قرار دادمقاصد اور ۱۹۷۳ء کے دستور میں یہ بات طے کردی گئی کہ پاکستان کے عوام اپنی قیادت اور پارلیمنٹ کا آزادانہ طریقے سے خود ہی انتخاب کریں اور اس بات کو بھی طے کردیا گیا کہ پاکستان کے عوام کو اسلامی اصولوں کے مطابق پارلیمانی جمہوریت اور وفاقی نظام کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے ہی اپنے ضمیر کے مطابق اپنی راے کاآزاد انہ اظہار کرناہے۔ مگر ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء کو چوتھی مرتبہ ملک پر جنرل پرویز مشرف کے ذریعے فوج ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہوگئی۔ نوازشریف کو پارلیمنٹ کے اندر دو تہائی اکثریت حاصل تھی۔ لیکن آئین سے ماورا اقدام اٹھاتے ہوئے ان کی حکومت کو ختم کیاگیااور قومی اسمبلی ، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کوبیک جنبش قلم تحلیل کردیا گیا اور ۱۹۷۳ء کے دستور کو عملاً غیر مؤثر کر کے ملک میں از سرِ نو مارشل لا کے ذریعے اقتدار پر غاصبانہ قبضے کو یقینی بنایا گیا۔ اس اقدام کا گرینڈ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (GDA)‘ پاکستان پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کی طرف سے خیر مقدم کیا گیااور نواز شریف حکومت کے خاتمے کو درست اقدام قرار دیا۔ جماعت اسلامی غالباً وہ واحد دینی اور سیاسی جماعت ہے جس کی طرف سے اس فوجی اقدام کی دو ٹوک مخالفت کی گئی ۔ جمہوری نظام کومعطل کرنے کی مذمت کی گئی اور ملک میں فوری طور پر جمہوریت بحال کرنے کا مطالبہ کیاگیا۔
ملک کے صدر جناب رفیق تارڑ نے جو آئینی سربراہ حکومت تھے جنرل پرویز مشرف کے اس اقدام کے بعد ایوان صدر کے اندر ٹھیرنا منظور کیا اور اس عرصے میں فوجی ڈکٹیٹرشپ جو اقدام کرتی رہی اس پرایوان صدر سے نہ کوئی سرزنش کی گئی‘ نہ کوئی احتجاج کیا گیا اور نہ کوئی ڈائریکشن دی گئی۔ عملاً ڈیڑھ سال تک وہ ایوان صدرمیں رہے۔ ڈیڑھ سال کے بعد جنرل مشرف نے انھیں بھی توہین آمیز طریقے سے رخصت کیا اور چیف ایگزیکٹو کے عہدے کے ساتھ ساتھ صدارت کے عہدے پر بھی قابض ہوئے ۔ ملک میں ۱۲اکتوبر۱۹۹۹ء سے جمہوری ،سیاسی اور آئینی اداروںکی شکست و ریخت کا جوعمل شروع ہوا تھا اس اقدام کے بعد وہ اپنے منطقی اور انتہائی انجام کو پہنچ گیا۔
اس عرصے میںمسلم لیگ(ن)کی قیادت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا کہ فوجی اقدام کو غلط قرار دیاجائے اور آئین کے مطابق ان کی حکومت کو بحال کرتے ہوئے ملک میںآئین کو غیرمؤثر کرنے کے اقدام کو غلط قرار دیاجائے۔ ظفر علی شاہ کیس میں سپریم کورٹ کے بنچ نے عملاً اس چیز کو رد کیا اور بعض تحفظات کے ساتھ فوجی اقدام کے اس عمل کی توثیق کردی۔ ریفرنڈم کے موقع پر امیرجماعت اسلامی پاکستان محترم قاضی حسین احمد نے ریفرنڈم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ سپریم کورٹ کے بنچ نے اس وقت بھی یہ قرار دیا کہ پی سی او کے تحت ریفرنڈم منعقد کیا جاسکتا ہے ۔ عملاً ان فیصلوں کے بعد پرویز مشرف کی داخلہ و خارجہ اور نظریاتی محاذوں پر پالیسی ۱۸۰ درجے کے انحراف کے ساتھ آگے بڑھی۔
اس دوران ۱۷جون۲۰۰۱ء کو متحدہ مجلس عمل وجود میں آئی ۔چھے دینی جماعتوں کے سربراہ اسلام آباد میں جمع ہوئے۔ افغانستان کے حالات کے تناظر میں فوجی ڈکٹیٹرشپ اورلادینیت کے حوالے سے رہنما اصولوں پر مبنی ایک چارٹر پر اتفاق کیا گیااور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ متحدہ مجلس عمل کی صورت میں دینی و سیاسی جماعتوں کا انتخابی اتحاد وجود میں آیا۔ ابتدا میں یہ خیال تھا کہ یہ مختلف مسالک رکھنے والے لوگ‘ جلد ہی باہم ٹکرائیں گے اور یہ اتحاد تحلیل ہوجائے گا اور اپنا وجود کھودے گا۔ لیکن مجلس عمل نے اپنی تنظیم سازی، ٹکٹوں کی تقسیم ، حکومت سازی‘ پارلیمنٹ میں کارکردگی اوربین الاقوامی مسائل پر مشترکہ لائحہ عمل اختیارکر کے ان سارے مفروضوں کو ناکام بنادیا۔ مجلس عمل کی قیادت نے حالات کا ادراک کرتے ہوئے بڑے سلیقے کے ساتھ نئے چیلنجوں کے مقابلے میں قوم کو دینی بنیادوں پرمتحد کیا۔
مجلس عمل کو عملاً کئی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ سرحد کے بلدیاتی انتخابات میں مجلس عمل کو دھچکا لگا لیکن اس شر سے یہ خیر برآمد ہوا اور سب کو آگاہی ہوئی کہ اتحاد میں ہی عزت اور وقار ہے اور یقینا یہ اتحاد مستقبل میں بھی ملک و قوم کے لیے مفید ثابت ہوگا۔ انتخابات میں صوبائی ممبران کا انحراف بھی مجلس عمل کی قیادت کے لیے مشکلات کاباعث بنا ہے لیکن اسی صوبے میںاے این پی ، پی پی پی اور مسلم لیگ(ن)کے ممبران اسی دولت کی دہلیز پر ڈھیر ہوگئے ۔لیکن اخباری پروپیگنڈے کے حوالے سے ’بڑی ‘کسی پارٹی کو جرأت نہیں ہوئی کہ اس کی تحقیق کرے اور یہ متعین کرے کہ ان کے کتنے اور کون کون ارکان صوبائی اسمبلی آتش زر کی حدت سے پگھل کرمرکزی اقتدار کے ساتھ بہہ گئے ہیں۔ مجلس عمل کی قیادت اور پالیسی سازادارے نے اپنے ہی ممبران کے خلاف تادیبی کارروائی کرکے عملاً سیاست کے میدان میں نیا کلچر متعارف کروایا ہے ۔
اس عرصے میں فوجی ڈکٹیٹرشپ تمام غیر جمہوری اور غیر اخلاقی اقدامات کرتی رہی ۔ ایم ایم اے نے حکومتی چالوں اور عیارانہ رویے پر احتجاج کیا ۔ پاکستان کی تمام سیاسی و دینی جماعتوں نے سیاسی نظام کے ایکٹ کی ترمیم اور بلدیاتی انتخابات اور منتقلی اقتدار کے تحت انتخابات کے ان مراحل کو‘ پھر عام انتخابات کے بعد اور اس سے پہلے ایل ایف او کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کو ترجیح دی۔ کسی دوسری جماعت نے بھی ایل ایف او کے تحت انتخابات کے کسی مرحلے میں سیاسی پیش بندی سے اجتناب نہیں کیا۔ اس کی بنیادی روح یہی تھی اور سیاسی ودینی جماعتیں اس پر متفق تھیں کہ جب پبلک میں بظاہر مقبول جماعتوں نے فوجی ڈکٹیٹرشپ کے کسی اقدام کو چیلنج نہیں کیا، اس ڈکٹیٹر شپ سے چھٹکارے کا راستہ، انتخابات‘ مکالمہ اور پارلیمنٹ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔پھر ۱۰اکتوبر۲۰۰۲ء کو انتخابات ہوئے اور آئینی ترامیم کے ساتھ سیٹوں میں اضافہ ہوا۔ اس سے قبل قومی اسمبلی ۲۱۷ ارکان پر مشتمل تھی لیکن ترامیم کے بعد یہ تعداد۳۴۲کردی گئی۔ ۲۷۲عام نشستیں، خواتین کی ۶۰نشستیں،اقلیتوں کے لیے ۱۰نشستیں اور اس طرح ۳۴۲کے ایوان کی ہیئت ترکیبی طے پائی۔ سینیٹ کی سیٹوں میں بھی اضافہ کر کے اس کی نشستوں کی تعداد ۱۰۰کردی گئی۔ عام نشستیں۵۶،خواتین ۱۰،اسلام آباد ۴،فاٹا ۸نشستیں، اس طرح سینیٹ کی کل۱۰۰نشستیں کردی گئیںاوریہ تمام صوبوں کے درمیان برابری کی بنیادپر نشستیں ہیں۔
مجلس عمل نے سرحد اور بلوچستان میں کتاب کے نشان کی بنیاد پر انتخابات میںحصہ لیا۔ پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ اور فوجی ڈکٹیٹرشپ کا غلبہ تھا۔یہاں کوشش کی گئی کہ اپوزیشن جماعتوں سے ایڈجسٹمنٹ کی جائے تاکہ فوجی ڈکٹیٹر شپ کا مقابلہ کیاجاسکے ۔ پاکستان پیپلزپارٹی‘مسلم لیگ(ن) کے درمیان انتخابی عمل طے نہ پاسکا۔ مجلس عمل اور مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان نیم دلی کے ساتھ تاخیر سے ایڈجسٹمنٹ ہوئی لیکن عملاً نتائج پر اس کا کوئی بہت بڑا اثر نہیں پڑا۔ ان انتخابات میںجو نتائج سامنے آئے ہیں ان کے مطابق قومی اسمبلی میں جنرل نشستوں پر ہمارے ۴۳امیدوار کامیاب ہوئے۔ اسلام آباد سے ایک، فاٹا سے۷‘خواتین ۱۲ اور اقلیتوں میں ایک مرد اور ایک خاتون۔اس طرح عملاً ہمارے ۶۵ ارکان منتخب ہوئے ۔ ایک ممبر جن کا جماعت اسلامی سے تعلق تھا اوّل روز سے ہی منحرف ہو گئے اور ایک اور ممبر جن کا تعلق جمعیت علماے اسلام سے تھا وہ بھی مجلس عمل کے فیصلوں سے عملاً پہلو تہی کرنے لگے۔ اس طرح سینیٹ میں پنجاب سے ایک،سندھ سے ایک، سرحد سے۱۰، بلوچستان سے۶، فاٹا سے ۴ نشستیں ملیں۔ اب اس وقت سینیٹ کے اندر ہمارے ۲۶ ارکان موجود ہیں۔ بلوچستان اسمبلی میں مجلس عمل کے ممبران ۱۸ہیں۔ پنجاب میں ۱۱منتخب ہوئے۔ ایک رکن کا انتقال ہوگیا اور ایک صاحب راولپنڈی سے انحراف کرگئے۔ سندھ سے ہمارے ۱۰ممبران منتخب ہوئے، ان میں سے دوانحراف کرگئے۔ ان میں سے ایک کا تعلق اسلامی تحریک اور ایک کا جمعیت علماے اسلام (ف)سے ہے۔سرحد سے ۶۸ارکان اسمبلی منتخب ہوئے۔
مرکزی اسمبلی میںاپوزیشن لیڈر کے لیے ہمارا مطالبہ تھا کہ ایک نشان پر سب سے بڑاگروپ مجلس عمل کا ہے ۔ اس کا حق بنتا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کے لیے مجلس عمل کو ترجیح دی جائے ۔ بالآخر ۲۵مئی ۲۰۰۴ء کو محترم مولانا فضل الرحمن کو بحیثیت اپوزیشن لیڈرتسلیم کرلیاگیا۔ اسی طرح سینیٹ میںپہلے مرحلے میں مجلس عمل کے ۲۱ارکان موجود تھے۔ حکمران گروپ کے بعد ایک بڑے گروپ کی حیثیت سے مجلس عمل کا حق تھا کہ سینیٹ میں بھی اپوزیشن لیڈر ہمارا ہوجس کے لیے طے بھی پایا کہ محترم پروفیسر خورشید احمد سینیٹ میںاپوزیشن لیڈر ہوں گے اور محترم مولاناگل نصیب مجلس عمل کی پارلیمانی پارٹی کے لیڈر ہوں گے۔ مگر حکومت نے پیپلز پارٹی کے میاں رضا ربانی کو یک طرفہ طور پر اپوزیشن لیڈر بنانے کا اعلان کردیا۔ ہم نے اپوزیشن کے اتحاد کے لیے اس کو برداشت کیاکہ اپوزیشن جماعتوں میں اختلاف نہیں بڑھنا چاہیے حالانکہ مرکزی سپریم کونسل کے فیصلے کے مطابق سینیٹ میں ۲۲ارکان کے ساتھ اپوزیشن لیڈر کے لیے ہمارا حق بنتا ہے۔
ان چار سالوں میں قومی اسمبلی میںہم نے ۱۲۷۳ سوالات ،بین الاقوامی موضوعات پر ۷۵۱تحاریک التوا ،عوامی مسائل پر ۱۲۳۱توجہ دلاؤ نوٹس، ۲ہزار ۷ سو ۳۱ قرار دادیں جو عوامی قومی اور بین الاقوامی مسائل سے متعلق تھیں، نیز ۱۲۵تحاریک استحقاق پیش کیں۔ ایک تحریک جو ۲۴۱کہلاتی ہے، جس پر بحث ہوئی و دیگر ۲۹۱نوٹس۔ اس طرح رول ۶۹جس کے تحت اہم ایشو پر آٹھ گھنٹے کی بحث ہوسکتی ہے، بجٹ کی بحث میں ۶۹نوٹس، ۱۵۲کٹوتی کی تحریکیں پیش کیں۔اسی طرح سینیٹ میں ۲ہزار ۲ سو۵۷ سوالات، ۱۸۶تحاریک التوا،۳۳۵توجہ دلاؤ نوٹس،ایک ہزار ۹ سو ۱۱ قراردادیں اور ۱۵تحاریکِ استحقاق جمع کرائیں۔ ہمارا ایک باقاعدہ پارلیمانی دفتر ہے جس میں ہمارے ساتھی بڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ اس سارے کام کوسرانجام دیتے ہیں۔ ہمارے ممبران اور خاص طور پر خواتین ممبران نے اپنے منفرد تشخص، وقار اور عرق ریزی کے ساتھ قومی ایشوز پر نہ صرف بروقت گرفت کی بلکہ دعوتی و تنظیمی اعتبار سے بھی اپنے کردار کو مؤثر اور جان دار انداز میں پیش کیا۔
منتخب اداروں میں قانون سازی اہم ترین موضوع ہے۔ ہم نے قومی اسمبلی میں ۳۴نئے بل جمع کرائے اور اس وقت تک ۳۶بل زیرِ بحث آئے ہیں۔ ان میں سے ۱۰ کی پہلی خواندگی اور ترامیم کے نتیجے میں حتمی بحث میں بھرپور حصہ لیا ہے ۔ اس طرح فنانس بل۰۴-۲۰۰۳ئ‘ ۰۵-۲۰۰۴ء اور ۰۶-۲۰۰۵ء کی بجٹ ، عام بحث میں حصہ لیا اور ترامیم بھی جمع کرائیں۔ اسی طرح جتنی بھی مجالس قائمہ موجود ہیں ان میں ہماری سرگرم اور بیدار نمایندگی موجود ہے۔
۳۴نئے بل ہم نے اسمبلی سیکرٹریٹ میں دیے ۔ اس میں سنگین غداری‘ انڈسٹریل ریلیشنز آرڈی ننس جو این ایل ایف کے تعاون سے تیار کیاگیا‘ آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ کی تنسیخ کابل اور آرمی ایکٹ میں ترامیم شامل ہیں۔ اسی طرح قرآن کی طباعت‘ قومی سلامتی‘ دستور میں ترمیم یا جہیز یا شادی کے تحائف سے متعلق،مختلف عوامی، سماجی ، سیاسی اور بین الاقوامی ایشوزپر مجوزہ مسودہ ہاے قانون (bill) پیش کیے۔
آئین کے مطابق صدر کی یہ ذمہ داری ہے کہ پارلیمنٹ کے ہر پارلیمانی سال کے آغاز پر خطاب کریں۔ انھوں نے ایک سال خطاب کیا ہے‘ مزید پارلیمانی سال ایسے گزرے ہیں کہ وہ اس سے خطاب نہیں کرسکے ہیں۔ صدارتی ویب سائٹس پر سوال کاجواب دیتے ہوئے جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ یہ غیرمہذب پارلیمنٹ ہے۔میںا س سے خطاب نہیں کرنا چاہتا۔ان میں خوف اور بزدلی ہے۔ وہ اداروں کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں۔ جس کی بنیاد پر وہ خطاب کی جرأت نہیں کرسکے۔ اسی طرح داخلہ و خارجہ اور مالیاتی امور میں یا پالیسی سازی میں کابینہ یا پارلیمانی پارٹی کوکوئی اختیار نہیں۔ اس کے فیصلے فردِ واحدکے ہاتھ میں ہیں یا کور کمانڈرز کی سطح پر کیے جاتے ہیں۔ عملاً پارلیمنٹ کو غیر مؤثر بنا کے رکھ دیا گیا ہے ۔
کراچی کے حالات ،فاٹا، بلوچستان،ریلوے کے حادثات‘ تخریب کاری‘ امن عامہ کے مسائل اور زراعت کے مسائل پر تحریکیں بھی دیں اور اس پر بحث بھی کی۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ ،بے روزگاری ، جرائم میںاضافہ ،ذرائع ابلاغ اور الیکٹرانک میڈیا حیاسوز اور فحش مناظر کی بہتات کے خلاف، چینی اور سیمنٹ کے بحران پر قرار دادیں پیش کیں،احتجاج بھی کیا ہے۔ مغرب میںچھپنے والے توہین آمیز خاکوںکے خلاف سب سے پہلے نومبر۲۰۰۵ء میں قومی اسمبلی میںہم نے تحریک پیش کی اوراس مسئلے کو اٹھایا لیکن اس کے بعد حکومت نے کوئی اقدام نہ کیا۔ پاک فضائیہ میں‘ پی آئی اے میںافسران اور بطور سٹیورڈ افسران کے لیے داڑھی منڈانے کے احکامات‘ یا ائیرہوسٹس کے لیے ایک عمر کی حد کے بعد برطرفی اور دوپٹے کے معاملے پر بھی ایوانوں میں احتجاج بھی کیااور مؤثر آواز اٹھائی۔
حقیقت یہ ہے کہ ان چار سالوں میں قومی اسمبلی اور سینیٹ اراکین اور چاروںاسمبلی کے ممبران کی تمام کوششوں اور تیاریوں کے باوجود جو نتیجہ برآمد ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا اور ملک اور قوم کی توقعات پوری نہ ہوسکیں۔ سال ۲۰۰۳ء بہت اہمیت کاسال تھا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس اور ایل ایف او پر احتجاج ہواجو۲۴دسمبر۲۰۰۵ء تک جاری رہا۔ پھر مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا۔ مجلس عمل اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مذاکرات ہوئے۔ مجلس عمل کو پیش کش تھی کہ وہ ڈپٹی پرائم منسٹرشپ، ڈپٹی اسپیکر شپ اور وزارتوں میں حصہ لے لیکن مجلس عمل کے ساتھ حکومتی مذاکرات اس لیے ختم ہوگئے کہ ہم نے ایل ایف او کو پارلیمنٹ میں یا آئینی ترامیم کو یا صدارت کو یا ریفرنڈم کی بنیاد پر سپریم کورٹ کی توثیق کو قبول نہ کیا۔ حکومت سازی کے لیے ہمارے مذاکرات ختم ہوئے تو پیپلزپارٹی سے حکومت میںحصہ لینے کے تمام مراحل طے پائے۔ مخدوم امین فہیم کو عملاً پرائم منسٹر کے طور پر پروٹوکول ملنا شروع ہوگیا۔ ان کے مذاکرات ایل ایف اویا جمہوریت کی بنیاد پر نہیں بلکہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے مقدمات کی واپسی میں ناکامی کے باعث ختم ہوئے۔ وہ چاہتے تھے کہ مخدوم امین فہیم کے حلف سے پہلے مقدمات واپس ہوں لیکن فوجی ڈکٹیٹرشپ چاہتی تھی کہ وہ پہلے حکومت کا حصہ بنیں اور اس کے بعد مقدمات واپس ہوں۔
تمام اپوزیشن جماعتوں نے آئینی امور پر مذاکرات میں حصہ لیا ہے ۔مذاکرات میں ایل ایف اوکے وہ ۲۹بنیادی نکات تھے جن کے ذریعے آئین کی ترامیم کا اقدام کیا گیاتھا۔ تمام اپوزیشن جماعتوں نے ۲۲نکات پر اتفاق کیا۔سات اختلافی نکات تھے۔ اے آر ڈی کی تجویز پر آٹھویںآئینی ترمیم کے طرز پر سترھویں آئینی ترمیم حکومت نے طے کی اور اسی طرح جب سترھویں آئینی ترمیم کا بل تیار ہو کے آیا تو اے آر ڈی، مجلس عمل اورحکمران جماعتوں نے دوشقوں کے علاوہ سترھویں آئینی ترمیم پرمکمل بحث اور حصہ لے کے اپنا کردار ادا کیا لیکن اس پر بعد میں تنقید ہوئی کہ یہ دراصل حکومت کا جال اور بدنیتی تھی۔ اپوزیشن جماعتیں سیکولرشناخت کے ساتھ حکومتی جال کا حصہ بنیں‘ جب کہ مجلس عمل اوردین کی آواز کو زک پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ درحقیقت مجلس عمل نے ان بنیادوں پر اس چیز کو طے کیا کہ فردِ واحد کو اس کا حق حاصل نہیں۔ سپریم کورٹ کی طرف سے سندجواز ملنے کے بعد حکومت از خود آئین میں ترمیم کاحق نہیں رکھتی۔ دو تہائی اکثریت اس کی بنیاد ہے۔ اس طرح ریفرنڈم کوئی آئینی حیثیت نہیں رکھتا۔ ۱۹۷۳ء کے دستور کو محفوظ رہنا چاہیے۔ یہ محفوظ نہیں رہتا تو پارلیمنٹ کی جگہ صدارتی نظام آنے کی صورت میں پاکستان کا وجود خطرے میں پڑسکتا ہے۔
اس وقت مجلس عمل نے جو معاہدہ کیا اس کے مطابق ۳۱ دسمبر۲۰۰۴ء کو جنرل پرویز مشرف کو صدارت سے فوجی عہدہ الگ کرنا چاہیے تھا۔ یہ معاہدے کی اصل روح تھی۔ ایس ایم ظفر کی کتابDialogue on the Political Chessboard(سیاسی شطرنج کی تختی پر مکالمہ) میں اس کی مکمل تفصیل موجود ہے ۔ اس آئینی ترمیم کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایل ایف او اسی طرح اس قوم کی گردن پر مسلط ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس چیز پر اتفاق کیا ہے کہ ۱۲اکتوبر۱۹۹۹ء کو آئین جس شکل میں تھا اس کی بحالی کی جدوجہد کی جائے ۔ سترھویں ترمیم کا مخمصہ ختم ہونا چاہیے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں اس اسمبلی کے وجود میں آنے سے پہلے ۳۱۷قوانین اور آرڈر جاری کیے گئے تھے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ۱۹۵۴ء میں آئین بنا پھر ۵۶ء میں بنا اور پھر۱۹۷۳ء میں دستور بنا۔ جنرل پر ویز مشرف کے دور میں دوتین فیصلے موجود ہیں۔ ٹرانسفر آف پاور کے یہ تمام مراحل موجود ہیں۔ایک حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میںکوئی خلا پیدا نہیں ہوتا۔ نئی یاعارضی حکومت جو اقدامات کرتی ہے‘ کوئی مانے یا نہ مانے اس کی اپنی ایک حقیقت اور حیثیت موجود رہتی ہے ۔ پھراب تک بننے والے تمام آئینی اورانتظامی اقدامات کو کسی تعزیر یا قانونی چارہ جوئی سے جو برأت و تحفظ (indemnity) دیا گیا‘ اس کو آئینی ترمیم نہیں بلکہ سادہ اکثریت کے ساتھ کسی وقت بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جس نظام کی تبدیلی کے لیے یہ ساری جدوجہد آگے بڑھ رہی تھی‘ جنرل پرویز مشرف اپنی انااور ڈکٹیٹرشپ کو قائم رکھنے کے لیے سول بیوروکریسی اور ملک کے اقتدارپر اپنی گرفت ختم کرنے کے لیے تیار نہیںہیں۔ اس لیے اپوزیشن جماعتوں کے پاس تحریک اور جدوجہد کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
پرویز مشرف کی موجودگی میں نئے انتخابات کا شفاف اور غیر جانب دارانہ ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس لیے اس پر اتفاق کیا گیاہے کہ جنرل پرویز مشرف مستعفی ہوں۔ سیاسی جماعتیں اپنے طرزِ عمل سے سبق سیکھیں اور کسی ڈکٹیٹر جنرل کو ریلیف دینے کے بجاے جمہوریت کو ترجیح دیں۔ سیاسی جماعتوں نے اس پر بھی اتفاق کیا ہے کہ وفاقی پارلیمانی نظام ۱۹۷۳ء کے دستور کے مطابق ہو اور صوبوں کواپنی انتظامی حدود کے اندر مکمل ضروری اختیارات دیے جائیں۔ آئین کے مطابق موجودہ حکومت اور صدر مستعفی ہوں اور عبوری حکومت قائم ہو۔ اگلے الیکشن ایک بااختیار الیکشن کمیشن کی تشکیل کے بعد منعقد ہوں۔
ان چار سالوںمیں ہم نے اپنی حد تک کوشش کی کہ باقاعدہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کریں۔ تمام ایشوز پر اتفاق راے پیدا کریںا ور کوئی بھی ایسا ایشو نہیں ہے جس کو پارلیمانی پارٹی میں زیربحث نہ لایا گیا ہو ۔ مجلس عمل اور اس میں جماعت اسلامی کی تنظیم نے یہ کردار ادا کیا کہ اتحاد کو بھی قائم رکھا جائے اور جو قومی‘ بین الاقوامی اور عوامی ایشوز ہیں‘،ان میں بھی اپنا کردار ادا کیا جائے۔ پاکستان کی اسلامی ثقافت‘ دوقومی نظریے‘ مسجد اور مدرسے پر جو سیکولر یلغار ہے اس کے مقابلے کے لیے ہم نے مسلسل کوشش بھی کی ہے اور ایشوز کو زندہ رکھنے کے لیے اپنا کرداربھی اداکیا ہے ۔