ماہ مئی میں افغانستان کے حوالے سےدو اہم اقدامات ہوئے، جن کے ہمارے پڑوسی ملک کے مستقبل پر اثرات مرتب ہوں گے ۔یکم اور ۲ مئی ۲۰۲۳ ء کو دوحہ، قطر میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام افغانستان کے بارے میں ایک عالمی کا نفرنس منعقد ہوئی، اور ۵مئی تا ۸ مئی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں امارت اسلامی افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کا باقاعدہ دورہ ہوا۔ اسی دوران سہ فریقی مذاکرات بھی منعقد ہوئےجس میں چین، پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔ سہ فریقی مذاکرات کا یہ سلسلہ ۲۰۱۷ء سے جاری ہے۔
۱۵؍ اگست ۲۰۲۱ء کو امارت اسلامی افغانستان کا دوبارہ احیاء اس وقت ہوا جب تحریک طالبان افغانستان کے رضا کار کابل میں داخل ہو ئے اورڈاکٹر اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت کا خاتمہ عمل میں آیا۔ ۲۹ فروری۲۰۲۰ ء کو ایک طویل مذاکراتی عمل کے بعد امریکا اور تحریک طالبان کے نمایندوں کے درمیان دوحہ میں ہی ایک تاریخی معاہدۂ امن طے پایا تھا، جس کو اُس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر خارجہ مائیکل پومپیو نے بڑی سفارتی کامیابی سے تعبیر کیا تھا۔ لیکن کسی کو یہ اندازہ نہ تھا کہ اس معاہدے کے بعد ایک سال کے عرصے میں افغانستان میں قائم کردہ حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا، تمام غیر ملکی فوجیں ملک سے نکل جائیں گی اور طالبان پھر سے برسرِاقتدار آجائیں گے۔
گذشتہ ۲۰ ماہ کے عرصے میں طالبان نے افغانستان میں ایک مضبوط حکومت قائم کرلی ہے۔ اپنی فوج،پولیس اور تمام صوبوں اور اضلاع میں حکومتی ڈھانچا قائم ہو چکا ہے۔ ملک میں امن و امان ہے، شاہراہیں کھلی ہو ئی ہیں۔دن اور رات کے کسی بھی وقت، آپ کسی بھی سڑک پر بلا خوف و خطر سفر کرسکتے ہیں ۔باہر سڑک پر آپ کو کوئی بھی اسلحہ بردار نظر نہیں آئے گا۔داخلی امن و امان کے ساتھ اقتصادی بحالی پر بھی پوری توجہ دی گئی ہے ۔پاکستان،ایران،ازبکستان وغیرہ سے آنے والے ٹرک کسی بھی شہر کی طرف بلا روک ٹوک سفر کر سکتے ہیں۔ تمام پھاٹکوں، سڑکوں کی بندشوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ سرحدی راہداریوں پر محصول چونگی کی ادائیگی کے بعد اسی پرچی پر آپ ہر جگہ پہنچ سکتے ہیں، اور پھر پورے راستے میں کوئی آپ سے زور زبردستی راہداری کے نام پر پیسے یا رشوت وصول نہیں کرسکتا۔حکومتی ادارے اپنی فیس ،ٹیکس وغیرہ کم شرح پر لازماًوصول کرتے ہیں، مثلاً بجلی کا بل، پارکنگ فیس وغیرہ۔ اس کے علاوہ کوئی اضافی ادائیگی نہیں کی جاتی۔اس کی وجہ سے جہاں لوگوں کا حکومت پر اعتماد پیدا ہوا ہے، وہاں حکومتی وسائل اور آمدن میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔ ہرمعاملے میں حکومت بچت اور وسائل کے درست استعمال پر کاربند ہے۔عالمی مالیاتی ادارے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ’’افغانستان نے خود انحصاری کی ایک بہترین مثال قائم کی ہے‘‘۔
افغان حکومت نے اپنے تمام ائرپورٹوں کو مقامی اوربین الاقوامی پروازوں کے لیے فعال رکھا ہے۔ بنکاری کا نظام پوری طرح کام کر رہا ہے اور افغان کرنسی مستحکم ہے۔ ملک سے باہر زرمبادلہ کی ترسیل پر پابندی ہے۔ ہر ہفتہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک مخصوص رقم امریکی ڈالروں کی صورت میں افغانستان کو دی جاتی ہے، جسے افغان کرنسی میں تبدیل کرکے شعبۂ تعلیم و صحت و دیگر مفاد عامہ کے اداروں کی تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں۔ تمام سرکاری ملازمین کو اب ماہانہ تنخواہ باقاعدگی سے مل رہی ہے۔ قیمتوں کو کنٹرول کیا گیا ہے۔ ملک میں اشیائے ضرورت کی فراہمی کو یقینی بنایاگیا ہے ۔میونسپل سروسز عوام کو میسر ہیں۔ اور چھ بڑے ترقیاتی منصوبوں پر بھی کام جاری ہے۔
افغانستان کے اندر دہشت گردی پر کافی حد تک قابو پایاجاچکا ہے۔داعش کے سہولت کاروں کا تعاقب جاری ہے۔سابقہ شمالی اتحاد کے مسلح گروہوں کو بھی کارروائی کا موقع نہیں مل رہا ۔ لیکن اس سب کے باوجود امارت اسلامی افغانستان کو کئی داخلی اور عالمی چیلنجوں کا سامنا ہے، جس کا حل ضروری ہے۔
داخلی طور پر سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں اب تک عبوری حکومت کام کر رہی ہے، جسے مستقل بنیادوں پر قائم نہیں کیا جاسکا ہے۔ ملک میں کوئی باقاعدہ دستور،آئین و قانون نافذ نہیں ہے۔ مقننہ کا کوئی وجود نہیں ۔تحریک طالبان کی رہبری شوریٰ امیر ہبت اللہ کی قیادت میں معاملات دیکھ رہی ہےاور پالیسی سازی بھی کرتی ہے،لیکن اس کو سرکاری اور رسمی حیثیت نہیں دی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے خواتین کے کام پر پابندی اور طالبات پرپابندی کو سخت گیر فیصلے قرار دیا جا رہا ہے، جس کو ملکی اور عالمی دونوں سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، لیکن تادمِ تحریر امارت اسلامی ان فیصلوں پر کار بند ہے۔ عالمی سطح پر بھی امارت اسلامی افغانستان کو مزاحمت کا سامنا ہے، اور ابھی تک کسی بھی ملک بشمول پاکستان نے اس کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس پر کئی نوعیت کی پابندیاں اور سفارتی دباؤ ہے۔
اقوام متحدہ نے کئی مواقع پر افغانستان کے لیے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کرنے اور انسانی ہمدردی میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھنے کے باوجود افغانستان کو اقوام متحدہ جیسے بڑے فورم میں اب تک حق نمایندگی سے محروم رکھا ہے۔یکم مئی ۲۰۲۳ء کو دوحہ میں افغانستان کے بارے میں کانفرنس میں بھی امارت اسلامی کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی، جو ایک امتیازی نوعیت کا اقدام ہے۔ اقوام متحدہ کا یہ فیصلہ بظاہر طالبات کی تعلیم اور خواتین کے کام پر پابندیوں کے تناظر میں ہے، لیکن ان پابندیوں سے پہلے بھی اقوام متحدہ نے افغانستان کو نمایندگی سے محروم رکھا تھا۔
دوحہ کانفرنس میں اگرچہ امریکا، روس، چین ،جرمنی اور پاکستان کےنمایندے موجود تھے۔ لیکن افغانستان کی نمایندگی نہ ہونے کی وجہ سے یہ کانفرنس ایک بے معنی مشق تک محدود رہی، جب کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس اس کانفرنس کے روح رواں تھے۔
کانفرنس سے واپسی پر چینی وزیر خارجہ کن گینگ اسلام آباد پہنچے اور انھوں نے پاکستان اور افغانستان کےوزرائے خارجہ سے سے مل کر سہ فریقی مذاکرات میں حصہ لیا۔افغان وزیرخارجہ کا یہ پانچ روزہ دورہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس کو اقوام متحدہ کی تائید بھی حاصل تھی اور انھوں نے اس کی رسمی طور پر منظوری دی تھی۔ یہ ایک اہم سفارتی پیش رفت تھی، جس کی تیاری پہلے سے کی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو پاکستانی سفیر نے درخواست دی تھی۔
افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے جب سے یہ منصب سنبھالا ہے، ان کی سفارتی سطح کی کارکردگی بے مثال رہی ہے۔ ان کے تمام بیانات ،انٹرویو اور تقاریرکسی بھی کہنہ مشق سیاستدان اور اُمور خارجہ پر دسترس رکھنے والے سفارت کار سے کم نہیں ۔ان کے بیانات میں جھول اور ابہام شامل نہیں ہوتا۔وہ صاف اور کھلی بات کرتے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں بھی ان کے بیانات مثبت اور واضح رہے ہیں اور انھوں نے ہمیشہ اچھے تعلقات کی نوید سنائی ہے۔ اس سے پہلے افغان زعما،پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد واپسی پر کابل میں قدم رکھتے ہی پاکستان کے خلاف بیان داغنا ضروری سمجھتے تھے، جس پر پاکستانی قوم کو افسوس اور صدمہ پہنچتا تھا۔
اس پانچ روزہ دورے میں جہاں کئی اہم سفارتی ،تجارتی اور باہمی دلچسپی کے اُمور پر مفید تبادلۂ خیال ہوا، وہاں مجموعی طور پر باہمی خیرسگالی کے جذبات پائے گئے۔پاکستانی وزیر خارجہ بلاول زرداری کا رویہ بھی مثبت رہا۔یاد رہے کہ اب تک پاکستان پیپلز پارٹی کا مجموعی طور پر اور بلاول زرداری کا خاص طور پر افغانستان کے بارے میں موقف مثبت نہیں تھا۔تحریک طالبان کے خلاف ان کے پے دَر پے بیانات ریکارڈ پر ہیں اور پاکستانی وزیر خارجہ کے ایسے بیانات امریکی پالیسی کے زیراثر نظر آتے تھے۔ موجودہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف بھی افغان امور سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔اس لحاظ سے لگتا ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اپنے وزیر کو اچھی بریفنگ دی تھی اور چینی وزیر خارجہ کی موجودگی نے بھی اس رویے کی تبدیلی میں کردار ادا کیا، جو اس وقت امارت اسلامی افغانستان کے ساتھ مثبت اور تعمیری تعلقات کی بحالی اور تعمیر نو کے کام میں پورا کردار ادا کرنا چاہتا ہے اور دونوں حکومتوں کے درمیان کئی بڑے ترقیاتی منصوبوں پر بات چیت جاری ہے۔ علاوہ ازیں چین کو مشرقی ترکستان کے صوبوں میں جاری مسلم مزاحمتی تحریک (ETIM) سے بھی خطرات لاحق ہیں جس کے ازالے کے لیے وہ کوشاں ہے۔
گذشتہ سال بھی اس طرح کی ایک کانفرنس اسلام آباد میں منعقد ہو ئی تھی، جس میں تینوں ممالک کے باہمی تجارتی امور،امن و سلامتی، دہشت گردی کے اسباب اور منشیات کا قلع قمع جیسے اُمور پر تبادلۂ خیال کیا گیا تھا۔امیر خان متقی کے ہمراہ وزیر تجارت نورالدین عزیزی بھی شریک تھے، جن کاتعلق پنج شیر سے ہے۔ مُلّا امیر خان متقی نے اپنے دورے میں دیگر اہم شخصیات سے بھی ملاقاتیں کیں، جس میں پاکستانی سپہ سالار جنرل عاصم منیر سے بھی ملاقات شامل ہے۔ پاکستان میں ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور تخریبی کارروائیوں کو افغانستان میں قائم مراکز سے جوڑا جاتا ہے۔ ان افسوس ناک واقعات اور حملوں میں مسلسل سیکورٹی فورسز،افواج پاکستان،پولیس کے جوانوں اور عوام کا جا نی و مالی نقصان ہو رہا ہے، جس پر پوری قوم میں سخت تشویش پائی جاتی ہےاور امارت اسلامی افغانستان سے اس کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ اس بارے میں افغان وزیر خارجہ نے پاکستانی چیف آف آرمی اسٹاف سے جو مذاکرات کیے، اس کی تفصیلات تو معلوم نہیں ہوسکیں،البتہ ان کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ امارت اسلامی نے پہلے بھی ٹی ٹی پی کی قیادت کو مذاکرات کے لیے آمادہ کیا تھا اور آیندہ بھی اس مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔
افغان وزیر خارجہ نے پاکستانی قومی و صوبائی سیاست دانوں کو ظہرانے پر مدعو کیا، جن میں امیرجماعت ا سلامی پاکستان سراج الحق ،جمعیت العلماء اسلام اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پختون ملّی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان شامل تھے۔ اس ملاقات میں پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان رابطوں کی اہمیت پر زور دیا گیا اور خطے میں امن و سلامتی کے قیام کی ضرورت پر بات ہوئی۔ افغان وزیر خارجہ نے اسلام آباد کے تھنک ٹینک ،انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز کی ایک بڑی مجلس سے بھی خطاب کیا، جس میں سفارت کار اور اہم شخصیات شریک تھیں۔
بدقسمتی سے ان دو اہم اجتماعات میں جو مسئلہ زیر غور نہ آسکا وہ عالمی سطح پر امارت اسلامی افغانستان کو تسلیم کرنا اور ان کو اقوام عالم کی صف میں اپنا مقام دینا ہے، جس سے مسلسل محرومی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے اور ملت افغان کے ساتھ زیادتی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جب دوحہ کانفرنس کے حوالے سے شروع میں میڈیا میں یہ بات آئی کہ شاید اس موقعے پر افغان حکومت کو تسلیم کرنے کی جانب کوئی مثبت پیش رفت ہو، تو سوشل میڈیا پر اس تجویز کی فوراً مخالفت شروع ہو گئی اور خواتین کے حوالے سے امارت اسلامی کی پالیسی کو بنیاد بناکر مطالبہ کیا جانے لگا کہ ’’موجودہ افغان حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے‘‘، حالانکہ افغان امور سےوابستہ اکثر لوگ اس کی اہمیت اور ضرورت کے قائل ہیں۔
ــــــــــــــــــــــ اسی طرح ۱۷مئی کو افغانستان میں اُس وقت ایک اہم تبدیلی رُونما ہو ئی، جب سن رسیدہ افغان وزیر اعظم مولانا محمدحسن اخوند کو خرابیٔ صحت کی وجہ سے فارغ کر کے نسبتاً جواں سال نائب وزیر اعظم مولوی عبدالکبیر کو وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا۔یہ تقرر تحریک طالبان کے امیر مُلّا ہبت اللہ کے حکم سے ہوا۔مولوی عبدالکبیر صاحب، طالبان کے پہلے دور میں بھی وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔