اسلامی تحریک نہ کمزوریوں سے مبرا ہے اور نہ تنقید ونصیحت سے بے نیاز، جیسا کہ اسلامی تحریکوں کے بعض مخلص وابستگان بے جا طور پر تصور کر لیتے ہیں۔ اس تصور کے حامل افراد تحریک اسلامی اور اسلام کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک تحریک کے کاموں اور حکمت عملیوں پر تنقیدی و تجزیاتی نگاہ ڈالنے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اسلام پر تنقید ہو رہی ہے۔ ایسا کچھ بعض لادین عناصر دوسرے انداز میں کرتے ہیں۔ وہ تحریک اسلامی کی تدبیری غلطی یا کمزوری گنواتے ہیں تو اسے براہِ راست اسلام سے منسوب کر دیتے ہیں اور اسلام اور اس کے احکام میں کیڑے ڈالنے لگتے ہیں۔
یہ تحریک بہرحال اُن انسانوں کی تحریک ہے، جو اسلام کے غلبے اور اس کا پیغام پھیلانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ تحریک سے وابستہ افراد اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے تمام ممکنہ جائز اسباب وتدابیر اختیار کرتے ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ نہیں ہے اور نہ ہونا چاہیے کہ ان کا ’اجتہاد‘ کسی وحی و الہام کے درجے میں آتا ہے یا ان کی بات کسی بحث وتنقید سے بلند ہے۔ بلاشبہہ ان میں سے کوئی بھی یہ زعم نہیں رکھتا کہ وہ مواخذہ ومحاسبہ سے بری ہے اور اس پر کیے جانے والے اعتراضات ایسے ہیں جنھیں جواب وصفائی کے درخور نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
اسی بنا پر ہمارا خیال ہے کہ تحریک کے وجود، ڈھانچے اور داخلی اسباب پر اس مناسبت سے بحث کی جانی چاہیے کہ یہ اب تک مطلوبہ معاشرے کی تعمیر میں کیوں کام یاب نہیں ہو رہی ہے اور اس کی کمزوری کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ یہاں ہم اختصار سے چند اہم اسباب کا جائزہ لیتے ہیں:
سب سے پہلی چیز جس کی لوگ شکایت کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ تحریک کے اندر نقد واحتساب کا عمل اگر یکسر ختم نہیں تو کمزور ضرور ہے۔ ’خود احتسابی‘ سے ہماری مراد یہ ہے کہ اپنی ذات کا محاسبہ کیا جائے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آیا ہے: ’’سمجھ دار وہ ہے، جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا‘‘ یعنی اس کا محاسبہ کرتا رہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’اپنا محاسبہ خود کرو قبل اس کے کہ کوئی تمھارا محاسبہ کرے۔ گویا اپنے اعمال کا وزن اپنے طور پر کر لیا کرو قبل اس کے کہ کوئی تمھارے اعمال کا وزن کرے۔ بعض بزرگ کہا کرتے تھے: ’’مومن اپنے نفس کا محاسبہ کرنے میں جابر سلطان سے بھی زیادہ شدید ہوتا ہے‘‘۔یہ تو ہوا انفرادی محاسبۂ نفس۔
جس طرح ایک فرد پر لازم ہے کہ وہ دیکھتا رہے کہ وہ اللہ کے معاملے میں کسی تفریط کا شکار نہ ہو، اور بندوں کے حقوق میں کوئی کمی نہ چھوڑتا ہو، تاکہ اس کا آج، کل سے بہتر بنے اور آنے والا کل اس کے آج سے بہتر ثابت ہو۔ اسی طرح جماعت پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے اندر اجتماعی محاسبے کے عمل کو جاری کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو گمراہی پر اکٹھے ہونے سے تو محفوظ رکھا ہے، لیکن جہاں تک جماعت کا تعلق ہے، وہ عملی دُنیا میں کام کرتے ہوئے خطا اور غلطی سے محفوظ نہیں سمجھی جاسکتی۔ خاص طور پر اجتہادی امور میں، جہاں ایک معاملے کے متعدد پہلو ہو سکتے ہیں۔ جتنا کسی پہلو میں صحت کا امکان ہوتا ہے، اس باب میں اتنا ہی غلطی اور لغزش کا بھی۔ خطا کا امکان بشری کمزوریوں کے ما تحت ہو سکتا ہے۔ تاہم، یہ ایمان وتقویٰ کے منافی نہیں بلکہ بشریت کے فطری لوازم میں سے ہے۔ خطا کے رُخ پر ان کے قدم بھی پھسل سکتے ہیں جو ہم میں سب سے کامل ایمان والے ہیں اور میزانِ عدل میں جن کے عمل قابل ترجیح ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ہی کے زمانۂ سعادت کو دیکھ لیجیے۔ غزوۂ احد کے بعد اللہ تعالیٰ کا ان کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟:
اَوَلَمَّآ اَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَيْھَا۰ۙ قُلْتُمْ اَنّٰى ہٰذَا۰ۭ قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۱۶۵ (اٰل عمرٰن۳: ۱۶۵) یہ تمھارا کیا حال ہے کہ جب تم پر مصیبت آ پڑی تو تم کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آئی؟ حالانکہ (جنگ بدر میں) اس سے دوگنی مصیبت تمھارے ہاتھوں (فریق مخالف پر) پڑ چکی ہے۔ اے نبیؐ، ان سے کہو، یہ مصیبت تمھاری اپنی لائی ہوئی ہے، اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
قرآن نے صحابہؓ کے بعض اقوال واعمال کا تعلق کمزوری اور غلطی کے حوالے ہی سے دکھایا ہے:
وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللہُ وَعْدَہٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِـاِذْنِہٖ۰ۚ حَتّٰٓي اِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ وَعَصَيْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَآ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ۰ۭ مِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الْاٰخِرَۃَ۰ۚ (اٰل عمٰرن۳: ۱۵۲)اللہ تعالیٰ نے (تائید ونصرت کا) جو وعدہ تم سے کیا تھا، وہ تو اس نے پورا کر دیا۔ ابتدا میں اس کے حکم سے تم ہی ان کو قتل کر رہے تھے۔ مگر جب تم نے کمزوری دکھائی اور اپنے کام میں باہم اختلاف کیا، اور جونہی وہ چیز اللہ نے تم کو دکھائی جس کی محبت میں تم گرفتار تھے (یعنی مال غنیمت) تم اپنے سردار کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھے، اس لیے کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے۔
تحریک اسلامی اپنی مالک آپ ہی نہیں ہے، یہ تو پوری امت اسلامیہ کی متاع ہے۔ یہی نہیں بلکہ آنے والی مسلمان نسلوں کو منتقل ہونے والا ورثہ ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اس کے اثر وقوت کے سرچشموں سے آگاہی بھی حاصل کی جائے اور اس کے ضعف واضمحلال سے سبق بھی سیکھا جائے۔
تحریک اسلامی کے بعض مخلص وابستگان تحریک میں تنقید کا دروازہ کھلنے سے اس لیے خوف زدہ رہتے ہیں کہ ’’اس طرح بعض لوگ اس کی اچھائیوں کو بھی برائیاں ظاہر کرنے لگ جائیں گے۔ ایسی تنقید اگر اصلاح کا باعث نہ بن سکے تو فساد ثابت ہوتی ہے‘‘۔ اسی نوعیت کا عذر بعض قدیم علما نے بھی اختیار کیا، جنھوں نے امت کو ’اجتہاد‘ کے دروازے بند کیے رکھنے کی نصیحت وتاکید کی۔ ان کا خیال تھا کہ ’’ایسے لوگ بھی ’اجتہاد‘ کے نام پر اللہ کے دین کو تختۂ مشق بنا ڈالیں گے جو اس کے اہل نہیں ہیں۔ دین میں بے حقیقت باتوں کو داخل کریں گے، علم وبصیرت کے بغیر اجتہادی فیصلے کریں گے، خود بھی گمراہی کا شکار ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘۔ لیکن ہمارے خیال میں ایسے لوگوں کے لیے یہ دروازے بند نہیں ہونے چاہییں جو علم وتقویٰ کے لحاظ سے معاملے پر قادر ہوں۔
اسی طرح تحریک اسلامی کے بعض عظیم قائدین پر تنقید کو بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔ حسن البناؒ ، ابو الاعلیٰ مودودیؒ ، سید قطبؒ اور مصطفےٰ السباعیؒ یا ایسی ہی دیگر فکری اور تحریکی قیادت پر جب تنقیدی رائے زنی کی گئی تو اسے اتہام گردانتے ہوئے یہ سمجھا گیا کہ ان شخصیات کی امامت وعظمت کو طعن کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، حالانکہ کوئی تنقید علمی سطح پر ہو یا عملی اور تحریکی سطح پر، کسی شخص کو علمی، دینی اور اخلاقی مرتبے سے نیچے نہیں لا سکتی۔ ان عظیم رہنماوں کی فکر صرف وابستگان تحریک ہی کی ملکیت نہیں ہے بلکہ یہ تو مسلمان نسلوں کی ملک ہے۔ چنانچہ نہایت ضروری ہے کہ سب ان کی فکر پر تنقیدی جائزے کے ذریعے سے یہ جان سکیں کہ کہاں مکمل اتفاق ہو سکتا ہے اور کن پہلوئوں میں اختلاف کی گنجایش ہے؟ مگر کسی ایک چیز میں اختلاف کا مطلب یہ نہیں کہ اُن کے مجموعی خیر کی قدر نہ کی جائے۔
خود ان مفکرین نے کبھی اپنے آپ کو معصوم نہیں سمجھا، نہ اپنی آراء ،اجتہاد اورفکر پر کبھی ’تقدس‘ کا رنگ چڑھایا۔ حسن البناؒ نے تو اپنے ’دس اصولوں، میں یہ بات بہ تاکید کہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا ہر شخص کی بات کو اختیار واخذ بھی کیا جاسکتا ہے اور چھوڑا بھی جاسکتا ہے۔
ان تمام حضرات نے خوب سے خوب تر کے سفر میں اپنے علمی موقف پہ نظرثانی میں کبھی عار نہیں سمجھا۔ سید قطبؒ التصویر الفنی ومشاہد القیامۃ فی القرآن میں قرآنی بلاغت کے منفرد اور عظیم نقاد کی حیثیت میں سامنے آئے۔ جب انھوں نے عدالۃ الاسلام ونظامۃ الحیاۃ لکھی تو اسلامی نظام معاشرت کی خوبیوں کے پرچارک بنے۔ اس سے آگے فکرِ بلند نے پرواز کی تو المعالم فی الطریق اور فی ظلال القرآن میں ایک زبردست تحریکی داعی کے قالب میں ڈھل کر معاشرے میں اسلامی انقلاب کے علَم بردار بن گئے۔ ان کے ایک شاگرد نے ان نظریات وآراء میں ان زبردست تبدیلیوں کے ضمن میں ان سے ایک مرتبہ کہا، ’’معاف کیجیے گا، آپ کے بھی امام شافعیؒ کی طرح دومذہب ہیں، ایک قدیم اور ایک جدید‘‘۔ سید قطبؒ نے اپنی فکر کے اجتہادی سفر میں ترقی وانقلاب کا اعتراف کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہ کی اور کہا، ’’ہاں، شافعی نے صرف فروع میں رائے بدلی، میں نے تو اصول میں بھی ایسا کیا ہے‘‘۔
سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی بعض تحریروں پر سیّد ابو الحسن علی ندویؒ کی تنقید کو خندہ پیشانی سے دیکھا اور اس کا ذرہ برابر بُرا نہ منایا، جب کہ ان کے رفقا کسی ایسی تنقید سے ناراض ہوتے ہیں۔ انھیں اس بات کا خدشہ ہوتا ہے کہ تحریک کے مخالفین ایسی کسی بھی تنقید کے نام پر تحریک اور اس کے زعما کے خلاف ناشائستہ مہم شروع کر دیں گے، قابل اعتراض نکات جمع کر کے انھیں اپنے نقطۂ نظر سے پرکھیں گے، اور چھوٹی بات کو بڑی بنا کر پیش کریں گے۔ پھر تحریک اور شخصیات سے ایسی باتیں منسوب کریں گے جن کا ان سے قطعاً کوئی تعلق نہ ہوگا۔
خود میرے ساتھ ایسا ہوچکا ہے۔ میں نے اپنی کتاب الحل الاسلامی میں تحریک اسلامی کی بعض داخلی مشکلات وموانع کا جائزہ لیا تھا۔ کچھ لوگوں نے اس میں سے کچھ لیا، کچھ کاٹا، کچھ بڑھایا اور کچھ گھٹایا۔اس طرح کی تحریف وخرافات سے قطع نظر خالص علمی تنقید جو اخلاص سے کی جائے، اسے نہیں روکنا چاہیے۔
معاصر اسلامی تحریک کو ایک دوسرے فتنے کا بھی سامنا ہے کہ تمام جماعتیں اور صفیں انتشار واختلاف اور تقسیم وشکستگی کا شکار ہیں۔ ہر جماعت صرف اپنے آپ ہی کو ’جماعت المسلمین‘ تصور کرتی ہے اور وہ یہ نہیں مانتی کہ وہ مسلمانوں میں سے ایک جماعت ہے۔ ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ وہی حق پر ہے، باقی سب گمراہی کے راستے پر گام زن ہیں۔ صرف اسی جماعت میں شامل ہونے والے جنت کے، اور آگ سے نجات کے مستحق ہوں گے۔ وہی واحد ’فرقۂ ناجیہ‘ ہے، باقی سب ہلاکت اور دوزخ میں پڑیں گے۔ یہ بات ان میں سے ہر جماعت اگر زبان قال سے نہیں کہتی تو زبان حال سے اسی کا اظہار کرتی ہے۔ اُمت جس انتشار اور عدم وحدت کا شکار تھی، اسی میں کئی قابلِ قدر تحریکیں ڈوب چکی ہیں۔ تحریک کا اصل ہدف غلبۂ اسلام تک نہ پہنچ پانے اور اس میں استقامت نہ دکھا سکنے میں اسی افتراق اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا دخل ہے، جس کا احساس بعض مخلص اور غیرت مند افراد کو ہے اور وہ اسی چیز کے شاکی اور فکرمند رہتے ہیں۔ فکر وعمل کا سفر اسی رُخ پر اگر ڈھلوان کی جانب جاری ہے تو اتفاق اور قربت اور یک جہتی کے رستے منقطع ہو جائیں گے، جس کے نتیجے میں جڑنا اور ملنا مشکل ہو جائے گا۔یاد رہے، یہ عمل پہلے پہل ایک ہی چھت کے نیچے نہایت معمولی چیزوں میں اختلاف سے شروع ہوا کرتا ہے۔
میں اسلامی جماعتوں کی تعداد کے خلاف نہیں ہوں، اسی لیے میں نے موجودہ دراڑوں کو بھرنے کے لیے لفظ ’وحدت‘ کے بجائے ’قربت‘ استعمال کیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سب اپنے اپنے وجود کو تحلیل کر کے ایک قیادت کے تحت ایک جماعت کی شکل اختیار کرلیں کیونکہ یہ ایک پُرکیف اور خوش گوار خواب کے سوا کچھ نہیں۔ عملی دُنیا میں سب کے لیے اتنا بڑا ایثار اور عجز آسان نہیں ہے، اِلا یہ کہ انسان فرشتہ صفت ہستیوں میں ڈھل جائیں۔ پھر جماعتوں کی تعداد اگر محض تنوع اور تخصص کے لیے ہو تو یہ کوئی ایسی قبیح بات بھی نہیں ہے، مگر شرط یہ ہے کہ یہ تصادم وتضاد کی حدود سے محفوظ رہے۔
ہو سکتا ہے، ایک جماعت جاہلانہ خرافات اور شرکیہ افعال اور افکار سے اپنے آپ کو پاک رکھنے میں خصوصیت رکھتی ہے، اور اس کا مقصود یہ ہو کہ مسلمانوں کے عقیدے درست کر کے قرآن وسنت کے مطابق بنایا جائے۔ lکوئی جماعت عبادات کو بدعات اور دیگر آمیزشوں سے پاک رکھنے کے لیے کوشاں ہو اور چاہتی ہو کہ لوگ دین کی تعلیمات کو سمجھ لیں۔ lممکن ہے کوئی جماعت مسلم خاندان کو درپیش بڑے گمبھیر مسائل کا حل تلاش کرنا چاہتی ہو۔ اس کی دعوت ہو کہ عورتیں شرعی پردے کو اپنائیں اور بن ٹھن کر نمائشِ زینت نہ کرتی پھریں۔ lاسی طرح بعض جماعتوں کے پیش نظر سیاسی انقلاب کا نصب العین ہو سکتا ہے اور وہ انتخاب کے میدان میں اُتر کر لادینی گروہوں کی سیاسی پیش قدمی کو روکنے کا لائحہ عمل رکھتی ہوں۔ lپانچویں قسم ان جماعتوں کی بھی ہو سکتی ہے جو تزکیہ وتربیت اور اجتماعی عمل کو اپنا ہدف سمجھتی ہیں اور اپنی جملہ کاوشیں اور وقت اسی مقصد کے لیے صرف کرتی ہیں۔ lپھر یہ بھی ممکن ہے کہ بعض جماعتیں عام لوگوں میں اپنا کام کرتی ہوں۔ lاس کے مقابلے میں کچھ دوسری جماعتیں صرف تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے لوگوں کو اپنا مخاطب بناتی ہوں۔ lبعض کی دعوت جذبات پر مضراب کا کام کرتی ہے اور بعض ایمانی کیفیات کو متاثر کرتی ہیں۔ lکچھ کا پیغام عقل وفکر کو اپیل کرتا ہے، خاص طور پر ایسے لبرل اور آزاد خیال ذہنوں کو اپیل کرتا ہے، جو مغرب زدگی کے باعث عقل ہی کو زندگی کے تمام اُمور کا معیار سمجھے بیٹھے ہیں۔
دیکھا جائے تو جماعتوں میں اسی نوعیت کے فرق ہیں۔ اس فرق کی بنا پر ہرجماعت اسی میدان میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہے، جس میدان کی وہ نمایندہ ہے اور جسے وہ کسی دوسرے میدان کے مقابلے میں زیادہ اہم سمجھتی ہے۔
یہ چیز اچھی بھی ہے اور مفید بھی بشرطیکہ سب ایک دوسرے کے بارے میں حُسن ظن کا مظاہرہ کریں اور اختلاف کے دائروں میں ایک دوسرے کی برداشت سے باہر نہ ہو جائیں۔ ’معروف‘ کے معاملے میں ایک دوسرے سے تعاون کریں اور سمجھائیں اور جب کبھی شعائر دین کی حفاظت جیسے بڑے مسائل درپیش ہوں تو سب ایک ہی صف میں کھڑے ہو جائیں اور قدم سے قدم ملا کر منزل مقصود تک پہنچیں۔ یہودیوں، عیسائیوں، اشتراکیوں، ملحدوں اور نسل پرست برہمنوں کے خلاف ایک محاذ بنا کردلیل، دعوت اور تنظیم سے مقابلہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد یاد رکھیں:
اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِہٖ صَفًّا كَاَنَّہُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ۴ (الصف ۶۱:۴) اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اُس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں، گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
آج اسلامی تحریک کی قیادت کا فرض ہے کہ اسلام کے لیے سرگرم اسلامی جماعتوں کے مابین قربت واتفاق کی ایسی فضا پیدا کرے جس میں سلجھے ہوئے اور تعلیم یافتہ نوجوان ایک تازہ جوش وولولہ کے ساتھ منزل کی جانب رواں دواں ہوں۔ عالم عرب میں خصوصیت سے جن جماعتوں کا ذکر مقصود ہے، وہ یہ ہیں: lاخوان المسلمون lسلفی جماعت lجماعت الجہاد lحزب تحریر l تبلیغی جماعت ___ اور عالم عرب سے باہر پاکستان، ہند اور بنگلہ دیش میں الگ الگ دساتیر اور نظم کے تحت جماعت اسلامی، نوری جماعت ترکی، جماعت شباب مسلم اور حزب اسلامی ملائشیا وغیرہ۔
ان اسلامی جماعتوں کو چاہیے کہ سب کے مفکرین اور قائدین کو ایک دوسرے کے اجتماعات اور دروس کے حلقوں میں بلائیں، تعاون کے مواقع تلاش کرنے اور اختلافات کی دراڑوں کو بھرنے کی کوشش کریں، تاکہ جزئیات میں اختلاف کی آگ ٹھنڈی ہو۔ دوسروں کے بارے میں، اگر وہ رائے یا عمل میں مکمل اتفاق نہ بھی رکھتے ہوں، تو بھی حُسن ظن کو فروغ دیا جائے۔ کوئی ایسا لائحہ عمل تیار ہونا چاہیے جس پر سب کا جمع ہونا ممکن ہو، تاکہ اسلام کے دشمنوں کے خلاف مقابلے میں سب ایک صف میں کھڑے ہو سکیں، خواہ دشمن کی تعداد کتنی ہی زیادہ ہو، تیاری کتنے ہی پہلوؤں سے ہو اور مکر کا جال کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو۔
ان جماعتوں میں فرق کا بڑھا چڑھا ہوا ہونا اور اختلافات کے شگاف کا وسیع ہونا ایک عذر ہے۔ آخر کام تو سب جماعتیں اسلام ہی کا کر رہی ہیں، پھر کیوں نہ قطع تعلق کی روش ختم ہو اور کشیدگی ورنجش کا ازالہ ہو؟
میرا خیال ہے کہ امام حسن البنا رحمہ اللہ کے وضع کردہ ’دس اصول‘ مذکورہ جماعتوں میں فکری وعملی اشتراک کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ یہ اصول امام شہیدؒ نے مصر کی دینی جماعتوں کو اتحاد کی کم از کم بنیاد کے طور پر پیش کیے تھے، تاکہ اسلام کے لیے کام کرنے والے جملہ عناصر میں فہم وفکر کی ’قربت‘ پیدا کی جا سکے اور ان میں پائے جانے والے اختلافات اور الزام تراشی کو ختم کیا جاسکے۔ نیتوں میں اخلاص ہو تو یہ ’دس اصول‘ آج بھی روشنی کا مینار بن سکتے ہیں۔ ان میں ایک اہم اصول یہ بھی ہے کہ ’’جس چیز پر ہمارا اتفاق ہو جائے گا، ہم ایک دوسرے سے تعاون کریں گے۔ اگر کسی چیز میں اختلاف باقی رہے گا تو (الزام تراشی اور اتہام بازی کے بجائے) ایک دوسرے سے معذرت کر لیں گے‘‘۔
میں نے حسن البناؒ سے بڑھ کر اسلام کے کاز کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کی دل داری اور احترامِ جذبات کی خواہش کسی میں نہیں پائی۔ وہ اتفاق اور رفاقت پر زور دیتے تھے، اور دلوں میں ’قربت‘ پیدا کرنے کے لیے نرم اور میٹھا اسلوب اپناتے تھے۔
اخوان المسلمون کے چھٹے اجتماع کے موقعے پر اپنے پیغام میں انھوں نے یہ کہا تھا:
جو مختلف گروہ اسلام کے لیے کام کر رہے ہیں، ان کے مابین نزاعات کے سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ محبت، اخوت، تعاون اور دوستی کے جذبات کام میں لائے جائیں، نقطۂ نظر میں قربت اور اتفاق کے مواقع تلاش کیے جائیں۔ فقہی اور مسلکی اختلاف، کسی خلیج اور نفرت کا باعث نہ بنے۔ دین کو پیش کیا جائے یا دین کا کام کیا جائے تو انتہائی نرم لہجے میں تاکہ بات دلوں میں اتر جائے اور عقل کو اپیل کرتی جائے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب نام، القاب اور تنظیموں کی ہیئت کے فرق ختم ہو جائیں گے۔ دین اسلام کے ماننے والے ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے۔ مومنانہ اخوت قائم ہوگی اور دین کے لیے کام کرنے والے تمام لوگ اسی جذبے سے سرشار ہو کر اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہوں گے۔
تحریک اسلامی کے کارکنوں اور قائدین کے لیے یہ ہرگز مناسب بات نہیں ہے کہ وہ ان شخصیات کی دینی خدمات یا ان کا وزن کم کریں، جو دعوتِ دین کے میدان میں سرگرم ہیں۔ یہ شخصیات اگرچہ انفرادی طور پر بھی کام کر رہی ہوں، لیکن پھر بھی ان کا وسیع حلقۂ اثر وتلامذہ ہے، ان کے مدارس اور مرید ہیں۔ بلاشبہہ ان میں سے بعض راست باز اور مخلص تو ایسے ہیں جو رائے عامہ میں ایک زبردست حرکت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ سب اُمت کا اثاثہ ہیں۔ ان کی قوت، صلاحیت اور دائرۂ اثر کو دین ہی کی تقویت کے لیے بروئے کار آنا اور لانا چاہیے۔
ہماری منظم جماعتی، تنظیمی اور ایک لگے بندھے پروگرام کے مطابق جدوجہد کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ان لوگوں کے اعتبار کو عوام میں ساقط کر دیں جو جماعت کی حدود کے اندر آکر کام نہیں کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس اس کا معقول جواز اور بعض مادی ومعنوی رکاوٹیں ہوں، جو انھیں منظم اور جماعتی اسلوب کار کا حصہ بننے سے روکے ہوئے ہوں۔ اگر وہ فکری، قلبی اور عملی طور پر جماعتی کام سے تعاون بھی کرتے ہوں تو پھر ان کے باضابطہ اور باقاعدہ طور پر رکن جماعت نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح بعض بڑی صاف ستھری، دعوت دین میں مخلص شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں جو سرکاری محکموں سے وابستہ ہوتی ہیں۔ یہ خواہ کسی درس گاہ میں کام کر رہی ہوں یا وزارت وغیرہ میں ملازم ہوں۔ محض سرکاری ملازم ہونے کے ’جرم‘ میں ان سے گریز اور لاتعلقی برتنا بھی کسی طور پر مناسب نہیں ہے۔ بعض اوقات سرکاری مشینری اور اداروں میں رہ کر یہ افراد بھی بڑے بڑے علمی اور عملی کام کرجانے کے قابل ہوتے ہیں۔
تحریک اسلامی جس نوعیت کے ضُعف کا شکار ہو رہی ہے، اس کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ عقلی اور علمی پہلو پر جذبات کی دھندچھا رہی ہے۔ تحریک کی راہوں میں بلاشبہ جذبات کا ایک کردار ضرور ہے، اس حد تک جذبات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جذبات اور قلبی کیفیات کی لطیف لہروں کو یکسر مسدود کر دینا مقصود نہیں ہے اور نہ یہ منشاہے کہ عقل کو اتنا غلبہ حاصل ہو جائے کہ تحریک اسلامی محض بے رحم عقلیت کے تابع ہو کر رہ جائے۔
یہ چیز نہ صرف تحریک کے مزاج کے خلاف ہے بلکہ اسلام کے مزاج سے بھی اسے کوئی نسبت نہیں ہے۔ اسلام عقل کا احترام سکھاتا ہے اور فکر ونظر کو کام میں لانے کی دعوت دیتا ہے، لیکن یہ کوئی مجرد جامد عقلی ومنطقی فلسفہ نہیں ہے، جس میں انسانی جذبات کا سرے سے کوئی گزر ہی نہ ہوتا ہو۔ اس کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے جذبات اور دلی واردات و احساسات کے عمل دخل سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں یہ جذبات اپنے مقام پر بڑی قدر وقیمت کے حامل ہیں۔ اللہ کے لیے محبت، اللہ کے لیے نفرت، خدا کی نعمتوں اور فراغت کو پا کر فرحت وطمانیت، نیکی پر مسرت کی کلیوں کاکھلنا، گناہ کے ارتکاب پر غم اور دُکھ کی کیفیت پیدا ہونا، اللہ کا خوف دلوں میں بیٹھنا اور اس سے امید بھرا ایک تعلق قائم کرنا، سب ایسے نفسیاتی و جذباتی احوال ہیں، جن کی اہمیت مسلّم ہے۔ اہل تصوف نے تو ان جذبات وکیفیات پر اپنی کتابوں میں پورے پورے باب باندھے ہیں۔ اس کی واضح مثالیں امام عبداللہ الانصاری الھروی [م: ۱۰۸۸ء] کی منازل السائرین اور علّامہ ابن قیم [م:۱۳۵۰ء]کے قلم سے اس کی شرح مدارج السالکین میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح کی اور بھی کئی کتب ہیں۔
اس حد تک جذبات سے نہ تو ناپسندیدگی ہے اور نہ ان کے وجود کے حوالے سے کوئی اختلاف۔ اسلام انسانی عقل اور قلب کو بیک وقت مخاطب کرتا ہے۔ اسی بنا پر اسلام نے ان لوگوں کو لائق مذمت ٹھیرایا ہے، جو عقل وفہم کو استعمال نہیں کرتے۔ ساتھ ہی ان لوگوں کی مذمت بھی آئی ہے، جن کے دل اللہ کے ذکر اور پیغام سے نرم نہیں پڑتے۔ چنانچہ عقل وجذبات کو بیک وقت کام میں لانا ضروری ہے۔ متفق علیہ حدیث ہمیں یہی حقیقت سمجھاتی ہے: ’’جس شخص میں تین چیزیں پائی جائیں، اس نے حقیقت میں ایمان کی حلاوت کا مزا چکھ لیا: یہ کہ اللہ اور رسولؐ سے بڑھ کر اس کے لیے کوئی محبوب نہ ہو۔ اس کی محبت اور نفرت خالص اللہ کے لیے ہو۔ اسلام سے دوبارہ کفر کی طرف پلٹ کر جانا اس کے لیے ایسے ہی ناگوار ہو جیسے اسے اپنا آگ میں جلایا جانا ناگوار ہے‘‘۔
تحریک اسلامی کے مزاج میں ایمانی کیفیات، شعور ووجدان کا جہاں پاس و لحاظ موجود ہے، وہیں پر جذبات کی لپک کے لیے گنجائش بھی ہے۔ تحریک کے لیے ضروری ہے کہ عقل کی روشنی میں جہد وعمل کا اہتمام کرے اور محبت، اخوت اور ایثار جیسے جذبوں کے سوتوں کو بھی خشک نہ ہونے دے۔
تحریک اسلامی، اسلام کے غلبے کے لیے کوشاں ہے۔ اس میں فہم وفکر کی ہم آہنگی بھی ہونی چاہیے، تنظیمی وحدت بھی قائم رہنی چاہیے اور ساتھ ساتھ جذباتی رشتے بھی مستحکم رہنے چاہییں۔ قلوب کی تالیف ہوتی رہے۔ دل، اللہ کی محبت کی رسی سے باہم جڑے رہیں۔ وہ کیفیت پیدا ہو، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بطور احسان بیان فرمایا ہے:
ہُوَالَّذِيْٓ اَيَّدَكَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ۶۲ۙ وَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ۰ۭ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِہِمْ وَلٰكِنَّ اللہَ اَلَّفَ بَيْنَہُمْ۰ۭ اِنَّہٗ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۶۳(انفال۸: ۶۲-۶۳) وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید کی اور مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے، یقیناًوہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔
امام حسن البناؒ ہر منگل کو اپنے ہفتہ وار خطبوں اور تقریروں میں اس امر کی شدید خواہش اور کوشش کرتے تھے کہ دلوں کو ایمان ومحبت کے ذریعے سے ہمیشہ کی تازگی اور زندگی بخشی جائے۔ اسی بنا پر انھوں نے ارکان بیعت کے لیے ’اخوت‘ کو تعلق کی علامت بنایا اور جماعت کا نام ’الاخوان المسلمون‘ رکھا۔ امام شہید اپنے پر اثر ارشادات میں بتاتے تھے: ’’ہماری دعوت کی تین بنیادیں ہیں: عمیق ایمان، دقیق فہم، وثیق حُب۔
ان ساری گزارشات کی غرض یہ بتانا تھا کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تحریک اسلامی کے اندر محبت ، خلوص اور جذبات کا یہ مقام اور اہمیت ہے۔ اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’جب ہم کہتے ہیں کہ تحریک کے اندر جذبات کی کارفرمائی بڑھ گئی ہے تو درحقیقت ہماری اس سے مراد کیا ہے؟‘‘ اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ تحریک اسلامی میں جملہ حالات وتعلقات، فکر وعمل، افعال واقوال، آراء وموقف، شخصیات اور اجتماعی ہیئت میں انفعالیت اور جذبات سے مغلوبیت کا حصہ عقل کے استعمال سے زیادہ ہے۔ غلبۂ جذبات کے رجحان کے سلسلے میں متعدد دلائل ومظاہر موجود ہیں اور ان کے اثر سے منفی نتائج کی بھی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔(جاری)