فرانز کافکا کا یہ قول مشہور ہے:’’شاید تم ہر اس شے کو کھو دو جس سے تمھیں محبت ہے، لیکن آخر میں محبت کسی اور صورت میں تمھارے پاس لوٹ آئے گی۔‘‘ میری رائے میں یہی اصول دیگر انسانی جذبات مثلاً نفرت، بے زاری، غصے اور انتقام پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اربوں ڈالر کی عسکری اور معاشی امداد اور ہر ممکن طریقے سے فلسطینیوں کی نسل کشی میں معاون بننے والے امریکی حکام کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے۔
پوری دنیا اس صورتِ حال کو دیکھ ، سن اور پڑھ رہی ہے اور امریکی ریاست کو براہ راست فلسطینیوں کی خون ریزی کا حصہ بنتے ہوئے دیکھ کر لوگوں کا غصہ بڑھ رہا ہے۔ سیٹلائٹ ڈیٹا کی مدد سے اندازہ لگاتے ہوئے ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا تھا: ’’غزہ میں اسرائیلی جارحیت نے ۲۰۱۲ء سے ۲۰۱۶ء کے درمیان شام کے شہر حلب میں ہونے والی تباہی، یوکرینی شہر ماریوپول کی بربادی، اور دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کی جانب سے جرمنی پر ہونے والی بمباری کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اب یہ جنگ حالیہ تاریخ کی سب سے ہولناک اور خون ریز جنگ بن چکی ہے‘‘۔
مرنے اور ملبے میں دب کر لاپتہ ہونے والے ہزاروں شہریوں سے کہیں زیادہ تعداد ان کی ہے جو زخمی یا معذور ہو چکے ہیں۔ ان میں ہزاروں بچے بھی شامل ہیں۔ یونیسف کے مطابق ’’کتنے ہی بچے ایسے ہیں جو اپنی ٹانگ یا بازو کے نقصان کو رو رہے ہیں۔ غزہ کی یہ تکلیف ٹیلی ویژن اور دیگر تمام ممکنہ ذرائع مواصلات پر براہِ راست دکھائی جا رہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ساری دنیاکے لوگ فلسطینی بچوں کی تکلیف میں شامل ہیں، لیکن اس نسل کشی کو روکنے کے لیے کوئی قدم اٹھانے سے قاصر ہیں‘‘۔
اگرچہ تمام یورپی ممالک اپنی رائے کو بدلتے ہوئے غزہ میں مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کر چکے ہیں،لیکن واشنگٹن نے ایسے تمام مطالبوں کو رد کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ۱۸؍اکتوبر کو جنگ بندی کے لیے کی جانے والی پہلی سنجیدہ کوشش کو ’ویٹو‘ کرتے ہوئے امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ کا کہنا تھا کہ ’’اسرائیل کو اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج آرٹیکل ۵۱کے مطابق اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔‘‘یہ منطق ساری دنیا کے سامنے غزہ کی جنگ کا پس منظر واضح ہونے کے بعد بھی امریکی حکام کی جانب سے کئی موقعوں پر دُہرائی جا چکی ہے۔ خودغرضی پر مبنی یہ منطق بین الاقوامی اور انسانی حقوق کے خلاف ہے، جن کے مطابق جنگ کے دوران بھی نہتے شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا اور نہ جنگ کا شکار ہونے والے عام شہریوں تک امداد کی رسائی کو روکا جاسکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بننے والوں میں اکثریت عام شہریوں کی ہے اور اس میں بھی ۷۰ فی صد تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ مزید برآں، اسرائیل کے غیر انسانی اقدامات کے باعث غزہ کی بچ جانے والی آبادی کو اب قحط کا سامنا ہے، جس کی مثال ہمیں فلسطین کی حالیہ تاریخ میں اس سے قبل نہیں ملتی۔ چنانچہ اسرائیل خوراک، ادویات، ایندھن اور دیگر فوری ضرورت کی اشیا کا قحط پیدا کر کے واشنگٹن کے اپنے قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ بیرونی امداد سے متعلق امریکی قانون کے سیکشن ۶۲۰۱ کے مطابق: ’’کسی ایسے ملک کو امداد نہیں دی جائے گی جس کے متعلق صدر کو یہ علم ہو کہ یہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر امریکی امداد کی رسائی میں رکاوٹ ڈال رہا ہے یا ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے‘‘۔
امریکا میں بائیڈن حکومت نے مجبور کرنا تو درکنار، اسرائیلی حکومت پر یہ زور بھی نہیں دیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی حالیہ نسل کشی کے دوران انسانیت کے بالکل بنیادی قوانین کا احترام کرے۔ اس کے برعکس صدر بائیڈن اس جنگ کو طول دینے کے لیے درکار تمام وسائل اسرائیلی حکومت کو مہیا کر رہے ہیں۔
اسرائیلی چینل ۱۲ پہ ۲۵دسمبر کی رپورٹ کے مطابق تقریباً ۲۰بحری بیڑے اور ۲۴۴کے قریب امریکی ہوائی جہاز، ۱۰ ہزار ٹن سے زائد اسلحہ و بارود اسرائیل پہنچا چکے ہیں۔ اس فوجی رسد میں تقریباً ۱۰۰؍ایسے ۲ہزارپاؤنڈ کے بنکر شکن بم بھی شامل ہیں، جو اس جنگ میں مسلسل استعمال ہوتے آرہے ہیں اورہر دفعہ سیکڑوں شہریوں کی ہلاکت کا باعث بنتے ہیں۔ جنگ کے آغاز سے اب تک امریکا نے جو قابل ذکر قدم اٹھایا ہے، وہ بحیرہ احمر میں ’آپریشن پراسپیریٹی گارڈین‘ کے نام سے ایک اتحاد کی تشکیل ہے، تا کہ اسرائیل سے آنے جانے والے بحری جہازوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔
گمان غالب ہے کہ امریکا نے اپنے ماضی، عراق جنگ اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ وغیرہ سے کچھ نہیں سیکھا ہے، کیونکہ یہ آج بھی اسرائیلیوں ، فلسطینیوں، عربوں اور مسلمانوں کی حمایت میں توازن پیدا کرنے میں ناکام ہے۔ دوسری طرف کچھ امریکی حکام حقیقت سے بالکل ہی لاتعلق نظر آتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس میں گذشتہ ماہ ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ ’’آپ مجھے کسی ایک ملک، دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کا نام بتا دیں جو امریکا سے زیادہ فلسطینیوں کے دکھ درد کا مداوا کرنے کی کوشش کر رہا ہو، تو مجھے یقین ہے کہ آپ نہیں بتا سکیں گے‘‘۔ لیکن یہ سوال موجود ہے کہ بدنام زمانہ اسمارٹ بم، بنکر شکن بم، اور ہزاروں ٹن اسلحہ بارود ’فلسطینیوں کے دکھ درد کا مداوا‘ کیسے کر سکے گا؟
اگر جان کربی فلسطینیوں کی نسل کشی میں اپنی ریاست کے کردار سے لاعلم ہیں تو میرے خیال میں امریکی خارجہ پالیسی کا بحران ہماری توقعات سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ اگر وہ اس سب سے باخبر ہیں، جو کہ انھیں ہونا چاہیے، تو امریکا کا اخلاقی بحران ہماری حالیہ تاریخ کی بدترین مثال ہے۔ امریکی سیاست کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں انتظامیہ کی تمام تر توجہ اسی بات پر رہتی ہے کہ ان کا کوئی عمل یا بے عملی آیندہ انتخابات میں ان کی جماعت کے لیے کن مضمرات کا باعث بنے گی۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخ نہ ہر چارسال بعد نومبر کی ایک مقررہ تاریخ سے شروع ہوتی ہے اور نہ اس پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ کافکا نے کہا تھا، ’’آخر میں محبت کسی اور صورت میں تمھارے پاس لوٹ آئے گی‘‘۔ ان کی بات درست ہے لیکن نفرت بھی اسی طرح واپس آ سکتی ہے جس کا اظہار عجیب و غریب طریقوں سے ہوتا ہے۔ خود امریکا کو اپنے تجربات کی بنیاد پر سب ملکوں سے زیادہ اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے تھا، مگر وہاں کوئی مردِ دانش یہ بات کرتا دکھائی نہیں دیتا۔