خطبۂ جمعہ کو اس قدر غور سے سننے کی تلقین کی گئی ہے کہ ’’کہا گیا ہے کہ اگر کوئی دوران خطبہ شور کرے تو اس کو یہ کہنا کہ ' چپ ہوجاؤ بھی مناسب نہیں‘‘۔ ظاہر ہے خطبۂ جمعہ کی کافی اہمیت ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم نے خطبۂ جمعہ کو وہ مرکزی اہمیت نہیں دی۔ ایک متفق علیہ حدیث ہے؛ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب جمعہ کے دن امام خطبہ دے رہا ہو اور تم اپنے پاس بیٹھے ہوئے آدمی سے کہو کہ’خاموش ہو جاؤ‘ تو (ایسا کہہ کر) تم نے خود ایک لغو حرکت کی‘‘۔فرشتے اس شخص کا نام اپنے رجسٹر میں نہیں لکھتے ہیں جو خطبۂ جمعہ شروع ہونے کے بعد مسجد آئے۔ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو مسجد کے ہردروازے پرفرشتے کھڑے ہوکر پہلے آنے والے کو پہلے لکھتے ہیں۔ سب سے پہلے آنے والا شخص اس کی طرح ہے جس نے اونٹ قربان کیا ہو، اس کے بعد اس کی طرح جس نے گائے قربان کی، اور اس کے بعد جس نے مینڈھا قربان کیا، پھر اس کے بعد آنے والا اس کی طرح جس نے مرغی قربان کی ہو۔ پھر اس کے بعد آنے والا اس کی طرح ہے جس نے انڈا صدقہ کیا ہو،اور جب امام نکلے اور منبر پرپہنچ جائے تو وہ اپنے رجسٹر لپیٹ کر ذکر سننے آجاتے ہیں‘‘۔ (مسلم،۸۵۰)
جس قوم کے پاس خطبۂ جمعہ جیسا مؤثر (vibrant ) نظام ہو، اس کی بنیادی اقدار بہترین ہونی چاہئیں۔ وہ بہت زیادہ update ہونے چاہئیں۔ آج کے دور میں میڈیا کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کے پاس میڈیا نہیں ہے، لیکن خطبۂ جمعہ متبادل میڈیاکا کام دے سکتا ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کی جن ذرائع سے تربیت کرتے ان میں خطبۂ جمعہ کا کلیدی مقام تھا۔ جب اسلام عرب سے باہر پھیل گیا تو خطبۂ جمعہ کو مؤثر بنانے کے لیے علما نے یہ طریقہ اپنایا کہ دو خطبوں سے پہلے مقامی زبان میں تقریر ہوتی ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی اکثریت یہ تقریر نہیں سنتی اور خطبۂ جمعہ ہونے سے چند منٹ پہلے مسجد پہنچ جاتے ہیں۔ اس طرح اس تقریر کی افادیت آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔ لوگ تیسرے خطبہ کو خطبۂ جمعہ میں شامل نہیں سمجھتے، تاہم خطبۂ جمعہ کی اہمیت ان کے نزدیک برقرار ہے اور وہ خطبہ کی اذان شروع ہونے سے ٹھیک پہلے مسجد پہنچ جاتے ہیں۔ جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ بہت سی جگہوں پر پہلا خطبہ مقامی زبان میں دیا جاتا ہے،جس سے لوگوں کی رہنمائی بھی ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی لکھتے ہیں: ’’امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک غیر عربی زبان میں بھی خطبہ دیا جاسکتا ہے۔ ان کے دونوں شاگردوں امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ (صاحبین) کے نزدیک جو شخص عربی زبان پر قادر ہو، اسے عربی میں خطبہ دینا چاہیے۔ جو قادر نہ ہو اسے غیرعربی میں بھی خطبہ دینے کی اجازت ہے‘‘۔
عموماً فقہائے احناف کا فتویٰ اور عمل صاحبین کے مسلک پر ہے۔ بعض فقہا نے غیرعربی زبان میں بھی خطبہ دینے کی اجازت دی ہے۔ مثلاً علامہ عبدالحئی فرنگی محلیؒ نے اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے (مجموعۃ الافتاوٰی،فصل:۲۵)۔ مولانا محمدعلی مونگیریؒ بانی دارالعلوم ندوۃ العلماء ،لکھنؤ نے بھی اس موضوع پر ایک مفصل رسالہ لکھا ہے، جس کا نام القول المحکم فی خطابۃ العجم ہے۔
موجودہ دور میں اس چیز کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ خطبۂ جمعہ کو عوام کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنایا جائے۔ اس بنا پر بعض علما کہتے ہیں کہ جمعے کے دونوں خطبے تو عربی زبان ہی میں دیئے جائیں، البتہ خطبے سے قبل عوام کی زبان میں ان کے سامنے تقریر کی جائے، جس میں انھیں دین کی باتیں بتائی جائیں۔ اس طریقے کو اختیار کرنے سے عملاً جمعے کے تین خطبے ہوجاتے ہیں۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کے مسلک کو اختیار کرکے خطبۂ اولیٰ کو اُردو میں دینا چاہیے۔
اس موقعے پر اسلامی فقہ اکیڈمی مکہ مکرمہ کے پانچویں سیمی نار منعقدہ ۸ تا۱۶؍ربیع الثانی ۱۴۰۲ھ میں منظور شدہ ایک فیصلے کا حوالہ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے : ’’معتدل رائے یہ ہے کہ غیرعرب علاقوں میں جمعہ و عیدین کے خطبے کے صحیح ہونے کے لیے عربی زبان کی شرط نہیں ہے۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ خطبے کے ابتدائی کلمات اور قرآنی آیات عربی زبان میں پڑھی جائیں، تاکہ غیرعرب بھی عربی اور قرآن سننے کی عادت ڈالیں اور عربی میں قرآن سیکھنا ان کے لیے آسان ہو۔ پھر خطیب علاقائی زبان میں انھیں نصیحت و تذکیر کرے‘‘۔ (مکہ فقہ اکیڈمی کے فقہی فیصلے، ایفا پبلی کیشنز، نئی دہلی، طبع دوم، ۲۰۰۶ء، ص۱۰۷ )
نمازِ جمعہ اور جمعہ کے خطبے اسلام کے عظیم شعائر میں سے ہیں، جن کا مقصد لوگوں کو وعظ ونصیحت کرنا اور ان کی رہنمائی کرنا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جمعہ کا اہتمام ہو، ہر بستی میں ایک ہی وقت خطبۂ جمعہ ہو۔ سب دوکانیں، کاروباری ادارے اور دفاتر اس وقت بند ہوجائیں اور پوری بستی کو یہ محسوس ہو کہ آج جمعہ ہے۔ اس کے بعد امام صاحب پہلا خطبہ مقامی زبان میں دیں اور دوسرا خطبہ عربی زبان میں دیں، اس طرح شعائر اسلام کی تعظیم ہو سکتی ہے۔ ورنہ یہ ہوتا ہے کہ آدھے لوگ اس مسجد میں جاتے ہیں جہاں ابتدائی وقت میں خطبۂ جمعہ ہوتا ہے اور آدھے لوگ وہاں جاتے ہیں جہاں آخری وقت خطبۂ جمعہ ہوتا ہے، اس طرح جمعہ کا اہتمام کہیں نظر ہی نہیں آتا۔ اب تو زیادہ تر مساجد اس وجہ سے ابتدائی وقت میں خطبۂ جمعہ رکھتے ہیں تاکہ وہاں زیادہ سے زیادہ لوگ نماز کے لیے آئیں اور مسجد کے لیے امداد بھی فراہم ہوسکے۔ نمازِ جمعہ کا اہتمام نظر آنا چاہیے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہِ وَذَرُوا الْبَيْعَ۰ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۹(الجمعة۶۲:۹)مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو اور خرید وفروخت ترک کردو، اگر سمجھو تو یہ تمھارے حق میں بہتر ہے۔
ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:’’اذان جمعہ کے بعد خرید وفروخت حرام ہے‘‘۔ امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ کار یہ تھا کہ آپ دیگر ایام کے مقابلے میں مخصوص عبادتوں کے ذریعے جمعہ کے دن کی تعظیم وتکریم کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام کے درمیان یہ اختلاف ہے کہ جمعہ کا دن افضل ہے یا عرفہ کا دن‘‘۔(زاد المعاد ، ۱/۳۷۵)
اب،جب کہ یہ بات واضح ہے کہ خطبات جمعہ کی اتنی زیادہ اہمیت ہے تو پھر خطیب مسجد کی ذمہ داری بھی اسی حساب سے بڑھ جاتی ہے، تاکہ اس ہفتہ وار پروگرام سے بھر پور فائدہ اٹھایا جاسکے۔ بہتر یہ ہوتا کہ علاقے میں اہلِ علم کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو ہر جمعہ کو یہ طے کریں کہ اگلے جمعہ کو ہر مسجد میں کس موضوع پر خطبہ ہو؟ بہتر ہوتا کہ اہلِ علم ہر ہفتے ائمہ حضرات کو خطبۂ جمعہ کے لیے مواد بھی فراہم کرتے۔ خطبۂ جمعہ مختصر مگر جامع ہو۔ بدقسمتی سے خطیب صاحب ایسے بے سروپا قصوں، کہانیوں اور مبالغہ آمیز حکایات کا سہارا لیتے ہیں کہ تعلیم یافتہ لوگوں کی الجھن میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، بلکہ ایسی کہانیوں کے باعث خطبا سے نفرت پیدا ہونے لگتی ہے۔ خطبۂ جمعہ کو اب اکثر مقامات پر صرف ایک تبرک کی حیثیت حاصل ہے۔ اسی طرح خطبہ میں دوسرے مسالک اور جماعتوں پر تنقید بھی کی جاتی ہے جس سے تفرقہ بڑھ جاتا ہے۔ موجودہ حالات میں جب امت مسلمہ رسوم ورواج میں پھنسی ہوئی ہے، ضرورت ہے کہ لوگوں کی رہنمائی کی جائے۔ جب رزقِ حلال کے حوالے سے بیداری کی کمی ہو تو ضرورت ہے رزق حلال پر زور دیا جائے۔ رشوت خوری، ذخیرہ اندوزی، اور ناپ تول پر کمی پر خطبہ دیا جائے تاکہ لوگ ان رذائل سے محفوظ رہیں۔ اسلام نے معاشرتی مسائل پر کھل کر اور تفصیل سے بات کی ہے۔ ضرورت ہے کہ معاشرتی مسائل پر بات چیت کی جائے۔ بغض، حسد، کینہ، غیبت وغیرہ کو بھی خطبۂ جمعہ کا موضوع بنایا جائے۔ سب سے بہتر ہے کہ قرآن کریم کا درس سورۂ فاتحہ سے شروع کیا جائے ہر ہفتہ ایک یا دو آیات کا ترجمہ اور تفسیر بیان کی جائے۔ خطبۂ جمعہ میں مقررین کو بہترین اسلوب میں اپنی بات رکھنی چاہیے۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے مروی ہے:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبۂ ارشاد فرماتے تھے، تو آپ کی آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں، آواز بلند ہوجاتی تھی، اور آپ کا غصہ شدید ہوجاتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ آپ کسی لشکر کو آگاہ فرمارہے ہیں ‘‘۔ (مسلم)
آج کل ہمارے گردوپیش میں جہاں مرد حضرات جمعہ پڑھنے کے لیے مساجد کا رُخ کرتے ہیں وہیں خواتین نمازِ جمعہ سے محروم رہ جاتی ہیں۔ لازم ہے کہ جہاں جہاں کوئی نئی مسجد تعمیر ہو رہی ہو وہاں خواتین کے لیے الگ سے جگہ رکھی جائے۔ اگر خواتین بھی خطبۂ جمعہ پابندی سے سنیں گی تو اس کے معاشرے پر بہترین مثبت اثرات پڑیں گے۔