۲۲جولائی ۲۰۱۵ء کا دن اس اعتبار سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے جب برمنگھم یونی ورسٹی کا یہ اعلان دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کی زینت بنا کہ وہاں پر موجود دو ورقی پارچہ (parchment) قرآنِ عظیم کے قدیم ترین نسخوں میں سے ایک ہے۔ بتایا گیا کہ جس جانور کی کھال پر یہ مخطوطہ لکھا گیا وہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں زندہ رہا ہوگا [1]۔ برمنگھم یونی ورسٹی میں اسلامی اور مسیحی علوم کے پروفیسر ایمریطس ڈیوڈ تھامس (David Thomas) کے خیال میں تو ان آیات کے کاتب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا ہوگا ۔قرآنِ پاک کے اس قدیم نسخہ کی دریافت کی خبر بڑی تیزی سے پھیلی جس نے مسلم دنیا میں خوشی کی لہر دوڑا دی [2]۔ اس کے ساتھ ہی دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ ___ —پرنٹ اور الیکٹرانک ___ —میں تجزیوں، تبصروں اور انٹرویوز کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جس میں نمایاں علمی شخصیات نے بھی حصہ لیا۔
اس دریافت کی روحِ رواں برمنگھم یونی ورسٹی کی پی ایچ ڈی کی تحقیق کار البا فیڈیلی (Alba Fedeli) ہیں، جو بہت مسرت سے کہتی ہیں کہ اس قسم کے واقعات کامیڈیا تک پہنچنا میرے لیے ایک انوکھا تجربہ تھا [3]۔
یہ نسخہ یونی ورسٹی آف برمنگھم کی کیڈبری ریسرچ لائبریری (Cadbury Research Library) میں گوشۂ مِنگانا برائے نُسَخِ شرقِ اوسط (Mingana Collection of Middle Eastern Manuscripts)میں ۱۹۳۶ء سے موجودتھا۔1 یہ ایک مصحف کا حصہ ہے، جس کا ۱۶؍اوراق پر مشتمل دوسرا جز پیرس میں فرانس کی قومی لائبریری (Bibliotheque nationale de France—BnF) میں ۱۸۳۳ء سے محفوظ ہے[4]۔ اسی وجہ سے قرآنِ مجید کے اس قدیم ترین مصحف کے طویل نام میں پیرس اور برمنگھم شہروں کا ذکر ہے یعنی: ’’پیریسینو برمنگھم یانسس‘‘۔ علمِ تحاریرِ قدیمہ (Paleography)، علمِ تاریخِ فن (art history)، علمِ مصاحف (Codicology) اور علمِ تاریخِ لسانیات (Philology) کے ماہرین ان اوراق سے واقف رہے ہیں۔ لیکن صحیح معنوں میں اس مصحف کو بڑے پیمانے پر شہرت ۲۲ جولائی ۲۰۱۵ء کے بعد سے ملنا شروع ہوئی ۔ اس مصحف کومختصراً MS PaB کہتے ہیں ۔
قاہرہ کے جنوب میں واقع فسطاط (Fustat) کی جامع عمروؓبن العاص، ۲۱ھ / ۶۴۲ء میں فاتح مصر حضرت عمرو ؓبن العاص [م:۶ جنوری ۶۶۴ء] نے تعمیر کرائی تھی۔ اس مسجد میں قدیم قرآنی مصاحف کا ذخیرہ صدیوں سے موجود تھا جس کی کچھ تفصیل اسلامی روایات کے لٹریچر میں ملتی ہے۔ جرمن سیاح اور محقق اُولرِخ یاسپر زیٹسن (Ulrich Jasper Seetzen :م۱۸۱۱ء)نے جنوری ۱۸۰۹ء میں اس مسجد کی زیارت کی تھی۔ اس کو شمالی جانب ایک چھوٹا کمرہ دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں کثیر تعداد میں قدیم و نادرقرآنی نُسَخ تہ بر تہ رکھے ہوئے تھے۔ اس نے منتظمین سے ان نوادرات کو خریدنے کی خواہش ظاہر کی، جس پر اس کو بتایا گیا کہ یہ اشیاء وقف للہ تعالیٰ ہیں اور ان کی خرید و فروخت جائز نہیں۔ اس پر زیٹسن نے اس وقت کے فرانس اور اٹلی کے مصر میں مشترکہ قنصل ژاں لوئی اسیلاں دوشیرفيل (Jean-Louis Asselin de Cherville، م:۱۸۲۲ء )کو اس علمی خزانے کی اطلاع دی ا ور اس کے حصول کی طرف توجہ دلائی۔ دو شرفيل خود بھی ایک مستشرق تھا۔ اس نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے ۱۸۰۶ء سے ۱۸۱۶ء کے دوران جامع عمروؓ سے کثیر تعداد میں نُسَخِ قدیمہ حاصل کرلیے اور ان کو اپنے ساتھ پیرس لے گیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد وہ فوت ہوگیا،چنانچہ اس کو خود تو ان کے مطالعہ کا موقع نہیں ملا ہوگا،البتہ۱۸۳۳ء میں جب یہ اوراق فرانس کی قومی لائبریری (Bibliotheque nationale de France—BnF) نے خرید لیے [4] تب سے یہ قیمتی دستاویزات بہت سی تحقیقات کا موضوع رہی ہیں۔
جامع عمروؓ سے حاصل ہونے والے نوادرات میں اور بھی کئی ایسے اہم قرآنی نُسَخ ہیں جن کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ مضامین میں اس سلسلے میں ہم مزید کچھ عرض کریں گے۔ زیرِ نظر مضمون میں ہمارا موضوع مصحف MS PaB ہے، جس کے پیرس والے اوراق کو BnF Arabe 328c (مختصراً BnF328c) اور برمنگھم میں پائے جانے والے دو ورقی نسخہ کو Mingana Islamic Arabic 1572a (مختصراً Min1572a ) کے نام سے جانا جاتا ہے [5]۔
یہ جان لینا شاید فائدہ سے خالی نہ ہو کہ فسطاط کے خزائن، نو آبادیاتی نظام کے طفیل نہ صرف پیرس اور برمنگھم بلکہ برلن، کیمبرج، شکاگو، ڈبلن، گوتھا، کوپن ہیگن، لیڈن، اورسینٹ پیٹرز برگ تک پھیلے ہوئے ہیں [6] ۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ مصحف MS PaB کے مزید اوراق دوسرے مراکزِ علم میں موجود ہوں اور جو کسی وقت منظرِ عام پر آسکتے ہیں۔
۱۹۳۶ء سے مذکورہ دو ورقی نسخہ برمنگھم یونی ورسٹی کی کیڈبری لائبریری کے گوشۂ مِنگانا میں موجود ہے ۔ یہ فولیو نمبر f.1 اور f.7 تھے۔سات (7) دوسرے اوراق ___—جن کو Min1572b کہا جاتا ہے___کے ساتھ یہ مجلد تھے اور پورے مجموعہ کو MS Mingana 1572 کا نام دیا گیا تھا۔ اس مجلد کے ساتھ ہاتھ سے لکھے ایک نوٹ پر اس کا زمانہ آٹھویں صدی شمسی لکھا ہوا تھا ۔
۲۰۱۱ء میں اطالوی سکالر البا فیڈیلی (Alba Fedeli) نے پی ایچ ڈی تحقیق کے لیے خاص طور پر برمنگھم یونی ورسٹی کا انتخاب کیا کہ وہاں پر قرآنی مخطوطات کا ایک بڑا ذخیرہ تھا اور ساتھ میں قدیم متون پر کام کرنے کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکسچول سکالرشپ اینڈ الیکٹرانک ایڈیٹنگ (Institute of Textual Scholarship and Electronic Editing)کی شکل میں ضروری تحقیقی اورتکنیکی مہارت بھی میسر تھیں۔ فیڈیلی مشہور مستشرق سرجو نو یا نوزادہ (Sergio Noja Noseda ) کی شاگرد رہی تھیں اور ان کے ساتھ نُسَخِ قدیمہ پر دس سال تک تحقیق کا تجربہ رکھتی تھیں۔
البافیڈیلی نے جب برمنگھم میں ان دو اوراق کا تفصیلی مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ مخطوطہ خط حجازی2 میں لکھا گیا ہے، جو بہت قدیم نُسَخ ہی میں دیکھا گیا ہے ۔ اور یہ کہ اس میں ہم شکل حروفِ صحیحہ (consonants) جیسے '’ب‘، ’ت‘، ’ث‘ ' کو ممیز کرنے والےنقاط (diacritics) بہت کم پائے جاتے ہیں،جب کہ حَرکات یا اعراب (vocalization) تو سرے سے موجود ہی نہیں۔ اسی سے اندازہ لگایاکہ یہ پارچے ساتویں صدی شمسی کے نصف اول میں لکھے گئے ہوں گے۔ فیڈیلی نے ان اوراق کی عمر معلوم کرنے کے لیے ریڈیو کاربن طریقہ استعمال کرنا چاہا لیکن وسائل آڑے آگئے۔ پھر انھی دنوں برلن اور پیرس کی اکادیمیوں نے بھی ان مخطوطات کی تاریخ جاننے میں دل چسپی کا اظہار کیا کہ یہ ادارے مشہور پراجیکٹ ’قرآنیکا‘ (Coranica) 3 کے تحت قدیم قرآنی نُسَخ پر تحقیق کررہے تھے ۔ چنانچہ کیڈبری لائبریری نے اوکسفرڈ یونی ورسٹی کی آثارِ قدیمہ اور تاریخِ فن کی ریسرچ لیبارٹری (Archeology and Art History Research Laboratory) میں واقع ’ریڈیو کاربن ایکسیلیریٹر یونٹ‘ (Radiocarbon Accelerator Research Unit) کی خدمات حاصل کیں، تاکہ اس پارچے کی تاریخ کا تخمینہ لگایا جائے۔
۲۲جولائی ۲۰۱۵ء کو برمنگھم یونی ورسٹی نے اعلان جاری کیا کہ دو اوراق پر مشتمل چرمی نسخہ ۹۵ء۴ فی صد امکانیت (Probability)کے ساتھ ۵۶۸ء سے ۶۴۵ء کے درمیانی عرصے میں لکھا گیا تھا ۔4 یونی ورسٹی کے محققین کے نزدیک یہ نسخہ جنا بِ محمدؐ زندگی کے بہت قریب زمانے میں لکھا ہوا معلوم ہوتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا زمانہ ۵۷۰ء تا ۶۳۲ء معروف ہے ۔ پروفیسر ڈیوڈ تھامس کے خیال میں ’برمنگھم مخطوطے‘ کی انشاء ۶۵۰ء سے ۶۵۶ء کے درمیان ہونا عین ممکن ہے، گویا تیسرے خلیفہ عثمانؓ کا زمانہ ۔ متحدہ عرب امارات کی محمدبن راشد المکتوم نالج فاؤنڈیشن کے سربراہ جمال بن حویریب کے خیال میں یہ پہلے خلیفہ ابوبکر صدیقؓ کا جمع کردہ قرآن ہے [8]۔
دُنبہ یا بکرے کی کھال سے بنے پارچہ پر لکھا گیا یہ مخطوطہ دو جڑے ہوئے اوراق (Bifolio) پر مشتمل ہے یعنی چار صفحات۔ اس کی پیمایش تقریباً۳۳ء۳ س مx ۲۴ء۴ س م ہے، اور ۲۳ سے ۲۵ سطور فی صفحہ ہیں۔ پارچہ پر روشنائی سے ’خطِ حجازی‘ میں سورہ الکہف کی آیات ۱۷-۲۲ فولیو نمبر7r، الکہف۲۳-۳۱ فولیو نمبر7v ، سورہ مریم کی آیات۹۱-۹۸ اور سورہ طٰہٰ کی آیات ۱-۱۲ فولیو نمبر1r اور طٰہ ۱۳-۴۰ فولیو نمبر 1v پرلکھی ہوئی ہیں ۔5 اس طرح کل ۶۳ آیات ہیں، جو ۹۳سطور پر رقم ہیں [9]۔ ان اوراق کی تصاویر اشارہ [12] میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
فانسوا دیراش (François Déroche: پ ۱۹۵۲ء) عالمِ مصاحف (Codicologist) ہیں، جن کی علمی خدمات کے باعث ان کو فرانس کا اعلیٰ ترین سول اعزاز ’لیجن آف آنر‘ دیا گیا تھا۔ ان کی تحقیق کے مطابق نسخۂ BnF328c اواخر پہلی صدی ہجر ی یااوائل دوسری صدی میں لکھا گیا ہوگا [13] (ص 74)۔ لیکن جیسا کہ ابتدا میں ذکر ہوا، یہ مصحف پہلی صدی ہجری کے نصف اول میں لکھا گیا تھا اور اس اعتبار سے قرآنِ پاک کا قدیم ترین نسخہ کہا جاسکتا ہے ۔ فولیو ۷۱سے ۷۸ میں جو سات (۷)اوراق ہیں، ان میں سورہ یونس کی آیت ۳۵ سے سورہ ہود کی آیت ۱۱۰تک لکھی ہوئی ہیں۔ پھر فولیو ۷۸ سے ۸۶ تک نو(۹) اوراق میں سورہ طٰہ کی آیت ۹۹ سے لے کر سورۂ مومنون کی آیت ۲۷ تک مرقوم ہیں۔ نسخۂ BnF328c کے ان اوراق کی تصاویر جامع عمروؓ کے دوسرے نُسَخ کے ساتھ ایک ہی جلد بعنوان ۳۲۸ میں دیکھی اور وہاں سے ڈاؤنلوڈ کی جاسکتی ہیں [14] ۔(جاری)
1. "Birmnigham Quran manuscript dated among the oldest in the World", University of Birmingham Press Release, 22 July 2015, https://www.birmingham.ac.uk/news/latest/2015/07/quran-manuscript
-22-07-15.aspx.
2. "Oldest Koran fragments found in Birmingham University" July 22, 2015 in https://www.bbc.com/news/business-33436021.
3. مخطوطات القرآن والفيلولوجيا الرقمية: حوار مع الدكتورة البا فيديلي ،أحمد وسام شاكر, 21 Nov 2016, https://iqsaweb.wordpress.com/2016/11/21.
4. أحمد وسام شاكر, "' مصحف عثمان' بدارالكتب المصرية: الأصول والتاريخ",
https://www.quranmss.com.
5. Codex Arabe 328c – -A Qur'anic Manuscript From 1st Century of Hijra, https://www.islamic-awareness.org/quran/text/mss/m1572.
6. Paleocoran: Studying variant readings and spellings in Egyptian Quranic Manuscripts (7th to 10th century AD) for a better understanding of the history of the Quran, DFG-ANR Project # 264680664, https://paleocoran.eu./
7. FAQs, https://www.birmingham.ac.uk/facilities/cadbury/birmingham-
quran-mingana-collection/birmingham-quran/faqs.aspx.
8. Birmingham's ancient Koran history revealed, Sean Coughlan Education correspondent (https://www.bbc.com/news/business-35151643, 23 December 2015.
9. Alba Fedeli, Early Qur’ānic Manuscripts, Their Text, and The Alphonse Mingana Papers Held in the Department of Special Collections of The University of Birmingham, PhD thesis, Institute for Textual Scholarship and Electronic Editing, Department of Theology and Religion, College of Arts and Law, University of Birmingham, November 2014.
10. Coranica—Context for the Text, Research Project
Berlin-Brandenburg Academy of Science and Humanities
https://www.coranica.de/front-page-en.
11. François Déroche, Quran's of the Umayyads, A Preliminary Overview, copyright 2014 by Koninklijke Brill NV, Leiden, The Netherlands.
12. https://epapers.bham.ac.uk/116.
13. François Déroche, Islamic Codicology: An Introduction to the Study of Manuscripts in Arabic Script; Translated by Deke Dusinberre and David Radzinowicz; Edited by Muhammad Isa Waley. London: Al-Furqan Islamic Heritage Foundation, 1427 AH/2006AD.
14. https://gallica.bnf.fr/ark:/12148/btv1b8415207g/f150.image.
1 ا لفانسو مِنگانا (Alphonso Mingana) عراقی نژاد اشوری النسل سابق کالڈیَن پادری تھا جو برمنگھم کا رہایشی تھا اور انگلستان آنے کے بعد عیسائیوں کے فرقہ کویکر (Quaker)میں شامل ہوچکا تھا۔ اس کی ملاقات چاکلیٹ کے مشہور برانڈ کیڈبری کے مالک ایڈورڈ کیڈ بری (Edward Cadbury) سے ہوئی جو خود بھی ایک کویکر تھا اور خدمتِ خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ کیڈبری اپنے شہر میں قدیم و نایاب مخطوطات و نوادر پر مشتمل ایک عالمی معیار کا مرکز بنانا چاہتا تھا ۔ اس نے مِنگاناکی مالی طور پر سرپرستی کی کہ وہ مشرقِ وسطیٰ جا کر اس کی لائبریری کے لیے نایاب مخطوطات حاصل کرے۔ چنانچہ مِنگانا نے مشرقِ وسطیٰ کے تین اسفار کیے اور کیڈ بری لائبریری کے لیے ۳ہزار عربی/سریانی نسخے حاصل کیے۔ بقولِ بعض اس نے مذکورہ نسخہ اپنے سفرِ مصر کے دوران حاصل کیا تھا [5]جبکہ البا فیڈیلی نےصراحت کی ہے کہ مِنگانا نے ۱۹۳۶ء میں اثریات کے ایک تاجر (antiquarian) فان شرلنگ (von Scherling) سے یہ مخطوطات خریدے تھے۔ مِنگانا علمی معاملات میں اگرچہ ایک متنازعہ شخصیت رہا تھا تاہم اس میں کلام نہیں کہ وہ ایک محقق اور کیوریٹر بھی تھا۔ کیڈبری اُس کے کام سے اتنا متاثر تھا کہ اپنے مرکز کا نام اس کے پہلے کیوریٹر کے نام پرمِنگانا کلیکشن رکھا۔ یہ کلیکشن ۱۹۹۰ء کے اواخر میں یونی ورسٹی آف برمنگھم کے سیلی اوک کالجز (Selly Oak Colleges) کا حصہ بن گیا ۔ مِنگانا نے ۱۹۳۷ء میں اپنی وفات تک مشرقِ وسطیٰ سے خریدے گئے ۳ہزار نسخوں کے کیٹلاگ تین جلدوں میں مکمل کرلیے تھے۔ چوتھا کیٹلاگ اس کے جانشینوں نے ۱۹۶۳ء میں شائع کیا، جس کا نظر ثانی ایڈیشن ۱۹۸۵ء میں شائع ہوا تھا [9-7]۔
2 ’خط حجازی‘ کسی معیاری خط کا نام نہیں ہے بلکہ یہ اصطلاح اطالوی عالم میکیلی اماری (Michele Amari، م: ۱۸۸۹ء )نے فرانس کی قومی لائبریری میں قدیم مخطوطاتِ قرآنیہ پر کام کے دوران وضع کی تھی۔ اس نے ابن الندیم کی ’الفہرست‘ سے مکہ و مدینہ کی قدیم خطاطی کے اوصاف کا جائزہ لیا، تو دیکھا کہ وہاں کے خطاط مستطیلی عمودی خط دائیں طرف ترچھا کرکے لکھتے ہیں ، اسی طرح حرف ’الف‘ بھی اپنے قاعدہ کی جانب یعنی دائیں جانب مائل ہوتا ہے۔ اس طرح ، اماری نےاس قسم کی خطاطی کے لیے حجازی اور آسٹرین عالم جوزف فان کاراباشیک (Joseph von Karabashik، م:۱۹۱۸ء)نے مائل کی اصطلاحات استعمال کیں[3]۔ ضروری نہیں کہ ہر نسخہ جو اس خط میں لکھا ہوا ملے وہ حجاز کا ہی لکھا ہوا ہو۔
3 یہ جرمن -فرانسیسی مشترکہ تحقیقی منصوبہ تھا (۲۰۱۱ء-۲۰۱۴ء) ، جس کے ایک جز کا مقصدقرآنی متن کی تاریخ معلوم کرنے کے لیے دستاویزی شہادتوں کی جمع و تدوین و اشاعت تھا۔ دوسرا جزء جزیرۃ العرب کے مذاہب اور السنہ کی تحقیق ، تدوین اور قرآنی زبان پر ان کے مبینہ اثرات سے متعلق تھا[10]۔
4 ’ریڈیو کاربن ڈیٹنگ‘ قدیم تحریروں کی عمر جاننے کا ایک طریقہ ہے۔ یہ طریقہ اصل میں اس مویشی کی موت کا زمانہ بتاتا ہے جس کی چرم یا کھال سے پارچہ بنایا گیا۔ کچھ علما، بالخصوص فانسوا دیراش، کہتے ہیں کہ اس طریقے کی افادیت کے باوجود فیصلہ کن راے ماہرِ تحاریرِ قدیمہ، ماہرِ تاریخی لسانیات اور مؤرخِ فن ہی کی ہونا چاہیے۔ ریڈیو کاربن سے حاصل کردہ نتائج عموماً تخمینی عمر سے کم کی طرف رجحان رکھتے ہیں۔ جن دستاویزات میں کولوفون (colophon) کے ذریعے قطعی تاریخ معلوم ہوتی ہے، ان کی ریڈیو کاربن ڈیٹنگ بھی اصل سے کم کی طرف مائل تھی۔ شاید یہ کہنا صحیح ہو کہ اس کے نتائج کی حدود (range) میں سے زیریں نصف کو ترک کردینا چاہیے۔ بالائی حد کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ اصل تاریخ میں کچھ برسوں کا اضافہ ممکن ہے۔ مزید معلومات کے لیے دیکھیے دیراش کی کتاب [11] ص ۳ اور ص۱۱-۱۴
5 ’ r‘ سے مراد ہے ریکٹو (recto) یعنی ورق کا بایاں یا طاق صفحہ ۔ ’و‘ سے مراد فرسو (verso) ہے یعنی دایاں یا جفت صفحہ۔ وہ زبانیں جو بائیں سے دائیں لکھی جاتی ہیں ان کے اوراق کے ریکٹو اور فرسو صفحات اس کا عکس ہوں گے۔ بعض علماء صفحہ کی علامت کے لیے ' r/v 'کے بجائے ' a/b 'بھی لکھتے ہیں۔
’کارپس قرآنیکم‘ (Corpus Coranicum) برلن-برانڈنبرگ اکیڈیمی آف سائنسز اینڈ ہیومینی ٹیز (Berlin-Brandenburg Academy of Sciences and Humanities) کا پراجیکٹ ہے، جو پچھلی صدی کی دوسرے عشرے میں شروع ہونے والے پراجیکٹ کا احیا ہے۔
یہ وہی پراجیکٹ ہے جس کے بارے میں جلیل القدر عالم ڈاکٹر محمد حمید اللہ [۹ فروری ۱۹۰۸ء - ۱۷؍دسمبر ۲۰۰۲ء] نے مارچ ۱۹۸۰ء کو اسلامیہ یونی ورسٹی بہاولپور میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایاتھا کہ اس کا مقصد یہ تھا کہ:
قرآن مجید کے قدیم ترین دستیاب نسخے خرید کر، فوٹو لے کر، جس طرح بھی ممکن ہو جمع کیے جائیں۔ جمع کرنے کایہ سلسلہ تین نسلوں تک جاری رہا۔ جب میں ۱۹۳۳ء میں پیرس یونی ورسٹی میں تھا تو اس کا تیسرا ڈائریکٹر [اوٹو]پریتسل Pretzl [۱۸۹۳ء- ۱۹۴۱ء] پیرس آیا تھا، تاکہ پیرس کی پبلک لائبریری میں قرآن مجید کے جو قدیم نسخے پائے جاتے ہیں ان کے فوٹو حاصل کرے۔ اس پروفیسر نے مجھ سے شخصاً بیان کیا کہ اس وقت (یہ ۱۹۳۳ء کی بات ہے) ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں قرآن مجید کے ۴۲ ہزار نسخوں کے فوٹو موجود ہیں اور مقابلے (collation) کا کام جاری ہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں اس ادارے کی عمارت پر ایک امریکی بم گرا اور عمارت، اس کا کتب خانہ اور عملہ سب کچھ برباد ہوگیا۔ لیکن جنگ شروع ہونے سے کچھ ہی پہلے ایک عارضی رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں کہ’’ قرآنِ مجید کے نسخوں میں مقابلے کا جو کام ہم نے شروع کیا تھا، وہ ابھی مکمل تو نہیں ہوا لیکن اب تک جو نتیجہ نکلا ہے وہ یہ کہ ان نسخوں میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں تو ملتی ہیں، لیکن اختلافاتِ روایت ایک بھی نہیں۔(۱)
یہی بات شاید ڈاکٹر حمید اللہؒ نے پہلے بھی کہیں لکھی یا کہی ہوگی کیونکہ مولانا مودودیؒ نے بھی بالکل اسی طرح کے الفاظ کہے تھے،جن کو راقم نے ان کے ایک درس کے آڈیو ریکارڈ سے سنا تھا۔
معلوم نہیں ڈاکٹر محمد حمیداللہ صاحب کس عارضی رپورٹ کا ذکر کر رہے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ یہ پراجیکٹ قرآن کا ایک کریٹیکل ایڈیشن (Critical Edition) شائع کرنے کی غرض سے ۱۹۲۹ء میں مشہور جرمن مستشرق گوتھیلف برگس ٹیسر[Gotthelf Bergstasser : ۱۸۸۶ء- ۱۹۳۳ء] نے شروع کیا تھا۔ ڈاکٹر حمید اللہؒ نے یہ جو تین نسلوں کا ذکر کیا ہے، وہ اس اعتبار سے صحیح ہے کہ پراجیکٹ کے رسمی اجرا سے پہلے غیر رسمی طور پر بہت کام ہوتا رہا تھا ۔ بہرحال ۱۹۳۳ء میں برگس ٹیسر کی وفات کے بعد ڈاکٹر پریٹزل (Otto Pretzl) نے اس پر پیش رفت کی۔ اس کو مصاحف اور قراءات پر قدیم لٹریچر جمع کرنے کا اس قدر شوق تھا کہ اس نے استنبول کے ایک مقری سے فنِ قراءات بھی سیکھا۔ یہاں تک کہ ایک موقع پر ایک دمشقی مقری اس کی قراءت سن کر حیران رہ گیا تھا۔(۲)ترکی میں رہنے کی وجہ سے اس کے مسلم شیوخ اور علما سے بھی اچھے مراسم قائم ہوگئے تھے۔ وہ ۱۹۴۱ء میں ایک فوجی مہم پر تھا، جب ہوائی جہاز کے فضا میں تباہ ہوجانے کی وجہ سے مارا گیا۔ اس کا جانشین ڈاکٹر اینٹن سپائی ٹالر [Anton Spitaler: ۱۹۱۰ء- ۲۰۰۳ء] تھا، جس کو اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں ایک لمبی عمر ملی۔(۳)
۲۴؍اپریل ۱۹۴۴ء کو امریکی نہیں بلکہ برطانوی بمباری کے باعث، بویرین اکیڈمی آف سائنس کی وہ عمارت کہ جہاں اس پراجیکٹ کا دفتر تھا، ملبے کا ڈھیر بن گئی اورمبینہ طور پر وہ نادر ذخیرہ بھی، جو قرآنی نُسَخ کی تصاویر وغیرہ پر مشتمل تھا، سب برباد ہوگیا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد ڈاکٹر سپائی ٹالر تعلیمی دنیا میں مشغول ہوگیا اور پلٹ کر بھی اس پراجیکٹ کا نام نہیں لیا، جس کا وہ ڈائریکٹر رہا تھا۔ عربی زبان پر اس کی گرفت بہت مضبوط تھی لیکن اس نے علمی دنیا میں مقالات وغیرہ لکھنے سے گریز ہی کیا۔ وہ غیر روایتی نقطہ ہاے نظر کو پسند نہیں کرتا تھا۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے میں مستشرق گونتر لولینگ [ Günter Lüling: ۱۹۲۸ء- ۲۰۱۴ء] کا پی ایچ ڈی کا مقالہ،(۴)جس میں اس نےیہ نظریہ پیش کیا تھا کہ ’’قرآن عیسائی حمدیہ نشیدوں سے تالیف کیا گیا تھا، اس افسانے کو ڈاکٹر سپائی ٹالر نے نہ صرف رد کردیا تھا، بلکہ یونی ورسٹی سے اس کی نوکری بھی ختم کروا دی تھی۔(۵) کہا جاتا ہے کہ وہ مذہبی کتب کا احترام کرتا تھا ، شاید یہی وجہ تھی کہ وہ قرآن کے اس پراجیکٹ سے غیر متعلق رہنا چاہتا ہو؟
اپنی وفات سے کچھ سال پہلے اس نے اپنی شاگرد، مشہور جرمن مستشرقہ اور علومِ قرآنی کی تحقیق کار، اور برلن میں فری یونی ورسٹی کی پروفیسر انجلیکا نُووَرتھ [ Angelika Neuwirth : پ:۱۹۴۳ء] کواطلاع دی کہ قدیم نُسَخِ قرآن کی تصاویر ضائع نہیں ہوئی تھیں، بلکہ اس کے پاس محفوظ ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس کے رفقا کا ایک محدود حلقہ ان تصاویر کے بارے میں جانتا تھا کہ وہ ضائع نہیں ہوئی تھیں۔ بہرحال، علمی دنیا کو پہلے تو اس ارادی جھوٹ کی اطلاع اور پھر نوادر کی موجودگی کی خوش خبری ۶۰سال بعد ۲۰۰۷ء کے اواخر میں ہی مل سکی، جب پروفیسر نُووَرتھ کی نگرانی میں یہ پراجیکٹ د وبارہ شروع ہوا۔ ’کارپس قرآنیکم‘ کی مدت ۱۸ سال، یعنی ۲۰۲۵ء تک ہے، جس میں توسیع کا خاصا امکان ہے۔پروفیسر نُووَرتھ مسلم روایات کا احترام کرنے والی اسکالر سمجھی جاتی ہیں۔
اب تک اس پراجیکٹ کے تحت جو کام ہوا ہے اس میں ۱۵ قرآنی نسخہ جات کی تحریر کشائی (decipher)، معیاری مصحف سے مقابلہ اور ترجمے کا کام کیا گیا ہے جو آن لائن دیکھا جاسکتا ہے۔ ان میں رام پور [اترپردیش، بھارت]کی رضا لائبریری [رضا کتب خانہ: ۱۷۹۲ء]کا مصحف منسوبہ امیر المو منین علی بن ابو طالبؓ بھی شامل ہے۔ یاد رہے کہ قدیم مخطوطات کو پڑھنے کا کام خاصا مشکل ہے، چنانچہ ایک ہی تحریر کو مختلف لوگ مختلف انداز میں پڑھتے ہیں۔ بہت سے مشہور اور قدیم ترین نسخہ جات کو اس فہرست میں شامل کرنے کا کام ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا ہے۔ اس کے علاوہ قراءاتِ متعددہ پر تقریباً ۳۰ مصادر کا جائزہ لیا گیا ہے۔
مسلمانوں کو اس پراجیکٹ سے پریشان ہونے کی کچھ ضرورت نہیں۔ پروفیسر نُووَرتھ خود لکھ چکی ہیں: ’’قرآنی نسخہ جات کی نئی دریافتیں اس بات پر سوال اٹھانے کے بجاے الٹا تصدیق کررہی ہیں کہ قرآن ابتدا ہی سے ایک متنِ ثابت (fixed text) تھا اور انھی سورتوں پر مشتمل تھا، جو ہم آج بھی دیکھتے ہیں۔ وہ اسکالرز کامیاب نہ ہو سکے جو لسانیاتی بنیادوں پر قرآن کو ناقابلِ اعتبار ثابت کرنے کی کوششیں کرتے رہے تھے‘‘۔(۶) یہاں پر یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ قرآن کے ’کریٹیکل ایڈیشن‘ سے مراد قرآن کے متن کے ساتھ اس کےا رتقا، —ترمیم و اضافہ، تعدیل و تہذیب —کو تاریخی اور علاقائی پس منظر کے ساتھ منضبط کرنا ہے۔ ظاہر ہے مذکورہ محترم اور فاضل علما نے اس خبر کو جو باعثِ فخروانبساط سمجھا، تو اس کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ وہ خود صحت ِ قرآن کی صداقت کا اعتراف کر رہے ہیں۔افسوس کہ ڈاکٹر حمیداللہ کے مذکورہ بیان کا بے وجہ بہت چرچا ہوا۔(۷)
اسی نوعیت کا دوسرا پراجیکٹ قرآنیکا (Coranica ) کے نام سے مشہور ہے ۔یہ ۲۰۱۱ء میں جرمن اور فرانسیسی اداروں (Deutsche Forschungsgemeinschaft and the Agence Nationale de la Recherche) کے تعاون سے شروع ہوا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد اسلامی/ عربی روایات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، قرآنی متن کی تاریخ، دستاویزی شہادتوں کی بنیاد پر جمع و تدوین کرنا تھا۔ اس کاوش کا عنوان ہے: Manuscripta et Testimonia Coranica۔
اسی پراجیکٹ کا دوسرا مقصد جزیرۃ العرب کے مذاہب اور السنہ کی نہ صرف جمع و تدوین بلکہ قرآنی زبان پر ان کے اثرات کا جائزہ بھی ہے۔اس کوشش کو Glossarium Coranicum کا عنوان دیا جاتا ہے۔ قرانیکا پراجیکٹ ۲۰۱۴ء میں ختم ہوگیا۔ اس پراجیکٹ کی کارپس قرآنیکم کے ساتھ بہت زیادہ شراکتِ کار رہی ہے، شاید اسی وجہ سے یا نام میں کچھ مماثلت کی بنا پر اکثر لوگ ان کو آپس میں خلط ملط کردیتے ہیں۔
’ قرآنیکا‘ کے بطن سے ایک اور پراجیکٹ ' ’پیلیو قرآن‘ ' (Paleocoran) کے نام سے برآمد ہوا جو ۲۰۱۵ء سے ۲۰۱۸ء کے دورانیہ پر محیط تھا۔ اس کا مقصد ان مخطوطات پر تحقیق و تجزیہ کرنا تھا، جو جامع عمروبن العاص، فسطاط، میں انیسویں صدی شمسی کے آغاز تک محفوظ تھے اور پھر نوآبادیاتی نظام کے طفیل برلن، کیمبرج، شکاگو، ڈبلن، گوتھا، کوپن ہیگن، لیڈن، پیرس، برمنگھم اور سینٹ پیٹرز برگ تک پائے جاتے ہیں۔ یہ تقریباً ۳۵۰ قرآنی نسخے ہیں، جو ۷ہزار اوراق پر مشتمل ہیں۔ جرمن/فرنچ محققین کا کام علم المصاحف (codicology)، علمِ تحاریرِ قدیمہ (paleography) اور تاریخی و سائنسی طریقوں سےان پارچوں پر روشنائی کے تجزیے اور ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے ذریعے ان نسخوں کی عمر نیز ہجاء اور متن کے( مبینہ) تغیرات (Orthographical and textual variants) کا موازنہ قراءت کے لٹریچر سے کرنا بتایا گیا تھا۔
ہالینڈ کا مشہور اشاعتی ادارہ بِرل (Brill) مذکورہ دونوں تحقیقی کوششوں کو ’ ڈاکومینٹا قرآنیکا‘ (Documenta Coranica) نامی سیریزکے عنوان سے شائع کررہا ہے۔ اب تک صرف دو مجلد طبع ہوئے ہیں، ایک جنوری ۲۰۱۸ء میں اور دوسرا جولائی ۲۰۱۹ء میں۔
https://brill.com/view/serial/DOCO?qt-qt_serial_details=0
_______________
حوالے
۱- ڈاکٹر محمد حمید اللہ، خطباتِ بہاولپور، طبع۱۱ (۲۰۰۷ء)، طابع و ناشر ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، اسلام آباد، ص۱۶
۲- Theodor, Nöldeke [1836-1930] ,Geschichte des Qorâns. English [The History of the Qur'an], Theodor Noldeke, Friedrich Schwally, Gotthelf Bergstrasser, Otto Pretzl ; Wolfgang H.Behn ed, Koninklijke Brill NV, Leiden, The Netherlands, 2013, p. xiv.
۳- ]Anton Spitaler, Die Verszahlung des Koran nach Islamischer [The Enumeration of the Koran According to Islamic Tradition], Munchen, 1935. [ادارہ
۴- ]Gunter Luling Kritisch Exegetische Undersuchung des Qurantextes,1970.[ ادارہ
۵- Andrew Higgins,The Lost Archives:Missing for a half century, a cache of photos spurs sensitive research on Islam's holy text, Wall Street Journal, January 12, 2008.
۶- Angelika Neuwirth," Structural, Linguistic and Literary Features", Ch. 5 in Cambridge Companion to the Quran, Jane D. McCuliffe, ed, Cambridge University Press, Cambridge, UK, 2006, pp. 97-114.
۷- Sami Ameri, Hunting for the Word of God: The quest for the original text of the New Testament and the Qur’an in light of textual and historical criticism, Thoughts of Light Publishing, Columbia Heights, MN 55421, USA, 2013.