ہمیں پہلے ہی سے اندازہ تھا کہ بھارت کی جانب سے ایک خاص لائن لی جا رہی ہے اور اس کا ایک بہت واضح ثبوت بھارتی حکومت کی جانب سے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو کشمیرکا سٹیٹس تبدیل کرنا تھا۔ اس وقت حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا کہ ہم نے بھارت کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو ڈائون گریڈ کرنا ہے، ہائی کمشنر وہاں نہیں بھجوانا ہے اور تجارت نہیں کرنی ہے۔ حکومت اور وزارتِ خارجہ کی اس پالیسی کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ، انڈین کارندے اجیت دوول کے ساتھ بات چیت کرتی رہی۔ اس کے نتیجے میں ہی ۲۵ فروری ۲۰۲۱ء کو فوجی کمانڈروں کی سطح پر اچانک فائر بندی معاہدہ سامنے آیا ۔ میری نظر میں فائر بندی کا یہ معاہدہ اس وقت جن حالات میں کیا گیا، اس کے لیے وہ ہرگز مناسب وقت نہ تھا۔یہ تجویز ہم نے ۲۰۱۵ء میں پیش کی تھی اور اس تجویز کو پیش کرنے کے بعد اجیت دوول سے میری ملاقات بھی ہوئی تھی اور اُس وقت انھوں نے یہ تجویز رد کردی تھی۔
ہمیں یہ سوچنا چاہیے تھا کہ ۲۰۱۵ء میں جس تجویز کو انھوں نے رَد کر دیا تھا ۲۰۲۱ء میں اس پر عمل درآمد کر رہے ہیں تو آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی ایک واضح وجہ یہ تھی کہ ۲۰۲۱ء میں بھارت، لداخ میں چین کے ساتھ بُری طرح اُلجھ چکا تھا اور مسلسل ہزیمت اُٹھا رہا تھا، اور سخت دبائو میں تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی طرح پاکستان سے متصل دوسرے محاذ پر بھی کشیدہ صورتِ حال پیدا ہو۔ امرواقعہ ہے کہ ایک لحاظ سے ہماری جانب سے بھی چین کو غلط تاثر بھیجا گیا۔ یوں بھارت، ہمارے تعلقات میں غلط فہمی پیدا کرنے اور اپنے اُوپر سے دبائو کم کرنے میں کامیاب رہا۔ معلوم نہیں، اسٹیبلشمنٹ نے اس سے فائدہ ملک کو کیسے پہنچایا؟
اب جو باتیں ہو رہی ہیں کہ کشمیر کو ۲۰ سال کے لیے فریز کر دینا چاہیے وغیرہ۔ اس سے نہ صرف یہ کہ ہماری کشمیر ڈپلومیسی کمزور ہوئی بلکہ دنیا بھر میں ہماری کریڈ بیلٹی بھی متاثر ہوئی۔ اب جب ہم دنیا میں کشمیر پر بات کرتے ہیں تو ہماری بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ۔
کہا جاتا ہے کہ یہ عمل نواز شریف کے دور میں شروع ہو چکا تھا، جب انھوں نے نئی دہلی میں حُریت کانفرنس کے لیڈروں سے ملاقات نہیں کی تھی۔ ان کے دور میں ہی ۱۰ جولائی ۲۰۱۵ء کو ’اوفا معاہدہ‘ ہوا تھا، جس میں کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھی نواز صاحب کی یہ خواہش تھی کہ دوطرفہ تعلقات کو بڑھایا جائے، لیکن اُس وقت کی ہماری ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ ہمیں یک طرفہ کوئی چیز نہیں کرنی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں بھارت کے ساتھ تعلقات میں ’برف پگھلانے‘ والی بے معنی باتوں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے ٹھوس بنیادوں پر مسئلۂ کشمیر ہی کو عالمی سطح پر طے شدہ اُمور کے مطابق حل کرنے کی بات چیت کرنی چاہیے۔
کشمیر کا تنازع بہت پیچیدہ ہو گیا ہے ۔ اب اس کے لیے ضروری ہے کہ اگر ہمیں بات چیت کا عمل شروع کرنا ہے ، خواہ وہ فرنٹ چینل پر ہو یا بیک ڈور چینل پر، اس میں صرف اور صرف کشمیر کا مسئلہ زیر بحث آنا چاہیے ۔ اگر بھارت واقعی سنجیدہ ہے تو مذاکرات کا آغاز کشمیر سے ہونا چاہیے ۔ مثال کے طور پر ۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۷ء کی پالیسی کے تحت کشمیر سے تجارت اور سیاحت کے تعلق کو بحال کیا جائے، حُریت لیڈر شپ کو رہا کریں۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو بھارت کو لینے چاہییں یا ہمارے مذاکرات کے نتیجے میں فوری طور پر لینے چاہییں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں وزیر خارجہ شرکت کے لیے ترجیحاً گئے، جب کہ سمر قند میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لیے نہیں گئے۔ حالانکہ افغانستان ہمارے لیے زیادہ اہم ہے۔ اگر وزیر خارجہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ایک اجلاس میں شرکت نہ کرتے تو اس سے کوئی قیامت نہ آ جاتی۔ اگر اس اجلاس میں شرکت بھی کرنا تھی تو ہمارے لیے اس موقعے پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی ضرورت تھی کہ یہ مسئلہ ہمارے لیے کتنا اہم ہے۔ بہتر تھا کہ ہم اپنی شرکت کو ڈائون گریڈ کر دیتے اور منسٹر آف سٹیٹ کو بھجوادیتے۔ اُمید ہے کہ جولائی میں جو کانفرنس منعقد ہونے والی ہے، اس میں ہمارے وزیر اعظم شرکت نہیںکریں گے اور وزیر خارجہ کو بھجوایا جائے گا۔
یوں محسوس ہوتاہے کہ ہماری کشمیر پالیسی ابہام سے دوچار ہے یا پھر واضح طور پر ہم امریکا کی طرف مائل ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ’شنگھائی تعاون تنظیم‘ کے اس اجلاس میں شرکت بھی امریکی دبائو کی وجہ سے ہی کی گئی ہے۔ حکومت ابھی یہ سوچ رہی تھی کہ بھارت سے مذاکرات کے لیے پیش کش کی جائے یا نہیں ؟ لیکن وزیر خارجہ کی خواہش تھی جس کا انھوں نے گذشتہ برس جون میں اپنی گفتگو میں اظہار بھی کر دیا تھا کہ ’’بھارت سے ہمارے تعلقات استوار ہونے چاہییں اور ہمیں نقصان ہو رہا ہے ‘‘۔ یقینا امریکا کا دبائو ہے کہ ہم بھارت سے اپنے تعلقات ٹھیک کریں اور وہ چاہتا ہے کہ ہم چین سے بھی کچھ فاصلہ پیدا کریں ۔ ایران او ر سعودی عرب کے سفارتی تعلقات بحال ہونے سے امریکا اور اسرائیل کو تشویش لاحق ہے۔ فیفا عالمی فٹ بال کپ میں قطر حکومت نے آٹھ بھارتی جاسوس پکڑے ہیں جو کہ ریٹائرڈ نیوی افسر تھے اور موساد کے لیے کام کر رہے تھے ۔ قطر میں اٹلی کے تعاون سے سب میرین بن رہی ہیں۔ ان چیزوں کو نظر میں رکھتے ہوئے ہمیں اپنا مستقبل بینی پر مبنی وژن واضح رکھنا چاہیے۔
۱۴ جنوری ۲۰۲۲ء کی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں تیار کردہ پاکستان کی قومی سکیورٹی پالیسی پیش کی گئی تھی، جس میں بہت سے بنیادی تضادات تھے۔ واضح طور پر محسوس ہورہا تھا کہ یہ امریکی اثرات کے تحت بنائی گئی ہے ۔ یہ ان لوگوں نے بنائی تھی جو خاص طور اس ایجنڈے کے لیے لائے گئے تھے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم اس کیمپ میں شامل نہیں ہوں گے یا ہم نیوٹرل ہیں، تو یہ باتیں سفارت کاری کی باتیں نہیں ہوتی ہیں۔ آپ کسی کیمپ میں شامل نہ ہوں لیکن اس کا اظہار نہیں کیا جاتا ۔ کیا آپ نے کبھی بھارت سے اس قسم کی لفاظی سنی ہے جس کا ہم اظہار کرتے رہتے ہیں؟
چین سے ہمارے تعلقات خراب کرنے کے لیے ایک عرصے سے کوششیں ہورہی ہیں۔ چین کو ہم سے کچھ شکایات بھی ہیں ، مثلاً ایک طرف سی پیک اور دوسری جانب ہمارا امریکا کی طرف جھکائو کچھ زیادہ لگ رہا ہے ۔ ہمارے وزیر خارجہ تقریباًپانچ مرتبہ امریکا سے ہو آئے ہیں اور اس دوران صرف ایک مرتبہ ان کی انٹنی بیکر سے ملاقات ہوسکی، جب کہ باقی اسفار میں وہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے چھوٹے چھوٹے افسروں سے مل کر آگئے۔ اس سے ہماری ریاست کی مزید تحقیر ہوئی ہے۔ یہ بڑی شرمندگی کی صورتِ حال ہے کہ آپ واشنگٹن میں موجود ہیں، مگر آپ کو ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ بھی نہیں ملتی اور آپ ایک کونسلر کی سطح کے افسر سے مل کر آ جاتے ہیں۔
پھر بیرونی دُنیا میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ ’ہم کشمیر کو بھلا چکے ہیں اور کشمیر پالیسی میں بنیادی تبدیلی آچکی ہے ، اگرچہ اس کااظہار نہیں کیا جاتا‘۔ تاہم، میرے نزدیک ایسا نہیں ہے کہ ہم کشمیر پالیسی کو بدل چکے ہیں، البتہ کوششیں جاری ہیں کہ کسی طریقے سے کشمیر کو پس پشت ڈال کر بھارت کے ساتھ باقی بہت سے اُمور پر معاملات کا عمل شروع ہو جائے ۔ پچھلے ۷۵سال سے کشمیر پر ہمارے قومی موقف کے حوالے سے کسی بھی حکومت یا کسی ایک فرد کے اختیار میں نہیں ہے کہ قومی کشمیر پالیسی کو تبدیل کردے۔
البتہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ہم نے عملی سطح پر کشمیر کو کئی حوالوں سے بھلا دیا ہے ۔ کشمیر پالیسی میں پسپائی نظر آتی ہے اور تسلسل نہیں پایا جاتا۔ اس لیے جب ہم کشمیر پر بات کرتے ہیں تو لوگ ہماری بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ۔
پی ڈی ایم حکومت کے تحت کشمیر پارلیمنٹری کمیٹی کا چیئرمین کون ہے؟ اس کا نام شاید لوگوں کو معلوم نہ ہو۔ ایک ایسے شخص کو کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے جس کا کوئی سٹیٹس ہی نہیں ہے۔ماضی میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نواب زادہ نصراللہ خاں تھے، جو ایک نامور سیاست دان تھے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے خود اس مسئلے کو ڈائون گریڈ کر کے رکھ دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جموں وکشمیر پر اپنے قومی موقف اور نقطۂ نظر کو مؤثر انداز میں پیش کیا جائے۔ ہمارے اس نیم دلانہ رویے سے خود اہلِ کشمیر کا اعتماد مجروح ہو رہا ہے۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ مسئلہ کشمیر کو کچھ عرصہ کے لیے منجمد کرکے چین، افغانستان، وسطی ایشیا اور بھارت کے درمیان پاکستان کو ایک کوریڈور بنا دیا جائے۔ اس طرح سے ہم بہت سے معاشی مفادات حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن حقائق کی دُنیا میں یہ ایک ناقابلِ عمل تجویز ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی بے اعتمادی اس قدر زیادہ ہے کہ اس قسم کی تجاویز پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ ہم تو بذریعہ سڑک بطور راہداری، انسانی بنیادوں پر امداد بھی نہیں بھجواسکتے کہ کوئی حادثہ پیش آ جائے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس قسم کے کام وہاں ہو سکتے ہیں جب دو طرفہ تعلقات مستحکم بنیادوں پر استوار ہوں اور باہمی اعتماد پایا جاتا ہو۔