’کارپس قرآنیکم‘ (Corpus Coranicum) کے حوالے سے ہمارے دو مضامین ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن (جون، جولائی ۲۰۲۰ء)میں شائع ہوئے تھے۔ یہ ایک جرمن فرنچ منصوبہ ہے، جو دراصل اس پراجیکٹ کا احیا ہے، جو قرآنِ مجید کا ایک کریٹیکل ایڈیشن (Critical Edition) شائع کرنے کی غرض سے مشہور جرمن مستشرق گوتھیلف برجیسٹریسر (Gotthelf Bergträsser: ۵؍اپریل ۱۸۸۶ء-۱۶؍اگست ۱۹۳۳ء) نے ۱۹۲۹ء میں شروع کیا تھا۔ ایک ایسے وقت جب جرمنی فاشزم کی طرف بڑھ رہا تھا، اس نے شرقِ اوسط ، شمالی افریقہ اور یورپ میں قرآن کے قدیم نسخوں کی تلاش اور اپنے لیسا کیمرے کی مدد سے ان کی تصاویر جمع کرنے کا کام شروع کیا۔ ۱۹۳۳ء میں وہ کوہ پیمائی کی ایک مہم کے دوران ہلاک ہوگیا۔ اس کے بعداوٹو پریٹزل (Otto Pretzl) نے اس پر پیش رفت کی ۔ یہ وہی شخص ہے جو پیرس میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ ؒ [۱۹۰۸ء-۲۰۰۲ء]سے ملا تھا اور ان کو اپنے پراجیکٹ کی کچھ تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔ وہ ۱۹۴۱ء میں ایک فوجی مہم پر تھا جب جہاز کے حادثہ میں مارا گیا۔ اس کا جانشین اینٹن سپائیٹیلر (Anton Spitaler) تھا، جس کو اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں ایک طویل عمر ملی اور ۹۳ برس کی عمر میں ۲۰۰۳ء میں فوت ہوا۔
۲۴؍اپریل ۱۹۴۴ء کو برطانوی بمباری کے باعث بویرین اکیڈمی آف سائنس کی وہ عمارت، جہاں اس پراجیکٹ کا دفتر تھا ملبے کا ڈھیر بن گئی تھی، اورمبینہ طور پر وہ نادر ذخیرہ بھی جوقدیم قرآنی نسخوں کی تصاویر پر مشتمل تھا ،برباد ہوگیا تھا ۔ اگلے ۶۰ برسوں تک دنیا بھر کےاہلِ علم یہی سمجھتے رہے کہ برگسٹریسا اور پریٹزل کی جمع کردہ قرآنی تصاویر کا ذخیرہ ضائع ہو چُکا ، لیکن حقیقت کچھ اور تھی۔ ۱۹۴۵ء میں جنگ ختم ہونے کے بعد سپائیٹیلر تعلیمی دنیا میں مشغول ہوگیا اور پلٹ کر بھی اس پراجیکٹ کا نام نہیں لیا جس کا وہ ڈائریکٹر رہا تھا۔ البتہ اپنی وفات سے کچھ سال پہلے اس نے اپنی شاگرد، جرمن مستشرق اور قرآنی لسانیات اور ساختیات کی مشہور محقق، پروفیسر انجیلیکا نُوَرتھ (Angelica Neuwirth)، کواطلاع دی کہ قدیم نُسَخِ قرآن کی تصاویر ضائع نہیں ہوئی تھیں بلکہ اس کے پاس محفوظ ہیں۔علمی دنیا کو اس ارادی جھوٹ کی افسوسناک اطلاع اورقرآنی نوادر کی موجودگی کی خوش خبری ۲۰۰۷ء کے اواخر تک ہی مل سکی، جب پروفیسر نُوَرتھ کی نگرانی میں یہ پراجیکٹ ’کارپس قرآنیکم‘ کے نام سے د وبارہ شروع ہوا۔ اس پراجیکٹ کی مدت ۱۸سال یعنی ۲۰۲۵ء تک ہے، جس کی توسیع کا خاصا امکان ہے۔
اہلِ کتاب کی ایک قلیل تعداد سمجھتی رہی ہے کہ تورات کی پانچوں کتابیں موسیٰ علیہ السلام کی لکھی ہوئی ہیں۔نشاتِ ثانیہ (Renaissance) کے بعد جب یورپ میں علمی سرگرمیاں شروع ہوئیں تو بائبل بھی تحقیق کا موضوع بنی۔ اس کے تضادات (contradictions)، تناقضات (discrepancies)، دہرے بیانات (doublets) ، مفارقتِ زمانی (anachronism)، عدم ار تباط (inconsistencies)، عدم تاریخیت (lack of historicity) ، اسالیب (dictions) اور ذخیرۂ الفاظ (vocabulary)کے تنوعات (diversities) پر غورو فکر شروع ہوا۔
کافی تحقیق کے بعد یورپی اور خاص طور پر جرمن علما کی توجہ اس طرف گئی کہ تورات کسی ایک مصنف کا متحد و مربوط کام نہیں ہوسکتا بلکہ کئی صدیوں میں کئی ہاتھوں اور مختلف ذرائع سے تشکیل پایا ہے۔ اس طرح جو فن پیدا ہوا۔ اس کو انتقادِ مآخذ (source criticism) کہتے ہیں۔ محققین کی کاوشوں کا نتیجہ اس نظریے کی صورت نکلا کہ ’تورات‘ چار آزادانہ مآخذات سے تالیف کی گئی ہے: یہوی (Yehwist) یا ’جے‘ مآخذ (J Source)[1] ، الوہی (Elohist)[2] یا ’ای‘ مآخذ (E Source) ، قسّیسی (Priestly) یا ’پی‘ مآخذ (P Source)[3] ، اوراستثناء (Deutronomy) یا 'ڈی' مآخذ (D Source)[4]۔ ان مآخذات میں سب سے پہلے 'J'وجود میں آیا جس کی تاریخ سلیمانؑ کے عہد (تقریباً ۹۵۰ ق م) میں متعین کی گئی۔ ‘E’ کچھ عرصہ بعد یعنی نویں صدی قبل مسیح میں لکھی گئی ، اور ‘D’ کی تالیف باد شاہ یسعیاہ (Josiah) کے عہد سے پہلے یعنی ساتویں یا آٹھویں صدی قبلِ مسیح میں ہوئی۔ آخر ی دستاویز یعنی' P' کا زمانہ قسیس عذرا یعنی پانچویں صدی قبل مسیح طے کیا گیا۔
اس طرح مختلف مراحل کے دوران ایڈیٹرز یا ’’ریڈیکٹرز‘‘ ان مختلف دستاویزات کی تالیف و تہذیب کرتے رہے۔ چنانچہ ایک ادارتی (Redaction) یا 'آر' مآخذ(R Source ) بھی وجود میں آیا اور اس کا تنقیدی مطالعہ انتقادِ ادارت ( Redaction Criticism) کہلایا۔ انتقادِ مآخذ (Source Criticism) کی مشق ہی سےمعلوم ہوا کہ ان مآخذات کے بھی مآخذات ہیں، جو کسی متن کے اندر ادبی اصناف جیسے تمثیل ، کہاوت ، تسبیح ، عشقیہ شعروغیرہ کی صورت میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ گویا ایک نسبتاً بڑے متن میں چھوٹی چھوٹی اصناف یا ژانرا (genre) شامل ہوتی ہیں۔ جب کسی صنف کی نشان دہی کی جاتی ہے تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس صنف کا انتخاب (pericope) کس سیاق میں آیا ہےاور متن کے مقصد سے کس طرح مناسبت رکھتا ہے۔ اس طرح کی تحقیق کو انتقادِ اصناف (Form Criticism) کہتے ہیں۔
انتقادِ کتبِ مقدسہ کایہ مثالیہ (paradigm) ۱۸۷۸ء سے بیسویں صدی کی ساتویں دہائی تک عالمی طور پر ایک مقبول بلکہ اجماعی نظریہ رہا۔عام طور پر اسے جرمن اسکالر جولیس ویلہاؤزن (Julius Wellhausen، م: ۱۹۱۸ء)کے ساتھ شناخت کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس سے قبل جرمن اسکالر جوہن گاٹفریڈآئزہان (Johann Gottfried Eichhorn،م:۱۸۲۷ء) اس کام کا آغاز کرچکا تھا۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے کے آخر تک یہ اتفاق رائے البتہ باقی نہ رہا اور دوسرے نقطہ ہائے نظر سامنے آنے لگے، لیکن یہ ایک مختلف موضوع ہے۔
’عہد نامہ جدید‘ یا نصرانی بائبل کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ محققین پہلے مرحلے میں اس نتیجے پر پہنچے کہ ’انجیل یوحنا‘ (Gospel of John) کو چھوڑ کر جو کہ سب سے آخر میں لکھی گئی، باقی تینوں اناجیل: مرقس (Mark)، متی (Matthew)، اور لوقا (Luke)— کافی حد تک یکساں ہیں۔ اسی لیے ان کو اناجیلِ یکساں (Synoptic Gospels) بھی کہا جاتا ہے۔ مغربی علمائے اناجیل متفق ہیں کہ یہ یکسانیت اتنی زیادہ ہے کہ کسی طرح بھی اتفاقی نہیں ہوسکتی۔متون کی اندرونی شہادتوں سے معلوم کیا گیا کہ سب سے پہلے ’مرقس‘ لکھی گئی، پھر متی اور اس کے بعدلوقا۔ ان دونوں نے کافی حد تک مرقس پر انحصار کیا اورکچھ اپنا مواد بھی شامل کیا اور مزید مواد ایک اور ماخذ سے نقل کیا گیا، جس کی حقیقت کا علم نہیں۔ اس ماخذ کو انجیل 'ق' (Q-source)[5] کا عنوان دیا گیا۔ زیتونہ کالج کے پروفیسر ڈاکٹر علی عطائی اس انجیل ’ق‘ ہی کو اصل انجیل سمجھتے ہیں، جس کا ذکر قرآنِ عظیم میں کثرت سے آتا ہے۔ حسی طور پر اس انجیل کا کوئی وجود نہیں، لیکن کریٹیکل اسکالر اس کے وجود پراصرار کرتے ہیں۔
بائبل کے بعد مغربی علما قرآن کی طرف متوجہ ہوئے اور انھوں نے قرآنِ مجید کے کریٹیکل ایڈیشن پر کام شروع کردیا۔ ’کارپس قرآنیکم‘ ایک ایسی ہی کوشش کا عنوان ہے۔ قرآن کے کریٹیکل ایڈیشن سے مراد قرآن کے متن کا انتقادی جائزہ، اس کے ’ا رتقاء‘ —’ترمیم و اضافہ‘،’ تعدیل و تہذیب‘ —کو تاریخی اور علاقائی پس منظر کے ساتھ منضبط کرنا ہے۔ پروفیسرنُوَرتھ اگرچہ مسلم روایات کا احترام کرنے والی سکالر سمجھی جاتی ہیں، لیکن اس پراجیکٹ کے بارے میں ان کا یہی کہنا ہے کہ متنِ قرآن کے بارے میں اس پراجیکٹ کے ذریعے وہی انتقاد مقصود ہے، جو بائبل پر کیا جاتا رہا ہے۔
اوپر کے بیان سے معلوم ہوا، مغربی علما قرآنی متن کاتاریخی و ادبی تنقیدی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ بہت سے معتبر علمائے مغرب اعتراف کرتے ہیں کہ قرآن لفظ بہ لفظ محفوظ ہے، لیکن یہ بات کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہےچونکہ سائنسی تحقیق کے دائرے سے باہر ہے، اس لیے ان کے لیے یہ ماننا ممکن نہیں۔ اس پراجیکٹ کی نگران پروفیسر انجیلیکا نُووَرتھ خود لکھ چکی ہیں:’’قرآنی نُسَخ کی نئی دریافتیں اس بات پر سوال اٹھانے کے بجائے الٹا تصدیق کررہی ہیں کہ قرآن ابتداء ہی سے ایک متنِ ثابت (fixed text) تھا اور اُن ہی سُورتوں پر مشتمل تھا، جو ہم آج بھی دیکھتے ہیں۔ وہ اسکالرز کامیاب نہ ہو سکے جو لسانیاتی بنیادوں پر قرآن کو ناقابلِ اعتبار ثابت کرنے کی کوششیں کرتے رہے تھے ‘‘۔ [6]
تاہم، ان کا کہنا یہی ہے کہ ’کارپس قرآنیکم‘ کا مقصد انتقادِ بائبل کی طرح کا مطالعہ ہے۔ گویا قرآنِ عظیم بھی بائبل کی طرح انسانی کلام ہے، جو ارتقاو تعدیل و تہذیب کے مراحل سے گزرا ۔ ایک طرف قرآن کو متنِ ثابت قراردینا، دوسری طرف تاریخی انتقاد کے طریقوں سے اس کے ابتدائی متن کو دریافت کرنے کی کوشش کرنا ، باہمی تضاد محسوس ہوتاہے۔مغربی علما کے لیے یہ تسلیم کرنا چنداں مشکل نہیں ہے کہ قرآن لفظ بہ لفظ محفوظ ہے لیکن یہ کہ اس کا مبداء وحیء الٰہی ہے، اس کے لیے ایمان و یقین درکار ہے جس سے وہ محروم ہیں۔
پراجیکٹ ’کارپس قرآنیکم‘ اپنے اختتام کے قریب ہے۔ ممکنہ طور پر اس کی مدت میں توسیع کی جائے گی کیونکہ جس مقصد کے لیے یہ شروع کیا گیا تھا وہ تاحال پورا نہیں ہوسکا ہے۔ البتہ اس سےکچھ خیر بھی برآمد ہوا ہے ۔ مثلاً، اس پراجیکٹ کےذریعے قدیم قرآنی نسخوں ، ان کے عکس اور ان کی جدید عربی خط میں ٹرانسلٹریشن تک رسائی مہیا ہوگئی ہے۔ قرآنیکم کی ڈیٹا بیس (data base) میں کسی بھی آیت کو منتخب کرکے سب سے قدیم نسخوں کا جائزہ لیا جاسکتا ہے جس میں وہ آیت آئی ہو۔ قراآءتِ متعددہ (Multiple Readings)[7]کو تاریخی ترتیب کے مطابق پیش کیا گیا ہے۔ متن کی تاریخ کی بنیاد پرپراجیکٹ ایک تاریخ وار شرح بھی پیش کرتا ہے جس میں ادبی انتقاد کے ساتھ ازمنۂ قدیم (Claasical Antiquity) و اواخرِ قدیم (Late Antiquity)سے متعلقہ متون بھی مہیا کیے گئے ہیں[8] ۔
یہ تمام متون ایک ڈاٹابیس میں ہیں، جس کا نام 'قرآن کے ماحول سے حاصل کردہ متون' 'Texts from the environment of the Qur'an' (TEQ) رکھا گیا ہے، بالکل اسی وزن پر جس طرح ۱۹۸۲ء میں ' عہد نامہ قدیم کے ماحول سے حاصل کردہ متون' ('Texts from the Environment of the Old Testament') نامی ڈیٹا بیس بنائی گئی تھی۔ اس طرح ’کارپس قرآنیکم‘ کا دعویٰ ہے کہ یہ پہلی کوشش ہے ،جو اس مسلم جماعت کی تشکیلِ ثانی کر رہی ہے ،جو نبی [صلی اللہ علیہ وسلم] اور ان کے اوّلین مخاطبین کے تعامل سے بنی تھی ۔ مختصر یہ کہ ، ڈیٹا بیس کے ذریعے فراہم کردہ دستاویزات کو مذہبی اور ثقافتی علم کی تشکیل نو کی کوشش کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے، جو اُبھرتی ہوئی مسلم جماعت کے پاس تھی۔ قرآنیکم کا دعویٰ ہے کہ اس کوشش کے ذریعے مکہ اور مدینہ منورہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اولین مخاطبین کے مابین تعامل کے طور پر ابتدائی مسلمان معاشرے کی ترقی اور تشکیل نو ہوئی ہے۔
ذیل میں ہم ایک قدیم قرآنی نسخہ کے اوپر قرآنیکم کی تحقیقی کاوش (contribution) کا تعارف اور اس پر اپنا تجزیہ پیش کریں گے:
انیسویں صدی کے وسط میں دمشق میں جرمن قنصل اور مشہورمستشرق یوہان گوٹفریڈ ویٹشائن (Johann Gottfried Wetzstein، م:۱۹۰۵ء) نےکثیر تعداد میں قدیم عربی مخطوطات،جو زیادہ تر قرآنی تھے، جمع کیےتھے۔ یہ نسخے آخرکار جرمنی کے مختلف اداروں میں پہنچے۔ مذکورہ مصحف جو حجازی خط میں لکھا گیا ہے غالباً تب سے ہی ٹیوبنگن یونی ورسٹی میں موجود ہے اور آن لائن ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔[9]
قرآنی مصحف Ma VI 165 کے کل ۷۷اوراق (Folio) ہیں، جن میں سورۂ بنی اسرائیل کی آیت۳۵ سےسورہ یٰس آیت۵۷ تک مسلسل لکھی گئی ہیں، جو پورے قرآن کا ۲۶ فی صد بنتا ہے۔ ورق کی جسامت 19.5 cm x 15.3 cm ہے، ہر صفحہ پر اٹھارہ تا اکیس سطورتحریر ہیں۔ حَرکات کا اظہار کسی بعد کے ہاتھ نے سرخ نقاط کے ذریعے کیا ہے: حرف کے اوپر سرخ نقطہ (—) ’زبر‘ کےلیے ، حرف کے نیچے (—) ’زیر‘ کے لیے ، اور حرف کے سامنے (— ) ’پیش‘ کے لیےاستعمال کیا گیا ہے ، جیسا کہ قدیم قرآنی نسخوں میں دیکھا گیا ہے۔ ’تنوین‘ کے لیے ایک کے بجائے دو سرخ نقاط استعمال کیے جاتے تھے۔آگے چل کر یہ حرکات جدید علامات کی صورت میں بھی ملتی ہیں یعنی ’زبر‘ (—َ)، ’زیر‘ (—ِ) ، اور ’پیش‘ (—ُ) البتہ یہ علامات سیاہ رنگ سے بنائی گئی ہیں اور ظاہر ہے کہ بعد کا اضافہ ہیں۔
ٹیوبنگن کایہ نسخہ بھیڑ (sheep)کی کھال سے بنے پارچے پر لکھا گیا ہے۔ جہاں تک اس کی عمر کا تعلق ہے، اس کے تین نمونے ۲۰۲۰ ءمیں ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے لیے اوکسفرڈ کی لیبارٹری میں بھیجے گئے تھے، جہاں سے اس کا زمانۂ تحریر۶۴۸ء اور۶۷۴ء کے دوران معلوم کیا گیا۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعدکم سے کم سولہ یا زیادہ سے زیادہ ۷۲برسوں کا عرصہ ہی گزرا ہوگا، جب اس مصحف کی تسوید ہوئی ہوگی۔ اس طرح یہ نسخہ، قرآنِ عظیم کے اوّلین نسخوں میں سے ایک ہے۔ یہ واضح رہنا چاہیے کہ ریڈیو کاربن طریقہ سے جانور کی موت کا زمانہ معلوم ہوتا ہے۔ تحریر پر اس کا اطلاق اس مفروضے پر کیا جا تا ہے کہ پارچے بہت مہنگے ہوتے تھے، اس لیے ان کو ذخیرہ کے طور پرزیادہ عرصہ تک رکھا جانا ممکن نہیں ہوتا ہوگا۔ گویا جانور کی موت اور تحریر کے درمیان بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوتا ہوگا۔
نہ صرف اس نسخہ بلکہ دوسرے قدیم نسخوں سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ بالکل ابتدا ہی سے قرآن ایک کتاب کی صورت اسی ترتیب پرموجود تھا جس پر اب پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی صدی ہجری کے اس نسخہ پر سورۂ بنی اسرائیل آیت ۳۵سےسورہ یٰس آیت ۵۷ تک مسلسل لکھی گئی ہیں۔
یہاں دیئے گئے جدول میں نسخۂ ٹیوبنگن کے پہلے صفحے کا عکس دیا جارہا ہے۔ مقابل میں ’کارپس قرآنیکم‘ کی ٹرانسلٹریشن یعنی جدید عربی خط میں حرف بہ حرف نقل دی ہوئی ہے۔جدول کی دوسری صف میں ایک جانب ’مصحف المدینہ‘ کا متعلقہ متن دیا گیا ہے اور دوسری جانب ان رنگوں کی تعریف بیان کی گئی ہے، جن سے متن کو نشان زد کیا گیا ہے ۔
ٹرانسلٹریشن کی سطر ۵ اور ۲۰ میں زرد رنگ کے ذریعے بتا یا گیا ہے کہ یہاں ایک حرف غائب ہے،یعنی آیت ۳۷ میںالجِبَالَ کو الجبللکھا گیا ہے اور آیت ۴۶میں ءَاذَانِهِم کو ادنهم لکھا گیا ہے۔ اس پر راقم کا تجزیہ یہ ہے کہ قدیم قرآنی ہجاء میں درمیانی ’الف‘ اکثر محذوف ہوتا تھا۔ اسی وجہ سے اس کو خطِ ناقص (Scriptio Defectiva) کہا جاتا ہے۔ آج بھی ’مصحف المدینہ‘ میں اکثر درمیانہ ’الف‘ محذوف ہی ہوتا ہے اور کھڑے زبر کے ذریعے قاری کی رہنمائی کی جاتی ہے کہ ادائی کس طرح کرنی ہے۔ راقم کےگذشتہ مضمون (ترجمان القرآن، جون ، جولائی ۲۰۲۰ء) میں اس طرح کی کئی مثالیں دی جاچکی ہیں۔ چنانچہ زرد رنگ سے نمایاں کیا گیا مشاہدہ قرآنی تہجئہ کی ایک معروف خاصیت ہی کو ظاہر کررہا ہے نہ کہ نقص۔
گلابی رنگ کے ذریعے سطر ۵ میں قرآنیکم نے مٹادینے کے عمل کو نمایاں کیا ہے۔ یعنی کاتب نے آیت ۳۷میں لفظ 'سَيِّئُهُ' کے بجائے 'سياته' لکھ دیا تھا ، گویا نہ صرف ایک الف زائد بنادیا تھا بلکہ ایک شوشہ ’ت‘ کا بھی بنایا اور اس کے دو نقاط بھی ڈالے۔ بعد میں اس نے خود اصلاح کردی اور زائد حرف الف مٹادیا بلکہ حرف ’ت‘ کو بھی مٹادیا، جیسا کہ اس عکس میں دیکھا جاسکتا ہے: ۔ یہ جاننا خالی از فائدہ نہ ہوگا کہ اس لفظ کی قراءت 'سَيِّئَةً 'بھی لٹریچر میں مذکور ہوئی ہے ،جیسا کہ ابنِ مجاہدؒ (م:۳۲۴ھ) نے بیان کیا ہے کہ یہ ابن کثیر، نافع، اور ابو عمرو کی قراءت ہے۔[10] عین ممکن ہے کہ کاتب نے یہاں یہی قراءت استعمال کی ہو، پھر متنبہ ہو کر خود ہی تصحیح کردی ہو۔ کیونکہ قرآن کے قدیم نسخوں میں بسا اوقات ا یک ہی مصحف میں ایک سے زائد قراآت کا استعمال دیکھا گیا ہے۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ کاتب خود ہی دوسری قراءت کو مٹاکر اس قراءت کو لکھ دیتا تھا، جس پر باقی ماندہ متن لکھا ہوتا تھا۔
سبز رنگ سےسطر ۱۵آیت ۴۴میں اضافی حرف’الف‘ کو نمایاں کیا گیا ہے، یعنی شَىْءٍ کو ساى لکھاہے۔ اس تہجئہ کی ایک مثال موجودہ مصاحف میں بھی موجود ہے۔ سورۂ کہف کی آیت۲۳ میں آتا ہے: وَلَا تَقُولَنَّ لِشَا۟یْءٍ إِنِّى فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا۔ اسی طرح ’مصحف المدینہ‘میں شَىْءٍ (ھود۱۱: ۴، ۱۲، ۵۷، ۱۰۱، الانبیاء۲۱: ۳۰، ۸۱، الحج۲۲ :۶، ۱۷ )، لَشَىْءٌ (ھود۱۱: ۷۲)، شَىْءٌ (الحج ۱۱:۲۲) اور سِىٓءَ ( ھود۱۱: ۷۷ ) — سب اوّلین مصحف PaB میں سای کے طور پر آئے ہیں۔[11] گویا یہ اضافی حرف بھی کوئی عیب نہیں، بلکہ جانا پہچانا قرآنی تہجئہ ہے۔
آسمانی رنگ سے سطر۱۴ سے ۱۷ میں ’مصحف المدینہ‘ اور اس نسخہ کا تہجئہ مختلف بتایا گیا ہے۔ جہاں تک سطر ۱۴ کا تعلق ہے، راقم کو تو ’تصولوں‘ ویسا ہی لکھا نظر آرہا ہے جیساکہ ’مصحف المدینہ‘ میں ہے(تقولون)۔ البتہ سطر۱۷ میں کاتب سے سہو ہوا ہے، اور ’حلیما‘ کو نظر بظاہر ’خلیما‘ لکھ دیا ہے، یعنی حرف ’ح‘ کو ’خ‘ سے بدل دیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ نقطہ صفحہ۲ کا ہو، جو اس صفحہ ۱ پر جھلک رہاہو۔
گہرے نیلے رنگ کے ذریعے سطور ۱۰، ۱۱، ۱۸، ۲۰ اور ۲۱ میں متن میں بظاہر تبدیلی کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ سب سے پہلے سطر ۱۰ کو دیکھتے ہیں ۔ پارچہ پریہاں آیت کے اختتام پہ سرخ رنگ کی علامتِ آیت دیکھی جاسکتی ہے۔ پھر اس علامت کے اوپر سرخ رنگ سے ہی حرف’م‘ صاف دیکھا جاسکتا ہے،جوابجد نظام الاعداد میں ۴۰ کا حرف ہے۔ گویا یہ ’م‘ آیت ۴۰ کی نشاندہی کررہا ہے۔ قدیم قرآنی نسخوں میں شمارِ آیات کے لیے ابجدی نظام کا استعمال ایک معروف مشاہدہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مغربی علما ابجد نظام الاعداد سے واقف نہیں ہیں بلکہ قرآنیکم حرف ’م‘ کے اضافہ کو تغیر اس بنا پرکہہ رہا ہے کہ سرخ رنگ سے یہ اضافہ بعد کا ہاتھ کا ہے، جو صحیح ہے۔ اسی طرح سطور۱۱ ، ۱۸ ، اور ۲۱ میں’ ٱلْقُرْءَانَ‘ کا درمیانی الف موجود نہیں تھا، جس کا اضافہ کسی بعد کے ہاتھ نے گہرے سیاہ رنگ کی روشنائی سے کیا ہے۔ یہ تینوں مشاہدے درست ہیں۔ سطر ۲۰ میں يَفْقَهُوهُ وَفِىٓ ءَاذَانِهِمْ میں کاتب کے سہو کی وجہ سے حرف ’و‘ رہ گیا تھا جس کی اصلاح کردی گئی ہے، اگرچہ اسی کاتب نے کی ہو یا بعد کے کسی فرد نے۔
اگرچہ یہ ایک ہی صفحہ کا تجزیہ ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نسخۂ ٹیوبنگن کا یہ پہلا صفحہ بعینہ موجودہ قرآن سے مماثل ہے۔ تاہم کوئی صاحب ہمت کریں تو اس کام کو آگے بھی بڑھایا جاسکتا ہے۔ بہرحال متعدد قرآنی نسخ کے مطالعے سے یہ امر متحقق ہوچکا ہے کہ متنِ قرآن پہلے روز سے ہی مستحکم ہے اور یہ بات مغربی محققین بھی تسلیم کرچکے ہیں۔ یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے کہ وہ قرآن کی حفاظت کرے گا:اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر۱۵: ۹) ’’ اس ذکر کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں‘‘۔
[1] یعنی تورات کے وہ حصے جن میں خدا کو ’یہوے‘ (Yehweh) کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ کیونکہ جرمن زبان میں حرف' Y ' کا تلفظ' J' سے ادا کیا جاتا ہے، اس لیے اس کو Jehovist-source یا مختصرا'ً J' ماخذ کہا جاتا ہے۔
[2] تورات کے وہ مقامات جن میں خدا کا نام ’الوہیم‘ (Elohim) ذکر کیا گیا ہے۔
[3] یہ تورات کی کتاب ’احبار‘ (Leviticus) ہے۔
[4] تورات کی کتاب ’استثناء‘ (Deutronomy) ہے۔
[5] یہ جرمن لفظ quelle” “کا مخفف ہے جس کا معنی ہے:مآخذ۔ اس مآخذ کی نشاندہی سب سے پہلے Johannes Weiss (م:۱۹۱۴ء)نے کی تھی جس نے تجویز کیا تھا کہ یہ زبانی روایات پر مبنی مآخذ ہے۔
[6] Angelica Neuwirth, "Structural, Linguistic and Literary Features", Ch. 5 in Cambridge Companion to the Quran, Jane D. McCuliffe, ed.,
کیمبرج یونی ورسٹی پریس، کیمبرج، ۲۰۰۶ء، ص ۹۷-۱۱۴
[7] عالمِ اسلام کے جلیل القدر عالم ڈاکٹر محمدمصطفیٰ الاعظمی ؒ [۱۹۳۲ء-۲۰ دسمبر ۲۰۱۷ء]کے نزیک قرآن کی دوسری قراءت کے لیے Multiple Readings کی اصطلاح زیادہ مناسب ہے جبکہ معروف variant readings ہے۔ دیکھیے اُن کی کتاب:
THE HISTORY OF THE QURĀNIC TEXT From Revelation to Compilation A Comparative Study with the Old and New Testaments, اعظمی پبلشنگ ہاؤس ، ریاض، سعودی عرب، ۲۰۰۸
[8] زمانۂ قدیم (Classical Antiquity) سے مراد آٹھویں صدی قبلِ مسیح سے رومن ایمپائر کے زوال یعنی پانچویں صدی شمسی تک کا عرصہ لیا جا تاہے، جب کہ تیسری صدی شمسی سے ساتویں یاآٹھویں صدی شمسی کے عرصے کو أواخر ازمنۂ قدیم (late anti quity)کہتے ہیں، جس کے بعد پھر ازمنۂ وسطیٰ شروع ہوتا ہے۔
[9] http: idb.ub.uni-tuebingen.de diglit mavi165
[10] کتاب السبعۃ لابنِ مجاہد۔ ص ۳۸۰،بع دارالمعارف ،مصر۔
[11] مصحف PaB پر ملاحظہ کیجیے عالمی ترجمان القرآن ، جولائی ۲۰۲۰ء