عبدالباسط


۸ جولائی ۲۰۱۶ء کو بھارت کی ریاستی دہشت گردی نے بُرہان مظفروانی کو شہید کردیا اور اس کا نام ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔میں اُس زمانے میں نئی دہلی میں پاکستان کا ہائی کمشنر تھا۔  بُرہان وانی کی شہادت کے بعد تقریباً چار ماہ تک مقبوضہ جموں وکشمیر میں مسلسل احتجاج ہوتا رہا،اور بھارتی سیکورٹی فورسز نے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا تاکہ آزادی کی آواز کو دبایا جاسکے۔ اس مقصد کے لیے پیلٹ گنز کا بھی بے دریغ استعمال کیا اور بے شمار معصوم کشمیری بچوں، عورتوں اور شہریوں کو بینائی سے محروم کردیا گیا۔

’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘ ___ یہ نعرہ سیّد علی شاہ گیلانیؒ نے دیا ، جسے مقبوضہ کشمیر کے ہرگھر میں محسوس کیا جاسکتا ہے اور اس کی آواز سنی جاسکتی ہے۔ بلاشبہہ یہ آواز آتی رہے گی، اس لیے کہ کشمیریوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم نے بھارت کے غاصبانہ قبضے سے جان چھڑانی ہے اور جب تک آزادی نہیں مل جاتی، ہم اپنی یہ جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اکثر لوگ مجھ سے سوال پوچھتے ہیں کہ کشمیریوں کی جدوجہد تو واضح ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں، لیکن ہمیں بتایئے کہ کشمیر کاز کے حوالے سے پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ پھر یہ سوال بھی پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان میں کس حکومت نے مسئلہ کشمیر کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا، اور کس حکومت، کس قیادت یا کس سیاست دان نے کشمیر کاز کو بہتر طریقے سے آگے بڑھایا؟

آپ کے سامنے کشمیر کے حوالے سے میں پاکستانی سفارتی محاذ کی نسبت سے چندحقائق بیان کروں گا، جو عام طور پر لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ ہم یہ دیکھیں گے کہ آج جہاں کھڑے ہیں، یہ معاملہ کیسے شروع ہوا؟ اور کس طرح ہماری حکومتیں اپنے اصولی موقف سے بہت پیچھے ہٹ گئی ہیں؟

پہلی سفارتی پسپائی: ۶جنوری ۲۰۰۴ء کو اسلام آباد میں سارک سربراہی کانفرنس ہونا تھی۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارت کے اُس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان آئے تھے اور پاکستان میں حکمران صدر جنرل پرویز مشرف سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اس اعلامیے میں جو الفاظ استعمال کیے گئے، اس نے کشمیرکاز کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ اس اعلامیے میں صدرجنرل پرویزمشرف نے بھارتی وزیراعظم کو یہ یقین دلایا:

Pakistan will not permit in territory under Pakistan's control to be used to support terrorism in any manner.

یعنی پاکستان اپنے زیرانتظام  آزاد جموں و کشمیر مع گلگت و بلتستان کو بھارت کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا۔

مطلب یہ کہ دانستہ یا نادانستہ طور پر پاکستان نے اس بات کو تسلیم کرلیا کہ یہاں سے لوگ جاکر  مقبوضہ جموں و کشمیر میں ’دہشت گردی‘ کرتے ہیں۔ یہ پہلی بار ہوا کہ یہاں سے حقِ خود ارادیت کی آئینی جدوجہد کو بھارت کی شکایت کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ آج تک بھارت اس اعلامیے کو استعمال کرتا ہے اور اس نے بڑی چالاکی سے جموں و کشمیر کی جدوجہد کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ دیا۔ جس کے نتیجے میں بعدازاں امریکا نے بھی ۲۰۱۷ء میں حزب المجاہدین جوکہ مقامی تنظیم تھی، اسے دہشت گرد تنظیم قراردے کر پابندی لگادی۔ چنانچہ اس اعلامیے سے سفارتی سطح پر پسپائی کا سفر شروع ہوا۔

دوسری سفارتی پسپائی: صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے زمانۂ اقتدار میں پس پردہ سفارت کاری کا آغاز کیا اور اس میں چار نکاتی فارمولا پیش کیا۔ بلاشبہہ سفارت کاری میں لینا دینا ہوتا ہے اور گفتگو کرتے ہوئے بعض جگہ دوطرفہ مفاہمت بھی کرنی پڑتی ہے، لیکن جو غلطی صدر مشرف سے ہوئی وہ یہ کہ انھوں نے پبلک میں آکر یہ بتایا کہ ہم اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ اصولی موقف یہ تھا کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے تحت جموں و کشمیر میں استصواب رائے کروایا جائے۔ لیکن جب آپ عوامی سطح پر اصولی موقف سے پیچھے ہٹتے ہیں تو سفارت کاری میں آپ کے پاس لینے دینے کے لیے کچھ نہیں باقی بچتا، کیونکہ جو کچھ لینا دینا تھا وہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی آپ نے دے دیا،تو اب مذاکرات کس بات پر کیے جاسکتے ہیں؟

یہ اتنی بڑی غلطی تھی کہ اس کی وجہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں حُریت کانفرنس دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ سیّد علی شاہ گیلانیؒ نے بجاطور پر اس فارمولا کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح تو ہم پاکستان کے اصولی موقف سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔ لیکن حُریت کانفرنس کا دوسرا حصہ جو میرواعظ عمر فاروق کی قیادت میں تھا اس نے یہ تسلیم کرلیا۔ بعد میں ہم نے دیکھا کہ جیسے ہی ۶جنوری ۲۰۰۴ء کو بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان سے واپس گئے تو ۲۲جنوری ۲۰۰۴ء کو ان کی میرواعظ صاحب کی حُریت کانفرنس کی قیادت سے ملاقات ہوئی۔

اس طرح صدر پرویز مشرف نے اپنی ایک بات سے کئی صدمے پہنچا ڈالے۔ ایک تو وہ پاکستان کے اصولی موقف سے عوامی سطح پر پیچھے ہٹ گئے اور مذاکرات کے لیے کچھ باقی نہ بچا۔ دوسرایہ کہ حُریت کانفرنس تقسیم ہوگئی۔ مجھے معلوم ہے کہ ان دونوں حصوں کو قریب لانے کے لیے دہلی میں ہمیں کتنی محنت کرنا پڑی۔بُرہان مظفروانی کی شہادت کے بعد ہمیں کچھ کامیابی ملی اور حُریت کانفرنس کی متحدہ قیادت سامنے آئی، جس میں سیّد علی گیلانی ، یاسین ملک اور میرواعظ عمرفاروق شامل تھے۔

گویا کہ صدر پرویز مشرف نے ایک طرف کشمیر کاز کو دہشت گردی کے ساتھ ملا دیا اور دوسرا مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے چارنکاتی فارمولا کو عوامی سطح پر زیربحث لائے جس نے پاکستان کے اصولی موقف کو بڑا شدید نقصان پہنچایا۔ سفارتی سطح پر ہم ایک صحیح پوزیشن میں بھارت کے ساتھ بات چیت کرسکتے تھے، لیکن بدقسمتی سے ہم نے اپنی پوزیشن خود ہی کمزور کرڈالی۔ اس طرح پس پردہ سفارت کاری میں جنرل صاحب کی مہم جوئی کے نتیجے میں تو مسئلۂ کشمیر پر کم بات ہوئی اور زیادہ تر بات دہشت گردی پر ہوتی رہی۔

 مسئلہ کشمیر ایک جائز (legitimate ) اور حل طلب مسئلہ ہے، اس کو دہشت گردی کے ساتھ نہیں جوڑا جاسکتا۔ لیکن جنرل مشرف کی نامناسب سفارت کاری اور بیان بازی نے بنیادی غلطی کردی اور پھر اسی دوران مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان جنگ بندی لائن پر انڈیا کو باڑ لگانے کی بھی اجازت دے دی۔

تیسری سفارتی پسپائی: اس کے بعد ۱۶ جولائی ۲۰۰۹ء کو پاکستان اور بھارت کی طرف سے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا، جب کہ پاکستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے۔ ’غیر جانب دارانہ تنظیم‘ (NAM)کی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے وہ شرم الشیخ، مصر گئے، جہاں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد ایک اعلامیہ جاری ہوا۔ ماضی میں پاکستان اور انڈیا کے جو اعلامیے جاری ہوتے رہے، مثال کے طور پر ۲۰۰۴ء کے اعلامیے کو لے لیجیے، جو صدر پرویز مشرف اور وزیراعظم واجپائی کی ملاقات کے بعد جاری ہوا۔ اس میں یہ کہا گیا:

The two leaders are confident that the resumption of composit dialogue will lead to peacful settelment of all bilateral issues including Jammu and Kashmir.

اس مشترکہ اعلامیے میں الفاظ ’بہ شمول جموں اور کشمیر‘ (including Jammu and Kashmir) کو ایک خاص اہمیت حاصل تھی۔ ہم نے ہمیشہ یہی بات کہی تھی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل مسئلہ تو جموں و کشمیر ہے، اور باقی سب جزوی مسائل ہیں۔ ایک بار جموں و کشمیر کا تنازع حل ہوجائے تو پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی ایسے بنیادی اختلافات نہیں ہیں، جو دُور نہ ہوسکیں بلکہ وہ سب اختلافات آسانی کے ساتھ حل ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۴۷ء سے جموں و کشمیر ہی بنیادی مسئلہ تھا، سیاچن ہو یا سرکریک، یہ تو سب بعد کی پیداوار ہیں۔

جموں و کشمیر کو ہم ہمیشہ مشترکہ اعلامیے میں مرکزی اہمیت دیتے رہے ہیں، لیکن ۱۶جولائی ۲۰۰۷ء کو شرم الشیخ میں جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا، پہلی مرتبہ اس کی سفارتی زبان تبدیل کی گئی:

Singh said that India was ready to discuss all issues with Pakistan including all outstanding issues.

گویا اس مشترکہ اعلامیے میں بھارتی وزیراعظم یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ ’’بھارت تمام مسائل پر بات چیت کے لیے تیار ہے‘‘۔مطلب یہ ہوا کہ اپنی جگہ جموں و کشمیر کی اہمیت ختم کرکے اسے آپ نے باقی مسائل کے ساتھ لاکر کھڑا کردیا، جیساکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثقافتی یا تجارتی اور دیگر مسائل رہے ہیں۔

بدقسمتی سے یہ پہلی بار ہوا کہ پاکستان کے مشترکہ اعلامیہ میں کشمیر کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس سے پہلے ۲۸مئی ۱۹۹۸ء کو جب پاکستان اور بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تھے تو سلامتی کونسل نے ایک قرارداد ۱۱۷۲، ۶جون ۱۹۹۸ء میں منظور کی۔ اس کے پیرا نمبر ۵ میں بڑے واضح طور پر یہ کہا گیا:

UN Security Council encourages both Pakistan and India to find mutally acceptable solution that address root causes of those tentions including Kashmir.

یعنی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھی اس بات کا احساس اور ادراک ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازع جموں و کشمیر ہی ہے۔مگر یہ کیونکر ہوا کہ ہم نے شرم الشیخ میں جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا اس میں جموں و کشمیر کا ہی ذکر نہیں کیا؟

چوتھی سفارتی پسپائی: ۲۰۱۵ء میں روس کے شہر’ اوفا‘ میں شنگھائی آرگنائزیشن کی سربراہی کانفرنس ہوئی، اس وقت پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف تھے۔ کانفرنس کے دوران بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ان کی ملاقات ہوتی ہے۔ ۱۰جولائی ۲۰۱۵ء کو یہ مشترکہ اعلامیہ دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات کے بعد جاری ہوا۔ اس میں بھی ویسا ہی معاملہ ہوا، جو شرم الشیخ میں ہوا تھا۔ اس اعلامیہ میں بھی کشمیر کا ذکر حذف کردیا گیا۔

بنیادی طور پر ہم نے بہت کمزور مذاکرات کیے اور یک طرفہ طور پر ’دہشت گردی‘ کے مسئلے کو ہم نے خاص اہمیت دی۔ بلاشبہہ دہشت گردی کے مسئلے پر پاکستان، بھارت کے ساتھ کوئی معذرت خواہانہ رویہ نہیں رکھتا،اس مسئلے پر بھارت کے ساتھ ہمارے بہت زیادہ خدشات ہیں، جو وہ پاکستان میں کر رہا ہے۔ یہاں مَیں بات یہ کر رہا ہوں کہ مشترکہ اعلامیہ میں ایک توازن ہونا چاہیے، مگر وہ توازن یہاں بگڑ گیا۔ یہاں پر کشمیر کا کہیں ذکر نہیں کیا اور all outstanding issues لکھ دیا گیا، جو شرم الشیخ اعلامیہ میں لکھا گیا تھا۔

ڈپلومیسی میں جب ایک بات مثال بن جاتی ہے تو پھر اسے بار بار پیش کیا جاتا ہے۔ اگر ہم نے شرم الشیخ اعلامیہ میں یہ سفارتی زبان اختیار نہ کی ہوتی تو شاید اوفا میں بھی استعمال نہ ہوتی۔ چونکہ شرم الشیخ میں ہم نے بھارت کو موقع دے دیا تھا تو اس لیے بھارت نے اسی بنیادپر کہا کہ آپ نے پہلے بھی اس سفارتی زبان سے اتفاق کیا تھا، تو اب آپ اس سے کیوں پیچھے ہٹ رہے ہیں؟ لیکن، یہ ماننا ہمارے لیے لازم نہیں تھا، اور اگر کوشش کرتے تو ہم اس مشترکہ اعلامیہ میں جموں و کشمیر کو شامل کرسکتے تھے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم کوئی اعلامیہ جاری ہی نہ کرتے۔ اس طرح شرم الشیخ کی مثال اوفا میں دُہرائی گئی۔

اس کے بجائے اگر ہم بی جے پی کے منشور کو سامنے رکھتے کہ مودی حکومت کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کیا عزائم ہیں؟ اور ذرا سخت موقف اختیار کرتے۔ اس وقت ایسی کوئی صورتِ حال بھی نہیں تھی کہ پاکستان کوئی مجبور تھا کہ ہم نے ہرصورت میں بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنے تھے۔ سبق یہ ہے کہ جب آپ اپنے اصولی موقف سے ایک بار پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو پھر اس کی بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔

اوفا کی میٹنگ کے بعد ۲۰۱۵ء میں مجھے اسلام آباد بلایا گیا اور وزیراعظم نواز شریف صاحب نے کہا کہ اسلام آباد میں افغانستان کے معاملات پر ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ ہونے والی ہے۔ آپ کو یہ ذمہ داری دی جاتی ہے کہ انڈین حکومت کو قائل کریں کہ اس کانفرنس میں سشما سوراج تشریف لائیں۔

پاکستان کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر سرتاج عزیز صاحب نے اسی سال اگست ۲۰۱۵ء میں اپنے ہم منصب سے ملنے کے لیے بھارت جانا تھا، لیکن وہ نہیں جاسکے تھے کیونکہ بھارت کی حکومت نے حُریت کانفرنس کے رہنمائوں سے ان کی ملاقات کروانے سے انکار کردیا تھا۔ ہمارا مطالبہ یہی تھا کہ اگر سرتاج عزیز صاحب آئیں گے تو وہ کشمیری رہنمائوں سے ملاقات ضرور کریں گے۔ چونکہ بھارت اس تجویز کو ماننے پر تیار نہ ہوا تو وہ دورہ منسوخ کر دیا گیا۔ اس لیے ایک لحاظ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنائو پیدا ہوگیا تھا۔ ان حالات میں مجھے یہ کہا گیا کہ اس بات کو یقینی بنائوں کہ ۹-۱۰دسمبر ۲۰۱۵ء کو افغانستان پر ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں سشما سوراج شرکت کریں۔ بہرحال میں نے کوشش کی اور بھارت کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ بھارتی وزیرخارجہ پاکستان جائیں گی۔ لیکن اس سے پہلے انھوں نے ایک شرط رکھی، جو ہم نے مان لی کہ ’’دونوں ممالک کے نیشنل سیکورٹی افسران کی ایک پس پردہ ملاقات بنکاک، تھائی لینڈ میں ہوگی‘‘۔ ۶دسمبر ۲۰۱۵ء کو یہ ملاقات ہوئی اور اس میں دہشت گردی کے مسائل پر بات چیت ہوئی اور خاص طور پر ممبئی حملہ زیربحث آیا اور بعد میں اس ملاقات کی خبر بھی دے دی گئی۔

سشما سوراج اس کانفرنس میں شرکت کے لیے ۹دسمبر کو پاکستان آئیں اور اس کانفرنس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اوفا کے بعد یہ تیسرا اعلامیہ تھا، جس میںہم نے باقاعدہ یہاں تک کہہ دیا کہ:

Under the dialogue including peace and security, CBM, Jammu & Kashmir, Siyachen, Sircreek, Wular Barrage, economic and commercial cooperation, counter terrorism, narcotics control, humantarian issues, people to people exchange and religious terrorism....

گویا کہ ۸ستمبرکو ہونے والے ’جامع مذاکرات‘ (Composite dialogue) کو یہاں لاکر جمع کردیا گیا۔ اب تو واضح ہوگیا کشمیر کی حیثیت وہی ہے جو عوامی سطح پر لوگوں کے میل جول کی ہے یا پھر باہم تجارتی سرگرمی کی ہے۔ جب آپ ایک مسئلے کی اہمیت کم (downsize )کردیں گے تو پھر بھارت کیسے سنجیدہ لے سکتا ہے یا دُنیا کیسے کشمیر کے معاملے کو سنجیدہ لے سکتی ہے؟ جب یہ مذاکرات ہورہے تھے تو میں بھی ان میٹنگوں میں شریک تھا۔ اب یہ مذاکرات کس طرح سے ہورہے تھے، یہ الگ کہانی ہے۔

دفتر خارجہ میں سرتاج عزیز صاحب سے سشما سوراج کی کافی طویل ملاقات ہوئی جو پانچ گھنٹے پر پھیل گئی۔ اس ملاقات کے دوران تُو تُو مَیں مَیں بھی ہوئی اور تنائو بھی پیدا ہوا۔ آخرکار بھارت نے ہمیں جو draft دیا تھا ہم نے من و عن اسی کو تسلیم کرکے اسے بھارت کی خدمت میں پیش کر دیا:’ ’ٹھیک ہے جو آپ کہتے ہیں لکھ دیجیے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں‘‘۔ یہ تیسرا اعلامیہ ہے جس میں سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر پر پسپائی اختیار کی گئی۔

پہلا اعلامیہ جنوری ۲۰۰۴ء، دوسرا اعلامیہ جولائی ۲۰۰۹ء کی شرم الشیخ کا ہے، تیسرا اوفا میں جولائی ۲۰۱۵ء کا اور پھر چوتھا دسمبر ۲۰۱۵ء کا یہ اعلامیہ ہے۔ آپ کو بالکل ایک تسلسل نظر آرہا ہے کہ پرویز مشرف کے زمانے سے لے کر ۲۰۱۵ء میں نواز شریف وزارتِ عظمیٰ تک کس طرح کشمیر پر ایک لحاظ سے سمجھوتے کیے گئے۔ کچھ باتیں جو پبلک میں کہنے کی نہیں ہوتیں، حکمرانوں نے وہ بھی کہہ ڈالیں، جس کی وجہ سے بھارت نے بھی پاکستان کو سنجیدہ نہیں لیا۔ دُنیا بھلا کشمیر کے معاملے کو کیا سنجیدہ لیتی، جب کہ ہمارے مقتدر حضرات خود کشمیر کے معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے تھے۔ اس طرح ایک تسلسل کے ساتھ مختلف حکومتوں نے کشمیر سے کھلواڑ کیا جو کہ نہیں کرنا چاہیے۔ سفارت کاری میں ایسی ایسی غلطیاں کیں جو نہیں ہونی چاہییں تھیں۔

پانچویں سفارتی پسپائی:  اب آجاتے ہیں ۵؍اگست ۲۰۱۹ء پر۔ بھارت نے کشمیر پر جو کیا یہ ہمارے لیے صدمے کی بات تو تھی، مگر حیران کن بات نہیں تھی۔ یہ نظر آرہا تھا کہ کیا کچھ ہونے جارہا ہے، لیکن اس سے صرفِ نظر کیا گیا، مگر ایسا کس بنیاد پر کیا؟ کچھ معلوم نہیں اور پھر اس کے بعد ہم نے کیا کیا؟

ہم بھارت سے اپنے تعلقات کو نچلی سطح پر لے آئے اور اپنا ہائی کمشنر واپس بلالیا۔ ہم نے بھارت کے ساتھ اپنی تجارت بند کرلی۔ تین ماہ کے لیے فضائی حدود کو بھارت کے لیے بند کردیا۔ اس کے بعدہم نے اور بھی اقدامات کیے، مگر جن کا تسلسل برقرار نہیں رہ سکا۔ وزیراعظم عمران خان نے یہ کہا تھا کہ ہم کشمیر سے یکجہتی کے لیے ہرجمعہ کی نماز کے بعد کھڑے ہوں گے، لیکن اسے جاری نہ رکھ سکے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ساری چیزیں ختم ہوگئیں۔

ایک طرف یہ کہا: ’’بھارت کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے، جب تک بھارت ۴؍اگست ۲۰۱۹ء کی صورتِ حال کو بحال نہیں کرتا۔ اس نے آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵-اے کو ختم کیا ہے۔ وہ ان اقدامات کو واپس لے، تب ہم بھارت کے ساتھ مذاکرات کریں گے‘‘۔ لیکن ہوا کیا؟ بھارت کے ساتھ بیک چینل پر بات چیت جاری رہی اور اس کے نتیجے میں ہم سب کے لیے وہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا، جب ۲۵فروری ۲۰۲۱ء کو بھارت کے ساتھ ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا کہ ملٹری ڈائرکٹر جنرل آپریشن کے درمیان لائن آف کنٹرول پر فائربندی معاہدہ کرتے ہیں۔ یاد رہے نومبر ۲۰۰۳ء سے فائربندی پر ہماری بھارت کے ساتھ ایک رسمی معاملہ فہمی تھی، لیکن فائربندی برائے نام ہی تھی اور لائن آف کنٹرول پر فائرنگ ہوتی رہتی تھی اور بھارت کی جانب سے اس کی بہت زیادہ خلاف ورزیاں ہوئیں۔

یہاں پر میں آپ کو ذرا ماضی میں لے جاتا ہوں۔ ۲۰۱۵ء میں وزیراعظم نواز شریف نے جب اقوام متحدہ سے خطاب میں ۲۱ستمبر ۲۰۱۵ء کو مسئلۂ کشمیر کے حوالے سے متعدد تجاویز دیتے ہوئے یہ کہا کہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر ہماری فائر بندی کی formal understanding ہے اور ہم اسے فارمل معاہدے میں تبدیل کردیں۔

ان کی تقریر کے بعد بھارت کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت دول سے مَیں ملنے گیا کہ معلوم کروں کہ بھارت کا کیا ردعمل ہے؟ لیکن انھوں نے اس کا کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں دیا اور کہا کہ’’ چھوڑیئے یہ وقت نہیں ہے ان باتوں کا‘‘۔ وہی بھارت جو ۲۰۱۵ء میں سیزفائر انڈرسٹینڈنگ کو ایک معاہدے کی شکل دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھا، وہ ۲۰۲۱ء میں ہمارے ساتھ یہ معاہدہ کرتا ہے۔ ہم نے وہ معاہدہ کیوں کیا؟ مجھے اس کی ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ اگرچہ وہ ایک مناسب معاہدہ تھا لیکن اس کا وقت بہت غلط تھا۔ ۲۰۱۹ء کے بعد یہ معاہدہ کرنا بنتا ہی نہیں تھا۔ پھر اسی طرح ’کرتارپور کوریڈور‘ بنانا بھی نہیں بنتا تھا۔

ایک طرف یہ پوزیشن لی کہ ہم بھارت سے کوئی معاہدہ نہیں کریں گے اور دوسری طرف بیک چینل پر بھارت سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ اس سے دُنیا کو معلوم ہوگیا کہ یہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ۔ اس لیے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد دُنیا سے جس ردعمل کی توقع کی جارہی تھی، وہ نہیں ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ وہ سب اقدامات ہیں جوگذشتہ سولہ برسوں سے کیے جارہے تھے۔

پھر ایک اور دلچسپ بات ہوئی کہ نومبر ۲۰۱۹ء میں شنگھائی کارپوریشنز کے نیشنل ایڈوائزرز کی میٹنگ تھی۔ اس موقعے پر ہماری جانب سے پاکستان کا ایک نیا سیاسی نقشہ جاری کیا گیا۔ اس نقشے میں جہاں مقبوضہ جموں و کشمیر، گلگت، بلتستان اور لداخ کو ایک متنازعہ خطے کے طور پر پیش کیا، جو کرنا بھی چاہیے تھا، لیکن اس کے ساتھ جوناگڑھ کو بھی ایک متنازع علاقہ کے طور پر پیش کردیا۔ جوناگڑھ گجرات (انڈیا) کا علاقہ ہے۔ ۱۹۴۷ء میں اس وقت کے نواب مسلمان تھے، اور انھوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کردیا ، جب کہ ریاست کی اکثریت ہندو آبادی پر مشتمل تھی۔ بعد میں بھارت کی فوجوں نے وہاں قبضہ کیا اور پھر ریفرنڈم کروایا۔ چونکہ اکثریت ہندوئوں کی تھی، انھوں نے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس وقت جوناگڑھ کا پنڈورا باکس کیوں کھول دیا گیا؟ لیکن سوال یہ ہے کہ ان حالات میں اس سوال کو اُٹھانے کی کیا اہمیت ہے؟ آپ کیوں جموں و کشمیر پر اپنے موقف کو کمزور کر رہے ہیں؟

کشمیر کے اصولی موقف سے پسپائی کے یہ مختلف مراحل ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم کسی ایک حکومت یا کسی ایک شخصیت کو الزام نہیں دے سکتے۔ یہ ایک تسلسل ہے جو کہ جاری تھا اور جاری ہے۔ ہم نے مسلسل سفارتی غلطیوں پر غلطیاں کیوں کیں؟ کوئی اقدام کرنے سے پہلے ہم نے سوچ بچار کیوں نہیں کی؟

سفارت کاری ایک بڑا مشکل فن ہے۔ جو اسے معمولی کھیل سمجھتے ہیں اور بس چند دوست احباب کی باہم رواداری کے معاملے کے طور پر لیتے ہیں، وہ صرف اپنے ساتھ ہی نہیں، اپنی ریاست کے ساتھ بھی مذاق کرتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے تنازعات کہ جن سے لوگوں کی براہِ راست جانیں وابستہ ہوتی ہیں۔ کشمیر کوئی علاقائی تنازع تو نہیں ہے۔ یہ ایک کروڑ ۲۰ لاکھ کشمیریوں کی آزادی کا معاملہ ہے۔ آپ کس طرح اس کو اتنا ہلکا لے سکتے ہیں؟

یہ بات ضرور معلوم کرنی چاہیے کہ اگر صدر جنرل پرویز مشرف نے چار نکاتی فارمولا دیا تو اس کے پیچھے کیا حکمت عملی کارفرما تھی؟ کیا دفتر خارجہ کے اس وقت کے لوگ صدر مشرف کو مشورہ نہیں دے سکتے تھے؟ اگر دیا تو کس نے اور کس بنیاد پر اسے وزن نہ دیا؟ اور کیا اس کے اصل فریق کشمیری قیادت کو اعتماد میں لیا گیا؟

آگے کیا کرنا ہے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ہمارے مسائل کا تعلق اندرونِ ملک کے حالات سے ہے۔ جب تک ہمارے ملکی حالات بہتر نہیں ہوں گے، جب تک ہم اچھی حکمرانی کا مظاہرہ نہیں کرتے، کرپشن کو ختم نہیں کریں گے، اپنی معیشت کو ٹھیک نہیں کریں گے، سیاسی عدم استحکام سے جان نہیں چھڑائیں گے، اس وقت تک ہم سفارتی میدان میں کامیابیاں حاصل نہیں کرسکیں گے۔

یہ دُعا اور اُمید ہے کہ ان شاء اللہ کشمیریوں کو ان کا حقِ خود ارادیت ضرور ملے گا۔ تحریکوں میں اُتارچڑھائو آتا رہتا ہے، لیکن اگر ایمان پختہ ہو اور عزم راسخ ہو تو کوئی طاقت کامیابی سے روک نہیں سکتی۔ بقول اقبال  ؎

پُر دَم ہے اگر تُو تو نہیں خطرئہ اُفتاد
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا

ہمیں پہلے ہی سے اندازہ تھا کہ بھارت کی جانب سے ایک خاص لائن لی جا رہی ہے اور اس کا ایک بہت واضح ثبوت بھارتی حکومت کی جانب سے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو کشمیرکا سٹیٹس تبدیل کرنا تھا۔ اس وقت حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا کہ ہم نے بھارت کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو ڈائون گریڈ کرنا ہے، ہائی کمشنر وہاں نہیں بھجوانا ہے اور تجارت نہیں کرنی ہے۔ حکومت اور وزارتِ خارجہ کی اس پالیسی کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ، انڈین کارندے اجیت دوول کے ساتھ بات چیت کرتی رہی۔ اس کے نتیجے میں ہی ۲۵ فروری ۲۰۲۱ء کو فوجی کمانڈروں کی سطح پر اچانک فائر بندی معاہدہ سامنے آیا ۔ میری نظر میں فائر بندی کا یہ معاہدہ اس وقت جن حالات میں کیا گیا، اس کے لیے وہ ہرگز مناسب وقت نہ تھا۔یہ تجویز ہم نے ۲۰۱۵ء میں پیش کی تھی اور اس تجویز کو پیش کرنے کے بعد اجیت دوول سے میری ملاقات بھی ہوئی تھی اور اُس وقت انھوں نے یہ تجویز رد کردی تھی۔

 ہمیں یہ سوچنا چاہیے تھا کہ ۲۰۱۵ء میں جس تجویز کو انھوں نے رَد کر دیا تھا ۲۰۲۱ء میں اس پر عمل درآمد کر رہے ہیں تو آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی ایک واضح وجہ یہ تھی کہ ۲۰۲۱ء میں بھارت، لداخ میں چین کے ساتھ بُری طرح اُلجھ چکا تھا اور مسلسل ہزیمت اُٹھا رہا تھا، اور سخت دبائو میں تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی طرح پاکستان سے متصل دوسرے محاذ پر بھی کشیدہ صورتِ حال پیدا ہو۔ امرواقعہ ہے کہ ایک لحاظ سے ہماری جانب سے بھی چین کو غلط تاثر بھیجا گیا۔ یوں بھارت، ہمارے تعلقات میں غلط فہمی پیدا کرنے اور اپنے اُوپر سے دبائو کم کرنے میں کامیاب رہا۔ معلوم نہیں، اسٹیبلشمنٹ نے اس سے فائدہ ملک کو کیسے پہنچایا؟

اب جو باتیں ہو رہی ہیں کہ کشمیر کو ۲۰ سال کے لیے فریز کر دینا چاہیے وغیرہ۔ اس سے نہ صرف یہ کہ ہماری کشمیر ڈپلومیسی کمزور ہوئی بلکہ دنیا بھر میں ہماری کریڈ بیلٹی بھی متاثر ہوئی۔ اب جب ہم دنیا میں کشمیر پر بات کرتے ہیں تو ہماری بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ۔

کہا جاتا ہے کہ یہ عمل نواز شریف کے دور میں شروع ہو چکا تھا، جب انھوں نے نئی دہلی میں حُریت کانفرنس کے لیڈروں سے ملاقات نہیں کی تھی۔ ان کے دور میں ہی ۱۰ جولائی ۲۰۱۵ء کو ’اوفا معاہدہ‘ ہوا تھا، جس میں کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھی نواز صاحب کی یہ خواہش تھی کہ دوطرفہ تعلقات کو بڑھایا جائے، لیکن اُس وقت کی ہماری ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ ہمیں یک طرفہ کوئی چیز نہیں کرنی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں بھارت کے ساتھ تعلقات میں ’برف پگھلانے‘ والی بے معنی باتوں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے ٹھوس بنیادوں پر مسئلۂ کشمیر ہی کو عالمی سطح پر طے شدہ اُمور کے مطابق حل کرنے کی بات چیت کرنی چاہیے۔

کشمیر کا تنازع بہت پیچیدہ ہو گیا ہے ۔ اب اس کے لیے ضروری ہے کہ اگر ہمیں بات چیت کا عمل شروع کرنا ہے ، خواہ وہ فرنٹ چینل پر ہو یا بیک ڈور چینل پر، اس میں صرف اور صرف کشمیر کا مسئلہ زیر بحث آنا چاہیے ۔ اگر بھارت واقعی سنجیدہ ہے تو مذاکرات کا آغاز کشمیر سے ہونا چاہیے ۔ مثال کے طور پر ۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۷ء کی پالیسی کے تحت کشمیر سے تجارت اور سیاحت کے تعلق کو بحال کیا جائے، حُریت لیڈر شپ کو رہا کریں۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو بھارت کو لینے چاہییں یا ہمارے مذاکرات کے نتیجے میں فوری طور پر لینے چاہییں۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں وزیر خارجہ شرکت کے لیے ترجیحاً گئے، جب کہ سمر قند میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لیے نہیں گئے۔ حالانکہ افغانستان ہمارے لیے زیادہ اہم ہے۔ اگر وزیر خارجہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ایک اجلاس میں شرکت نہ کرتے تو اس سے کوئی قیامت نہ آ جاتی۔ اگر اس اجلاس میں شرکت بھی کرنا تھی تو ہمارے لیے اس موقعے پر کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی ضرورت تھی کہ یہ مسئلہ ہمارے لیے کتنا اہم ہے۔ بہتر تھا کہ ہم اپنی شرکت کو ڈائون گریڈ کر دیتے اور منسٹر آف سٹیٹ کو بھجوادیتے۔ اُمید ہے کہ جولائی میں جو کانفرنس منعقد ہونے والی ہے، اس میں ہمارے وزیر اعظم شرکت نہیںکریں گے اور وزیر خارجہ کو بھجوایا جائے گا۔

یوں محسوس ہوتاہے کہ ہماری کشمیر پالیسی ابہام سے دوچار ہے یا پھر واضح طور پر ہم امریکا کی طرف مائل ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ’شنگھائی تعاون تنظیم‘ کے اس اجلاس میں شرکت بھی امریکی دبائو کی وجہ سے ہی کی گئی ہے۔ حکومت ابھی یہ سوچ رہی تھی کہ بھارت سے مذاکرات کے لیے پیش کش کی جائے یا نہیں ؟ لیکن وزیر خارجہ کی خواہش تھی جس کا انھوں نے گذشتہ برس جون میں اپنی گفتگو میں اظہار بھی کر دیا تھا کہ ’’بھارت سے ہمارے تعلقات استوار ہونے چاہییں اور ہمیں نقصان ہو رہا ہے ‘‘۔ یقینا امریکا کا دبائو ہے کہ ہم بھارت سے اپنے تعلقات ٹھیک کریں اور وہ چاہتا ہے کہ ہم چین سے بھی کچھ فاصلہ پیدا کریں ۔ ایران او ر سعودی عرب کے سفارتی تعلقات بحال ہونے سے امریکا اور اسرائیل کو تشویش لاحق ہے۔ فیفا عالمی فٹ بال کپ میں قطر حکومت نے آٹھ بھارتی جاسوس پکڑے ہیں جو کہ ریٹائرڈ نیوی افسر تھے اور موساد کے لیے کام کر رہے تھے ۔ قطر میں اٹلی کے تعاون سے سب میرین بن رہی ہیں۔ ان چیزوں کو نظر میں رکھتے ہوئے ہمیں اپنا مستقبل بینی پر مبنی وژن واضح رکھنا چاہیے۔

۱۴ جنوری ۲۰۲۲ء کی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں تیار کردہ پاکستان کی قومی سکیورٹی پالیسی پیش کی گئی تھی، جس میں بہت سے بنیادی تضادات تھے۔ واضح طور پر محسوس ہورہا تھا کہ یہ امریکی اثرات کے تحت بنائی گئی ہے ۔ یہ ان لوگوں نے بنائی تھی جو خاص طور اس ایجنڈے کے لیے لائے گئے تھے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم اس کیمپ میں شامل نہیں ہوں گے یا ہم نیوٹرل ہیں، تو یہ باتیں سفارت کاری کی باتیں نہیں ہوتی ہیں۔ آپ کسی کیمپ میں شامل نہ ہوں لیکن اس کا اظہار نہیں کیا جاتا ۔ کیا آپ نے کبھی بھارت سے اس قسم کی لفاظی سنی ہے جس کا ہم اظہار کرتے رہتے ہیں؟

چین سے ہمارے تعلقات خراب کرنے کے لیے ایک عرصے سے کوششیں ہورہی ہیں۔ چین کو ہم سے کچھ شکایات بھی ہیں ، مثلاً ایک طرف سی پیک اور دوسری جانب  ہمارا امریکا کی طرف جھکائو کچھ زیادہ لگ رہا ہے ۔ ہمارے وزیر خارجہ تقریباًپانچ مرتبہ امریکا سے ہو آئے ہیں اور اس دوران صرف ایک مرتبہ ان کی انٹنی بیکر سے ملاقات ہوسکی، جب کہ باقی اسفار میں وہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے چھوٹے چھوٹے افسروں سے مل کر آگئے۔ اس سے ہماری ریاست کی مزید تحقیر ہوئی ہے۔ یہ بڑی شرمندگی کی صورتِ حال ہے کہ آپ واشنگٹن میں موجود ہیں، مگر آپ کو ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ بھی نہیں ملتی اور آپ ایک کونسلر کی سطح کے افسر سے مل کر آ جاتے ہیں۔

پھر بیرونی دُنیا میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ ’ہم کشمیر کو بھلا چکے ہیں اور کشمیر پالیسی میں بنیادی تبدیلی آچکی ہے ، اگرچہ اس کااظہار نہیں کیا جاتا‘۔ تاہم، میرے نزدیک ایسا نہیں ہے کہ ہم کشمیر پالیسی کو بدل چکے ہیں، البتہ کوششیں جاری ہیں کہ کسی طریقے سے کشمیر کو پس پشت ڈال کر بھارت کے ساتھ باقی بہت سے اُمور پر معاملات کا عمل شروع ہو جائے ۔ پچھلے ۷۵سال سے کشمیر پر ہمارے قومی موقف کے حوالے سے کسی بھی حکومت یا کسی ایک فرد کے اختیار میں نہیں ہے کہ قومی کشمیر پالیسی کو تبدیل کردے۔

البتہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ہم نے عملی سطح پر کشمیر کو کئی حوالوں سے بھلا دیا ہے ۔ کشمیر پالیسی میں پسپائی نظر آتی ہے اور تسلسل نہیں پایا جاتا۔ اس لیے جب ہم کشمیر پر بات کرتے ہیں تو لوگ ہماری بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ۔

پی ڈی ایم حکومت کے تحت کشمیر پارلیمنٹری کمیٹی کا چیئرمین کون ہے؟ اس کا نام شاید لوگوں کو معلوم نہ ہو۔ ایک ایسے شخص کو کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے جس کا کوئی سٹیٹس ہی نہیں ہے۔ماضی میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نواب زادہ نصراللہ خاں تھے، جو ایک نامور سیاست دان تھے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے خود اس مسئلے کو ڈائون گریڈ کر کے رکھ دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جموں وکشمیر پر اپنے قومی موقف اور نقطۂ نظر کو مؤثر انداز میں پیش کیا جائے۔ ہمارے اس نیم دلانہ رویے سے خود اہلِ کشمیر کا اعتماد مجروح ہو رہا ہے۔

کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ مسئلہ کشمیر کو کچھ عرصہ کے لیے منجمد کرکے چین، افغانستان، وسطی ایشیا اور بھارت کے درمیان پاکستان کو ایک کوریڈور بنا دیا جائے۔ اس طرح سے ہم بہت سے معاشی مفادات حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن حقائق کی دُنیا میں یہ ایک ناقابلِ عمل تجویز ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی بے اعتمادی اس قدر زیادہ ہے کہ اس قسم کی تجاویز پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ ہم تو بذریعہ سڑک بطور راہداری، انسانی بنیادوں پر امداد بھی نہیں بھجواسکتے کہ کوئی حادثہ پیش آ جائے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس قسم کے کام وہاں ہو سکتے ہیں جب دو طرفہ تعلقات مستحکم بنیادوں پر استوار ہوں اور باہمی اعتماد پایا جاتا ہو۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تجارت، بین الریاستی تعلقات کا ایک اہم جز ہے، اور عالم گیریت کے دور میں یہ اور بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ بعض حلقوں کی جانب سے یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ تجارت خاص طور پر ناموافق تعلقات میں اور بھی ضروری ہوجاتی ہے، کیونکہ اس سے بہتر ماحول کی تشکیل میں مد د ملتی ہے۔ بنیادی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ’’تجارت کو سیاست سے الگ رہنا چاہیے اور وقتاً فوقتاً کشیدگی کو دوطرفہ تجارت پر اثرانداز ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے، کیونکہ عارضی خلل بھی خاص طور پر عام لوگوں کے لیے نقصان دہ ہے‘‘۔

بلاشبہہ، کوئی بھی سمجھ دار شخص، پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے پر اعتراض نہیں کرسکتا، لیکن تاریخ ان کمزور لوگوں پر کبھی رحم نہیں کھائے گی جو وقتی مصلحتوں کی قربان گاہ پر اصولوں کی قربانی دیتے ہوئے اس حقیقت کے برعکس دلائل دیئے چلے جارہے ہیں۔

پاکستان ان دنوں تباہ کن سیلاب اور اس کے مابعد اثرات سے گزررہا ہے۔ ان حالات میں بھارت کے ساتھ تجارت دوبارہ شروع کرنے کے حق میں دلائل اور زیادہ زورشور سے سننے کو مل رہے ہیں۔ یہ دعویٰ کیا جارہا ہےکہ ممکنہ طور پر پاکستان کو کھانے پینے کی اشیا اور کپاس کی بڑے پیمانے پر قلت کا سامنا کرنا پڑے گا، جس سے نہ صرف مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا بلکہ پاکستانی برآمدات (exports) کو بھی نقصان پہنچے گا۔ لیکن بھارت سے ان اشیا کو درآمد کرکے اس صورتِ حال میں جزوی طور پر کمی لائی جاسکتی ہے، کیونکہ ان شدید معاشی اور مالیاتی حالات میں پاکستان کے لیے بھارت سے بہتر کوئی متبادل نہیں۔ اگر زندگی بخش دوائیں ہندستان سے درآمد کی جاسکتی ہیں تو ضروری اشیائے خورونوش کے حق میں یہ دلیل کیوں نہیں دی جاسکتی؟

جی ہاں، خالصتاً معاشی نقطۂ نظر سے یہ خیالات بامعنی ہیں۔ لیکن جب پاکستان بھارت تعلقات کی بات آتی ہے تو جغرافیائی معاشیات (جیواکنامکس) کو دوسرے بنیادی متعلقات سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔

۱۴فروری ۲۰۱۹ء کو پلوامہ میں مسلح کارروائی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، بھارت نے پاکستان سے درآمد و برآمد کے معاملات پر سخت فیصلے کیے اورفوری طور پر پاکستان سے درآمدات پر ۲۰۰ فی صد کسٹم ڈیوٹی عائد کر دی۔ لیکن پاکستان نے ردعمل میں اس طرح سے جواب نہیں دیا۔ تاہم، پاکستان نے سفارتی تعلقات کو کم کرنے کے علاوہ دوطرفہ تجارت کو صرف اس وقت روکا، جب اسی سال ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارت نے کشمیر پر یک طرفہ غیرقانونی ادغام کا فیصلہ کیا تھا۔ بھارت نے اپنی ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ غیرآئینی اقدام کیا۔ پاکستان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ ایسا ردعمل ظاہر کرے جیساکہ اس نے کیا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ۲۰۲۲ء کے سیلاب سے بہت پہلے پاکستان میں دوطرفہ تجارت کی بحالی کی تجاویز سننے میں آرہی تھیں۔ ’تحریک انصاف‘ کی حکومت میں وزیر تجارت عبداللہ رزاق داؤد اور وزیرخزانہ حماد اظہر نےعوامی سطح پر رائے سازی شروع کر رکھی تھی۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اس سلسلے میں ایک سمری بھی تیار کرلی تھی، جسے بعد میں انھی کی کابینہ نے مسترد کر دیا۔  بعدازاں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی حکومت کے وزیرخارجہ بلاول زرداری نے حلف اُٹھانے کے بعد اسلام آباد میں ایک تھنک ٹینک سے خطاب کے دوران بھارت سے تجارت کے حق میں بیان داغ دیا۔

خارجہ پالیسی کے اس طرح کے اہم فیصلوں کو ایسے غیرسنجیدہ انداز میں حل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ایسا ہونا چاہیے۔ شہباز شریف کی حکومت میں وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے ایک روز قوم کو بتایا کہ ’’پاکستان بھارت سے ضروری اشیائے خورو نوش درآمد کرنے پر غور کر رہا ہے‘‘۔ اور اگلے ہی روز وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے وزیرخزانہ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایسا کچھ نہیں ہے‘‘۔ خارجہ پالیسی کے اہم مسائل پر فیصلہ سازی کی مناسبت سے یہ رویہ تشویش ناک ہے۔

بھارتی حکومت نے کہا کہ اسلام آباد سے باضابطہ درخواست موصول ہونے پر اس معاملے پر غور کیا جائے گا، جب کہ بھارتی میڈیا نے یہ منتر دُہرایا کہ ’’تجارت اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘‘۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بھارت، پاکستان کو کشمیر پر اپنے روایتی موقف سے ہٹ کر چلتا دیکھنا چاہتا ہے۔ یاد رہے پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے ۷؍اگست ۲۰۱۹ء کو اپنے اجلاس میں کچھ ایسے فیصلے کیے، جو پاکستان میں وسیع عوامی جذبات کی نمایندگی کرتے ہیں۔دُنیا بھر میں مقیم کشمیریوں نے بھی ۵؍اگست کے بھارت کے غیرسنجیدہ فیصلے پر پاکستان کے معقول ردعمل کا خیرمقدم کیا۔

یہ سچ ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقے، کشمیر پر اپنے غیرسنجیدہ رویے کی وجہ سے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنہیں سکے۔ تاہم، عالمی برادری کی جانب سے لاتعلقی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پاکستان بھارت کے مقابلے میں اپنے اصولی موقف سے دست بردار ہوجائے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان کے اس موقف کو دُہرایا کہ ’’جب تک بھارت کشمیر کی سابقہ صورتِ حال کو بحال نہیں کرتا، پاکستان بھارت کے ساتھ دوطرفہ تعلقات قائم نہیں رکھ سکتا‘‘۔ بھارت یہ توقع کر رہا تھا کہ شہباز حکومت گذشتہ حکومت کی طرف سے اختیار کیے گئے سخت موقف کو بآسانی ترک کر دے گی۔

بھارت کی طرف سے مسلسل ہٹ دھرمی پر مبنی دھونس اور بین الاقوامی عہدوپیمان کی دھجیاں بکھیرنے کے باوجود، پاکستان کا دوطرفہ تجارت دوبارہ شروع کرنا کشمیر کاز کے لیے ایک اور دھچکا ہوگا۔ اسلام آباد کو بھارت کے غیرآئینی اقدامات کو قانونی حیثیت نہیں دینی چاہیے، جو کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور ۱۹۷۲ء کے شملہ معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان اس صورتِ حال کو جوں کا توں قبول کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا، جسے بھارت مستحکم کرنے پر تُلا ہوا ہے۔

ان حالات میں بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بحالی سے کشمیریوں کے حوصلے مزید پست ہوں گے۔ وہ سخت مشکلات میں اپنی جدوجہد کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ جب پیاز، ٹماٹر  اور کپاس کی درآمد دیگر جگہوں سے کی جاسکتی ہو تو کشمیریوں کی قربانی کو ان کی بھینٹ چڑھانا انتہائی افسوس ناک ہوگا۔ امرواقعہ تو یہ ہے کہ پاکستان کو دیگر مواقع سے استفادہ کرتے ہوئے بھارت سے ادویات کی درآمد بھی روک دینی چاہیے۔ اپنی کشمیر ڈپلومیسی کو مزید مستحکم کرنا چاہیے اور نامناسب وقت پر یک طرفہ لچک میں مبتلا ہونے سے گریز کرنا چاہیے۔

۱۶جون کو پاکستان کے وزیرخارجہ مسٹر بلاول زرداری نے اسلام آباد انسٹی ٹیوٹ فار اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز میں خطاب کرتے ہوئے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ’’پاکستان بین الاقوامی سطح پر تنہائی سے دوچار ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے سے ہمیں کون سا فائدہ ہورہا ہے؟ ہمیں چاہیے کہ ہم بھارت کے ساتھ تعلقات بحال اور تجارت کریں‘‘۔

یہ وہی بلاول زرداری ہیں، جو حکومت میں آنے سے قبل جب حزبِ اختلاف میں تھے تو عمران خان حکومت کو طعنہ دیا اور الزام لگایا کرتے تھے کہ ’کشمیر کو مودی کے ہاتھوں بیچ دیا ہے‘۔ ہمارے ہاں یہ عجیب مریضانہ رواج ہے کہ جب حزبِ اختلاف میں ہوتے ہیں تو گرماگرم تقریریں کی جاتی ہیں اور حکومت کی کسی بات کی کبھی تحسین نہیں کی جاتی، مگر جب خود حکومت میں آتے ہیں تو رویئے فوراً بدل جاتے ہیں اور موقف یک سر تبدیل ہوجاتا ہے۔ کل تک جو پہلے وزیراعظم کو طعنے دے رہے تھے۔ اب وہ خود ایسے شوشے چھوڑ رہے ہیں کہ ’’ہمیں بھارت کے ساتھ تجارت کرنی چاہیے اور بھارت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے چاہییں‘‘۔

کوئی ذی شعور پاکستانی، بھارت کے ساتھ مستقل بنیادوں پر تعلقات خراب کرنا نہیں چاہتا۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہوں، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تعلقات کو بہتر بنانے کی قیمت کیا ہے؟اگر تو اس کی قیمت یہ ہے کہ ہم جموں و کشمیر کے تنازعے ہی کو نظرانداز کردیں اور بھارت مقبوضہ جموںو کشمیر میں جو کچھ کرتا چلا جائے، ہم اس پر احتجاج نہ کریں اور اس تمام تر ظلم و زیادتی پر سردمہری برتتے ہوئے اسے تسلیم کرتے رہیں، اور لائن آف کنٹرول کو انٹرنیشنل سرحد مان کر اس تنازعے کو اسی طرح ختم کر دیں، جس طرح ہمارے ہاں کچھ لوگ چاہتے ہیں۔ نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا، لیکن اس کے باوجود اس پر بحث بھی ہوسکتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح وزیرخارجہ بلاول نے بیان دیاہے، اس کی ٹائمنگ کو پہلے ذہن میں رکھیے۔ پھر اس بیان کی جڑ بنیاد (substance) کی بات کرتے ہیں۔

صورتِ حال یہ ہے کہ چند روز پہلے آپ ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (او آئی سی) کے جنرل سیکرٹری کو فون کر کے کہتے ہیں کہ ’’او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے اور بھارت کے خلاف ٹھوس ایکشن لیا جائے۔ بھارت میں کانپور سے رانچی تک مسلمانوں کے خلاف جو کچھ کیا جارہا ہے، اس کے خلاف اقدامات اُٹھائے جائیں‘‘۔ مگر اس کے صرف تین روز کے بعد آپ یہ پیغام دے رہے ہیں۔ اس بات پر  او آئی سی کے جنرل سیکرٹری اور پوری دُنیا یہ کہتی ہوگی کہ ’’یہ کیا مذاق کیا جارہا ہے؟ یہ کس قسم کے لوگ ہیں؟ خود ان کا موقف واضح نہیں ہے کہ یہ کیا چاہتے ہیں؟ ایک طرف ہمیں یہ کہتے ہیں کہ اجلاس بلائیں اور تجارت ختم کریں اور بھارت کا بائیکاٹ کریں اور دوسری طرف اس قسم کے بیانات دے رہے ہیں‘‘۔ اس طرح متضاد اور جگ ہنسائی پر مبنی بیانات دے کر ہم دنیا کے سامنے اپنی ساکھ کو دائو پر لگادیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد ’اسلامی کانفرنس تنظیم‘ ہمارے ساتھ کھڑی نہ ہوئی، کجا یہ کہ ہم سلامتی کونسل کا رسمی اجلاس بلا کر ہی کچھ کرلیتے۔ یہ تسلیم کرتے ہوئے مجھے اذیت محسوس ہورہی ہے کہ ہمارے اہل حل وعقد کی ایسی تضاد بیانیوں کی وجہ سے کہیں بھی ہمیں کوئی ٹھوس اور بامعنی تائید نہیں ملی۔ اقوام متحدہ کے اندر بلاشبہہ چند تقاریر ضرور ہوگئیں، اس کے سوا ہمیں کیا تائید و حمایت ملی؟ آج پھر ہم وہی غلطی کر رہے ہیں۔ یہی لوگ جب حزب اختلاف میں تھے تو بڑی بڑی باتیں کرتے تھے کہ ہم نے مسئلہ کشمیر کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا۔ خدارا، تھوڑا سا ٹائمنگ کا خیال رکھ لیں کہ حالات کیا ہیں اور اس وقت بھارت میں کیا ہورہا ہے؟ اور وہاں کون سی قیامت برپا ہے؟ موجودہ حالات کے پس منظر میں کیا ایسی بیان بازی موزوں ہے؟

دوسری طرف اس بیان کا جائزہ لیجیے۔ بھارت کے ساتھ بیک ڈور چینل پر باتیں ہوتی رہتی ہیں اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن جب آپ چیزوں کو پبلک ڈومین یا قومی اور بین الاقوامی سطح پر لے کر آتے ہیں اور اسٹرکچرل ڈائیلاگ یا بنیادی مذاکرات کی بات کرتے ہیں، تو پھر آپ کے ہرلفظ اور ہرجملے سے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ آپ بیک ڈور چینل پر ایک گرائونڈ تیار کرتے ہیں اور جب تک گرائونڈ تیار نہیں ہوجاتی اس وقت تک اسٹرکچرل ڈائیلاگ کے لیے بیان دینا مناسب نہیں۔ لہٰذا، یہ دانش مندی کی بات نہیں ہے کہ ہم براہِ راست یہ کہیں کہ ہمیں بھارت کے ساتھ اسٹرکچرل ڈائیلاگ یا مذاکرات کرنا چاہییں۔ بھارت کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ وہ بیک ڈور چینل پر مصروف رکھتا ہے اور جب اسٹرکچرل ڈائیلاگ کا مرحلہ آتا ہے تو خصوصاً کشمیر پر پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کرواتا رہتا ہے۔

۲۰۰۴ء سے لے کر اب تک ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح بھارت نے کشمیر پر ہماری پوزیشن کو کمزور کیا ہے؟ کس طرح دہشت گردی کو پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑا تنازعہ بنایا؟ حالانکہ اصل تنازعہ تو مسئلہ جموں و کشمیر ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات اس وقت تک کبھی معمول پر نہیں آسکتے، جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہوجائے۔ یہ پہلو ہروقت سامنے رہنا چاہیے۔

اگر وزیرخارجہ کے مطابق پاکستان اس وقت ’تنہائی‘ کا شکار ہے، تو اس کی وجہ کشمیر یا پاک بھارت تعلقات کی خرابی نہیں ہے، بلکہ ہماری داخلی کمزوریاں اور خرابیاں ہیں۔ ہمارے اندر کے جو معاملات ہیں، ’میموگیٹ‘ سے لے کر ’ڈان لیکس‘ وغیرہ تک کے جو ایشوز ہیں، اگر ان کو ہی دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ خدارا، پاکستان کی سفارت کاری کو اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کو مذاق نہ بنایئے۔ ہمارا ایک مضبوط قومی موقف ہے، اسی کو برقرار رکھیے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنی انتظامی اور اداراتی کمزوریوں کی وجہ سے بین الاقوامی رائے عامہ اور حکومتوں کو اس طرف نہیں لاسکے ہیں۔ اس کے پیچھے گوناگوں مسائل اور سفارتی سطح پر ہماری کوتاہیاں ہیں۔

وزیرخارجہ کے اس بیان میں پائی جانے والی کمزوری اور ناسمجھی، کشمیر کے موقف سے اساسی انحراف اور ایک بڑی زیادتی ہے۔ یہ پاکستانیوں کے ساتھ بھی زیادتی ہے کہ جو گذشتہ ۷۵برس سے جانی اور مالی سطح پر بہت بڑی قربانی دے رہے ہیں، اور پھر بنیادی طور پر کشمیریوں کے ساتھ بھی انتہائی ظلم ہے جو بے شمار قربانیاں دے رہے ہیں اور ابھی تک جنھوں نے پاکستان کا جھنڈا اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا ہے۔

ایک طرف یاسین ملک صاحب اور شبیراحمد شاہ صاحب کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ مسرت عالم اور آسیہ اندرابی کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ ڈاکٹر قاسم فتو اور  بلال لون کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ کتنے نام گنوائے جائیں؟ کتنی مائوں بہنوں کی عصمتیں لوٹی گئی ہیں اور کیا کیا مظالم انھوں نے برداشت نہیں کیے۔ آج بھارت جو کچھ کررہا ہے اور جمہوریت اور جمہوری اقدار کو مٹانے کے لیے جس طرح کے اقدام کر رہا ہے، کیا اس سب کے باوجود آپ بھارت سے تعلقات بحال کرنا چاہتے ہیں۔ آخر بھارت سے تعلقات بحال کرکے آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ ایسے بیانات سے ہم اپنی ساکھ کھو دیتے ہیں، اور حاصل کچھ نہیں ہوتا، اور اس طرح کشمیر پالیسی کو مزید نقصان پہنچاتے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ تنہائی کا شکار ہیں تو اس کو دُور کرنے کے اور بہت سے طریقے ہیں۔ صرف یہی طریقہ نہیں ہے کہ آپ بھارت کے سامنے بچھ جائیں کہ ہماری مدد کیجیے۔اگر یہی ذہنی سانچہ ہے تو بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

بین الاقوامی قانون میں کسی ریاست کو تسلیم کرنے میں چند چیزیں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں لیکن  افغانستان کا مسئلہ ایک نئی ریاست کی تشکیل کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ پہلے ہی سے ایک تسلیم شدہ ریاست ہے۔ تاہم، یہاں حکومت کو تسلیم کرنے کا مسئلہ درپیش ہے۔

اس ضمن میں تین چیزیں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں: ایک یہ کہ جو بھی ریاست موجود ہو، اس کا پوری سرزمین پر مؤثر قبضہ (effective control ) ہو۔ دوسرا یہ کہ وہاں کوئی آبادی موجود ہو،  اس حکومت کو عوام کی تائید حاصل ہو۔ تیسرا یہ کہ وہ حکومت کام کرنے کے قابل بھی ہو۔ جب کسی حکومت کو تسلیم کرنے کا مرحلہ پیش آتا ہے تو بین الاقوامی قانون میں انھی چیزوں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔

عام حالات میں تو حکومتیں پُرامن طریقے سے تبدیل ہوجاتی ہیں۔ انتخابات ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایک نئی حکومت تشکیل پاتی ہے۔ لیکن جہاں خانہ جنگی ہو یا اس ملک کے لوگ بیرونی جارحیت کے خلاف جدوجہد کر رہے ہوں جیساکہ افغانستان میں تھا، تو پھر ایسے سوالات اُٹھتے ہیں جیساکہ ۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء کو یہ سوال پیدا ہوا: ’افغانستان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے یا نہ کیا جائے؟‘ اس سے پہلے بھی ہم نے دیکھا، جب ۱۹۹۶ء میں طالبان کی حکومت بنی تو صرف تین ممالک نے اس کو تسلیم کیا تھا، جن میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پاکستان شامل تھے۔ طالبان کی حکومت نے اس وقت بھی تقریباً پانچ سال پورے کیے،مگر اس کے باوجود دُنیا نے ان کو تسلیم نہیں کیا تھا اور اقوام متحدہ میں بھی ان کو نمایندگی نہیں دی گئی۔ لیکن اُس زمانے میں بھی امریکا اور دوسرے ممالک سے طالبان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات ہوتے اورمعاملات چلتے رہتے تھے۔

کسی حکومت کو تسلیم کرنے میں یہ بات اہم ہوتی ہے کہ Defacto (فی الواقع) ہے، یا Dejure (حقیقی)۔ Defacto (فی الواقع) کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو تسلیم تو نہیں کیا جاتا، لیکن اس کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔Dejure (حقیقی)کا مطلب ہے کہ قانونی طور پر کسی حکومت کو تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ دُنیا نے طالبان کی حکومت کو حقیقت میں تسلیم نہیں کیا، لیکن فی الواقع تمام ممالک ان سے رابطہ بھی کر رہے ہیں، مل بھی رہے ہیں اور کابل میں بہت سے ممالک کے سفارت خانے بھی کھلے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ امریکا سمیت بہت سے دیگر ممالک ان سے رابطے میں ہیں۔خود طالبان حکومت سفارتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ دُنیا کے لیے افغانستان میں رابطے کے لیے طالبان کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔

بین الاقوامی تعلقات میں اصل چیز قومی مفادات ہوتے ہیں۔ اگر قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے معاملات دیکھیں تو نتائج اخذ کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ پچھلی صدی سے افغانستان میں گریٹ گیم چلتی رہی ہے، اور یہ گریٹ گیم ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہے۔ ماضی میں یہ گریٹ گیم امریکا،برطانیہ اور روس کے درمیان تھی، لیکن اب یہ کھیل امریکا اور چین کے درمیان کھیلا جارہا ہے اور افغانستان کی موجودہ صورتِ حال اسی تزویراتی کش مکش کا حصہ ہے۔ پھر اس گریٹ گیم کا حصہ  تین اہم ممالک پاکستان، ایران اور بھارت بھی ہیں۔

پاکستان سے ایک اہم سفارتی غلطی ہوئی ہے۔ جب ہم طالبان پر دبائو ڈال رہے تھے کہ وہ امریکا کے ساتھ بات چیت کریں اور ان کے امریکا کے ساتھ تعلقات بن سکیں۔ اسی کے نتیجے میں ۲۹فروری ۲۰۲۰ء کو امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ایک معاہدہ بھی طے پایا۔ اس موقعے پر حکومت پاکستان کو کچھ چیزیں طے کرنی اور طے کرانی چاہییں تھیں، جب کہ یہ بات بالکل واضح تھی کہ افغانستان میں جلد یا بدیر طالبان کی حکومت بننے والی ہے۔ چاہے وہ خانہ جنگی سے آئے یا پُرامن طریقے سے!

گذشتہ چار برسوں کے دوران اسلام آباد میں پس پردہ اجلاس ہوتے رہے، جن میں پاکستان نے شرکت کی۔ افغان حکومت کے پارلیمنٹیرین ان اجلاسوں کا حصہ ہوتے تھے۔ میں ان سے کہا کرتا تھا کہ ’’آپ طالبان کو نظر انداز کر رہے ہیں اور طالبان بھی آپ کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ اگر طالبان نے آپ کے ساتھ مفاہمت کرلی تو ان کی پوری جدوجہد اور تحریک ختم ہوجائے گی۔ وہ ایک نظریاتی اساس رکھتے ہیں اور وہ اپنی اساس کو کبھی چیلنج نہیں ہونے دیں گے۔ طالبان کا جو مزاج ہے وہ یہ نہیں ہے کہ وہ ’کچھ لو اور دو‘ کی بنیاد پر مصالحت کریں اور پھر ایک قومی حکومت بنائیں، یہ ہو نہیں سکتا‘‘، مگر انھیں یہ بات بہت بُری لگتی تھی۔

ہمارے دفترخارجہ کے بہت سے دوستوں کا خیال تھا کہ ’’اب ۹۰ کے عشرے والی بات نہیں ہے۔ اب ساڑھے تین لاکھ کی تعداد میں افغان فوج بہت مضبوط ہوگئی ہے، اور بیوروکریسی بھی موجود ہے۔ ایسے حالات نہیں ہیں کہ طالبان آئیں گے اور قبضہ کرلیں گے‘‘۔ مگر ساری دُنیا نے دیکھا کہ ۱۴؍اگست ۲۰۲۱ء کو جب امریکی حمایت سے قائم صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر فرار ہوئے تو طالبان نے بغیر کسی خون خرابے کے کابل کا کنٹرول سنبھال لیا۔

ابتدا میں پاکستان کو یہ اندازہ کرلینا چاہیے تھا کہ طالبان ہی کو بہرحال حکومت بنانی ہے۔۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء سے پہلے ہم نے جو اقدامات کیے، مثال کے طور پر احمدشاہ مسعود کے بھائی کو ایک ماہ قبل اسلام آباد میں آنے کی دعوت دی اور ان کو اسٹیٹ پروٹوکول دیا گیا، اسی طرح اور بہت سے لوگوں کو بلایا گیا۔ حکومت، دفترخارجہ کے کچھ افراد اور دفاعی حلقے کے صلاح کار پریشان فکری کا شکار تھے۔ حکومت کا خیال تھا کہ اگر ’’ہم شمالی اتحاد یا جسے ’قومی مزاحمتی فوج‘ کہتے ہیں کو رابطے میں لائیں گے تو طالبان پر دبائو بڑھا سکیں گے اور شاید طالبان افغان حکومت سے مفاہمت کے لیے تیار ہو جائیں۔ لیکن غالباً ان سب لوگوں کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ برادرانہ دبائو کی بھی ایک حد ہے۔ جب یہ دبائو ان کی نظریاتی اساس کو چیلنج کرنے لگے گا تو پھر مؤثر نہیں رہے گا۔

ہمیں چاہیے تھا کہ ہم امریکا سے یہ طے کرلیتے کہ اگر طالبان کی حکومت آگئی، تو ہمیں ان کے ساتھ کیسے معاملہ کرنا ہے؟ صرف امریکا کے ساتھ ہی نہیں بلکہ چین کے ساتھ بھی خاص طور پر ہمیں کچھ چیزوں کا تعین پہلے سے کرلینا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب ۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء کو طالبان نے حکومت کا کنٹرول سنبھالا تو اسلام آباد میں حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی۔ یہ بالکل اسی طرح معاملہ ہوا ،جو ۱۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو پاکستان کے ساتھ ہوا تھا، جب بھار ت نے کشمیر پر غیرآئینی اقدامات کیے تو حکومت کو سمجھ نہیں آئی کہ اب ہم کیا کریں؟ حالانکہ وہ بھی غیرمتوقع نہیں تھا، لیکن ہم شاید سوئےرہے اور اس بوکھلاہٹ کی کیفیت سے باہر نہیں نکل سکے۔

۲۰دسمبر ۲۰۲۱ء کو ہم نے او آئی سی کا اجلاس بلایا۔ یہ انسانی تناظر میں ایک اچھی کوشش تھی، کیونکہ اگر افغانستان بحران سے دوچار ہوتا ہے یا معاشی تباہی سے دوچار ہوتا ہے تو مسائل کا سب سے زیادہ تباہ کن بوجھ پاکستان ہی پر آنا ہے۔ ہم ہمسایہ ہیں اور ہماری افغانستان کے ساتھ ۲۶ سوکلومیٹر طویل سرحد ہے۔ افغانستان میں جو بھی صورتِ حال ہے، اس سے ہم لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، افغانستان کی صورتِ حال کو ٹھیک کرنا ہمارے قومی مفاد میں ہے۔ پھر یہ مسئلہ ہمارے ساتھ ۱۹۷۰ء کے عشرے سے چل رہا ہے۔ اُس زمانے میں ہرروز پشاور میں دھماکے ہوتے تھے۔ افسوس کہ ہم نے اپنی کوتاہی سے نہیں سیکھا، اور طالبان کی حکومت کے لیے پیش بندی نہ کی۔ اور نہ یہ جاننا چاہا کہ طالبان کس فکر، کس عزم اور سوچ کے علَم بردار ہیں۔

اگلی غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے یہ کہہ کر اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد پر خود ہی اپنے ہاتھ باندھ لیے کہ ’’ہم علاقائی سوچ کے ذریعے آگے بڑھیں گے‘‘۔ نتیجہ یہ کہ ہمارے لیے گنجایش بہت کم رہ گئی۔ ڈپلومیسی میں سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے آپ کو کسی محدود تصور کا پابند کرلیں۔ اس طرح آپ کے لیے آگے بڑھنے کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔ پاکستان نے علانیہ یہ کہہ دیا کہ ’’ہم طالبان کی حکومت کو اکیلے تسلیم نہیں کریں گے‘‘۔ بے شک حکومت کو تسلیم نہ کرتے، لیکن علانیہ یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی۔ اگر ہم چیزوں میں کچھ گنجایش رکھتے تو پھر دُنیا بھی یہ دیکھتی ہے کہ پاکستان کب طالبان کی حکومت کو تسلیم کرتا ہے اور یوں وہ بھی آگے بڑھ کر قدم اُٹھانے کی پوزیشن میں آسکتے تھے۔ ہمارے اس عاجلانہ اور غیرحکیمانہ موقف نے ہمارا اثرورسوخ ختم کردیا اور افغانستان کے مسئلے پر ہماری جو کلیدی پوزیشن ہونی چاہیے تھی وہ ہم نے خودختم کردی۔

بلاشبہہ پاکستان تنہا افغانستان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ ہماری مخدوش معاشی صورتِ حال، ایف اے ٹی ایف کامعاشی دبائو اور بہت سی مجبوریوں کا ہمیں سامنا ہے۔ روس اور یوکرین کے تنازعے سے ہمارے متبادل اور بھی کم ہوگئے ہیں۔ ا س وقت بین الاقوامی برادری کی توجہ یوکرین کے مسئلے پر زیادہ اور افغانستان کی صورتِ حال پر کم ہوگئی ہے۔ اب ہمارے لیے مسائل اور بڑھیں گے۔ ہمارا خیال تھا کہ او آئی سی کا اجلاس بلانے سے افغان بھائیوں کے لیے ہم کچھ فنڈز جمع کرلیں گے، لیکن وہ بھی نہیں ہوپایا، اور نہ ہم اس کے لیے کوئی طریق کار ہی وضع کرسکے ہیں۔

دوسری طرف یہ بات یاد رکھیے کہ بھارت نے افغانستان سے اپنے ہاتھ کھینچنے نہیں ہیں۔ پچھلے بیس برسوں کے دوران اس نے وہاں بہت سے اثاثے (assets ) بنائے ہیں۔ بھارت اور امریکا کا ایک مشترکہ ہدف یہ ہے کہ وہ اس خطے اور افغانستان کو مستحکم نہیں ہونے دینا چاہتے۔ امریکا یہاں سے بظاہر چھوڑ کر تو چلاگیا، لیکن اس کا مقصد یہی ہے کہ افغانستان اسی طرح انگارہ بنا رہے اور پاکستان بھی مسائل سے دوچاررہے۔ صرف بھارت اور امریکا ہی یہ نہیں چاہتے کہ گوادر نہ بنے، سی پیک آپریشن بند ہوجائے، بلکہ ہمارے کچھ قریبی دوست ممالک بھی نہیں چاہتے کہ گوادر کی بندرگاہ تعمیر ہو، کہ اس طرح ان کی اپنی بندرگاہوں کے معاملات متاثر ہوجائیں گے۔

اس صورتِ حال میں پاکستان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ افغانستان کے حوالے سے کوئی یک طرفہ فیصلہ کرسکے۔ ہمیں طالبان کو قائل کرنا پڑے گا کہ اگر وہ ایک وسیع تر حکومت نہیں بناسکتے، تو کم از کم ’لویہ جرگہ‘ ہی بلایا جائے تاکہ حکومت کے لیے کوئی قانونی جواز پیدا ہوسکے۔دُنیا طالبان کو ایک جائز حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کررہی۔ ان کا یہ ایک بے تُکا اور غیرمنصفانہ اعتراض ہے کہ ’’طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا ہے‘‘۔ اگر دُنیا کی تاریخ پڑھیں تو بیرونی جارحیت کے خلاف حکومتیں اسی طرح بنتی ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ طالبان پشتون اکثریتی نسلی گروہ ہے۔ افغانستان میں ۲۷ فی صد تاجک رہتے ہیں۔ اگرچہ طالبان نے باقی نسلی گروہوں کو بھی نمایندگی دی ہے، مگر تاجکستان اور ازبکستان  کو اس پر پریشانی ہوتی ہے۔ہمیں ان برادر ممالک کی پریشانی کے ازالے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے دوچیزوں پر طالبان کو کچھ نہ کچھ نرمی دکھانی پڑے گی۔ اگرچہ وہ عبداللہ عبداللہ یا حامد کرزئی کو حکومت میں شامل نہیں کرسکتے، لیکن اپوزیشن کی دوسرے اورتیسرے درجے کی قیادت کو توشامل کیا جاسکتا ہے اور ایسے افراد کو لیا جاسکتاہے جو ان کی نظریاتی اساس کو چیلنج نہ کریں۔دوسرا معاملہ خواتین کی تعلیم اور ان کے کام کرنے کے مواقع کا ہے۔ اگرچہ طالبان نے اس مسئلے میں کچھ نرمی دکھائی ہے، لیکن اس میں مزید گنجایش پیدا کریں تو مناسب ہوگا۔

ان حالات میں پاکستان پر بہت بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ آج کل یوکرین کا مسئلہ عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ہمارا اس کے ساتھ براہِ راست تعلق نہیں ہے، ہمیں تو افغانستان کی فکر کرنی ہے کہ اس کی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے، تاکہ یہاں استحکام پیدا ہو۔ البتہ یہ مسئلہ اب راتوں رات حل نہیں ہوسکتا۔ ایسا نظر آرہا ہے کہ اگلے ایک دو سال تک طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کا مسئلہ التوا کا شکار رہے گا، جو اپنی جگہ کسی بڑے المیے کو جنم دے سکتا ہے۔

روس اس وقت یوکرین میں اُلجھا ہوا ہے، لیکن پاکستان، چین اور ایران، طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کریں اور طالبان کو اس بات پر تیار کرسکیں کہ وہ کچھ نرمی دکھائیں تو اس طرح معاملات کو کچھ آگے بڑھایا جاسکے گا۔

یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ افغانستان میں ایک طویل مدت کے بعد امن کی صورتِ حال پیدا ہوئی ہے۔ اس بار پورے افغانستان پر طالبان کو کنٹرول حاصل ہے۔ ۹۰ء کے عشرے کی طرح کی صورتِ حال نہیں ہے کہ جب طالبان کے پاس مزارشریف اور وادیِ پنج شیرنہیں تھی۔ لہٰذا، کوئی وجہ نہیں ہے کہ دُنیا انھیں تسلیم نہ کرے۔

اب تک اقوام متحدہ میں افغانستان کے حوالے سے دو قراردادیں منظورہوئی ہیں۔ ایک ۳۰؍اگست ۲۰۲۱ء کو قرارداد ۲۵۹۳ منظور ہوئی، جب بھارت سلامتی کونسل کا صدر تھا۔ صرف ایک دن پہلے جب اس کی صدارت ختم ہورہی تھی، وہ ایک قرارداد منظور کروانے میں کامیاب ہوگیا۔ جس میں وہ تمام مطالبات میں شامل ہیں، جو دُنیا کہہ رہی ہے۔ پھر ۱۵جنوری ۲۰۲۲ء کو ایک اور قرارداد ۲۶۱۵ منظور ہوگئی۔ اس میں بھی اسی قسم کے مطالبات ہیں۔ ان حالات میں سفارتی عمل مشکل ہوجاتا ہے، لیکن ہرمسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی سفارتی سرگرمیوں کو فعال کرنا ہوگا۔ یہ کام مشکل ضرور ہے، لیکن اگر ہم اہداف متعین کرکے مسلسل کوشش کریں تو کامیابی مل سکتی ہے۔

ایک سوال فضا میں گردش کر رہا ہے کہ ’’پاکستان نے ان بھارتی ٹرکوں کو جو واہگہ کے ذریعے افغانستان انسانی بنیادوں پرامداد لے جانا چاہتے تھے، پاکستان سے راہداری کی اجازت نہ دے کر سفارتی غلطی کا ارتکاب کیا ہے، کیونکہ یہ ایک اچھا موقع تھا پاکستان اور بھارت کے درمیان تنائو کی فضا کم کرنے کا۔  جب ہم نے بھارت کو واہگہ سے ٹرک لے جانے کی اجازت نہیں دی تو وہ چاہ بہار، ایران کے ذریعے سے امدادی سامان لے کر جائے گا۔ اس طرح بھارت اور ایران کے تعلقات مزید بہتر ہوں گے اور افغانستان کا پاکستان پر انحصار بھی کم ہوگا‘‘۔

بظاہر یہ سوال درست دکھائی دیتا ہے، مگر فی الحقیقت معاملہ یہ نہیں ہے۔ پاکستان کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ افغانستان میں جس قدر جلد ممکن ہو، اناج اور کھانے پینے کی اشیا پر مشتمل  امدادی سامان پہنچے کیونکہ اگر خدانخواستہ وہاں صورتِ حال خراب ہوتی ہے تو اس کا براہِ راست اثر پاکستان پر بھی پڑے گا۔ پاکستان کبھی نہیں چاہے گا کہ یہاں پر مزید افغان مہاجرین آئیں، اور افغانستان پھر کسی مشکل صورتِ حال سے دوچار ہو۔ اگر معاشی صورتِ حال خراب ہوتی ہے یاانسانی بحران پیدا ہوتا ہے تو اس سے دہشت گردوں کو موقع ملے گا۔ لہٰذا، پاکستان کا مفاداسی میں ہے کہ افغانستان کی صورتِ حال جس قدر جلد ممکن ہو، بہتر ہو۔ اسی لیے پاکستان نے دسمبر۲۰۲۱ء میں ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کی وزرائے خارجہ کانفرنس کی میزبانی ایک نکاتی ایجنڈے پر کی تھی، کہ کس طرح افغانستان کو انسانی بحران سے بچایا جائے؟ جو ملک بھی افغانستان کو امداد دیتا ہے یا دے گا، پاکستان اسے خوش آمدید کہتا ہے اور خوش آمدید کہتا رہے گا، چاہے وہ بھارت ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اس سارے معاملے کو اس کے درست پس منظر میں دیکھناہوگا۔

اس مذکورہ امدادی مشن کے حوالے سے پاکستان نے بھارت کو بہت سی مراعات بھی دینا چاہی ہیں۔ مثلاً یہ کہا کہ ’’بھارت ۵۰میٹرک ٹن گندم کی جو امداد دینا چاہتا ہے، وہ پاکستانی ٹرکوں کے ذریعے طورخم تک پہنچائی جائے‘‘، یا ’’افغانستان کے ٹرک واہگہ تک آئیں اور گندم لے کر چلے جائیں‘‘۔ بھارت نے جواب میں یہ کہا کہ ’’کیا گارنٹی ہے کہ ہم جو امداد دےرہے ہیں، وہ افغانستان میں صحیح جگہ تقسیم ہوگی؟‘‘ ہم نے کہا کہ ’’یہ امداد اقوام متحدہ کی نگرانی میں تقسیم کرا دی جائے گی اور اس طرح کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا‘‘۔ لیکن بھارت نے ان معقول دلائل کا جواب دینے کے بجائے فیصلہ کیا ہے کہ وہ چاہ بہار کے ذریعے ہی یہ امداد پہنچائے گا۔

زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان اوربھارت کے تعلقات میں باہمی اعتماد کی فضا نہیں ہے۔ اگر ہم اجازت بھی دے دیں کہ بھارتی ٹرک ہی واہگہ سے گزرتے ہوئے طورخم تک جائیں، تو اس طرح یقینا سیکڑوں بھارتی ٹرک آئیں گے۔ اگر ایسے میں پاکستان سے گزرتے ہوئے کسی ایک بھارتی ٹرک کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آجاتاہے، یا کوئی دہشت گردی کا واقعہ رُونما ہوتا ہے، تو انسانی بحران کے خاتمے کے لیے کی جانی والی یہ کوشش، پاکستان اوربھارت کے درمیان ایک بحران کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔ اس لیےیہ خطرہ مول لینا کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہے۔ لہٰذا، حکومت پاکستان نے صحیح فیصلہ کیا ہے اور اس بات کی اجازت نہیں دی کہ بھارتی ٹرک واہگہ سے افغانستان جائیں۔ اس طرح ہمارے لیے مزید کئی عملی مشکلات ہیں۔ بھارتی ٹرکوں کی حفاظت کون کرے گا؟ پاکستان کو ان ٹرکوں کی سیکورٹی کے لیے بڑے پیمانے پر، اقدامات اُٹھانا پڑیں گے۔

ان حالات میں یہی مناسب تھا کہ بھارت اسی طرح سمندر کے ذریعے کراچی تک امدادی گندم پہنچاتا اور جس طرح سے بھارت کی دیگر برآمدات افغانستان جاتی ہیں، یا افغانستان سے ٹرک کراچی اورواہگہ پہنچ جاتے اور اقوام متحدہ کے زیرنگرانی افغانستان پہنچادیتے۔ مگر پاکستان اپنی سطح پر ایسا کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ بھارت میں اس وقت جو حالات ہیں اور مسلمانوں کے خلاف جو کچھ نفرت کاالائو بھڑکایا جارہا ہے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت جو انسانیت سوزی کر رہا ہے، اس کے نتیجے میں پاکستان میں یہ بات خطرے سے خالی نہیں ہے کہ بھارت کے ٹرک یہاں آئیں اور بھارتی ڈرائیور انھیں چلا کر طورخم تک سکون سے لے کرجائیں۔

بھارت اس سے پہلے بھی انسانی امداد افغانستان بھجواتا رہا ہے اور وہ اس کے لیے چاہ بہار بندرگاہ کو بھی استعمال کرتا رہا ہے اور بذریعہ ہوائی جہاز بھی انسانی امداد بھجواتا رہا ہے، جس پر پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں۔ مگر کیا وجہ ہے کہ وہ آج پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کررہا ہے کہ ’’پاکستان ہمیں واہگہ کے ذریعے انسانی امداد لے جانے کی اجازت نہیں دے رہا؟‘‘ اس میں یہ بات قابلِ غور ہے کہ بھارت جب بھی افغانستان کے لیے انسانی امداد کی بات کرتا ہے تو سب سے پہلے وہ پاکستان ہی سے کہتا ہے کہ ’’ہمیںواہگہ کے ذریعے اسے بھجوانے کی اجازت دی جائے‘‘۔ بلاشبہہ یہ ایک سستا راستہ ہے، لیکن بھارت کو اس بات کا علم ہے کہ پاکستان مخصوص حالات اور جائز وجوہ کی بناپر اس کی اجازت نہیں دے گا۔

حکومت پاکستان نے ان تمام امکانی خدشات کو سامنے رکھتے ہوئے صحیح فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پہلے بارہا پاکستان، بھارت کو کئی بار رعایتیں دے چکا ہے اور کئی ٹھوس اقدامات بھی اُٹھائے ہیں ،لیکن ان کا کوئی مفید نتیجہ نہیں نکلا بلکہ بھارت نے اسے پاکستان کی کمزوری ہی سمجھا اور کشمیر میں اپنی سفاکیت کو برقرار رکھا ہے، اور آج بھی ظلم و جبر کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ چلیئے اگر ہم اس مسئلے کو کشمیر کے ساتھ نہ بھی جوڑیں، لیکن ہمارے ہاں جو بے اعتمادی کی فضا ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان کو اس قسم کا خطرہ مول لینا چاہیے۔ اب یہ بھارت کی مرضی ہے کہ وہ یہ انسانی امداد چاہ بہار کے ذریعے پہنچائے یا کراچی و واہگہ کے ذریعے بھجوائے یا ہوائی جہاز کے ذریعے بھجوائے۔ بہرحال، پاکستان نے بالکل درست اور دانش مندانہ فیصلہ کیا ہے۔

۱۹ دسمبر ۲۰۲۱ء کو اسلام آباد میں ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کا افغانستان میں موسم کی شدت، گھروں کی تباہ حالی، قحط کی کیفیت اور بیماریوں کے حملے جیسی صورتِ حال کے پیش نظر وزائے خارجہ کا غیرمعمولی اجلاس ہوا۔ اس طرح کے ہنگامی اجلاسوں میں تمام وزرائے خارجہ شرکت نہیں کر پاتے، لیکن اس اجلاس میں ۲۲وزرائے خارجہ نے شرکت کی جو ایک مناسب تعداد تھی۔ اس کے علاوہ بہت سے وزرائے مملکت بھی شامل تھے۔ مجموعی طور پر یہ ایک اچھا اور کامیاب اجلاس رہا۔

اجلاس میں بہت سے اہم نکات زیربحث آئے اور متوازی اجلاس بھی منعقد ہوئے۔ اجلاس کے بعد افغانستان پر ایک قرارداد منظور ہوئی اور اسلام آباد ڈیکلریشن بھی جاری ہوا۔

افغانستان میں ۲ کروڑ ۴۰ لاکھ افغان اس وقت قحط کا شکار ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت ہے۔ اس انسانی بحران کو حل کرنے کےلیے یہ اجلاس بلایا گیا تھا۔ اس طرح یہ کانفرنس بنیادی طور پر ایک نکاتی ایجنڈا پر مبنی تھی۔

اجلاس میں جو قرارداد منظور ہوئی اور اسلام آباد ڈیکلریشن جاری ہوا ہے، اس کے دو حصے ہیں۔ عام طور پر اس قسم کی قراردادوں کے دو حصے ہوتے ہیں: ایک ابتدائیہ (Preamble) اور دوسرا عملی حصہ (Operative Part)۔ ابتدائیے میں سابقہ قراردادوں اور مختلف حوالوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ عملی حصہ میں لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ کن چیزوں پر عمل درآمد ہوگا۔ کسی بھی قرارداد کا یہی بنیادی اور جوہری (substantive) حصہ ہوتا ہے۔

اس کانفرنس میں افغان طالبان حکومت کا وفد بھی شریک تھا اور قائم مقام وزیرخارجہ امیرمتقی نے اس وفدکی قیادت کی۔ انھوں نے اس اجلاس میں ایک گھنٹے کی مفصل تقریر کی اور یہ بتایا کہ ہمارا کیا منصوبہ ہے اور ہم کس طرح آگے بڑھیں گے؟

قرارداد کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں صرف افغانستان کا نام لیا گیا ہے۔ کہیں بھی ’امارت اسلامیہ‘ یا ’اسلامی جمہوری افغانستان‘ کا نام نہیں لیا گیا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ او آئی سی نے حددرجہ محتاط رویہ اپنایا ہے، اور او آئی سی میں ابھی تک طالبان حکومت یا امریکی پشت پناہی میں ختم ہونے والی حکومت کے بعد کی صورتِ حال کو تسلیم کرنے پر اتفاق رائے نہیں ہے ۔ کچھ ممالک ایسے ہیں جو طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔ خاص طور پر تاجکستان جہاں اب تک افغان طالبان کی اپوزیشن کے بہت سے لوگ جن کا سابق حکومت سے تعلق تھا، وہاں موجود ہیں۔ طالبان افغانستان کو ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ کہتے ہیں، جب کہ سابق حکومت کے لوگ اپنی حکومت کو ’اسلامی جمہوری افغانستان‘ کہتے تھے۔ اس لیے مسلم وزرائے خارجہ نے بیچ کا راستہ نکالا اور صرف افغانستان کہہ کر مخاطب کیا ہے۔

قرارداد میں اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراراد ۲۵۹۳  جو ۳۰؍اگست ۲۰۲۱ء میں منظور ہوئی تھی، کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس قرارداد کی یہ ایک اہم بات ہے کہ اس میں سلامتی کونسل کی اس قرارداد کا کوئی حوالہ نظر نہیں آتا، جب کہ یہ سلامتی کونسل کی افغانستان پر آخری قرارداد تھی۔یادرہے اس وقت بھارت سلامتی کونسل کا صدر تھا اور اس نے کوشش کر کے وہ قرارداد منظور کروائی تھی۔ تاہم، اس میں طالبان کا نام لیے بغیر ان کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ’’وہاں وسیع حکومت (Inclusive) ہونی چاہیے۔ حکومت میں دیگر علاقائی قومیتوں کی نمایندگی بھی ہونی چاہیے‘‘۔

 اسی طرح اس قرارداد میں کہیں بھی ’افغان حکومت‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ صرف ایک پیراگراف میں ’افغان اتھارٹیز‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ بھی اس قرارداد کا ایک دلچسپ پہلو ہے۔

کانفرنس میں جو اُمور طے پائے ہیں، ان میں افغانستان کے لیے ایک ’ہیومن ٹیرین ٹرسٹ فنڈ‘ اسلامک ڈویلپمنٹ بنک (IDB) میں قائم کیا گیا ہے۔ سعودی عرب نے اس فنڈ کے لیے ایک ارب ریال کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان ۳۰ملین ڈالر کی امداد پہلے ہی دے چکا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور مسلم ملک نے اس فنڈ میں مالی امداد کے لیے کوئی اعلان نہیں کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ او آئی سی کے ممبر کس طرح سے اس فنڈ میں حصہ ڈالتے ہیں؟

اس قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’افغانستان کے منجمد اثاثوں کو بحال کیا جائے‘‘۔ اس قرارداد میں اس بات کا احساس بھی موجود ہے کہ صرف ’انسانی ہمدردی‘ کے تذکرے اور معاونت سے کام نہیں چلے گا بلکہ جو معاشی تباہ حالی (economic meltdown ) روز افزوں ہے، اس کا سدباب بھی کرنا ہوگا۔ توقع کی جارہی ہے کہ اگلے دوماہ میں انسانی بحران کی صورتِ حال کچھ بہتر ہوجائے گی۔ لیکن جب تک معاشی سرگرمیاں شروع نہیں ہوتی ہیں، یہ معاشی بحران جاری رہے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ افغانستان کا نظامِ بنکاری اور فنانس کا نظام جو بالکل بیٹھ چکا ہے اس کو بحال کیا جائے۔ اس کے لیے مغربی ممالک اور امریکا کی معاونت بہت ضروری ہے۔ اس اجلاس میں امریکا اور یورپی ممالک کے نمایندے بھی موجود تھے۔

او آئی سی نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ ’رابطہ گروپ‘ کے بجائے افغانستان کا ’خصوصی نمایندہ‘ مقرر کیا جائے۔ وہ نمایندہ او آئی سی کے ساتھ مل کر افغان اُمور کو دیکھے، اور اس مقصد کے لیے او آئی سی کے موجودہ سیکرٹری جنرل حسین براہیم طٰہٰ کو خصوصی نمایندہ مقرر کیا گیا ہے۔ انھیں او آئی سی کے اگلے اجلاس میں جو مارچ ۲۰۲۲ء میں اسلام آباد میں ہونا ہے، اس کی رپورٹ پیش کرنا ہے۔

یہ تمام باتیں اہم اور مفید ہیں، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ان پر پیش رفت کس طرح سے ہوتی ہے؟

اس کانفرنس میں افغانستان کاوفدتو شامل تھا لیکن گروپ فوٹو کے موقعے پر اس وفد کے نمایندے کو شامل نہیں کیا گیا۔ ایسی چھوٹی باتیں بعض ممالک کے لیے بہت حساس بن جاتی ہیں۔

دوسری طرف یہ بھی پیش نظر رہے کہ نئی دہلی میں تیسرا سالانہ سنٹرل ایشیا ری پبلکس کا اجلاس ہوا جس میں پانچ ممالک شامل ہیں۔ اس اجلاس کے بعد بھی ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اس میں سلامتی کونسل کی قرارداد ۲۵۹۳ کا باقاعدہ ذکر ہوا اور ’افغانستان میں وسیع حکومت‘ پر زور دیا گیا۔ ’دہشت گردی‘ کے حوالے سے بھی بات کی گئی۔

بلاشبہہ او آئی سی کی قرارداد میں بھی دہشت گردی کی بات ہوئی ہے اور داعش کا ذکر ہوا ہے، آئی ایس خراسان، ٹی ٹی پی، القاعدہ اور ای ٹی آئی ایم کا تذکرہ ہے، لیکن ازبکستان اسلامی موومنٹ کا نام قرارداد میں نظر نہیں آیا۔ جو قرارداد دہلی میں جاری ہوئی، اس میں افغانستان پر صرف دوپیراگراف ہیں اور یہ کہا گیا ہے کہ ’’افغانستان سے دہشت گردی نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی کہی گئی کہ ’’چاہ بہاربندرگاہ میں بہشتی ٹرمینل جو بھارت نے بنایا ہے اس کو بھی افغانستان میں انسانی بنیادوں پر مدد کے لیے استعمال کیا جائے گا اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے تجارت کو بھی اس بندرگاہ کے ذریعے فروغ دیا جائے گا‘‘۔

اسلام آباد کانفرنس میں فلسطین پر الگ سے اعلامیہ جاری کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس موقع پر اس اعلامیے کی کیوں ضرورت پیش آئی؟ بلاشبہہ فلسطین پر ہمارا ایک اصولی موقف ہے۔ تاہم، یہ اجلاس تو صرف افغانستان کی صورتِ حال کے لیے مختص تھا تو فلسطین پر اعلامیہ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ پھر اگر فلسطین کو اعلامیہ میں شامل کیا جاسکتا تھا تو کشمیر کا بھی اعلامیہ میں تذکرہ کیا جانا چاہیے تھا۔ سوال یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر وزارائے خارجہ نے یہ گریز پائی کیوںا ختیار کی؟معاملہ یہ ہے کہ کچھ طاقت ور مسلم ممالک نہیں چاہتے کہ بھارت کے خلاف کوئی پوزیشن لی جائے۔ بلاشبہہ اس موقع پر اس اعلامیے کی ضرورت نہیں تھی۔ فلسطین پر ہمارا واضح اور پختہ اصولی موقف ہے۔ خیال رہے کہ کشمیر پر او آئی سی میں اختلافات کو اس اعلامیہ نے مزید نمایاں کرکے دشمن ملک کے لیے سہولت پیدا کی ہے۔

او آئی سی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’’افغانستان میں پیدا ہونے والے انسانی بحران کے پیش نظر امریکا، طالبان کے معاملے کو سیاست سے الگ کرکے دیکھے‘‘۔

امرواقعہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں معاملات کو اس طرح سے الگ نہیں کیا جاسکتا، حتیٰ کہ انسانی بحران اور حکومت کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ لوگ انسانی بحران کو امکانات اور مفادات کے ایک موقعے کے طور پر لیتے ہیں اور اس میں اپنے لیے سیاسی، معاشی اور اسٹرے ٹیجک مواقع تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت امریکا بھی یہی کر رہا ہے۔ وہ طالبان کے ساتھ ایک معاہدہ کرکے افغانستان سے نکل گیا۔ ماضی میں بھی کچھ اسی طرح ہوا۔  دسمبر۱۹۹۱ء میں جب سوویت یونین منہدم ہوا، تو امریکا اس خطے سے ہٹ گیا اور پاکستان کو مسائل کا سامنا کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا کہ وہ ان معاملات کا خود سامنا کرے، خواہ مہاجرین کا معاملہ ہو، یا منشیات کا معاملہ، یا دہشت گردی کا معاملہ۔

آج امریکا نے افغانستان کے فنڈز روکے ہوئے ہیں اور افغانستان کو تسلیم نہیں کرتا تو اس طرح ایک طرف وہ طالبان پر دبائو بڑھانا چاہتا ہے، اور دوسری طرف وہ اس معاملے میں پاکستان کو بھی دبائو میں رکھنا چاہتا ہے۔ سچی بات ہے کہ صرف پاکستان کو ہی نہیں بلکہ چین اور روس کو بھی دبائو میں رکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے کہ اگر افغانستان میں صورتِ حال بگڑتی ہے تو لامحالہ اس کے اثرات پاکستان پر بھی آئیں گے۔ یوں اس خطے کو مسلسل جنگی دبائو سے دوچار کرکے، معاشی ترقی اور امن کا راستہ روکنا امریکی مفادات کا ہدف دکھائی دیتا ہے۔

طالبان کی کوشش ہے کہ اس صورتِ حال میں ان کو تسلیم کرلیا جائے۔ مغربی دُنیا اس بات کو تو تسلیم کرتی ہے کہ افغانستان میں انسانی بحران ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ وہاں انسانی حقوق کا  مسئلہ بناکر وہ گریز کا راستہ بھی اختیار کرتی ہے۔

اب اگر او آئی سی سے وابستہ ممالک کو ہی دیکھا جائے تو وہاں کون سی جمہوریت ہے، وہاں کون سی تمام عناصر پر مشتمل مشترکہ حکومتیں ہیں یا وہاں پر مغربی ’’تصورات و معیارات‘‘ کے مطابق خواتین کے حقوق کی کون سی پاس داری کی جاتی ہے؟

اسی طرح طالبان کے آنے سے پہلے افغانستان میں کون سی جمہوریت تھی؟ انتخابات میں صرف ۲۰ فی صد ووٹ ڈالے جاتے تھے اور ان میں سے ۱۰ فی صد اشرف غنی کو اور ۱۰ فی صد عبداللہ عبداللہ کو مل جاتے تھے۔ ہر الیکشن میں دھاندلی ہوتی تھی۔ ایک وقت تو ایسا بھی تھا، جب ملک کے دو صدر تھے۔

دُنیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ طالبان کے لیے وسیع حکومت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رشید دوستم، یونس قانونی اور امرصالح وغیرہ کو وہ اپنی حکومت میں شامل کرلیں گے۔ یہ بات تو کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ تاہم، طالبان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی حکومت میں مختلف علاقائی قومیّتوں اور طبقوں کو نمایندگی دیں۔ مثال کے طور پر وہ تاجک اور ہزارہ قومیّتوں کے نمایندوں کو حکومت میں شامل کریں۔ خواہ ان کی معروف قیادت کو نہ لیں، لیکن ٹیکنوکریٹس کو اپنے ساتھ شامل کریں تاکہ ان کی صلاحیتوں سے کچھ فائدہ بھی اُٹھا سکیں۔

 سوال یہ ہے کہ اگر وہ عبداللہ عبداللہ کو کچھ پیش کش کرتے ہیں تو کیا وہ طالبان کے ساتھ کام کرنا چاہیں گے؟ اگر وہ ان جیسے لوگوں کو شامل کریں گے، تو معاملہ پھر وہیں آکر رُک جائے گا اور حکومت چل نہیں پائے گی۔ اسی طرح طالبان اس پوزیشن میں بھی نہیں ہیں کہ وہ الیکشن کروا سکیں۔ اس لیے کہ طالبان فی الحال ایک سیاسی جماعت نہیں ہیں، لیکن جب تک یہ عبوری نظام موجود ہے یا ’’لویہ جرگہ‘‘ نہیں ہوجاتا، اس وقت تک طالبان کو دوسری قومیّتوں کے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنا ہوگا۔ بلاشبہہ طالبان قیادت میں پشتون کی اکثریت ہے اور حکومت بھی زیادہ تر پشتون کی نمایندگی کررہی ہے، لہٰذا طالبان کو اس سلسلے میں لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرنا اور کچھ لچک دکھانا ہوگی۔

اسی طرح خواتین کا مسئلہ مغربی دُنیا نے اپنے تصورات کے مطابق بہت مبالغہ آمیز طریقے سے اُٹھا رکھا ہے، مگر بہرحال افغان معاشرت میں خواتین کی تعلیم اور صحت کے لیے مزید مواقع پیدا کرنے ہوں گے۔ دین اسلام میں یہ کہا گیا ہے کہ ہرشخص کو لکھنے، پڑھنے اور کام کرنے کا حق ہے، البتہ طریق کار مختلف ہوسکتا ہے۔ تاہم، افغانستان میں لڑکیاں اسکول اور کالج جارہی ہیں، اور اس چیز کو بے جا طور پر نظرانداز کیا جارہا ہے۔ بہرحال ان معاملات کو آگے بڑھنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔

’انسانی حقوق اور وسیع تر حکومت کی باتیں‘ ایک مخصوص سیاسی ایجنڈے کے تحت کی جارہی ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ امریکا، بحران کے پیش نظر انسانی بنیادوں پر امداد کو سیاست سے جدا رکھے گا۔ وہ پاکستان، چین اور طالبان کو بھی دبائو میں رکھے گا۔جو لوگ یہ باتیں کر رہے ہیں کہ ’’انسانی بحران کے پیش نظر انسانی بنیادوں پر بین الاقوامی امداد کو سیاست سے الگ رکھا جائے‘‘، وہ یہ بات ایک خیالی دُنیا میں کرتے ہیں، ایسا ہو نہیں سکتا۔

امریکا اس خطے سے عسکری طور پر گیا ہے، مگر اپنے معاشی، عسکری اور تزویراتی مفادات کے لیے وہ کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور اُٹھائے رکھے گا۔ جس میں ہمارے لیے دانش مندی سے راستہ بنانے کی ضرورت ہے۔ محض بیانات کے زور پر ٹکرانا مناسب نہیں ہوگا۔

حیدر علی آتش [۱۷۷۷ء-۱۸۴۶ء]کا شعر ہے  ؎

زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسےکیسے

آج سے تین سال پہلے میں نے روزنامہ دی نیوز کے لیے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’’افغانستان میں امن، مذاکرات کے ذریعے نہیں آئے گا بلکہ جنگ کے ذریعے ہی آئے گا‘‘۔ آج جب ہم زمینی حالات کو دیکھتے ہیں تو یہ بات ٹھیک ہی معلوم ہوتی ہے۔

تاہم، اُس وقت مجھے دوستوں نے کہا کہ ’’آپ یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ یہ کوئی ۱۹۹۶ء تو نہیں ہے۔طالبان کو بھی اپنی حدود (Limitations)کا احساس ہوچکا ہے۔ اس کے بجائے کہ  وہ جنگ کریں، خود ان کی بھی یہی خواہش ہوگی کہ وہ کابل حکومت کے ساتھ کچھ لو دو پر معاملات طے کرلیں اورعارضی یا عبوری طور پر ہی سہی، کوئی نہ کوئی معاہدہ ان کے ساتھ ہوجائے‘‘۔

لیکن آج بھی میرا یہی خیال ہے کہ ’’افغانستان میں اگر امن آئے گا تو سول وار کے بعد ہی آئے گا ‘‘۔ ’کچھ لو اور کچھ دو‘ طالبان کا مزاج نہیں ہے۔ وہ ایک تحریک ہیں، جو افغانستان کو امارت اسلامیہ افغانستان بنانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ اس مرتبہ وہ معاملات کا کہیں زیادہ ادراک رکھتے ہوں گے کہ دُنیا ۱۹۹۶ء والی ’طالبانائزیشن (Talbanisation) کو قبول نہیں کرےگی۔  اس لیے وہ اپنے انداز میں ضرور کچھ تبدیلیاں کریں گے۔

 ہم نے حالیہ عرصے میں یہ دیکھا ہے کہ امریکا نے بھی طالبان سے روابط قائم کیے اور  پھر ان روابط کے نتیجے میں ۲۹فروری ۲۰۲۰ء کو ایک معاہدہ بھی ہوا۔ اسی طرح روس، چین، ایران اور ترکی نے بھی طالبان سے روابط بڑھائے ہیں۔ لیکن معلوم نہیں کہ پاکستان کیوں اپنے آپ کو تذبذب کی کیفیت میں ڈال کر اس پوزیشن کی جانب دھکیل رہا ہے، جو بالکل غیر ضروری ہے اور آخری تجزیے میں اس رویے سے پاکستان کے ہاتھ سوائے نقصان کے کچھ نہیں آئے گا۔

مثال کے طور پر ۳جون کو چوتھا سہ فریقی اجلاس چین، پاکستان اور افغانستان کی اشرف غنی حکومت کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہوا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اجلاس کی کیا ضرورت تھی؟ بنیادی طور پر امریکی صدر بائیڈن کی حکومت نے ایک تجویز دی کہ اقوام متحدہ کے تحت استنبول میں ایک میٹنگ ہو۔ لیکن وہ نہیں ہوئی تو اسے جانے دیجیے۔ آپ ایسےمعاملات میں کیوں پڑتے ہیں، جن سے لگتا ہے کہ آپ طالبان کے خلاف پوزیشن لے رہے ہیں۔ ۳جون ۲۰۲۱ءکو جو نشست ہوئی، اس کے جاری کردہ اعلامیے میں یہ زبان استعمال کی گئی کہ ’طالبان دہشت گرد‘ ہیں۔ یہ مقدمہ یا موقف تو کابل حکومت کاہے۔ وہ ایک طرف طالبان کو ’دہشت گرد‘کہتے ہیں اور دوسری طرف ان سے مذاکرات بھی کرنا چاہتےہیں۔ ہمارا نہایت بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم نے اس قسم کے اعلامیے سے کیوں اتفاق کیا؟ یہ چیز ہماری سمجھ سے بالاتر ہے؟

دوسری طرف اسی اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’تینوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جو حکومت افغانستان میں طاقت کے ذریعے آئےگی،اس کی حمایت نہیں کی جائے گی‘‘۔ اب یہ کوئی کہنے کی بات ہے۔ نائن الیون کے بعد  امریکی قیادت میں نیٹو فورسز کی قوت کے بل پر ہی قبضے کے بعد افغانستان میں حامد کرزئی اور اشرف غنی وغیرہ کی حکومتیں بنیں۔ مراد یہ ہے کہ ان کو جبری طور پر قابض طاقتوں کے ذریعے اقتدار میں لایا گیا۔ یہ حکومتیں کسی جمہوری طریقے سے اقتدار میں نہیں آئی تھیں۔ حتیٰ کہ اس وقت بھی ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کی کیا حیثیت ہے؟ ان کے انتخابات میں ووٹوں کا کتنا ٹرن آئوٹ تھا؟ اس وجہ سے یہ کہنا کہ ’’جو حکومت طاقت کے ذریعے آئے گی، اس کی حمایت نہیں کی جائے گی‘‘، دراصل طالبان کے خلاف اشرف غنی حکومت کی تحسین اور تائید کرنا ہے کہ جن کی کابل سے باہر کوئی رِٹ ہی نہیں ہے۔

چونکہ یہ بات سراسر طالبان کے خلاف جاتی ہے،اس لیے ہمارا سوال یہ ہے کہ آخر ہم اپنے آپ کو ایسی پوزیشن میں کیوں ڈال رہے ہیں؟ ہم غیرضروری طور پر پاکستان کو کابل انتظامیہ کے ساتھ کیوں کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں؟ ہم نیوٹرل (غیر جانب دار) بھی رہ سکتے ہیں۔ ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم طالبان کے خلاف بات کریں یا اس وقت کابل میں محدود سی پوزیشن رکھنے والی حکومت کے حق میں بے جا طور پر بات کریں۔ اس قسم کے عمل میں ہم کیوں پڑرہے ہیں؟

ہم چین سے اور دیگر ممالک سے مذاکرات یا کانفرنسیں کرسکتے ہیں اور غیر رسمی طور پر ملاقاتیں بھی ہوسکتی ہیں۔ لیکن ہمارے قومی مفادات کے حوالے سے اس قسم کی میٹنگوں کی کوئی گنجایش نظر نہیں آرہی ہے کہ جیسی مذکورہ بالا سہ فریقی میٹنگ کی گئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ  اقوام متحدہ کے تحت طالبان کسی میٹنگ پر اتفاق کرلیں۔ تاہم، ابھی تک امریکی صدر بائیڈن کی تجویز کردہ میٹنگ نہیں ہوسکی اور طالبان کسی ایسی میٹنگ کے لیے تیار بھی نہیں ہیں کہ جس میں ان پر جنگ بندی اور دیگر شرائط عائد کی جائیں۔ وہ اپنی ترتیب دی ہوئی حکمت عملی کے تحت پورے اعتماد کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے ۴جون ۲۰۲۱ء کو عالمی نیوز ایجنسی رائٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’افغان مسئلے پر پاکستان میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغان طالبان سے مصالحت آسان نہیں ہوگی۔ ہماری افغانستان کے حوالے سے پالیسی تبدیل ہوگئی ہے۔ ہمیں وہاں اسٹرے ٹیجک ڈیپتھ کی ضرورت نہیںہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہاں ہماری دوست حکومت آئے‘‘۔

بلاشبہہ یہ درست بات ہے کہ مغربی سرحد پر ہمیں افغانستان میں ایک پاکستان دوست حکومت کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں پریشانی نہ ہو، جو ماضی میں ہوتی رہی ہے۔ مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بھارت نےپچھلے ۱۶ برسوں میں وہاں کافی جگہ بنائی ہے اور ہماری قیمت پر یہ جگہ بنائی ہے اور اس طرح ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ صوبہ بلوچستان اور کراچی شہر میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی اور پھر بھارتی جاسوس اور دہشت گرد کمانڈر کلبھوشن یادو کی گرفتاری کو سب جانتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ہمیں اب کسی ایسے عمل کا حصہ نہیں بننا چاہیے، جس سے طالبان یہ تاثر لیں کہ ہم ان کے خلاف پوزیشن لے رہے ہیں۔ طالبان کی کسی پالیسی پر اگر ہم اثرانداز ہونا چاہتے ہیں تو اس کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں، بجائے اس کے کہ ہم اس طرح سے عوامی سطح پر بیانات جاری کریں۔

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک پریس کانفرنس میں افغانستان کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر حمداللہ محب کو سختی سے سنادیا کہ ’’آپ نے پاکستان کے خلاف بڑی ناروا باتیں کی ہیں‘‘۔ ٹھیک ہے، یہ بات کہنا بنتا بھی ہے، لیکن اس بات کا خیال رہے کہ پورا افغانستان اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ ایک فیصلہ کن مرحلہ اب آنے والا ہے۔ یہ مرحلہ ایک سال میں آتا ہے یادو سال میں، یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ افغانستان میں بالآخر طالبان حاوی ہوجائیں گے۔ وہ آہستہ آہستہ اپنے قدم بڑھا رہے ہیں۔ انھیں کابل پہنچنے میں کتنا وقت لگتا ہے، متعین طور پر بتانا ممکن نہیں ہے، لیکن پاکستان پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو صحیح پوزیشن میں رکھے۔ طالبان میں ہم جو تھوڑا بہت اعتماد اور رسوخ رکھتے ہیں، اس کا یوں احساسِ برتری کے ساتھ اظہار کرکے بھی ہم غلط کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے وزیرخارجہ نے حمداللہ محب کو یہ بھی کہا ہے کہ ’ہمارے بغیر کابل میں امن نہیں ہوسکتا‘۔ جب ہم اس قسم کے بیانات دیتے ہیں تو پھر واضح سی بات ہے کہ لوگ افغانستان کی صورتِ حال کے حوالے سے پاکستان کو بھی موردِ الزام ٹھیرائیں گے، کہ ’’آپ مسائل کھڑے کررہے ہیں‘‘۔ اگر بے جا طور پر آپ کریڈٹ لینا چاہیں گے تو پھر آپ پر تنقید بھی ہوگی۔ سفارتی اور بین الاقوامی سطح پر اس قسم کے بیانات سےگریز کرنا چاہیے۔

آنے والے دنوں میں افغانستان میں کیا ہونے والا ہے؟ طے شدہ الفاظ میں کہنا ممکن نہیں۔ مگر یہ ضرور ہے کہ ہمارے نقطۂ نظر سے افغانستان کی صورتِ حال ایک لحاظ سے بہتر ہونے کی طرف گامزن ہے کیونکہ نیٹو افواج کے آتے ہی ہمارے لیے مسائل پیدا ہوئے تھے۔ ان کے آنے سے کون سا امن آگیا تھا۔ اگرچہ آج افغان سرحد پر باڑلگانے کا عمل مکمل ہونے کو ہے، لیکن افغان مہاجرین اور دیگر مسائل بھی آئیں گے۔ البتہ جب ایک دفعہ معاملات طے پاگئے تو پھر حالات بہتر ہوجائیں گے۔

بھارت کی طالبان سے رابطہ کاری

۹مئی ۲۰۲۱ء کے روزنامہ ہندستان ٹائمز  میں خبر شائع ہوئی کہ’’ بھارت طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے اور یہ رابطے پچھلے کئی ماہ سے جاری ہیں‘‘۔ مجھے اس خبر پر کچھ تعجب نہیں ہوا۔ اگرچہ بھارت سرکار کی طرف سے اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں دی گئی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ بھارت کے انٹیلی جنس اداروں نے ہی یہ خبر جاری کی ہے۔ اجیت دوول بھارتی حکومت کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ہیں۔ ان سے میری کچھ ملاقاتیں رہی ہیں۔ اس بنا پر اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ بھارت کے طالبان سے رابطے میں کچھ تیزی بھی آگئی ہے۔ یہ بھارت کی مجبوری ہے اور اسے خود بھی اس بات کا احساس ہے کہ جب افغانستان سے بیرونی افواج کا انخلا ہوجائے گا تو پھر افغانستان پر حکمرانی کی دعوے دار ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کے لیے بہت مشکل ہوگا کہ وہ اپنی رِٹ اور وجود کو خود کابل شہر میں بھی برقرار رکھ سکے۔ بعید نہیں کہ کچھ عرصے بعد وہ لوگ جو کابل حکومت کاحصہ ہیں، وہ آہستہ آہستہ کابل چھوڑ کر دوسرے ملکوں کی طرف جاتے ہوئے نظرآئیں۔ ان میں زیادہ تر لوگ بھارت میں یا مغربی ممالک میں پناہ لیں گے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ ۲۰۰۱ء کے موسم سرما میں جب سے طالبان کی حکومت ختم کی گئی، بھارت نے افغانستان میں بہت سرمایہ کاری بھی کی ہے، تقریباً تین ارب ڈالر۔ اس نے بڑے بڑے منصوبوں جیسے ڈیمز،افغان پارلیمان کی عمارت کی تعمیر اور کچھ یونی ورسٹیاں بھی تعمیر کیں۔ اس کے پہلو بہ پہلو پاکستان نے بھی افغانستان میں کچھ سرمایہ کاری کی ہے، لیکن ہماری سرمایہ کاری اس پیمانے پر نہیں ہے اور ہماری رفتار بھی سُست رہی ہے۔ بہرحال بھارت نے افغانستان میں انوسٹ کیا اور خاص طور پر نیشنل سیکورٹی ڈائریکٹریٹ، جو انٹیلی جنس ادارہ ہے اس میں بہت سرمایہ اور مہارت صرف کی ہے۔ اس بھارتی سرمایہ کاری کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کی مغربی سرحد پر ایسی صورتِ حال برقرار رہے، جس سے وہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرسکے، اور بھارت نے عملاً ایسا کیا بھی ہے۔ یہ بات اوپن سیکرٹ اور کھلی حقیقت ہے کہ بھارت نے ’تحریک طالبان پاکستان‘ ( TTP)کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا اور بہت سی کالعدم بلوچ تنظیموں کو بھی استعمال کیا۔

بھارت کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ افغانستان کی موجودہ حکومت اب زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہ سکتی۔ اشرف غنی اور ان کی حکومت کا مستقبل غیریقینی ہے۔ ماہرین اور دفاعی تجزیہ نگار یہ کہہ رہے ہیں کہ جلد یا بدیر یہ حکومت چلی جائے گی۔ بھارت طالبان کے ساتھ رابطہ کررہا ہے اوران کے ساتھ اپنے تعلقات بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکا اور بہت سے دوسرے ممالک طالبان سے رابطے میں ہیں۔ بھارت سمجھتا ہے کہ اس کے مفادات بھی اسی بات میں مضمر ہیں کہ جو بھی اگلی حکومت آئے، اس کے روابط اس کے ساتھ ہونے چاہییں، تاکہ وہ اس کھیل سے بالکل ہی باہر نہ ہوجائے۔

اسی طرح یہ بات افغان طالبان کو بھی مفید مطلب لگتی ہے کہ پاکستان کے ساتھ جہاں تعلقات ہوں، وہاں وہ بھارت کے ساتھ بھی تعلقات رکھیں تاکہ پاکستان پربھی ان کا دبائو رہے۔ یہ طالبان کی بہت زبردست حکمت عملی ہے کہ وہ تمام ممالک سے رابطہ رکھیں۔ اگر وہ حکومت میں آجاتے ہیں یا افغانستان پر قبضہ کرلیتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ دنیا کے اہم ممالک ان کی حکو مت کو تسلیم بھی کریں۔ اس لیے کہ پچھلی مرتبہ ۱۹۹۶ء میں جب ان کی حکومت بنی تھی تو صرف تین ممالک: پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ تاہم، اس دفعہ وہ چاہیں گے کہ جب ان کی حکومت آتی ہے تو ان کو زیادہ سے زیادہ ممالک بالخصوص بڑے ممالک ان کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ اس لیے بھارت کا طالبان سے رابطہ اس کے نقطۂ نظر سےبھی ٹھیک ہے اور طالبان کو بھی یہ مناسب لگتا ہے۔ لہٰذا ، کچھ عرصے کے بعد اگر یہ اطلاع بھی مل جائے کہ اجیت دوول کی مُلا برادر سے ملاقات ہوگئی ہے تو یہ کوئی بعید از امکان بات نہیں ہوگی۔

یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ افغانستان سے جب بیرونی افواج کا انخلا ہوجائےگا تو ترکی، کابل ایئرپورٹ کی سیکورٹی کا ذمہ لینے کے لیے تیار ہے۔ مگر حالیہ دنوں میں طالبان نے ترکی کو یہ ذمہ داری سونپنے کا امکان مسترد کر دیا ہے کہ وہ ’نیٹو‘ کا رُکن ہے۔ آنے والے دنوں میں خاص طور پر کابل ایئرپورٹ اہم کردار ادا کرےگا۔ اگر طالبان جلد ہی کابل ایئرپورٹ پر قبضہ کرلیتے ہیں تو افغانستان میں رسد کی فراہمی اور دیگر چیزوں کی آمدورفت حکومت کے لیے سخت مشکلات کا باعث بن جائے گی۔ یوں سمجھیے کہ اگر کابل ایئرپورٹ چلا گیا تو سب کچھ چلا گیا۔

دوسری طرف یہ بات بھی زیربحث ہے کہ کیا افغانستان سے امریکا کے نکلنے کےبعد چین کوئی بڑا کردار ادا کرنا چاہیے گا یا نہیں؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکا بالکل نہیں چاہے گا کہ چین، افغانستان میں کوئی بڑا کردار ادا کرے۔ اس خطے میں افغانستان معدنی وسائل سے مالامال (resource rich) ملک ہے اور تزویراتی طور پر امریکا کے لیےبھی بہت اہم ہے۔ اس لیے امریکا، افغانستان کو بالکل چھوڑ کر جانے والا کیسے بنے گا؟ مگر مستقبل کے افغانستان سے اس کے ربط کی کیا صورت ہوگی؟ ابھی واضح نہیں ہے۔

پھر یہ بات بھی سننے میں آرہی ہے کہ پاکستان امریکا کو فوجی اڈے دے رہا ہے یا نہیں دے رہا؟ ایک حوالے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید ہم نے کچھ شرائط رکھی ہیں کہ’’ جو سہولیات دے رہے ہیں وہ طالبان کے خلاف استعمال نہیں ہوں گی، البتہ داعش اور القاعدہ کے خلاف استعمال ہوسکتی ہیں‘‘۔ اس قسم کی شرائط کی فی الحقیقت کوئی حیثیت اور تقدس نہیں ہوا کرتا۔ کیونکہ جب آپریشن ہوتے ہیں تو کوئی بھی یہ فرق نہیں کرسکتا کہ یہ سہولیات کس کے خلاف استعمال ہورہی ہیں۔

بہرحال، اگر ہم نے امریکا کو یہ سہولیات دیں تو طالبان اسے ہرگز پسند نہیں کریں گے۔ اگرچہ پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بڑے وثوق سے کہا کہ ’’پاکستان کوئی ایسی سہولیات نہیں دے رہا‘‘۔ لیکن اس تردید کے باوجود کچھ خبریں مل رہی ہیں کہ شاید ہم کچھ شرائط کے تحت یہ مان بھی لیں۔ اس لیے اس موضوع پر حتمی بات کرنا ابھی ممکن نہیں ہے۔یہ امر واقعہ ہے کہ امریکا کو اڈے دینا، پاکستان کے وسیع تر قومی مفادات کے لیے درست نہیں ہوگا۔ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے اور وہ غلطیاں نہیں دُہرانی چاہییں، جن سے پاکستان کے مفاد کو پہلے ہی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے، اور آیندہ شاید اس سے بھی زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔

امن مذاکرات کا مستقبل

گذشتہ دنوں اسلام آباد میں افغانستان پر ایک دو روزہ کانفرنس ’ریجنل پیس انسٹی ٹیوٹ‘ کے تحت منعقد ہوئی۔ اس ادارے کے بانی رؤف حسن ہیں، جو وزیراعظم کے معاون خصوصی بھی ہیں۔ اس کانفرنس میں پاکستانی وفود، افغان وفود اور وہ افغان نمایندے جو دوحہ میں مذاکرات کے لیے گئے تھے، وڈیو لنک کے ذریعے سے اس کانفرنس میں شریک تھے۔ اس کانفرنس کا موضوع تھا: Stepping into the Future Peace Partnership Progress۔

یہ کانفرنس ’چیٹن ہائوس رُول‘ کی بنیاد پر منعقد ہوئی تھی۔ چیٹن ہائوس لندن میں ایک تھنک ٹینک ہے۔ اس کے طے کردہ اصول کے تحت ہونے والی کانفرنس میں کسی حساس موضوع پر کھل کر بات چیت ہوسکتی ہے، مگر اسے رپورٹ نہیں کیا جاسکتا کہ کس نے کیا کہا ہے؟ اس کانفرنس میں مَیں بھی شریک تھا اور ہمارے وزیرخارجہ نے اس کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب بھی فرمایا۔ کانفرنس کے چار ورکنگ سیشن تھے۔ تمام سیشن ہی اہم تھے، خاص طور پر پہلا سیشن بہت اہم تھا، جس میں افغان مسئلے کے امکانات کا جائزہ لیا گیا۔ سب کا یہی خیال تھا کہ ’’مذاکرات کو کامیاب ہونا چاہیے۔ اگر دوحہ میں مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں تو اس بات کا امکان ہے کہ افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے‘‘۔

کچھ افغان وفود کا خیال تھا کہ ’’ایک عبوری نظام بننا چاہیے۔ وہ غیرسیاسی ہونا چاہیے اور اس میں غیر جانب دار لوگ شامل ہونے چاہییں۔یہ عبوری نظام دو، تین یا چار سال کے لیے ہو اور پھر انتخابات ہوں اور طے کیا جائے کہ آیندہ معاملات کیسے چلنے ہیں؟‘‘

میں نے وہاں یہ موقف پیش کیا کہ ’’طالبان کو کسی عبوری حکومت کا حصہ بننے میں کیا فائدہ ہے؟‘‘ میرا آج تک یہی موقف ہے کہ جب تک اشرف غنی صاحب اقتدار نہیں چھوڑتے، طالبان کسی ایسی عبوری حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ مگر اس ساری صورتِ حال کے باوجود مجھے محسوس ہوتا ہے کہ طالبان کی امریکا کے ساتھ کچھ معاملہ فہمی (انڈراسٹینڈنگ) ہوگئی ہے۔طالبان کے انکار کے باوجود ترکی کا یہ کہنا کہ وہ کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کا ذمہ لیتا ہے، معنی خیز ہے۔ ابھی امریکا کو کابل ایئرپورٹ کی ضرورت ہے، تاکہ وہاں سے احسن طریقے سے انخلا مکمل ہوجائے۔

افغان وفود کا یہ کہنا کہ ’’پاکستان کو اس مسئلے میں بھرپور دبائو رکھنا چاہیے‘‘۔ وہ اس پر بار بار زور دے رہے تھے کہ ’’یہ پاکستان کی اہم ذمہ داری ہے‘‘۔ یہ عجیب سی بات ہے کہ طالبان پر پاکستان کا کوئی دبائو ہوسکتا ہے۔ طالبان کی اپنی ایک حکمت عملی ہے اور وہ اس پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ یہاں سے بیرونی فوجوں کا انخلا ہوجاتا ہے تو پھر طالبان کے لیے راستہ صاف ہے۔ کانفرنس کے شرکا میں سب کا یہی خیال تھا اور دبے دبے لفظوں میں سبھی کہہ رہے تھے کہ ’’وقت بہت کم ہے۔ اگر کہیں محدود وقت میں مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو افغانستان کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہوجائیں گی‘‘۔ ایک لحاظ سے یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے۔

کسی کے پاس بھی اس مسئلے کا کوئی حتمی جواب نہیں تھا کہ ’’طالبان کو کس طرح مذاکرات کی میز پر لایا جائے؟‘‘ افغان وفود کا یہ کہنا تھا کہ ’’طالبان وقت گزار رہے ہیں اور دوحہ مذاکرات میں وہ زیادہ سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے، اور اس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہورہی‘‘۔ ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ مذاکرات میں پیش رفت نہیں ہورہی، نہ اشرف غنی حکومت چھوڑنے کے لیے تیار ہیں اور نہ طالبان ہی کوئی ایسی رعایت دینے کے لیے تیار ہیں، جو ان کی تحریک اور نظریے سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔ وہ بڑے واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ انھیں ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ بنانی ہے۔ افغان وفود یا غیرطالبان قوتیں، جو اس وقت کابل میں انتظامِ حکومت کا حصہ ہیں یا ان کے ہمدرد ہیں،  وہ بہرحال الزام طالبان ہی کو دے رہے ہیں کہ ’’طالبان غیرسنجیدہ ہیں‘‘۔

ایک اہم سیشن میں خواتین کا کردار زیربحث آیا کہ ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ اگر بن جاتی ہے تو ’’اس میں خواتین کا کیا کردار ہوگا؟‘‘ کچھ افغان وفود نے بتایا کہ ’’اگر امارت اسلامیہ بن جاتی ہے تو طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اسلام اور افغان تہذیبی روایات کے مطابق خواتین کی تعلیم کے حق میں بھی ہیں، اور ان کے کام کرنے کے حق میں بھی ہیں اور ان کو بااختیار بنانے کے حق میں بھی ہیں‘‘۔ افغان وفود میں شامل خواتین کا یہ کہنا تھا کہ ’’جہاں تک اسلام کی بات ہے وہ تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن بہت سی مقامی روایات ایسی ہیں، جو اسلام سے مطابقت نہیں رکھتیں بلکہ اس سے متصادم ہیں، تو ان کا کیا معاملہ ہوگا؟ اور طالبان ان روایات پر اصرار کر رہے ہیں‘‘۔ وہ طالبان وفود جو دوحہ مذاکرات میں شریک ہیں ان کا کہنا تھا کہ اسلامی روایات کی بات تو ٹھیک ہے، لیکن خواتین سے متعلق افغان تہذیبی روایات پر طالبان کو زیادہ اصرار نہیں کرنا چاہیے‘‘۔

دیکھتے ہیں کہ یہ بات کہاں جاکر رُکتی ہے۔ یہ تو اسی وقت ہوگا جب طالبان واقعی عبوری نظامِ حکومت سے اتفاق کرلیں اور تب ہی یہ مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اگر ان کی حکمت عملی یہی ہے کہ وہ وقت گزار رہے ہیں اور ان کی امریکا کے ساتھ کوئی معاملہ فہمی بھی ہوگئی ہے تو پھر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا، جیساکہ چل رہا ہے۔

افغان تجارتی معاملات کا مسئلہ

ایک مسئلہ یہ بھی زیربحث آیا کہ افغانستان کی معیشت کو کیسے خودانحصاری کے قابل (sustainable) بنایا جائے؟ کیونکہ ابھی تک افغان معیشت کا زیادہ تر انحصار بیرونی امداد پر ہی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ اس میں پاکستان کو آگے بڑھ کر کردارادا کرنا چاہیے۔اس ضمن میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ’’پاکستان، افغانستان کو واہگہ بارڈر سے بھارت کے ساتھ تجارت کرنے کی اجازت دے‘‘۔ افغانستان، پاکستان تجارتی معاہدہ اس سال فروری میں ختم ہوگیا ہے۔ اس کو تین ماہ کے لیے توسیع دی گئی تھی اور وہ میعاد بھی ختم ہوگئی ہے۔ اب اسے مزید چھے ماہ کے لیے توسیع دی گئی ہے۔

افغان حکومت اس بات پر اصرار کر رہی ہے کہ ’’اس معاہدے میں ڈبلیو ٹی او کی شرائط بھی شامل کی جائیں تاکہ بھارت سے واہگہ کے ذریعے تجارت کھل سکے‘‘۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ افغانستان، واہگہ کے ذریعے بھارت برآمدات کرسکتا ہے لیکن بھارت اپنی برآمدات واہگہ کے ذریعے افغانستان نہیں کرسکتا۔میں نے اپنا موقف وہاں یہ رکھا کہ ’’افغانستان کو اچھی طرح یہ بات معلوم ہے کہ ہمارے بھارت کے ساتھ کیا معاملات ہیں۔ آپ کیوں اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ بھارت واہگہ کے ذریعے برآمدات کرسکے؟ آپ اپنی برآمدات بڑھایئے۔ ٹرکوں کے ذریعے آپ اپنا سامانِ تجارت پاکستان سے بھی منگوا سکتے ہیں۔ ہماری اپنی تجارت بھارت سے بند ہے، تو ہم آپ کو کیسے اجازت دے سکتے ہیں؟ کراچی کی بندرگاہ کھلی ہے، اسے بھارت استعمال کرسکتا ہے۔ افغانستان کو سوچنا چاہیے کہ وہ پاکستان سے کسی ایسی چیز کے لیے اصرار نہ کرے، جو اس کے لیے ممکن نہ ہو‘‘۔

پھر یہ بھی کہا: ’’اسی طرح وسطی ایشیا کے ساتھ ہماری تجارت جو کہ افغانستان کے ذریعے ہوتی ہے، اسے واہگہ بارڈر سے تجارت سے منسلک کردیا ہے۔ اس کی بھی کوئی تُک نہیں ہے۔ افغانستان کے وسطی ایشیا کے تعلقات میں کوئی جنگی یا جارحانہ صورتِ حال نہیں ہے، جب کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی صورتِ حال بالکل مختلف ہے۔ لہٰذا، ان دونوں مختلف صورتِ حال کو ایک دوسرے سے منسلک کرنا مناسب نہیں ہے‘‘۔ لہٰذا میں نے افغان وفود کو کہا کہ ’’وہ ایسا نہ کریں۔ اس طرح پاکستان کو تشویش ہوگی کہ یہ سب کچھ بھارت کے ایما پر کیا جارہا ہے، حالانکہ ہم نے آپ کو بھارت بذریعہ واہگہ برآمدات کی اجازت دی ہوئی ہے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے‘‘۔ لیکن ان کا اصرار تھا کہ ’’بھارت سے بذریعہ واہگہ تجارت کی اجازت بھی ہونی چاہیے‘‘۔

یاد رہے کہ ہم نے پہلے بھی موٹروہیکل معاہدے اور ریلوے معاہدے نہیں ہونے دیئے تھے کہ اس میں ہماری سلامتی کے معاملات (سیکورٹی کنسرن ) ہیں۔ یہ صرف تجارت کا مسئلہ نہیں بلکہ اس میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بہت سے اصولی اور قانونی مسائل ہیں۔

افغانستان تجارتی لحاظ سے ہمارے لیے ایک بڑا اہم ملک ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک افغانستان سے ہماری تجارت تقریباً چار سے پانچ ارب ڈالر سالانہ تک تھی، جو اَب گھٹ کر ایک ارب ڈالر رہ گئی ہے،اور جس میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

کانفرنس میں سیاحت کی بات بھی ہوئی اور ہیلتھ ٹورازم (یعنی صحت اور علاج معالجے)کی بات بھی ہوئی۔ پاکستان افغان شہریوں کو ہر ماہ تقریباً دو لاکھ ویزے جاری کرتا ہے۔ سال بھر ٹریفک بھی جاری رہتی ہے۔ چار مقامات پر بارڈر کراسنگ ہوتی ہے: چمن، تورخم، انگوراڈہ اور سپن بولدک۔ یہ چیزیں بہتر ہوسکتی ہیں لیکن افغانستان کو سوچنا چاہیے کہ اُن چیزوں پر دبائو نہ ڈالے جو پاکستان کے لیے ممکن نہیں ہے۔

مراد یہ ہے کہ افغانستان کے حوالے سے امن وامان، سیاسی استحکام، بین الاقوامی تعلقات کی ذمہ داریاں، بھارتی مداخلت کے امکانات کا خاتمہ اورتجارتی پیش رفت جیسے معاملات ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ہمیں ہرمسئلے پر خود بہت سوچ سمجھ کر، ٹھنڈے دل و دماغ اور بصیرت کے ساتھ فیصلے کرنے ہیں۔جلدبازی سے اور کسی کے دبائو میں آکر کیے گئے فیصلے ہمیں مشکلات کی طرف لے جاسکتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر دونوں طرف سے فوجی کمانڈروں کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہواہے۔ اس پر سیّد علی شاہ گیلانی کے پاکستان میں نمایندے کی طرف سے ایک پریس ریلیز جاری ہوا جس میں انھوں نے کہا کہ’’اس سے کشمیری جدوجہد کو کافی نقصان پہنچےگا‘‘۔ اس کے بعد پاکستان کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی طرف سے منسوب ٹویٹر پیغام میں کہا گیا کہ ’’اس معاہدے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور جو لوگ اس معاہدے کی مخالفت کرتے ہیں وہ ہندوتوا کی حمایت کرتے ہیں‘‘۔ گیلانی صاحب کے بارے اس دانش وری پر کیا کہا جائے، یہ بہت عجیب بات کہی گئی ہے۔ شہریارآفریدی صاحب کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کیا بات کہنے کی ہے اور کن الفاظ میں کہنے کی ہے اور کیا بات کہنے کی نہیں۔

یہ ٹویٹ چونکہ گیلانی صاحب کے پریس ریلیز کے فوراً بعد آیا تھا، اس لیے پریس نے، خاص طور پر کشمیر اور بھارت کے اخبارات نے اسی پیرایے میں لیا کہ کشمیر کمیٹی نے گیلانی صاحب کی رائے کو مسترد کیا ہے۔ تاہم، کشمیر کمیٹی کی طرف سے فوراً وضاحت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ  انھوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا ہے۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں سیّد علی گیلانی صاحب کی جو حیثیت ہے، اس کا اندازہ بیرونِ کشمیر رہنے والے نہیں لگاسکتے۔ اہلِ جموں و کشمیر ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ یہ اعتماد ایک دن کی کمائی نہیں۔ اس میں عشرے لگتے ہیں۔گیلانی صاحب کو اللہ تعالیٰ صحت اور زندگی دے، انھوں نے جو قربانیاں دی ہیں اور جس طرح سے وہ سیسہ پلائی دیوار کی مانند بھارت کے غاصبانہ تسلط کے خلاف کھڑے چلے آرہے ہیں، یہ انھی کا خاصہ ہے۔ ان کے ساتھ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں کشمیری مردو زن کھڑے رہے ہیں اورآج بھی کھڑے ہیں۔وہ سب بھارت کی جبرواستبداد کی پالیسی کے خلاف عزم و ہمت کی مثال ہیں۔

اگرچہ فائربندی معاہدے پرمعاملہ فہمی ۲۰۰۳ء سے چل رہی تھی۔ اس وقت تک تو یہ چیزیں ٹھیک تھیں، لیکن شاید آج یوں جلدبازی میں ٹھیک نہیں کہ آج معاملات نہایت تباہ کن صورتِ حال کی جانب دھکیلے جارہے ہیں۔

بنیادی طور پردیکھنا ہوگا کہ یہ initiative [پہلا قدم]کہاں سے آیا ہے؟ ہم نے دیا، یا بھارت کی طرف سے آیا؟ بلاشبہہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ٹھیک ہوں، لیکن کشمیر کے تنازعے کو حل کیے بغیر یہ معاملہ حل نہیں ہوسکتا۔

دیکھنا ہوگا کہ اس معاملے میں چین اور امریکا کا کیا کردار تھا؟ بھارت کو بھی اس وقت ایک راستہ چاہیے تھا۔ چین کے ساتھ بھارت کے تعلقات کا معاملہ ہے۔ سفارتی مذاکرات میں اردگرد کی صورتِ حال کو دیکھنا ہوتا ہے۔ اس لیے وقت کے لحاظ سے یہ قدم درست نہیں لگتا۔ سیّدعلی گیلانی صاحب بھی یہی چاہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر حل ہو۔ کشمیری خواہ مقبوضہ کشمیر سے ہوں یا آزاد کشمیر سے، یہ انھی کی قربانیوںکا نتیجہ ہے کہ آج تک کشمیر کا تنازعہ زندہ ہے۔ اگر کشمیری قربانیاں نہ دیتے تو یہ معاملہ کب کا ختم ہوچکاہوتا۔

یہ کہنا کہ’ ’ہم نے یہ کشمیریوں کے مفاد میں کیا ہے‘‘۔ چلیے ایک محدود حد تک یہ بات ٹھیک ہے۔ لیکن سفارت کاری میں پیش رفت، اقدام اور عہدوپیمان کے لیے وقت کا انتخاب(timing) بہت اہم ہوتا ہے۔ اگر آپ وقت کا صحیح تعین نہیں کرتے تو آپ مذاکرات سے جو نتیجہ اخذ کرنا چاہتے ہیں وہ حاصل نہیں کرپاتے۔مگر دوسرا فریق اپنے حساب سے اس وقت کا فائدہ اُٹھا لیتا ہے۔ یہ معلوم تاریخ کا سنگین اور تلخ باب ہے کہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کو دوطرفہ مذاکرات میں اُلجھایا ہے اور ہماری پوزیشن کو کمزور کیا ہے۔

کنٹرول لائن پر فائربندی کے معاہدے کی تجدید کے بعد کچھ ہمارے اور بہت سے بھارتی چینلوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ جیسے کوئی بہت بڑا کارنامہ (break through)  ہوگیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایسی خوش فہمی کا اظہار کرنے والوں میں یہاں سے بھی متعدد معتبر لوگ شامل ہیں۔  سچ پوچھیں تو خوش فہمی، غلط فہمی یا عجلت پسندی پر مشتمل یہ طرزِ بیان پریشان کن ہے۔ مذاکرات کے طریق کار کو دیکھ کر بظاہر لگتا ہے کہ ہم اصولی بنیادوں سے ہٹ رہے ہیں۔

پچھلے سال ایک ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار سیکورٹیز اسٹڈیز کے تحت اسلام آباد میں کشمیر پر ایک سیمی نار ہوا تھا، جس میں وفاقی وزیرڈاکٹر شیریں مزاری صاحبہ سے میں نے یہ سوال کیا تھا کہ ’’کیا آپ اس بات کی یقین دہانی کروا سکتی ہیں کہ آپ کی حکومت نے بھارت سے مذاکرات کے لیے جوشرائط رکھی ہیں، آپ ان سے پیچھے نہیں ہٹیں گے؟‘‘ انھوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ ’’ایسا ہوہی نہیں سکتا کہ ان حالات میں ہم بھارت سے مذاکرات کریں کہ جب تک ۵؍اگست ۲۰۱۹ء سے پہلے والی صورتِ حال بحال نہ ہوجائے‘‘۔

بعض دانش ور قسم کے لوگوں کا خیال ہے کہ اب ہمارے پاس آپشن بہت کم رہ گئے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سرحدی جنگ بندی معاہدہ ایک محدود معاہدہ ہے۔ مگر دونوں ڈائرکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی جانب سے جوبیان جاری ہوا ہے، اس میں بہت سی باتوں کے علاوہ یہ بھی کہاگیا کہ ’’بنیادی اُمور (core issues)پر بھی مذاکرات کریں گے‘‘۔یہ مذاکرات کیسے ہوں گے؟ کون اسے لے کر آگے چلے گا؟ یوں لگتا ہے کہ پس پردہ، یعنی بیک ڈور ڈپلومیسی چینل اس میں شامل ہوں گے۔

بھارت بڑی شاطرانہ چالوں سے ہمیں انھی چیزوں میں اُلجھاتا رہا ہے۔ وہ ایک بار پھر ہمیں ان بے معنی مذاکرات میں اُلجھانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ کوئی بھی ذی شعور شخص، پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ بھارت سے ہمارے تعلقات بہتر ہوں، لیکن تعلقات بہتر ہونےکی ذمہ داری صرف پاکستان ہی کی تو نہیں ہے۔پہلے تو اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارے تعلقات خراب کیوں ہیں؟___ اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف جموں و کشمیر کا تنازعہ ہے۔ جب تک یہ تنازعہ رہے گا، اس وقت تک یہاں پائیدار امن ناممکن ہے۔

پھر دیکھنا یہ بھی ہے کہ کیا ہم اسے بھارت کی شرائط پر حل کرنا چاہتے ہیں یا کچھ تجاویز ہمارے ذہن میں بھی ہیں؟ یا پھر وہ تجاویز صدرجنرل مشرف کے فارمولے کے حساب سےہیں؟ جب تک ہم پوری طرح اس ضمن میں واضح نہیں ہوں گے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ اس وقت تک ہم اس بے مقصد مذاکراتی جال میں پھنس کر جموں و کشمیر پر اپنی پوزیشن کو کمزور کرتے رہیں گے۔ میری گزارش یہ ہے کہ ہم جو کام بھی کریں، وہ سوبار سوچ سمجھ کر کریں۔ ہمیں کوئی جلدی نہیں ہونی چاہیے تھی کہ ہم بھارت سے مذاکرات کے لیے جائیں۔ لیکن پاکستان اور بھارت میں کچھ حکمت عملی بنانے والے (Lobbyists) ایسے ہیں، جو چاہتے ہیں کہ بس جیسے بھی ہو، اب اس مسئلے کو ختم کریں اور بے معنی مذاکرات کا سلسلہ پھر شروع کریں۔

نریندرا مودی حکومت ہی کی پالیسی کو ہم دیکھیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہمیں نہ جانے اتنی بے چینی اور اتنی بے صبری کیوں لاحق ہوئی ہے؟ دوطرفہ تعلقات کے مختلف پہلوئوں کو سامنے رکھنا پڑتا ہے کہ ہمارے خطے میں کیا ہورہا ہے؟ دنیابھر میں کیا ہورہا ہے؟ بلاشبہہ دُنیا کا دبائو ہم پر ہوگا۔ حکومت سے ہماری یہی گزارش ہے کہ جلدبازی سے کام نہ لیں۔ بھارت کا جو رویہ اور پالیسی ہے اور اس نے آئین میں بھی جو تبدیلیاں کی ہیں،  ان میں خصوصاً آرٹیکل ۳۵-اے، کا خاتمہ تباہ کن ہے۔ ہم شاید اسٹیٹس کو (جوں کا توں) حل کی طرف جانا چاہ رہے ہیں۔ غالباً اسی لیے گلگت و بلتستان کو بھی عارضی صوبہ بنایا جارہا ہے۔ اس پر مقبوضہ جموں و کشمیر اور آزاد جموںو کشمیر میں بھی لوگوں کو بجاطور پر اعتراض ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سفارت کاری کے دوران ہرمعاملے میں وقت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کے عملی نتائج کیا ہوں گے؟ ہم سب کے لیے ریاست پاکستان کے مفادات مقدم اور اہم ہیں، تاہم چیزوں کو تاریخی اعتبار سے اور آنے والے وقت کے لحاظ سے دیکھنا ازبس ضروری ہے۔