قرآنِ عظیم کس انداز سے انسانوں کو خاندان کے ادارے میں جوڑتا اور اس ادارے کو انسانیت کے لیے کس انداز سے پروان چڑھاتا ہے؟ اس سوال کا جواب ہم یہاںقرآن کریم کے متن کی ترتیب سے یکجا پیش کریں گے۔
قرآن کے آغاز میں ہم نے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی چاہی: اے اللہ! تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ربّ جلیل نے قرآن کے تیس پارے نازل فرما دیئے۔ زندگی کے انفرادی، اجتماعی معاملات کے لیے ہدایات کھول کھول کر بار بار مختلف پیرایۂ بیان میں واضح کر دیں۔ عائلی نظام یا خاندان اور معاشرے کی اکائی کے لیے تفصیلات بھی سمجھا دیں۔
زمین پر پہلا جوڑا اُتارنے سے پہلے اُن کو علم عطا کیا، فرشتوں سے سجدہ کروایا، شیطان کے بارے میں متنبہ فرمایا اور جنّت میں کھانے پینے، رہنے سہنے کا سامان دیا۔ مگر ساتھ ہی چند اُمور سے خاص طور پر منع کرکے، باقی سب سے فائدہ اُٹھانے کا اذنِ عام دے دیا۔ شیطان نے انسان کو بہکانے کے لیے مہلت لی اور بہکاکر جنّت سے نکلوا دیا اور یوں حضرت آدمؑ، اماں حواؑ اور شیطان زمین پر آن آباد ہوئے۔ حضرت آدم ؑ نے اپنی غلطی پر معافی مانگ لی،مگر شیطان غلطی پر ڈٹا رہا۔ یوں انسان اور شیطان کے طرزِعمل کا فرق ظاہر ہوا:
پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمھارے ربّ نے فرشتوں سے کہا تھا کہ ’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘۔ انھوں نے عرض کیا: ’’کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خوں ریزیاں کرے گا؟ آپ کی حمدوثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیس تو ہم کرہی رہے ہیں‘‘۔ فرمایا: ’’میں جانتا ہوں، جو کچھ تم نہیں جانتے‘‘۔اس کے بعد اللہ نے آدم ؑ کو ساری چیزوں کے نام سکھائے۔ پھر انھیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: ’’اگر تمھارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا) تو ذرا ان چیزوں کے نام بتائو‘‘۔ انھوں نے عرض کیا: ’’نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے۔ حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا، آپ کے سوا کوئی نہیں‘‘.....
پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم ؑ کے آگے جھک جائو، تو سب جھک گئے مگر ابلیس نے انکار کیا۔ وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا۔
پھر ہم نے آدمؑ سے کہا کہ ’’تم اور تمھاری بیوی دونوں جنّت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھائو، مگر اِس درخت کا رُخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہوگے‘‘۔آخرکار شیطان نے اِن دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انھیں اس حالت سے نکلوا کر چھوڑا جس میں وہ تھے۔ ہم نے حکم دیا کہ ’’اب تم سب یہاں سے اُتر جائو، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمھیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھیرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے‘‘۔ اس وقت آدمؑ نے اپنے ربّ سے چندکلمات سیکھ کر توبہ کی،جس کو اس کے ربّ نے قبول کرلیا، کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔(البقرہ ۲:۳۰ تا ۳۷)
اللہ تعالیٰ نے بنی آدم ؑ ،یعنی انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر زمین پر بھیجا کہ وہ اِس دُنیا میں جس کا مالک وہ خود ہے، اس کے عطا کردہ اختیارات کو اس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرے۔ کائنات کا اصل حاکم اور مالک تو اللہ تعالیٰ ہے، جو غیب میں ہے۔ انسان کا خلیفہ ہونے کے ناتے کام یہ ہے کہ جو ہدایت اللہ کی طرف سے مل رہی ہے اس پر بے چون و چرا عمل کرے۔ اگر کسی معاملے میں کوئی واضح ہدایت نہیں ہے تو غوروفکر کرے، اور جو بات دین کے اصولوں سے مطابقت رکھتی ہو، وہ اختیار کرے۔ جن کاموں سے اللہ نے منع فرما دیا ہے اِن سے رُک جائے۔ یہی خلافت ہے۔
خاندان کے ادارے کے استحکام کے لیے بھی اپنی اِس ذمہ داری کو، انسان ہونے کے ناتے، ہم سب کو پورا کرنا ہے۔ سو اِس سے کماحقہٗ آگاہی حاصل کرنا، ناگزیر ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو چیزوں کے نام یعنی اِن کی حقیقت کا علم دے دیا۔ایک الہامی علم جو اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے بھیجتا ہے اور دوسرا اکتسابی علم جوا نسان خود حاصل کرتا ہے اور انسانی زندگی کے مختلف دائروں کہ جن میں ایک عائلی نظام یا خاندان اور معاشرہ ہے، ان پر عمل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار کی آزادی سے نوازا کہ کائنات کے اَن گنت وسائل اور جسمانی صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے،اللہ کی فرماں برداری کرے یا نافرمانی کرے اور پھر اس پر جزا یا سزا کا مستحق ٹھیرے، یہی اس کا امتحان ہے۔ اس امتحان کا لازمی اور اہم پرچہ خاندان میں ہمارا کردار ہے۔
یاد کرو ، اسرائیل کی اولاد سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ، رشتہ داروں کے ساتھ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا، لوگوں سے بھلی بات کہنا، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃدینا، مگر تھوڑے آدمیوں کے سوا تم سب اس عہد سے پھر گئے، اور اب تک پھرے ہوئے ہو۔(البقرہ ۲: ۸۳)
پہلا جوڑا رشتۂ زوجیت میں منسلک ہوکر ماں اور باپ بن گیا۔ اس بنیادی اکائی میں بچوں کا اضافہ ہوا، پھر یہ سلسلہ آگے چلا اور نسب اور مہر کے حوالے سے نئی رشتہ داریاں وجود میں آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق کے فوراً بعد، والدین کے حقوق کا ذکر کیا ہے۔ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا۔ نیک سلوک کیوں کریں، کون سا سلوک نیک سلوک ہے، اور کون سا سلوک درست نہیں ہے؟ اس کی تفصیل بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بتادی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ نے مزید تفصیلات اور عملی رہنمائی دی۔ اس کے ساتھ ہی رشتہ داریوں کے دائرے بنے، خاندان میں وسعت ہوئی، اللہ نے سب کے ساتھ اچھے سلوک کی ہدایت فرمائی۔
اور ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمھاری آزمایش کریں گے۔ اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘۔ انھیں خوش خبری دے دو۔ (البقرہ۲: ۱۵۵-۱۵۶)
اللہ تعالیٰ نے یہ دُنیا آزمائش گاہ بنائی ہے۔انسان اپنے بال بچوں کے ساتھ، والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ، دُنیا کے مال و اسباب کے ساتھ، خوشی خوشی زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے آزمائش کا موقع و حالات پیدا کرتا ہے۔ وہ مختلف قسم کے خوف، وبا، بیماری، بدامنی،موت، بے روزگاری، مہنگائی، کم آمدنی اور حادثاتی پریشانیوں، نقصانات سے پرکھتا ہے کہ میرے بندے کا کیا رویہ ہے؟ خود اپنی آزمائش اور خاندان کے دیگر افراد کی آزمائش پر کیا طرزِعمل ہوتا ہے؟ جو اس آزمائش کو اپنے ہاتھوں لائی ہوئی مصیبت سمجھے اور اس آزمایش کے ذریعے اللہ سے معافی چاہے، یا اللہ کی طرف سے اجر میں بڑھوتری کے لیے موقع جانے اور رویہ یہ رکھے کہ ہم اللہ کے ہیں، اس کی رضا پر راضی ہیں اور اس کی طرف ہمیں واپس جانا ہے۔ وہ انصاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ اللہ اس سے بہتر معاملہ کرے گا، اجر سے نوازے گا۔یہ وہ لوگ ہیں جو سکینتِ قلب کے ساتھ، کامل رضامندی کے ساتھ، ربّ کی بتائی ہوئی حدود میں زندگی گزارتے اور اجر کے مستحق قرار پاتے ہیں، جب کہ ناشکری اور جزع و فزع اللہ کی ناراضی کا سبب بنے گی۔
تم مشرک عورتوں سے ہرگز نکاح نہ کرنا، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن لونڈی مشرک شریف زادی سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تمھیں بہت پسندہو۔ اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا، جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن غلام، مشرک شریف سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمھیں بہت پسند ہو۔ یہ لوگ تمھیں آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے اذن سے تم کو جنّت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور وہ اپنے احکام واضح طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ سبق لیں گے اور نصیحت قبول کریں گے۔(البقرہ ۲: ۲۲۱)
عورت اور مرد کے درمیان نکاح کا تعلق محض ایک شہوانی تعلق نہیں ہے، بلکہ وہ ایک گہرا تمدنی، اخلاقی اور قلبی تعلق ہے۔ مومن اور مشرک کے درمیان، اگر یہ قلبی تعلق ہو، تو جہاں اس امر کا امکان ہے کہ مومن شوہر یا بیوی کے اثر سے مشرک شوہر یا بیوی پر اور اس کے خاندان اور آیندہ نسل پر اسلام کے عقائد اور طرزِ زندگی کا نقش ثبت ہوگا، وہیں اس امر کا بھی امکان ہے کہ مشرک شوہر یا بیوی کے خیالات اور طور طریقوں سے نہ صرف مومن شوہر یا بیوی بلکہ اس کا خاندان اور دونوں کی نسل تک متاثر ہوجائے گی اور غالب امکان اس امر کا ہے کہ ایسے اَزواج سے اسلام اور کفرو شرک کی ایک ایسی معجون مرکب اُس گھر اور اُس خاندان میں پرورش پائے گی، جس کو غیرمسلم خواہ کتنا ہی پسند کریں، مگر اسلام پسند کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔(تفہیم القرآن، اوّل، سورئہ بقرہ، حاشیہ۲۳۷)
آج ملک میں، اور بیرونِ ملک، اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ اوربہترین معاشی و سائل کے لیے سرگرداں، ہماری نوجوان نسل کو براہِ راست قرآن پاک سے استفادے کا موقع ملتا ہے، الاماشاء اللہ۔ تاہم، مل جل کر رہنا، دین کو ذاتی معاملہ بنا کر، اس کی بنیادی تعلیمات کو بھی غور کے قابل نہیں سمجھنا، اس دور کا المیہ ہے۔ جہالت اور احساسِ کمتری کے ساتھ، مغرب کے اُٹھائے گئے سوالات، بین المذاہب ہم آہنگی کے عنوان سے کی جانے والی بحثیں اور ان موضوعات کو ’مولوی کی سختی و تنگ نظری‘ کہہ کر آگے بڑھ جانا، موجودہ جدیدیت کا تقاضا بن گیا ہے۔ ہمارے اکثر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، اس جدیدیت پر عمل پیرا ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ان کی توجہ ، اصل ماخذ، قرآن حکیم کی طرف مبذول کروائی جائے اور دین کے احکامات کا علم اور اس پر عمل کرنے کا داعیہ پیدا کیا جائے۔
پوچھتے ہیں: حیض کا کیا حکم ہے؟ کہو: وہ ایک گندگی کی حالت ہے، اس میں عورتوں سے الگ رہو، اور ان کے قریب نہ جائوجب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہوجائیں۔ پھر جب وہ پاک ہوجائیں، تو اُن کے پاس جائواُس طرح جیساکہ اللہ نے تم کو حکم دیا ہے۔ اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے، جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں۔(البقرہ ۲:۲۲۲)
حیض گندگی بھی ہے اور بیماری بھی۔ طبّی حیثیت سے وہ ایک ایسی حالت ہے جس میں عورت تندرستی کی بہ نسبت بیماری سے قریب تر ہوتی ہے۔(ایضاً، اوّل، سورئہ بقرہ، حاشیہ ۲۳۸)
مختلف ہارمونز جو کہ ایک عورت کے جسم میں گردش کرتے ہیں، ان کے اُتارچڑھائو سے یہ تبدیلی آتی ہے اور ظاہر ہوتی ہے۔ یہ نہ صرف جسمانی بلکہ نفسیاتی بھی ہوتی ہے، بالعموم عورت چڑچڑی اور مایوسی کی طرف مائل ہوتی ہے۔ تھکاوٹ اور اکثر اوقات درد کی شدت کا شکار بھی ہوتی ہے۔
قرآن، ان کے قریب نہ جائو، الگ رہو، استعاروں اور کنایوں میں بیان کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرما دی کہ صرف مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیے مگر باقی تمام تعلقات برقرار رکھے جائیں۔ عورت کواچھوت نہ بنا دیا جائے جیساکہ یہود و ہنود اور بعض دوسری قوموں کا دستور ہے۔(ایضاً، سورئہ بقرہ، حاشیہ ۲۳۹)
قرآن کے اِن واضح اور صاف صاف بیان کیے گئے احکامِ دین میں تنگی نہیں ہے:
تمھاری عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں۔ تمھیں اختیار ہے، جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں جائو، مگر اپنے مستقبل کی فکر کرو اور اللہ کی ناراضی سے بچو۔ خوب جان لو کہ تمھیں ایک دن اس سے ملنا ہے۔ اور اے نبیؐ! جو تمھاری ہدایات کو مان لیں انھیں (فلاح و سعادت کی) خوش خبری دے دو۔(البقرہ ۲:۲۲۳)
فطرۃ اللہ نے عورتوں کو مردوں کے لیے سیرگاہ نہیں بنایا ہے، بلکہ دونوں کے درمیان کھیت اور کسان کا سا تعلق ہے۔ کھیت میں کسان تفریح کے لیے نہیں جاتا، بلکہ اس لیے جاتا ہے کہ اس سے پیداوار حاصل کرے… خدا کی شریعت کا مطالبہ تم سے یہ ہے کہ جائو کھیت ہی میں،اور اس غرض کے لیے جائو کہ اس سے پیداوار حاصل کرنی ہے۔
’اپنے مستقبل کی فکر کرو‘کے دو مطلب نکلتے ہیں: ’’ایک یہ کہ اپنی نسل برقرار رکھنے کی کوشش کرو، اور دوسرے یہ کہ جس آنے والی نسل کو تم اپنی جگہ چھوڑنے والے ہو، اس کو دین، اخلاق اور آدمیت کے جوہروں سے آراستہ کرنے کی کوشش کرو۔ پھر یہ تنبیہہ بھی فرما دی کہ اگر ان دونوں فرائض کے ادا کرنے میں تم نے قصداً کوتاہی کی، تو اللہ تم سے بازپُرس کرے گا‘‘(ایضاً، سورئہ بقرہ، حاشیہ ۲۴۱-۲۴۲)۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے شوہر اور بیوی کے فطری تعلق کو ، دُنیاداری نہیں دین داری بنایا، اس کے لیے مقصد اور حدود مقرر کردیں اور اِن سے لاپروائی برتنے کو اللہ کی ناراضی کا سبب بنادیا۔ اس رشتے اور تعلق کو نبھانے کی بنیاد تقویٰ پر رکھ دی۔
جو لوگ اپنی عورتوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھابیٹھتے ہیں، ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے۔ اگر انھوں نے رجوع کرلیا، تو اللہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ اور اگر انھوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی ہو، تو جانے رہیں کہ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔(البقرہ ۲: ۲۲۶-۲۲۷)
میاں بیوی کے درمیان قطع تعلقی کو شریعت کی اصطلاح میں ’ایلا ‘کہتے ہیں۔ میاں اور بیوی کے درمیان تعلقات میں اُتارچڑھائو آتا رہتا ہے۔ بگاڑ کے اسباب پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں۔ لیکن ایسے فطری اُتارچڑھائو کے نتیجے میں بڑے بگاڑ کو خدا کی شریعت پسند نہیں کرتی کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ قانونی طور پر تو رشتۂ ازدواج میں بندھے رہیں، مگر عملاً ایک دوسرے سے الگ رہیں۔ ایسے بگاڑ کے لیے اللہ تعالیٰ نے چارماہ کی مدت مقرر کر دی کہ یا تو اس دوران میں اپنے تعلقات درست کرلو، ورنہ اَزدواج کا رشتہ منقطع کردو۔(ایضاً، سورئہ بقرہ، حاشیہ ۲۴۵)
یہ حقیقت ہے کہ بیش تر میاں بیوی میں اَن بن ہوجاتی ہے، رنجشیں پیدا ہوتی ہیں مگر چند ہی روز میں صلح صفائی ہوجاتی ہے اور زندگی خوش گوار اسلوب میں گزرتی رہتی ہے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے بعد جھگڑا بڑھ جاتا ہے اور شوہر کچھ اس مفہوم کے کلمات کہہ دیتا ہے، یا بیوی ہی ایسی ناراض ہوجاتی ہے کہ وہ میکے آکر بیٹھ جاتی ہے۔ میکے آنا اور رہنا والدین کے علم اور رضا کے ساتھ ہی ہوتا ہے مگرعموماً واپس جانے ، صلح کرنے یا حتمی فیصلہ کرنے کے لیے کسی مدت کا لحاظ نہیں کیا جاتا۔ مہینے تو کیا سال بھی گزر جاتے ہیں۔ تعلقات اس مدت میں سدھرتے کم اور بگڑتے زیادہ ہیں۔ عموماً ایک دوسرے کو بدنام، بلیک میل کرنے، تنگ کرنے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ اسلام کا اصول ہے کہ جلدبازی میں فیصلے نہ کرو۔ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو۔ تعلق نبھانا ہے تو بھی اور ختم کرنا ہے تو بھی، دونوں صورتوں کے تمام پہلوئوں پر غور کرنے کے بعد، اس چارماہ کی مدت میں حتمی فیصلہ نہ کرنا سب خرابیوں، افراد اور خاندانوں کے تعلقات میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میںچار ماہ میں فیصلہ کرکے ، معاملہ نبٹا دینا ہی شریعت کے منشا کے قریب تر ہے۔(جاری)