پاکستان میںوقتاً فوقتاً بہت سی عجیب چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں اور حیرت کے سمندروں میں ڈبو دیتی ہیں۔عقل، منطق، اخلاق اور شعور ماتم کرتے رہ جاتے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ گذشتہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فیصلے کی صورت میں دیکھنے میں آیا۔
’پیمرا‘ نے اے آروائی چینل کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی۔ مسئلہ یہ تھا کہ ۲۰۲۰ء میں مذکورہ چینل پر ایک ڈراما ’جلن‘ کے عنوان سے چل رہا تھا، جس میں ایک بہنوئی اپنی بیوی کی چھوٹی بہن سے عشق میں مبتلا دکھایا گیا تھا۔ پھر کہانی اور ڈرامے کے لوازمات پورا کرنے کے لیے اخلاق باختگی و بے حیائی کا پورا طرزِ بیان اپنے مناظر کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ ’پیمرا‘ کے چیئرمین نے عوامی حلقوں کے رَدعمل کے جواب میں اس ڈرامے پر پابندی لگادی۔ چینل نے سندھ ہائی کورٹ میںاستدعا کی کہ پابندی ہٹائی جائے۔ سندھ ہائی کورٹ نے فنی بنیادوں پر یہ کہہ کر پابندی ہٹادی کہ ’’پابندی عائد کرنے کے لیے سیکشن ۲۶ کے ضابطے پر عمل نہیں کیا گیا‘‘، جس پر ’پیمرا‘ نے چینل کے خلاف، سپریم کورٹ میں اپیل کردی، جہاں سے ڈھائی سال بعد ۱۲؍اپریل ۲۰۲۳ء کو دورکنی بنچ، مشتمل بر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک نے متفقہ طور پر ’پیمرا‘ کا موقف مسترد کردیا اور اے آر وائی چینل کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
اس فیصلے میں تین نکات پر زور دیا گیا ہے:l’پیمرا‘ عوامی نمایندوں پر مشتمل ایک وفاقی اور صوبائی شکایات کے لیے کونسلیں بنائے۔ lشکایات کی کونسلیں کسی پروگرام پر پابندی کے لیے معیار مقرر کریں lفحاشی اور بیہودگی کی کیا تعریف ہے؟
بلاشبہہ کسی بھی ڈرامے پر پابندی کی مختلف وجوہ میں بنیادی پہلو اخلاقیات کی مناسبت سے سامنے آتا ہے ، جب کہ ایک مسلم معاشرے میں اخلاقیات کا قانون اور ضابطہ: قرآن، سنت، فقہ اور تاریخی نظائر کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ سے ایسی کوئی رہنمائی نہیں دی گئی کہ ان کی نسلوں میں دینی اُمور کے ماہرین کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ عمومی حکم کی بنیاد پر یہی امکان ہے کہ معروف این جی اوز کے زیراثر اور دین بے زار لوگ ہی ایسی کونسلوں کے کرتا دھرتا بن کر فیصلے کریں گے، جیساکہ عام طور پر ہوتا آرہا ہے۔
اس فیصلے پر کلام کرتے ہوئے شریعت اور قانون کے پروفیسر محمد مشتاق صاحب کہتے ہیں: ’’اے آر وائی کا بنیادی اعتراض تو یہ تھا کہ ’پیمرا‘ نے پابندی لگانے کےلیے اس قانونی طریقِ کار پر عمل نہیں کیا، جو ’پیمرا‘ کے قانون میں طے کیا گیا ہے اور سپریم کورٹ نے اس اعتراض کو قبول کیا ہے کہ قانون میں وضع کردہ طریقِ کار کی پابندی ضروری ہے۔ تاہم، سپریم کورٹ کے فاضل ججوں نے اس سے آگے بڑھ کر ایسی بحث شروع کی ہے ،جس کی ضرورت نہیں تھی اور پھر اس بحث میں کئی بنیادی اور اہم اُمور کو نظر انداز کردیا ہے، جن پر بات کیے بغیر وہ بحث مکمل ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ مثلاً ان کا کہنا ہے کہ ’برداشت‘ ( Tolerance)سب سے اہم 'آئینی قدر ہے اور اس معیار پر فیصلے کرنے چاہئیں۔ لیکن فاضل ججوں نے یہ نہیں بتایا کہ ’برداشت‘ سے مراد کیا ہے اور برداشت کی وسعت اسلامی اصولوں سے طے کی جائے گی یا مغربی/سیکولر/لبرل مفروضات سے؟ یہ سب سے اہم سوال ہے اور، بدقسمتی سے، اس پر بہت ہی عمومی، ادھوری اور سطحی نوعیت کی گفتگو کی گئی ہے‘‘۔
یاد رہے، آج کی دُنیا میں ’Tolerance ‘(برداشت) کوئی مجرد لغوی لفظ نہیں ہے بلکہ لبرل ازم کی ایک سوچی سمجھی اور پورے پس منظر کو لیے سیاسی و تہذیبی اصطلاح ہے، جس کا مخصوص ہدف، مفہوم اور متعین ایجنڈا ہے۔
فیصلے کے پیراگراف ۲۴ میں فاضل ججوں نے تحریر فرمایا ہے: ’برداشت‘ ایک کثیرالجہتی تصور ہے، اور عام طور پر اس سے مراد افراد یا گروہوں کے درمیان رائے، عقائد، رسم و رواج اور طرزِعمل میں اختلاف کو قبول کرنا، اور ان کا احترام کرنے کی صلاحیت رکھنا اور ان سے راضی ہونا شامل ہے۔ اس میں نسل، مذہب، ثقافت، جنس(gender)، جنسی رجحان (sexual orientation)، سیاسی نظریہ اور انسانی تنوع (diversity)کے دیگر پہلوئوں میں فرق اور اختلاف شامل ہوسکتا ہے‘‘___ صاف نظر آتا ہے کہ فیصلے میں اس اصطلاح کو ’جنس اور جنسی رجحان‘ سے منسوب کرکے، اباحیت پسندی کے پورے فلسفے کو زیرغور لائے بغیر فیصلے میں لکھ دیا گیا ہے، اور جس کے مضمرات کا اندازہ نہیں لگایا گیا۔
پروفیسر محمد مشتاق صاحب کے مطابق: ’’دلچسپ بات یہ ہے کہ فاضل ججز نے یہ تو تسلیم کیا ہے کہ ’اظہارِ رائے کی آزادی‘ کے حق پر کئی حدود و قیود قانون کے تحت لگائی جاسکتی ہیں اور یہ کہ ان حدود میں وہ بھی ہیں جو 'اسلام کی عظمت کے مفاد میں لگائی جاسکتی ہیں( یہ ترکیب آئین کی اسی دفعہ میں مذکور ہے جس میں اظہار رائے کی آزادی کے حق کی ضمانت دی گئی ہے)۔ پھر کیا یہ حیران کن بات نہیں ہے کہ ۲۰صفحات پر مشتمل اس پورے فیصلے میں ایک بھی قرآنی آیت، حدیثِ نبویؐ یا اسلامی اصول کا ذکر تک نہیں کیا گیا!
اسی طرح فاضل ججز نے ’جنسی رجحان‘ کا بھی ذکر کیا ہے، حالانکہ ’جنسی رجحان‘ پر مقدمے کے فریقوں کی جانب سے بحث ہی نہیں کی گئی! کیا فاضل ججز نے یہ ترکیب استعمال کرنے سے قبل جنس اور صنف کے متعلق آئینی دفعات پر غور کرنا ضروری نہیں سمجھا، جہاں بظاہر جنس اور صنف میں کوئی فرق نہیں ہے اور جہاں ’جنس‘ ہو یا ’صنف‘، اس کی بس دو ہی قسمیں ذکر کی گئی ہیں؟ جو لوگ ’جنس ‘اور’ صنف‘ میں فرق کرتے ہیں یا دو سے زائد جنسوں یا صنفوں کے قائل ہیں، ان کے خلاف تشدد کا عدم جواز ایک الگ امر ہے، لیکن ان اُمور کو بحث میں لائے بغیر فاضل جج یہ ترکیب کیسے استعمال کرسکتے تھے؟ یقینا اپنے نظریاتی پس منظر کی وجہ سے فاضل ججز نے ایسا ضروری سمجھا ہوگا، لیکن آئین و قانون کی رُو سے ان کےلیے مناسب طریقہ یہی تھا کہ ایسے اُمور پر کوئی بات کہنے سے قبل پوری بحث تو ہونے دیتے اور پھر اس بحث کا تنقیدی تجزیہ کرکے اپنی رائے دیتے۔ ایسا کیے بغیر اپنی مرضی فیصلے میں شامل کرنا درست نہیں ہے۔
’’فیصلے کا یہ حصہ غیر ضروری اور غیر متعلق سہی، لیکن اب اسی حصے کو معاشرے کے بعض افراد سپریم کورٹ کے فیصلے کے طور پر پیش کرکے اپنے مقاصد کےلیے استعمال کریں گے اور کون اس بحث میں پڑے گا کہ آئینی و قانونی لحاظ سے اس حصے کی کوئی حیثیت نہیں ہے‘‘۔
چونکہ اس فیصلے میں کئی ایسے امور ہیں جو واضح طور پر درست نہیں ہیں، اس لیے اس کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی جانی چاہیے، جس میں درج ذیل اُمور پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے:
نظر ثانی کی درخواست مقدمے کا فریق ہی دائر کرسکتا ہے، لیکن اگر ’پیمرا‘ کو اس سے دلچسپی نہ ہو، تو پھر اس موضوع پر آئین کی دفعہ ۱۸۳ (۳) کے تحت باقاعدہ درخواست دائر کی جانی چاہیے۔ یہ ہے وہ بنیادی سوال جس پر اسلامی تشخص کے حوالے سے فکر مند تمام لوگوں کو غور و فکر اور بحث کی ضرورت ہے۔