کشمیر کی سب سے قدیم اور تاریخی جامع مسجداب کے برس بھی عید الفطر کے موقعے پر اُداس اور ویران رہی، اپنے نمازیوں کی نمازِ عید اور دید کو ترستی رہ گئی۔ وجہ یہ تھی کہ جبر کی طاقت کے خیال میں ’’کشمیریوں کے اس قدر بڑے اجتماع سے بغاوت پھیلنے اور اندیشۂ نقص امن کا خطرہ ہوتا ہے‘‘۔ اس لیے مجبوراً کشمیریوں نے عید الفطر کے چھوٹے اجتماعات منعقد کیے۔ ایسے ہی کئی اجتماعات کی وڈیو کلپس میڈیا میں گردش کرتی دیکھی جاسکتی ہیں، جن میں جموں کی چناب ویلی کے بھدرواہ علاقے کی ایک سرگرمی نے ساری توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ وہاں سیکڑوں لوگ سبز پرچم لیے گھوم رہے تھے۔ یہ پُرجوش لوگ کورس کی شکل میں اقبال کا انقلابی اور آفاقی کلام پڑھ رہے تھے:
خودی کا سرِ نہاں لااِلٰہ الااللہ
باطل سے دبنے والے، اے آسماں نہیں ہم
چناب ویلی کی یہ سرگرمی جس انداز سے اس بار زبان زدِعام ہوئی ہے، اس سے اندازہ لگایا جارہا ہے کہ یہ رسمِ وفا پورے جموں وکشمیر کے قصبوں، دیہات اور شہروں تک وسیع ہوجائے گی، اور آیندہ مزاحمت میں یہی رنگ نمایاں دکھائی دے گا۔چار سال کے بے سود انتظار اور گردوپیش سے مایوس ہو کر صوفی منش عوام اور مجاہد صفت قوم نے اپنے محسن اور فکری رہنما اقبال کو دوبارہ پکار ا ہے، اور اقبال نے مظلوموں اور مقہوروں کا یہ بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا ہے۔ اس طرح ان کی قیامت خیز تنہائی میں وہ اپنی قوم کی مدد کو آگئے ہیں۔
یہ وہی دیس ہے جس کے بارے میں اقبال خود کہتے ہیں:
تنم گُلے زخیابانِ جنّتِ کشمیر
دل از حریمِ حجاز و نواز شیرازاست
میرا جسم کشمیر کی مٹی سے آیا ہے، میرا دل سرزمین حجاز کا ہے اور میرے نغمے ایران کے ہیں۔
پھر وہ کشمیریوں کی حالت ِ زار پر اپنی افسردگی کا اظہا ریوں کرتے ہیں:
آج وہ کشمیر ہے محکوم ومجبور وفقیر
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر
آہ یہ قومِ نجیب وچرب ودست وتر دماغ
ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر؟
کشمیر میں ڈوگرہ کی شخصی حکمرانی کے خلاف وادیٔ کشمیر کے مسلمانوں میں برپا انقلاب میں کشمیر سے باہر اگر کسی فرد کا بھرپور کردار ہے تو یہ نام اقبال ہی کا ہے۔ بدقسمتی سے کچھ بیرونی ہمدردوں کی بے تدبیریوں اور غلطیوں کی وجہ سے کشمیری اس انقلاب کی تکمیل سے محروم رہ گئے اور یہ انقلاب عملی شکل میں نہ ڈھل سکا۔ڈوگرہ درندگی سے نکل کر وہ فاشسٹ ہندستان کی غلامی کا شکار ہوگئے اور اقبال کے ہاتھوں برپا کردہ بیداری کا انقلاب ان کے سینوں میں موجزن اورشعلہ بار ہوا۔
اقبال کشمیریوں کی فکری رہنمائی اور ان کی حالتِ زار دنیا تک پہنچانے کے لیے کام کرتے رہے۔انھی کی تحریک پر ہی کشمیری وکلا نے وائسرائے ہند کے نام خطوط لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، جس کے نتیجے میں انگریز سرکار نے ڈوگرہ حکمرانوں کو ایسی اصلاحا ت پر مجبور کیا، جن میں کشمیریوں کے لیے سانس لینے کی آزادی کا حصول ممکن ہوا۔ان خطوط میں اقبال کے استعاروں اور اصطلاحات نے ڈوگرہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ انگریز کو بھی چونکا دیا تھا۔ اقبال، کشمیر کومسلم امت کی تحریک سے جوڑتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔
پھر ۱۹۳۱ء میں جب اقبال اپنے دوسرے سفر پر کشمیر آئے تو تحقیق کاروں کے مطابق وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ کشمیر کی وادیوں میں اب آزادی و انقلاب کے آثار پیدا ہو چکے ہیں۔ دبے اور کچلے ہوئے عوام میں خوئے بغاوت اور جذبۂ حُریت دکھائی دینے لگا ہے۔ان مناسبتوں کے پس منظر میں کشمیریوں اور اقبال کا ساتھ بہت پرانا اور گہرا ہے۔وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اقبال کے فارسی کلام میں کوہ ودمن میں آگ لگانے کی صلاحیت ہے۔یہ مُردہ ضمیر اور بے حس وحرکت جسموں کو اُٹھا کر معرکہ زن بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ایران کے انقلاب میں اقبال کے کلام سے رہنمائی کا اعتراف آیت اللہ علی خامنہ ای نے۱۹۸۶ء میں کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ایران کا انقلاب اقبال کے خواب کی تعبیر ہے۔ہم اقبال کے دکھائے ہوئے راستے پر چل رہے ہیں‘‘۔
اور ۱۹۹۰ء میں جب سوویت یونین ٹوٹ رہا تھا تو تاجکستان کے طول و عرض میں آزادی کی راہ پر چلنے والے ہزاروں افراد اقبال کے اس نغمے پر جھوم رہے تھے:
اے غنچۂ خوابیدہ چو نرگس نگراں خیز
از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز
اے خوابیدہ کلی تو نرگس کے پھول کی طرح آنکھ کھول۔گہری نیند سے، گہری نیند سے، گہری نیند سے جاگ۔
اس روز بی بی سی،لندن نے ’سیر بین‘ پروگرام کا آغاز دوشنبے میں انھی لوگوں کی زبان سے ادا ہونے والے اسی نغمے سے کیا تھا۔آج کشمیریوں پر عتاب کا دور ماضی سے کہیں زیادہ سخت ہے، جب ان کے لیے ایک اور ’گلانسی کمیشن‘ (۱۹۳۲ء)کی ضرورت محسو س کی جارہی ہے، کیونکہ ان کے جمہوری اور انسانی حقوق اور کشمیری اور مسلمان کی حیثیت سے بھی ان کی شناخت خطرات کی زد میں ہے۔ مگر آج کوئی اقبال موجود نہیں ہے،جس کے لکھے اور بولے ہوئے لفظوں سے جبر کی دیوار میں شگاف ڈالا جا سکے۔المیہ یہ نہیں کہ کشمیری حالات کے جبر کا شکار ہو چکے ہیں اور ہرن، بھیڑیوں کے غول میں پھنس چکا ہے۔ بلکہ المیہ یہ ہے کہ ان حالات میں ان کا مونس اور غم خوار اور ہمدرد ہونے کا دعوے دار بھی حالات کے آگے سپر ڈال چکا ہے۔
کشمیری جب بھی حالات کے جبر کا شکار ہوکر تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں، تو اسی دھرتی کے خمیر سے جنم لینے والا ایک نابغہ روزگار ان کی فکری اور عملی مدد کو آتا ہے۔یہ کشمیر کی وادیِ لولاب کا فرزند ہوتاہے، جسے دنیا علامہ محمد اقبال کے نام سے جانتی ہے۔انیسویں صدی میں جب کشمیری شخصی حکمرانی کے جبر کا شکار تھے اور ان کی آواز وادی کے قید خانے کی دیواروں سے ٹکرا کر واپس آتی تھی۔ بڑے مراکز میں رہنے والوں کو کچھ اندازہ نہیں تھا کہ بانہال کے پہاڑوں کی اُوٹ میں جنّت گم گُشتہ کے باسی کس حال میں ہیں، تو اس ہلاکت خیز تنہائی میں اس دور کے علّامہ محمد اقبال جو اپنے کلام اور فکر وفن کے لحاظ سے دنیا بھر میں مشہور ہوچکے تھے ،اپنی درماندہ حال قوم کی مدد کو آئے تھے۔
علّامہ اقبال نے نہ صرف اپنے آبائی وطن کشمیر اور علاقے لولاب کا دورہ کیا بلکہ اپنی شاعری کے ذریعے کشمیریوں کو بیدار کرنے کا بیڑا بھی اُٹھایا۔انھوں نے لاہور کے پرانے کشمیریوں کی محفلوں میں کشمیر کے حالات پر بات کا آغاز کیا،لاہور کے اخبارات کو کشمیر کے حالات پر لکھنے اور بولنے کا مسلسل مشورہ دینا شروع کیا۔ایسی ہی ایک محفل میں علامہ نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا تھا:
پنجۂ ظلم وجہالت نے برا حال کیا
بن کے مقراض ہمیں بے پر و بے بال کیا
توڑ اس دست جفا کیش کو یارب جس نے
روحِ آزادیٔ کشمیر کو پامال کیا
یوں اقبال کی رہنمائی میں کشمیر کے حالات کی خبر وادی کی تنگنائے سے نکل ہندستان کی وسعتوں تک پہنچنے لگی، جس کا مطلب یہ تھا کہ معاملے کی حقیقت انگریز سرکارتک پہنچنے لگی ہے۔شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ انگریز سرکار کے دباؤ پرڈوگرہ حکمران کشمیر میں اصلاحات کے لیے ’گلانسی کمیشن‘ جیسے فورمز کو جگہ دینے پر مجبور ہونے لگے۔ اقبال ایک راہ دکھلا کر دنیا سے چلے گئے، مگر ان کا کلام اور فکر کشمیر میں حُریت اور انقلاب کے شعلوں کومسلسل زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی رہی۔اسی فکری انقلاب کے اثرات اگلے ہی عشرے میں ایک واضح بیداری کی شکل میں اُبھرتے نظر آئے۔
آج کشمیری ایک بار پھر ۱۹۳۰ءکے زما نے میں پہنچ گئے ہیں، بلکہ حالات تو اس سے بھی بدتر ہیں۔وہ ایک بار پھر وادی کے پہاڑوں کے پیچھے قید ہوچکے ہیں۔آزاد دنیا سے ان کے روابط منقطع ہو چکے ہیں۔اگر روابط قائم بھی ہیں تو وہ دل کی بات زبان پر لانے سے قاصر ہیں۔ اس کی پُراثر اور دل دوز منظر کشی بھارت کےThe Wire ٹی وی کی میزبان عارفہ خانم شیروانی صاحبہ نے اس سال جنوری میں اپنے دورۂ سری نگر میں کی تھی۔
جب وہ مائیک اُٹھائے سری نگر کی گلیوں میں لوگوں سے پوچھ رہی تھیں کہ ’’۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے فیصلے کے بعد حالات کیسے ہیں؟‘‘اکثر لوگ تو جواب دینے سے پہلو بچاکر اور نگاہیں جھکا کر خاموشی سے آگے بڑھ جاتے تھے، مگر انھی لوگوں میں ایک واجبی سے حلیے والے ذہین شخص نے کچھ نہ کہتے ہوئے سب کچھ کہہ دیا۔وہ اگر ایک لفظ بھی نہ بولتا تو تب بھی اس کے چہرے کے تاثرات پوری کہانی سنا رہے تھے۔عارفہ خانم نے مائیک آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا کہ’’ ۵؍اگست کے بعد حالات کیسے ہیں؟‘‘ تو اس شہری کا جواب تھا: ’’ٹھیک ہیں، سب ٹھیک ہے۔حالات اچھے ہیں‘‘۔شاید عارفہ خانم کو اس جواب میں روکھا پن محسوس ہوا،تو انھوں نے کچھ بتانے پر اصرار کیا۔ اس شخص نے زمانے بھر کا کرب اپنے لہجے میں سمیٹتے ہوئے کہا:’’کیا بتاؤں، اب کہنے کو کیا بچا ہے؟ سب کچھ تو چھن گیا۔ جو شخص دن کو بات کرتا ہے، وہ رات کو اُٹھالیا جاتا ہے‘‘۔
یوں دکھائی دیتا ہے کہ اس ماحول میں کشمیر کے لوگ اپنے جذبات کاا ظہا رکرنے سے قاصر ہیں۔ایسے میں اقبال کی فکر اور انقلابی سوچ کو اپنا کرانھوں نے حالات کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس سے یہ اندازہ بھی ہورہا ہے کہ کشمیری عوام کے جذبات نے اپنے اظہار کے لیے ایک نیاراستہ اور اپنی قیادت کے لیے اپنا فکری رہنما ڈھونڈ لیا ہے۔ ۵؍اگست کے بعد ظلم کے سیاہ بادلوں میں انھوں نے روشنی کا ایک طاقت ور استعارہ تلاش کر لیا ہے:
باطل سے دبنے والے، اے آسماں نہیں ہم
کلامِ اقبال کورس کی شکل میں عید کے روز گلی کوچوں میں پڑھتے ہوئے گھومنے والے کشمیریوں کے مزاج اور موڈ سے یہی انداز ہ ہورہا ہے۔اب کی بار کشمیر کواقبال کی ضروت بیداری کے لیے نہیں، بلکہ ایک بیدار معاشرے میں احساس کی ایسی چنگاری کو زندہ رکھنے کے لیے ہے۔