ملت اسلامیہ کی تاریخ میں بیسویں صدی میں دو ایسے اہم واقعات کا ظہور ہوا، جنھوں نے مغربی مفکرین اور خصوصاً مستشرقین کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کیا اس جدید لادینیت کے دور میں ایک صدیوں پرانا سیاسی نظام، جس کی بنیاد انسانوں کی محدود عقل کی بنیاد پر وجود میں آنے والے قوانین پر نہیں بلکہ کئی سو سال پرانی الہامی شریعت پر ہو ، قابل عمل اور قابل نفاذ ہو سکتا ہے ؟ اس سوال کے اُبھرنے کا ایک بڑا سبب بیسویں صدی میں ابھرنے والی دو اہم اسلامی تحریکات اخوان المسلمون (۱۹۲۸ء) اور جماعت اسلامی (۱۹۴۱ء ) کی دعوت کا بنیادی نکتہ قرآن و سنت پر مبنی اسلامی معاشرہ اور ریاست کا قیام تھا، جو مغرب کی زمان و مکان کی غلام، لادینی سیاسی فکر سے براہِ راست ٹکراتا تھا۔
دوسرا اہم واقعہ ۱۹۴۷ء میں اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کی غرض سے وجود میں آنے والی ریاست پاکستان کا قیام تھا ۔ جو اسلام کے نام پر اسلامی نظام حیات اور تہذیب ِ اسلامی کے احیا اور قیام کی ایک کوشش تھی اور جس کا سہرا برطانوی لادینی سیاسی نظام سے بخوبی آگاہ ، قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے سرتھا، جنھوں نے اپنے بیانات اور تقاریر میں یہ بات واضح کر دی تھی کہ پاکستان کا قیام مسلمانوں اور اس خطے میں اسلام کی بقا کے لیے ایک لازمی شرط ہے ۔
مغربی سیاسی فکر، کلیسائی عیسائیت سے بغاوت کے نتیجے میں وجود میں آئی، جس میں قانون سازی ، معیشت اورمعاشرت کو عوام کے نمایندوں کی مرضی کا تابع کر دیا گیا اور یہ تصور راسخ کرلیا گیا کہ لادینی جمہوریت ہی دور جدید کے مسائل حل کر سکتی ہے ۔ عیسائیت (یا دیگر مذاہب) کے دور کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ البتہ ذاتی سطح پر ایک فرد اگر چاہے تو وہ عیسائیت یا اپنے کسی بھی عقیدے اور مذہب کی تعلیمات کو اختیار کر سکتا ہے۔ گویا زمان و مکان کی حدود اور دائرہ کار کو ذاتی اور عوامی یا Public place میں تقسیم کر دیا گیا اور اسی تصور کو ’جدیدیت‘ اور تہذیب کے ’نقطۂ کمال‘ سے تعبیر کیا گیا۔
اس مغربی فکری تناظر میں تحریکات اسلامی کا قیام اور ان کے نصب العین میں فرد ،خاندان، معاشرہ اور ریاست کو صرف ایک اصول یعنی توحید کا تابع قرار دینا،مغربی ذہن کے لیے ناقابلِ فہم معاملہ تھا ۔ آج اسلام کے سیاسی نظام کے قیام کی ہر کوشش کو Political Islam یا ’سیاسی اسلام‘ جیسی توہین آمیز اصطلاح سے تعبیر کیا جاتا ہے ،جب کہ اسلامی سیاسی ، معاشرتی اور معاشی نظام کا قیام مستشرقین اور مغربی دانش وروں کی نگاہ میں ایک ناقابلِ عمل تصور ہے۔
’سیاسی اسلام‘ کی تعریف مغربی دانشوروں کی نگاہ میں اسلام کی وہ تعبیر ہے جس میں اسلام محض عبادات و رسومات تک محدود نہ ہو بلکہ وہ ذاتی حدود سے نکل کر عوامی حدود میں دخیل ہو اور معاشی ، سیاسی اور معاشرتی معاملات میں ’شریعت‘کے اطلاق کی کوشش کرے۔ مغربی لادینی جمہوریت، ذاتی اور عوامی دائروں کو ایک دوسرے سے الگ رکھنے پر ایمان رکھتی ہے اور یقینی حد تک یہ سمجھتی ہے کہ معاشی ترقی( Economic Development) اور معاشی فلاح (Economic Well being) صرف اس وقت ہو سکتی ہے جب معاشی، سیاسی، قانونی اور انتظامی اُمور میں مذہب کا کوئی دخل نہ ہو۔
یہ وہ بنیادی عنصری فرق ہے، جس کی بنا پر دنیا میں کوئی بھی اسلامی تحریک ، وہ اخوان المسلمون ہو، جماعت اسلامی ہو، نورسی تحریک ہو وغیرہ۔ اگر اس کے نصب العین میں فرد کی تعمیرِ سیرت کے ساتھ معاشرے، معیشت ،قانون اور سیاسی نظام کی اصلاح شامل ہے تو وہ ’رجعت پسند‘، ’بنیاد پرست‘ ، ’انتہا پسند‘ ، حتیٰ کہ ’تشدد پسند‘ کہلانے کی مستحق بن جاتی ہے۔اور اس پر Political Islam یعنی ’سیاسی اسلام‘ کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے ۔اس فکر کے برخلاف اسلام اصولی طور پر لادینیت کی کوکھ سے پیدا ہونے والے ہر نظام کو چیلنج کرتے ہوئے معیشت، معاشرت، ثقافت، سیاست اور قانون، غرض یہ کہ ہر شعبۂ حیات کو ایک آفاقی عالم گیر اخلاقی ضابطے کا پابند بنانا چاہتا ہے۔ تحریک اسلامی کا یہ مزاج بیسویں صدی کی پیداوار نہیں ہے (یہ مستشرقین اور مغربی دانش وروں کی غلط فہمی ہے کہ تحریکاتِ اسلامی سامراجی نظام کے ردِ عمل کے طور پر وجود میں آئی ہیں یا یہ کہ یہ ایک ایشیائی معاملہ ہے)۔
اسلام کی تعلیمات اور تصور حضرت ابراہیم ؑسے لے کر خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تک توحید پر مبنی ہے۔ یہ تصور جو صرف ذاتی زندگی (personal space) میں نہیں بلکہ معاشی، قانونی، سیاسی، بین الاقوامی اور ثقافتی میدانوں میں الہامی تصور حلال و حرام ،قرآنی تصور تقویٰ،احسان، عدل، عفوو درگزر ،بین الانسانی تعاون البر اور منکر، فحش اور رذائلِ اخلاق کے خلاف منظم جدوجہد کا نام ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان تعلیمات کی تازگی میں نہ کوئی تبدیلی ہوئی اور نہ اس کی ضرورت تھی، کیونکہ اگر دین ابراہیمیؑ میں تقویٰ کا مطلب اللہ تعالی کی خشیت تھا تو شریعت محمدیؐ میں بھی یہ تصور جوں کا توں پایا جاتا ہے۔اگر صداقت کا مطلب دین ابراہیمیؑ میں طاغوت کے سامنے توحید کو بلاکسی معذرت و نظرثانی کےپیش کرنا تھا، تو آج بھی صداقت و امانت کا مفہوم وہی ہے۔ اخلاق ایک اضافی عمل نہیں ہے بلکہ اسلام اخلاق کو مطلق طور پر ایک عالم گیر فریضہ کے طور پر متعین کر دیتا ہے،جو اپنے اندر ہرپیش آنے والی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے اور مشکلات و مسائل کو زیر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
قرآن نے اس جامع اور آفاقی اخلاق کو عملاً کر کے دکھانے والے کے لیے یہ کہا تھا: وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ۴ (القلم ۶۸:۴) ’’اور بے شک آپؐ اخلاق کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہیں‘‘۔ کیونکہ آپؐ نے ذاتی اخلاقی طرزِ عمل سے لے کر عسکری، سیاسی، معاشی، ثقافتی، قانونی ہرشعبہ میں مثالی اخلاقی طرز ِعمل کو عملاً نافذ کر کے وہ قابلِ عمل سنت قائم فرمائی جو ترقی اور خوش حالی لانے کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔
مغرب کے ’سیاسی اسلام‘ کے تصور کا ایک پہلو خواتین کے حقوق سے تعلق رکھتا ہے۔ مغربی مفکرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ’’جب تک خواتین کو مردوں کے شانہ بہ شانہ معاشی دوڑ میں شامل نہیں کیا جائے گا اور ان کا دائرہ کار صرف گھر کی چار دیواری تک محدود رہے گا ،ایک جدید معاشرہ اور ترقی یافتہ ماحول پیدا نہیں ہو سکتا‘‘۔اکبر الٰہ آبادی اور علامہ محمد اقبال نے سو سال پہلے قوم کو خبردار کر دیا تھا کہ خواتین کو ان کے اصل دائرہ سے نکال کر معاشی دوڑ میں شامل کرنے کے نتیجے میں کیا منظر نامہ وجود میں آئے گا؟
یہاں یہ بات واضح طور پر کہنے کی ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ اور مغربی دانش وروں کے ہاں تعمیروترقی کا جو تصور بطور ایک قاعدے اور کلیے کے پیش کیا جاتا ہے، وہ عملاًصرف معاشی سرگرمی سے تعلق رکھتا ہے ۔ مثلاً اگر کسی ملک میں ۵۰ فی صد یا اس سے زیادہ تعداد میں خواتین معاشی دوڑ میں شامل ہوں تو اسے ترقی یافتہ ملک قرار دے دیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ تصور بھی ذہنوں میں بٹھا لیا گیا ہے کہ ’سیاسی اسلام‘ خواتین کو تعلیم ، معاشی سرگرمی اور سیاسی معاملات میں حصہ لینے کا اختیار نہیں دیتا ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن و سنت نے ہر مسلمان خاتون پر حصولِ علم کو فرض قرار دیا ہے۔ پھر زندگی کو بہتر بنانے کے لیے جملہ معلومات کے حصول اور اپنی معاشرتی وثقافتی ذمہ داریوں کے ساتھ معیشت ،قانون سازی اور دیگر معاملات میں علم، تجربہ اور تخصص کی بنا پر حصہ لینے کو خواتین کے بنیادی حقوق میں شامل کیا ہے۔لیکن چونکہ یہ تمام حقوق ایک ’دین‘ دیتا ہے ، اس لیے دین کی پیروی کو ’قدامت پرستی‘ قرار دیا جاتا ہے ۔
جس چیز کو مغرب سمجھنے سے قاصر ہے وہ یہ ہے کہ مغرب میں جو اخلاقی، معاشرتی اور ثقافتی اضمحلال اور زوال واقع ہوا ہے ،اس کا ایک بڑا بنیادی سبب معاشی خوش حالی کے نام پر خاندان کی یکجہتی اور مرکزیت کا ختم کیا جانا ہے۔خواتین کو مردوں کے شانہ بہ شانہ معاشی دوڑ میں شامل کرنے کا قدرتی نتیجہ خاندان کا منتشر ہونا تھا۔اسلام وہ واحد دین ہے جس نے زکوٰۃ کی فرضیت مرد اور عورت دونوں پر واجب کی ، دونوں کے دولت کے پیدا کرنے ،خرچ کرنے، صرف کرنے کے ساتھ معاشی فوائد کے حصول کو دینی سرگرمی میں شامل کیا اور ساتھ ہی خاندان کو بھی تحفظ فراہم کیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ تنگ نظری اور خود غرضی کی بنا پر خواتین کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی ذاتی یا روایتی و قبائلی خواہش کو شریعت سے منسوب کر دیا جائے ، یا عملاً اس سلسلہ میں کوتاہی کی جائے۔
گویا’سیاسی اسلام‘ پر یقین رکھنے والے مغربی یا مشرقی مفکرین کا یہ تصور کہ اسلام کے نفاذ سے خواتین حقوقِ انسانی سے محروم کر دی جائیں گی ،مکمل طور پر بے بنیاد تصور ہے اور قرآن و سنت کی واضح ہدایات سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتا۔ آج ابلاغ عامہ ہو یا علمی تحقیق کا میدان، ہر جگہ یہی بات دہرائی جا رہی ہے کہ ’طالبانائزیشن‘ ہی ’سیاسی اسلام‘ کی عملی شکل ہے اور اس میں خواتین کی تعلیم اور حقوق ِانسانی پر عمل کی کوئی گنجایش نہیں پائی جاتی۔
جس طرح یورپ کو سوویت یونین کے خوف اور جنگ عظیم کے اثرات نے بہت سے کام کرنے پر آمادہ کیا، جن میں NATO (ناٹو) کا قیام بھی شامل ہے۔ اسی طرح ’سیاسی اسلام‘ کو ایک خوفناک جِنّ یا عفریت قرار دے کر یورپی اقوام کو اسلام سے ذہنی طور پر متنفر کرتے ہوئے انھیں ’سیاسی اسلام‘ کے خلاف جا رحانہ اقدامات کے لیے آمادہ کیا جا رہا ہے ۔ یوں اسلام اور یورپی عوام کے درمیان ذہنی اور ثقافتی بُعد میں روز بروز اضافہ واقع ہو رہا ہے۔ اگرچہ دوسری جانب اسلام دشمن قوتوں کے بعض جارحانہ اقدامات نے خود اسلام کے بارے میں تجسس پیدا کیا ہے اور حقیقتِ حال معلوم کرنے کی خواہش کے ساتھ جن افراد نے قرآن کی طرف رجوع کیا ہے ، ان میں سے بڑی تعداد نہ صرف اسلام سے قریب آئی ہے بلکہ بعض نے اسلام پر ایمان لانے کا اظہار بھی کیا ہے۔
’سیاسی اسلام‘ کے حوالے سے یہ بات بھی بار بار دہرائی جا رہی ہے کہ اس کی قیادت روایتی علما نہیں کر رہے بلکہ سیکولر یونی ورسٹیوں سے فارغ ہونے والے ایسے نوجوان ہیں جو ماضی قریب یعنی ساٹھ کی دہائی میں اشتراکی فکر سے متاثر تھے اور کارل مارکس کو حُریت کا پیغمبر سمجھتے تھے۔ وہ اپنے موقف سے رجوع کر کے ’سرخ نظام‘ کی جگہ اب ’سبز نظام‘ یعنی نظامِ مصطفیٰ ؐکے علَم بردار بن گئے ہیں۔ لیکن ان میں چونکہ اشتراکیت زدہ افراد کی طرح انتہا پسندی اور تشدد کی طرف رجحان بھی پایا جاتا ہے،اس لیے یہ مغرب کے لیے خطرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی خطرناکی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ روایتی علما کی طرح محض عقیدے پر زور نہیں دیتے ۔یہ اسلام، سائنس اور ٹکنالوجی کو یکجا کر کے ایک نئے ’عادلانہ نظام‘ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ یہ جدید معاشرے کی ایجاد کردہ سہولیات کا استعمال بھی کرتے ہیں اور اس کی بیخ کنی بھی کرنا چاہتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو: اولیورائے کی کتاب The Failure of Political Islam ،ص۳)۔ ’سیاسی اسلام‘ کو ناکام قرار دینے کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ سیاسی اسلام جغرافیائی حدود میں محدود تصور نہیں ہے بلکہ یہ عالمی تبدیلی کا داعی ہے اور مغرب کی لادینی تہذیب کے مقابلے میں وسائل اور اختیارات سے محروم ہے، اس بنا پر عملاً کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یاد رہے یورپی ذہن میں ریاست کا تصور جغرافیائی حدود پر مبنی ہے اور اسلام کی عالم گیریت، ریاست کی بنیاد جغرافیائی سرحد کو قرار نہیں دیتی۔
اولیورر ائے ’سیاسی اسلام‘ کے جغرافیائی حدود سے ماورا اور پوری امت مسلمہ کی ایک باوقار قیادت کی یک جہتی کے تصور کو جدید تہذیب کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے، ’سیاسی اسلام‘ کو آمریت اور جبر سے تعبیر کرتا ہے ۔ اس کو اسلام میں مذہب اور سیاست کی عدم تفریق، یورپ کے ’تاریک دور‘میں چرچ کے مظالم کی یاد دلاتی ہے اور نفاذ شریعت کو کلیسا کی پاپائیت سمجھتے ہوئے وہ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہےکہ مغربی سیکولر جمہوریت ہی انسانیت اور مسلمانوں کی فلاح اور ترقی کی ضمانت دے سکتی ہے۔ (ایضاً،ص ۱۳)
عالمی سطح پر دانش ورانہ حلقوں، بین الاقوامی کانفرنسوں، یورپی اور امریکی یونی ورسٹیوں کے شعبہ ہائے تقابلی سیاست ، عمرانیات ، مذہب، معیشت اور خصوصاً اسلام کےعصری انقلابی پہلو پر کام کرنے والے لوگوں کا ایک مخصوص نقطۂ نظر بنتا ہے۔ ان کے زیرانتظام چلنے والے تھنک ٹینکس کی تحقیقات کا مطالعہ کرے گا، پھر ان کے مذاکروں اور مکالموں میں جو فرد بھی شرکت کرے گا وہ ایک نہیں پندرہ بیس محققین کی زبان سے اعداد و شمار پر مبنی ’سیاسی اسلام‘ پر مقالات اور تقاریر سننے کے بعد اگر مکمل نہیں تو کم از کم نصف قائل ہو کر نکلے گا کہ واقعی سیاست میں اگر ’مذہب‘کا عمل دخل ہوا تو’سیاسی اسلام‘ ملک و ملت اور دنیا کو تباہ کر کے رکھ دے گا۔
مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک تاریخی طور پر ایک ایسی نفسیاتی اور معاشرتی فضا میں وجود میں آئے، جو فرانس اور برطانیہ کے مشرقِ وسطیٰ کا ایک نیا نقشہ بنا کر سلطنتِ عثمانیہ کی بندر بانٹ کر نے کا نتیجہ تھا ۔ اس لیے وہ اپنی قومی عصبیتوں میں ایسے گرفتار ہوئے کہ اپنی اصل تاریخ اور فکر سے لاتعلق ہو گئے اورروز ِاوّل سے استعماری فکر و تعلیم میں تربیت پانے کے سبب دین و سیاست کے عدم اتحاد کے تصور کو ہی حق و صداقت پر مبنی سمجھ بیٹھے۔
نہ صرف یہ بلکہ عیسائی اور یہودی ماہرین سماجی علوم نے ان کے دل و دماغ میں یہ بات کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے کہ کویتی ایرانی سے ، قطری مصری سے، سعودی یمنی سے ، عراقی شامی سے قومیت کی بنا پر برتر ہے۔ قومیت کے اس دو آتشہ زہر نے ہر اس فرد کو جو چاہے عربی دانی کا دعویٰ کرتا ہو، قرآن کریم کے اصولِ اخوت اور امت مسلمہ کے جسدِ واحد ہونے کی جگہ نسلی ،لسانی اور قبائلی تفریق کی بنا پر قومیت پرستی پراس حد تک یقین دلا دیا ہے اور ایسے اقوال ایجاد کر لیے گئے جو قرآن و سنت سے براہِ راست ٹکراتے ہیں، مثلاً حُبُّ الوطن من الإیمان (یعنی وطن سے محبت ایمان کا جز ہے)۔ایسے اقوال کو بنیاد بنا کر لادینی قومیت کے لیے راہیں نکالی گئیں اور اسلام کی عالم گیر فکرپر نقب لگائی گئی، جو اسلام دشمن قوتوں کا ہدف تھا۔
اس تناظر میں اگر پاکستان پر ایک نظر ڈالی جائے تو منظر نامہ فوری توجہ طلب نظر آتا ہے ۔ ۷۵سال سے معاشی پالیسی ہویا تعلیمی اور ثقافتی، تینوں محاذوں پر مقدور بھر کوشش کی گئی کہ برسرِاقتدارآنے والی پارٹی یا مقتدر قوت اپنے ذاتی مفاد کی پرستش کرے اور ملکی مفاد کو پس پشت ڈال دے۔ چنانچہ وسائل کی تقسیم اور اس سے زیادہ اہم وسائل کا درست استعمال کبھی حکمرانوں کی ترجیح نہیں رہا ۔وہ حضرات جو مثلا ًبلوچستان کے مجبور و مظلوم عوام کو غلام رکھنے کے لیے مشہور تھے، انھی سرداروں کو صوبے میں ترقیاتی منصوبوں پر عمل کرانے کے لیے منتخب کیا گیا جو نسلا ًبعد نسل انگریز کے وظیفوں پر پلتے رہے تھے۔ جنھیں انگریز نے اپنی وفاداری پر خطابات اور وسیع زمینی قطعات سے نوازا تھا۔ کیا کوئی صاحب ِعقل ایسے حکمرانوں سے یہ امید کر سکتا ہے کہ جو اپنے عوام کو ’کم تر انسان‘ اور اپنا ’غلام‘ سمجھتے ہوں ، وہ ان کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کرنے کی صلاحیت رکھ سکتے ہیں؟ لیکن سب کچھ جاننے کے باوجود ہماری مقتدر قوتوں نے آنکھیں بند کر کے انھی کو اپنے سیاسی اتحادوں میں شامل کر کے ظلم و استحصال اور محرومی کے شجر کو پھلنے پھولنے دیا ۔
بانی ٔپاکستان قائداعظم نے ایک مرتبہ نہیں بارہا یہ بات دُہرائی تھی کہ اب یہاں نہ کوئی بنگالی ہوگا، نہ پنجابی، نہ بلوچی بلکہ سب پاکستانی ہوں گے اور انھیں ان کے حقوق دیے جائیں گے۔ ۱۱؍اگست کی وہ تقریر جس کا وظیفہ پاکستان کے یورپ زدہ دانش ور دُہراتے ہیں ، اسی تقریر میں قائداعظم نے عصبیت، چور بازاری، کرپشن اور چودھراہٹوں کے بخیے ادھیڑے تھے اور قوم کو اس کے اصل اندرونی دشمنوں سے آگاہ کیا تھا، لیکن قوم اگر انھی راہ زنوں کو راہنما بنا کر خوش ہو تو اس میں کوئی کیا کر سکتا ہے؟ خالق ارض و سما تو اسی صورتِ حال کی مناسبت سے فرما چکا ہے:’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔ (الرعد۱۳:۱۱)
پاکستان کے تناظر میں ’سیاسی اسلام‘کے تصور کو دیکھا جائے تو تقلید پسند روایتی علما اور مفکرین بغیر یہ تصور کیے کہ شریعت کے وہ اصول جنھیں وہ طلبہ کو حفظ کراتے ہیں ،کیا کہتے ہیں اور انھیں ہم کس طرح آج استعمال کر سکتے ہیں؟ ان دو کلمات پر مبنی اپنے طول طویل خطبوں سے لوگوں کے دل گرماتے ہیں: ’’ہر مسئلے کا حل ’خلافت‘اور شریعت کا نفاذ ہے‘‘۔ بلاشبہہ اپنی جگہ یہ بات بالکل درست ہے، لیکن کیا انھوں نے کبھی اس بات پر غور کرنے کی زحمت فرمائی کہ ’خلافت اور شریعت‘ ایک ایسے ماحول میں جہاں عوام کو ان تصورات کی کوئی آگہی نہ ہو، محض ان کے فرمانے کی بنا پر، وہ جو دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہیں ، ان کی بات پر یقین کرلیں گے؟سیاسی تبدیلی کو اُوپر سے نیچے تک، اور نیچے سے اُوپر تک کیسے نافذ کیا جائے گا؟ کیا محض تقریروں اور نعروں سے یہ عظیم کام انجام پاسکے گا؟کیا ماحول تیار کیے بغیر ایک انتہائی اعلیٰ نظام محض ایک سرکاری اعلامیہ سے نافذ کیا جا سکتا ہے؟
ان بنیادی سوالات کے معقول جوابات کے بغیر روایتی علما کی بات اثر نہیں کر سکتی۔ دوسری جانب وہ حضرات جو جوشِ ایمانی میں یہ سمجھتے ہیں کہ عوامی انقلاب ہی ہر مسئلے کا حل ہے،یا کسی مسلح سرگرمی سے اچانک قبضہ کر کے تمام برائیوں کی اصلاح ہو سکتی ہے، کیا وہ کبھی غور کرنے کی زحمت کرتے ہیں کہ خود مکہ مکرمہ میں انقلابی حکمت عملی کے بے انتہا روشن امکانات ہونے کے باوجود، ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکمت عملی پر کبھی توجہ فرمائی؟ اگر حضرت عمرؓ، حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ، ہر ایک قرآن کریم کی رو سے اپنے سے دس گنا افراد کے لیے کافی تھے، تو کیا ایک شب ایسی نہیں ہوسکتی تھی، جس میں تمام سردارانِ مشرکین کو تہہ تیغ کر کے اسلامی ریاست کے نفاذ کا اعلان مکہ ہی میں کر دیا جاتا اور وہ ساری آزمائشیں جو بدر و اُحد اور حنین و خندق کی تھیں، ان کی ضرورت ہی پیش نہ آتی؟
دین اسلام عقل و ہوش ،تاریخ، مقامی صورتِ حال، مستقبل کے نتائج کے ہر ہر پہلوپر غور کرنے کے بعد کوئی اقدام تجویز کرتا ہے۔ اسلام نہ جذباتیت کا غلام ہے اور نہ محض عقل کا پابند، یہ حکمتِ دین کی بنیاد پر فیصلے کرنے کا حکم دیتا ہے۔ بہرحال، اس جملۂ معترضہ سے قطعِ نظر پاکستان کے تناظر میں تقلید پسند علمااور مفکرین نے جو اپنے رسائل کے سرورق پر’ خلافت‘اور’شریعت‘کی اصطلاحات کو استعمال کرتے ہیں، وہ نقشۂ عمل پیش نہیں کیا، جسے قوم سمجھ سکتی اور جو قابلِ عمل (viable)بھی ہوتا۔
’ سیاسی اسلام‘ کو سب سے زیادہ ان پاکستانی دانشوروں نے اپنے لیے باعثِ رحمت سمجھا جو ذہنی طور پر پہلے ہی صبغتہ اللہ کی جگہ، اپنے آپ کو یورپ کے رنگ میں رنگ چکے تھے، اور پاکستان کی اکثر یونی ورسٹیوں میں اپنی اسی خام دانش کو بکھیرنے کا مقدس فریضہ انجام دے رہے تھے۔ انھوں نے نہ صرف اس تصور کو خود تسلیم کیا بلکہ قائداعظمؒ سے بھی منسوب کر دیا۔ پھر اس علمی بددیانتی کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ آج اکثر یونی ورسٹیوں سے فارغ ہونے والے اساتذہ اورطلبہ یہی سمجھتے ہیں کہ قائداعظم ایک سیکولر انسان تھے اور سیکولر نظام کے حامی تھے ۔
وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ قائداعظمؒ ایک سچا، نڈر، بااصول اور کسی کے سامنے نہ جھکنے والا انسان تھا۔ جس نے کبھی ساری عمر ایک جھوٹا کیس بطور وکیل پسند نہیں کیا، اور جس نے کبھی دوغلی بات نہیں کی۔ اس نے سو سے زیادہ مقامات پر جو بات کہی، اس تمام تفصیل کو ان کے صرف دو خطبے بیان کر دیتے ہیں۔ اگر صرف یہ دو بیانات ہی قوم نے کھلے ذہن کے ساتھ پڑھ اور سمجھ لیے ہوتے تو آج ملک کا نقشہ کچھ اور ہوتا ۔یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ قائد کے یہ اور دوسرے بیانات کسی ’مظاہرے‘ یا ’علما کے دھرنے‘کے ردعمل میں نہیں دیے گئے، بلکہ ایک سوچنے سمجھنے والے اور ایک ایک لفظ ناپ تول کر بولنے والے شخص کے الفاظ ہیں:
In Pakistan we shall have a state which will be run according to the principles of Islam.It will have its cultural, political and economic structure based on the principles of Islam. The non-Muslims need not fear because of this, for fullest justice will be done to them.... they will have their full cultural, religious, political and economic rights safeguarde. As a matter of fact they will be more safeguarded than in the present day so-called democratic parliamentary form of Government.(Address at the Hostel Parliament of Ismail Yusuf College, Jogeshwari (Bombay), 1st February 1943. M.A Harris (ed) 1976, p.173.
پاکستان ایک ایسی ریاست ہوگی جسے اسلام کے اصولوں کے مطابق چلایا جائے گا۔ اس کا ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی ڈھانچا اسلام کے اصولوں پر مبنی ہوگا… غیرمسلموں کو کسی قسم کے اندیشے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، ان سے پوری طرح عدل کا معاملہ کیا جائے گا۔ وہ مکمل طور پر اپنے ثقافتی، مذہبی، سیاسی اور معاشی حقوق میں محفوظ و مامون ہوں گے۔ درحقیقت انھیں آج کل کی نام نہاد پارلیمانی جمہوری حکومت سے زیادہ تحفظ ملے گا۔
یہ تین باتیں کہنے والا نہ توکبھی کسی کی دھمکی کے زیراثر تھا اور نہ دھمکی دی تھی، نہ وہ کسی جذباتی دباؤ میں یہ بات کر رہا تھا، کیونکہ وہ یہ بات ۱۹۴۵ء میں کہہ رہا ہے ۔ پھر وہ ایک نڈر شخص ہے جو یہی بات شملہ میں کہہ چکا ہے ، یہی بات علی گڑھ میں کہی کہ یہ نام نہاد مغربی پارلیمانی نظام ہمارے لیے ناکارہ ہے۔
اولیور رائے دیگر مفکرین کے پیمانے سے دیکھا جائے تو وہ شخص جس کی فکر اتنی واضح اور غیرمبہم طور پر اسلامی ہو،اسے کیا کوئی ذی ہوش شخص سیکولر قرار دے سکتا ہے؟
دوسرا اہم بیان جسے قوم سے جان بوجھ کر مخفی رکھا گیا وہ ۲۳ مارچ کو لاہور کے مشہورِ زمانہ کنونشن، جس میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی،اس کے اگلے دن کا واقعہ ہے ۔ ۲۴ مارچ ۱۹۴۰ء کو خواجہ عبدالرحیم جو چودھری رحمت علی کے ساتھی اور پاکستان کا نام تجویز کرنے والے نوجوانوں میں شامل تھے، انھوں نے اپنے گھر پر قائداعظم اور دیگر مسلم لیگی زعما کو چائے پر مدعو کیا۔ اس نشست میں جو گفتگو ہوئی وہ غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ قائدا عظم نے ان سے کہا کہ ’’جو نام تم لوگوں نے ۱۹۳۰ء میں تجویز کیا تھا، اس پر ہندو پریس میں بڑی گفتگو ہو رہی ہے۔ خواجہ عبدالرحیم نے کہا: ’’پھر آپ کے خیال میں ملک کا نام کیا ہونا چاہیے ؟علامہ اقبال بھی اس نام کو پسند کر چکے ہیں‘‘۔ قائداعظم نے جواب دیا:
if you people and the Muslim nation likes this name I have no objection, except in the name you have on the pamphlet Pakstan add ‘I` which stands for Islam and is the link between these provinces.
اگر آپ لوگ اور مسلم قوم اس نام کو پسند کرتی ہے تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں سوائے اس کے کہ آپ نے پمفلٹ پر جو نام ’پاک- ستان‘ لکھا ہے اس میں ’آئی‘ کا اضافہ کرلیں جو اسلام کی نمایندگی کرتا ہے اور ان صوبوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔
خواجہ عبدالرحیم نے قائد کا یہ پیغام چودھری رحمت علی کو جو ان دنوں کراچی میں تھے پہنچا دیا۔ (سلطان ظہیر اختر، شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات، راولپنڈی، تنظیم کارکنان پاکستان، ۱۹۹۸ء، ص ۲۳-۲۴)
پاکستان کے نام کی تاریخ کا یہ باب ۷۵سال سے قوم سے مخفی ہے۔ دوبارہ سوال یہی ہے کہ جو شخص ملک کے نام کو اسلام کے بغیر نامکمل سمجھتا ہو، وہ کس قسم کے پاکستان کا خواہش مند تھا؟ پھر ایک ماہر قانون دان منطقی طور پر یہ سمجھتا ہے کہ نئے ملک کے مجوزہ نام میں P جو پنجاب سے لیا گیا ،A جو افغانستان سے لیا گیا،Kجو کشمیر سے لیا گیا اور stan سندھ، بلوچستان کے لیے استعمال کیا گیا، لیکن ان سب صوبوں کو کیا چیز جوڑے گی ؟ ان کی عصبیتوں کو کون سنبھالے گا ؟ ان میں اتحاد کون پیدا کرے گا ؟ چنانچہ عقلی اور منطقی طور پر وہ یہ مشورہ دیتا ہے کہ چاہے علامہ اقبال نے یہ نام پسند کر لیا ہو، تب بھی اس میں اسلام کے لیے ’I‘ کا اضافہ کیا جائے۔
چودھری رحمت علی کے تحریر کردہ پمفلٹ Now or Never میں جو نام تجویز ہوا، وہ PAKSTANتھا۔( ملاحظہ ہو اصل خط کی نقل جس میں’ I‘کے بغیر ملک کا نام تجویز کیا گیا تھا)
Pakistan میں ’I‘ کا اضافہ قائداعظم کی خواہش پر ہوا اور ’I‘ سے مراد اسلام ہے۔
’سیاسی اسلام‘ پر ڈاکٹریٹ کے مقالے لکھنے والے مغرب زدہ پاکستانی دانش وروں کے سوچنے کے لیے صرف یہ دو اقتباسات کافی ہیں کہ وہ قائد کو کس کھاتے میں رکھنا پسند کریں گے۔ ’بنیاد پرست‘، ’مقلد‘، ’بند ذہن‘، ’روایت پرست‘، ’ سیکولر‘ یا ایک سچا، نڈر، بے باک ، دوٹوک بات کہنے والا؟ یا لنکن اِن سے بار ایٹ لا کرنے والا، برطانیہ کے نظام ،وہاں کی معیشت، معاشرت، ثقافت سے براہ راست آگاہ شخص، لیکن اس کے باوجود اسلام کو بغیر کسی معذرت اور تردد کے کھل کر ملک کا نظام قرار دینے والا روشن دماغ، ترقی پسند رہنما!
اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے تحریک اسلامی کو کیا راستہ اختیار کرنا چاہیے؟ کیا وہ کسی نہ کسی طرح اقتدار میں آجانے کے راستے کو اختیار کرے، جس میں کچھ compromise (سمجھوتے) کرنے پڑیں یا وہ ’انقلابی‘بن کر سٹریٹ پاور کے ذریعے اقتدار میں آجائے ۔ یا پھر بجاطور پر وہ اپنے دستور میں واضح درج شدہ پالیسی کی پیروی کرتے ہوئے، بغیر کسی سازشی حربے کے، کھلے ماحول میں دستوری جدوجہد کے ذریعے ان منطقی مراحل کو اختیار کرے، جن کی دستور جماعت اسلامی خود وضاحت کرتا ہے۔ یعنی پہلے اس ذہن کو ہموار کرنا، جس میں شجر طیبہ کا بیج ڈالنا ہے، فکری اور عملی تطہیر، تربیت اور خاندان اور معاشرہ کی اصلاح کے نتیجے میں زمامِ کار کا صالح افراد کے ہاتھ میں آنا۔
اس پہلے مرحلے کو جب تک بنیادی اہمیت نہیں دی جائے گی جو دیوار بھی تعمیر ہوگی وہ آسمان تک جا کر بھی ٹیڑھی ہی رہے گی۔اولین ترجیح عظیم الشان جلوس اور جلسوں کی جگہ دلوں کی کائنات میں تبدیلی ہے، ذہنوں کا اتحاد ہے اور اَرواح کی یکجائی ہے۔ فکر کی اصلاح اور راستی ہے۔یہ کام محض خطبوں سے نہیں بلکہ باہمی ربط، قربانی، اخوت، باہمی امداد اور خصوصاً للہیت ہی سے ہوسکتا ہے۔ اطمینان قلب، ذکر الٰہی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ ایسے قرآنی اجتماعات کی ضرورت ہے جن میں آخرت اور سنت پر عمل کو اُجاگر کیا جائے تاکہ عوام میں دین سے محبت اور دین کے لیے اپنے ذاتی مفاد کو قربان کرنے کی تڑپ اور طلب پیدا ہو۔ یہ کام محض جلسے، جلوس نہیں کر سکتے۔ یہ ایک سنجیدہ، گہرا، سوچا سمجھا، محنت طلب اور طویل المعیادکام ہے۔
دوسری اہم چیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی مرکزیت اور اس کی روح اور الفاظ کا تحفظ اور اس چیزسے عوام کو آگاہ کرنا ہے ۔کیونکہ ۹۹ فی صد پڑھے لکھے افراد بھی دستور پاکستان کی اسلامی دفعات سے مکمل طور پر لا علم ہیں ۔یہ دستورکا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں نظام تعلیم ، معاشی نظام، سیاسی نظام، معاشرت، ثقافت، غرض ہر شعبۂ حیات کو اسلام کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے۔
نفاذ شریعت کسی سیاسی جماعت یا کسی گروہ کا مطالبہ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بغیر دستور پاکستان نامکمل ہے۔اس دستوری فریضے کو سیکولر طبقے نے ایک متنازعہ مسئلہ جان بوجھ کر بنایا ہے اور اس میں دانش وروں کو الجھا کر رکھ دیا ہے، تاکہ دستور پاکستان پر عمل نہ ہو سکے ۔ اس لیے تحریک اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ وہ پہلے اپنے کارکنوں کو دستور پاکستان کا شق وارشعور دے اور پھر اس دستور کے عملی نفاذ اور تحفظ کو اپنی ترجیح قرار دے ۔اس مطالبہ کی مخالفت سیکولرزم پر ایمان بالغیب لانے والا بھی نہیں کر سکے گا۔
تیسری اہم چیز اس قومی مرحلے میں اس کی قطعیت (polarity) ہے، جس میں تقسیم در تقسیم کو دُور کرنا کہ جس کا اس وقت ملک شکار ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ تمام ملکی ادارے قومی مفاد کو پسِ پشت ڈال کر قومی مفاد نہیں بلکہ ذاتی خواہش کی وفادارانہ اطاعت میں ایک فریق کو ’پاک باطن‘ اور دوسرے کو ’مکمل شیطانیت‘ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔یہ امر نہ صرف انسانی عقل و عدل اور اسلامی شریعت کے منافی ہے، بلکہ جو بھی شریعت اسلام پر ایمان رکھتا ہو، اس کا فرض ہے کہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرے، چاہے اس سے اس کو سیاسی فائدہ ہو یا نقصان۔ یہ کتمانِ حق کسی بھی شکل میں مفید نہیں۔ ملکی یک جہتی اس وقت ہوگی جب اختلاف کو برداشت کرتے ہوئے ہر فریق کو اپنی بات کہنے کی آزادی ہو اور عوام بغیر کسی رکاوٹ کے حقائق پر مبنی تجزیہ کے بعد اپنی رائے استعمال کر سکیں۔
قطعیت کی نفی اور تقسیم محض سیاسی محاذ پر نہیں ہے ۔ یہ گھروں کے اندر تک پہنچ چکی ہے اور اسے دوبارہ ملکی اور قومی اتحاد میں تبدیل کرنا ایک اہم قومی فریضہ ہے ۔دو صوبے خاص طور پر اس کی شدت اور کرب کو دن رات محسوس کر رہے ہیں۔ موسم کی شدت میں گھر میں بیٹھنے والی خواتین تک سڑکوں پر آ کر اپنے رنج و الم کا اظہار کر رہی ہیں ۔اس صورتِ حال کو فوری طور پر محبت، رواداری، تحفظ، اخوت کے ماحول سے بدلنے کی ضرورت ہےاورموجودہ حالات میں تحریک اسلامی ہی وہ غیر جانب دار ملک گیر اور مؤثر تحریک ہے، جو اس قومی فریضہ میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے ۔
_______________
گذشتہ ۳۰ برسوں کے دوران ماہ نامہ ترجمان القرآن کی ادارت اور مشاورت سے وابستہ ممتاز محقق، استاد، دانش ور اور ماہر اقبالیات ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ۲۵جنوری ۲۰۲۴ء کو ۸۳ برس کی عمر میں انتقال کرگئے ہیں۔ احباب سے اپیل ہے کہ ان کی مغفرت اور خدمات کی قبولیت کے لیے دُعا فرمائیں۔ ادارہ