نہ ہو۔
یہ بات ایمان کے بالکل بنیادی مقتضیات میں سے ہے کہ آدمی کو دل کی گہرائیوں سے یہ بات پسند ہو کہ اللہ کا کلمہ ہی بلند و بالا اور ارفع واعلیٰ ہو۔ اور یہ کہ دین تمام کا تمام الله ہی کے لیے ہوجائے۔ اور یہ کہ اس روئے زمین پر اسلام کا پرچم اٹھانے والوں اورانسانیت کے لیے یہ ذمہ داری ادا کرنے والوں کا کوئی مخالف و مزاحم نہ ہو۔ وہ اس دین پر آنے والی آنچ دیکھے یا اس کے دائرۂ اثر کی حکمرانی، تو اس کی روح بے قرار ہو جائے۔ اسی طرح یہ بھی ایمان کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ جب تک اس دین کے نظامِ عدل کو غالب اور برسرِکار نہ دیکھ لے، بے چین ومضطرب اور بے سکون وناخوش رہے۔ دین کی حکمرانی، اس کے پرچم کی سربلندی اور اس کے کلمے کا نفاذ ہی اس کے لیے باعث ِراحت و سکون ہو۔
ایمان کی ان علامات اور نشانیوں پر بحث سوائے کسی ہٹ دھرم اور جھگڑالو کے کوئی نہیں کرسکتا۔ اور یہ بات بھی ناقابلِ بحث ہے کہ آدمی ان عصری باطل نظاموں پرراضی و مطمئن ہو کر زندگی گزارتا رہے، جن میں دین کا کہیں کوئی غلبہ نہ ہو۔ بلکہ ان نظاموں نے دین کو نکاح و طلاق اور وراثت کے نہایت محدود اور تنگ دائرے تک محدود کر دیا ہو، جس سے ان جاری ظالمانہ نظاموں کو کوئی خطرہ نہیں اور نہ یہ مسائل ان کے حدودِ سلطنت و امارت میں کوئی دخل دیں ___ یا آدمی اس طرح کے نظاموں میں مطمئن زندگی گزارتا رہے، وہ انھی پر صابر ومطمئن ہو جائے اور نہ اس کی رگِ حمیت پھڑکے۔ بخدا، اس طرح کا رویہ بلا شک وشبہ نفاق کی نشانیوں میں سے ہے۔
اس قسم کے آدمی کو فقہاءو مشائخ کی طرف سے رعایت مل سکتی ہے اور وہ فتاویٰ کے مجموعوں اور شماریات کے رجسٹروں میں تو مسلمان رہ سکتا ہے، مگر شریعت کی روح اس طرح کے رویے کو نفاق کے علاوہ کچھ اور قرار نہیں دیتی، خواہ ان مفتیان کے فتوے اس کے خلاف ہی ہوں، جن کا مقصد محض اس فانی دنیا کا حصول ہے۔
لہٰذا، وہ چیز جس کی ہم مسلمانوں اور اسلام کا مظاہرہ کرنے والوں کو دعوت دیتے ہیں، یہ ہے کہ وہ دین کو صرف اور صرف اللہ ہی کے لیے خالص کرلیں اور اپنے آپ کو نفاق کی تمام آلائشوں سے پاک کر لیں۔ اس ایمان کا یہ حق بھی ہے کہ آدمی اپنے دل و دماغ کی گہرائیوں میں یہ تمنا اور آرزو رکھے کہ زندگی اور حکومت کا نظام، معیشت و معاشرت کے طور طریقے وہی ہوں، جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں، اور وہی دنیا میں نافذ و سربلند ہوں۔
کوئی ہٹ دھرم ان کا راستہ نہ روک سکے اور کوئی رکاوٹ ان کی راہ میں حائل نہ ہونے پائے، کجا کہ وہ اس کے برعکس نظام پر راضی رہے اور اسی کے تحت زندگی گزارنے پر مطمئن ہوجائے۔
باقی رہا وہ شخص جو باطل نظاموں کی جڑیں مضبوط کرنے کی سعی کرے اور اسی کو سر بلند کرنے میں کوشاں ہو، ایسا شخص بلاشبہ گمراہی، بے راہ روی اور ہٹ دھرمی کا شکار ہے۔
نفاق کے ساتھ دوسری چیز تناقض ہے، جس کو اپنی زندگیوں سے خارج کرنے کی ہم نئے اور پرانے تمام مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں۔ تناقض کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی کا عمل اس دعوے کے خلاف ہو، جو وہ اپنی زبان سے کرتا اور اپنے اقوال میں ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی تناقض ہے کہ آدمی کا عمل زندگی کے مختلف مسائل میں یکساں نہ ہو۔ کسی پر بہت زور ہو اور کوئی بالکل نظر انداز ہو کر رہ جائے۔اسی طرح یہ بھی اسلام پہ ایمان نہیں ہے کہ آدمی زندگی کے شعبوں میں سے کسی ایک شعبے میں تو احکام الٰہی کو مان کر دے، مگر دوسری طرف حدودِ شریعت سے تجاوز کو وتیرہ بنائے رکھے۔ نہیں، یہ نہیں بلکہ ایمان کے تقاضوں میں ہے کہ آدمی اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دے اور اپنی پوری زندگی کو دینِ حق کی نگرانی میں دے دے۔ وہ احکامِ الٰہی میں سے کسی حکم کی بھی نافرمانی نہ کرے۔ وہ کسی چھوٹے سے چھوٹے ایسے فعل کا بھی ارتکاب نہ کرے، جس سے اللہ کی کامل بندگی اور دین و شریعت کی کامل پیروی میں ذرا سا بھی نقص واقع ہوتا ہو۔ مومن کی یہ نشانی ہے کہ وہ اللہ کے رنگ میں رنگ جائے، دنیا کی فتنہ انگیز کوئی شے اس کے اوپر اثر انداز نہ ہو سکے۔ وہ اپنے اعمال و افعال میں صراطِ مستقیم سے ذرا منحرف نہ ہو۔ یہ بھی علاماتِ ایمان میں سے ہے کہ جب بھی کوئی برائی اور نافرمانی سرزد ہو جائے، تو مومن اپنے اللہ سے معافی مانگے اور اس کی طرف رجوع کرے۔
لیکن آدمی اللہ پر ایمان کا دعویٰ کرے، نماز، روزہ ه اور بعض متعین شعائر کی ادائیگی بھی کرے اور پھر خود کو آزاد و خود مختار سمجھ لے، کسی قیدو قدغن کی پروا کرے اور نہ کسی حکم الٰہی کو عملی زندگی میں مانے، یہی وہ تناقض ہے جو بندگی کے منافی ہے۔
آپ اس شعبدہ بازی کے بارے میں کیا کہیں گے، جو آج کے مسلمان پوری دنیا میں دکھا رہے ہیں اور ایمان بالله اور ایمان بالآخرہ کابلند بانگ دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ اسلام کا بھی اظہار کرتے ہیں، اور اس کی بعض علامات کو بھی اپنا رکھا ہے۔ لیکن جونہی عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں، سیاست کے میدان میں قدم رکھتے ہیں اور معیشت و معاشرت کے مسائل میں بحث کرتے ہیں، تواسلام کی تعلیمات ان کو چھو کر بھی نہیں گزرتیں۔ دین حق اور شریعت کاملہ کے پیروکاروں کے اثرات ذرا بھی ان کے اوپر دکھائی نہیں دیتے۔ یہ دو رنگی اور شعبدہ بازی نہیں تو اور کیا ہے؟
وہ دن رات یہ اقرار کرتے نہیں تھکتے کہ وہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور اس کے سوا کسی سے مدد نہیں مانگتے۔ لیکن ساتھ ہی وہ ہر نااہل کے پیچھے چلنے میں ذر ابھی حرج محسوس نہیں کرتے ہیں، حتیٰ کہ انھیں اللہ کی زمین پر کسی جابر و متکبر کے سامنے جھکنے اور اس کے حکم کی بجاآوری میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔
یہ ہے وہ تناقض و تضاد اور اس کی علامات، جو مسلمانوں کی تمام اخلاقی و معاشرتی بیماریوں کا سبب ہیں۔ اور جب تک ان کے اندر یہ مہلک اخلاقی امراض باقی رہیں گے، ان کے زوال وذلت اور انحطاط و پسماندگی کے مرض سے شفایابی کی اُمید نہیں۔ نہ اس پستی سے ان کے نکلنے کی اُمید ہے جس میں یہ گر چکے ہیں۔
لیکن یہاں جس بات پر دل خون کے آنسوروتا ہے وہ مسلمان علما و مشائخ کا رویہ ہے جنھوں نےان کو یہ یقین دلارکھا اور اس پر مطمئن کر رکھا ہے کہ دین کے معاملات میں بس وہ کلمۂ شہادت کا اقرار کرلیں، نماز پڑھ لیں، روزہ رکھ لیں، یہ چند متعین و محدود رسومِ عبادت ادا کر لیں تو اُن کے لیے کافی ہے۔
اگر وہ اتنا کرلیں تو نجات اور جنّت کے دروازے ان کے لیے بند نہیں ہو سکتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد جتنی برائیاں چاہیں کرلیں، کفرو ضلالت کے جن اماموں کی چاہیں پیروی کر لیں، وہ جو چاہیں اپنی خواہشِ نفس کے تحت غلط اور باطل نظریات وافکار کو اختیار کر سکتے ہیں۔ دین کے معاملے میں ان کی بے باکی یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ دینِ اسلام کا اقرار ہی کافی سمجھتے ہیں اور فرائضِ شریعت کی ادائیگی کی ضرورت تک محسوس نہیں کرتے۔
ائمہ کفر و ضلال تو ایک قدم اس سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ یہ صرف مسلمانوں جیسے نام رکھ کر اور ان کے رجسٹروں میں اندراج کر اکے مسلم وغیرمسلم حکومتوں کے مناصب پر متمکن ہوجاتے ہیں۔ قرآن مجید کی اس آیت میں ایسے ہی لوگوں کی تصویر دکھائی گئی ہے:
وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّـنَا النَّارُ اِلَّآ اَيَّامًا مَّعْدُوْدَۃً ۰ۭ (البقرۃ ۲:۸۰) وہ کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں، اِلّایہ کہ چند روز کی سزا مل جائے تو مل جائے۔
مسلمانوں کے بدنوں اور روحوں کو لگی اس پیچیدہ اور دیرینہ بیماری کے ہی یہ نتائج ہیں کہ وہ کمیونزم، نازی ازم، کپیٹل ازم اور مادر پدر آزاد جمہوریت وغیرہ جیسے مغرب سے درآمدہ جدید نظاموں کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ انھی ظالم اورجابر لوگوں کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں جو اللہ کی زمین پر ناحق تکبر کے مظاہرے کرتے پھرتے ہیں۔ ان میں مسلمان حکمران بھی شامل ہیں اور غیرمسلم حکمران بھی ___ ان لوگوں کو اس میں کسی حرج اور نقصان کا ذرا اندیشہ نہیں محسوس ہوتا۔ انھیں یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ خدا کے ان باغیوں اور سرکشوں کے طریقے اسلام کے نظامِ زندگی کے بالکل برعکس ہیں۔
ہماری دعوت کے بنیادی نکات میں یہ بات شامل ہے کہ ہم ہر مسلمان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ غیر اللہ سے قائم ہر تعلق کو توڑ کر اپنے تعلق کو صرف اللہ کے لیے خالص کر لے اور یکسو اور یک رُخ ہو کر اسی کا بندہ بنے۔ وہ ہر قسم کی عصبیت سے نکل جائے۔ نظریۂ حق کے مخالف اور معارض ہر فکر و نظر سے اپنا رخ پھیر لے اور پھر اس پر قائم رہے، اور اگر ایسا نہیں کر سکتا تو تدریجاً ان ٹیڑھے اور غلط راستوں سے کٹ جانے کی مسلسل جدوجہد کرتا رہے۔(جاری)