سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے لیے، تمام زمانوں میں سرچشمۂ ہدایت ہے اور اس سے براہِ راست فیض پانے والے صحابۂ کرامؓ دُنیا کے خوش نصیب ترین انسان ہیں۔ اور ان میں سب سے بلند مرتبہ وہ اصحابِ رسولؐ ہیں، جنھیں عشرہ مبشرہؓ یعنی وہ دس لوگ کہ جنھیں اِس دُنیا میں آخرت میں کامیابی کی بشارت دے دی گئی تھی۔
حافظ محمد ادریس صاحب کی زندگی علم کی شاہراہ پر چلتے اور دعوتِ حق کے پھول کھلاتے گزری ہے۔ زمانۂ طالب علمی ہی سے انھیں صحابۂ کرامؓ کی زندگیوں کے مطالعے اور اس سے حاصل کردہ نتائجِ فکر نوجوانوں میں بیان کرنے سے طبعی رغبت تھی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ صحابہؓ کی زندگی کی مناسبت سے ان کی پہلی کتاب روشنی کے مینار شائع ہوئی۔بعدازاں سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مربوط سسٹم کے تحت پڑھا بھی، لکھا بھی اور سیکڑوں اجتماعات میں بیان بھی فرمایا۔
عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں: حضرت ابوبکرصدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علی بن ابی طالبؓ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ، حضرت سعید بن زیدؓ__ ان صحابہ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پاکیزہ زندگیوں پر الگ الگ اور یک جا صورت میں کئی فاضلین نے پہلے بھی گراں قدر سوانحی کتب تحریر کی ہیں۔ ان کی موجودگی کے باوجود جناب حافظ محمد ادریس کی زیرنظر کتاب کئی حوالوں سے منفرد ہے۔ جس میں انھوں نے ان حضرات کی زندگیوں کی دعوتی کاوشوں، عملی کارناموں، تربیتی اسلوب اور انسانیت کی تعمیروترقی میں ہمہ پہلو کردار کومرتب انداز میں پیش کیا ہے۔ حافظ صاحب کا اسلوبِ بیان سادہ، رواں اور دل میں اُترنے والا ہے۔ یہ کتاب طالبانِ علم کے لیے واقعی روشنی کے میناروں کی بلندی کا ذریعہ بنے گی۔(س م خ )
علّامہ اقبال کے سوانح سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی زمانے میں وہ قادیانیوں کے بارے میں قدرے نرم گوشہ رکھتے تھے، لیکن محمد الیاس برنی کی کتاب قادیانی مذہب کا مطالعہ ان کے لیے چشم کشا ثابت ہوا۔ پھر علّامہ اقبال نے قادیانیوں اور قادیانیت کی اصلیت کو متعدد مضامین کے ذریعے بے نقاب کیا۔ جناب علّامہ کے بھتیجے شیخ اعجاز احمد ایک غالی قادیانی تھے۔ انھوں نے اپنی کتاب مظلوم اقبال میں علّامہ اقبال کے موقف کو مصلحت پرستانہ قرار دیا، جس کی مدلّل تردید زندہ رُود میں فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال نے کی ہے۔
علّامہ اقبال اور قادیانیت کے موضوع پر بیسیوں اہل قلم نے مضامین لکھے۔ قادیانیت شناس محمد متین خالد نے اس موضوع پر جملہ تحریروں کو یکجا کرکے زیرنظر کتاب مرتب کی ہے۔ اپنے موضوع پر یہ ایک مفصل اور مبسوط مطالعہ ہے۔ مجلد کتاب اہتمام سے شائع کی گئی ہے۔(رفیع الدین ہاشمی)
ڈاکٹر انوار احمد بگوی کے بقول:’’ڈاکٹر ظفراقبال علم کے دھنی اور قلم کے مجاہد ہیں، جو ایک دُورافتادہ مقام پر بیٹھ کر تسلسل کے ساتھ تحقیقی و تصنیفی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جھنگ کے ایک دُورافتادہ قصبے حویلی بہادر شاہ میں انھوں نے تعمیرانسانیت لائبریری کے نام سے ایک بڑا کتب خانہ فراہم کر رکھا ہے‘‘۔وہ بیرون شہر سے آنے والے تحقیق کاروں کو استفادے کی سہولت دیتے ہیں اور اُن کی مہمان نوازی بھی کرتے ہیں۔
زیرنظر کتاب میں انھوں نے فلسفۂ ختم نبوت کے سلسلے میں بعض گمراہ مصنّفین اور مفکرین (خصوصاً غلام احمد پرویز، ڈاکٹر عبدالودود، اسلم جیراج پوری وغیرہ) کی تاویلات کا تجزیہ کرکے ان کا رَد پیش کیا ہے۔ اپنے موضوع پر یہ ایک مدلل اور مفصل کتاب ہے۔ اسلوبِ بیان فلسفیانہ ہے، اس لیے عام فہم نہیں بلکہ عالمانہ ہے۔ کتاب اہتمام سے شائع کی گئی ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
نول صاحب نے یہ ایک منفرد نوعیت کی کتاب تصنیف کی ہے جو پاکستان کے شہروں، قصبوں، گوٹھوں اور گائوں اور ان کے اندر واقع قلعوں، بیراجوں، عمارتوں کی تاریخ اور تعارف پر مشتمل ہے۔ بڑے شہروں پر تو معلوماتی کتابیں مل جاتی ہیں اور قصبوں پر بھی کچھ نہ کچھ لکھا گیا ہے مگر چھوٹے چھوٹے گائوں کا تذکرہ پہلی بار سامنے آیا ہے، مثلاً کسی گائوں کا پرانا نام، آباد کیسے اور کب ہوا؟ آبادی؟ کس قریبی شہر یا قصبے سے فاصلہ؟ وہاں اسکول پرائمری یا مڈل یا ہائی؟ پینے کا پانی؟ اسلام کوٹ نام کے دو گائوں ہیں، اسی طرح اسلام گڑھ (چولستان)، اسلام گڑھ (گجرات)، ایک شہر، قصبے یا گائوںکی تاریخ کے ساتھ اس کی معروف شخصیات کا تعارف مع تصاویر، تصاویر بکثرت۔نول صاحب نے بذریعہ سائیکل، موٹرسائیکل، بس، چنگ چی اور اپنی گاڑی سے سفر کیا اور اپنے کیمرے سے تصاویر بنائیں۔ کل ۲۲۰۰ مقامات کا تذکرہ ہے۔
تقریباً اسّی برس کی عمر میں مصنف کی جانب سے ایسی گہری تحقیق کرنا اور ایک طرح کا دائرہ معارف (انسائی کلوپیڈیا) مرتب کرنا، جان جوکھوں اور کمال کا کام ہے۔ نول صاحب، مبارک باد کے مستحق ہیں۔ صدارتی تمغے اور اوارڈ کا مستحق اُن سے زیادہ کون ہوگا؟ (رفیع الدین ہاشمی)