ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی | نومبر ۲۰۲۱ | اسلامی تحریکیں
’بروکنگز فاؤنڈیشن،امریکا کے ریسرچ اسکالر اور ’عرب بہار‘ کے بعد تحریکات اسلامیہ کے اُمور پر گہری نظر رکھنے والے شادی حمید، راشد الغنوشی کا قول نقل کرتے ہیں: اسلام پسندو ں کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے لوگ ان سے اور ان کی سوچ اور نظریہ سے محبت رکھتے ہیں اور جب وہ اقتدار میں آجاتے ہیں تو ان سے بے زار ہونے لگتے ہیں۔ تحقیق نگار نے انتخابی کارکردگی پر غور کی دعوت دی ہے:
یہ مضمون اسی طرح کے سنجیدہ سوالات کاجواب دیتا ہے جو یقینا آج کی عرب بلکہ ساری مسلم دنیا کے لیے یکساں اہمیت کے حامل ہیں ۔
اسلامی تحریکوں کی عوامی مقبولیت میں کمی کا سبب کوئی ایک نہیں ہے۔کہیں اس کی وجہ ماحول کا جبر ہے ، اور کسی جگہ حکمت عملی اور تجزیہ ناقص ہے۔ عرب ملکوں میں مسلط استبدادی نظام اور اس نظام کی طرف سے خون خرابہ اور جان و مال کے ضیاع کے ذریعے ان تحریکوں کا استیصال کرنا،الیکشن میں سیکولر ،فسطائی اور غیر جمہوری قوتوں کی دھاندلی ، الیکشن قوانین میں رد و بدل جیسے ہتھکنڈے، نیزعالمی برادری کا اسلامی تہذیب، ثقافت اور شناخت سے دشمنی پر مبنی رویہ ہے۔
حکمت عملی اور اندرونی کمزوری کی ایک مثال تحریک کے بنیادی اوراعلان شدہ مسلّمہ اصولوں پرسمجھوتا کر لینا ،اسٹیبلشمنٹ کی چالوں اور تدبیروں کے مقابل سیاسی ناپختگی، صورت حال کا صحیح ادراک نہ کرنا اور اپنی حکمت عملی کو ٹھیک سے ترتیب نہ دینا۔ پھر قیادت کا مواقع اور امکانات کو ضائع کرنا وغیرہ ہیں ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زندگی کے طوفانی تھپیڑوں کے آگے کبھی نہیں جھکے تھے، جیساکہ بہت سے ترکِ دنیا کے علَم بردار اور زاہد دُنیوی مصالح اور مشکلات کے آگے جھکتے رہے ہیں، بلکہ آپؐ نے امور دنیا کی زمامِ کار سنبھالی اور پوری قوت و شوکت سے اسے حق کی اطاعت پر لگا دیا۔ یوں ایک ایسا اخلاقی ،تشریعی ، سیاسی ،مکمل اور کامل نظام دیا جس میں ضمیر، معاشرے اور ریاست کی سبھی قوتوں کو حق اور عدل پھیلانے کے لیے مجتمع کردیا گیا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ اسلام تزکیہ نفس کرکے صرف ضمیر کو بیدار کرنے تک محدود رہتا ہے اور سوسائٹی اور ریاست کی مؤثر قوت کو یکسر نظر انداز کردیتا ہے بلکہ یہ دین فطرت ہے اور دین حقیقت وواقعیت ۔ یہ جیتے جاگتے، چلتے پھرتے انسانوں کے لیے اتارا گیا ہے، فرشتوں کے لیے نہیں۔فرشتوں کے لیے ہوتا تو انسان نہیں فرشتہ اتارا جاتا۔ قرآن کریم کا ارشاد موجود ہے: قُلْ لَّوْ كَانَ فِي الْاَرْضِ مَلٰۗىِٕكَۃٌ يَّمْشُوْنَ مُطْمَىِٕنِّيْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْہِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا۹۵ (بنی اسرائیل ۱۷:۹۵) ’’ان سے کہو اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو اُن کے لیے پیغمبربنا کر بھیجتے‘‘۔
آپؐ کی اس سیاست کی عملی سنت کی نہ بدھ ازم میں کوئی مثال موجود ہے اور نہ مسیحی دنیا ہی اس کی کوئی مثال پیش کرسکی ہے ۔ یہ آپؐ کی طرف سے پیغام وحی کی عملی تفسیر اور تطبیق تھی ۔ یہ اسوۂ حسنہ کا وہ بنیادی پہلو ہے، جس کی پیروی کا اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا ہے۔
لہٰذا، کسی اسلام پسند پارٹی کی انتخابات میں کامیابی، دین اسلام کی فطرت اور طبیعت کو تبدیل نہیں کرسکتی اور نہ کسی حکومت ،پارٹی اور سیاسی قوت کی ناکامی، اسلام کے جامع پیغام پر شمہ برابر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے ۔
آج جو لوگ تاریخ کے نئے مرحلےمابعد اسلامی احیائی دور (Post Islamism )کی نوید سنا رہے ہیں اور مبارک باد دے لے رہے ہیں، میں ان سے کہوں گا کہ ان کی خوشی قبل از وقت ہے۔ہوسکتا ہے انھیں ماضی کی طرح پھر گہرا صدمہ جھیلنا پڑے ۔
مجھے یقین ہے کہ اگر موجودہ اسلامی تحریکیں کسی وجہ سے مطلوبہ تبدیلی نہ لاسکیں تو بھی کچھ اور نئی قوتیں ان کی جگہ ضرور لیں گی، اس لیے کہ جسے ’سیاسی اسلام‘ کہا جارہا ہے وہ دراصل امت کے شعور اوروجدان کی تعبیر ہے۔ یہ اُس تعلق کا ایک اظہار ہے جو دین اسلام کا ملت اسلامیہ کے ساتھ ہے، اور جس سے مسلمان جذبۂ عمل حاصل کرتے ہیں ۔
ان اصولی باتوں کے بعد اسلام پسند پارٹیوں کی بظاہر کم ہوتی مقبولیت پر کچھ کلام کرتے ہیں۔
’عرب بہار‘ اسلام پسندوں کے لیے قبل از وقت اور بہت اچانک تھی ۔جب یہ بہار آئی تو اسلام پسندوں کے لیے انتظام مملکت سنبھالنا ابھی قبل از وقت اور نہایت غیر موزوں تھا۔ اس وقت اقتدار میں آنے کا ان کا نہ کوئی ارادہ تھا اور نہ امور جہانبانی سنبھالنے اور حکمرانی کرنے کی ان کی کوئی تیاری تھی بلکہ یہ عوام الناس کی خواہش تھی، جو استبدادی اور بدترین ظالمانہ اور کرپٹ حکومتوں کی سختیاں جھیل جھیل کر تنگ آچکے تھے ۔انھی عوام نے اسلام پسندوں کو سیاست میں رہنما کردار ادا کرنے پر مجبور کیا ۔
اگرچہ ’عرب بہار‘ سے پہلے بھی چند ممالک میں اسلام پسندوں کو شراکتِ اقتدار کا تجربہ ہوا تھا، یعنی یمن اور اردن وغیرہ میں۔ تاہم، ایک ایسے وقت میں جب عرب دنیا میں انقلاب اور مخالف انقلاب کی کش مکش ابھی عروج پر تھی اور دوسری طرف تنگ آئے ہوئے عوام کی توقعات آسمان کو چھورہی تھیں اور خدشات خطرناک ترین سطح پر تھے۔ ان حالات میں اسلامی قوتوں کے لیے بہتر طرزِ عمل یہ تھا کہ اس معاملے کو زیادہ تدبر اور صبر کے ساتھ دیکھتے اور بے خطر اس میں کود نہ پڑتے۔ اسلام پسندوں کو ملنے والے اقتدار کو شادی حمید نے اپنی کتاب میں ’یرغمالی اقتدار‘سے تعبیر کیا ہے۔
دراصل ’عرب بہار‘ کے بعد اسلام پسندوں کو ملنے والا اقتدار حقیقی تھا ہی نہیں۔ انقلاب کے بعد پہلے آزادانہ انتخابات میں منتخب ہونے والے مصری صدر مرسی شہید، ریاست مصر میں ہرگز فیصلہ کن اختیار و اقتدار کے مالک نہیں تھے بلکہ فیصلہ سازی کا اصل اختیار برسوں سے مسلط فوجی جنتا کے ہاتھ میں تھا یا مقتدر سیکولر اشرافیہ اور ان دونوں کی پشتی بان عالمی مقتدرہ کے ہاتھوں میں یرغمال تھا ۔
اسی طرح اسلام پسندوں کے وزیر اعظم ہوں یا پارلیمان کے اسپیکرز کسی کے پاس بھی حقیقی اختیار و اقتدار نہیں تھا اور نہ انھیں دستور کی دی ہوئی طاقت کو ،جو انتخابات میں کامیابی کے بعد ان کا استحقاق تھی ، استعمال کرنے پر کبھی قادر رہنے دیا گیا۔
دوسری جانب مراکش میں بھی وزیر اعظم تو اسلامی احیا پسندوں کا تھا،لیکن فیصلہ کن طاقت اوراصل اختیار و اقتدار، مطلق العنان بادشاہ کے ہاتھ میں رہا۔ پھر تیونس میں سیکولر قوتوں کی ہٹ دھرمی اور اپنی انتخابی شکست کو تسلیم نہ کرنا اور ہارنے کے بعد تیونس کو انتقاماً اہل تیونس ہی پر ڈھادینے کی ان کی کوششوں نے النہضۃ کے قائدین کو کبھی سُکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔ انھیں مجبور کیا گیا کہ پارٹی کی انتخابی کامیابی اور انقلاب کے ثمرات میں سے کسی ایک کو چنیں ۔
تیسری بات یہ ہے کہ اسلام پسند کہیں خود بھی صرف نمایشی اختیار و اقتدار پر قانع ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان پر عوامی توقعات کا بوجھ تو پڑگیا، لیکن تبدیلی کا حقیقی اختیار ان کے پاس تھا ہی نہیں کہ کچھ کرپاتے ۔مصر، تیونس ،مراکش ہر جگہ کم و بیش ایک سی صورت حال تھی ۔بعد ازاں واضح بھی ہوگیا کہ یہ حکمت عملی کی فاش غلطی تھی، جس کی بڑی قیمت چکانا پڑی ۔ نہ تو انھوں نے دستور میں لکھے اور قوم کے دئیے ہوئے انتخابی مینڈیٹ اور اختیارات کو اسٹیبلشمنٹ سے زبردستی چھین کرلیا اور نہ ایسے نمایشی اختیار و اقتدار کو ٹھوکر ماری اور استعفا دے کر قوم سے دوبارہ رجوع کیا کہ ان کی اخلاقی برتری قائم رہتی اور حقیقی اختیار سے خالی ان منصبوں کابوجھ نہ اٹھانا پڑتا۔ ان پر مشہور تابعی امام عامر الشعبی رحمۃ اللہ کی وہ بات صادق آتی ہے، جو انھوں نے حجاج بن یوسف کے پھیلائے ہوئے فتنے کے دور میں کہی تھی : تلك فتنة لم نكن فيها بررة أتقياءَ، ولا فجَرة أقوياء ’’ایسا فتنہ تھا جس میں نہ تو ہم مخلص فرماں بردار تھے اور نہ طاقتورباغی و سرکش‘‘ ۔
اگر اسلام پسند سیاست کرنے والوں کے پاس چھٹی حس ہوتی اور ان کی سیاسی تدبیروں میں لچک رہتی، تو وہ قوم کے دئیے ہوئے مینڈیٹ اور اختیار کو غاصبوں سے چھین لیتے ورنہ جونہی انھیں احساس ہوگیا تھا کہ یہ نمایشی اور یرغمالی اقتدار ان پر ایک اخلاقی بوجھ ہے تو ایسے لاحاصل اقتدار کو چھوڑ دیتے ۔
چوتھی بات یہ ہے کہ کچھ اسلامی تحریکوں خصوصاً مراکش کی حزب العدالۃ والتنمیۃ نے صاف ستھری سیاست اور کارکردگی دکھانے کی پالیسی کو ترجیح دی، نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں سے ہی ہاتھ دھونا پڑے۔اسلامی تحریک کے لیے معاشرے میں کچھ جاذبیت اگر ہے تو اس کی اصول پسندی، معاشرے کے معروف اخلاقی قاعدوں پر چلنے ،اپنی اسلامی شناخت پر اصرار، اسلامی اصولوں کے پرچار اور اندرونی استبداد اور بیرونی غلامی کے مقابل اس کی اخلاقی برتری کی وجہ سے ہے ۔
بعض تحریکوں کو یہ خوف لاحق رہا کہ سیاسی سطح پر جو کچھ ہم نے حاصل کیا ہے، اسے برقرار رکھ پائیں گے یا نہیں؟ وہ سیاسی کامیابی کی بقاء کے لالچ میں پڑگئے اور تحریک اسلامی کے بنیادی اصولوں اور موقف کو ہاتھ سے جانے دیا۔ ان کا نقطۂ نظرتھا کہ ہماری معاشی اور اجتماعی کارکردگی ہماری اصول پرستی چھوڑ بیٹھنے کو سہارا دے لے گی۔ وہ یہ بھول گئے کہ ان کے پاس معاشی اور اجتماعی سطح پر کارکردگی دکھا پانے کی صلاحیت موجود ہی نہیں ۔اس طرح وہ ایک ساتھ دونوں محاذوں پر شکست کھاگئے ۔اخلاقی برتری بھی گئی اور کارکردگی بھی صفر رہی ۔ پھر مراکش کی حزب العدالۃ والتنمیۃ ایسے سیاسی معاملات میں اُلجھی جو اس کے دائرے سے باہر تھے، جیسے اسرائیل کو تسلیم کرنا، فرانسیسی کو ذریعۂ تعلیم بنانا،اور بھنگ کی کاشت وغیرہ۔ ان معاملات کی بڑی سیاسی قیمت چکانا پڑی۔
عبد الالہ بن کیران ( حزب العدالۃ والتنمیۃ کی پہلی حکومت میں وزیر اعظم اور اس وقت پارٹی کے سیکرٹری جنرل) بادشاہ کے اقتدار اور اثر و نفوذ اور منتخب حکومت کے اقتدار و اختیار کے درمیان توازن رکھنے میں کامیاب رہے تھے ۔ مگر ان کے بعد آنے والے مراکش کے وزیر اعظم (پارٹی کے دوسرے سیکرٹری جنرل) سعد الدین عثمانی کامیاب نہیں ہوپائے ۔یہی وجہ تھی کہ بن کیران کی عوامی پذیرائی اور سیاسی تدبیروں نے، عوامی لب و لہجہ میں ان کی جملہ بازی نے پارٹی کو بہت فائدہ پہنچایا تھا ۔ا سی طرح ان کا دیگر، خصوصا کرپٹ سیاسی رہنماؤں پر مسلسل دبائو، جنھیں وہ مگرمچھوں سے تعبیر کرتے تھے اور ضمناً بادشاہ پر بھی کبھی کبھار کی تنقید نے بن کیران کی رہنمائی میں مراکش کے اسلام پسندوں کی حفاظت کی اور عوام کے ذہنوں میں اس تصور کو راسخ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی غلطیوں میں اسلامی احیا کے علَم برداروں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
مراد یہ ہے کہ پارٹی کی قسمت پر لیڈر شپ کا تسلسل کتنا گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اگر کرشماتی اور مضبوط قیادت ہو تو وہ پہلے سے موجود سیاسی قیادت اور نئی آنے والی سیاسی قیادت کے درمیان توازن پیدا کرلیتی ہے ۔اور اگر قیادت کمزور ہو تو وہ پہلے کے اثرات کو بھی نقصان پہنچادیتی ہے۔
مراکش کی حزب العدالۃ والتنمیۃ نے جب بن کیران کی کرشماتی قیادت کو کھودیا (بعض حلقوں کے نزدیک بادشاہ ان کی عوامی مقبولیت سے خائف تھا اور اسی کے دباؤ پر پارٹی نے سعدالدین عثمانی کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا تھا )اور ان کی جگہ ایک اکیڈمک پروفیسر بیوروکریٹک رویے کے حامل ، کمزور، سیاسی وژن سے عاری اور پرانے سیاسی گرووں کے خلاف مضبوط سیاسی اقدامات کی جرأت سے خالی فرد کی نامزدگی تھی، جس کی سیاست کا انحصار معاشرے کے عوام کی دل جوئی کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی رضاجوئی اور بادشاہ کی فرماں برداری پر تھا ۔ جب انھیں آگے لایا گیا تو توازنِ سیاست بگڑ گیا جس کا خمیازہ پارٹی کو اقتدار کے بعد شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
اس طرح مراکشی تجربہ حزب العدالۃ والتنمیۃ کو اپنے ڈھب پہ لانا اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے گھیرا تنگ کرنا اور بالآخر پارٹی کو گہری دلدل میں پھنسا دینے کا منصوبہ مکمل ہوگیا ۔بالکل اُسی انداز میں کہ جس طرح ماضی میں مراکش کی کئی سیاسی قوتیں بے دست و پا بنائی جاچکی تھیں: حزبِ استقلال اور اشتراکی اتحاد وغیرہ ۔
تحریک اسلامی مراکش کا وہ فخر بھی اسے کچھ فائدہ نہ دے سکا اور نہ وہ لمبے چوڑے دعوے کہ ہم اخوان المسلمون سے زیادہ سیاسی شعور کے مالک ا ورمیدانِ سیاست کے پختہ کار کھلاڑی ہیں۔ یہ تفاخر دراصل ایک اور قسم کی غلطی کا ارتکاب تھا۔
’زیادہ سے زیادہ کی حکمت عملی‘ جس پر مصر میں اخوان المسلمون کاربند ہوئی اور صدارتی الیکشن میں قبل از وقت شرکت کی، یہی پالیسی انھیں استبداد کے عادی ظالم مصری نظام کی دیوار سے سر پھوڑنے کی طرف لے گئی۔مگر مراکش میں ’کم سے کم کی حکمت عملی‘ اختیار کی گئی، جوتحریک اسلامی کو مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ڈھب پر ڈھالنے اور انھیں اپنے اخلاقی پیغام سے محروم کرنے پر منتج ہوئی کہ جس پیغام میں عوام کے لیے اصل جاذبیت تھی۔ا نھیں طاقت سے دُور اور کسی عملی کارنامے سے محروم رکھا گیا کہ جو اخلاقی برتری سے محرومی کا عوضانہ بن جاتا ہے۔ ۹۰کی دہائی میں یہی طریقہ الجزائر کے انقلابی فوجیوں نے اخوان کے ساتھ روا رکھا تھا، پھر اسے موریتانیہ، مراکش، تیونس اور لیبیا میں دہرایا اور آزمایا جاتا رہا ۔
تاہم، اقتدار میں آنے کے بعد اسلامی قوتوں کی اس کمزوری اور کوتاہی کے برعکس عالمِ عرب کی سیکولر قوتوں کی حالت زار اسلام پسندوں سے کہیں زیادہ گئی گزری ہے ۔سیکولرسٹوں کے لیے کئی مسلم ملکوں کے اقتدار کا دروازہ مدتوں کھلا رہا ہے، لیکن یہ قوتیں اپنی قوم کو ترقی دینے کے میدان میں مکمل طور پر ناکام ہوئیں۔دراصل آزادی کا معرکہ اور اپنی شناخت کا معرکہ ان سیکولرسٹوں کی ترجیح اور ان کے ایجنڈے کا حصہ تھا ہی نہیں ۔
معرکۂ حریت و آزادی اور اسلامی شناخت قائم رکھنے کے معرکہ میں اسلامی تحریکات کو بڑی بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں ۔ معاشرے کی اسلامی شناخت برقرار رکھنے کے اس معرکے میں یہ اسلامی تحریکیں ایک فوجی قلعہ کی مانند مضبوط ثابت ہوئیں ۔
اسی طرح عوامی انقلاب، ’عرب بہار‘ کو کامیاب بنانے میں بھی اصل کردار انھی اسلامی تحریکات کا تھا ۔اسی لیے علاقائی اور عالمی طاقتوں کی استحصالی چکّی میں بھی یہی قوتیں پس رہی ہیں۔ اس لیے کہ لوگ انھی سے توقع باندھے ہوئے ہیں، سیکولر قوتوں سے نہیں۔تاہم، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تحریکات اسلامیہ جب بھی اقتدار میں آئیں یا شریکِ اقتدار ہوئیں، ترقی کی دوڑ میں وہ بھی ابھی تک کوئی خاص کارنامہ اپنے دامن میں سمیٹ نہیں پائیں۔
شاید سب سے بڑا خطرہ اس وقت جو ان تحریکات کو درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ ان کے عزائم اور ارادے بہت قلیل ہیں ۔یہ تھوڑے پر قناعت کرجاتی ہیں ۔یہاں تک کہ ان میں سے بعض میدان عمل میں اپنی موجودگی ہی کو اور زندگی ہی کو کامیابی کی دلیل شمار کرنے لگتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ ان کا سیاسی اور تہذیبی تبدیلی کا پروگرام اسی حد تک تھا، جو کامیاب ہوچکا ہے ۔ بعض تحریکات بلاوجہ اور بے فائدہ اپنے اسلامی رنگ ڈھنگ اور اسلوب وانداز، حتیٰ کہ طریق کار تک سے علیحدگی اختیار کرلیتی ہیں اور یوں ایک ایسے معاشرے میں اپنا اخلاقی جواز ہی گم کربیٹھتی ہیں، جہاں سارے ہی، ریاکاری پر مبنی کھوکھلے نعروں سےا پنے وجود کا جواز حاصل کرتے ہیں۔
دوسرے ان میں سیاسی ناپختگی بھی موجود ہے۔ اس کمزوری کا مطلب انفعال و ارتجال اور محض ردِعمل کی سیاست ہے۔ یہ ساری زندگی ایک دائرے میں گھرے اتار چڑھاؤ کے درمیان جینے کے سفر جیسا ہے، جہاں کچھ بن نہ پارہا ہو، نہ کوئی قابل ذکر کامیابی ہی مل رہی ہو ۔
اصلاح و تجدید کی تحریکوں کے لیے وقتاً فوقتاً مصلح اور مجدد کی ضرورت رہتی ہے، جو ان کی رہنمائی کرے اور ان میں کار تجدید انجام دیتا رہے ۔اور آج تحریکات اسلامیہ کو تبدیلی و تجدید کی شدید ضرورت ہے تاکہ ان میں سیاسی پختہ کاری کی داغ بیل پڑے اور یہ زیادہ واقف اور باشعور ہوں، میدانِ سیاست سے بھی اور دنیا کی سیاست سے بھی۔
یہ دلیل کافی نہیں ہے، جو بعض اسلام پسند آج دے رہے ہیں کہ تحریکات اسلامیہ خود ناکام نہیں ہوئیں بلکہ ان کے داخلی اور خارجی دشمنوں نے انھیں ناکام بنایا ہے ۔یہ دلیل دیتے ہوئے ہم لوگ بھول جاتے ہیں کہ آسانی سے ناکام ہوجانا تو خود اپنی جگہ ناکامی ہے اور محاصرے میں گھرجانا خود ایک بڑی کمزوری ہے۔ سیا ست تو کامیابی اور قوت کے حصول کے لیے مسلسل کش مکش کا نام ہے، سیاست صرف تقریروں اور اچھی نیتوں کا نام نہیں ہے !