ہم اسلامی شریعت میں یہ مطالعہ کرتے ہیں کہ عورتوں کا وراثت میں حق ہے،لیکن زمینی صورت حال اس کے برعکس ہے۔ کہیں وراثت کا حق لڑکیوں کو دیا ہی نہیں جاتا ہے۔ کہیں یہ حق دینے سے بچنے کے لیے والد محترم بیٹے کے نام پر پوری پراپرٹی ہبہ کردیتے ہیں۔ کہیں پراپرٹی کو باہر جانے سے بچانے کے لیے خاندانوں میں بے جوڑ رشتوں کا رواج ہے،تو کہیں بھائی صرف ایک دولاکھ روپے پکڑواکر پہلو تہی کرلیتے ہیں۔کہیں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ لڑکیوں کی شادی پر پیسہ خرچ کردیا،وہی وراثت تھی،اور جہاں خاتون کو وراثت میں سے حصہ مل جائے تو شوہر محترم اس مال پر اپنا پورا اختیار سمجھتے ہیں،بیوی کو اس میں تصرف کی آزادی نہیں ہوتی۔
اسی طرح کا واقعہ سناتے ہوئے ایک خاتون نے بتایا کہ ان کے شوہرِ نامدار نے اپنے پیسے جمع کرکے اپنے نام پر پانچ لاکھ کی زمین خریدی،تاکہ گھر بناسکیں گے، لیکن تعمیر کے لیے پیسے نہیں تھے،اس لیے بیوی کو کہا کہ اپنے بھائیوں سے وراثت کا حصہ طلب کرے۔بھائیوں سے مانگنے میں کسی حد تک وہ کامیاب ہوئیں،۲۰لاکھ کی رقم لے کر شوہر کو دی اور شوہر صاحب نے گھر کی تعمیر کی۔چونکہ ان کی صرف دو بیٹیاں تھیں،بیٹا نہیں تھا۔اس واقعے کے دس سال بعد شوہر کا انتقال ہوگیا۔ چونکہ مکان شوہر کے نام پر تھا،اس لیے شوہر کے بھائی اور بیٹوں کا حصہ بنا۔وہ کہتی رہیں کہ اس گھر کی تعمیر میں بڑی رقم میری ذاتی خرچ ہوئی ہے،لیکن چونکہ ثبوت کوئی نہیں تھا،اس لیے ان کو حصہ دینا پڑا۔
دراصل یہی ہمارے معاشرے کا مسئلہ ہے کہ بیوی کو اس کا مال علیحدہ اسی کے نام پر رکھنے کی اجازت نہیں ہے ۔اس کے مہر یا زیورات کی رقم ہو یا وراثت کی،یا اس کی اپنی کمائی،شوہر حضرات اس کے مال کا حاکم خود کو سمجھتے ہیں۔
قرآن نے اس آیت کے ذریعے دونوں کی ذمہ داریوں کی اچھی طرح وضاحت فرمادی ہے:
مرد عورتوں پر قوّام ہیں ، اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔(النساء ۴: ۳۴)
قوّام کا ترجمہ اکثر مترجمین نے لفظ’حاکم‘ سے کیا ہے۔حاکم کے مروجہ معنی مکمل حاکم کے آتے ہیں۔جس کی وجہ سے مسلم مردوں میں یہ احساس برسہا برس سے پنپ رہا ہے کہ بیوی کے مال،اس کی وراثت اور اس کی کمائی پر بھی شوہر کا حق ہے، جب کہ بیوی کو کمانے کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اجازت لے۔ درحقیقت بیوی کا کمایا ہوا مال اس کا اپنا مال ہے،اسے پورا اختیار ہے کہ جو اس نے کمایا ہے،اس سے وہ صدقہ خیرات کرے یا اپنے قرابت داروں کی مدد کرے۔
اسلام نے خاندانی نظام اس طرح استوار کیا ہے کہ بیوی پر اندورن خانہ گھر کی دیکھ بھال، شوہر کی خدمت اور بچوں کی پرورش و پرداخت کی ذمہ داری ڈالی ہے اور شوہر کو بیوی کے نان و نفقہ اور دیگر ضروریات زندگی فراہم کرنے کا پابند کیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دُوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے،اس کی تمنّا نہ کرو۔ جو کچھ مَردوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق ان کا حصّہ ہے،اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے،اس کے مطابق اُن کا حصّہ۔ہاں، اللہ سے اس کے فضل کی دُعا مانگتے رہو، یقیناً اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔(النساء ۴:۳۲)
خواتین تعلقات کے معاملے میں احتیاط سے کام لیتی ہیں اور تعلقات کے بگاڑنے میں خوف کا شکار رہتی ہیں،اس لیے مجبوراً اپنا مال شوہر کو سونپتے ہوئے دلی آمادگی کا اظہار کرتی ہیں۔ مہر کی رقم بھی اس سے واپس لی جائے تو وہ بے چون و چراں شوہر کے حوالے کردیتی ہے۔وراثت میں بھی وہ تعلقات کی خرابی کے ڈر سے کوشش کرتی ہے کہ شوہر کے حوالے کردے۔
شریعت کا ایسے معاملات میں موقف بالکل واضح ہے،جسے مولانا رضی الاسلام ندوی نے نقل کیا ہے:’’اگر باپ اور بیٹا دونوں تجارت کریں،تو باپ اور بیٹے کے تجارت میں بھی شیئر کو علیحدہ علیحدہ لکھ لیا جائے،تاکہ تجارت علیٰحدہ ہونے پر انصاف کے ساتھ تقسیم ہوسکے۔ اسی طرح بیوی کے مال یا اس کے شیئر کو بھی واضح طور پر لکھ کر دستاویزی ثبوت رکھنا چاہیے۔‘‘
ایک مرتبہ دوران گفتگو ایک خاتون استاد نے بتایا کہ پچیس سال سے گورنمنٹ کالج میں ملازمت کر رہی ہوں،لیکن ابتدا ہی سے میری چیک بُک میرے شوہر کے ہی پاس رہی،کبھی میری تنخواہ پر میرا اختیار نہیں رہا۔میرے شوہر جب چاہیں مجھے پیسے لاکر دیں، لیکن کبھی میرے اختیار میں نہیں رہا کہ کچھ رقم نکال کر ذاتی طور پر خرچ کرسکوں۔ابتدا میں میرے لیے یہ بات اہم نہیں تھی کہ شوہر اور میرا پیسہ ایک ہی ہے۔ وہ جاب نہیں کرتے تھے، ان کا بزنس تھا،کبھی چلتا اور کبھی نقصان میں رہتے تو برسوں تک ہمارے درمیان کچھ نہیں خراب ہوا۔پھر یوں ہوا کہ اپنے بہن بھائی کی مدد کے لیے مجھے پیسوں کی ضرورت پیش آئی۔اپنے بینک سے رقم نکالنا چاہی تو شوہر کے سوال جواب سے اس قدر پریشان ہوئی کہ مجھے احساس ہوا کہ میرے اپنے پیسوں پر میرا حق نہیں ہے۔اسی بات پر ہمارے درمیان تنازع رہنے لگا۔ایک عالم سے پوچھا تو موصو ف نے فرمایا کہ ’’عورت کی ہر چیز کا مالک شوہر ہے۔وہ چاہے تو بیوی کو جاب کے لیے باہر نکلنے کی اجازت دے،چاہے تو نہ دے‘‘۔ یہ سن کر میں خاموش ہوگئی،اور آج پچیس سال سے خاموش ہوں،لیکن اپنے آپ کو میں آدھی پاگل سمجھتی ہوں۔میرے شوہر کی وفات کے بعد میرے بینک کا کارڈ میرے بیٹے کے پاس ہے،اور میں اپنے بیٹے سے واپس لینے میں بھی خوف کھاتی ہوں۔اب وہ خاتون ذہنی مریضہ بن چکی ہیں،کہ ان کا ان کے اپنے ہی پیسوں پر اختیار آج بھی نہیں ہے۔
یوں اندازہ ہوتا ہے کہ خواتین میں خود اپنے مال کی حفاظت یا اسے اپنے اختیار میں رکھنے کا شعور نہیں ہے،یا تو بھائی سے وارثت نہیں ملی ہے یا اس کی کمائی پر شوہر اپنا حق سمجھتا ہے۔
مولانا رضی الاسلام ندوی نے اپنی کتاب:عورت ، خاندان اور سماج میں لکھا ہے: اسلام نے عورت پر گھر کی ذمہ داری ڈالی ہے،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام نے عورت کے لیے کسبِ معاش کا دروازہ بالکل بند کر دیا ہے۔لڑکی شادی سے قبل باپ یا سرپرست کی اجازت سے اور شادی کے بعد اپنے شوہر کی اجازت سے معاشی سرگرمی انجام دے سکتی ہے۔ کسبِ معاش کی بنیادی طور پر دو صورتیں ہو سکتی ہیں :ایک براہِ راست معاشی سرگرمی کے ذریعے اور دوسرے بالواسطہ سرمایہ کاری کے ذریعے۔عورت ان دونوں صورتوں کو اختیار کر سکتی ہے۔وہ خرید و فروخت کر سکتی ہے، کاشت کاری کر سکتی ہے، صنعت و حرفت میں مصروف ہو سکتی ہے، اپنی کسی جائیداد، مکان و دکان وغیرہ کو کرایہ پر دے سکتی ہے،حدود شرع کی پابندی کرتے ہوئے کہیں ملازمت کر سکتی ہے،اپنی مزروعہ زمین کو بٹائی پر لگا کر پیداوار کی شکل میں منافع حاصل کر سکتی ہے۔ ان تمام صورتوں میں عورت جو کچھ کمائے گی اس کی وہ خود مالک ہو گی،شوہر کو اس پر قبضہ کرنے کا حق نہ ہوگا۔ایسی عورت کے مال دار ہونے کے باوجود شوہر پر اس کے اوراس کے بچوں کے اخراجات کی تکمیل واجب ہوگی۔عہد نبویؐ میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ خواتین مختلف ذرائع سے مال کماتی تھیں اور اس کو آزادانہ طور پر خرچ کرتی تھیں۔حضرت شفاءؓ العدویہ اور حضرت اسماءؓ بنت مخرمہ، عطر فروخت کیا کرتی تھیں۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی زینب کچھ کاری گری سے واقف تھیں، جس کے ذریعے وہ اچھا خاصا کما لیتی تھیں ۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:
’’کیا میں اپنا مال اپنے شوہر اور ان کے بچوں پر خرچ کر سکتی ہوں؟‘‘
یہی سوال ایک دوسری خاتون نے بھی کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا :
نَعَمْ لَهُمَا أَجْرَانِ: أَجْرُ الْقَرَابَةِ وَأَجْرُ الصَّدَقَةِ ،ہاں، ان دونوں کو دوہرا اجر ملے گا۔ ایک قرابت کا اجر اور دوسرے صدقے کا اجر۔
اگر تنگ دستی ہو،شوہر کے ساتھ اچھی دلی آمادگی کے ساتھ بیوی اپنا مال شوہر پر خرچ کرسکتی ہے۔گھر کے نظام کو بہتر بنانے اور ایک دوسرے سے تعاون کا ماحول بنانے کے لیے شوہر کے ساتھ مل کر بھی سرمایہ کاری کرسکتی ہے،تاہم اس خیال کے ساتھ کہ کسی کا استحصال نہ ہو۔
جہاں یہ شعور مردوں کے درمیان ہونا چاہیے کہ جو مال بیوی کو مہر یا تحفہ میں دیا گیا، یا جو زیورات بیوی اپنے ساتھ لائی ہے ،یا وراثت کا حق، یا اس کی اپنی کمائی، یہ تمام اموال بیوی کے ہیں،اور وہ ان کی مالک ہے۔ وہیں یہ شعور خواتین میں بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے مال کے استحقاق کا احساس رکھیں، ابتدا ہی سے وہ احساس دلائیں کہ یہ ان کا مال ہے۔
یہ غلطی اکثر خواتین کرتی ہیں کہ ابتدا میں اپنے شوہر کو دل کی آمادگی کے ساتھ مالک بنادیتی ہیں،اور تعلقات میں رنجش کے بعد وہ یہ اظہار کرتی ہیں کہ ’مجھ سے لے لیا گیا‘۔اس لیے بہتر ہے کہ شریعت کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا جائے۔شوہر کو مال دیں تو قرض کے بطور دیں اور اسے لکھ لیا کریں،تاکہ واضح رہے کہ آپ کو اپنی ملکیت کا احساس ہے۔اپنے مال سے صدقہ و خیرات ادا کریں تو اجازت نہ لیں،کیوں کہ اجازت لینے سے بھی یہ احساس دلاتی ہیں کہ شوہر ہی اس کے مال کا مالک ہے۔ہاں،کسی اجنبی کی مدد سے پہلے مشورہ ضرور کرلیں،تاکہ مستحق تک مدد پہنچانے میں شوہر کی مشاورت شامل رہے۔
سورئہ احزاب میں اہل ایمان مردوں اور عورتوں کے دس اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک وصف صدقہ کرنابھی ہے۔کہا گیا ہے :
وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ (الاحزاب ۳۳:۳۵ )صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں۔
جب خاتون کے مال میں مرد کو تصرف کی آزادی دی جائے تو اپنے مال سے بھی صدقہ کرنے کے لیے شوہر کی اجازت لازم کردی جاتی ہے۔
پڑھی لکھی باشعور خواتین بھی شرعی قوانین سے عدم واقفیت کی بنا پر اپنے اختیارات سے ناواقف رہتی ہیں،اور بعد میں اپنی غلطی پر پشیمانی کے احساس سے ذہنی حالت خستہ اور دل مجروح کرلیتی ہیں۔
عورت جس مال کی مالک ہے،اسلام نے اس میں تصرف کا اسے پورا اختیار دیا ہے۔ وہ اسے فروخت کر سکتی ہے، کرایہ پر لگا سکتی ہے، عاریت میں دے سکتی ہے،اس کا ہدیہ کرسکتی ہے،اسے وقف کر سکتی ہے، اسے بطور صدقہ و خیرات خرچ کر سکتی ہے۔ اس کے اولیا: ماں باپ ، شوہر ، بیٹے وغیرہ حسب ضرورت و موقع اسے مناسب مشورہ تو دے سکتے ہیں، لیکن اس پر اپنی مرضی نہیں تھوپ سکتے۔
عموماً یہ بات خواتین کے درمیان کہی جاتی ہے کہ ’’بھائی سے وارثت لینے کے بعد بھائی سے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں،اور وراثت کا حق بھی شوہر کو سونپنا پڑتا ہے،عورت کا کچھ ہے ہی نہیں‘‘۔ اس غلط خیال کی تردید ہونی چاہیے اور یہ خاتون کی ملکیت کے احساس کو اُجاگر کرکے ہی ممکن ہے۔