برطانیہ میں قائم ۲۱فلاحی اداروں کی نمایندہ تنظیم ’آکسفیم‘ (Oxfam) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ Survival of the Richest(مال داروں کی بقا) کے عنوان سے شائع کی ہے۔ یہ رپورٹ دنیا میں تیزی سے بڑھتی معاشی ناہمواری کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
آج کی دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے: ایک جانب مال دار ہیں اور دوسری جانب محتاج۔ اس وقت دنیا میں ٹیکس وصولی کا رائج نظام اور نیو لبرل معاشی ڈھانچا ایک چھوٹے سے اشرافیائی طبقے کے لیے سود مند ہے، جب کہ باقی اکثریتی آبادی کے لیے یہ نظام محض بھوک، مہنگائی، غربت اور نابرابری جیسے بحران جنم دیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک اقلیتی مال دار طبقہ دنیا کی سیاسی اقتصادیات کو قبضے میں کر لیتا ہے اور اکثریتی آبادی کے لیے معاشرتی ترقی کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔
دنیا کے تمام ممالک میں اس وقت عوام کی اکثریت بیک وقت کئی بحرانوں سے لڑنے میں مصروف ہے، لیکن اس لڑائی میں فتح صرف ایک چھوٹے سے اقلیتی طبقے کی ہوتی ہے۔ ۲۰۲۰ء کے بعد سے کوویڈ-۱۹ کے اثرات بھی بڑے واضح ہیں۔ حیرت انگیز بلکہ وحشت ناک بات یہ ہے کہ اس وبا کے دوران دنیا کے ایک فی صد امیر ترین طبقے نےنئے جمع شدہ سرمائے کا دو تہائی اپنے قبضے میں کر لیا تھا۔ ارب پتی لوگ روزانہ ۷ء۲؍ ارب ڈالر اپنی جیبوں میں ڈال رہے تھے،جب کہ عوام کی اکثریت اسی دوران بڑھتی ہوئی مہنگائی، غربت، اور طوفان کی طرح مسلط ہورہی بے روزگاری سے نبردآزما تھی۔
ہم جس زمانے میں رہ رہے ہیں، یہ اکثریت کے لیے بحرانوں کا زمانہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شدید غربت کے خاتمے کے لیے کی جانے والی عالمی کوششیں دم توڑ چکی ہیں۔ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کا کہنا ہے کہ سال ۲۰۲۳ء کے دوران دنیا کی ایک تہائی معیشت بحران کا شکار رہے گی۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے UNDP کا کہنا ہے کہ دنیا کے ۱۰ میں سے ۹ ممالک کے اندر انسان کا معیار زندگی بہتری کے بجائے مزید گراوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔
آکسفیم کے مطابق مہنگائی کی وجہ سے دنیا کے ایک ارب اور ۷۰کروڑ محنت کشوں کی اُجرت مزید کم ہو چکی ہے۔ ترقی پذیر ممالک اپنے قرضوں کی ادائیگیاں کرتے کرتے دیوالیہ ہونے والے ہیں،جب کہ غریب ترین ممالک اپنی بنیادی ضروریات یعنی تعلیم اور صحت وغیرہ کے مقابلے میں اپنے قرضوں کی ادائیگی کے لیے زیادہ وسائل صرف کر رہے ہیں۔ اخراجات کو کم کرنے کے لیے ان ممالک میں جو کوششیں کی جاتی ہیں، وہ غریب عوام کی زندگی مزید اجیرن کر نے کا باعث بنتی ہیں اور یوں امیر اور غریب کے درمیان فرق مزید بڑھ جاتا ہے۔
خصوصاً عالمی وبا کے بعد جب دنیا بھر کے اکثریتی عوام غربت کی چکی میں پس رہے تھے، تو ان کی مصیبتوں کا براہِ راست فائدہ سرمایہ دار وں کو ہو رہا تھا، جو اس دوران دونوں ہاتھوں سے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف تھے۔ اس کی وجہ دنیا کا وہ معاشی نظام ہے، جو فقط ایک فی صدی مال دار طبقے کے مفاد میں ہے۔ حالیہ مہنگائی سے پیدا ہونے والا ضروریات زندگی کا بحران بھی اس اقلیتی مال دار طبقے کی دولت کے ذخائر میں روزانہ اضافے کا ذریعہ بنا۔ چنانچہ اس بحران کو ’اخراجاتِ زندگی کے بحران‘ کے بجائے ’منافع کا بحران‘ کہنا چاہیے جس کی ہرسطح پر قیمت غریب ادا کر رہے ہیں۔
یہ رپورٹ دعویٰ کرتی ہے کہ ہر ارب پتی سیٹھ ہمارے نظام اور پالیسیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دولت کا حد درجہ ارتکاز نہ صرف معاشرے میں سیاسی بُعد (Polarization) کو جنم دیتا ہے بلکہ یہ معیشت کے لیے بھی خرابی کا باعث ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے حق میں ہمیشہ دہرائی جانے والی یہ دلیل بھی غلط ثابت ہو چکی ہے کہ ’’بالائی طبقات میں مرتکز ہونے والی دولت رفتہ رفتہ غریب طبقات تک بھی پہنچ جاتی ہے‘‘۔ واقعی یہ نظام امیر کی بھلائی کے لیے تشکیل دیا گیا ہے، جسے روزِ اوّل سے محصولات کی ادائیگی میں چھوٹ حاصل ہے۔ پھر ٹیکس کا نظام ایسا ہے کہ امارت بڑھنے کے ساتھ ساتھ ٹیکس اسی تناسب سے کم ہوتا جاتا ہے۔ اس نظام کا فائدہ سرمایہ دار کے سوا کسے ہو سکتا ہے؟
اکثر ممالک بالخصوص غریب یا اوسط آمدن رکھنے والی ریاستوں میں امارت اور وراثت پر ٹیکس کا کوئی تصور موجود نہیں، حالانکہ ان ممالک میں طبقاتی تقسیم سب سے نمایاں ہے۔ اس رپورٹ کا ماحصل یہ ہے کہ غربت، بھوک اور افلاس سے پاک ایک مساوی اور پائے دار معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ امیروں کے طبقے پر ٹیکس عائد کیے جائیں اور گذشتہ چار عشروں سے جاری پالیسیوں کو اَز سرِ نو تشکیل دیا جائے۔ محصولات کا دائرہ بڑھنے سے ریاستوں کے پاس سرمایہ زیادہ اکٹھا ہوسکے گا، جو معاشی، سیاسی اور سماجی ناہمواریوں کو کم کرنے اور مساوات کے اصول پر قائم معاشرے کی تعمیر میں استعمال ہو سکے گا۔
یواین ڈی پی (UNDP) کی ۲۰۲۱ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بھی اسی سمت اشارے کیے گئے تھے کہ پاکستان کا ایک چھوٹا سا اشرافیائی طبقہ کس قدر مراعات یافتہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق یہ طبقہ ریاست کی جانب سے سالانہ ۱۷ ارب اور۴۰کروڑ ڈالر کے مساوی مراعات حاصل کرتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ امیروں پر ٹیکس عائد کر کے اس رقم کو اکثریتی عوام کی فلاح پر خرچ کیا جائے کہ جن کا خون نچوڑ کر ٹیکس لیے جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ غربا کو ٹیکسوں تلے پیس کر حاصل ہونے والے وسائل سے اشرافیہ کو مراعات دی جاتی ہیں۔
پاکستان کے نظامِ محصولات میں بھی دولت کا ٹیکس کے ساتھ معکوس (regressive)رشتہ ہے، یعنی بڑھتی دولت کے ساتھ ٹیکس کی شرح کم ہوتی جاتی ہے، جس کا نقد فائدہ پاکستانی اشرافیہ ہی کو ہوتا ہے۔ جیسا کہ روزیٹا آرمٹیج (Rosita Armytage) نے اپنی کتاب Big Capital in an Unequal World: The Micropolitics of Wealth in Pakistan میں ثابت کیا ہے، پاکستانی معاشرے پر اشرافیہ قابض ہے۔ ہمارے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام پر ایک اقلیتی مال دار طبقے کا ہمہ پہلو قبضہ ہے، جس کے ہوتے ہوئے اکثریتی عوام کی بھلائی کا تصور ناممکن ہے۔
پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا، اور اسلام ایک ترقی پسند مذہب ہے، اور یہ کہ انسانیت کو درپیش تمام مسائل کا حل اسلامی تعلیمات میں مضمر ہے۔ چنانچہ موجودہ زمانے میں اسلامی تعلیمات انسانی بھلائی کے لیے کیونکر معاون ہو سکتی ہیں؟ اس پر رہنمائی کرنے کی ذمہ داری اسلامی اسکالروں کی ہے۔
پھر اہم سوال یہ ہے کہ سیاسی، معاشرتی اور معاشی برابری، مساوات، سخاوت، انصاف، ہمدردی، آزادی، بھائی چارے، اور اخوت سے متعلق اسلامی تعلیمات موجودہ عہد میں کس طرح قابل عمل ہیں؟
اسلامی تعلیمات کو نئے سرے سے لکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان تعلیمات کی نئی تشریح کر کے انھیں موجودہ حالات میں لاگو کرنا ضروری ہے۔ ان اقدار کو عملی طور پر معاشرتی ڈھانچے کا حصہ بنائے بغیر فقط ان کی زبانی تبلیغ سے گوہرمقصود حاصل نہ ہو گا۔
اس ضمن میں اسلامی تعلیمات کو بنیاد بنا کر ہمیں سیاست، معیشت اور قانونی ڈھانچہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے، لیکن اس سے قبل کچھ سوالوں کا جواب تلاش کرنا بھی ضروری ہے، تا کہ اس نظام کے حقیقی خدوخال تلاش کیے جا سکیں:کیا اسلامی تعلیمات میں ایک ایسے معاشرے کی گنجائش موجود ہے جو دو طبقوں (مفلس اور مال دار) میں بٹا ہوا ہو؟ یا اسلام ایک غیر طبقاتی سماج کی نمایندگی کرتا ہے؟ اسلام دولت اور وسائل کے ارتکاز کی اجازت دیتا ہے یا ان کی برابر تقسیم کا علَم بردار ہے؟ اسلام کی نظر میں معاشرے کی مجموعی ترقی زیادہ فوقیت رکھتی ہے یا انفرادی بھلائی؟ کیا اسلام غریب سے چھین کر امیر کو دینے کی بات کرتا ہے یا اسلامی تعلیمات اس کے برعکس ہیں؟*
ان سوالوں پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارا موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی نظام اسلامی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی اور بدترین استحصالی بنیادوں پر قائم ہے، جس میں صرف ایک اقلیتی اشرافیہ کے مفادات کا محافظ ہے۔ چنانچہ اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اس نظام کو بدل کر بھلائی کا رُخ اکثریت کی طرف موڑ دیا جائے۔
_______________
*اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے دیکھیے: l سیّدابوالاعلیٰ مودودی ،معاشیاتِ اسلام [مرتبہ: خورشیداحمد] l سیّدقطب شہید، اسلام میں عدل اجتماعی [ترجمہ: نجات اللہ صدیقی] l امام ابویوسف، اسلام کا نظامِ محاصل [کتاب الخراج کا ترجمہ:نجات اللہ صدیقی] lباقرالصدر ہماری معاشیات l ڈاکٹر محمدعمرچھاپرا ، Islam and the Economic Challenge/ Morality and Justice in Islamic Economics and Finance / The Future of Economics: An Islamic Perspective/