مملکت ِ خدادادِ پاکستان میں سیاسی ، معاشی ، سماجی ، تہذیبی ونظریاتی ، قومی سلامتی اور ملت اسلامیہ کو درپیش مسلسل بڑھتے بحرانوںکے حل کے لیے سرجوڑ کر بیٹھنے اورتبادلۂ خیال کی ضرورت ہے، اور بحرانوں میں گھرے پاکستان کو ان بحرانوں سے نجات دلانے کے لیے سیاسی وقومی قیادت کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
ملک کا قومی بجٹ ۲۶-۲۰۲۵ء قومی اُمنگوں کے برعکس ہے جس نے واضح کردیاہے کہ حکومت معاشی محاذ پر بھی سخت ناکامی سے دوچار ہے۔ ۲۵کروڑ عوام آئی ایم ایف کی غلامی پرمجبور کردیئے گئے ہیں۔۴۵فی صد عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ زراعت ، صنعت اور تنخواہ دار طبقہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ یہ معاملہ زیادہ تکلیف دہ ہے کہ حکمرانوں سمیت ریاستی ادارے اور اشرافیہ کرپشن،مفت خوری اور اپنی عیاشیاں ترک کرنے کو تیار نہیںہیں۔ قرضوں کی لعنت ،کرپشن اور سودی قرضوں کا بوجھ قومی سلامتی کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ بلاشبہ دفاع کے لیے اخراجات ناگزیراور اہم ہیں ، لیکن قرضوں کی ادائیگی ، اشرافیہ کی عیاشیاں ،جاگیر داروں اور بڑ ے لینڈ لارڈ ز کو ٹیکس نیٹ سے باہر رکھنا، نیز آئی پی پیز معاہدوں میں تبدیلی اور بنکوں کی شرح سود میں کمی کا ریلیف عوام کو نہ دینا خیانت ہے۔ پھر زیادتی یہ کہ صارفین کے لیے سستی بجلی کے لیے سولر انرجی پر بھی ناروا ٹیکسوں کا نفاذ ہے۔ کرپشن کا بڑھتا ہوا ناسور حالات کو انتہائی غیر متوازن اور تکلیف دہ بنا رہا ہے۔ معاشی بحران کے خاتمے کے لیے حکمرانوں کی معاشی ٹیم میں نہ صلاحیت ہے اور نہ اہلیت موجود ہے۔ سیاسی بحران کے خاتمے کی طرح معاشی بحران کے خاتمے کے لیے بھی قومی سطح پر مذاکرات اور ’میثاق معیشت‘ ناگزیر ہے ۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو سنجیدگی سے سیاسی و اقتصادی بحرانوں کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
سنگین درپیش مسائل: حالات کی خرابی اور بدامنی کے باعث عوام کو جان،مال اورعزت کا تحفظ حاصل نہیں۔ سندھ میں عوام، بزنس کمیونٹی ، ہندو ہم وطن، ٹرانسپورٹرز اور چھوٹے زمیندار مکمل طور پر ڈاکوؤں کے رحم وکرم پر ہیں۔ اغوا برائے تاوان ایک منظم انڈسٹری بن چکا ہے۔ متاثرین دادرسی سے محروم ہیں۔ ۱۷برسوں سے سندھ میں حکمران پیپلزپارٹی عوام کو ریلیف دینے میں بُری طرح ناکام ہے۔دوسری طرف بااثر مقتدر طبقات اور وڈیروں کے کچے پکے کے ڈاکوؤں کی سرپرستی کے شواہد موجود ہیں۔ اس کے ساتھ کاروکاری جیسی قبیح رسوم، قبائل کا تصادم اور بھتہ پرچیوںنے سندھ میں کاروبار ، تعلیم، امن اور شہری زندگی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ پنجاب میں اسٹریٹ کرائمز کا دور دورہ ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور شاہراؤں کا غیر محفوظ ہونااور زندہ افراد کا لاپتہ کر دیا جانا، بدامنی کے فروغ کا ذریعہ ہے ۔ خیبرپختونخوا کے اکثر وبیش تر اضلاع میں ٹی ٹی پی کے خلاف فوجی کارروائیوں کے باعث امن وامان ناگفتہ بہ ہے اور ٹارگٹ کلنگ ، اغواء برائے تاوان روزمرّہ کا معمول اور حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ معدنی وسائل پر عسکری اداروں کے قبضے سے عوام میں شدید تشویش ہے۔
’مائنز اینڈ منرلز ایکٹ‘ کے مسودات وفاق اور فوجی ادارے کی طرف سے منظوری کے لیے صوبوں کو بھیجنا آئین اورصوبائی خود مختاری کاگلا گھوٹنے کے مترادف ہے۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان بڑھتا الجھاؤ قومی وحدت بالخصوص وفاق پاکستان کے لیے نہایت خطرناک ہے۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات معمول پرآنے سے ہی امن وامان کی صورتِ حال میں بہتری ممکن ہے۔
ہم چند بنیادی اُمور پر توجہ مبذول اور عمل درآمد کے لیے نشان دہی کر رہے ہیں:
مشترکہ مفادات کونسل(CCI)، مرکز اور صوبوں میں تعلقاتِ کار اور نزاعات کے حل کی آئینی سکیم کاحصہ ہے اورہر تین ماہ بعد جس کا باقاعدگی سے اجلاس آئینی تقاضا ہے۔ کئی مہینوں سے اس کا اجلاس نہ ہونے کے سبب وفاقی اکائیوں کی شکایات کا ازالہ نہیں ہوپارہا۔ ضرورت ہے کہ آئین کی روح کے مطابق مشترکہ مفادات کونسل کو فعال بنایا جائے۔
این ایف سی ایوارڈ کے اجراء میں غیر معمولی تاخیری حربوں سے چھوٹے صوبوں میں مایوسی پیدا ہوئی۔ وفاقی حکومت کوبلاتاخیر این ایف سی ایوارڈ کا اجراء کرنا چاہیے۔آئین کے مطابق صوبے بھی ’صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ‘ جاری کریں۔ نیز مالاکنڈ خیبرپختونخوا میں ضم شدہ اضلاع پر ٹیکسوں کا استثناء ختم نہ کیاجائے۔اس کا فیصلہ بھی مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں ہی کیاجائے۔
ملک میں جاری سیاسی بحران اور کش مکش عوام میں سخت تشویش کاباعث ہے ۔ ۲۰۲۴ء کے انتخابات میں جیسے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالاگیا اور فارم ۴۵ کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے فارم۴۷ کے ذریعے حکومت مسلط کی گئی،۲۶ویں آئینی ترمیم کے ذریعے نہ صرف آئین کا حلیہ بگاڑا گیا بلکہ عدالت کو بے بس کر دیا گیا۔ سویلینز کے آرمی کورٹس میں ٹرائل جیسے غیر آئینی اقدام، عدلیہ کی پامالی ،آزادیٔ اظہار رائے پر قدغن کے لیے کالے قوانین اور ملک کو ’لے پالک ‘ میں جکڑ دینا سراسر قیامِ پاکستان کے مقاصد اور دو قومی نظریہ سے انحراف ہے۔ آئین پاکستان اور آزاد عدلیہ کی بے توقیری، جائز وناجائز ذرائع سے اقتدارکے حصول کے لیے سیاسی قیادت اورجماعتوں کی اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری اور سیاست کو کھیل بنانے کی روش نے عظیم نظریاتی ملک پاکستان کی شناخت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگی معرکہ میں پوری قوم، قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے متحد اور یکجان ہوگئی اور سیاسی بحران وقتی طور پر ٹل گیا۔ تاہم، اب سیاسی بحران اَزسرنو کروٹ لے رہا ہے۔ فتح و کامیابی کی سرشاری میں حکومتی لاپرواہی، اقتدارکاناجائز استعمال کرتے ہوئے سیاسی بحران کو بڑھاوادے رہی ہے۔ قومی و سیاسی محاذ پر سیاسی مفاہمت سے ہی سیاسی بحران حل ہوتے ہیں۔ سیاسی مکالمے بند دروازوں کو کھولنے اور مشکل گتھیوں کو سلجھانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہ دروازہ بند کرنا آئین، جمہوریت اور عوامی حقوق کی تباہی کا سبب ثابت ہوتا ہے۔
قومی،جمہوری وسیاسی جماعتوں سے رابطے اور اچھے تعلقاتِ کار سیاسی ماحول اورفضا کو بہتر بنانے میں مددگار ہوتے ہیں۔ سیاسی قوتوں کا آپس میں میل جول رابطہ اور تعلقاتِ کار وقت کا تقاضا ہے۔ ہر جماعت کااپنی اپنی سیاسی حکمت عملی کے ساتھ سیاسی قیادت اور جماعتوں کے ساتھ قومی سطح پر رابطہ نہایت کارآمد اور مفید ہے۔
بلدیاتی نظام شہری حقوق کے حصول کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ یہ امر تشویش ناک ہے کہ صوبہ پنجاب، اسلام آباد اور کوئٹہ کے عوام بلدیاتی اداروں کی مدت مکمل ہوجانے کے بعد سال سے زائد مدت گزرنے کے باوجود مسلسل بلدیاتی انتخابات سے محروم ہیں، جب کہ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں انتخابات ہو جانے کے باوجود نمائندے ہنوز اختیارات سے محروم ہیں۔ بلدیاتی نظام کو آئینی تحفظ کے ساتھ مکمل بااختیار بنانا وقت کا تقاضا ہے، نیز پنجاب، اسلام آباد اور کوئٹہ میں بلاتاخیر بلدیاتی انتخابات منعقد کرنا آئینی تقاضا ہے۔
مجوزہ قومی ایجنڈا: سیاسی بحرانوں سے نجات اور خوش حال پاکستان کے لیے درج ذیل بارہ نکاتی ایجنڈا بنیاد بن سکتا ہے:
دو قومی نظریہ کی حفاظت، قرآن و سنت کی بالادستی ،پاکستان کے مضبوط اسلامی کردار کو ہرسطح پر قبول کرتے ہوئے عمل کریں۔
آئین پاکستان کی حدود کو تمام اسٹیک ہولڈرز تسلیم کریں اور آئین سے انحراف کی روش کو یکسر ترک کرنے کا عہد کریں۔
ملک میں شفاف اور غیر جانب دارانہ انتخاب کے لیے تمام سیاسی جمہوری قیادت اور جماعتیں یکساں موقف اختیار کریں۔اقتدار کے حصول کے لیے غیر جمہوری طریقوں اور اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری سے گریز کا راستہ اختیار کرکے ماضی کی غلطیوں کاازالہ کریں۔ سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی پولیٹیکل انجینئرنگ کے غیر آئینی کردار کے خاتمے پر اتفاق کریں۔
اقتصادی بحرانوں کے خاتمے کے لیے ’قومی میثاقِ معیشت‘ پر اتفاق کیاجائے ۔ قرضوں اور کشکول کی معیشت سے نجات کے لیے خود انحصاری ، خودداری کے ساتھ اپنی قوم اورقومی وسائل پر اعتماد کیا جائے۔ زراعت و صنعت کو قومی معیشت کی طاقت بنانے اور تاجربرادری کو نارواسختیوں اورسرکاری محکموں کی دست برداور ناجائز حربوں سے نجات کے لیے قومی اتفاق رائے پیداکیا جائے۔
بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ، لاپتہ افراد کی بازیابی اورسیاسی قیدیوں کی رہائی آئین و قانون اور انسانی بنیادوں پر حل کیے جائیں۔
پانی کامسئلہ، پاکستان کے وجود، بقاء اور مستقبل کامسئلہ ہے۔ ملک میں پانی کی تقسیم کے تنازعات کا مستقل خاتمہ کر کے بھارتی آبی دہشت گردی کے مقابل یک آواز ہوجائیں۔
نظامِ عدل کو ہر دباؤ سے آزاد کر کے عدلیہ کی آزادی پر کوئی کمپرو مائز نہ کیاجائے۔ عدلیہ کی قاتل ۲۶ویں آئینی ترمیم کا خاتمہ کے ساتھ عدلیہ کے فاضل جج حضرات بھی آزاد عدلیہ کی حفاظت کے لیے اندرونی تقسیم کا تاثر ختم کریں۔
جدیدتعلیم اورانفارمیشن ٹکنالوجی کے ہنر سے نوجوان نسل کو آراستہ کرنا قومی ترجیح بنایاجائے۔
بلدیاتی نظام کی بحالی اور فعالیت کے ساتھ طلبہ یونینز کے انتخاب بحال کیے جائیں، نیز آئین کے مطابق اقلیتوں کے تمام حقوق کا تحفظ کیاجائے۔
فلسطین اور مقبوضہ جموںوکشمیر کے تنازعات پر قومی اتفاق رائے سے مضبوط موقف اختیار کیا جائے ، جو بانی ٔپاکستان قائداعظم محمدعلی جناح ؒ کی طے کردہ پالیسی کے مطابق اور عوامی اُمنگوں کا ترجمان ہو ۔
خطّے میں مضبوط اور پائیدار امن کے قیام کے لیے پاک چین دوستی کو مضبوط بناتے ہوئے ہر دباؤ سے آزاد رکھاجائے۔ پاکستان ، ایران ، افغانستان اور ترکی کے درمیان تعلقات کو ترجیح اوّل بنایا جائے۔ نیز سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات ، قطر ، بنگلہ دیش کے ساتھ برادرانہ تعلقات کو سفارتی محاذ کا اہم ستون بنایاجائے۔
دہشت گردی پاکستان کی سلامتی اور وجود کی دشمن ہے۔ عوامی اعتماد بحال کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ آل پارٹیز قومی کانفرنس منعقد کرکے قومی ایکشن پلان پر از سر نو اتفاق رائے پیدا کیاجائے بالخصوص بلوچستان کے عوام کی حقیقی شکایات کاازالہ ضروری ہے۔
قومی زندگی کے ان مسائل کے حل کے لیے عوامی جمہوری مزاحمت کی لہر جتنی تیز ہوگی، مسائل کے حل کی طرف قدم اتنی تیزی سے بڑھیں گے۔ قومی وعالمی ایشوز پر قومی اتفاق رائے کے لیے مثبت قومی کردار، عوام کے اتحاد اور تحرک کے لیے کش مکش، محنت اور جدوجہد کے ذریعے ہی پاکستان میں آئین کی فرمانروائی عوام کی اُمنگوں اور حقوق کی ترجمان ہو گی۔