مرحوم کشش صدیقی (مدیر جسارت ، کراچی)، محمد صلاح الدین شہید اور حکیم محمود احمدبرکاتی کے تربیت یافتہ کالم نگار حشمت اللہ صدیقی کا زیرنظر اوّلین مجموعہ بقول نعمت اللہ خان: ’’جذبۂ ایمانی اور حب الوطنی‘ کا مظہر ہے۔ قومی روزناموں (جسارت، جنگ، نوائے وقت، ایکسپریس وغیرہ) میں شائع شدہ یہ مختصر مضامین پاکستان اور اُمت ِمسلمہ کے لیے مصنّف کے دردمندانہ جذبات و احساسات کے عکّاس ہیں۔ متنوع موضوعات پر چند کالموں کے عنوانات: نیشنل ایکشن پلان، سالمیت کی اہم دستاویز، اتحادِ اُمت و علمائے کرام، سندھ اسمبلی، اقلیتی رائٹس بل، اہل حدیث کانفرنس اور امام کعبہ کی آمد، پاک بھارت دوستی اور مسئلہ کشمیر، رُشدی اور مغرب کی اسلام دشمنی، اسلام اور تلوار، زلزلہ: انتباہ یا نظامِ قدرت، دفاعِ پاکستان کونسل، تعارف اور مقاصد، جماعت اسلامی کا ورکرز کنونشن، فرانسیسی جریدے کی دریدہ دہنی، وغیرہ۔
آخر میں چند تصاویر اور کالم نگار کے نام مولانا مودودی، محمد صلاح الدین، پروفیسر غفور احمد، محموداعظم فاروقی اور نعمت اللہ خان کے ایک ایک خط کے عکس شامل ہیں۔معیارِ طباعت و اشاعت اطمینان بخش ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
ہماری قوم کا یہ المیہ ہے کہ وہ بصیرت اور آنکھوں کا نُور رکھنے کے باوجود، قومی اور انفرادی زندگی کے گڑھوں کو دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ ٹھوکریں لگتی ہیں مگر کوئی سنبھلنے کو تیار نہیں ہوتا۔
پروفیسر ممتاز عمر کی یہ کتاب اس اعتبار سے قیمتی مجموعۂ مضامین ہے جس میں انھوں نے آنکھیں کھودینے کے باوجود،ہم وطنوں اور دُنیا بھر کے انسانوں کو نُورِ بصیرت اور نُورِ دانش کی ان لپٹوں سے استفادے کا موقع عطا کیا ہے کہ جنھیں ہم آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود دیکھنا نہیں چاہتے۔ مگر جناب ممتاز عمر باربار متوجہ کرتے ہیں کہ صاحبو، زندگی کو یوں ہی غفلت میں نہ گنوا بیٹھو۔ یہ مضامین قلم سے نہیں، دل سے لکھے گئے ہیں۔ (س م خ)
زیرنظر کتاب پروفیسر صاحب کے تیس مضامین کا مجموعہ اُردو زبان سے ان کے تحقیقی شغف کا اظہار ہے۔ ان مضامین میں مختلف الفاظ، تراکیب، روز مرہ اور محاوروں کے استعمال میں غلطیوں، نیز لفظوں پر اِعراب کے سلسلے میں ہماری لاپروائی پر تنقید کی گئی ہے۔ اُردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے میں عام لوگوں، طلبہ اور اساتذہ تک جن غلطیوں کے مرتکب ہوتے ہیں، غازی صاحب نے اُن کی نشان دہی کرتے ہوئے اصلاح کے لیے بہت سی مثالیں دے کر سمجھایا ہے، مثلاً: ’پیشِ لفظ‘ نہیں ’پیش لفظ‘صحیح ہے (پیش کے نیچے کسرہ لگانا غلط ہے)۔ اسی طرح ’پسِ منظر‘ نہیں ’پس منظر‘ صحیح ہے۔ ’بہت بہتر‘ میں ’بہت‘ زائد ہے، صرف ’بہتر‘ لکھنا یا بولنا کافی ہے۔ اسی طرح ’بہت زیادہ‘ یا ’بہت کافی‘ میں بھی ’بہت‘ زائد ہے۔ ’عوام الناس‘ جس کا معنٰی لوگ ہے، اس کے لیے صرف ’عوام‘ لکھناکافی ہے۔ ’لیلۃ القدر‘ کی رات‘ غلط ہے، ’لیلۃ القدر‘ یا ’شب ِ قدر‘ صحیح ہے۔ ’خط و کتابت‘ نہیں ’خط کتابت‘ صحیح ہے۔ ’استفادہ حاصل کرنا ‘ میں ’حاصل‘ بلاضرورت ہے،وغیرہ وغیرہ۔
’اُردو کا عددی نظام (لسانی تناظر میں)‘ غازی صاحب نے ہندسوں کو لفظوں میں لکھتے ہوئے درپیش اُلجھنوں پر بحث کی ہے۔
پروفیسر موصوف کی یہ کتاب ہماری، خصوصاً نئی نسل کی راہ نمائی کرتی اور بتاتی ہے کہ ہمیں اُردو لکھنے، پڑھنے اور بولنے میں صحت ِ املاو اعراب کا کیوں کر ، کہاں اور کیسے خیال رکھنا چاہیے۔ اشاعت و طباعت بہت معیاری ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
، ڈاکٹر تسنیم احمد ۔ ناشرمکتبہ دعوۃ الحق، ۱۹۳-اے، اُٹاوہ سوسائٹی، احسن آباد، کراچی- ۷۵۳۴۰۔ فون: ۹۲۴۲۶۰۶-۰۳۰۰۔ صفحات: ۲۷۵۔ قیمت: ۶۵۰ روپے۔ [مصنّف موصوف، قبل ازیں، اس سلسلے کی دس جلدیں شائع کرچکے ہیں (جلد۹ پر تبصرہ در ترجمان ، ستمبر۲۰۲۰ء، جلد۱۰ پر تبصرہ در ترجمان اپریل ۲۰۲۱ء)۔ زیرنظر جلد یازدہم کے کلیدی عنوانات یہ ہیں: نزولِ قرآن، سیرۃ النبیؐ، توحید، آخرت، کش مکش حق و باطل۔ یہ ایک طرح سے قرآنِ حکیم کی تفسیر ہے، جس میں سیرت النبیؐ کے اہم واقعات اور آں حضوؐر کی جدوجہد کے مختلف مراحل کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ بقول مؤلف: ’’اب صرف سات سورتوں پر گفتگو باقی ہے‘‘۔]
۔ ناشرمکتبہ المنبر، جامعہ سٹریٹ، بالمقابل ستارہ ٹیکسٹائل ملز، سرگودھا روڈ، فیصل آباد۔ صفحات: ۱۸۴۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ [مؤلف مرحوم ایک طبیب، معلّم اور مصنّف کے ساتھ ساتھ عالمِ دین بھی تھے۔ کئی سال پہلے، ریڈیو پاکستان فیصل آباد کی درخواست پر انھوں نے قرآنِ حکیم کے آخری دس پاروں کی بعض منتخب سورتوں کا خلاصہ تیار کیا جو ۱۴۰۴ھ (۱۹۸۴ء) کے رمضان المبارک میں ریڈیو سے نشر ہوا۔ یہ ایک طرح سے بعض آیات کی تشریح و تفسیر ہے۔ کتاب کے آخری حصے میں علّامہ محمد المدنی کی کتاب کی تلخیص اور ترجمانی و تفہیم ہے۔ یہ سب احادیث ِ قُدسیہ ہیں۔ متن کے ساتھ ترجمہ و تشریح کے لیے دیگر احادیث اور قرآنی آیات سے مدد لی گئی ہے۔ایک اچھی تربیتی کتاب۔]
مرتب: ڈاکٹر طاہرہ انعام۔ ناشر: مہر گرافکس اینڈ پبلشرز، فرسٹ فلور، احسان سنٹر، بھوانہ بازار، فیصل آباد۔ صفحات: ۱۶۰۔ قیمت: ۵۰۰ روپے۔[ڈاکٹر معین الدین عقیل کے بقول: ’’صبیح رحمانی کا نام آج اُردو کی ادبی و روحانی دُنیا میں صنف ِ نعت کے ساتھ اس طرح لازم و ملزوم ہوگیا ہے کہ جہاں ایک نام سننے پڑھنے میں آیا، وہیں دوسرا نام بھی ساتھ ہی چلا آتا ہے‘‘۔ زیرنظر کتاب صبیح رحمانی کے منتخب نسبتاً طویل تبصروں اور تجزیوں پر مشتمل ہے۔ انھوں نے صنف ِ نعت کی ترویج کے ضمن میں جو غیرمعمولی کاوشیں انجام دی ہیں، زیرنظر کتاب کو اسی سلسلے کی کڑی سمجھنا چاہیے۔ ایک مختصر مگر مفید کتاب ہے۔]
مرتب: پروفیسر محمد طیب اللہ۔ ناشر: مکتبہ الاحرار، چارسدہ روڈ، مردان۔ فون: ۹۸۷۲۰۶۷-۰۳۳۲۔ صفحات:۱۸۴۔قیمت: ۳۰۰ روپے۔ [پروفیسر محمد طیب اللہ نے اپنے دادا محمد عبدالجمیل کا تذکرہ مرتب کیا ہے۔ موصوف کے بقول: علّامہ محمدعبدالجمیل ایک عبقری شخص تھے۔ نہایت باصلاحیت اور ذہین، بعض قدیم علوم (صرف و نحو، علم منطق، علم معانی و بیان اور علم فقہ وغیرہ) کے فاضل تھے۔ انھوں نے اِن علوم کی بعض کتابوں کی شرحیں بھی لکھی ہیں۔ فارسی میں اپنی آپ بیتی بھی لکھی ہے۔ مرتب نے اُن کی خود نوشت اور ڈائری سے بعض دل چسپ واقعات نقل کیے ہیں، جیسے: مرزا غلام احمد قادیانی کے ساتھ دوملاقاتوں کا ذکر، جس میں بتایا ہے کہ دوسری ملاقات میں محمد عبدالجمیل کی پیش گوئی کے عین مطابق مرزا آں جہانی ہوگیا۔ مرتب کے الفاظ میں اس کتاب کی ترتیب کا مقصد یہ ہے کہ اُس بہادر اور صاحب ِ ہمت انسان کی زندگی کے روشن پہلو نسلِ نو کے سامنے آجائیں‘‘۔]
ناشراشرف اکادمی، شارع اشرف، ۶کلومیٹر سرگودھا روڈ، فیصل آباد۔ صفحات: ۲۷۲۔ قیمت: ندارد۔ [طبیبوں کے خانوادے میں ڈاکٹر زاہد اشرف کی حیثیت نمایاں ہے۔خود طبیب ہیں اور طب کے معلّم اور مقرر بھی۔ مختلف موضوعات پر متعدد تصانیف شائع کرچکے ہیں۔ یہ عربی میں ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کے باب اوّل کا اُردو ترجمہ ہے۔ اصل موضوع تھا: ابن سینا کی شہرئہ آفاق کتاب القانون فی الطب: دراسات و تحلیل ۔ حضرت آدمؑ سے تاحال، مختلف اَدوار میں، مختلف خِطّوں اور ملکوں میں طب کے فن میں ،عہد بہ عہد ترقی اور اس ضمن میں بعض شخصیات (طبیبوں) کی خدمات، مسلمانوں کے طبی کارہائے نمایاں کا تذکرہ۔]
[پتا: الندوۃ التحقیق الاسلامی ، بہادر کوٹ ، کوہاٹ۔ مقامِ اشاعت: پشاور]۔ [ایک دینی، علمی، تحقیقی اور فکری رسالہ۔ چند عنوانات: مغربیت اور قادیانیت کے تمدنی وار (اداریہ)۔شیخ عبدالحق محدث دہلوی، قرآن کریم کی طب سے متعلق آیات کا عصری تناظر میں مطالعہ، افغانستان، جدید تہذیب، ملّت اسلامیہ اور مستقبل کی صورت گری۔ آخر میں مولانا عبدالماجد دریا بادی کا ۱۹۵۶ء کا ایک خط نقل کیا گیا ہے، جس سے مولانا کے شب و روز کی مصروفیت اور نظم اوقات کا پتا چلتا ہے۔ رسالے کا آغاز تو اچھا ہے، انجام؟؟]