تصور کریں اگر ایران، شام، لبنان یا ترکی - روس اور چین کی مکمل سفارتی حمایت اور مسلح مدد اور ارادے کی قوت کے ساتھ ساتھ وسائل سے بھی لیس ہو اور تل ابیب پر تین ماہ تک دن رات بمباری کرے، دسیوں ہزاروں اسرائیلیوں کو قتل کرے، لاتعداد کو معذور اور لاکھوں کو بے گھر کرے اور پورے شہر کو غزہ کی طرح ناقابلِ رہایش ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردے۔
صرف چند لمحوں کے لیے یہ تصور کریں کہ: ایران اور اس کے اتحادی تل ابیب کے آبادی والے حصوں، ہسپتالوں، عبادت گاہوں، اسکولوں، یونی ورسٹیوں، لائبریریوں اور ایسی کوئی بھی جگہ جہاں انسان آباد ہوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنارہے ہیں، تاکہ یقینی طور پر زیادہ سے زیادہ شہری ہلاکتیں ہوں۔ اور دنیا کو یہ بتائیں کہ وہ صرف اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور ان کی جنگی کابینہ کو تلاش کر رہے ہیں۔
اپنے آپ سے پوچھیے کہ امریکا، برطانیہ، یورپی یونین، کینیڈا، آسٹریلیا اور جرمنی اس خیالی جنگی منظر نامے کے جواب میں ۲۴ گھنٹوں کے اندر اندر کیا کریں گے؟
اب حقیقت کی طرف واپس لوٹ آئیےاور اس حقیقت پر غور کریں کہ ۷؍ اکتوبر سے پہلے (اور اس تاریخ سے بھی پہلے کے کئی عشروں تک) تل ابیب کے مغربی اتحادیوں نے نہ صرف یہ دیکھا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ کیا کیا ہے،بلکہ ان اتحادیوں نے اسے فوجی سازوسامان، بم، گولہ بارود اور سفارتی امداد فراہم کرنے کے ساتھ مکمل پشت پناہی بھی کی ہے، جب کہ فلسطینیوں کے قتل عام اور نسل کشی پر امریکی ذرائع ابلاغ اسرائیلی جارحیت کے حق میں نظریاتی جواز بھی پیش کرتے آ رہے ہیں۔
مذکورہ بالا خیالی جنگی منظر نامے کو موجودہ عالمی نظام ایک دن کے لیے بھی برداشت نہیں کرے گا۔ اسرائیل کی پشت پر امریکا، یورپ، آسٹریلیا اور کینیڈا کی فوجی غنڈا گردی کے مقابلے میں ہم بے بس لوگ، فلسطینیوں کی طرح کسی شمار میں نہیں لائے جاتے۔ یہ صرف ایک سیاسی حقیقت نہیں ہے بلکہ وہ شے جو’مغرب‘ کہلائی جاتی ہے، اس کے ’اخلاقی‘ وجود اور فلسفہ کائنات کا ایک لازمہ ہے۔
ہم میں سے وہ لوگ جو یورپ کے اخلاقی تخیل کے دائرہ کار سے باہر رہتے بستے ہیں، وہ ان مغربیوں کی فلسفیانہ کائنات میں شمار نہیں کیے جاتے: عرب، ایرانی اور مسلمان؛ یا ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے لوگ - ہم یورپی فلسفیوں کے لیے کوئی حقیقی وجود نہیں رکھتے،سوائے اس کے کہ ہم ایک مابعد الطبیعیاتی خطرہ ہیں، جسے ہر طور پر فتح کر لینا یا خاموش کر دینا چاہیے۔
ایمانویل کانٹ اور جارج ولہیم فریڈرک ہیگل سے لے کر، ایمینوئل لیوناس اور سلووج زیزیک کے بعد بھی، ہم یا تو عجیب و غریب چیزیں ہیں، اشیا ہیں یا وہ معلوم چیزیں ہیں، جن کو سمجھنے کی ذمہ داری مستشرقین کو سونپی گئی تھی۔ اسی طرح، اسرائیل یا امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کے ہاتھوں، ہم میں سے ہزاروں افراد کا قتل، یورپی فلسفیوں کے ذہنوں میں ذرا بھی رُک کر سوچنے کا باعث نہیں بنتا۔
اگر آپ کو اس پر شک ہے، تو آپ معروف یورپی فلسفی جرگن ہیبرماس (Jurgen Habermas) اور اس کے چند ساتھیوں پر ایک نظر ڈالیں، جو حیران کن بے شرمی کے ساتھ ظالمانہ بدمعاشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام کی حمایت میں سامنے آئے ہیں۔ اب سوال یہ نہیں ہے کہ آیا ہم ایک انسان کے طور پر ۹۴ سال کے ہیبرماس کے بارے میں کیا سوچیں بلکہ سوال یہ ہے کہ ہم ان کے بارے میں ایک سماجی سائنس دان، فلسفی اور تنقیدی مفکر ہونے کے ناطے کیا سوچیں؟
دنیا اسی قسم کے سوال ایک اور بڑے جرمن فلسفی، مارٹن ہائیڈیگر کے بارے میں اس کی نازی ازم کے ساتھ انسانیت سوز وابستگی کی روشنی میں پوچھتی آ رہی ہے۔ ہمیں بھی اسی طرح ہیبرماس کی متشدد صہیونیت اور اس کے پورے فلسفیانہ منصوبے اور ان کے اہم نتائج کے بارے میں، ایسے اہم سوالات پوچھنے چاہئیں۔
اگر ہیبرماس کے اخلاقی تصور میں فلسطینیوں جیسے لوگوں کے لیے دُنیا میں ذرا برابر بھی جگہ نہیں ہے، تو کیا ہمارے پاس اس کے پورے فلسفیانہ منصوبے کو قبائلی یورپی سامعین کے علاوہ، باقی انسانیت سے متعلق سمجھنے کی کوئی وجۂ جواز موجود ہے؟
ایک کھلے خط میں ممتاز ایرانی ماہر عمرانیات آصف بیات نے ہیبر ماس کو لکھا ہے: ’’جب غزہ کی صورتِ حال پر بات کرنے کا وقت آتا ہے تو ہیبر ماس ’اپنے ہی خیالات سے متصادم‘ بات کرتا ہے۔ میں اس بات سے اختلاف کرتا ہوں۔ فلسطینی زندگیوں سے بے خبری اور سفاکانہ لاتعلقی کی صہیونیت سے پوری طرح مطابقت رکھتی ہے۔ یہ اس عالمی نظریہ سے بالکل مطابقت رکھتا ہے جس میں غیر یورپی لوگ، مکمل طور پر انسان نہیں ہیں، یا محض ’انسان نما جانور‘ ہیں، جیسا کہ اسرائیلی وزیر دفاع یاو گیلنٹ نے سر عام کہا ہے۔
فلسطینیوں کی زندگیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، ہیبرماس کی صہیونیت ہائیڈیگر کے نازی ازم سے جا ملی ہے۔ فلسطینیوں کو سراسر نظر انداز کرنے کے اس رویے کی جڑیں جرمن اور یورپی فلسفیانہ تخیلات میں بہت گہری ہیں۔ عام حکمت کے مطابق ’ہولوکاسٹ‘ کے جرم میں شرم کے مارے جرمنوں نے اسرائیل کے لیے ٹھوس وابستگی پیدا کر لی ہے۔لیکن باقی دنیا کے لیے، جیسا کہ جنوبی افریقہ کی جانب سے بین الاقوامی عدالت انصاف میں پیش کی گئی شاندار دستاویز سے ثابت ہوتا ہے، جرمنی میں نازی دور میں جو کچھ کیا گیا، اور اب صہیونی دور میں جو کچھ کیا جارہا ہے، میں مکمل مطابقت ہے۔
یقینا ہیبرماس کی پوزیشن صہیونیوں کے ہاتھوں فلسطینی قتل عام کے لیے جرمن ریاست کی پالیسی کے مطابق ہے۔ یہ &’جرمن بائیں بازو‘ ; کی نسل پرستانہ دشمنی، اسلام دشمنی رویوں کے بھی بالکل مطابق ہے، جو وہ عربوں اور مسلمانوں سے کرتے ہیں۔ اور یہ ان کے اس رویے کے بھی مطابق ہے، جس کی بنا پر وہ اسرائیلی غیر قانونی آباد کاروں کی فلسطینی نسل کشی کی حمایت کرتے ہیں۔
ہمیں اس بات پر معاف رکھیے، اگر ہم یہ بات سوچ رہے تھے کہ جرمنی ہولوکاسٹ کی تاریخ پر شرمندہ ہے، نہیں بلکہ وہ نسل کشی کی بیماری میں مبتلا ہے، کیونکہ اس پوری صدی (نہ کہ صرف پچھلے ایک سو پندرہ دن) میں اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے قتل عام میں جرمنی بالواسطہ ملوث رہا ہے۔
یورو سینٹرزم (Eurocentrism) کا الزام جو یورپی فلسفیوں کے تصورِ دنیا کے خلاف مسلسل لگایا جاتا ہے، وہ محض ان کی سوچ کی ایک علمی خامی کی طرف اشارہ نہیں ہے، بلکہ یہ ان کی اخلاقی پستی کی ایک مستقل علامت ہے۔ ماضی میں متعدد موقعوں پر میں نے یورپی فلسفیانہ سوچ کی اس لاعلاج نسل پرستی کی طرف نشان دہی کی ہے اور آج بھی ان کے مشہور نمایندوں کے سامنے نشاندہی کرتا رہتا ہوں۔
یہ اخلاقی پستی محض ایک سیاسی غلطی یا نظریاتی خلا پر مشتمل نہیں ہے۔ یہ ان کے فلسفیانہ تخیلات میں گہرائی سے لکھی گئی ہے، جو ناقابل تلافی طور پر ایک وحشیانہ قبائلی سوچ ہے۔ آج کی دنیا، یورپی نسلی فلسفے کی جھوٹی نیند سے بیدار ہو چکی ہے۔ آج ہم نے یہ آزادی فلسطینیوں جیسے مصائب میں گھرے لوگوں کے ہاتھوں حاصل کی ہے۔
یہاں، ہمیں مارٹنیک کے ایک عظیم الشان شاعر ایمی سیزائر (Aime Cesaire)کے ایک بیان کو دُہرانا چاہیے؛ &’’ہاں، یہ سود مند ہوگا، اگر ہم طبی لحاظ سے، ہٹلر کے اقدامات اور ہٹلرازم کا تفصیلی مطالعہ کریں اور بیسویں صدی کے بہت ہی ممتاز، انتہائی انسان دوست، انتہائی مسیحی بورژوا کے سامنے یہ انکشاف کیا جائے کہ اپنے اندر موجود ایک ہٹلر سے وہ ناواقف ہے، وہ ہٹلر اس کے اندر بستا ہے، وہ ہٹلر اس کا شیطان ہے، اور اس کے خلاف آواز اٹھانا اس کے لیے متضاد عمل ہے، اور وہ اس پر قائم نہیں رہ سکتااور یہ کہ دل کی گہرائیوں میں وہ جس چیز کے لیے ہٹلر کو معاف نہیں کرسکتا وہ بذات خود اس کا جرم نہیں جو اس نے انسانیت کے خلاف کیا، اور نہ یہ انسانیت کی بے توقیری پر مبنی رویہ ہے، بلکہ دُکھ صرف اس بات پر ہے کہ یہ جرم ایک سفید فام آدمی کے خلاف ہوا، جس میں سفید فام آدمی کی تذلیل ہوئی اور یہ حقیقت اس میںمضمر ہے کہ اس نے نوآبادیاتی طریق کار کا اطلاق یورپ پر کیا جو اس وقت تک صرف [عرب، ہندستانی اور افریقیوں کے لیے مخصوص تھا]‘‘۔
فلسطین، آج نوآبادیاتی مظالم کی ایک توسیع ہے جس کا حوالہ سیزائر نے اپنی تحریرمیں دیا ہے۔ ہیبرماس اس بات سے لاعلم دکھائی دیتا ہے کہ اس کی فلسطینیوں کے قتل عام کی توثیق کرنا مکمل طور پر اُس نسل کشی سے مطابقت رکھتا ہے، جو اُس کے آباؤ اجداد نے نمیبیا میں ہریرو اور نِما قبیلوں کی کی۔ اس ضرب المثلی شتر مرغ کی طرح، جرمن فلسفی بھی اپنے سروں کو یورپی فریبوں کے اندر پھنسائے ہوئے ہیں، جو یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ دنیا اسے نہیں دیکھ رہی۔
میری نظر میں، ہیبرماس نے کچھ بھی کہا، وہ حیران کن یا متضاد نہیں کہا ہے۔ بالکل معاملہ اس کے برعکس ہے۔ وہ اپنے فلسفیانہ حسب نسب کی لاعلاج قبائلیت کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہے، جس نسب نے غلطی سے آفاقی رنگ اختیار کرنے کا دعویٰ کر رکھاتھا۔
دنیا نے اب اس نام نہاد ’آفاقیت‘ کے غلط داغ سے خود کو صاف کر لیا ہے۔ ہیبر ماس اور اس قبیل کے لوگوں کے مقابلے میں دیگر فلسفی جیسا کہ ڈ یموکریٹک رپبلک آف کانگو کے وی وائی موڈیمبے،ارجنٹائن کے میگنولو یا اینرک ڈوسل یا جاپان کے کوجن کراتانی کے پاس آفاقیت کے کہیں زیادہ جائز دعوے ہیں۔
میری رائے میں، فلسطین پر ہیبرماس کے بیان کا اخلاقی دیوالیہ پن، یورپی فلسفے اور باقی دنیا کے درمیان نوآبادیاتی تعلق میں ایک اہم موڑ ہے۔ دنیا یورپی نسلی فلسفے کی جھوٹی نیند سے بیدار ہوچکی ہے۔ ہم نے یہ آزادی آج فلسطینیوں جیسے مصائب میں گھرے لوگوں کے طفیل حاصل کی ہے، جن کی طویل، تاریخی بہادریوں اور قربانیوں نے آخرکار &’مغربی تہذیب‘ کی بنیادیں، جو بے شرم وحشت و درندگی پر کھڑی تھیں، منہدم کر دی ہیں۔(مڈل ایسٹ آئی)