۸ جولائی ۲۰۱۶ء کو بھارت کی ریاستی دہشت گردی نے بُرہان مظفروانی کو شہید کردیا اور اس کا نام ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔میں اُس زمانے میں نئی دہلی میں پاکستان کا ہائی کمشنر تھا۔ بُرہان وانی کی شہادت کے بعد تقریباً چار ماہ تک مقبوضہ جموں وکشمیر میں مسلسل احتجاج ہوتا رہا،اور بھارتی سیکورٹی فورسز نے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا تاکہ آزادی کی آواز کو دبایا جاسکے۔ اس مقصد کے لیے پیلٹ گنز کا بھی بے دریغ استعمال کیا اور بے شمار معصوم کشمیری بچوں، عورتوں اور شہریوں کو بینائی سے محروم کردیا گیا۔
’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘ ___ یہ نعرہ سیّد علی شاہ گیلانیؒ نے دیا ، جسے مقبوضہ کشمیر کے ہرگھر میں محسوس کیا جاسکتا ہے اور اس کی آواز سنی جاسکتی ہے۔ بلاشبہہ یہ آواز آتی رہے گی، اس لیے کہ کشمیریوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم نے بھارت کے غاصبانہ قبضے سے جان چھڑانی ہے اور جب تک آزادی نہیں مل جاتی، ہم اپنی یہ جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اکثر لوگ مجھ سے سوال پوچھتے ہیں کہ کشمیریوں کی جدوجہد تو واضح ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں، لیکن ہمیں بتایئے کہ کشمیر کاز کے حوالے سے پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ پھر یہ سوال بھی پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان میں کس حکومت نے مسئلہ کشمیر کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا، اور کس حکومت، کس قیادت یا کس سیاست دان نے کشمیر کاز کو بہتر طریقے سے آگے بڑھایا؟
آپ کے سامنے کشمیر کے حوالے سے میں پاکستانی سفارتی محاذ کی نسبت سے چندحقائق بیان کروں گا، جو عام طور پر لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ ہم یہ دیکھیں گے کہ آج جہاں کھڑے ہیں، یہ معاملہ کیسے شروع ہوا؟ اور کس طرح ہماری حکومتیں اپنے اصولی موقف سے بہت پیچھے ہٹ گئی ہیں؟
پہلی سفارتی پسپائی: ۶جنوری ۲۰۰۴ء کو اسلام آباد میں سارک سربراہی کانفرنس ہونا تھی۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارت کے اُس وقت کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان آئے تھے اور پاکستان میں حکمران صدر جنرل پرویز مشرف سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اس اعلامیے میں جو الفاظ استعمال کیے گئے، اس نے کشمیرکاز کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ اس اعلامیے میں صدرجنرل پرویزمشرف نے بھارتی وزیراعظم کو یہ یقین دلایا:
Pakistan will not permit in territory under Pakistan's control to be used to support terrorism in any manner.
یعنی پاکستان اپنے زیرانتظام آزاد جموں و کشمیر مع گلگت و بلتستان کو بھارت کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا۔
مطلب یہ کہ دانستہ یا نادانستہ طور پر پاکستان نے اس بات کو تسلیم کرلیا کہ یہاں سے لوگ جاکر مقبوضہ جموں و کشمیر میں ’دہشت گردی‘ کرتے ہیں۔ یہ پہلی بار ہوا کہ یہاں سے حقِ خود ارادیت کی آئینی جدوجہد کو بھارت کی شکایت کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ آج تک بھارت اس اعلامیے کو استعمال کرتا ہے اور اس نے بڑی چالاکی سے جموں و کشمیر کی جدوجہد کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ دیا۔ جس کے نتیجے میں بعدازاں امریکا نے بھی ۲۰۱۷ء میں حزب المجاہدین جوکہ مقامی تنظیم تھی، اسے دہشت گرد تنظیم قراردے کر پابندی لگادی۔ چنانچہ اس اعلامیے سے سفارتی سطح پر پسپائی کا سفر شروع ہوا۔
دوسری سفارتی پسپائی: صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے زمانۂ اقتدار میں پس پردہ سفارت کاری کا آغاز کیا اور اس میں چار نکاتی فارمولا پیش کیا۔ بلاشبہہ سفارت کاری میں لینا دینا ہوتا ہے اور گفتگو کرتے ہوئے بعض جگہ دوطرفہ مفاہمت بھی کرنی پڑتی ہے، لیکن جو غلطی صدر مشرف سے ہوئی وہ یہ کہ انھوں نے پبلک میں آکر یہ بتایا کہ ہم اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ اصولی موقف یہ تھا کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے تحت جموں و کشمیر میں استصواب رائے کروایا جائے۔ لیکن جب آپ عوامی سطح پر اصولی موقف سے پیچھے ہٹتے ہیں تو سفارت کاری میں آپ کے پاس لینے دینے کے لیے کچھ نہیں باقی بچتا، کیونکہ جو کچھ لینا دینا تھا وہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی آپ نے دے دیا،تو اب مذاکرات کس بات پر کیے جاسکتے ہیں؟
یہ اتنی بڑی غلطی تھی کہ اس کی وجہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں حُریت کانفرنس دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ سیّد علی شاہ گیلانیؒ نے بجاطور پر اس فارمولا کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح تو ہم پاکستان کے اصولی موقف سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔ لیکن حُریت کانفرنس کا دوسرا حصہ جو میرواعظ عمر فاروق کی قیادت میں تھا اس نے یہ تسلیم کرلیا۔ بعد میں ہم نے دیکھا کہ جیسے ہی ۶جنوری ۲۰۰۴ء کو بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان سے واپس گئے تو ۲۲جنوری ۲۰۰۴ء کو ان کی میرواعظ صاحب کی حُریت کانفرنس کی قیادت سے ملاقات ہوئی۔
اس طرح صدر پرویز مشرف نے اپنی ایک بات سے کئی صدمے پہنچا ڈالے۔ ایک تو وہ پاکستان کے اصولی موقف سے عوامی سطح پر پیچھے ہٹ گئے اور مذاکرات کے لیے کچھ باقی نہ بچا۔ دوسرایہ کہ حُریت کانفرنس تقسیم ہوگئی۔ مجھے معلوم ہے کہ ان دونوں حصوں کو قریب لانے کے لیے دہلی میں ہمیں کتنی محنت کرنا پڑی۔بُرہان مظفروانی کی شہادت کے بعد ہمیں کچھ کامیابی ملی اور حُریت کانفرنس کی متحدہ قیادت سامنے آئی، جس میں سیّد علی گیلانی ، یاسین ملک اور میرواعظ عمرفاروق شامل تھے۔
گویا کہ صدر پرویز مشرف نے ایک طرف کشمیر کاز کو دہشت گردی کے ساتھ ملا دیا اور دوسرا مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے چارنکاتی فارمولا کو عوامی سطح پر زیربحث لائے جس نے پاکستان کے اصولی موقف کو بڑا شدید نقصان پہنچایا۔ سفارتی سطح پر ہم ایک صحیح پوزیشن میں بھارت کے ساتھ بات چیت کرسکتے تھے، لیکن بدقسمتی سے ہم نے اپنی پوزیشن خود ہی کمزور کرڈالی۔ اس طرح پس پردہ سفارت کاری میں جنرل صاحب کی مہم جوئی کے نتیجے میں تو مسئلۂ کشمیر پر کم بات ہوئی اور زیادہ تر بات دہشت گردی پر ہوتی رہی۔
مسئلہ کشمیر ایک جائز (legitimate ) اور حل طلب مسئلہ ہے، اس کو دہشت گردی کے ساتھ نہیں جوڑا جاسکتا۔ لیکن جنرل مشرف کی نامناسب سفارت کاری اور بیان بازی نے بنیادی غلطی کردی اور پھر اسی دوران مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان جنگ بندی لائن پر انڈیا کو باڑ لگانے کی بھی اجازت دے دی۔
تیسری سفارتی پسپائی: اس کے بعد ۱۶ جولائی ۲۰۰۹ء کو پاکستان اور بھارت کی طرف سے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا، جب کہ پاکستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے۔ ’غیر جانب دارانہ تنظیم‘ (NAM)کی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے وہ شرم الشیخ، مصر گئے، جہاں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد ایک اعلامیہ جاری ہوا۔ ماضی میں پاکستان اور انڈیا کے جو اعلامیے جاری ہوتے رہے، مثال کے طور پر ۲۰۰۴ء کے اعلامیے کو لے لیجیے، جو صدر پرویز مشرف اور وزیراعظم واجپائی کی ملاقات کے بعد جاری ہوا۔ اس میں یہ کہا گیا:
The two leaders are confident that the resumption of composit dialogue will lead to peacful settelment of all bilateral issues including Jammu and Kashmir.
اس مشترکہ اعلامیے میں الفاظ ’بہ شمول جموں اور کشمیر‘ (including Jammu and Kashmir) کو ایک خاص اہمیت حاصل تھی۔ ہم نے ہمیشہ یہی بات کہی تھی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل مسئلہ تو جموں و کشمیر ہے، اور باقی سب جزوی مسائل ہیں۔ ایک بار جموں و کشمیر کا تنازع حل ہوجائے تو پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی ایسے بنیادی اختلافات نہیں ہیں، جو دُور نہ ہوسکیں بلکہ وہ سب اختلافات آسانی کے ساتھ حل ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۴۷ء سے جموں و کشمیر ہی بنیادی مسئلہ تھا، سیاچن ہو یا سرکریک، یہ تو سب بعد کی پیداوار ہیں۔
جموں و کشمیر کو ہم ہمیشہ مشترکہ اعلامیے میں مرکزی اہمیت دیتے رہے ہیں، لیکن ۱۶جولائی ۲۰۰۷ء کو شرم الشیخ میں جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا، پہلی مرتبہ اس کی سفارتی زبان تبدیل کی گئی:
Singh said that India was ready to discuss all issues with Pakistan including all outstanding issues.
گویا اس مشترکہ اعلامیے میں بھارتی وزیراعظم یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ ’’بھارت تمام مسائل پر بات چیت کے لیے تیار ہے‘‘۔مطلب یہ ہوا کہ اپنی جگہ جموں و کشمیر کی اہمیت ختم کرکے اسے آپ نے باقی مسائل کے ساتھ لاکر کھڑا کردیا، جیساکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثقافتی یا تجارتی اور دیگر مسائل رہے ہیں۔
بدقسمتی سے یہ پہلی بار ہوا کہ پاکستان کے مشترکہ اعلامیہ میں کشمیر کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس سے پہلے ۲۸مئی ۱۹۹۸ء کو جب پاکستان اور بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تھے تو سلامتی کونسل نے ایک قرارداد ۱۱۷۲، ۶جون ۱۹۹۸ء میں منظور کی۔ اس کے پیرا نمبر ۵ میں بڑے واضح طور پر یہ کہا گیا:
UN Security Council encourages both Pakistan and India to find mutally acceptable solution that address root causes of those tentions including Kashmir.
یعنی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھی اس بات کا احساس اور ادراک ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازع جموں و کشمیر ہی ہے۔مگر یہ کیونکر ہوا کہ ہم نے شرم الشیخ میں جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا اس میں جموں و کشمیر کا ہی ذکر نہیں کیا؟
چوتھی سفارتی پسپائی: ۲۰۱۵ء میں روس کے شہر’ اوفا‘ میں شنگھائی آرگنائزیشن کی سربراہی کانفرنس ہوئی، اس وقت پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف تھے۔ کانفرنس کے دوران بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ان کی ملاقات ہوتی ہے۔ ۱۰جولائی ۲۰۱۵ء کو یہ مشترکہ اعلامیہ دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات کے بعد جاری ہوا۔ اس میں بھی ویسا ہی معاملہ ہوا، جو شرم الشیخ میں ہوا تھا۔ اس اعلامیہ میں بھی کشمیر کا ذکر حذف کردیا گیا۔
بنیادی طور پر ہم نے بہت کمزور مذاکرات کیے اور یک طرفہ طور پر ’دہشت گردی‘ کے مسئلے کو ہم نے خاص اہمیت دی۔ بلاشبہہ دہشت گردی کے مسئلے پر پاکستان، بھارت کے ساتھ کوئی معذرت خواہانہ رویہ نہیں رکھتا،اس مسئلے پر بھارت کے ساتھ ہمارے بہت زیادہ خدشات ہیں، جو وہ پاکستان میں کر رہا ہے۔ یہاں مَیں بات یہ کر رہا ہوں کہ مشترکہ اعلامیہ میں ایک توازن ہونا چاہیے، مگر وہ توازن یہاں بگڑ گیا۔ یہاں پر کشمیر کا کہیں ذکر نہیں کیا اور all outstanding issues لکھ دیا گیا، جو شرم الشیخ اعلامیہ میں لکھا گیا تھا۔
ڈپلومیسی میں جب ایک بات مثال بن جاتی ہے تو پھر اسے بار بار پیش کیا جاتا ہے۔ اگر ہم نے شرم الشیخ اعلامیہ میں یہ سفارتی زبان اختیار نہ کی ہوتی تو شاید اوفا میں بھی استعمال نہ ہوتی۔ چونکہ شرم الشیخ میں ہم نے بھارت کو موقع دے دیا تھا تو اس لیے بھارت نے اسی بنیادپر کہا کہ آپ نے پہلے بھی اس سفارتی زبان سے اتفاق کیا تھا، تو اب آپ اس سے کیوں پیچھے ہٹ رہے ہیں؟ لیکن، یہ ماننا ہمارے لیے لازم نہیں تھا، اور اگر کوشش کرتے تو ہم اس مشترکہ اعلامیہ میں جموں و کشمیر کو شامل کرسکتے تھے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ہم کوئی اعلامیہ جاری ہی نہ کرتے۔ اس طرح شرم الشیخ کی مثال اوفا میں دُہرائی گئی۔
اس کے بجائے اگر ہم بی جے پی کے منشور کو سامنے رکھتے کہ مودی حکومت کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کیا عزائم ہیں؟ اور ذرا سخت موقف اختیار کرتے۔ اس وقت ایسی کوئی صورتِ حال بھی نہیں تھی کہ پاکستان کوئی مجبور تھا کہ ہم نے ہرصورت میں بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنے تھے۔ سبق یہ ہے کہ جب آپ اپنے اصولی موقف سے ایک بار پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو پھر اس کی بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
اوفا کی میٹنگ کے بعد ۲۰۱۵ء میں مجھے اسلام آباد بلایا گیا اور وزیراعظم نواز شریف صاحب نے کہا کہ اسلام آباد میں افغانستان کے معاملات پر ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ ہونے والی ہے۔ آپ کو یہ ذمہ داری دی جاتی ہے کہ انڈین حکومت کو قائل کریں کہ اس کانفرنس میں سشما سوراج تشریف لائیں۔
پاکستان کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر سرتاج عزیز صاحب نے اسی سال اگست ۲۰۱۵ء میں اپنے ہم منصب سے ملنے کے لیے بھارت جانا تھا، لیکن وہ نہیں جاسکے تھے کیونکہ بھارت کی حکومت نے حُریت کانفرنس کے رہنمائوں سے ان کی ملاقات کروانے سے انکار کردیا تھا۔ ہمارا مطالبہ یہی تھا کہ اگر سرتاج عزیز صاحب آئیں گے تو وہ کشمیری رہنمائوں سے ملاقات ضرور کریں گے۔ چونکہ بھارت اس تجویز کو ماننے پر تیار نہ ہوا تو وہ دورہ منسوخ کر دیا گیا۔ اس لیے ایک لحاظ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنائو پیدا ہوگیا تھا۔ ان حالات میں مجھے یہ کہا گیا کہ اس بات کو یقینی بنائوں کہ ۹-۱۰دسمبر ۲۰۱۵ء کو افغانستان پر ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں سشما سوراج شرکت کریں۔ بہرحال میں نے کوشش کی اور بھارت کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ بھارتی وزیرخارجہ پاکستان جائیں گی۔ لیکن اس سے پہلے انھوں نے ایک شرط رکھی، جو ہم نے مان لی کہ ’’دونوں ممالک کے نیشنل سیکورٹی افسران کی ایک پس پردہ ملاقات بنکاک، تھائی لینڈ میں ہوگی‘‘۔ ۶دسمبر ۲۰۱۵ء کو یہ ملاقات ہوئی اور اس میں دہشت گردی کے مسائل پر بات چیت ہوئی اور خاص طور پر ممبئی حملہ زیربحث آیا اور بعد میں اس ملاقات کی خبر بھی دے دی گئی۔
سشما سوراج اس کانفرنس میں شرکت کے لیے ۹دسمبر کو پاکستان آئیں اور اس کانفرنس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اوفا کے بعد یہ تیسرا اعلامیہ تھا، جس میںہم نے باقاعدہ یہاں تک کہہ دیا کہ:
Under the dialogue including peace and security, CBM, Jammu & Kashmir, Siyachen, Sircreek, Wular Barrage, economic and commercial cooperation, counter terrorism, narcotics control, humantarian issues, people to people exchange and religious terrorism....
گویا کہ ۸ستمبرکو ہونے والے ’جامع مذاکرات‘ (Composite dialogue) کو یہاں لاکر جمع کردیا گیا۔ اب تو واضح ہوگیا کشمیر کی حیثیت وہی ہے جو عوامی سطح پر لوگوں کے میل جول کی ہے یا پھر باہم تجارتی سرگرمی کی ہے۔ جب آپ ایک مسئلے کی اہمیت کم (downsize )کردیں گے تو پھر بھارت کیسے سنجیدہ لے سکتا ہے یا دُنیا کیسے کشمیر کے معاملے کو سنجیدہ لے سکتی ہے؟ جب یہ مذاکرات ہورہے تھے تو میں بھی ان میٹنگوں میں شریک تھا۔ اب یہ مذاکرات کس طرح سے ہورہے تھے، یہ الگ کہانی ہے۔
دفتر خارجہ میں سرتاج عزیز صاحب سے سشما سوراج کی کافی طویل ملاقات ہوئی جو پانچ گھنٹے پر پھیل گئی۔ اس ملاقات کے دوران تُو تُو مَیں مَیں بھی ہوئی اور تنائو بھی پیدا ہوا۔ آخرکار بھارت نے ہمیں جو draft دیا تھا ہم نے من و عن اسی کو تسلیم کرکے اسے بھارت کی خدمت میں پیش کر دیا:’ ’ٹھیک ہے جو آپ کہتے ہیں لکھ دیجیے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں‘‘۔ یہ تیسرا اعلامیہ ہے جس میں سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیر پر پسپائی اختیار کی گئی۔
پہلا اعلامیہ جنوری ۲۰۰۴ء، دوسرا اعلامیہ جولائی ۲۰۰۹ء کی شرم الشیخ کا ہے، تیسرا اوفا میں جولائی ۲۰۱۵ء کا اور پھر چوتھا دسمبر ۲۰۱۵ء کا یہ اعلامیہ ہے۔ آپ کو بالکل ایک تسلسل نظر آرہا ہے کہ پرویز مشرف کے زمانے سے لے کر ۲۰۱۵ء میں نواز شریف وزارتِ عظمیٰ تک کس طرح کشمیر پر ایک لحاظ سے سمجھوتے کیے گئے۔ کچھ باتیں جو پبلک میں کہنے کی نہیں ہوتیں، حکمرانوں نے وہ بھی کہہ ڈالیں، جس کی وجہ سے بھارت نے بھی پاکستان کو سنجیدہ نہیں لیا۔ دُنیا بھلا کشمیر کے معاملے کو کیا سنجیدہ لیتی، جب کہ ہمارے مقتدر حضرات خود کشمیر کے معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے تھے۔ اس طرح ایک تسلسل کے ساتھ مختلف حکومتوں نے کشمیر سے کھلواڑ کیا جو کہ نہیں کرنا چاہیے۔ سفارت کاری میں ایسی ایسی غلطیاں کیں جو نہیں ہونی چاہییں تھیں۔
پانچویں سفارتی پسپائی: اب آجاتے ہیں ۵؍اگست ۲۰۱۹ء پر۔ بھارت نے کشمیر پر جو کیا یہ ہمارے لیے صدمے کی بات تو تھی، مگر حیران کن بات نہیں تھی۔ یہ نظر آرہا تھا کہ کیا کچھ ہونے جارہا ہے، لیکن اس سے صرفِ نظر کیا گیا، مگر ایسا کس بنیاد پر کیا؟ کچھ معلوم نہیں اور پھر اس کے بعد ہم نے کیا کیا؟
ہم بھارت سے اپنے تعلقات کو نچلی سطح پر لے آئے اور اپنا ہائی کمشنر واپس بلالیا۔ ہم نے بھارت کے ساتھ اپنی تجارت بند کرلی۔ تین ماہ کے لیے فضائی حدود کو بھارت کے لیے بند کردیا۔ اس کے بعدہم نے اور بھی اقدامات کیے، مگر جن کا تسلسل برقرار نہیں رہ سکا۔ وزیراعظم عمران خان نے یہ کہا تھا کہ ہم کشمیر سے یکجہتی کے لیے ہرجمعہ کی نماز کے بعد کھڑے ہوں گے، لیکن اسے جاری نہ رکھ سکے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ساری چیزیں ختم ہوگئیں۔
ایک طرف یہ کہا: ’’بھارت کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے، جب تک بھارت ۴؍اگست ۲۰۱۹ء کی صورتِ حال کو بحال نہیں کرتا۔ اس نے آرٹیکل ۳۷۰ اور ۳۵-اے کو ختم کیا ہے۔ وہ ان اقدامات کو واپس لے، تب ہم بھارت کے ساتھ مذاکرات کریں گے‘‘۔ لیکن ہوا کیا؟ بھارت کے ساتھ بیک چینل پر بات چیت جاری رہی اور اس کے نتیجے میں ہم سب کے لیے وہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا، جب ۲۵فروری ۲۰۲۱ء کو بھارت کے ساتھ ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا کہ ملٹری ڈائرکٹر جنرل آپریشن کے درمیان لائن آف کنٹرول پر فائربندی معاہدہ کرتے ہیں۔ یاد رہے نومبر ۲۰۰۳ء سے فائربندی پر ہماری بھارت کے ساتھ ایک رسمی معاملہ فہمی تھی، لیکن فائربندی برائے نام ہی تھی اور لائن آف کنٹرول پر فائرنگ ہوتی رہتی تھی اور بھارت کی جانب سے اس کی بہت زیادہ خلاف ورزیاں ہوئیں۔
یہاں پر میں آپ کو ذرا ماضی میں لے جاتا ہوں۔ ۲۰۱۵ء میں وزیراعظم نواز شریف نے جب اقوام متحدہ سے خطاب میں ۲۱ستمبر ۲۰۱۵ء کو مسئلۂ کشمیر کے حوالے سے متعدد تجاویز دیتے ہوئے یہ کہا کہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر ہماری فائر بندی کی formal understanding ہے اور ہم اسے فارمل معاہدے میں تبدیل کردیں۔
ان کی تقریر کے بعد بھارت کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت دول سے مَیں ملنے گیا کہ معلوم کروں کہ بھارت کا کیا ردعمل ہے؟ لیکن انھوں نے اس کا کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں دیا اور کہا کہ’’ چھوڑیئے یہ وقت نہیں ہے ان باتوں کا‘‘۔ وہی بھارت جو ۲۰۱۵ء میں سیزفائر انڈرسٹینڈنگ کو ایک معاہدے کی شکل دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھا، وہ ۲۰۲۱ء میں ہمارے ساتھ یہ معاہدہ کرتا ہے۔ ہم نے وہ معاہدہ کیوں کیا؟ مجھے اس کی ابھی تک سمجھ نہیں آئی۔ اگرچہ وہ ایک مناسب معاہدہ تھا لیکن اس کا وقت بہت غلط تھا۔ ۲۰۱۹ء کے بعد یہ معاہدہ کرنا بنتا ہی نہیں تھا۔ پھر اسی طرح ’کرتارپور کوریڈور‘ بنانا بھی نہیں بنتا تھا۔
ایک طرف یہ پوزیشن لی کہ ہم بھارت سے کوئی معاہدہ نہیں کریں گے اور دوسری طرف بیک چینل پر بھارت سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ اس سے دُنیا کو معلوم ہوگیا کہ یہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ۔ اس لیے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد دُنیا سے جس ردعمل کی توقع کی جارہی تھی، وہ نہیں ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ وہ سب اقدامات ہیں جوگذشتہ سولہ برسوں سے کیے جارہے تھے۔
پھر ایک اور دلچسپ بات ہوئی کہ نومبر ۲۰۱۹ء میں شنگھائی کارپوریشنز کے نیشنل ایڈوائزرز کی میٹنگ تھی۔ اس موقعے پر ہماری جانب سے پاکستان کا ایک نیا سیاسی نقشہ جاری کیا گیا۔ اس نقشے میں جہاں مقبوضہ جموں و کشمیر، گلگت، بلتستان اور لداخ کو ایک متنازعہ خطے کے طور پر پیش کیا، جو کرنا بھی چاہیے تھا، لیکن اس کے ساتھ جوناگڑھ کو بھی ایک متنازع علاقہ کے طور پر پیش کردیا۔ جوناگڑھ گجرات (انڈیا) کا علاقہ ہے۔ ۱۹۴۷ء میں اس وقت کے نواب مسلمان تھے، اور انھوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کردیا ، جب کہ ریاست کی اکثریت ہندو آبادی پر مشتمل تھی۔ بعد میں بھارت کی فوجوں نے وہاں قبضہ کیا اور پھر ریفرنڈم کروایا۔ چونکہ اکثریت ہندوئوں کی تھی، انھوں نے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس وقت جوناگڑھ کا پنڈورا باکس کیوں کھول دیا گیا؟ لیکن سوال یہ ہے کہ ان حالات میں اس سوال کو اُٹھانے کی کیا اہمیت ہے؟ آپ کیوں جموں و کشمیر پر اپنے موقف کو کمزور کر رہے ہیں؟
کشمیر کے اصولی موقف سے پسپائی کے یہ مختلف مراحل ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم کسی ایک حکومت یا کسی ایک شخصیت کو الزام نہیں دے سکتے۔ یہ ایک تسلسل ہے جو کہ جاری تھا اور جاری ہے۔ ہم نے مسلسل سفارتی غلطیوں پر غلطیاں کیوں کیں؟ کوئی اقدام کرنے سے پہلے ہم نے سوچ بچار کیوں نہیں کی؟
سفارت کاری ایک بڑا مشکل فن ہے۔ جو اسے معمولی کھیل سمجھتے ہیں اور بس چند دوست احباب کی باہم رواداری کے معاملے کے طور پر لیتے ہیں، وہ صرف اپنے ساتھ ہی نہیں، اپنی ریاست کے ساتھ بھی مذاق کرتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے تنازعات کہ جن سے لوگوں کی براہِ راست جانیں وابستہ ہوتی ہیں۔ کشمیر کوئی علاقائی تنازع تو نہیں ہے۔ یہ ایک کروڑ ۲۰ لاکھ کشمیریوں کی آزادی کا معاملہ ہے۔ آپ کس طرح اس کو اتنا ہلکا لے سکتے ہیں؟
یہ بات ضرور معلوم کرنی چاہیے کہ اگر صدر جنرل پرویز مشرف نے چار نکاتی فارمولا دیا تو اس کے پیچھے کیا حکمت عملی کارفرما تھی؟ کیا دفتر خارجہ کے اس وقت کے لوگ صدر مشرف کو مشورہ نہیں دے سکتے تھے؟ اگر دیا تو کس نے اور کس بنیاد پر اسے وزن نہ دیا؟ اور کیا اس کے اصل فریق کشمیری قیادت کو اعتماد میں لیا گیا؟
آگے کیا کرنا ہے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ہمارے مسائل کا تعلق اندرونِ ملک کے حالات سے ہے۔ جب تک ہمارے ملکی حالات بہتر نہیں ہوں گے، جب تک ہم اچھی حکمرانی کا مظاہرہ نہیں کرتے، کرپشن کو ختم نہیں کریں گے، اپنی معیشت کو ٹھیک نہیں کریں گے، سیاسی عدم استحکام سے جان نہیں چھڑائیں گے، اس وقت تک ہم سفارتی میدان میں کامیابیاں حاصل نہیں کرسکیں گے۔
یہ دُعا اور اُمید ہے کہ ان شاء اللہ کشمیریوں کو ان کا حقِ خود ارادیت ضرور ملے گا۔ تحریکوں میں اُتارچڑھائو آتا رہتا ہے، لیکن اگر ایمان پختہ ہو اور عزم راسخ ہو تو کوئی طاقت کامیابی سے روک نہیں سکتی۔ بقول اقبال ؎
پُر دَم ہے اگر تُو تو نہیں خطرئہ اُفتاد
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا