عارف بہار


کشمیر کی سب سے قدیم اور تاریخی جامع مسجداب کے برس بھی عید الفطر کے موقعے پر اُداس اور ویران رہی، اپنے نمازیوں کی نمازِ عید اور دید کو ترستی رہ گئی۔ وجہ یہ تھی کہ جبر کی طاقت کے خیال میں ’’کشمیریوں کے اس قدر بڑے اجتماع سے بغاوت پھیلنے اور اندیشۂ نقص امن کا خطرہ ہوتا ہے‘‘۔ اس لیے مجبوراً کشمیریوں نے عید الفطر کے چھوٹے اجتماعات منعقد کیے۔ ایسے ہی کئی اجتماعات کی وڈیو کلپس میڈیا میں گردش کرتی دیکھی جاسکتی ہیں، جن میں جموں کی چناب ویلی کے بھدرواہ علاقے کی ایک سرگرمی نے ساری توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ وہاں سیکڑوں لوگ سبز پرچم لیے گھوم رہے تھے۔ یہ پُرجوش لوگ کورس کی شکل میں اقبال کا انقلابی اور آفاقی کلام پڑھ رہے تھے:

خودی کا سرِ نہاں لااِلٰہ الااللہ
باطل سے دبنے والے، اے آسماں نہیں ہم

چناب ویلی کی یہ سرگرمی جس انداز سے اس بار زبان زدِعام ہوئی ہے، اس سے اندازہ لگایا جارہا ہے کہ یہ رسمِ وفا پورے جموں وکشمیر کے قصبوں، دیہات اور شہروں تک وسیع ہوجائے گی، اور آیندہ مزاحمت میں یہی رنگ نمایاں دکھائی دے گا۔چار سال کے بے سود انتظار اور گردوپیش سے مایوس ہو کر صوفی منش عوام اور مجاہد صفت قوم نے اپنے محسن اور فکری رہنما اقبال کو دوبارہ پکار ا ہے، اور اقبال نے مظلوموں اور مقہوروں کا یہ بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا ہے۔ اس طرح ان کی قیامت خیز تنہائی میں وہ اپنی قوم کی مدد کو آگئے ہیں۔

یہ وہی دیس ہے جس کے بارے میں اقبال خود کہتے ہیں:

تنم گُلے زخیابانِ جنّتِ کشمیر
دل از حریمِ حجاز و نواز شیرازاست

میرا جسم کشمیر کی مٹی سے آیا ہے، میرا دل سرزمین حجاز کا ہے اور میرے نغمے ایران کے ہیں۔

پھر وہ کشمیریوں کی حالت ِ زار پر اپنی افسردگی کا اظہا ریوں کرتے ہیں:

آج وہ کشمیر ہے محکوم ومجبور وفقیر
کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر

آہ یہ قومِ نجیب وچرب ودست وتر دماغ
ہے کہاں روزِ مکافات اے خدائے دیر گیر؟

کشمیر میں ڈوگرہ کی شخصی حکمرانی کے خلاف وادیٔ کشمیر کے مسلمانوں میں برپا انقلاب میں کشمیر سے باہر اگر کسی فرد کا بھرپور کردار ہے تو یہ نام اقبال ہی کا ہے۔ بدقسمتی سے کچھ بیرونی ہمدردوں کی بے تدبیریوں اور غلطیوں کی وجہ سے کشمیری اس انقلاب کی تکمیل سے محروم رہ گئے اور یہ انقلاب عملی شکل میں نہ ڈھل سکا۔ڈوگرہ درندگی سے نکل کر وہ فاشسٹ ہندستان کی غلامی کا شکار ہوگئے اور اقبال کے ہاتھوں برپا کردہ بیداری کا انقلاب ان کے سینوں میں موجزن اورشعلہ بار ہوا۔

اقبال کشمیریوں کی فکری رہنمائی اور ان کی حالتِ زار دنیا تک پہنچانے کے لیے کام کرتے رہے۔انھی کی تحریک پر ہی کشمیری وکلا نے وائسرائے ہند کے نام خطوط لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، جس کے نتیجے میں انگریز سرکار نے ڈوگرہ حکمرانوں کو ایسی اصلاحا ت پر مجبور کیا، جن میں کشمیریوں کے لیے سانس لینے کی آزادی کا حصول ممکن ہوا۔ان خطوط میں اقبال کے استعاروں اور اصطلاحات نے ڈوگرہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ انگریز کو بھی چونکا دیا تھا۔ اقبال، کشمیر کومسلم امت کی تحریک سے جوڑتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔

 پھر ۱۹۳۱ء میں جب اقبال اپنے دوسرے سفر پر کشمیر آئے تو تحقیق کاروں کے مطابق وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ کشمیر کی وادیوں میں اب آزادی و انقلاب کے آثار پیدا ہو چکے ہیں۔ دبے اور کچلے ہوئے عوام میں خوئے بغاوت اور جذبۂ حُریت دکھائی دینے لگا ہے۔ان مناسبتوں کے پس منظر میں کشمیریوں اور اقبال کا ساتھ بہت پرانا اور گہرا ہے۔وہ اس حقیقت سے بخوبی  آگاہ ہیں کہ اقبال کے فارسی کلام میں کوہ ودمن میں آگ لگانے کی صلاحیت ہے۔یہ مُردہ ضمیر اور بے حس وحرکت جسموں کو اُٹھا کر معرکہ زن بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ایران کے انقلاب میں اقبال کے کلام سے رہنمائی کا اعتراف آیت اللہ علی خامنہ ای نے۱۹۸۶ء میں کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ایران کا انقلاب اقبال کے خواب کی تعبیر ہے۔ہم اقبال کے دکھائے ہوئے راستے پر چل رہے ہیں‘‘۔

اور ۱۹۹۰ء میں جب سوویت یونین ٹوٹ رہا تھا تو تاجکستان کے طول و عرض میں آزادی کی راہ پر چلنے والے ہزاروں افراد اقبال کے اس نغمے پر جھوم رہے تھے:

اے غنچۂ خوابیدہ چو نرگس نگراں خیز
از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز

اے خوابیدہ کلی تو نرگس کے پھول کی طرح آنکھ کھول۔گہری نیند سے، گہری نیند سے، گہری نیند سے جاگ۔

اس روز بی بی سی،لندن نے ’سیر بین‘ پروگرام کا آغاز دوشنبے میں انھی لوگوں کی زبان سے ادا ہونے والے اسی نغمے سے کیا تھا۔آج کشمیریوں پر عتاب کا دور ماضی سے کہیں زیادہ سخت ہے، جب ان کے لیے ایک اور ’گلانسی کمیشن‘ (۱۹۳۲ء)کی ضرورت محسو س کی جارہی ہے، کیونکہ ان کے جمہوری اور انسانی حقوق اور کشمیری اور مسلمان کی حیثیت سے بھی ان کی شناخت خطرات کی زد میں ہے۔ مگر آج کوئی اقبال موجود نہیں ہے،جس کے لکھے اور بولے ہوئے لفظوں سے جبر کی دیوار میں شگاف ڈالا جا سکے۔المیہ یہ نہیں کہ کشمیری حالات کے جبر کا شکار ہو چکے ہیں اور ہرن، بھیڑیوں کے غول میں پھنس چکا ہے۔ بلکہ المیہ یہ ہے کہ ان حالات میں ان کا مونس اور غم خوار اور ہمدرد ہونے کا  دعوے دار بھی حالات کے آگے سپر ڈال چکا ہے۔

 کشمیری جب بھی حالات کے جبر کا شکار ہوکر تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں، تو اسی دھرتی کے خمیر سے جنم لینے والا ایک نابغہ روزگار ان کی فکری اور عملی مدد کو آتا ہے۔یہ کشمیر کی وادیِ لولاب کا فرزند ہوتاہے، جسے دنیا علامہ محمد اقبال کے نام سے جانتی ہے۔انیسویں صدی میں جب کشمیری شخصی حکمرانی کے جبر کا شکار تھے اور ان کی آواز وادی کے قید خانے کی دیواروں سے ٹکرا کر واپس آتی تھی۔ بڑے مراکز میں رہنے والوں کو کچھ اندازہ نہیں تھا کہ بانہال کے پہاڑوں کی اُوٹ میں جنّت گم گُشتہ کے باسی کس حال میں ہیں، تو اس ہلاکت خیز تنہائی میں اس دور کے علّامہ محمد اقبال جو اپنے کلام اور فکر وفن کے لحاظ سے دنیا بھر میں مشہور ہوچکے تھے ،اپنی درماندہ حال قوم کی مدد کو آئے تھے۔

علّامہ اقبال نے نہ صرف اپنے آبائی وطن کشمیر اور علاقے لولاب کا دورہ کیا بلکہ اپنی شاعری کے ذریعے کشمیریوں کو بیدار کرنے کا بیڑا بھی اُٹھایا۔انھوں نے لاہور کے پرانے کشمیریوں کی محفلوں میں کشمیر کے حالات پر بات کا آغاز کیا،لاہور کے اخبارات کو کشمیر کے حالات پر لکھنے اور بولنے کا مسلسل مشورہ دینا شروع کیا۔ایسی ہی ایک محفل میں علامہ نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا تھا:

پنجۂ ظلم وجہالت نے برا حال کیا
بن کے مقراض ہمیں بے پر و بے بال کیا

توڑ اس دست جفا کیش کو یارب جس نے
روحِ آزادیٔ کشمیر کو پامال کیا

یوں اقبال کی رہنمائی میں کشمیر کے حالات کی خبر وادی کی تنگنائے سے نکل ہندستان کی وسعتوں تک پہنچنے لگی، جس کا مطلب یہ تھا کہ معاملے کی حقیقت انگریز سرکارتک پہنچنے لگی ہے۔شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ انگریز سرکار کے دباؤ پرڈوگرہ حکمران کشمیر میں اصلاحات کے لیے ’گلانسی کمیشن‘ جیسے فورمز کو جگہ دینے پر مجبور ہونے لگے۔ اقبال ایک راہ دکھلا کر دنیا سے چلے گئے، مگر ان کا کلام اور فکر کشمیر میں حُریت اور انقلاب کے شعلوں کومسلسل زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی رہی۔اسی فکری انقلاب کے اثرات اگلے ہی عشرے میں ایک واضح بیداری کی شکل میں اُبھرتے نظر آئے۔

آج کشمیری ایک بار پھر ۱۹۳۰ءکے زما نے میں پہنچ گئے ہیں، بلکہ حالات تو اس سے بھی بدتر ہیں۔وہ ایک بار پھر وادی کے پہاڑوں کے پیچھے قید ہوچکے ہیں۔آزاد دنیا سے ان کے روابط منقطع ہو چکے ہیں۔اگر روابط قائم بھی ہیں تو وہ دل کی بات زبان پر لانے سے قاصر ہیں۔ اس کی پُراثر اور دل دوز منظر کشی بھارت کےThe Wire ٹی وی کی میزبان عارفہ خانم شیروانی صاحبہ نے اس سال جنوری میں اپنے دورۂ سری نگر میں کی تھی۔

جب وہ مائیک اُٹھائے سری نگر کی گلیوں میں لوگوں سے پوچھ رہی تھیں کہ ’’۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے فیصلے کے بعد حالات کیسے ہیں؟‘‘اکثر لوگ تو جواب دینے سے پہلو بچاکر اور نگاہیں جھکا کر خاموشی سے آگے بڑھ جاتے تھے، مگر انھی لوگوں میں ایک واجبی سے حلیے والے ذہین شخص نے کچھ نہ کہتے ہوئے سب کچھ کہہ دیا۔وہ اگر ایک لفظ بھی نہ بولتا تو تب بھی اس کے چہرے کے تاثرات پوری کہانی سنا رہے تھے۔عارفہ خانم نے مائیک آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا کہ’’ ۵؍اگست کے بعد حالات کیسے ہیں؟‘‘ تو اس شہری کا جواب تھا: ’’ٹھیک ہیں، سب ٹھیک ہے۔حالات اچھے ہیں‘‘۔شاید عارفہ خانم کو اس جواب میں روکھا پن محسوس ہوا،تو انھوں نے کچھ بتانے پر اصرار کیا۔ اس شخص نے زمانے بھر کا کرب اپنے لہجے میں سمیٹتے ہوئے کہا:’’کیا بتاؤں، اب کہنے کو کیا بچا ہے؟ سب کچھ تو چھن گیا۔ جو شخص دن کو بات کرتا ہے، وہ رات کو اُٹھالیا جاتا ہے‘‘۔

یوں دکھائی دیتا ہے کہ اس ماحول میں کشمیر کے لوگ اپنے جذبات کاا ظہا رکرنے سے قاصر ہیں۔ایسے میں اقبال کی فکر اور انقلابی سوچ کو اپنا کرانھوں نے حالات کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس سے یہ اندازہ بھی ہورہا ہے کہ کشمیری عوام کے جذبات نے اپنے اظہار کے لیے ایک نیاراستہ اور اپنی قیادت کے لیے اپنا فکری رہنما ڈھونڈ لیا ہے۔ ۵؍اگست کے بعد ظلم کے سیاہ بادلوں میں انھوں نے روشنی کا ایک طاقت ور استعارہ تلاش کر لیا ہے:

باطل سے دبنے والے، اے آسماں نہیں ہم

 کلامِ اقبال کورس کی شکل میں عید کے روز گلی کوچوں میں پڑھتے ہوئے گھومنے والے کشمیریوں کے مزاج اور موڈ سے یہی انداز ہ ہورہا ہے۔اب کی بار کشمیر کواقبال کی ضروت بیداری کے لیے نہیں، بلکہ ایک بیدار معاشرے میں احساس کی ایسی چنگاری کو زندہ رکھنے کے لیے ہے۔

پاکستان میں عسکری منظر بدلتے ہی کئی معروف صحافیوں نے تواتر کے ساتھ یہ انکشاف کرنا شروع کیا ہے کہ ’’سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ نے بھارت کے ساتھ ایک ’پیس پروسیس‘ شروع کیا تھا، جس کا منطقی نتیجہ کشمیر کو نظرانداز کرکے پاک بھارت تعلقات کی بحالی تھا‘‘۔ اس انکشاف کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’آئی ایس آئی کے اُس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، دوحہ میں بھارتی وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال کے ساتھ خفیہ مذاکرات کے بعد اس بات پر متفق ہوچکے تھے کہ نریندر مودی ۹؍ اپریل۲۰۲۱ء کو پاکستان آئیں گے۔ مودی ہنگلاج ماتا کے پجاری ہیں، وہ سیدھا ہنگلاج ماتا کے مندر جائیں گے، وہاں دس دن کا بھرت رکھیں گے، واپسی پر عمران خان سے ملیں گے، ان کا بازو پکڑ کر ہو ا میں لہرائیں گے اور پاک بھارت دوستی کا اعلان کریں گے۔ دونوں ملک ایک دوسرے کے معاملات میں عدم مداخلت اور تجارت کھولنے کا اعلان کریں گے اور کشمیر کو بیس سال کے لیے پس پشت ڈال دیا جائے گا۔ یہ فیصلہ ہونے کے بعد جب وزیراعظم عمران خان سے اس پر عمل درآمد کی رضامندی لی گئی تو انھوں نے صاف انکار کردیا، اور یوں بھارت سے معاملات طے کرنے کا موقع ضائع ہوگیا‘‘۔

اس حقیقی یا افسانوی کہانی کو دیکھا جائے تو یہ ساری پیش رفت ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد ہوئی، جب بھارت نے یک طرفہ طور پر کشمیر کا تشخص ختم کرکے اسے ’بھارتی یونین ٹیریٹری‘ قرار دیا۔ اس فیصلے کے ردعمل میں عمران خان نے بھارت سے سیاسی، سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کرکے ۵؍ اگست کا فیصلہ واپس لینے کی شرط عائد کی۔ ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد عمران خان کا غیرمعمولی ردعمل اس امر کا واضح اظہار تھا، کہ موصوف بھی بہت سے پاکستانیوں کی طرح یہ سمجھتے تھے کہ بھارت کے سخت گیر اور انتہا پسند وزیراعظم نئے مینڈیٹ کے ساتھ آکر کشمیر کے حوالے سے کوئی مثبت اور بڑا فیصلہ کریں گے، مگر انتہاپسند مودی نے اس کے جواب میں پاکستان کو مایوس کن جواب دیا اور یک طرفہ طور پر کشمیر کا اسٹیٹس بدل دیا، جس کو عمران خان نے اپنی طرف سے بڑھے ہوئے دوستی کے ہاتھ کو جھٹکنے سے تعبیر کرکے نریندر مودی کی انانیت، نخوت اور تکبر کے بخیے ادھیڑنا شروع کیے۔ انھوں نے مودی کو ہٹلر سے تشبیہ دے کر بجاطور پر مغرب میں ان کی خوفناک شبیہ پیش کرنا شروع کی۔یہاں تک کہ مودی اس قدر زچ ہوئے کہ اُنھوں نے اگلے ہی ماہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جانے سے بھی گریز کیا۔ ہماری معلومات کے مطابق جنرل فیض اور اجیت دووال کی عرب ملک میں پکائی گئی کھچڑی جب عمران خان کے سامنے رکھی گئی تو ان کا بے ساختہ سوال تھا کہ ’’اس میں کشمیر کہاں ہے؟‘‘ جواب ملا کہ ’’کشمیر تو بیس سال کے لیے ڈیپ فریزر میں رکھ دیا گیا ہے‘‘۔ اس پر عمران خان نے اس ڈیل کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔

ملک کے تین صحافیوں کے بعد اب نئی دہلی میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر اور پاکستانی دفتر خارجہ کے سینئر ترین ڈپلومیٹ عبدالباسط صاحب نے ایک وی لاگ میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس عمل کی مشاورت میں شریک تھے اور بہت سے واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔ انھوں نے اپنے وی لاگ کے آخر میں تسلیم کیا کہ ’’عمران خان نے کشمیر کے بغیر اس ڈیل کو ماننے سے انکار کیا‘‘، اور ساتھ انھوں نے اس حرف ِانکار کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک اچھا فیصلہ تھا‘۔

عبدالباسط صاحب کا کہنا تھا کہ اس ڈیل میں مسئلہ کشمیر کو ۲۰ برس فریز کرنے کی بات نہیں ہورہی تھی بلکہ یہ ڈیل بھی جنرل پرویزمشرف کے چار نکاتی فارمولے کے گرد گھوم رہی تھی۔ اس فارمولے میں دوطرفہ مفاہمت اور اقدامات کا بیس سال بعد جائزہ لینے کا ذکر تھا اور اسی ماحول کے زیراثر بزنس ٹائیکون میاں منشا اور سابق وزیر تجارت دائود ابراہیم نے بھارت سے تجارت کی مکمل بحالی کی وکالت شروع کی تھی۔ اس ڈیل سے عمران خان کے انکار کی وجہ یہ تھی کہ بھارت نے کشمیر پر کسی پیش رفت کی ہامی نہیں بھری اور عمران خان نے کہا کہ یہ ڈیل ہوجائے اور بھارت آگے نہ بڑھے تو اس طرح ہمارا مؤقف ہی ختم ہوجائے گا۔ وہ اس ڈیل کو ’کشمیر کی مرکزیت‘ میں رکھنا چاہتے تھے، مگر بھارت کشمیر پر کچھ بھی لچک پیدا کرنے کو تیار نہ تھا۔

اس گواہی میں ایک المیہ پوشیدہ ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارت ۵؍ اگست کو کشمیر کی خصوصی شناخت کو بے رحمی سے ختم کرچکا تھا اور ۸۰ ہزار افراد کو جانوروں کی طرح لاک ڈائون کے ذریعے گھروں میں قیدی بناکر رکھا گیا تھا۔ ان سے جدید ذرائع ابلاغ سمیت ہر سہولت چھین لی گئی تھی اور ان کی مساجد اور درگاہوں پر تالے چڑھا دیے گئے تھے۔ سید علی گیلانی جیسے مقبول قائد کے جنازے کو رات کی تاریکی میں گھر سے اُٹھایا جارہا تھا اور خواتین سے چھین کر کسمپرسی کے عالم میں پیوندِ خاک کیا جارہاتھا۔ اشرف صحرائی جیسے دلیر لیڈروں کو سلو پوائزننگ کے ذریعے جیل میں موت کی جانب دھکیلا جارہا تھا اور ان کے اہلِ خانہ کو اپنے مرحومین کے سرہانے پر آخری لمحوں میں کلمہ پڑھنے کے حق سے محروم رکھا جارہا تھا۔ یاسین ملک کی بہنیں دہلی اور سری نگر کے درمیان بے بسی اور کرب کے عالم میں ماہی  بے آب کی طرح تڑپ رہی تھیں، کیونکہ ان کا بھائی پھانسی کے پھندے کی طرف قدم بہ قدم بڑھ رہا تھا اور اس کی صحت خراب سے خراب تر ہورہی تھی، اس کے باوجود ان بہنوں کو ملاقات کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب نوجوانوں کو قتل کرکے آبائی قبرستانوں کے بجائے سیکڑوں کلومیٹر دُور ویرانوں اور جنگلوں میں مٹی میں دبایا جاتا تھا، اور یہ اہلِ خانہ کو مستقل طور پر ایک نفسیاتی عذاب میں مبتلا کرنے اور ذہنی ٹارچر کی ایک شکل تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب بھارت کشمیرکی شناخت اور تشخص بدلنے کے لیے نازی جرمنی طرز کے قوانین متعارف کرا رہا تھا۔ کشمیر کی تقدیر دہلی میں امیت شا اور اجیت دووال کے دفتروں میں لکھی جارہی تھی۔ خطرے کی سطح اس قدر بلند تھی کہ خود بھارت نواز سیاست دان بھی پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن کے پلیٹ فارم سے بھارت کے اقدامات کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تھے اور انھی لمحوں میں سابق وزیراعلیٰ کشمیر محبوبہ مفتی کا یہ جملہ مشہور ہوا تھا کہ ’’ہم سوچ رہے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے قائداعظم کا ساتھ نہ دے کر غلطی کی تھی‘‘۔ ایسی ’کشمیر ڈیل‘کے اندر مستقل خرابی یہی ہے کہ اس میں کشمیر کہیں نہیں ہوتا۔

یوں لگ رہا ہے کہ اب کی بار بھارت کا یہ فیصلہ یک طرفہ نہیں تھا۔ اس کھیل کا آغاز عمران خان اور جنرل باجوہ کے بیک وقت امریکا کے دورے سے ہوا تھا۔ عمران خان بڑے جلسوں سے خطاب کرتے اور ٹرمپ کے ساتھ گپ شپ کرتے رہے، جب کہ عین انھی لمحوں میں جنرل باجوہ ’سینٹ کام‘ میں امریکی فوج کے شاہانہ اور پُرتپاک استقبال اور سلامی کا لطف لیتے رہے۔ وائٹ ہاؤس میں محض گپ شپ جاری رہی،جب کہ ’سینٹ کام‘ میں اصل فیصلے ہوگئے تھے۔ اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ  ’’نریندر مودی نے مجھ سے کشمیر پر کردار ادا کرنے کو کہا تھا‘‘۔ یہ حقیقت میں امریکا کو ۵؍ اگست کے فیصلے پر اعتماد میں لینے اور پاکستان کے ممکنہ ردعمل کو کنٹرول کرنے کی درخواست تھی۔ اس کھیل میں بعض عرب ممالک اور سرمایہ دار شریک تھے، جنھیں بھارت نے یہ جھانسہ دیا کہ مقبوضہ کشمیر کے مقامی قوانین اور تشخص کی موجودگی میں بھارت بے بس ہے، وہ نہ تو عرب سرمایہ داروں کی کشمیر میں کوئی مدد کرسکتا ہے نہ اپنے طور پر انھیں وہاں رسائی دے سکتا ہے۔ اس کے لیے کشمیر کا تشخص ختم کرنا ہوگا، تاکہ قانونی پوزیشن بدل جانے کے بعد بھارت اپنے بل بوتے پر عرب سرمایہ داروں کو کشمیر تک رسائی دے سکے۔ مغربی ملکوں کو بھی یہی جھانسہ دیا گیا، اور یوں خاموش بین الاقوامی حمایت حاصل ہونے کے بعد بھارت نے یہ فیصلہ لیا تھا۔

۵؍ اگست کے فیصلے کے خلاف آزادکشمیر سے کسی صدائے احتجاج کو بلند ہونے سے روکنے کے لیے اُس وقت کے وزیراعظم آزادکشمیر راجا فاروق حیدر کو منظر سے غائب کرکے امریکا پہنچا دیا گیا۔ ان بیس سال میں بھارت کو کشمیر کی آبادی کا تناسب اور تشخص تبدیل کرنے کی مہم میں کامیابی حاصل کرنا تھی، مگر پاکستان اس عمل پر زبانی کلامی رسمی احتجاج کے حق سے بھی دست بردار ہورہا تھا۔ یہ پسپائی کی بدترین شکل تھی جس میں کنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنا بنیادی تصور ہے۔ شملہ معاہدے کے بعد بھارت نے کنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرانے کے لیے پلان بنا رکھا ہے۔کچھ بھارتی حلقوں کا دعویٰ رہا ہے کہ شملہ میں غیر تحریری طور پر ذوالفقارعلی بھٹو یہ یقین دہانی کرا چکے تھے کہ کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنایا جائے گا۔

۱۹۹۰ء کے عشرے میں پہلی بار ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے نتیجے میں میاں نوازشریف نے بھارت کے ساتھ معاہدہ کرنے کا بڑا فیصلہ کیا۔ اس مفاہمت میں کشمیر میں ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رکھتے ہوئے دونوں ملکوں کے تعلقات کو بحال کیا جانا مقصود تھا۔ کنٹرول لائن کو نرم کرکے مستقل قرار دینا بھی اس منصوبے کا حصہ تھا۔ اسی منصوبے پر عمل درآمد کے لیے واجپائی لاہور آئے، مگر پاکستان کی ہیئتِ مقتدرہ نے اس کوشش کو کشمیر فروشی قرار دے کر تسلیم کرنے سے انکار کردیا، جس کے بعد کرگل کی جنگ ہوئی اور سارا منظر بدل گیا۔ جنرل پرویزمشرف نے نوازشریف حکومت کو برطرف کرکے عنان ِ حکومت سنبھالی اور وہ بھارت کے ساتھ پُراعتماد ہوکر مذاکرات کرتے رہے اور کشمیر کے مسئلے کو اولیت دینے کی بات پر کاربند رہے۔ ان کی کشمیر دوستی کا یہ دور آگرہ مذاکرات تک چلتا رہا، جہاں انھوں نے پاک بھارت مشترکہ اعلامیے میں کشمیر کا ذکر نہ کرنے پر اعلامیے پر دستخط کرنے سے انکار کیا اور واک آؤٹ کے انداز میں آگر ہ سے وطن واپس چلے آئے۔ مگر اگلے ہی برس وہ دوبارہ بھارت گئے، دہلی میں انھوں نے اپنے آبائی گھر نہروالی حویلی کا دورہ کیا اور یہاں انھوں نے آگرہ والے پرویزمشرف کو خداحافظ کہہ کر دہلی والا پرویزمشرف بننے کا فیصلہ کیا۔ وہ کشمیر کو نظرانداز کرکے یا کنٹرول لائن کو نرم کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ معاہدے کی راہ پر چل پڑے۔ یہ قریب قریب وہی تصور تھا جس کی آبیاری نوازشریف نے کی تھی، مگر وہ اس کوشش پر جنرل پرویزمشرف کے معتوب ٹھیرے تھے۔ اب جنرل پرویزمشرف یہی کام خود کررہے تھے، مگر وکلا تحریک نے عین اُس وقت جنرل پرویز کے اقتدار کی چولیں ہلا کر رکھ دیں جب بقول خورشید محمود قصوری ’’ہم کشمیر پر معاہدے سے تین ماہ کی دُوری پر تھے‘‘۔

اب یوں لگتا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے نوازشریف اور جنرل پرویزمشرف کے راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا تھا، مگر تاریخ میں پہلی بار ایک سویلین حکمران عمران خان نے اس رنگ میں بھنگ ڈال دی اور کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنانے کی یہ کوشش بھی بہت قریب پہنچ کر کامیابی سے ہم کنار نہ ہوسکی۔

’اسرائیل امریکن جیوش کمیٹی‘ کا ایک وفد بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے ساتھ ملاقات کرکے اسرائیل اور بھارت کے درمیان تعاون کے نئے امکانات اور راستوں پر بات چیت کررہا تھا۔ اور دوسری طرف دہلی میں اسرائیلی سفارت خانے کا زرعی اتاشی یائر ایشیل کنڑول لائن کے قریب دو زرعی فارموں کا دورہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا:’’ اسرائیل [مقبوضہ] کشمیر میں بھارت اسرائیل زرعی منصوبے کے تحت دو سینٹر آف ایکسی لنس کھولنے کے لیے تیار ہے، ہم اپنی جدید ٹکنالوجی جموں و کشمیر کے کسانوں کو دینے کو تیار ہیں‘‘۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسرائیل کی طرف سے زرعی شعبے میں اس دلچسپی کا گرم جوشی سے خیرمقدم کیا ہے۔

اگرچہ خفیہ طور پر تو پنڈت نہرو ہی کے زمانے میں بھارت اسرائیل تعلقات کا دورشروع ہوچکا تھا جس نے ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے لیے اندرا حکومت کو معاونت بھی دی تھی۔ تاہم، ان تعلقات کا مسلسل انکار کیا جاتا رہا ، مگر اہلِ نظر جانتے تھے کہ ’بھارت اسرائیل تعلقات‘ ایک گہرے راستے پر گامزن ہیں۔ پھر اسرائیل اور بھارت کے درمیان کھلے تعلقات کا آغاز ۳۰سال قبل ہوا تھا، اور نریندر مودی کے دور میں یہ تعلقات بلندیوں کی انتہا پر پہنچ گئے۔ مودی نے ان تعلقات کو باضابطہ تسلیم کیا اور اپنی سرپرستی میں لیا۔ اس طرح وہ اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے بھارتی وزیراعظم بنے۔

بات یہیں ختم نہیں ہوئی، بلکہ نریندر مودی نے اس دورے میں فلسطینیوں کو مکمل طور پر نظرانداز کیا اور راملہ کا دورہ کرنے سے احتراز کیا۔ یہ اس بات کا پیغام تھا کہ بھارت اب فلسطینی عوام کی تحریک اور مستقبل کے بارے میں اپنا عالمی سفارتی موقف بھی مکمل طور پر تبدیل کرچکا ہے، جس میں فلسطینیوں کی الگ حیثیت یا ریاست کا کوئی تصور نہیں۔

۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی الگ حیثیت پر شب خون مارا تو مغرب کی خاموش تماشائی کی حیثیت اور کردار کی سطحیں کھلنا شروع ہوگئیں۔ بھارت نے کشمیر کی مناسبت سے تمام قانونی اور آئینی جھوٹے سچّے پردے نوچ کر پھینک دیئے اور دنیا کے چند طاقتور ملکوں کو بتادیا کہ اب وہ اس حوالے سے کسی کی بات نہیں سنے گا۔ یہ پیغام دیتے وقت سرفہرست اسرائیل تھا، جب کہ عرب دنیا دوسرے نمبر پر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ۵؍اگست کے بھارتی فسطائی قدم کے خلاف عرب دنیا نہ صرف خاموش رہی بلکہ پاکستان اور عمران خان کو بھی ایسے ہی ’صبر ‘کی تلقین کرتی رہی، جس ’صبر وتحمل‘ کا مظاہرہ انھوں نے فلسطین میں کیا تھا۔ صبر و تحمل کی اس ظالمانہ تلقین پر پاکستان اور عرب ملکوں کے درمیان تلخی کا ماحول بھی بنا اور پاکستان کے وزیراعظم نے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ کیا اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ہم خیال ملکوں کا اسلامی تعاون تنظیم (OIC) سے ہٹ کر ایک نیا پلیٹ فارم بنانے کی دھمکی دی۔ عرب ملکوں کے پیروں تلے سے زمین سرکنے ہی لگی تھی، اور پھر پاکستان کو اندر سے مجبور کرکے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے روک دیا گیا۔

اسرائیل، فلسطینیوں کی زمین انچوں، گزوں اور ایکڑوں میں ہتھیانے کا مجرم ہے۔ اسرائیل نے پہلا کام ہی یہ کیا تھا کہ فلسطینیوں سے منہ مانگے داموں زمینیں خریدیں۔ جب یہودیوں کی آبادی ان علاقوں میں بڑھ گئی تو یہودی اکابرین کے’اعلانِ بالفور‘ پر عمل درآمد کے اگلے مرحلے کا آغاز ہوا اور باقاعدہ اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا گیا، یعنی بین الاقوامی طاقتیں اسی موقعے کی تاک میں تھیں، انھوں نے بیرونی مدد کرکے اسرائیل کی ریاست قائم کردی۔ بعد میں فلسطینی در بہ در ہوتے چلے گئے اور ان کی زمینوں پر اسرائیلی بستیاں تعمیر ہوتی رہیں۔   آج مقبوضہ فلسطین میں خود فلسطین ایک نقطہ ہے اور اسرائیل ایک بڑا دائرہ۔

بھارت اور اسرائیل کے درمیان کھلے عام فوجی تعاون تو ۳۰برس سے جاری ہے، اور یہ تعاون ۱۹۹۰ء میں اُس وقت بے نقاب ہوا تھا جب کشمیری حریت پسندوں نے جھیل ڈل میں ایک شکارے پر حملہ کرکے اسرائیلی کمانڈوز کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ سیاحوں کے رُوپ میں کمانڈوز تھے جنھوں نے حریت پسندوں کو ٹف ٹائم دیا تھا۔ بعد میں یہ تعلق مختلف واقعات کی صورت میں عیاں ہوتا چلا گیا۔

اب بھارت نے کشمیریوں کی زمینیں ہتھیانے اور انھیں اقلیت میں بدلنے کے لیے اسرائیل کے تجربات سے استفادہ کرنا شروع کردیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ کشمیریوں کی زمینیں عرب باشندوں کے ناموں سے یا انھیں آگے رکھ کر خریدی یا استعمال میں لائی جائیں، مگر اس کے پیچھے حقیقت میں اسرائیل اور بھارت ہی ہوں گے۔ بھارت نے ۵؍ اگست کے فیصلے کے ذریعے متروکہ املاک کے نام پر مختلف جنگوں اور دوسرے مواقع پر نقل مکانی کرنے والے مسلمانوں کی زمینوں کا کنٹرول اور حقِ ملکیت حاصل کرناشروع کیا ہے۔

فی الحال تو انھیں نئی زمینیں حاصل کرنے کی ضرورت نہیں، مگر وہ ان ہتھیائی گئی زمینوں کو ماڈل بستیاں یا باغ بنانے کے بعد کشمیر کے دوسرے زمین داروں کو بھی اپنی طرف دیکھنے اور شراکت داری قبول کرنے پر مجبور کریں گے۔ اسی لیے کشمیر کی سب سے بڑی صنعت سیب کے باغات کو حیلوں بہانوں سے تباہ کیا جارہا ہے، تاکہ ان باغوں کے مالکان ’نئے تجربات‘ کے نام پر بھارت اور اسرائیل کی شراکت داری قبول کرلیں۔اُونٹ کو خیمے میں سر دینے تک مشکل ہوتی ہے، یہ کام ایک بار ہوجائے تو پھر خیمہ اس کے سر پر ہوتا ہے۔

کورونا کی تباہ کاریاں دُنیا بھر میں موت کے سائے پھیلا رہی ہیں، لیکن بھارت کی نسل پرست فسطائی حکومت، جموں و کشمیر میں خون کی بارش اور ظلم و زیادتی کی جملہ کارروائیوں میں، پہلے سے بڑھ کر مصروف ہے۔ یہاں پر چار مختصر مضامین میں حالات کی تصویر پیش کی جارہی ہے۔ ادارہ

رمضان میں شہادتیں

سلیم منصور خالد

یہ رمضان المبارک بھی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں مظلوم عوام کے لیے تشدد، بے حُرمتی، ظلم، گھروں کی آتش زدگی اور گولیوں کی بوچھاڑ میں ۲۵شہادتوں اور ۲۴۹زخمیوں کا دُکھ دے کر گیا ہے۔ تاہم، یہاں پر دو مثالیں پیش ہیں:

۶مئی ۲۰۲۰ء (۱۲رمضان) کو حزب المجاہدین کےچیف آپریشنل کمانڈر ریاض نائیکو اپنے ایک ساتھی عادل کے ساتھ، اپنے ہی گاؤں میں بڑے خون ریز معرکے میں شہید کردیے گئے۔ موضع بیگ پورہ اونتی پورہ، ضلع پلوامہ (مقبوضہ جموں و کشمیر) میں پیدا ہونے والے ریاض شہید کی زندگی اپنے اندر عمل اور عزیمت کے پہاڑ سمیٹے ہوئے ہے۔ انھوں نے ڈگری کالج پلوامہ سے بی ایس سی کی تعلیم مکمل کرکے، ایک نجی اسکول میں بطور استاد پڑھانا شروع کیا۔ان کا ارادہ ریاضی میں ایم ایس سی اور پھر پی ایچ ڈی کا تھا کہ بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں ۲۰۱۰ء میں گرفتارکرکے جیلوں میں تشدد کا نشانہ بنائے گئے۔ اور پھر رہائی کے ۲۰ روز بعد ۲۰۱۲ء میں حزب کا حصہ بن کر جدوجہد کے لیے اسکول اور گھر چھوڑ کر گھنے جنگلوں میں نکل گئے۔

وہ بُرہان مظفروانی کے قریبی ساتھی تھے۔ بُرہانی وانی کی شہادت کے چند ہی روز بعد ۱۳؍اگست ۲۰۱۶ء کو جب حزب کے چیف آپریشنل کمانڈر منصور الاسلام شہید ہوگئے تو یہ ذمہ داری ریاض نائیکو کے سپرد کی گئی، جنھوں نے خاص طور پر جنوبی وادیِ کشمیر میں جاں بازوں کو منظم کرنے اور ان کی مزاحمتی صلاحیت کو مؤثر بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔

ریاض شہید کے والد صاحب نے ایک بار بی بی سی کے نمایندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میرے بیٹے نے جس راستے کا انتخاب کیاہے، وہ درست راستہ ہے،مجھے اپنے بیٹے پر فخرہے۔ ہم ہروقت اس کی شہادت کی خبرسننے کے لیے ذہنی طورپر تیارہیں‘‘۔

ریاض ایک سنجیدہ معلّم اور متوازن طبیعت کے حامل نوجوان تھے۔ وہ نمایاں ہونے کے بجاے پیچھے رہ کر اور خاموشی سے مصروفِ کار رہنے پر کاربند تھے۔ تاہم، دو سال قبل ’الجزیرہ‘ کے نمایندے نے بڑی کوشش کرکے ان سے رابطہ کیا، تو انھوں نے اس سے گفتگو میں یہ الفاظ کہے تھے: ’’غاصبوں کے خلاف آزادی کی تحریکوں میں نشیب وفراز آتےرہتے ہیں ، لیکن پورے خلوص کے ساتھ اگر نگاہیں منزل پر لگی رہیں اورقدم اُس سمت بڑھ رہے ہوں، تو اللہ تعالیٰ ضرور کامیابی عطا فرماتا ہے اور ہماری منزل دُور نہیں ہے، ان شاء اللہ‘‘۔

اپنی اس جدوجہد کے دوران وہ کئی مرتبہ بھارتی سیکورٹی فورسز کے گھیرے میں آئے، لیکن کامیابی سے گھیراتوڑ کر اگلی منزل کی طرف گامزن ہوئے۔ یہ ۲۰۱۸ء کی بات ہے کہ ان کے والدگرامی کو بھارتی انتظامیہ نے گرفتار کرلیا۔ تب اسی سال ستمبر میں ریاض نائیکو نے اتنے جبر اور بہت سارے ناکوں کے باوجود ایک پولیس افسر اور گیارہ اہل کاروں اور رشتے داروں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ جس پر قابض بھارتیوں نے ان کے والدصاحب کو رہا کردیا۔ ساتھ ہی ریاض شہید نے ان لوگوں کو رہا کر دیا اور رہائی کے بعد ان لوگوں نے بتایا کہ ’’ہمارے ساتھ مجاہدین نے کوئی بُرا سلوک نہیں کیا‘‘۔ اس دوران ریاض شہیدنے کئی ویڈیو اور آڈیو پیغام سوشل میڈیا پرنشر کیے، جن میں جموں و کشمیر پولیس اہل کاروں کو آزادی کی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالنے کی باربار اپیل کی۔

یہ جدوجہد چونکہ ایک مسلسل عمل کا نام ہے، اس لیے اس دوران جہاں دشمن کے مسلح ادارے اور خفیہ ایجنسیاں ریاض شہید کا تعاقب کرتی رہیں وہاں بھارتیوں کا ایک دام ہم رنگ بھی برابر متحرک رہا۔ یاد رہے ۱۹۹۲ء میں بھارت نے مجاہدین کشمیر کو بدنام کرنے کے لیے’الاخوان‘ کے نام سے اپنے آلہ کاروں اور قاتلوں کا گروہ تیار کیا تھا، جنھوں نے ایک جانب مجاہدین کے بہت سے قیمتی افراد کو شہید کیا، تو دوسری جانب مجاہدین کی جدوجہد کوبدنام کرنے کے لیےکبھی صحافیوں کو اغوا کیا اور کبھی یورپی سیاحوں کو اُٹھا لیا اور پھر انھیں قتل کرکے مجاہدین کو بدنام کیا۔ اس امرکی سیّدعلی گیلانی اورمجاہدقیادت نے باربار مذمت کی اور بتایا کہ اخوان المسلمون کے نہایت محترم نام کو بدنام کرنے اور حُریت پسندوں میں پھوٹ ڈالنے اور بے اعتمادی پیدا کرنے کے لیے یہ گھناؤنی کارروائیاں کی جارہی ہیں اور یہ ایک بھارتی سازش ہے، جس سے حُریت پسندوں کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ افسوس کہ گذشتہ تین برسوں سے بالکل یہی کام’داعش‘ کےنام ، پرچم اور نشان کو استعمال کرکے کیا جارہا ہے، حالانکہ جموں و کشمیر میں برسرِ زمین کہیں داعش موجود نہیں ہے۔ لیکن بھارتی ایجنسیاں اپنی وضع کردہ تصاویر میں، خاص طور پر داعشی نشان دکھا کر،مجاہدین آزادی کو بدنام کرنے کی کوشش کرتی آرہی ہیں، جن سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔

ریاض نائیکو گذشتہ آٹھ برسوں میں دوسری بار اپنی والدہ سے ملنےخفیہ طور پر اپنے گھر آئے، تو داعش کے رُوپ میں مخبروں نےبھارتی ایجنسیوں کو خبر دے دی۔ اس موقعے پر یہ چار مجاہد: ریاض احمد، جنیدصحرائی ، ڈاکٹرسیف اللہ اور محمد عادل بھٹ موضع بیگ پورہ (پلوامہ) میں موجود تھے۔ ریاض نےفیصلہ کیا کہ بھارتی فوجیوں کا مقابلہ اس طرح کیا جائے گا کہ دومجاہد جنیدصحرائی اورسیف اللہ اس گھیرے کو توڑ کر نکل جائیں ، جب کہ محمد عادل بھٹ ان کے ہمراہ مقابلہ کرکے غاصب فوجیوں کو مصروف رکھیں۔ جنید اور سیف اپنے کمانڈر کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے تھے،لیکن ریاض نے سختی سے حکم دےکر انھیں نکل جانے کو کہا۔

ریاض نے گھرکےنچلے کمرے اورعادل نے مکان کے اُوپروالےکمرے سے مقابلہ شروع کیا۔ اسی دوران قصبے کے سیکڑوں نوجوان اپنے گھروں سے نکل آئے اور جارح فوجیوں کے خلاف احتجاج اور پتھراؤ کرنے لگے۔ جواب میں پیلٹ گن فائرنگ، آنسوگیس اورفائرنگ کے نتیجے میں احتجاجی دباؤ کم ہوا۔ اسی دوران میں چاروں طرف سے گھیرکر بے تحاشا فائرنگ کرکے ریاض اور عادل شہید کردیے گئے۔ بھارتی فوجیوں نے ان دونوں کی میتیں قبضے میں لے لیں۔ انھیں لواحقین کے سپرد نہیں کیا اور ضلع گاندربل میں سونہ مرگ کے مقام پردفن کردیا۔

پھر ۱۹مئی کو جنید صحرائی اور طارق احمد کو بھارتی فوجیوں نے سری نگر میں گھیرے میں لیتے ہوئے اس طرح شہید کردیا کہ اس کارروائی کے دوران ۱۵ گھروں کو نذرِ آتش کرتے ہوئے تباہی مچادی۔ یاد رہے جنید صحرائی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ(ایم بی اے) ۲۹سالہ نوجوان تھے، جنھوں نے ۲۰۱۸ء میں عسکریت کا راستہ منتخب کیا۔ وہ تحریک حُریت کے نہایت محترم رہنما اشرف صحرائی کے بیٹے ہیں۔ یادرہے کہ صحرائی صاحب، محترم سیّد علی گیلانی کے دست ِ راست اور کئی عشروں سے رفیق کار ہیں۔

کشمیر: پیلٹ گن پرعدالتی پابندی سے انکار

غازی سہیل خان

۱۱مارچ ۲۰۲۰ء میں جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے ایک عدالتی فیصلے نے کشمیریوںاور انسانی حقوق کے کارکنوں میں شدید بے چینی پیدا کر دی ہے ۔ہائی کورٹ نے پیلٹ گن (Pellet Gun) پر پابندی لگانے کے لیے دائر کی گئی ایک اپیل کو مسترد کر دیا۔ پیلٹ گن پر پابندی لگانے کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ ’’بے قابو بھیڑ کو طاقت سے قابو کرنا نا گزیر ہوتا ہے ‘‘۔

جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں وادیِ کشمیر میں مظاہرین کو قابو کرنے کے لیے فورسزاہل کاروں کی طرف سے پیلٹ گن استعمال کرنے کے خلاف یہ درخواست جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار   ایسوسی ایشن کے ذریعے ۲۰۱۶ء میں اس وقت دائر کی گئی تھی، جب وادی میںمعروف عسکری کمانڈر برہان مظفروانی کی ہلاکت کے بعد وادی میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جس میں بھارتی فورسز اہل کاروں نے احتجاج کو قابو کرنے کے لیے پیلٹ گن کا استعمال کیا تھا، جس کے سبب بہت سے زخمیوں کو اپنی بینائی مکمل یا جزوی طور پر کھونا پڑی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ’’کس جگہ، کس طرح سے طاقت کا استعمال کرنا ہے، یہ اس جگہ کے انچارج پر منحصر ہے ،جو اس جگہ تعینات ہے جہاں ہنگامہ ہو رہا ہوتا ہے‘‘ ۔

’پیلٹ گن‘ کشمیر میں احتجاجی مظاہرین کے خلاف استعمال میں اُ س وقت لائی جانے لگی جب ۱۱ جون ۲۰۱۰ء کو طفیل متو، راجوری کدل، سرینگرمیں آنسوگیس شل لگنے سے جاں بحق ہوا۔ تب وہ کوچنگ کلاس میں جا رہا تھا۔اس سے قبل ۱۳ سالہ ایک اور طالب علم وامق فاروق جنوری ۲۰۱۰ء میں نزدیک سے ایک آنسو گیس شل کا شکار ہو کر جاں بحق ہوگیا تھا۔

ان اموات کے بعد نہ تھمنے والے احتجاج کو روکنے کے لیے بھارتی فورسز نے پیلٹ گن کا استعما ل کرنا شروع کیا تھا۔ پھر زخمیوں اور بینائی سے محروم نوجوانوںکی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ پیلٹ بندوق ایک بار چلانے سے اس میں سے ۵۰۰ پیلٹ ایک بار آگے کی سمت میں نکل کربکھر جاتے ہیں۔ جو کوئی بھی ان چھرّوں کی زد میں آتا ہے وہ زخمی ہو جاتا ہے ۔پیلٹ کے چھرّے لگنے کے بعد انسان زخمی ہونے کے ساتھ ساتھ شدید قسم کا درد محسوس کرتاہے ۔پیلٹ چھرّے دُور سے انسان کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتے، لیکن جب یہ ۵۰۰میٹر کی دُوری سے چلائے جائیں توشدید نقصان پہنچاتے ہیں، خاص طور سے جب یہ انسان کے نازک حصوں پہ جا کے لگتے ہیں، جن میں آنکھیں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔

۲۰۱۰ء سے آج تک کشمیر میں ہزاروں نوجوان پیلٹ بندوق کی چھرّہ فائرنگ سے جزوی اور ایک سو سے زائد نوجوان کلی طور پر اپنی آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے ہیں اور ابھی تک پیلٹ گن کی وجہ سے ۱۴؍ افراد کی موت بھی واقع ہوچکی ہے ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق: ’’حکومت ہند، اس ہتھیار کو پیلٹ گن کہتی ہے، لیکن اصل میںیہ پمپ ایکشن شاٹ گن Pump Action Shotgun)) ہے‘‘ ۔ایمنسٹی کا مزید کہنا ہے کہ:’ ’یہ اکثر جنگلی شکار کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ ہتھیار احتجاج کو قابو کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا ہے‘‘۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے بارہا حکومت ہند سے کہا ہے کہ اس مہلک ہتھیار پر پابندی عائدکریں ۔

 وادیِ کشمیر میں پیلٹ گن کی وجہ سے خواتین ،بزرگ اور پیر و جواں سب متاثر ہوئے ہیں، تاہم متاثرین میں اکثریت نوجوانوں کی ہے ۔۲۰۱۸ء میں جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں سے تعلق رکھنے والی کم عمر بچی حبہ نثار پیلٹ لگنے کی وجہ سے اپنی ایک آنکھ کی بینائی کھو بیٹھی۔اسی طرح سے ایک اور بچی انشاء مشتاق بھی ۲۰۱۶ء میں پیلٹ لگنے کی وجہ سے اپنی دونوں آنکھوں کی روشنی سے محروم ہوکر محتاج ہو گئی ہے۔ یوں درجنوں نوجوان بینائی سے محرومی کے سبب زندگی محتاجی کے عالم میں گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

شمالی کشمیر سے ایک پیلٹ متاثر ہ نوجوان نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر انتہائی افسوس اور مایوسی کااظہار کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ’’ یہ ایک اُمید تھی وہ بھی چلی گئی اور ہم چاہتے تھے کہ اب کوئی نوجوان کشمیر میں اندھا نہ ہو، کوئی نوجوان زندگی بھر کے لیے محتاج نہ ہو، مگر عدالتی فیصلے نے ہم کو مزید مایوسی کا شکار بنا دیا ہے‘‘۔متاثرہ نوجوان کی دونوں آنکھیں پیلٹ لگنے کی وجہ سے بینائی سے محروم ہو گئی ہیں۔ اس نے کہا کہ’’ جب کوئی نوجوان پیلٹ کی وجہ سے اپنی آنکھوں کی بینائی کھو دیتا ہے تو وہ لازماً ذہنی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے،وہ محتاج ہوجاتا ہے اور چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتا، جس کی وجہ سے کبھی کبھی ایسے نوجوان خودکشی کی بھی کوشش کرتے ہیں‘‘۔

متاثرہ نوجوان نے بتایاکہ میرے ایک جاننے والے پیلٹ متاثر ہ نے گذشتہ سال خود کشی کرنے کی کوشش اس لیے کی کہ ان کے گھر میں دوپہر کا کھانا نہیں تھا اور یہ نوجوان اس گھر کا واحد کمانے والا فرد تھا، جس کی خود اپنی زندگی اب دوسروں کی محتاج ہو گئی ہے اور دیگر افراد خانہ بھی دو وقت کی روٹی کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ۔

اس کے ساتھ ہی ساتھ کشمیر میں ایک تحقیق کے مطابق: ’’پیلٹ متاثرین میں سے ۸۵ فی صد نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں ۔جس میں۲۵ء۷۹ فی صد معاشرے میں احساس تنہائی کا شکار،۱۵ء۷۹ فی صد پوسٹ ٹرامیٹک سٹرس ڈس آرڈر،۲۱ء۹ فی صد شدید پریشانی کی بیماریوں میں مبتلا ہو گئے ہیں‘‘۔ ڈاکٹروں نے ۳۸۰پیلٹ متاثرین کی تشخیص کے دوران نوٹ کیا: ’’۲۰۱۶ء کے بعد پیلٹ متاثرین مختلف قسم کی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو گئے ہیں۔

پیلٹ گن متاثرین میں سے ۹۳ فی صد افراد ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔ بہت سارے متاثرین نفسیاتی امراض کے ماہرین کے پاس جانے سے گریز کرتے ہیں‘‘۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بے شمار متاثرین اپنے آپ کو ذہنی امراض کا شکار نہیں سمجھتے ۔تاہم، بہت سارے مریضوں کی کونسلنگ اور دیگر ادویات کے ذریعے ان کا علاج کیا جاتا ہے۔

مجموعی طور پر کشمیر میں ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر عوام میںناراضی کا اظہارکیا جا رہا ہے۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ عدالت ہی ایک ذریعہ ہے، جس کے ذریعے اس مہلک ہتھیار سے نوجوانوں کو بچایا جا سکتا تھا ،لیکن اب اس عدالتی فیصلے نے وادی میں مایوسی پھیلا دی ہے اور انتظامیہ کو من مانی کے لیے مزید کھلی اجازت مل گئی ہے۔

کشمیر کا لاک ڈاؤن اور کورونا لاک ڈاؤن؟

سہیل بشیر کار

چند دن قبل ایک معروف ٹی وی اینکر رویش کمار پروگرام میں کہہ رہے تھے کہ ’’  Covid 19 لاک ڈاؤن اور کشمیر کے لاک ڈاؤن کا موازنہ نہیں ہوسکتا۔ اصل میں کچھ لوگ غیر حقیقت پسندانہ طور پر ان دونوں لاک ڈاؤنز کوبرابر کی چیز قرار دے رہے ہیں‘‘۔ رویش نے کہا کہ ’’کشمیر کا  لاک ڈاؤن کچھ اور ہی تھا، بے مثل تھا، یعنی کہ جبر اور ظلم کی بے مثال صورت‘‘۔ یہ سن کر جی چاہا کہ کیوں نہ کشمیر کے لاک ڈاؤن کا نقشہ کھینچوں اور کیوں نہ یہ پہلو بھی بیان ہو کہ کشمیریوں نے مصیبتوں کا مقابلہ کرنا سیکھا ہے اور وہ بڑے بھیانک اَدوار کو برداشت کرکے نہ صرف زندہ رہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوئے۔

یوں تو کشمیر میں ۹۰ کے عشرے سےہی ظلم و جبر کا سلسلہ چل رہا ہے، لیکن کشمیر نے کچھ ایسے اَدوار اور واقعات بھی دیکھے جن سے یوں لگا کہ شاید اس دور سے باہر آنا ناممکن ہے۔ چاہے وہ Catch and Kill آپریشن ہو، یا حکومت کی پشت پناہی میں اخوانی دہشت گردوں کا ظلم و قہر۔ چاہے ایک منصوبے کے تحت خواتین کی عصمت دری ہو یا ۱۰ ہزار سے زائد نوجوانوں کو اس طرح غائب کرنا کہ ان مظلوموں کا نام و نشان بھی نہ ملے۔

 کئی برسوں تک بغیر کسی مقدمے کے لوگوں کو نظربند رکھنا، یا تفتیشی سنٹروں میں لوگوں کو ناقابلِ بیان اور شرم ناک اذیتیں دینا، یہ سب کشمیریوں نے دیکھا، بھگتا اور مسلسل برداشت کرتے آرہے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود لوگ پُرعزم اور زندہ رہے ہیں۔ جس علاقے میں ہزاروں جواں بیٹوں کی میّتوں کو ان کے باپ کندھا دیں، اس علاقے کے لوگ کیسے جی رہے ہوں گے؟ یہ سوچ ہی اذیت ناک حدتک انسان کو مضطرب کر دیتی ہے، لیکن کشمیریوں نے یہ اندوہناک مناظر بھی انگیز کیے۔

گذشتہ برسوں میں بھارتی حکومت نے کچھ ایسے اقدامات کیے، جن سے نہ صرف ظلم کی ساری حدود پار ہوگئیں بلکہ کشمیریوں کو نہ ختم ہونے والے اندھیرے میں دھکیل دیا گیا۔ اگرچہ ۲۰۱۶ء سے ہی حکومت نے سخت اقدامات شروع کیے، جن میں حریت قائدین کو فرضی مقدمات میں پھنسانا وغیرہ وغیرہ، لیکن جولائی ۲۰۱۹ء کے آخری ہفتہ سے ہی وادیِ کشمیر میں بھارتی حکومت نے کچھ ایسی سرگرمیاں شروع کیں کہ ہر کشمیری کہنے لگا: ’’کچھ انہونی ہونے والی ہے‘‘۔ اگست کی پہلی تاریخ سے ان اقدامات میں اور شدت آئی تو ایسا محسوس ہونے لگا کہ بہت کچھ خراب ہونے والا ہے، خوف و دہشت کا ماحول چاروں طرف چھا گیا، ۱۰ لاکھ فوجیوں کے باوجود یہاں اضافی طور پر پیراملٹری فورسز منگوائی گئی۔

۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو سویرے ہر طرف کرفیو کا اعلان ہونے لگا۔ لینڈلائن، ٹیلی فون، انٹرنیٹ سب بند تھا، حتیٰ کہ کیبل نیٹ ورک بھی بند۔ جماعت اسلامی پر تو بہت پہلے ہی پابندی لگادی گئی تھی۔ جے کے ایل ایف پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی اور اس کے اکثر کارکن گرفتار تھے۔ حریت کی چھوٹی اور بڑی قیادت کو نظر بند کیا گیا تھا۔ ۵؍اگست کو مختلف ذرائع سے معلوم ہونے لگا کہ کشمیر میں ۱۸ ہزار افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے، حتیٰ کہ دہلی نواز لوگوں کو بھی۔ تین سابق وزراےاعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، اور محبوبہ مفتی نظر بند کیے گئے۔ وہی محبوبہ مفتی جو کچھ ہی مہینوں پہلے بی جے پی کی حکومت میں ساتھی اور حلیف تھیں۔ شاہ فیصل جو کبھی ’نوجوان قیادت‘ کی حیثیت سے کُل ہند میں اُبھارے جارہے تھے، وہ بھی نظر بند کر دیے گئے ۔ انھوں نے کچھ مہینے قبل بھارتی سول سروس سے استعفا دیا تھا اور کشمیر کے مسئلے کے لیے اپنے انداز سے میدان میں اتر چکے تھے۔

 ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ جس کسی فرد کی ۵۰  یا اس سے زیادہ افراد پر گرفت تھی وہ گرفتار کرلیا گیا ۔ایسا لاک ڈاؤن کہ کسی کو کسی کی خبر نہ تھی۔ لوگوں کو انتہائی مشکلات کا سامنا تھا۔ دکانیں، کاروباری ادارے آٹھ ماہ تک بند رہے۔ میرے ماموں حج پر تھے، ہمیں یا انھیں ہماری کوئی اطلاع نہ تھی۔ میرے انتہائی قریبی دوست اپنی اہلیہ جو کہ حاملہ تھی اور کافی بیمار بھی، کے ساتھ سری نگر میں تھے، ان کی کوئی اطلاع نہ تھی۔ ان کے نوزائیدہ بچے کا انتقال ہوگیا اور اس کی اطلاع دینے کے لیے انھیں خود میرے گھر آنا پڑا۔ ان واقعات سے اندازہ ہوگا کہ لوگوں کو کس قدر دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ ۷۱  دن تک فون بند تھے۔ آج کے دور میں کوئی تصور کر سکتا ہے ایسی زندگی کا؟ اب بھی انٹرنیٹ محض 2G سپیڈ پر چل رہا ہے۔

 اخبارات کے مالکان کو یہ حکم دیا گیا کہ ’’خبر وہی چھپے جو حکومت کے خلاف نہ ہو‘‘۔ کئی دنوں تک تو اخبارات کی اشاعت بھی روک دی گئی۔ پھر اخبارات میں اداریہ لکھنا اور شائع کرنا بھی بند کیا گیا۔ انھیں سخت ہدایت دی گئی کہ کوئی ایسا مضمون نہ چھپے، جس میں موجودہ حالات کا تذکرہ ہو۔ بی بی سی نے جب مقامی احتجاج کی رپورٹ کی، تو کشمیر کے گورنر نے کھلے عام انھیں دھمکی دی۔ ایسے حالات میں کشمیریوں نے نہایت ہی دانش مندانہ رویہ دکھایا۔ وہ کسی بڑے احتجاج کے لیے باہر نہیں نکلے۔ وہ جانتے تھے کہ ہندستان اپنی طاقت کا بے دریغ استعمال کرے گا۔ ہزاروں جانیں لے گا اور دنیا کو ذرائع ابلاغ پر اس شدید پابندی کے باعث کوئی خبر بھی نہ ہوگی۔

اگرچہ ہر کوئی دُکھی اور مجروح ہے، لیکن کشمیری جانتے ہیں کہ ہمیں جینا ہوگا، ہماری جدوجہد طویل ہوگی۔ ان مشکل حالات میں کشمیر کے لوگوں نے اگرچہ دکانیں بند رکھیں، لیکن سڑکوں پر نہیں آئے۔ انھوں نے معاشرے کے کمزور افراد کا خاص خیال رکھا۔ معمولات اگرچہ متاثر رہے لیکن زندگی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی۔ اسکول بند رہے، لیکن یہ قوم جانتی ہے کہ ترقی اور عروج کے لیے تعلیم کس قدر اہم ہے، لہٰذا اپنے اپنے علاقوں میں تعلیم یافتہ افراد نے مفت ٹیوشن سنٹر کھولے، جہاں بچوں اور بچیوں کو مفت تعلیم دی جانے لگی۔ انھیں معلوم ہے کہ انھیں طویل جدوجہد کرنی ہے، اور تازہ دم ہونے کے لیے کبھی پلٹنا بھی پڑتا ہے، غرض کشمیریوں نے جینا سیکھا۔

‌ آج پوری دنیا میں لاک ڈاؤن ہے، لیکن گرفتاریاں نہیں ہیں، ظلم و جبر نہیں ہے، انٹرنیٹ چل رہا ہے، لوگ فون کے ذریعے اپنوں کے ساتھ رابطے میں ہیں، حکومتی امداد ہے۔ ایسا لاک ڈاؤن کشمیریوں کے لیے سخت ہولناک لاک ڈاؤن کے مقابلے میں کچھ بھی نسبت نہیں رکھتا۔ کشمیری تو سخت جاں آزمایش میں بھی جینا سیکھ چکا ہے۔کہاں وہ لاک ڈاؤن اور کہاں یہ والا کورونا لاک ڈاؤن!

کشمیر کی شناخت پر بھارتی حملہ؟

عارف بہار

بھارتی حکومت نے کشمیر کی قومی، نسلی اورجغرافیائی شناخت کی تبدیلی اور خصوصی قوانین کے خاتمے کے آٹھ ماہ بعد اپنے اصل منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز کردیا ہے۔ ’جموں وکشمیر ری آگنائزیشن آرڈر۲۰۲۰‘ کے نام سے جاری کردہ ایک حکم نامے کے ذریعے ریاستی ڈومیسائل کی نئی تشریح کی گئی، جس کے تحت کشمیر میں پندرہ سال تک مقیم رہنے والے، اور یہاں سات سال تک تعلیم حاصل کرنے، اور دسویں اور بارہویں جماعت کا امتحان دینے والے ملازمت کے حق دار ہوں گے۔

 ماضی میں ۳۵-اے کے تحت ان تمام قوانین کی تدوین اور تیاری کا اختیار کشمیر اسمبلی کو حاصل تھا۔ ان دفعات کے خاتمے کے بعد اب بھارتی حکومت نے یہ سارے کام اپنے ذمے لے لیے ہیں۔ ڈومیسائل قانون کی نئی تشریح کے مطابق اب بھارتی حکومت کے کشمیر میں سات سال تک تعینات رہنے والے اعلیٰ افسروں، آل انڈیا سروس آفیسرز، بھارتی حکومت کے کشمیر میں نیم خودمختار اداروں، کارپوریشنوں، پبلک سیکٹر بنکوں، بھارتی یونی ورسٹیوں کے اہل کاروںکے بچے اور وہ خود یہاں کشمیر کے لیے مختص اسامیوں پر ملازمت کرنے کے اہل ہوں گے۔ فوری طور پر نافذالعمل اس قانون کے تحت بھارتی باشندے کشمیر میں مشتہر کردہ اور غیر مشتہر شدہ اسامیوں پر درخواست دینے کے اہل ہوں گے۔ اس قانون کے نفاذ کے لیے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا، جب دنیا کی توجہ کورونا بحران کی طرف ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم نے اپنے ٹویٹر پیغامات میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اس فیصلے کی شدید مذمت کی ہے کہ ’’ نریندر مودی کورونا کی جانب دنیا کی توجہ مبذول ہونے کا فائدہ اُٹھاکر کشمیر میں اپنے فاشسٹ ’ہندوتوا‘ ایجنڈے پر عمل درآمد کررہا ہے، اور دنیا کو اس کا نوٹس لینا چاہیے‘‘۔

وزیراعظم پاکستان نے اس قانون کو’’ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش اور عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی‘‘ قرار دیا۔ انھوں نے اسے ’’چوتھے جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا‘‘، اور ’’بھارت کے نئے قانون کو کلی طور پر مسترد کردیا ہے‘‘۔آزادکشمیر کے صدر مسعود خان، اور وزیراعظم فاروق حیدرنے بھی بھارت کے نئے قانون کی مذمت کی ہے۔

اس قانون کی زد چونکہ بلا تمیز مذہب اور علاقہ ریاست جموں وکشمیر کے تمام باشندوں پر پڑ رہی تھی، اس لیے کشمیری مسلمانوں سے زیادہ جموں کی ہندو آباد ی اور نوجوان نسل نے بھی اس فیصلے کے خلاف بے چینی ظاہر کرنا شروع کردی ہے۔ جموں کے ہندو نوجوانوں کو اس وقت وادی کے پریشان حال مسلمان طلبہ سے مسابقت درپیش ہے، اور وادی کی تین عشروں سے مخدوش صورتِ حال نے جموں کے ہندو طلبہ کے لیے مقابلے میں آسانی پیدا کردی ہے۔ مگر جب پورے بھارت سے ایک نئی کلاس یہاں مقابلے اور مسابقت میں اتر رہی ہے تو جموں کی ہندو آبادی اور نوجوان نسل کے لیے ایک نیا دردِ سر سامنے کھڑا نظر آیا۔

اس خطرے کو جموں میں پوری طرح محسوس کرتے ہوئے جموں کے علاقے کے ہندو طلبہ و طالبات نے مودی حکومت کو برسرِ عام ویڈیو پیغامات میں دھمکانا شروع کیا کہ ’کورونا وائرس‘ کا معاملہ ختم ہونے دو، پھر دیکھنا پورا جموں سڑکوں پر ہوگا۔ خود کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں نے بھی اس فیصلے کی یک زبان ہوکر مخالفت کی۔ اس طرح مخالفانہ ماحول کو اُبھرتا دیکھ کر بھارتی حکومت نے فوراً ہی اس قانون میں مزید ترمیم کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ ’’گریڈ ایک سے ۱۷ تک تمام اسامیاں جموں وکشمیر کے پشتینی باشندوں کے لیے ہی مختص رہیں گی‘‘۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے احتجاج اور مفاد کو دو مختلف زاویوں سے دیکھتی اور عمل کرتی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اس قانون کی زد صرف وادی کے نوجوانوں کے مفاد پر پڑتی تو نریندر مودی حکومت احتجاج اور مطالبات کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دیتی۔

اس دوران بھارت میں آباد کشمیری پنڈت اور معروف اداکار انوپم کھیر نے کشمیری زبان میں کشمیری مسلمانوں کو ایک زہر آلود پیغام دیا ہے۔ یادرہے انوپم کھیر مسلمان دشمن بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتہائی قریب ہے۔ اس نے کشمیری زبان کے تین الفاظ ’’رلو(ہم سے مل جاؤ)، گلیو (مرجاؤ)، ژلیو(بھاگ جاؤ)‘‘ پر مشتمل پیغام میں کشمیری مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ ’’تمھیں بھارت میں  گھل مل جانا چاہیے، بصورتِ دیگر تمھارے سامنے مرنے یا بھاگ جانے ہی کے دوراستے ہیں‘‘۔ انوپم کھیر کی یہ سوچ ایک فرد کے خیالات کی نہیں، بلکہ ایک پورے نسل پرست فسطائی نظام اور  نفرت انگیز ذہنیت کی عکاس ہے، اور بھارتی حکومت کے تمام اقدامات کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہے۔ اس سوچ میں وہی ہٹلر، مسولینی اور راتگو ملادیچ جھلکتے اور جھانکتے نظر آرہے ہیں، جن کی جانب حکومت ِ پاکستان ۵؍ اگست کے بعد سے دنیا کی توجہ مبذول کراتی آئی ہے۔

بھارت کے نئے قانونِ کشمیر پر بھارت کا اصل اور طویل المیعاد ایجنڈا فلسطین اسٹائل پر عمل درآمد کا آغاز کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی اور مسلم شناخت کو آبادی کے تناسب کی تبدیلی کے ذریعے بدلنا تھا۔ بھارت ۷۱برس تک اس راستے پر کبھی کچھوے، تو کبھی خرگوش کی چال چلتا رہا۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد نریندر مودی نے اس سمت میں خرگوش کی چال سے پیش قدمی کرنا شروع کی ہے۔

بھارت جس طرح کشمیر میں اپنا ایجنڈا یک طرفہ طور پر نافذکرنا چاہتا ہے، یہ دنیا کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اس سے صاف لگتا ہے کہ امریکا اور کچھ دوسری طاقتیں ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر، حقیقت میں بھارت کو کشمیر میں ہندوتوا ایجنڈے پر عمل درآمد کرواتے ہوئے اور آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی ٹھوس بنیادیں رکھنے کا موقع فراہم کررہی ہیں۔ اب بھارت نے کورونا کا فائدہ اُٹھا کر اس جانب عملی پیش قدمی شروع کردی ہے۔ یہ کشمیری مسلمان آبادی کو اپنے علاقے میں اقلیت میں بدلنے کی جانب اُٹھایا جانے والا ایک ٹھوس قدم ہے۔ اس کے بعد بھارت کے بڑے کاروباری گروپ کشمیریوں سے اونے پونے داموں زمینوں کی خریداری کرکے اس منصوبے کو آگے بڑھانا شروع کردیں گے۔ یہ وہ خطرہ ہے جس کی مدتوں سے نشان دہی کی جاتی رہی۔ بھارت کی اس منظم کوشش کو حالات کی قید میں پھنسے صرف کشمیری ناکام نہیں بنا سکتے۔ اس کام کے لیے پاکستان کی بھرپور مدد کی ضرورت ہے۔ حکومتِ پاکستان کو اس سلسلے میں بیان بازی سے آگے بڑھ کر کوئی پالیسی تشکیل دینا ہوگی۔