یہ زمانے کے انقلابات ہیں۔ ایک وقت وہ تھا کہ یورپ کے عیسائی، اندلس (Spain) جاکر مسلمانوں سے انجیل کا سبق لیا کرتے تھے۔ اب معاملہ اُلٹا ہوگیا ہے کہ مسلمان یو رپ والوں سے پوچھتے ہیں کہ اسلام کیا ہے؟ اور اسلام کی تاریخ اور اس کی تہذیب کیا ہے؟ حتیٰ کہ عربی زبان بھی مغربی مستشرقین سے سیکھی جاتی ہے۔ مغربی ممالک سے استاد درآمد کرکے ان سے اسلامی تاریخ پڑھوائی جاتی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق جو کچھ وہ لکھتے ہیں، نہ صرف اسے پڑھا جاتا ہے بلکہ اس پر ایمان بھی لایا جاتا ہے۔
حالانکہ یہ لوگ خود اپنے مذہب اور اس کی تاریخ کے متعلق اپنے ہم مذہبوں کے سوا کسی کی رائے کو ذرّہ برابر بھی دخل دینے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہودیوں نے اپنی انسائیکلوپیڈیا (Jewish Encyclopedia) شائع کی ہے۔ اس میں کوئی ایک مضمون (Article) بھی کسی مسلمان تو درکنار کسی عیسائی مصنف کا بھی نہیں ہے۔ بائیبل کا ترجمہ بھی یہودیوں نے اپنا کیا ہے۔ عیسائیوں کے ترجمے کو وہ ہاتھ نہیں لگاتے۔ اس کے برعکس یہودی مصنّفین، اسلام کے متعلق مضامین اور کتابیں لکھتے ہیں اور مسلمان ہاتھوں ہاتھ ان کو لیتے ہیں اور ان کا یہ حق مانتے ہیں کہ ’’ہمارے مذہب اور ہماری فقہ اور ہماری تہذیب اور ہمارے بزرگوں کی تاریخ کے متعلق وہ محققانہ کلام فرمائیں اور ہم یہ چیزیں ان سے سیکھیں‘‘۔
یہ صورتِ حال کسی صحیح اسلامی حکومت میں نہیں رہ سکتی اور نہ رہنی چاہیے۔اسلامی حکومت بھی ہو اور اسلام اور مسلمان یتیم بھی ہوں، یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے بالکل متضاد ہیں۔ یہ رویّہ مسلمانوں کی ’غیراسلامی حکومت‘ ہی کو مبارک رہے! (’رسائل و مسائل‘، ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۷،عدد ۲،نومبر ۱۹۶۱ء، ص۵۵-۵۶)