اسلام ایک کامل اور اکمل دین ہے، جواپنے ماننے والوں کوصرف مخصوص عقائد ونظریات کو اپنانے ہی کی دعوت نہیں دیتا بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر یہ دین مسلمانوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام کی یہ روشن اور واضح تعلیمات، اللہ تعالیٰ کی عظیم کتاب قرآن مجید او رنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی شکل میں مسلمانوں کے پاس محفوظ ہیں۔ انھی دو سرچشموں سے قیامت تک مسلمان سیراب ہوتے رہیں گے اور اپنے علم کی پیاس بجھاتے رہیں گے۔ اسلام جہاں ہمیں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر عبادات کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرتا ہے وہیں سیاست، معاشرت، معاشیات، اخلاقیات اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی بھرپور تعلیمات عطا کرتا ہے۔
اسلام نے انسانی زندگی کو حُسنِ اعتدال فراہم کرنے کے لیے ایسے ایسے قو انین اور ضابطے متعارف کرائے ہیں، جن میں چھوٹی سے چھوٹی چیز سے لے کر بڑے سے بڑے معاملے کی وضاحت فرمادی ہے۔ ہر معاملے میں چاہے کوئی کمزور ہو یا طاقت ور، چھوٹا ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت اسے عدل و انصاف مہیا کیا ہے اور ہر حق دار کو اس کا حق دیا ہے۔ عدل وانصاف کے متلاشیوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے جان نثار صحابہؓ کے لاکھوں اقوالِ زریں مختلف کتب میں پھیلے ہوئے ہیں۔ چنانچہ اسی طرح وراثت کی تقسیم کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عدل وانصاف مہیا کیا اور ہر وارث کو اس کا حق عطا فر مایا، خواہ وہ مرد ہے یا عورت، بچہ ہے یا بوڑھا، طاقت ور ہے یا کمزور، حتیٰ کہ ماں کے پیٹ میں موجود حمل کی وراثت تک کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ جب کوئی شخص اپنی حاملہ بیوی یا حاملہ بہو کو زندہ چھوڑ کر فوت ہو گیا ہو، اسلام نے اس حمل تک کو بھی میت کا وارث مقرر فرمایا ہے۔
اسلامی فقہ میں ’فنِ میراث‘ کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں احکام بیان کرنے کے اپنے عمومی اسلوب سے ہٹ کر میراث کے مسائل کو زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی میراث کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر متعدد مواقع پر اس کے سیکھنے سکھانے کی ترغیب دی، بلکہ جہاں قرآن سیکھنے کا حکم دیا، وہیں میراث کے احکام سیکھنے پر زور دیا ہے۔ سلف صالحین کے ہاں یہ معمول رہا ہےکہ کسی طالب علم کو اس وقت تک حدیث کے درس میں نہیں بیٹھنے دیا جاتا تھا، جب تک وہ قرآن کریم حفظ اور میراث کے مسائل کو اَزبر نہ کر لیتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم میراث اور ترکہ ایسی چیز ہے، جس سے ہر مسلمان کو واسطہ پڑتا ہے اور پھر اس کا تعلق لوگوں کے مالی حقوق کے ساتھ بھی ہے ۔
نظامِ معاشرت اور خاص کر نظامِ معیشت میں اکثر خاندانی جھگڑے اور لڑائیاں زر اور زمین کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور یہی دو چیزیں وراثت کا موضوع ہیں۔ مسلمان معاشروں میں بھی فتنہ و فساد کی ایک بڑی وجہ وراثت کے معاملات میں مقررہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی اور ان حدود کا پاس نہ رکھنا ہے، جو اسلامی شریعت نے متعین کر دیے ہیں۔ اس کے اسباب و وجوہ میں جہاں اور بہت سی باتیں قابلِ توجہ ہیں وہاں لالچ کے علاوہ متعلقہ قانون سے ناواقفیت بھی ہے۔
جیساکہ ذکر ہوا ہے کہ احادیث مبارکہ میں اس علم کو سیکھنے کی بڑی تاکید آئی ہے اور اسے نصف علم سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ ارشاد نبویؐ ہے: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَعَلِّمُوهَا؛ فَإِنَّهُ نِصْفُ الْعِلْمِ وَهُوَ يُنْسَى، وَهُوَ أَوَّلُ شَيْءٍ يُنْزَعُ مِنْ أُمَّتِي،’’اے ابو ہریرہ فرائض (یعنی میراث کے مسائل) سیکھو اور سکھاؤ! یقینا یہ نصف علم ہے ، اور وہ (یعنی میراث کا علم) سب سے پہلے بھلایا جائے گا، اور سب سے پہلے میری اُمت سے جو چیز اٹھالی جائے گی وہ علم میراث ہے‘‘۔ (ابوعبداللہ محمد بن یزید ابن ماجہ ،سنن ابن ماجہ ، باب الحث علی تعلیم الفرائض،حدیث: ۲۷۱۹)
دوسری روایت میں ہے: تَعَلَّمُوْا الْقُرْآنَ الفَرَائِضَ وَعَلِّمُوا النَّاسَ فَإِنِّي مَقْبُوْضٌ ’’ميراث اور قرآنِ مجید کا علم حاصل کرو اور لوگوں کو اس کی تعلیم دو کیونکہ میں وصال پانے والا ہوں‘‘ ۔(ابو عیسیٰ محمد ترمذی ، سنن ترمذی ، باب ما جاء فی تعلیم الفرائض،حدیث: ۲۲۳۴)
علمِ میراث کی اہمیت وافادیت بیان کرتے ہوئے، حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ، وَاللَّحْنَ وَالسُّنَنَ، كَمَا تَعَلَّمُونَ الْقُرْآنَ ’’وراثت ، لغت اور اور سُنن (یعنی مسائل شرعیہ ) کا علم اسی طرح حاصل کرو جس طرح تم قرآن مجید سیکھتے ہو‘‘۔ ( عبد اللہ بن عبد الرحمٰن دارمی، سنن الدارمی، باب فی تعلیم الفرائض، حدیث: ۲۸۵۰)
دین کے وہ احکام جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں، ان میں سے بعض کا تعلق عبادات سے، کچھ کا اخلاق و عادات سے، اور کچھ وہ ہیں جن کا تعلق مرنے کے بعد سے ہے۔ علم الفرائض بھی اسی قبیل سے ہے اور ہر انسان سے اس کا تعلق ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس باب کی سنگینی اور نزاکت کا لحاظ کرتے ہوئے اس کی جزئیات تک کو بھی واضح انداز میں بیان کیا ہے ۔
نیز زمانۂ جاہلیت میں بھی یہی رواج عام تھا کہ عورتوں اور نا بالغ بچوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا اور ترکہ پورے کا پورا بڑے بیٹوں کے حوالے کیا جاتاتھا۔ عربوں کا اصول تھا کہ مالِ وراثت کے اہل صرف وہ ہیں جو میدان جنگ میں تلوار چلانے اور دشمن کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوں ۔ جن میں لڑنے اور قبیلے کے دفاع کی صلاحیت نہیں وہ میراث کے بھی حق دار نہیں ہیں۔ چونکہ عورتیں اور بچے اس اصول پر پورا نہیں اترتے تھے، اس لیے وراثت سے یکسر محروم رہتے تھے۔ (حافظ ذو الفقار علی،تقسیم وراثت کے شرعی احکام ، مکتبہ بیت الا سلام ، لاہور ،۲۰۱۸ء، ص ۱۷)
مستحقین ترکہ کی تفصیل ملاحظہ کیجیے:
۱- پہلے ’اصحابِ فرائض‘ کو ملے گا۔ اصحابِ فرائض میت کے وہ رشتہ دار ہیں، جن کے حصے شریعت میں متعین ہوں ، ان کو ’ذوی الفروض‘ بھی کہتے ہیں۔
۲- ’اصحابِ فرائض‘ کو دینے کے بعد ترکہ ’عصبہ نسبی‘ کو ملے گا۔ ’عصبہ نسبی‘ میت کے وہ رشتہ دار ہیں جو ’اصحابِ فرائض‘ سے بچا ہوا اور ’اصحابِ فرائض‘ نہ ہونے کی صورت میں سارا ترکہ لے لیتے ہیں۔
۳- ’اصحابِ فرائض‘ اور ’عصبہ نسبی‘ نہ ہو تو ترکہ ’عصبہ سببی‘ کو ملے گا۔ ’عصبہ سببی‘(مولی العتاقہ یعنی غلام کی وراثت) کا آج کل وجود نہیں ہے۔
۴- اگر ’عصبہ نسبی‘ اور ’سببی‘ میں سے کوئی نہ ہو اور تر کہ کچھ باقی رہ گیا ہو تو باقی ماندہ تر کہ زوجین کے علاوہ ’اصحاب ِفرائض‘ کو حصوں کے بقدر دیا جائے گا ، اسے ’رد‘ کہتے ہیں ۔
۵- اگر ’اصحابِ فرائض‘ اور ’عصبات‘ میں سے کوئی نہ ہوں، تو ’ذوی الارحام‘ کو دیا جائے گا، اور ’ذوی الارحام‘ میت کے وہ رشتہ دار ہیں، جن کا حصہ نہ قرآن وحدیث سے اور نہ اجماع سے مقرر ہو، اور نہ وہ عصبات میں سے ہوں، جیسے پھوپھی ، خالہ ، ماموں بھانجی،اور نواسہ وغیرہ۔
۶- ’ذوی الارحام‘ بھی نہ ہوں تو ترکہ ’مولی الموالات‘ کو دیا جائے گا۔
۷- اگر مولی الموالات بھی نہ ہو تو ترکے کا وارث وہ اجنبی شخص ہوگا، جس کے بارے میں میت نے یہ کہا ہو کہ وہ میر انسبی رشتہ دار ہے، اسے ’مقر لہ بالنسب‘ کہتے ہیں۔
۸- اگر ’مقر لہ بالنسب‘ بھی نہ ہو تو تر کہ اس شخص کو دیا جائے گا، جس کے لیے میت نے سارے ترکہ کی وصیت کی ہو، اس کو موصی له بجميع المال کہتے ہیں۔
۹- اگر اوپر ذکر کردہ افراد میں سے کوئی نہ ہو تو میت کا ترکہ بیت المال میں جمع کرا دیا جائے گا۔
اس آیت میں مرد و عورت کے حصے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ قاعدہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ میراث کی تقسیم ’الاقرب فالاقرب‘ کے اصول پر ہو گی۔
مرنے والے کے مال متروکہ کو کس اعتبار سے اور کس وارث کو کتنا حصہ ملے گا؟ اس کی بیش تر تشریح و تفصیل قرآن مجید کی سورئہ نساء میں بیان کی گئی ہے ملاحظہ ہو ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اللہ تمھاری اولاد کے بارے میں تم کو حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ اور اگر (صرف) عورتیں ہی ہوں، دو یا دو سے زیادہ، تو مرنے والے نے جو کچھ چھوڑا ہو، انھیں اس کا دو تہائی حصہ ملے گا۔ اور اگر صرف ایک عورت ہو تو اسے (ترکے کا) آدھا حصہ ملے گا۔ اور مرنے والے کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا، بشرطیکہ مرنے والے کی کوئی اولاد ہو، اور اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں، تو اس کی ماں تہائی حصے کی حق دار ہے۔ ہاں، اگر اس کے کئی بھائی ہوں تو اس کی ماں کو چھٹا حصہ دیا جائے گا (اور یہ ساری تقسیم) اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد ہوگی جو مرنے والے نے کی ہو، یا اگر اس کے ذمے کوئی قرض ہے تو اس کی ادائیگی کے بعد۔ تمھیں اس بات کا ٹھیک ٹھیک علم نہیں ہے کہ تمھارے باپ بیٹوں میں سے کون فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے تم سے زیادہ قریب ہے ؟ یہ تو اللہ کے مقرر کیے ہوئے حصے ہیں، یقین رکھو کہ اللہ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔(النساء ۴:۱۱)
قرآن نے واضح کردیا کہ میراث کے جو حصے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں، وہ اس کا طے شدہ حکم ہے، اس میں کسی کو رائے زنی یا کمی بیشی کا کوئی حق نہیں اور تمھیں پورے اطمینانِ قلب کے ساتھ اسے قبول کرنا چاہیے۔ تمھارے خالق و مالک کا یہ حکم بہترین حکمت و مصلحت پر مبنی ہے:
اور تمھاری بیویاں جو کچھ چھوڑ کر جائیں، اس کا آدھا حصہ تمھارا ہے، بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد (زندہ) نہ ہو۔ اور اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو انھوں نے کی ہو، اور ان کے قرض کی ادائیگی کے بعد تمھیں ان کے ترکے کا چوتھائی حصہ ملے گا۔ اور تم جو کچھ چھوڑ کر جاؤ اس کا ایک چوتھائی ان (بیویوں) کا ہے، بشرطیکہ تمھاری کوئی اولاد (زندہ) نہ ہو۔ اور اگر تمھاری کوئی اولاد ہو تو اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو تم نے کی ہو، اور تمھارے قرض کی ادائیگی کے بعد ان کو تمھارے ترکے کا آٹھواں حصہ ملے گا۔ اور اگر وہ مرد یا عورت جس کی میراث تقسیم ہونی ہے، ایسا ہو کہ نہ اس کے والدین زندہ ہوں، نہ اولاد، اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن زندہ ہو تو ان میں سے ہر ایک چھٹے حصے کا حق دار ہے۔ اور اگر وہ اس سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے، (مگر) جو وصیت کی گئی ہو اس پر عمل کرنے کے بعد اور مرنے والے کے ذمے جو قرض ہو اس کی ادائیگی کے بعد، بشرطیکہ (وصیت یا قرض کے اقرار کرنے سے) اس نے کسی کو نقصان نہ پہنچایا ہو۔ یہ سب کچھ اللہ کا حکم ہے، اور اللہ ہربات کا علم رکھنے والا، بُردبار ہے۔(النساء۴:۱۲ )
مفتی محمد شفیع صاحبؒ ان مذکورہ آیات کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ میراث کے حصے بیان کرنے کے بعد اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَصِيَّۃً مِّنَ اللہِ۰ۭ ، یعنی جو کچھ حصے مقرر کیے گئے اور دین اور وصیت کے بارے میں جو تاکید کی گئی، اس سب پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے۔ اللہ پاک کی طرف سے یہ ایک عظیم وصیت اور مہتم بالشان حکم ہے۔ اس کی خلاف ورزی نہ کرنا، پھر مزید تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَاللہُ عَلِيْمٌ حَلِيْمٌ۱۲ۭ یعنی اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے اور اس نے اپنے علم سے ہر ایک کا حال جانتے ہوئے حصے مقرر فرمائے۔ جو احکام مذکورہ پر عمل کرے گا اللہ کے علم سے اس کی یہ نیکی باہر نہ ہوگی اور جو خلاف ورزی کرے گا اس کی یہ بدکرداری بھی اللہ کے علم میں آئے گی، جس کی پاداش میں اس سے مواخذہ کیا جائے گا۔ نیزجو کوئی مرنے والا دین یا وصیت کے ذریعے سے ضرر پہنچائے گا اللہ کو اس کا بھی علم ہے، اس کے مواخذہ سے بےخوف نہ رہو، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خلاف ورزی کرنے پر اس دنیا میں سزا نہ دے، اس لیے کہ وہ حلیم ہے، خلاف ورزی کرنے والے کو یہ دھوکا نہ لگنا چاہیے کہ میں بچ گیا۔(ایضاً، ص ۳۳۱)
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جہاں ہر شعبہ سے متعلق مکمل رہنمائی ملتی ہے۔ چنانچہ فرائض و میراث کے تعلق سے بھی اسلام نے گذشتہ تمام رسوم و رواج کو عدل و انصاف اور فطرت کے خلاف بتا کر جہاں ایک منصفانہ اور عادلانہ نظام میراث متعارف کرایا ہے اور صالح اور تندرست معاشرے کے قیام کے لیے اصول وضع کیے ہیں، وہیں گردش دولت کی جانب بھی توجہ دلائی ہے کہ دولت کی فطرت میں گردش ہے نہ کہ ارتکاز ، حالانکہ کچھ مغرب زدہ اور اسلام دشمن لوگ اسلام کے نظامِ میراث پر اعتراضات کر تے ہیں کہ اسلام میں یہاں عورت اور مرد کے لیے مساوات نہیں ہے اور عورت کو کم تر باور کرایا گیا ہے تو اس سے کیسے صالح معاشرہ کا وجود ہو سکتا ہے ؟ ان کے لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام نے عورت اور مرد کے درمیان اس میراث کے اصول میں عدل و انصاف سے کام لیا ہے جس میں عقل و تدبر کی ضرورت ہے۔
اس تعلق سے مفتی سعید احمد پالنپوریؒ لکھتے ہیں :’’ایک، مرد جنگ کرتے ہیں اور اہل وعیال اور اموال و اعراض کی حفاظت کرتے ہیں۔ دوم، مردوں پر مصارف کا بار زیادہ ہے، اس لیے مالِ غنیمت کی طرح بے مشقت اور بے محنت ملنے والی چیز کے مردہی زیادہ حق دار ہیں، اور عورتیں نہ جنگ کرتی ہیں نہ ان پر مصارف کا بار ہے۔ نکاح سے پہلے ان کا نفقہ باپ کے ذمہ ہے، نکاح کے بعد شوہر کے ذمے، بیوہ ہو جائے تو اولاد کے ذمے، اولاد نہ ہو تو حکومت کے ذمے، حکومت کفالت نہ کرے تو مسلمانوں کے صالح معاشرہ کے ذمہ، اس لیے ان کو میراث سے حصہ کم دیا گیا ہے‘‘۔ (مفتی محمد سعید احمد ، تفسیر ہدایت القرآن ، مکتبہ حجاز ، دیوبند ، ۱۴۳۸ھ ،ج۱، ص۵۷۲-۵۷۳)
کچھ لوگ جہیز کی شکل میں دی جانے والی اشیا کو وراثت کا بدل سمجھ کراپنی بیٹیوں یا بہنوں کو وراثت سے ان کا حصہ نہیں دیتے، جس کا آج کافی رواج ہو گیا ہے۔ یہ خیال سراسر باطل ہے، لہٰذا اپنی بہن یا بیٹی کی شادی کے انتظامات میں جو اخراجات کیے جائیں یا اُسے تحفے تحائف دیے جائیں، انھیں وراثت کا بدل ہرگز تصور نہ کیا جائے۔ عورتوں کو مختلف بہانوں یا ڈرا کر وراثت سے ان کو حصہ نہیں دیا جا تا ۔ اور لوگ اس خیال سے مالِ وراثت تقسیم کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں کہ موروثی جائیداد کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے اور بیٹیوں کو دی جانے والی جائیداد یا مال وراثت کے پرائے لوگ (یعنی شوہر اور اس کی اولاد ) وارث بن جائیں گے۔
الغرض اسلام ہی وہ دین ہے، جس نے ہماری زندگی کے لیے عائلی اصول وضوابط بھی اسی طرح متعین کیے ہیں، جس طرح انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے کیے ہیں۔ دیگر معاشروں اور مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان معاملات خدائی ہدایات کی بنیاد پر نہیں بلکہ روایات اور کلچر کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں ۔ چنانچہ دنیا کے مختلف خطوں اور علاقوں میں ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے یہاں یہ معاملات مختلف انداز سے انجام پاتے ہیں،جب کہ اسلام کا عائلی نظام پوری دنیا میں یکساں طورپر نافذوجاری ہے اور اگر کہیں جاری نہیں ہے( جیسے آج کل وراثت کے موضوع کو ہی لوگ بھول چکے )، تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہاں کے لیے اسلام کی ہدایات اور تعلیمات تبدیل ہوگئی ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اللہ کے اس مقدس سبق کو پھر سے یاد کریں اور نصف علم پر مبنی وراثتِ اسلامی کو اختیار کرکے حقوق العباد کو ادا کریں۔