۵ جنوری پاکستان کے لیے خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ تعجب ہے کہ ملک میں حکومت اور عوامی سطح پر اس مسئلے کو اُٹھانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی، جو سخت تشویش ناک ہے۔ پاکستان کی حکومت کو ملک اورعالمی سطح پر کشمیر کے مسئلے کو مؤثرانداز میں اُٹھانے کا فوری اہتمام کرنا چاہیے۔ (ادارہ)
۵جنوری کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، جس کا تعلق حقِ خود ارادیت، امن، انصاف اور کشمیریوں کے انسانی وقار سے ہے، جس سے وہ گذشتہ سات عشروں سے محروم چلے آرہےہیں۔ ہرسال ۵جنوری کو عالمی برادری، خصوصاً اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانب دارانہ استصواب رائے کے ذریعے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو یقینی بنانے کے وعدے اورذمہ داریوں کو پورا کرے۔ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (UNSC) کی قراردادوں میں اسے اس کا پابند کیا گیا ہے۔ حقِ خود ارادیت ایک بنیادی انسانی حق ہے، اور اس کا مطالبہ کرنا کوئی غیرقانونی عمل نہیں ہے کیونکہ دنیا کے بہت سے ممالک نے جدوجہد کر کے اسے حاصل کیا ہے۔ لیکن یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ بھارت کئی برسوں سے کشمیریوں کو اُن کے اس بنیادی اور جائز حق سے محروم کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی قرارداد ۵ جنوری ۱۹۴۹ء کو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے ہندستان اور پاکستان (UNCIP) کے اجلاس میں منظور کی گئی تھی (دستاویز۱۱۹۶/۵)۔ یہ قراردادیں بالترتیب ۲۳دسمبر اور ۲۵ دسمبر۱۹۴۸ء کو ہندستان اور پاکستان کی حکومتوں سے موصول ہوئی تھیں۔ ۱۳؍ اگست ۱۹۴۸ء کو کمیشن کے تحت منظور کی گئی قرارداد میں درج ذیل اُصولوں کو ضمیمہ کی حیثیت حاصل ہے:
۱- ریاست جموں و کشمیر کے ہندستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے سوال کا فیصلہ آزادانہ اور غیر جانب دارانہ رائے شماری کے جمہوری طریقے سے کیا جائے گا۔
۲- استصواب رائے کا انعقاد اس وقت کیا جائے گا، جب کمیشن کو معلوم ہوگا کہ کمیشن کی ۱۳؍اگست ۱۹۴۸ء کی قرارداد کے حصہ اوّل اور دوم میں طے شدہ جنگ بندی اور عارضی جنگ بندی پر عمل درآمد کیا جارہا ہے اور رائے شماری کے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔
۳- (الف) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، کمیشن کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے، استصواب رائے کے لیے ایک افسر (Plebiscite Administrator) کو نامزد کرے گی، جو بین الاقوامی حیثیت کی حامل ایک اعلیٰ شخصیت ہو گی۔ انھیں حکومت جموں و کشمیر کی طرف سے باضابطہ طور پر اس عہدے پر تعینات کیا جائے گا۔
(ب) رائے شماری کا منتظم ریاست جموں و کشمیر سے وہ اختیارات حاصل کرے گا، جو وہ استصواب رائے کے انعقاد اور غیر جانب داری کو یقینی بنانے کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔
(ج) رائے شماری کے منتظم کو ضروری عملے یا معاونین اور مبصرین کے تقرر کا اختیار حاصل ہوگا۔
۵جنوری ۱۹۴۹ء کو UNCIP نے اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کیا۔ کمیشن کے ارکان میں ارجنٹائن ، بیلجیم، کولمبیا، چیکوسلواکیہ اور امریکا شامل تھے۔
کشمیری سات عشروں سے خون کے آنسو روتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی تعمیل کے منتظر ہیں، لیکن اس کے برعکس ان کے جائز حق کے حصول کی جدوجہد میں انھیں ہراساں اور قتل کیا جاتا ہے۔ کسی بھی قانونی کارروائی سے استثنا کے ساتھ ' بھارتی ' افواج کو عطا کردہ صوابدیدی اختیارات، بھارت کی جان بوجھ کر اختیار کردہ ریاستی پالیسی کا حصہ ہیں۔ اس کے نتیجے میں ظالمانہ گرفتاریاں، نظربندی، ماورائے عدالت قتل، معصوم شہریوں کے قتل کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ انسانیت کے خلاف ان جرائم کا اصل محرک کشمیری عوام کو بنیادی حقِ خودارادیت کی جدوجہد ترک کرنے پر مجبور کرنا ہے اور اس نسل کشی کو روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جارہے۔
مظلوم کشمیریوں کو انصاف فراہم کرنے کے لیے کوئی عدالت نہیں ہے کیونکہ جموں و کشمیر میں عدلیہ بھی شدید دباؤ میں کام کر رہی ہے۔ معتبر ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ جج خوف کے عالم میں، سیکورٹی فورسز کے اقدامات کو چیلنج کرنے سے گریزاں ہیں۔ (سپریم کورٹ کا مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے مودی حکومت کے فیصلے کو برقرار رکھنا اس کا واضح ثبوت ہے)۔
مظلوم کشمیری اپنی سرزمین پر نیلے ہیلمٹ والے افسران کو جو ہندستان اور پاکستان میں اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ (UNMOGIP) کے ایک حصے کے طور پر کام کررہے ہیں، اس اُمید کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ اُن کا مقدمہ زندہ ہے اور ایک دن وہ آزادی کا سورج دیکھیں گے۔ مگر اس سمت میں شاید ہی کوئی پیش رفت ہوئی ہو بلکہ حالات روز بروز خراب ہوتے جارہے ہیں۔ بھارت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا احترام نہ کرنے پر بضد اور عمل درآمد کے لیے تیا ر نہیں۔ کنٹرول لائن پر، فوج میں ملازمت کے دوران، اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کے ساتھ کام کرتے ہوئے، میں نے ذاتی طور پر دیکھا تھا کہ اقوام متحدہ کے پرچم بردار 'یو این ملٹری آبزرور جب لائن آف کنٹرول کے قریب ہماری طرف اپنے مشن کو انجام دے رہے تھے تو بھارتی فورسز نے ان پر فائرنگ کی اور انھیں خبردار کیا کہ وہ لائن آف کنٹرول کے قریب نہ آئیں۔
’ہندوتوا‘ کے فلسفے کو فروغ دینے والے بھارتی وزیر اعظم مودی نے ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کو خطے کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرکے اور اسے یک طرفہ طور پر ہندستانی ریاست کا حصہ بنا کر اپنے تمام پیش روؤں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کی اس بدترین غیر قانونی اور یک طرفہ کارروائی کے ساتھ بھارت مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی اور سیاسی تبدیلیوں کی انجینئرنگ کر رہا ہے، تاکہ کشمیریوں کو اپنے ہی وطن میں ایک بے اختیار اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر طے شدہ اصول و ضوابط کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے، جسے نہ تو اتفاق رائے کے بغیر تبدیل کیا جا سکتا ہے اور نہ کوئی رکن ریاست یک طرفہ طور پر ایجنڈے کو تبدیل کر سکتا ہے۔ نئے سال کے آغاز کے موقعے پر اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے درخواست ہے کہ وہ صورتِ حال کا نوٹس لیں اور مظلوم کشمیریوں کے دُکھوں کا مداوا کریں تاکہ ۲۰۲۴ءکو پُرامن سال بنایا جا سکے۔ یہ اقوام متحدہ کی ۵جنوری ۱۹۴۹ء کی قرارداد پر اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل درآمد سے ہی ممکن ہے۔