جولائی 2025

فہرست مضامین

مجرم سے ہمددردی کا مغربی کلچر

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | جولائی 2025 | رسائل ومسائل

Responsive image Responsive image

سوال:  جدید معاشرے کے حالات و اَطوار بہت بدل چکے ہیں۔ جرم اور سزا کا تصور بدل چکا ہے۔ ماضی کی ’اسلامی ریاست‘ میں اور موجودہ دور کی ’جدید ریاست‘ میں بڑا فرق رُونما ہوچکا ہے۔ سعودی عرب کے معاشرتی حالات اور شکاگو اور نیویارک جیسے بڑے بڑے شہروں کی معاشرتی کیفیت اور ساخت بالکل مختلف ہے۔ اس لیے [ماضی کے] ایک محدود شہری نظام کے لیے اگر اسلامی سزائیں مفید بھی تھیں، تو [آج] بڑے بڑے شہروں کے لیے یہ کس طرح کارآمد ہوسکتی ہیں، جب کہ ان میں جرائم کا رُونما ہونا ایک حد تک فطری بات ہے، اور ان میں سزائوں کا عملی نفاذ، کوئی آسان کام بھی نہیں؟ 

جواب: آپ کا خیال ہے کہ شکاگو اور نیویارک جیسے بڑے بڑے شہروں کی Social Life (معاشرتی زندگی) ہی ایسی ہے کہ ان کے اندر جرائم کا ہونا ایک فطری چیز ہے۔ اس لیے اس حالت کے خاتمے کے لیے ہاتھ کاٹنے جیسی سزائوں کا نفاذ ایک غیرترقی یافتہ بات ہے اور آپ کے خیال میں یہ عملاً ممکن بھی نہیں۔  

لیکن میرا خیال یہ ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے اور اگر صرف چوری پر ہاتھ کاٹنے کا قانون جاری کر دیا جائے تو نیویارک اور شکاگو جیسے شہروں، بلکہ پورے امریکا میں چوری کا ارتکاب کم ہوسکتا ہے۔ اس کا مکمل خاتمہ تو صرف اسی صورت میں ممکن ہے،جب کہ پورا سیاسی اور معاشرتی نظام اسلامی خطوط پر قائم کیا جائے، لیکن اسلامی سزائوں کے نتیجے میں اس میں کمی واقع ہوسکتی ہے…  ہمیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ اسلام کی تجویز کردہ سزائیںمعاشرے سے جرائم کا مکمل انسداد کرسکتی ہیں، اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے اندر اسلام کا مکمل ضابطۂ حیات جاری ہو اور اسلامی تعزیرات نافذ ہوں۔ پھر ہم دُنیا کو بتائیں گے کہ ہمارے ہاں جرائم کس طرح کم ہو گئے ہیں اور اس طرح عملاً دُنیا پر یہ بات ثابت کردیں گے کہ اسلام کی بنیادوں پر ایک جدید ریاست چل سکتی ہے اور زیادہ بہتر طریقے سے چل سکتی ہے ،اور اسلام کی بنیاد پر ایک ایسامعاشرہ وجود میں آتا ہے جو جرائم سے پاک اور امن و امان کا گہوارا ہوتا ہے۔ 


سوال: لیکن میرا خیال یہ ہے کہ روایتی اسلامی قانون کا یہ پہلو ایسا ہے کہ آج کا انسان اس کو قبول کرنے میں دِقّت محسو س کرتا ہے۔ یہ اس وجہ سے نہیں کہ ان سزائوں کا تعلق اسلامی قانون سے ہے اور اس کو قبول کرنے میں مذہبی تعصب مانع ہوتا ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جدید ذہن کے لیے کسی جرم پر ایک شخص کا ہاتھ کاٹ کر اسے ایک عضو سے محروم کر دینا ایک وحشیانہ فعل معلوم ہوتا ہے، اور شاید یہ اس جرم سے بھی سنگین نوعیت کی چیز ہے۔ اسی بناپر بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ریاست کی طرف سے کسی شخص کی جان لینے کا اقدام بہرحال ایک غیرمعمولی نوعیت رکھتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ قرونِ وسطیٰ کے ایک نظام کو خواہ وہ اپنی جگہ پر مفید ہی تھا، جدید دور میں رائج کرنا کچھ عجیب سی بات معلوم ہوتا ہے۔ 

جواب: میرا خیال ہے کہ آپ کی موجودہ تہذیب کو، جسے آپ ’جدید تہذیب‘ کہتے ہیں، جتنی ہمدردی مجرم کے ساتھ ہے اتنی ہمدردی ان لوگوں کے ساتھ نہیں جن پر جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے، مثلاً ایک شخص کا بچہ کوئی اغوا کرکے لے جاتا ہے۔ اور پھر اس کو اطلاع دیتا ہے کہ ’’اتنے ملین ڈالر مجھے دے دو تو بچّہ تمھیں مل جائے گا ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا‘‘ اور بعض اوقات وہ ایسا کربھی گزرتا ہے۔ تو آپ کا کیا خیال ہے کہ اس طرح کے آدمی کو پکڑ کر اگر کوئی سخت سزا دی جائے، مثلاً اس کا ہاتھ کاٹ ڈالا جائے یا اس کی گردن اُڑا دی جائے ،تو کیا یہ ایک وحشیانہ فعل ہوگا؟ یعنی آپ کے نزدیک والدین کو ان کے بچوں سے محروم کر دینا کوئی وحشیانہ حرکت نہیں۔ البتہ اس حرکت کے مرتکب کو اس کے جرم کی سزا دیناوحشیانہ اور ظالمانہ فعل ہے، جس کی کم از کم ریاست کو ذمہ داری نہیں لینی چاہیے۔ آپ کی ساری ہمدردی اس شخص کے ساتھ ہے، جس نے ایک مجرمانہ اور غیرانسانی فعل کے ذریعے سے اپنے آپ کو مستوجبِ سزا ٹھیرایا ہے، اور اس شخص کے بارے میں آپ بے حس ہیں، جسے ظلم اور سنگ دلی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔  

ہم یہ کہتے ہیں کہ جو شخص معاشرے کے اندر جرم کا ارتکاب کرکے معاشرے کے امن و سکون کو غارت کرتا ہے، وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کو اتنی سخت سزا دی جائے کہ دوسروں کو اس سے عبرت ہو، اور وہ اس قسم کے جرم کے ارتکاب کی جرأت نہ کرسکیں۔ یعنی ہمارے نزدیک سزا صرف سزا ہی نہیں ہے بلکہ وہ ارتکابِ جرم کو روکنے کا ذریعہ بھی ہے اور وہ جرم کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ چنانچہ ہماری ہمدردی مجرم کے ساتھ نہیں ہے بلکہ اس شخص کے ساتھ ہے، جس پر ارتکابِ جرم کیا جاتا ہے ، اور اس معاشرے کے ساتھ ہے جس کے اندر ارتکابِ جرم سے ناہمواری اورعدم تحفظ کی کیفیت پیدا کی گئی ہے۔ 

You think it is more social and more cultrued to be a criminal human.  It is human to kill a man and it is inhuman to kill a murderer. 

ابھی پچھلے دنوں امریکا میں مس ہیرسٹ  ٭کا جو واقعہ پیش آیا ہے، وہ آپ کے علم میں ہوگا۔ جو لوگ اس کو اغوا کرکے لے گئے اور انھوں نے اس کو اس حد تک جرائم آشنا کردیا کہ اس نے بنک پر ڈاکا ڈالا اور دوسرے جرائم کا ارتکاب کرتی پھری۔ آپ کے نزدیک وہ لوگ تو بہت مہذب (Cultured) ہیں ،لیکن اگر ان لوگوں کو کوئی سخت سزا دی جائے تو یہ فعل غیرمہذبانہ ہوگا۔ 

۲۵ نومبر ۱۹۷۵ء : بی بی سی کے نمائندے ولیم کرالے کے انٹرویو سے ماخوذ 

 _______________ 

٭ اکیس سالہ مس پیٹریکا کیمبل ہیرسٹ (پ:۱۹۵۴ء) کو اغوا کرنے والوں نے، جو اپنے آپ کو بائیں بازو کی دہشت گرد تنظیم ’سمبائیونیزلبریشن آرمی‘ (SLA) کہتے تھے، ۱۹ماہ تک گرفتار رکھ کر مسلسل جرائم کی تعلیم دی اور ڈکیتی و راہ زنی کی بڑی بڑی وارداتوں میں استعمال کیا۔ وہ ۱۸ستمبر ۱۹۷۵ء کو گرفتار ہوئی، مقدمہ چلا اور ۳۵برس کی قید سنائی گئی، جسے امریکی صدر بل کلنٹن نے اپنے دورِ صدارت میں رہائی دلائی۔ ادارہ