پہلا وہ گھر خدا کا....
مسجد حرام میں قدم رکھا تو ایک عجیب سی طمانیت کا احساس ہوا۔ راستہ ڈھلواں ہے، دونوں طرف فرشِ مسجد پر قیمتی قالین بچھے ہیں۔ سامنے کعبہ کی مختصر سی عمارت ہے۔ اتنی وسیع کائنات کے مالک کا اتنا چھوٹا سا گھر اگر تصویروں اور فلموں میں پہلے نہ دیکھتا ہوتا تو یقینا حیرت ہوتی۔ اس گھر کے اردگرد کا صحن بہت وسیع ہے۔ صحن میں سفید سنگ ِ مرمر کا فرش ہے اور اس پتھر کی خاصیت یہ ہے کہ یہ سخت دھوپ میں بھی گرم نہیں ہوتا۔ گرم ہونا تو درکنار اس کی خنکی میں ذرہ بھر فرق نہیں آتا۔ صحن حرم میں قدم رکھا تو تلوئوں کو اتنی خنکی کا احساس ہوا جیسے کسی نے ان پر ملائی کے پھاہے رکھ دیے ہوں۔
حرم شریف نشیب میں واقع ہے۔ ایک پیالہ ساکہ جس کے کناروں پر مسجدالحرام کی دومنزلہ عمارت ہے۔ حرم کے مینار اتنے اُونچے نہیں کہ پگڑی سنبھالنی پڑے۔ اس لمحے میں نے صرف اتنا کچھ دیکھا یا دیکھ سکا۔ میں حرمِ کعبہ کے پہلے نظارے میں یوں کھوگیا تھا کہ ماحول کی ہرتفصیل نگاہوں سے اوجھل ہوگئی تھی۔ یہ لمحہ بہت عظیم تھا اور اب بھی ہے۔ (ارضِ تمنا)
میں باب السلام کے سامنے کھڑا تھا۔ حرم میں داخل ہوا اور کعبہ کی کشش کو دل میں محسوس کرتے ہوئے بیرونی ہال سے گزرتے ہوئے ان سیڑھیوں کے پاس جاپہنچا جو کھلے آسمان تلے موجود اس وسیع احاطے تک جاتی ہیں جس کے بیچوں بیچ، سیاہ غلاف میں ملفوف، وہ مکعب عمارت ہے جسے کوئی چار ہزار سال قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی مدد سے تعمیر کیا تھا اور جو سیکڑوں سال سے اربوں انسانوں کی روحانی زندگی کا مرکز رہی ہے۔
سنگ ِ مرمر سے بنے احاطے کے وسط میں، اَن گنت ستاروں سے مزین آسمان تلے، اپنے سیاہ لبادے میں ملفوف، خاموش، اَزلی برکتوں سے معمور ایک سادہ سی عمارت میں جواَب دل میں یوں دھمک پیدا کررہی تھی جیسے ابھی اسے اس کے پنجر سے رہا کردے گی۔ پھر زبان نے اقرار کیا: اللہُ اَکْبَرُ، اللہُ اَکْبَرُ، اللہَ اَکْبَرُ، لَا اِلٰہ اِلَّا اللہَ وَاللہُ اَکْبَرُ ،اور دل نے گواہی دی کہ یقینا اللہ کی ذات عظیم ترین ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
آنکھیں سیاہ پوش عمارت پر مرتکز اور دل ایک عجیب سُرور سے سرشار، پائوں سرد، سنگ ِ مرمر پر یوںجیسے اس سحرانگیز لمحے میں جسم کے وزن سے آزاد ہوچکے ہوں۔ نہ جانے کتنا وقت گزرگیا۔ بالآخر دل میں کوئی چیز پگھلی، آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جیسے کوئی چشمہ خاموشی سے جاری ہوگیا ہو۔
ہزاروں مرد، عورتیں اور بچّے صحن میں موجود تھے۔ ان میں طواف کرنے والے بھی تھے اور وہ بھی جورات کے اس اوّل پہر میں کعبہ کے گرد عبادت میں مصروف تھے۔ طواف کرنے والوں میں احرام میں ملبوس زائر بھی تھے اور عام کپڑوں میں ملفوف مکین بھی، سب کعبہ سے نکلنے والی پُراسرار جذبی شعاعوں کی غیرمرئی کشش میں محصور، متحرک بچّے، عورتیں، مرد اور فرشتے جو اس رات بیت اللہ کی زیارت کے لیے بلائے گئے تھے۔ نظردرِ کعبہ پر مرتکز کیے، صحن کی طرف اُترنے والی سیڑھیوں پر کھڑا ایک حاجت مند فقیر جس کا دل اب کعبہ کی بڑھتی ہوئی کشش سے یوں دھڑک رہا تھا جیسے ابھی پھٹ جائے گا اور اپنے قفس کو توڑ کر کسی پرندے کی طرح پھڑک کر ڈھیر ہوجائے گا۔(سحرِمدینہ)
یہ سیاہ پتھروں سے بنا ہوا چوکور کمرہ حرم شریف کی عالی شان دومنزلہ عمارت کے درمیان اس طرح مسند نشیں ہے جیسے کسی قیمتی انگوٹھی میں کوئی بیش قیمت سیاہ پتھر آویزاں ہو، جس سے بے شمار کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ میں اور میری اہلیہ عجب عالمِ استغراق میں تھے۔ دُعا کے لیے ہاتھ بلند تھے۔ سارے اعزا، اقربا، احباب جو دُنیا میں تھے یا دُنیا سے جاچکے تھے، ایک ایک کرکے یاد آرہے تھے۔ بیت اللہ کے سنہرے دروازے پر نگاہ ٹکی ہوئی تھی کہ کاش! یہ کھل جاتا اور کاش! ہم اندر کا منظر بھی دیکھ لیتے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اللہ کا گھر تو بالکل ایک عام انسان کے گھرسے بھی معمولی ہے مگر اس کے اردگرد بقعہ نُور بنی ہوئی بلندوبالا عمارتیں حقیر محسوس ہورہی تھی۔ اللہ کے گھر میں کوئی چمک دمک نہ تھی مگر مسجد حرام کی پُرشکوہ محرابیں، سلیٹی دھاریوں والے سنگ مرمر کی بلندوبالا دیواریں، پُروقار و چمک دار ستون جن کو بڑے بڑے روشن فانوس اپنی شعاعوں سے جگمگا رہے تھے، لیکن کسی زائر کی نگاہ اللہ کے گھر کے سامنے ان عمارات پر نہیں ٹکتی تھیں۔ سب کی نگاہوں کا محور وہ سیاہ غلاف سے ڈھکا ہوا چوکور کمرہ تھا جو ہر طرح کی زیبائش سے بے نیاز تھا۔ اس گھر کے جاںنثار اگر اجازت ہوتی تو اسے سونے کی چادروں سے ڈھک دیتے مگر اس گھر کے مالک کی یہی مرضی تھی کہ اس کا گھر بھی عام انسانوں کے گھر جیسا نظر آئے اور اسی صورت میں برقرار رہے جس شکل میں اسے معمارِاوّل حضرت ابراہیم ؑ نے تعمیر کیا تھا۔ (جلوے ہیں بے شمار)
حرم کا صحن بقعۂ نُور بنا ہوا ہے۔ برآمدوں میں فروزاں ہزاروں یا شاید لاکھوں برقی قمقموں اور فانوسوں کی روشنی خانۂ خدا کی طرف لپک رہی ہے۔ قطار اندر قطار بیٹھے ان ہزاروں لاکھوں زائرین میں سے کچھ اللہ کے ایسے پُراسرار بندے بھی ہیں جن کے زمانے عجیب اور جن کے فسانے غریب ہیں۔
مغرب کی نماز سے ذرا پہلے ایک ایرانی نوجوان میرے پہلو میں بیٹھا تھا۔ اذان کی آواز بلند ہوتے ہی اُس نے جھٹ سے کوئی نمبر ملایا، لمحہ بھر کو بات کی اور پھر فون بند کیے بغیر ہاتھ میں پکڑے رکھا۔ اذان ختم ہوئی تو اُس نے فون بند کردیا اور میری طرف دیکھ کر بولا: ’’میری ماں نے کہا تھا کہ مجھے حرم شریف کی اذان ضرور سنانا‘‘۔ واقعی ساری دُنیا کی مائیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔
میں مسلسل کعبے کے غلاف کو دیکھ رہا ہوں۔ حجراَسود کے عین اُوپر ، چھت کے قریب سنہری ریشے سے بنے الفاظ یَاحَیُّیْ یَاقُیُّوْمُ،میری نگاہوں کے سامنے ہیں۔ شام، رات میں تحلیل ہورہی ہے، لیکن ہزاروں لاکھوں برقی قمقموں کی روشنی نے حرم کے دالان کو نُور میں نہلا دیا ہے۔ ایک دودن بعد جب مَیں یہاں سے چلا جائوں گا تو بھی یہ دالان، یہ روشنیاں، یہ بیت اللہ اِسی طرح موجود ہوں گے۔
یَاحَیُّیْ یَاقُیُّوْمُ،میں تو شاید پھر سے دُنیا کے جھمیلوں میں تجھے بھول جائوں، لیکن تو مجھے یاد رکھنا، تو نے بھلا دیا تو میں کہاں جائوں گا؟
اللہ کے گھر کے سامنے ہم نہ جانے کتنی دیر دست بہ دُعا رہے، یاد نہیں۔ سفر کی تکان غائب ہوچکی تھی اور ہم مطاف میں داخل ہوکر عشاق کے اس سیل رواں کا ایک حصہ بن گئے تھے جو مصروفِ طواف تھا۔ کبھی نگاہ ملتزم پر جاکر رُک جاتی، کبھی حجراَسود کو دُور سے بوسہ دیتی، کبھی رکن یمانی پر دل اٹک جاتا اور کبھی حطیم کے اندر داخل ہوکر نماز ادا کرنے کی اُمنگ دل پر چھا جاتی۔طواف تھا کہ جاری تھا۔ میری اہلیہ اپنے گھٹنوں کے درد کو بھول کر اس طرح چل رہی تھی گویا جنّت کی کسی کیاری میں گلگشت کر رہی ہوں۔ ہمارے آگے پیچھے، دائیں بائیں،کبھی ایرانی، کبھی ترکی، کبھی مصری، کبھی شامی، کبھی امریکی و یوروپین، کبھی وسط ایشیا و چین کے مخصوص رنگ و بناوٹ کے مرد وعورت اس طرح چل رہے تھے جیسے سمندر میں بے شمار موجیں اُٹھ رہی ہوں مگر ہرشخص اسی فکر میں غلطاں کہ اس کی وجہ سے دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے، سب کی زباں پر دُعائیں ، کوئی بآواز بلند اور کوئی دھیرے دھیرے اللہ کے کلام اور مسنون دُعائوں کے ورد میں مصروف ہے۔(جلوے ہیں بے شمار )
رکن یمانی کے پاس سے گزرتے ہوئے مَیں کعبہ کی دیوار سے متصل اس قطار میں جاکھڑا ہوا جو حجراَسود کی طرف بڑھ رہی تھی۔ لبوں پر یہ دُعا تھی:
اے ہمارے ربّ! ہمیں عنایت فرما، دُنیا اور آخرت کی بھلائی، اور بچا ہمیں آیندہ کے عذاب سے، اور داخل فرما ہمیں جنّت میں، نیک لوگوں کے ساتھ، اے بڑے غالب، بڑی بخشش والے، اے تمام جہانوں کے پالنے والے۔
قطار زیادہ طویل نہ تھی اور اس وقت قطار کے باہر سے حجراَسود کی طرف آنے والوں پر سخت پہرہ تھا۔ اس لیے لوگ تیزی سے سیاہ پتھر تک پہنچ رہے تھے۔ وہ آگے بڑھتے، ہونٹوں کو حجراَسود پر رکھتے اور دوتین ثانیوں میں پہرے دار ان کے سر کو پیچھے دھکیل دیتا۔ ایک شخص پیچھے ہٹایا جاتا تو فوراً دوسرا اس کی جگہ لے لیتا۔ میری باری آئی، میں نے سرجھکا کر چاندنی کے طاقچے میں رکھے ہوئے پتھر پر ہونٹ رکھے، پتھر چمکا، اس کے اندر ہزارہا سفید اور سبز لکیریں پل بھر کو جگمگائیں، پھر ایک سخت اور کھردرے ہاتھ نے میرے سر کو پیچھے دھکیل دیا، اور ایک ہجوم مجھے اپنے ساتھ لیتا ہوا ملتزم کی طرف بڑھا۔
درِ کعبہ اور حجراَسود کے درمیان واقع دیوار کے قریب کھڑے پندرہ بیس آدمی،کچھ گریہ کناں، کچھ خاموش، کچھ ذرا بلندآواز میں رحمت ِ خداوندی کے خواستگار اور ان میں شامل ایک فقیر جو طواف کے بعد کعبہ کے ربّ کی خوشنودی اور اعانت کا طالب تھا۔ کچھ دیر کے بعد وہ ادھیڑعمر آدمی جس کے پیچھے کھڑا میں دیوارِ کعبہ کو چھونے کا منتظر تھا، آہستگی سے پیچھے ہٹا ، ایک نظر مجھ پر ڈالی اور اپنی آنسوئوں سے تر داڑھی اور چہرے کے نقوش کی اَنمٹ یاد چھوڑتے ہوئے ہجوم میں اوجھل ہوگیا۔
میں آگے بڑھا، کعبہ کے غلاف کو چھوا اور پھر غلاف کے نیچے موجود پتھروں کو۔ جیسے ہی ہاتھ پتھروں سے مَس ہوئے، سارے وجود میں ایک غیرمرئی طاقت ور لہر دوڑ گئی، جسم کپکپایا اور دل نے التجا کی:
یااللہ! اے اس قدیم گھر کے ربّ! آزاد فرما ہماری اور ہمارے آبا کی گردنوں کو، اور ہماری مائوں اور بھائیوں کی اولاد کی گردنوں کو، اے صاحب جُود و کرم و فضل و عطا! اے احسان کرنے والے! اے اللہ! ہمارے تمام کاموں کا انجام اچھا فرما اور ہمیں بچالے دُنیا کی رُسوائی سے اور آخرت کے عذاب سے۔ اے اللہ! میں تیرا بندہ، تیرے بندے کا بیٹا، تیرے گھرکے نیچے، تیرے دَر سے لپٹا، گریۂ کناں ہوں، تیری رحمت کا اُمیدوار اور تیرے عذابِ نار سے خائف، اے قدیم الاحسان! اے اللہ! تجھ سے التجا ہے کہ میرے ذکر کو قبول فرما، اورمیرے بوجھ کو ہلکا کردے، میرے کاموں کی اصلاح فرما اور میرے قلب کو پاک و صاف کردے، اور روشن کردے میرے لیے میری قبر کو اور بخش دے میرے گناہوں کو، سوال کرتا ہوں میں تجھ سے جنت میں اعلیٰ درجات کا۔
نہ جانے کتنا وقت گزر گیا۔ ہاتھ دیوارِ کعبہ پر، ذہن ماضی و حال و مستقبل کی قید سے آزاد، اور دل ایک عجب سُرور میں مگن، ایک سُرور جس میں حُزن بھی تھا اور طمانیت بھی ، اور ایک غالب احساس جو سارے وجود میں دوڑ رہا تھا۔میرے اردگرد ہزاروں انسان دائرہ در دائرہ کعبہ کے گرد محوِ طواف تھے۔ ان سے پرے، صحنِ کعبہ میں بیٹھے ہوئے کئی ہزارمردو زن اور بچّے تھے۔ پھر حرم کی وسیع عمارات میں موجود لوگ اور اس سے پرے اربوں انسان زمین کے طول و عرض میں پھیلے، اپنے اپنے روزمرہ کے دھندوں میں مصروف تھے۔ کتنی بڑی دُنیا ہے، کتنا وسیع کاروبارِ حیات ہے، اور اس سے الگ، اس مقام پر کھڑا، ایک تنہا انسان، ہزاروں انسانوں کے درمیان، دو سادہ چادروں میں ملبوس، ایک زائر، اپنے رب سے گریہ کرتا ہوا، اس کا بندہ!
وہ ایک نرم ہاتھ تھا لیکن اس کے اندر نہ جانے کیا پکار تھی کہ جیسے ہی مَیں نےاسے اپنے شانے پر محسوس کیا، میں دیوار سے پیچھے ہٹ آیا اور احرام میں ملبوس ادھیڑ عمر آدمی، جس نے مجھ سے کامل خاموشی کے ساتھ دیوارِ کعبہ کے قرب میں کھڑے ہونے کی فہمائش کی تھی، میری جگہ پر جاکھڑا ہوا۔ اس خاموش تبادلے میں ایک خوبی تھی، ایک بہائو تھا، ایک باہمی رشتے کی خوشبو تھی، ایک نسبت تھی جو دین حنیف سے منسلک انسانوں کو ایک دوسرے کا مونس بناتی ہے۔
چند قدم پیچھے مقامِ ابراہیم تھا اور شیشے کے فریم میں بند وہ پتھر جس پر دو پائوں یوں ثبت تھے جیسے ابھی ان میں زندگی کی لہر دوڑ جائے گی۔مقامِ ابراہیم ؑ کے پاس دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد میں نے کعبہ کی طرف نگاہ اُٹھائی۔ وہاں وہی قدیم دستور تھا، اسی قدیم رسم کی رونق تھی جو ہزاروں برس سے جاری ہے، دائرہ دَر دائرہ ، دیوارِ کعبہ سے متصل مردو زن کا ہجوم، درِ کعبہ کے قریب کھڑے گریہ کناں ملتجی!(سحرِمدینہ)
اللہ کا گھر ہرلمحہ، ہرثانیہ، ہرپل یونہی آباد رہتا ہے۔ کعبۃ اللہ کے گرد، دن رات اور دُھوپ چھائوں کی تمیز کے بغیر خلق خدا کا دائرہ پیہم حرکت میں رہتا ہے۔ رُکن یمانی کی طرف لپکتے ہاتھ کبھی ساکت نہیں ہوتے۔ حجراَسود کے رخساروں پر عشق کی تمازت سے دہکتے بوسوں کی برسات کبھی نہیں تھمتی۔ ملتزم سے لپٹے سینہ چاکان حرم کی وارفتگی میں کبھی فرق نہیں آتا۔ مقامِ ابراہیم ؑ سے قریب تر ہوکر سجدہ ریز ہونے کے آرزو مند آج بھی ٹوٹے پڑتے ہیں۔ تشنگانِ عشق آبِ زمزم سے سیراب ہونے کے لیے مچلتے رہتے ہیں۔ میزابِ رحمت کے عین نیچے، حطیم کے نیم دائرے میں نوافل ادا کرنے والوں کی بے کلی کا چودہ سو سال سے یہی عالم ہے۔ صفاومروہ کی عفت مآب پہاڑیوں کے درمیان قافلہ شوق صدیوں سے رواں دواں ہے۔
لبیک اللھم لبیک کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ چہرے عقیدت کی آنچ سے تمتما رہے ہیں۔ آنکھوں سے آنسوئوں کے سیلاب جاری ہیں۔ آہیں اور سسکیاں تھمنے میں نہیں آرہیں۔ مرد بھی، عورتیں بھی، بچّے بھی، بڑے بھی، جوان بھی اور لب گور پہنچ جانے والے بھی۔ کچھ طواف کررہے ہیں، کچھ نوافل ادا کررہے ہیں اور کچھ سعی میں مصروف ہیں۔ کچھ تسبیح پر اَوراد و وظائف پڑھ رہے ہیں۔ کچھ قرآن کریم کی تلاوت کر رہے ہیں اور کچھ گردوپیش سے بے نیاز خانہ کعبہ پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ ان سب کے دل عبودیت اور بندگی کے احساس سے لبالب بھرے ہیں۔ سب اپنی خطائوں پر نادم ہیں۔ سب خدائے رحیم و کریم سے عفو و درگزر کے خواستگار ہیں۔ سب کی گردنیں عجز و انکسار سے جھکی جارہی ہیں۔ سب آلائشوں بھری دُنیا سے کٹ کر ایک ایسے جزیرئہ عافیت میں آبیٹھے ہیں جہاں زندگی کا انداز و اُسلوب بدل گیا ہے۔ جہاں فکر ایک فرحت بخش آسودگی اور روح ایک طمانیت بھری بالیدگی محسوس کررہی ہے۔ جہاں نئے انسان تخلیق ہورہے ہیں جہاں آلودگیوں سے پاک اور منزہ مخلوق سانچے میں ڈھل رہی ہے۔ اللہ کی کبریائی کا دم بھرنے والی ہرسانس اُس کی خوشنودی اور رضاجوئی کی ڈُور سے باندھے رکھنے والی ماضی پہ شرمسار، حال پر نادم اور مستقبل کے لیے نیکوکاری کا عہد کرنے والی مخلوق، انڈونیشیا سے مراکش تک پھیلی مسلم ریاستوں میں بسنے والے، غیرمسلم ممالک میں اقلیتوں کی زندگی گزارنے والے سب کھنچے چلے آرہے ہیں۔ چودہ سو سال سے صحن حرم یونہی آباد ہے۔ فجر کی اذان کے ساتھ ہی ابابیلوں کے جھنڈ اسی طرح اُمنڈ اُمنڈ کر آرہے ہیں اور حرم کا معطر دالان سرمئی کبوتروں سے لبالب بھرا ہے۔ (سحرمدینہ)
اس گھر کے گرد جتنے طواف کرو، کم ہیں ۔ بلکہ میں تو یہی کہوں گا کہ جتنا وقت بھی تمھیں اس کے جوار میں گزارنے کے لیے ملے، اور جتنی محبت و استطاعت اللہ تمھیں دے، سب طواف کرنے میں لگادینا۔ نماز، رکوع، سجدہ، تلاوت، سب عبادات ہرجگہ ہوسکتی ہیں، اگرچہ مسجدالحرام میں ان عبادات کا ثواب لاکھوں گنا زیادہ ہے، لیکن طواف کی نعمت تو اور کہیں بھی میسر نہیں آسکتی۔ طواف میں جو والہیت ہے، وارفتگی ہے، عشق و محبت ہے، وہ اور کسی عبادت میں نہیں۔ طواف کی ہمت نہ ہو، تو اس محبوب اور حُسن و جمال میں یکتا گھر کو جی بھر کے دیکھنا، اس کے گرد نثار ہوتے ہوئے پروانوں کو دیکھنا۔ دل کے کیف و لذت کا یہ سرمایہ بھی اور کہیں میسر نہ آئے گا۔ (حاجی کے نام)
لیکن ایسا کیوں ہے کہ ہم لوگ جو حرم میں داخل ہوتے ہی اپنے اندر ایک جہانِ نو کروٹیں لیتا محسوس کرتے ہیں اور ہمارے احساس و خیال کی دُنیا میں زلزلہ سا بپا ہوجاتا ہے۔ حرم سے نکلتے اور اپنے آشیانوں کو لوٹتے ہی، سارے لطیف احساسات اور ساری منور سوچوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ایک اُجاڑ اور سوکھا سڑا پیڑ یکایک ہرے بھرے پتوں، خوش رنگ پھولوں اور رسیلے پھلوں سے بھرجاتا ہے اور پھر ایکاایکی اس کے برگ و ثمر جھڑنے لگتے ہیں اور وہ پہلے جیسا ٹنڈ منڈ خزاں رسیدہ درخت بن جاتا ہے۔
مسلم ممالک مسلسل گرداب بلا کے تھپیڑے کھارہے ہیں۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے افغانستان آگ اور خون میں نہا گیا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے بصرہ و بغداد پر قیامت ٹوٹ گئی۔ فلسطین، کشمیر اور چیچنیا میں درندہ صفت سامراجوں کی بھوک مٹنے میں نہیں آرہی۔ ہم کہ سوا ارب سے زائد سر اور اس سے دُگنے ہاتھ رکھتے ہیں، بے چارگی اور بے بسی کی تصویر بنے تماشا دیکھ رہے ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عشق کی آگ بجھ چکی ہے اور مسلمان راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گیا ہے۔ ہماری صفیں کج، دل پریشاں اور سجدے بے ذوق ہیں۔ ہمارے دلوں میں ایمان کی حرارت سرد پڑتی جارہی ہے اور ہمارا کردار و عمل ان تعلیمات سے دُورہوتا جارہا ہے جو اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تک پہنچائیں۔ اسلام نے فوز و فلاح اور فتح و نصرت کے لیے بعض کڑی شرائط رکھی ہیں۔ حلقہ بگوشِ اسلام ہونے والے ہرفرد پر ان شرائط کی پابندی لازم ہے اور اگر وہ اپنے آپ کو ان شرائط کے سانچے میں نہیں ڈھالتا، تو وہ اللہ کی تائید و حمایت کے استحقاق سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ پھر وہ بندۂ مومن کے معیار پر پورا نہیں اُترتا۔ اُس کا ہاتھ، اللہ کا ہاتھ نہیں رہتا۔ نہ غالب و کارآفریں نہ کا رکشائو کارساز۔
میں حجراَسود کے عین سامنے بیٹھا، غلافِ کعبہ پر نظریں جمائے سوچتا رہا کہ ایسی ہریالی، ایسی زرخیزی اورایسی شادابی کے بعد بھی ہمارے دل و نگاہ کا شجر یکایک ٹنڈ منڈ کیوں ہوجاتا ہے؟ حج اور عمرے، طواف اور سعی، اَوراد و وظائف، عبادتیں اور زیارتیں، سب کچھ پُربہار موسم کی خوشبو بھری پھوار کی طرح آتے اور گزر جاتے ہیں اور ہم ایک بار پھر دُنیاداری کے لق و دق صحرا میں غرق ہوجاتے ہیں۔ جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے وقت ہمارے ایک ہاتھ میں آب زم زم اور دوسرے ہاتھ میں کھجوروں کی پوٹلی ہوتی ہے اور [افسوس کہ]صحن حرم میں عطا ہونے والے جذب و کیف اور رُوح و فکر میں بپا ہونے والے انقلاب کی گٹھڑی ہم اُسی میقات پر چھوڑ آتے ہیں ، جہاں سے احرام باندھ کر حدودِ حرم میں داخل ہوتے ہیں۔(مکّہ مدینہ)
آں خنک شہر سے…
مدینہ کی فضا کافی خوشگوار تھی۔ بادل آسمان پر آتے تھے اور گاہے گاہے بارش ہوتی تھی۔ مکہ کی فضا میں عجب جاہ و جلال تھا۔ چٹانوں اور پہاڑوں، وادیوں اور گھاٹیوں کے بیچ میں کھردرے سیاہ پتھروں کے نہایت سادہ سودہ گھر کے سامنے سارے انسان حقیر نظر آتے ہیں جووالہانہ اس گھر کا طواف کرتے ہیں۔ بڑے بڑے کج کلاہوں اور ارباب جُبہ و دستار کی پگڑیاں یہاں اُتر جاتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس گھر کے مالک کو تزک و احتشام اور شان و شوکت اپنے کسی بندے کی پسند نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اسے فقر سے بے حد اُنس ہے اور اسی فقر کے جلوے اس کے گھر کی دَر و دیوار سے چھلکتے ہیں۔ لیکن مدینہ میں انسان خود کو ہر طرح کے بوجھ سے آزاد اور ایک عجیب دوستانہ ماحول میں خود کو محسوس کرتا ہے۔ ہرشے سے اُنس و محبت کی خوشبو آتی ہے۔ ہر طرف لطافت اور خوش گواری کے منظر نظر آتے ہیں۔ حرمِ نبویؐ کے ساتھ ہی مدینہ شہر اور اس کے مضافات کا گوشہ گوشہ اپنی حیات افروز تاریخ چھپائے ہوئے ہے۔(جلوے ہیں بے شمار)
مسجد نبویؐ کے اس حصے میں جو روضۂ اطہر سے ملحق ہے اور جہاں حجرئہ عائشہ صدیقہؓ اور حضور اکرمؐ کا مصلیٰ و منبر تھا، قدم رکھتے ہوئے احساس ہوتا کہ کہیں ہمارے ناپاک وجود، ناپاک قدم اس مقام کے تقدس کو مجروح تو نہیں کر رہے ہیں۔ مسجد نبویؐ اور روضۂ اطہر ایک دوسرے سے جدا نہیں۔ مسجد کی عمارت بے حد وسیع و شان دار ہے۔ بے حد کشادگی ہے۔ سب کو نماز ادا کرنے کی جگہ آسانی سے حاصل ہوجاتی ہے۔ بقول مولانا ماجد حُسن و جمال کے لحاظ سے، خوبی و محبوبی کے لحاظ سے، زیبائی و دل کشی کے لحاظ سے ،پردئہ زمین پر اس مسجد کا جواب نہیں۔ بس یہ جی چاہتا ہے کہ ہروقت صحن میں بیٹھے ہوں اور عمارت مسجد کی طرف ٹکٹکی لگی رہے۔ تصور میں ۱۴سو سال کی تاریخ پھرجاتی ہے۔ دورِ صحابہؓ، تابعین و تبع تابعین اور اہل اللہ اور اہلِ حق کی ایک طویل قطار سامنے آتی ہے جنھوں نے تاریخ میں اس مسجد کے صحن و محراب میں آکر خدا کے حضور رکوع وسجود کیا ہوگا۔ روضۂ اطہر پر درود و سلام کا نذرانہ پیش کیا ہوگا۔ ہرمسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ایسی متبرک جگہ بیٹھ کر اپنی لغزشوں اور خطائوں کے لیے استغفار کرے اور اپنی باقی زندگی میں اسلام کی اُولوالعزم ہستیوں کے نقش قدم پر چلنے کا عہد تازہ کرے۔ اللہ اللہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم خود دورِ نبویؐ میں آگئے ہیں۔(جلوے ہیں بے شمار)
روضۂ رسولؐ کے سامنے کھڑا فرد عجیب کیفیتوں سے دوچار ہوتا ہے۔ وہ ہیبت، خوف اور تلاطم جو کعبہ کے قرب سے دل میں پیدا ہوتا ہے، نبیؐ کی قبر کے پاس محبت، نرمی اور سکون سے بدل جاتا ہے۔ کوئی دومیٹر چوڑاراستہ، جو زائرین کو سبز جالیوں کے پیچھے موجود ان تین قبروں کے قریب لاتا ہے جن میں حضوؐر اور ان کے دو اصحابؓ مدفون ہیں ، نسبتاً خالی ہوا تو میں اس قطار میں جاکھڑا ہوا جو آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی اور جس میں شامل لوگ اس عظیم تجربے کے منتظر تھے جو روضۂ رسولؐ کے قرب سے دلوں میں تغیر پیدا کرتا ہے۔
روضہ کے قریب پہنچ کر میں قطار سے نکل کر اس چھوٹے سے ہجوم میں شامل ہوگیا جو رواں قطار کے پیچھے کھڑا تھا۔ اس ساکت گروہ میں موجود لوگ نبیؐ پر درود و سلام بھیج رہے تھے، دعاگو تھے اور اپنی اپنی کیفیت و حالت و مقام کے مطابق اس مبارک مقام سے فیض حاصل کررہے تھے۔ ان میں سے اکثر کے لبوں سے سلام و درود کی صدائیں اُبھر رہی تھیں۔(سحرِمدینہ)
اس حجرے سے متصل چبوترے پر بیٹھ کر میں نے قرآن شریف کا ربع پڑھا۔ یہ جگہ وہ ہے جو مسجد نبویؐ کے صحن میں اصحابِ صفہ کے لیے مخصوص تھی۔ قرآن شریف میں نے ریک میں رکھ دیا اور سرجھکا کر بیٹھ گیا۔ میں یہ دعویٰ نہیں کروں گا کہ مجھ پر استغراق کی حالت طاری ہوئی اور میں چودہ سوسال پیچھے چلا گیا.....میں نے ایک انقلاب کو مدینے میں مکمل ہوتے ہوئے دیکھا، جس کا آغاز مکہ میں ہوا تھا۔ آغاز اور انجام کے درمیان صرف ۲۳سال کا زمانہ حائل تھا۔ یہ ایک مکمل و اکمل انقلاب تھا جس میں انسانیت کے ہرپہلو کی تنقیح و تہذیب ہوگئی تھی۔ معاشرت انسانی کی ایک نئی تعبیر وجود میں آئی تھی۔ دین و دُنیا میں ہم آہنگی کی ایک نئی تصویر اُبھری تھی اور ایک نہایت خوبصورت متوازن، مہذب اور متمدن معاشرہ قیام پذیر ہوگیا تھا۔ (ارضِ تمنا)
مدینہ منورہ، چمنستان کا ایک سدابہار پھول ہے جس کی لطافت سب سے جدا، جس کے رنگ سب سے منفرد اور جس کی خوشبو سب سے مسحورکن ہے۔ اس کی ہوائوں میں کچھ ایسا جادو اور فضائوں میں کچھ ایسا حُسن ہے کہ کسی بھی خطۂ ارضی سے آنے والا انسان اپنے جذبات و احساسات پر قابو نہیں رکھتا۔ مکہ مکرمہ کے پُرشکوہ جلال کے دائرے سے نکل کر مسجدنبویؐ کے احاطۂ جمال میں داخل ہوتے ہی قلب و نظر ایک سراسر مختلف کیفیت سے ہم کنار ہوجاتے ہیں۔ اس کیفیت کی سرشاری اور سرمستی کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو برسوں کوچۂ جاناں تک پہنچنے کی آرزو میں سلگتا رہا، جس کی زندگی کا ہرلمحہ حضوری و حاضری کی تمنائے بے تاب سے مہکتا رہا ہو، جس نے انتظار کی لمبی راتیں اور آتشیں دن گزارے ہوں، جو صرف اس لیے جیتا رہا کہ مرنے سے قبل اپنی آنکھوں کو گنبد خضریٰ کے عکس جمیل سے منور کرلے۔(مکہ مدینہ)
ذیقعدہ کی پہلی تھی، جب اس پھاٹک سے اس نُور و برکت والے شہر میں داخل ہوئے تھے۔ ذی الحجہ کی چوتھی کو اسی پھاٹک سے اس رحمت و مغفرت والے شہر سے باہر نکلے۔ جہاں ایک دن کا بھی قیام اگر میسر آجائے تو تقدیر کی یاوری اور اَبرار و متقین کی نصیبہ وری ہے، وہاں ایک دن نہیں، دو دن نہیں، اکٹھے ۳۳دن کی حاضری نصیب ہوگئی۔ (سفرحجاز)
حج کے اس سفر سے بڑا سکون ، بڑی طمانیت حاصل ہوئی ۔ دل میں یہ خواہش باربار کروٹ بدلتی رہی کہ کاش! اسی طرح بار بار جوارِ حرم اور دیارِ حبیب کی حاضری کا شرف حاصل ہوتا رہے، مگر پھر یہ خیال آیا کہ اس حرم کے مالک اور اسی دیار کے حبیب نے یہ بھی ہدایت کی ہے کہ ہرمومن کو اپنے گردوپیش سے باخبر رہنے والے اور اسے صالحیت کی طرف موڑنے کی ہرآن فکر کرنی چاہیے۔ حج اگر فرض کی ادائیگی کے بجائے سیاحی و تفریح بن جائے تو یہ پسندیدہ بات نہیں۔ افسوس کہ کتنے اہل ثروت اپنی ملّت کے غریب و پس ماندہ لوگوں کی ضرورتوں کی طرف توجہ نہیں کرتے اور کرتے بھی ہیں تو اس طرح کہ اپنے وسائل کے سمندر سے چند قطرے ملّت کے پریشاں لوگوں کی طرف بھی ٹپکا دیتے ہیں۔ چنانچہ اسلامی معاشرے میں عدم توازن اور اسلام کی قوت و شوکت کے فقدان کے مظاہر ہروقت سامنے آتے رہتے ہیں۔ کاش! حج ہرانسان کو ایک انقلابی انسان، ایک مردِمجاہد اور دین کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینے والا حوصلہ مند انسان بنائے۔ کاش! یہ ملّت کے مقدر کو تبدیل کرنے کا ایک ذریعہ بن سکے۔ کاش! یہ بھی ہماری دیگر عبادتوں کی طرح ایک بے روح عبادت بن کر نہ رہ جائے۔ (جلوے ہیں بے شمار )
ہم حج بھی کریں، عمروں کے لیے بھی جائیں، منہ کعبہ شریف کی طرف کرکے نمازیں بھی پڑھیں ، مگر ہم پر وہ رنگ نہ چڑھے جو حضرت ابراہیم ؑ کا رنگ تھا، تو اس سے بڑھ کر ہماری حرماں نصیبی اور کیا ہوسکتی ہے، اور جو حرماں نصیبی ہمارا مقدر بن گئی ہے اس کا سبب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ ہم سے دُنیا میں جو وعدے ہیں___ استخلاف فی الارض کا وعدہ ہے، غلبۂ دین کا وعدہ ہے، خوف سے نجات اور امن سے ہم کنار کرنے کا وعدہ ہے___وہ سب وعدے اس شرط کے ساتھ مشروط ہیں کہ ہم اللہ کے ایسے بندے بن جائیں کہ بندگی اور کسی کے لیے نہ ہو: يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْـرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا۰ۭ (النور۲۴:۵۵)۔ (حاجی کے نام)