سیّد ظفر احمد


’کارپس قرآنیکم‘     (Corpus Coranicum) کے حوالے سے ہمارے دو مضامین ماہنامہ    عالمی ترجمان القرآن (جون، جولائی ۲۰۲۰ء)میں شائع ہوئے تھے۔ یہ    ایک جرمن فرنچ منصوبہ ہے، جو دراصل  اس  پراجیکٹ کا  احیا ہے، جو     قرآنِ مجید  کا ایک کریٹیکل ایڈیشن (Critical Edition) شائع کرنے کی غرض سے مشہور جرمن  مستشرق   گوتھیلف برجیسٹریسر (Gotthelf Bergträsser: ۵؍اپریل ۱۸۸۶ء-۱۶؍اگست ۱۹۳۳ء)  نے ۱۹۲۹ء میں شروع کیا تھا۔ ایک ایسے وقت جب جرمنی فاشزم کی طرف بڑھ رہا تھا،  اس نے شرقِ اوسط ، شمالی افریقہ اور یورپ میں قرآن کے قدیم نسخوں کی تلاش اور اپنے لیسا کیمرے کی مدد سے ان کی تصاویر جمع کرنے  کا کام شروع کیا۔  ۱۹۳۳ء میں وہ کوہ پیمائی کی ایک مہم کے دوران ہلاک ہوگیا۔ اس کے بعداوٹو  پریٹزل (Otto Pretzl)  نے اس پر پیش رفت کی ۔ یہ وہی شخص ہے جو پیرس میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ ؒ [۱۹۰۸ء-۲۰۰۲ء]سے ملا تھا اور ان کو اپنے پراجیکٹ کی کچھ تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔  وہ ۱۹۴۱ء میں ایک فوجی مہم پر تھا جب جہاز کے حادثہ میں مارا گیا۔ اس  کا جانشین   اینٹن سپائیٹیلر (Anton Spitaler)  تھا، جس کو اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں ایک طویل  عمر ملی اور ۹۳ برس کی عمر میں ۲۰۰۳ء میں فوت ہوا۔

 ۲۴؍اپریل ۱۹۴۴ء کو  برطانوی بمباری کے باعث بویرین اکیڈمی آف سائنس کی وہ  عمارت، جہاں اس پراجیکٹ کا  دفتر تھا   ملبے کا ڈھیر بن گئی تھی، اورمبینہ طور پر   وہ  نادر ذخیرہ بھی جوقدیم قرآنی نسخوں کی تصاویر  پر مشتمل  تھا ،برباد  ہوگیا تھا  ۔  اگلے ۶۰ برسوں تک  دنیا  بھر کےاہلِ علم یہی سمجھتے رہے کہ برگسٹریسا اور پریٹزل کی جمع کردہ قرآنی  تصاویر کا ذخیرہ  ضائع ہو چُکا ، لیکن حقیقت کچھ اور تھی۔  ۱۹۴۵ء میں  جنگ ختم ہونے کے بعد سپائیٹیلر  تعلیمی دنیا   میں مشغول ہوگیا اور پلٹ کر بھی اس پراجیکٹ کا نام نہیں لیا جس کا وہ ڈائریکٹر رہا تھا۔ البتہ  اپنی وفات سے کچھ سال پہلے اس نے  اپنی شاگرد،  جرمن  مستشرق اور قرآنی لسانیات اور ساختیات کی مشہور محقق،    پروفیسر انجیلیکا نُوَرتھ   (Angelica Neuwirth)،  کواطلاع دی کہ قدیم نُسَخِ قرآن کی تصاویر  ضائع نہیں ہوئی تھیں بلکہ اس کے پاس محفوظ ہیں۔علمی دنیا کو اس  ارادی جھوٹ کی افسوسناک اطلاع اورقرآنی نوادر کی موجودگی کی خوش خبری ۲۰۰۷ء کے اواخر تک ہی مل سکی، جب  پروفیسر نُوَرتھ  کی نگرانی میں یہ پراجیکٹ ’کارپس قرآنیکم‘ کے نام سے  د وبارہ شروع ہوا۔  اس پراجیکٹ کی مدت ۱۸سال یعنی ۲۰۲۵ء تک ہے،  جس کی توسیع کا خاصا  امکان ہے۔

’کریٹیکل ایڈیشن ‘سے کیا مراد ہے؟

اہلِ کتاب  کی  ایک قلیل تعداد  سمجھتی رہی ہے کہ تورات کی پانچوں کتابیں موسیٰ علیہ السلام کی لکھی ہوئی ہیں۔نشاتِ ثانیہ (Renaissance) کے بعد جب یورپ میں علمی سرگرمیاں شروع ہوئیں  تو بائبل بھی تحقیق کا موضوع بنی۔ اس کے تضادات (contradictions)، تناقضات (discrepancies)،  دہرے بیانات (doublets) ، مفارقتِ زمانی (anachronism)،  عدم ار تباط (inconsistencies)،  عدم تاریخیت (lack of historicity) ، اسالیب (dictions) اور  ذخیرۂ الفاظ (vocabulary)کے تنوعات (diversities) پر غورو فکر شروع ہوا۔  

کافی تحقیق کے بعد   یورپی اور خاص  طور پر  جرمن علما  کی توجہ اس طرف گئی کہ تورات کسی ایک مصنف کا متحد و مربوط  کام نہیں  ہوسکتا بلکہ کئی صدیوں میں کئی ہاتھوں  اور مختلف  ذرائع سے تشکیل پایا ہے۔ اس طرح  جو فن پیدا ہوا۔ اس کو انتقادِ مآخذ (source criticism) کہتے ہیں۔  محققین کی کاوشوں کا نتیجہ اس نظریے  کی  صورت  نکلا کہ  ’تورات‘ چار آزادانہ مآخذات  سے تالیف کی گئی ہے:  یہوی  (Yehwist)  یا ’جے‘ مآخذ (J Source)[1] ، الوہی (Elohist)[2]  یا ’ای‘  مآخذ (E Source) ،  قسّیسی (Priestly)  یا ’پی‘ مآخذ   (P Source)[3] ، اوراستثناء (Deutronomy) یا 'ڈی' مآخذ (D Source)[4]۔ ان مآخذات میں سب سے پہلے 'J'وجود میں آیا جس کی تاریخ سلیمانؑ کے عہد (تقریباً ۹۵۰ ق م) میں متعین کی گئی۔ ‘E’ کچھ عرصہ بعد یعنی نویں صدی قبل مسیح میں  لکھی گئی ، اور ‘D’  کی تالیف باد شاہ  یسعیاہ (Josiah) کے عہد سے  پہلے یعنی  ساتویں یا آٹھویں صدی قبلِ مسیح میں ہوئی۔ آخر ی دستاویز یعنی' P'   کا زمانہ قسیس عذرا  یعنی پانچویں  صدی قبل مسیح  طے کیا گیا۔

اس طرح مختلف مراحل کے دوران  ایڈیٹرز یا ’’ریڈیکٹرز‘‘  ان مختلف دستاویزات کی تالیف و تہذیب کرتے رہے۔ چنانچہ ایک ادارتی (Redaction) یا  'آر' مآخذ(R Source ) بھی وجود میں آیا اور اس کا تنقیدی مطالعہ انتقادِ ادارت  ( Redaction Criticism) کہلایا۔   انتقادِ مآخذ (Source Criticism)  کی مشق ہی سےمعلوم ہوا کہ ان مآخذات کے بھی مآخذات ہیں، جو کسی متن کے اندر ادبی اصناف جیسے تمثیل ، کہاوت ، تسبیح ، عشقیہ شعروغیرہ کی صورت میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ گویا ایک نسبتاً بڑے  متن میں چھوٹی چھوٹی  اصناف یا ژانرا (genre)    شامل ہوتی ہیں۔ جب کسی صنف کی نشان دہی کی جاتی ہے تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس صنف کا انتخاب (pericope) کس سیاق میں آیا  ہےاور متن کے مقصد سے کس طرح مناسبت رکھتا ہے۔  اس طرح کی تحقیق کو انتقادِ اصناف (Form Criticism) کہتے ہیں۔

انتقادِ کتبِ مقدسہ کایہ مثالیہ (paradigm) ۱۸۷۸ء سے بیسویں صدی کی ساتویں دہائی تک عالمی طور پر  ایک مقبول بلکہ اجماعی نظریہ رہا۔عام طور پر اسے جرمن اسکالر جولیس ویلہاؤزن  (Julius Wellhausen، م: ۱۹۱۸ء)کے ساتھ  شناخت کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس سے قبل جرمن اسکالر جوہن گاٹفریڈآئزہان  (Johann Gottfried Eichhorn،م:۱۸۲۷ء) اس کام کا آغاز کرچکا تھا۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے کے آخر تک یہ اتفاق رائے  البتہ باقی نہ رہا اور دوسرے نقطہ ہائے نظر سامنے آنے لگے،  لیکن یہ ایک مختلف موضوع ہے۔

’عہد نامہ جدید‘ یا نصرانی بائبل کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ محققین  پہلے مرحلے میں اس نتیجے پر پہنچے  کہ ’انجیل یوحنا‘  (Gospel of John) کو چھوڑ کر جو کہ سب سے آخر میں لکھی گئی، باقی تینوں اناجیل: مرقس (Mark)،   متی (Matthew)، اور لوقا (Luke)— کافی حد تک یکساں ہیں۔ اسی لیے ان کو اناجیلِ یکساں (Synoptic Gospels) بھی کہا جاتا ہے۔  مغربی علمائے اناجیل متفق ہیں کہ یہ یکسانیت اتنی زیادہ ہے کہ کسی طرح بھی اتفاقی نہیں ہوسکتی۔متون کی اندرونی شہادتوں سے معلوم کیا گیا کہ سب سے پہلے ’مرقس‘ لکھی گئی، پھر متی اور اس کے بعدلوقا۔  ان دونوں نے کافی حد تک مرقس پر انحصار کیا اورکچھ اپنا  مواد بھی شامل کیا اور مزید  مواد ایک اور ماخذ سے نقل کیا گیا، جس کی حقیقت کا علم نہیں۔ اس ماخذ کو انجیل 'ق' (Q-source)[5] کا عنوان دیا گیا۔ زیتونہ کالج کے پروفیسر ڈاکٹر علی عطائی اس انجیل ’ق‘ ہی کو اصل انجیل سمجھتے ہیں، جس کا ذکر قرآنِ عظیم میں کثرت سے آتا ہے۔ حسی طور پر اس انجیل کا کوئی وجود نہیں، لیکن کریٹیکل اسکالر  اس کے وجود پراصرار کرتے  ہیں۔

بائبل کے بعد مغربی علما قرآن  کی طرف متوجہ ہوئے اور انھوں نے قرآنِ مجید کے کریٹیکل ایڈیشن پر کام شروع کردیا۔  ’کارپس قرآنیکم‘ ایک ایسی ہی کوشش کا عنوان ہے۔    قرآن کے کریٹیکل ایڈیشن سے مراد  قرآن کے متن کا انتقادی جائزہ، اس کے ’ا رتقاء‘ —’ترمیم و اضافہ‘،’ تعدیل و تہذیب‘ —کو تاریخی اور  علاقائی  پس منظر کے ساتھ  منضبط کرنا ہے۔                               پروفیسرنُوَرتھ اگرچہ مسلم روایات کا احترام کرنے والی سکالر سمجھی جاتی ہیں، لیکن اس پراجیکٹ کے بارے میں ان کا یہی کہنا ہے کہ متنِ قرآن  کے بارے میں اس پراجیکٹ کے ذریعے وہی انتقاد مقصود ہے، جو بائبل پر کیا  جاتا رہا ہے۔

کارپس قرآنیکم

اوپر کے بیان سے معلوم ہوا، مغربی علما  قرآنی متن کاتاریخی و ادبی  تنقیدی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ بہت سے معتبر علمائے مغرب اعتراف کرتے ہیں کہ قرآن لفظ بہ لفظ محفوظ ہے، لیکن یہ بات کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہےچونکہ سائنسی تحقیق کے دائرے سے باہر ہے، اس لیے ان کے لیے یہ ماننا ممکن نہیں۔ اس پراجیکٹ کی نگران پروفیسر    انجیلیکا نُووَرتھ  خود لکھ چکی ہیں:’’قرآنی نُسَخ کی نئی دریافتیں  اس بات پر   سوال اٹھانے کے بجائے الٹا  تصدیق کررہی  ہیں کہ  قرآن  ابتداء ہی سے  ایک متنِ ثابت (fixed text) تھا اور اُن  ہی سُورتوں پر مشتمل تھا، جو ہم آج بھی دیکھتے ہیں۔   وہ  اسکالرز  کامیاب نہ  ہو سکے جو لسانیاتی   بنیادوں پر قرآن کو ناقابلِ اعتبار ثابت کرنے کی کوششیں کرتے  رہے تھے ‘‘۔ [6]

تاہم،  ان کا کہنا یہی ہے کہ ’کارپس قرآنیکم‘ کا مقصد  انتقادِ بائبل  کی طرح کا مطالعہ ہے۔  گویا قرآنِ عظیم بھی بائبل کی طرح  انسانی کلام ہے،  جو ارتقاو تعدیل و تہذیب کے مراحل سے گزرا ۔ ایک طرف قرآن کو متنِ ثابت قراردینا، دوسری طرف تاریخی انتقاد کے طریقوں سے اس کے ابتدائی متن کو دریافت کرنے کی کوشش کرنا ، باہمی تضاد محسوس ہوتاہے۔مغربی علما کے لیے     یہ تسلیم کرنا چنداں مشکل نہیں ہے کہ قرآن لفظ بہ لفظ محفوظ ہے لیکن یہ کہ اس کا مبداء   وحیء الٰہی ہے، اس کے لیے ایمان و یقین درکار ہے جس سے وہ محروم ہیں۔

  پراجیکٹ ’کارپس قرآنیکم‘ اپنے اختتام کے قریب ہے۔ ممکنہ طور پر اس کی مدت میں توسیع کی جائے گی کیونکہ جس مقصد کے لیے یہ شروع کیا گیا تھا وہ  تاحال پورا نہیں ہوسکا ہے۔ البتہ اس سےکچھ خیر بھی برآمد ہوا ہے ۔ مثلاً، اس پراجیکٹ کےذریعے قدیم قرآنی نسخوں ، ان   کے عکس اور ان کی جدید عربی خط میں ٹرانسلٹریشن تک رسائی مہیا   ہوگئی ہے۔  قرآنیکم کی    ڈیٹا بیس (data base) میں کسی بھی آیت کو منتخب کرکے سب سے قدیم نسخوں کا  جائزہ  لیا جاسکتا ہے جس میں وہ آیت آئی ہو۔  قراآءتِ متعددہ  (Multiple Readings)[7]کو  تاریخی ترتیب کے مطابق پیش کیا گیا ہے۔ متن کی تاریخ کی بنیاد پرپراجیکٹ ایک تاریخ وار شرح بھی پیش کرتا ہے جس میں ادبی انتقاد کے ساتھ ازمنۂ قدیم (Claasical Antiquity)  و اواخرِ قدیم  (Late Antiquity)سے متعلقہ متون بھی مہیا کیے گئے ہیں[8] ۔

یہ تمام متون ایک ڈاٹابیس میں ہیں، جس کا  نام   'قرآن کے ماحول سے حاصل کردہ متون'  'Texts from the environment of the Qur'an' (TEQ) رکھا گیا ہے، بالکل اسی وزن پر جس طرح ۱۹۸۲ء میں ' عہد نامہ قدیم کے ماحول سے حاصل کردہ متون'  ('Texts from the Environment of the Old Testament') نامی ڈیٹا بیس بنائی گئی تھی۔ اس طرح ’کارپس قرآنیکم‘ کا  دعویٰ ہے کہ یہ   پہلی کوشش   ہے ،جو اس مسلم جماعت کی تشکیلِ ثانی  کر رہی ہے ،جو  نبی [صلی اللہ علیہ وسلم] اور ان کے اوّلین مخاطبین کے تعامل سے بنی تھی ۔ مختصر یہ کہ ، ڈیٹا بیس کے ذریعے فراہم کردہ دستاویزات کو مذہبی اور ثقافتی علم کی تشکیل نو کی کوشش کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے، جو اُبھرتی ہوئی مسلم جماعت کے پاس تھی۔ قرآنیکم کا دعویٰ ہے کہ اس کوشش کے ذریعے مکہ اور مدینہ منورہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اولین  مخاطبین کے مابین تعامل کے طور پر ابتدائی مسلمان معاشرے کی ترقی اور تشکیل نو ہوئی ہے۔

ذیل  میں ہم ایک قدیم قرآنی نسخہ کے اوپر قرآنیکم کی تحقیقی کاوش (contribution) کا تعارف اور اس پر اپنا تجزیہ پیش کریں گے:

ٹیوبنگن یونی ورسٹی کا قدیم قرآنی مصحف                 (Ma VI 165)

انیسویں  صدی کے وسط میں دمشق میں  جرمن قنصل اور مشہورمستشرق یوہان گوٹفریڈ ویٹشائن (Johann Gottfried Wetzstein، م:۱۹۰۵ء) نےکثیر تعداد میں قدیم عربی مخطوطات،جو زیادہ تر قرآنی تھے،   جمع کیےتھے۔ یہ نسخے  آخرکار جرمنی کے مختلف اداروں میں پہنچے۔ مذکورہ مصحف جو حجازی خط میں لکھا گیا ہے غالباً تب سے ہی  ٹیوبنگن  یونی ورسٹی میں موجود ہے اور آن لائن ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔[9] 

قرآنی مصحف Ma VI 165 کے کل ۷۷اوراق (Folio)  ہیں، جن میں سورۂ بنی اسرائیل کی آیت۳۵   سےسورہ یٰس آیت۵۷ تک مسلسل لکھی گئی ہیں، جو پورے قرآن کا ۲۶ فی صد بنتا ہے۔ ورق کی جسامت   19.5 cm x 15.3 cm ہے، ہر صفحہ پر اٹھارہ تا اکیس سطورتحریر ہیں۔ حَرکات کا اظہار کسی بعد کے ہاتھ نے سرخ نقاط کے ذریعے کیا ہے: حرف کے اوپر سرخ نقطہ  (—)   ’زبر‘ کےلیے ، حرف کے نیچے (—) ’زیر‘ کے لیے ، اور حرف کے سامنے (— )  ’پیش‘  کے لیےاستعمال کیا گیا ہے ، جیسا کہ قدیم قرآنی نسخوں میں دیکھا گیا ہے۔ ’تنوین‘ کے لیے ایک کے بجائے دو سرخ نقاط استعمال کیے جاتے تھے۔آگے چل کر یہ حرکات جدید علامات کی صورت میں بھی ملتی ہیں یعنی ’زبر‘ (—َ)، ’زیر‘ (—ِ) ، اور ’پیش‘ (—ُ) البتہ یہ علامات سیاہ رنگ سے بنائی گئی ہیں اور ظاہر ہے کہ بعد کا اضافہ ہیں۔

  ٹیوبنگن  کایہ نسخہ بھیڑ (sheep)کی کھال سے بنے پارچے پر لکھا گیا ہے۔ جہاں تک اس کی عمر کا تعلق ہے، اس کے تین نمونے ۲۰۲۰ ءمیں ریڈیو کاربن  ڈیٹنگ کے لیے اوکسفرڈ کی لیبارٹری میں بھیجے گئے تھے، جہاں سے  اس کا زمانۂ تحریر۶۴۸ء  اور۶۷۴ء کے دوران معلوم کیا گیا۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعدکم سے کم سولہ یا زیادہ سے زیادہ  ۷۲برسوں کا عرصہ ہی گزرا     ہوگا، جب اس مصحف کی تسوید ہوئی ہوگی۔  اس طرح یہ نسخہ، قرآنِ عظیم کے اوّلین نسخوں میں سے ایک ہے۔  یہ واضح رہنا چاہیے کہ ریڈیو کاربن طریقہ سے جانور کی موت کا زمانہ معلوم ہوتا ہے۔ تحریر پر اس کا اطلاق اس مفروضے پر کیا جا تا ہے کہ پارچے بہت مہنگے ہوتے تھے، اس لیے  ان کو ذخیرہ کے طور پرزیادہ عرصہ تک رکھا جانا ممکن نہیں ہوتا ہوگا۔ گویا جانور کی موت اور تحریر کے درمیان بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوتا ہوگا۔

نہ صرف اس نسخہ بلکہ دوسرے قدیم نسخوں سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ بالکل ابتدا ہی سے قرآن ایک کتاب کی صورت اسی ترتیب پرموجود تھا جس پر اب پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ یہاں  ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی صدی ہجری کے اس نسخہ پر  سورۂ بنی اسرائیل آیت  ۳۵سےسورہ یٰس آیت   ۵۷  تک مسلسل لکھی گئی ہیں۔

یہاں دیئے گئے جدول  میں نسخۂ   ٹیوبنگن کے پہلے صفحے کا عکس دیا جارہا ہے۔ مقابل میں ’کارپس قرآنیکم‘ کی ٹرانسلٹریشن یعنی  جدید عربی خط میں حرف بہ حرف نقل دی ہوئی ہے۔جدول کی دوسری صف میں ایک جانب ’مصحف المدینہ‘ کا متعلقہ متن دیا گیا ہے اور  دوسری جانب  ان    رنگوں  کی تعریف بیان کی گئی ہے، جن سے متن کو  نشان زد کیا گیا ہے ۔  

تجزیہ

ٹرانسلٹریشن کی سطر ۵ اور ۲۰ میں زرد رنگ کے ذریعے بتا یا گیا ہے کہ یہاں ایک حرف غائب ہے،یعنی آیت ۳۷ میںالجِبَالَ  کو الجبللکھا گیا ہے اور  آیت  ۴۶میں ءَاذَانِهِم  کو ادنهم  لکھا گیا ہے۔ اس پر راقم کا تجزیہ یہ ہے کہ قدیم قرآنی ہجاء میں درمیانی ’الف‘ اکثر محذوف ہوتا تھا۔ اسی وجہ سے اس کو خطِ ناقص (Scriptio Defectiva) کہا جاتا ہے۔  آج بھی ’مصحف المدینہ‘ میں اکثر درمیانہ ’الف‘ محذوف ہی ہوتا ہے اور کھڑے زبر کے ذریعے قاری کی رہنمائی کی جاتی ہے کہ ادائی کس طرح کرنی ہے۔  راقم  کےگذشتہ مضمون (ترجمان القرآن، جون ، جولائی ۲۰۲۰ء) میں اس طرح  کی کئی مثالیں دی جاچکی ہیں۔ چنانچہ زرد رنگ سے نمایاں کیا گیا مشاہدہ قرآنی تہجئہ کی ایک  معروف خاصیت ہی کو ظاہر کررہا ہے نہ کہ نقص۔

گلابی رنگ کے ذریعے سطر ۵ میں قرآنیکم  نے مٹادینے کے عمل کو  نمایاں کیا ہے۔  یعنی کاتب   نے آیت ۳۷میں لفظ 'سَيِّئُهُ'  کے بجائے 'سياته' لکھ دیا تھا ، گویا نہ صرف ایک الف  زائد بنادیا تھا بلکہ ایک شوشہ ’ت‘ کا بھی بنایا  اور اس کے دو نقاط بھی ڈالے۔  بعد میں  اس نے خود  اصلاح کردی اور  زائد حرف الف مٹادیا بلکہ حرف ’ت‘  کو بھی مٹادیا، جیسا کہ اس عکس میں دیکھا جاسکتا ہے: ۔  یہ جاننا خالی از فائدہ نہ ہوگا کہ اس لفظ کی قراءت 'سَيِّئَةً 'بھی لٹریچر میں مذکور ہوئی ہے ،جیسا کہ ابنِ مجاہدؒ (م:۳۲۴ھ) نے بیان کیا ہے کہ یہ  ابن کثیر، نافع، اور ابو عمرو  کی قراءت ہے۔[10]  عین ممکن ہے کہ کاتب نے یہاں یہی قراءت استعمال کی ہو، پھر متنبہ ہو کر خود ہی تصحیح کردی ہو۔ کیونکہ قرآن کے قدیم نسخوں میں بسا اوقات ا یک ہی مصحف میں ایک سے زائد قراآت کا استعمال دیکھا گیا ہے۔  ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ  کاتب خود ہی  دوسری قراءت کو مٹاکر اس قراءت کو لکھ دیتا تھا، جس پر باقی ماندہ متن لکھا   ہوتا تھا۔

سبز رنگ  سےسطر ۱۵آیت ۴۴میں اضافی  حرف’الف‘ کو نمایاں کیا گیا ہے،  یعنی  شَىْءٍ  کو ساى  لکھاہے۔ اس تہجئہ کی ایک مثال موجودہ مصاحف میں بھی موجود ہے۔  سورۂ کہف  کی  آیت۲۳ میں آتا ہے: وَلَا تَقُولَنَّ لِشَا۟یْءٍ   إِنِّى فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا۔ اسی طرح ’مصحف المدینہ‘میں شَىْءٍ (ھود۱۱: ۴،  ۱۲، ۵۷، ۱۰۱، الانبیاء۲۱: ۳۰، ۸۱،  الحج۲۲ :۶، ۱۷ )، لَشَىْءٌ (ھود۱۱: ۷۲)، شَىْءٌ (الحج ۱۱:۲۲) اور  سِىٓءَ    ( ھود۱۱: ۷۷ ) —  سب اوّلین مصحف PaB میں سای  کے طور پر آئے ہیں۔[11] گویا یہ اضافی حرف بھی کوئی عیب نہیں، بلکہ جانا پہچانا قرآنی تہجئہ ہے۔

آسمانی رنگ سے سطر۱۴ سے ۱۷ میں ’مصحف المدینہ‘ اور اس نسخہ کا تہجئہ مختلف بتایا گیا ہے۔ جہاں تک سطر ۱۴ کا تعلق ہے، راقم کو تو ’تصولوں‘  ویسا ہی  لکھا نظر آرہا ہے  جیساکہ ’مصحف المدینہ‘ میں ہے(تقولون)۔ البتہ سطر۱۷ میں کاتب سے سہو ہوا ہے، اور  ’حلیما‘ کو نظر بظاہر ’خلیما‘ لکھ دیا ہے، یعنی حرف ’ح‘ کو ’خ‘ سے بدل دیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ نقطہ صفحہ۲ کا ہو، جو اس صفحہ ۱ پر جھلک رہاہو۔

گہرے نیلے رنگ   کے ذریعے سطور ۱۰، ۱۱، ۱۸، ۲۰ اور ۲۱ میں متن میں بظاہر تبدیلی کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ سب سے  پہلے سطر ۱۰ کو دیکھتے ہیں ۔ پارچہ پریہاں آیت کے اختتام پہ سرخ رنگ کی  علامتِ آیت دیکھی جاسکتی ہے۔ پھر اس علامت کے اوپر سرخ رنگ سے ہی  حرف’م‘ صاف دیکھا جاسکتا ہے،جوابجد نظام الاعداد میں ۴۰ کا حرف ہے۔ گویا یہ ’م‘  آیت ۴۰ کی  نشاندہی کررہا ہے۔ قدیم قرآنی نسخوں میں شمارِ آیات کے لیے ابجدی نظام کا استعمال ایک معروف مشاہدہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مغربی علما ابجد نظام الاعداد سے واقف نہیں ہیں بلکہ  قرآنیکم حرف ’م‘ کے اضافہ کو تغیر اس  بنا پرکہہ رہا ہے کہ سرخ رنگ سے یہ اضافہ بعد کا ہاتھ کا ہے، جو صحیح ہے۔  اسی طرح سطور۱۱  ، ۱۸ ، اور ۲۱ میں’ ٱلْقُرْءَانَ‘ کا درمیانی الف موجود نہیں تھا، جس کا اضافہ کسی بعد کے ہاتھ نے گہرے سیاہ رنگ کی روشنائی سے کیا ہے۔ یہ  تینوں مشاہدے درست ہیں۔ سطر ۲۰ میں يَفْقَهُوهُ وَفِىٓ ءَاذَانِهِمْ میں کاتب کے سہو کی وجہ سے حرف ’و‘ رہ گیا تھا جس کی اصلاح کردی گئی ہے، اگرچہ اسی کاتب نے کی ہو یا بعد کے کسی فرد نے۔

اگرچہ یہ ایک ہی صفحہ کا تجزیہ ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نسخۂ ٹیوبنگن کا یہ پہلا صفحہ بعینہ موجودہ قرآن سے مماثل ہے۔  تاہم کوئی صاحب ہمت کریں تو اس کام کو آگے بھی بڑھایا جاسکتا ہے۔ بہرحال متعدد قرآنی نسخ کے مطالعے سے یہ امر متحقق ہوچکا ہے  کہ متنِ قرآن پہلے روز سے ہی مستحکم ہے اور یہ بات مغربی محققین بھی تسلیم کرچکے ہیں۔ یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے کہ وہ قرآن کی حفاظت کرے گا:اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر۱۵: ۹) ’’ اس ذکر کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں‘‘۔

 

[1] یعنی تورات کے وہ حصے جن میں خدا کو ’یہوے‘ (Yehweh) کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ کیونکہ جرمن زبان میں حرف' Y ' کا تلفظ' J'  سے ادا کیا جاتا ہے، اس لیے اس کو Jehovist-source یا مختصرا'ً J' ماخذ کہا جاتا ہے۔

[2] تورات کے وہ مقامات جن میں خدا کا نام  ’الوہیم‘ (Elohim)  ذکر کیا گیا ہے۔

[3] یہ تورات کی کتاب ’احبار‘ (Leviticus) ہے۔

[4] تورات کی  کتاب ’استثناء‘ (Deutronomy) ہے۔

[5] یہ جرمن لفظ quelle” “کا مخفف ہے جس کا معنی ہے:مآخذ۔ اس مآخذ کی نشاندہی سب سے پہلے Johannes Weiss (م:۱۹۱۴ء)نے کی تھی جس نے تجویز کیا تھا کہ یہ زبانی روایات پر مبنی مآخذ ہے۔

[6] Angelica Neuwirth, "Structural, Linguistic and Literary Features", Ch. 5 in Cambridge Companion to the Quran, Jane D. McCuliffe, ed.,

کیمبرج یونی ورسٹی پریس، کیمبرج، ۲۰۰۶ء، ص ۹۷-۱۱۴

[7] عالمِ اسلام کے جلیل القدر عالم ڈاکٹر محمدمصطفیٰ الاعظمی ؒ [۱۹۳۲ء-۲۰ دسمبر ۲۰۱۷ء]کے نزیک قرآن کی دوسری قراءت کے لیے Multiple Readings  کی اصطلاح زیادہ مناسب ہے جبکہ معروف  variant readings ہے۔ دیکھیے اُن کی کتاب:

THE HISTORY OF THE QURĀNIC TEXT From Revelation to Compilation A Comparative Study with the Old and New Testaments,  اعظمی پبلشنگ ہاؤس ، ریاض، سعودی عرب، ۲۰۰۸

[8]  زمانۂ قدیم  (Classical Antiquity) سے مراد  آٹھویں صدی قبلِ مسیح سے رومن ایمپائر کے زوال یعنی پانچویں صدی شمسی تک کا عرصہ لیا جا تاہے، جب کہ تیسری صدی شمسی  سے  ساتویں یاآٹھویں صدی شمسی کے عرصے کو أواخر ازمنۂ قدیم  (late anti quity)کہتے ہیں، جس کے بعد پھر ازمنۂ وسطیٰ شروع ہوتا ہے۔

[9] http: idb.ub.uni-tuebingen.de diglit mavi165

[10] کتاب السبعۃ لابنِ مجاہد۔ ص  ۳۸۰،بع دارالمعارف ،مصر۔

[11] مصحف  PaB پر ملاحظہ کیجیے عالمی ترجمان القرآن  ،  جولائی ۲۰۲۰ء

 

 

 

۲۲جولائی ۲۰۱۵ء کا دن اس اعتبار سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے جب برمنگھم یونی ورسٹی کا یہ اعلان دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کی زینت بنا کہ وہاں پر موجود دو ورقی پارچہ (parchment) قرآنِ عظیم کے قدیم ترین نسخوں میں سے ایک ہے۔ بتایا گیا کہ جس جانور کی کھال پر یہ مخطوطہ لکھا گیا وہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں زندہ رہا ہوگا [1]۔ برمنگھم یونی ورسٹی میں اسلامی اور مسیحی علوم کے پروفیسر ایمریطس ڈیوڈ تھامس (David Thomas) کے خیال میں تو ان آیات کے کاتب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا ہوگا ۔قرآنِ پاک کے اس قدیم نسخہ کی دریافت کی خبر بڑی تیزی سے پھیلی جس نے مسلم دنیا میں خوشی کی لہر دوڑا دی [2]۔ اس کے ساتھ ہی دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ ___ —پرنٹ اور الیکٹرانک ___ —میں تجزیوں، تبصروں اور انٹرویوز کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جس میں نمایاں علمی شخصیات نے بھی حصہ لیا۔

اس دریافت کی روحِ رواں برمنگھم یونی ورسٹی کی پی ایچ ڈی کی تحقیق کار البا فیڈیلی (Alba Fedeli) ہیں، جو بہت مسرت سے کہتی ہیں کہ اس قسم کے واقعات کامیڈیا تک پہنچنا میرے لیے ایک انوکھا تجربہ تھا [3]۔

یہ نسخہ یونی ورسٹی آف برمنگھم کی کیڈبری ریسرچ لائبریری (Cadbury Research Library) میں گوشۂ مِنگانا برائے نُسَخِ شرقِ اوسط (Mingana Collection of Middle Eastern Manuscripts)میں ۱۹۳۶ء سے موجودتھا۔1 یہ ایک مصحف کا حصہ ہے، جس کا ۱۶؍اوراق پر مشتمل دوسرا جز پیرس میں فرانس کی قومی لائبریری (Bibliotheque  nationale de France—BnF) میں ۱۸۳۳ء سے محفوظ ہے[4]۔ اسی وجہ سے قرآنِ مجید کے اس قدیم ترین مصحف کے طویل نام میں پیرس اور برمنگھم شہروں کا ذکر ہے یعنی: ’’پیریسینو برمنگھم یانسس‘‘۔   علمِ تحاریرِ قدیمہ (Paleography)، علمِ تاریخِ فن (art history)، علمِ مصاحف (Codicology) اور علمِ تاریخِ لسانیات (Philology) کے ماہرین ان اوراق سے واقف رہے ہیں۔ لیکن صحیح معنوں میں اس مصحف کو بڑے پیمانے پر شہرت ۲۲ جولائی ۲۰۱۵ء کے بعد سے ملنا شروع ہوئی ۔ اس مصحف کومختصراً MS PaB کہتے ہیں ۔

جامع عمروؓبن العاص

قاہرہ کے جنوب میں واقع فسطاط (Fustat) کی جامع عمروؓبن العاص، ۲۱ھ / ۶۴۲ء میں فاتح مصر حضرت عمرو ؓبن العاص [م:۶ جنوری ۶۶۴ء] نے تعمیر کرائی تھی۔ اس مسجد میں قدیم قرآنی مصاحف کا ذخیرہ صدیوں سے موجود تھا جس کی کچھ تفصیل اسلامی روایات کے لٹریچر میں ملتی ہے۔ جرمن سیاح اور محقق اُولرِخ یاسپر زیٹسن (Ulrich Jasper Seetzen :م۱۸۱۱ء)نے جنوری ۱۸۰۹ء میں اس مسجد کی زیارت کی تھی۔ اس کو شمالی جانب ایک چھوٹا کمرہ دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں کثیر تعداد میں قدیم و نادرقرآنی نُسَخ تہ بر تہ رکھے ہوئے تھے۔ اس نے منتظمین سے ان نوادرات کو خریدنے کی خواہش ظاہر کی، جس پر اس کو بتایا گیا کہ یہ اشیاء وقف للہ تعالیٰ ہیں اور ان کی خرید و فروخت جائز نہیں۔ اس پر زیٹسن نے اس وقت کے فرانس اور اٹلی کے مصر میں مشترکہ قنصل ژاں لوئی اسیلاں دوشیرفيل (Jean-Louis Asselin de Cherville، م:۱۸۲۲ء )کو اس علمی خزانے کی اطلاع دی ا ور اس کے حصول کی طرف توجہ دلائی۔ دو شرفيل خود بھی ایک مستشرق تھا۔ اس نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے ۱۸۰۶ء سے ۱۸۱۶ء کے دوران جامع عمروؓ سے کثیر تعداد میں نُسَخِ قدیمہ حاصل کرلیے اور ان کو اپنے ساتھ پیرس لے گیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد وہ فوت ہوگیا،چنانچہ اس کو خود تو ان کے مطالعہ کا موقع نہیں ملا ہوگا،البتہ۱۸۳۳ء میں جب یہ اوراق فرانس کی قومی لائبریری (Bibliotheque nationale de France—BnF) نے خرید لیے [4] تب سے یہ قیمتی دستاویزات بہت سی تحقیقات کا موضوع رہی ہیں۔

 جامع عمروؓ سے حاصل ہونے والے نوادرات میں اور بھی کئی ایسے اہم قرآنی نُسَخ ہیں جن کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ مضامین میں اس سلسلے میں ہم مزید کچھ عرض کریں گے۔ زیرِ نظر مضمون میں ہمارا موضوع مصحف MS PaB ہے، جس کے پیرس والے اوراق کو BnF Arabe 328c (مختصراً BnF328c) اور برمنگھم میں پائے جانے والے دو ورقی نسخہ کو Mingana Islamic Arabic 1572a  (مختصراً Min1572a ) کے نام سے جانا جاتا ہے [5]۔

یہ جان لینا شاید فائدہ سے خالی نہ ہو کہ فسطاط کے خزائن، نو آبادیاتی نظام کے طفیل نہ صرف پیرس اور برمنگھم بلکہ برلن، کیمبرج، شکاگو، ڈبلن، گوتھا، کوپن ہیگن، لیڈن، اورسینٹ پیٹرز برگ تک پھیلے ہوئے ہیں [6] ۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ مصحف MS PaB کے مزید اوراق دوسرے مراکزِ علم میں موجود ہوں اور جو کسی وقت منظرِ عام پر آسکتے ہیں۔     

 نسخۂ برمنگھم (Min1572a)

۱۹۳۶ء سے مذکورہ دو ورقی نسخہ برمنگھم یونی ورسٹی کی کیڈبری لائبریری کے گوشۂ مِنگانا میں موجود ہے ۔ یہ فولیو نمبر f.1  اور f.7 تھے۔سات (7) دوسرے اوراق ___—جن کو Min1572b کہا جاتا ہے___کے ساتھ یہ مجلد تھے اور پورے مجموعہ کو MS Mingana 1572 کا نام دیا گیا تھا۔ اس مجلد کے ساتھ  ہاتھ سے لکھے ایک نوٹ پر اس کا زمانہ آٹھویں صدی شمسی لکھا ہوا تھا ۔

 ۲۰۱۱ء میں اطالوی سکالر البا فیڈیلی (Alba Fedeli) نے پی ایچ ڈی تحقیق کے لیے خاص طور پر برمنگھم یونی ورسٹی کا انتخاب کیا کہ وہاں پر قرآنی مخطوطات کا ایک بڑا ذخیرہ تھا اور  ساتھ میں قدیم متون پر کام کرنے کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکسچول سکالرشپ اینڈ الیکٹرانک ایڈیٹنگ (Institute of Textual Scholarship and Electronic Editing)کی شکل میں ضروری تحقیقی اورتکنیکی مہارت بھی میسر تھیں۔ فیڈیلی مشہور مستشرق سرجو نو یا نوزادہ (Sergio Noja Noseda ) کی شاگرد رہی تھیں اور ان کے ساتھ نُسَخِ قدیمہ پر دس سال تک تحقیق کا تجربہ رکھتی تھیں۔

البافیڈیلی نے جب برمنگھم میں ان دو اوراق کا تفصیلی مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ مخطوطہ  خط حجازی2  میں لکھا گیا ہے، جو بہت قدیم نُسَخ ہی میں دیکھا گیا ہے ۔ اور یہ کہ اس میں ہم شکل حروفِ صحیحہ (consonants) جیسے '’ب‘، ’ت‘، ’ث‘ ' کو ممیز کرنے والےنقاط (diacritics) بہت  کم پائے جاتے ہیں،جب کہ حَرکات یا اعراب (vocalization) تو سرے سے موجود ہی نہیں۔ اسی سے اندازہ لگایاکہ یہ پارچے ساتویں صدی شمسی کے نصف اول میں لکھے گئے ہوں گے۔ فیڈیلی نے ان اوراق کی عمر معلوم کرنے کے لیے ریڈیو کاربن طریقہ استعمال کرنا چاہا لیکن وسائل آڑے آگئے۔ پھر انھی دنوں برلن اور پیرس کی اکادیمیوں نے بھی ان مخطوطات کی تاریخ جاننے میں دل چسپی کا اظہار کیا کہ یہ ادارے مشہور پراجیکٹ ’قرآنیکا‘ (Coranica) 3 کے تحت قدیم قرآنی نُسَخ پر تحقیق کررہے تھے ۔ چنانچہ کیڈبری لائبریری نے اوکسفرڈ یونی ورسٹی کی آثارِ قدیمہ اور تاریخِ فن کی ریسرچ لیبارٹری (Archeology and Art History Research Laboratory) میں واقع ’ریڈیو کاربن ایکسیلیریٹر یونٹ‘ (Radiocarbon Accelerator Research Unit) کی خدمات حاصل کیں، تاکہ اس پارچے کی تاریخ کا تخمینہ لگایا جائے۔

 ۲۲جولائی ۲۰۱۵ء کو برمنگھم یونی ورسٹی نے اعلان جاری کیا کہ دو اوراق پر مشتمل چرمی نسخہ  ۹۵ء۴ فی صد امکانیت (Probability)کے ساتھ ۵۶۸ء سے ۶۴۵ء کے درمیانی عرصے میں لکھا گیا تھا ۔4  یونی ورسٹی کے محققین کے نزدیک یہ نسخہ جنا بِ محمدؐ زندگی کے بہت قریب زمانے میں  لکھا ہوا معلوم ہوتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا زمانہ ۵۷۰ء تا ۶۳۲ء معروف ہے ۔ پروفیسر ڈیوڈ تھامس کے خیال میں ’برمنگھم مخطوطے‘ کی انشاء ۶۵۰ء سے ۶۵۶ء کے درمیان ہونا عین ممکن ہے، گویا تیسرے خلیفہ عثمانؓ کا زمانہ ۔ متحدہ عرب امارات کی محمدبن راشد المکتوم نالج فاؤنڈیشن کے سربراہ جمال بن حویریب کے خیال میں یہ پہلے خلیفہ ابوبکر صدیقؓ کا جمع کردہ قرآن ہے [8]۔

دُنبہ یا بکرے کی کھال سے بنے پارچہ پر لکھا گیا یہ مخطوطہ دو جڑے ہوئے اوراق (Bifolio) پر مشتمل ہے یعنی چار صفحات۔ اس کی پیمایش تقریباً۳۳ء۳ س مx   ۲۴ء۴ س م ہے، اور ۲۳ سے ۲۵ سطور فی صفحہ ہیں۔ پارچہ پر روشنائی سے ’خطِ حجازی‘ میں سورہ الکہف کی آیات ۱۷-۲۲ فولیو نمبر7r، الکہف۲۳-۳۱  فولیو نمبر7v ، سورہ مریم کی آیات۹۱-۹۸  اور سورہ طٰہٰ کی آیات ۱-۱۲ فولیو نمبر1r اور طٰہ ۱۳-۴۰ فولیو نمبر 1v پرلکھی ہوئی ہیں ۔5  اس طرح کل ۶۳ آیات ہیں، جو ۹۳سطور پر رقم ہیں [9]۔ ان اوراق کی تصاویر اشارہ [12] میں دیکھی جاسکتی ہیں۔

نسخۂ پیرس (BnF328c)

فانسوا دیراش (François Déroche: پ ۱۹۵۲ء) عالمِ مصاحف (Codicologist) ہیں، جن کی علمی خدمات کے باعث ان کو فرانس کا اعلیٰ ترین سول اعزاز ’لیجن آف آنر‘ دیا گیا تھا۔ ان کی تحقیق کے مطابق نسخۂ BnF328c اواخر پہلی صدی ہجر ی یااوائل دوسری صدی میں لکھا گیا ہوگا [13] (ص 74)۔ لیکن جیسا کہ ابتدا میں ذکر ہوا، یہ مصحف پہلی صدی ہجری کے نصف اول میں لکھا گیا تھا اور اس اعتبار سے قرآنِ پاک کا قدیم ترین نسخہ کہا جاسکتا ہے ۔ فولیو ۷۱سے ۷۸ میں جو سات (۷)اوراق ہیں، ان میں سورہ یونس کی آیت ۳۵ سے سورہ ہود کی آیت ۱۱۰تک لکھی ہوئی ہیں۔ پھر فولیو ۷۸ سے ۸۶ تک نو(۹) اوراق میں سورہ طٰہ کی آیت ۹۹ سے لے کر سورۂ مومنون کی آیت ۲۷ تک مرقوم ہیں۔ نسخۂ BnF328c کے ان اوراق کی تصاویر جامع عمروؓ کے دوسرے نُسَخ کے ساتھ ایک ہی جلد بعنوان ۳۲۸ میں دیکھی اور وہاں سے ڈاؤنلوڈ کی جاسکتی ہیں [14] ۔(جاری)

 حوالہ جات

1.         "Birmnigham Quran manuscript dated among the oldest in the World", University of Birmingham Press Release, 22  July 2015, https://www.birmingham.ac.uk/news/latest/2015/07/quran-manuscript

            -22-07-15.aspx.

2.         "Oldest Koran fragments found in Birmingham University" July 22, 2015  in https://www.bbc.com/news/business-33436021.

3.         مخطوطات القرآن والفيلولوجيا الرقمية: حوار مع الدكتورة البا فيديلي ،أحمد وسام شاكر,  21 Nov 2016, https://iqsaweb.wordpress.com/2016/11/21.

4.         أحمد وسام شاكر, "' مصحف عثمان' بدارالكتب المصرية: الأصول والتاريخ",

            https://www.quranmss.com.

5.         Codex Arabe 328c – -A Qur'anic Manuscript From 1st Century of Hijra, https://www.islamic-awareness.org/quran/text/mss/m1572.

6.         Paleocoran: Studying variant readings and spellings in Egyptian Quranic Manuscripts (7th to 10th century AD) for a better understanding of the history of the Quran, DFG-ANR Project # 264680664, https://paleocoran.eu./

7.         FAQs, https://www.birmingham.ac.uk/facilities/cadbury/birmingham-

            quran-mingana-collection/birmingham-quran/faqs.aspx.

8.         Birmingham's ancient Koran history revealed, Sean Coughlan Education correspondent (https://www.bbc.com/news/business-35151643,  23 December 2015.

9.         Alba Fedeli, Early Qur’ānic Manuscripts, Their Text, and The Alphonse Mingana Papers Held in the Department of Special Collections of The University of Birmingham, PhD thesis, Institute for Textual Scholarship and Electronic Editing, Department of Theology and Religion, College of Arts and Law, University of Birmingham, November 2014.

10.       Coranica—Context for the Text, Research Project

            Berlin-Brandenburg Academy of Science and Humanities

             https://www.coranica.de/front-page-en.

11.       François Déroche, Quran's of the Umayyads, A Preliminary Overview, copyright 2014 by Koninklijke Brill NV, Leiden, The Netherlands.

12.       https://epapers.bham.ac.uk/116.

13.       François Déroche, Islamic Codicology: An Introduction to the Study of Manuscripts in Arabic Script; Translated by Deke Dusinberre and David Radzinowicz; Edited by Muhammad Isa Waley. London: Al-Furqan Islamic Heritage Foundation, 1427 AH/2006AD.

14.       https://gallica.bnf.fr/ark:/12148/btv1b8415207g/f150.image.

حواشی

1          ا لفانسو مِنگانا  (Alphonso Mingana) عراقی نژاد اشوری النسل سابق کالڈیَن پادری تھا جو برمنگھم  کا رہایشی تھا اور انگلستان آنے کے بعد عیسائیوں کے فرقہ کویکر (Quaker)میں شامل ہوچکا  تھا۔ اس کی ملاقات چاکلیٹ کے مشہور برانڈ کیڈبری کے مالک ایڈورڈ کیڈ بری (Edward Cadbury) سے ہوئی جو خود بھی ایک کویکر تھا اور خدمتِ خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ کیڈبری اپنے شہر میں قدیم و نایاب مخطوطات و نوادر پر مشتمل ایک عالمی معیار کا مرکز بنانا چاہتا تھا ۔ اس نے مِنگاناکی مالی طور پر سرپرستی کی کہ وہ مشرقِ وسطیٰ جا کر اس کی لائبریری کے لیے نایاب مخطوطات حاصل کرے۔ چنانچہ مِنگانا نے مشرقِ وسطیٰ کے تین اسفار کیے اور کیڈ بری لائبریری کے لیے ۳ہزار عربی/سریانی نسخے حاصل کیے۔ بقولِ بعض اس نے مذکورہ نسخہ اپنے سفرِ مصر کے دوران حاصل کیا تھا [5]جبکہ البا فیڈیلی نےصراحت کی ہے کہ مِنگانا نے ۱۹۳۶ء میں اثریات کے ایک تاجر (antiquarian) فان شرلنگ (von Scherling) سے یہ مخطوطات خریدے تھے۔ مِنگانا علمی معاملات میں اگرچہ ایک متنازعہ شخصیت رہا تھا تاہم اس میں کلام نہیں کہ وہ ایک محقق اور کیوریٹر بھی تھا۔ کیڈبری اُس کے کام سے اتنا متاثر تھا کہ اپنے مرکز کا نام اس کے پہلے کیوریٹر کے نام پرمِنگانا کلیکشن رکھا۔ یہ کلیکشن ۱۹۹۰ء کے اواخر میں یونی ورسٹی آف برمنگھم کے سیلی اوک کالجز (Selly Oak Colleges)  کا حصہ بن گیا ۔ مِنگانا نے ۱۹۳۷ء میں اپنی وفات تک مشرقِ وسطیٰ سے خریدے گئے ۳ہزار نسخوں کے کیٹلاگ تین جلدوں میں مکمل کرلیے تھے۔ چوتھا کیٹلاگ اس کے جانشینوں نے ۱۹۶۳ء میں شائع کیا، جس کا نظر ثانی ایڈیشن ۱۹۸۵ء میں شائع ہوا تھا  [9-7]۔

2          ’خط حجازی‘ کسی معیاری خط کا نام نہیں ہے بلکہ یہ اصطلاح  اطالوی عالم میکیلی اماری (Michele Amari، م: ۱۸۸۹ء )نے فرانس کی قومی لائبریری میں قدیم مخطوطاتِ قرآنیہ پر کام کے دوران وضع کی تھی۔ اس نے ابن الندیم کی ’الفہرست‘ سے مکہ و مدینہ کی قدیم خطاطی کے اوصاف کا جائزہ لیا، تو دیکھا کہ وہاں کے خطاط مستطیلی عمودی خط دائیں طرف ترچھا کرکے لکھتے ہیں ، اسی طرح حرف ’الف‘ بھی اپنے قاعدہ کی جانب یعنی دائیں جانب مائل ہوتا ہے۔ اس طرح ، اماری نےاس قسم کی خطاطی کے لیے حجازی اور    آسٹرین عالم جوزف فان کاراباشیک (Joseph von Karabashik، م:۱۹۱۸ء)نے مائل کی اصطلاحات استعمال کیں[3]۔ ضروری نہیں کہ ہر نسخہ جو اس خط میں لکھا ہوا ملے وہ حجاز کا ہی لکھا ہوا ہو۔

3          یہ جرمن -فرانسیسی مشترکہ تحقیقی منصوبہ تھا (۲۰۱۱ء-۲۰۱۴ء) ، جس کے ایک جز کا مقصدقرآنی متن کی تاریخ معلوم کرنے کے لیے دستاویزی شہادتوں کی جمع و تدوین و اشاعت تھا۔ دوسرا جزء جزیرۃ العرب کے مذاہب اور السنہ کی تحقیق ، تدوین اور قرآنی زبان پر ان کے مبینہ اثرات سے متعلق تھا[10]۔

  4        ’ریڈیو کاربن ڈیٹنگ‘ قدیم تحریروں کی عمر جاننے کا ایک طریقہ ہے۔ یہ طریقہ اصل میں اس مویشی کی موت کا زمانہ بتاتا ہے جس کی چرم یا کھال سے پارچہ بنایا گیا۔ کچھ علما، بالخصوص فانسوا دیراش، کہتے ہیں کہ اس طریقے کی افادیت کے باوجود فیصلہ کن راے ماہرِ تحاریرِ قدیمہ، ماہرِ تاریخی لسانیات اور مؤرخِ فن ہی کی ہونا چاہیے۔ ریڈیو کاربن سے حاصل کردہ نتائج عموماً تخمینی عمر سے کم کی طرف رجحان رکھتے ہیں۔ جن دستاویزات میں کولوفون (colophon) کے ذریعے قطعی تاریخ معلوم ہوتی ہے، ان کی ریڈیو کاربن ڈیٹنگ بھی اصل سے کم کی طرف مائل تھی۔ شاید یہ کہنا صحیح ہو کہ اس کے نتائج کی حدود (range) میں سے زیریں نصف کو ترک کردینا چاہیے۔ بالائی حد کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ اصل تاریخ میں کچھ برسوں کا اضافہ ممکن ہے۔ مزید معلومات کے لیے دیکھیے دیراش کی کتاب  [11] ص ۳  اور ص۱۱-۱۴

5          ’ r‘ سے مراد ہے ریکٹو (recto) یعنی ورق کا بایاں یا طاق صفحہ ۔ ’و‘ سے مراد فرسو (verso) ہے یعنی دایاں یا جفت صفحہ۔ وہ زبانیں جو بائیں سے دائیں لکھی جاتی ہیں ان کے اوراق کے ریکٹو اور فرسو صفحات اس کا عکس ہوں گے۔ بعض علماء صفحہ کی علامت کے لیے ' r/v 'کے بجائے ' a/b 'بھی لکھتے ہیں۔

’کارپس قرآنیکم‘ (Corpus Coranicum) برلن-برانڈنبرگ اکیڈیمی آف سائنسز اینڈ ہیومینی ٹیز (Berlin-Brandenburg Academy of Sciences and Humanities) کا پراجیکٹ ہے، جو پچھلی صدی کی دوسرے عشرے میں شروع ہونے والے پراجیکٹ کا  احیا ہے۔

 یہ وہی پراجیکٹ ہے جس کے بارے میں جلیل القدر عالم ڈاکٹر محمد حمید اللہ [۹ فروری ۱۹۰۸ء - ۱۷؍دسمبر ۲۰۰۲ء] نے مارچ ۱۹۸۰ء کو اسلامیہ یونی ورسٹی بہاولپور میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایاتھا کہ اس کا مقصد یہ تھا کہ:

قرآن مجید کے قدیم ترین دستیاب نسخے خرید کر، فوٹو لے کر، جس طرح بھی ممکن ہو جمع کیے جائیں۔ جمع کرنے کایہ سلسلہ تین نسلوں تک جاری رہا۔ جب میں ۱۹۳۳ء میں پیرس یونی ورسٹی میں تھا تو اس کا تیسرا ڈائریکٹر [اوٹو]پریتسل Pretzl  [۱۸۹۳ء- ۱۹۴۱ء] پیرس آیا تھا، تاکہ پیرس کی پبلک لائبریری میں قرآن مجید کے جو قدیم نسخے پائے جاتے ہیں ان کے فوٹو حاصل کرے۔ اس پروفیسر نے مجھ سے شخصاً بیان کیا کہ اس وقت  (یہ ۱۹۳۳ء کی بات ہے) ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں قرآن مجید کے ۴۲ ہزار نسخوں کے فوٹو موجود ہیں اور مقابلے (collation) کا کام جاری ہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں اس ادارے کی عمارت پر ایک امریکی بم گرا اور عمارت، اس کا کتب خانہ اور عملہ سب کچھ برباد ہوگیا۔ لیکن جنگ شروع ہونے سے کچھ ہی پہلے ایک عارضی رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ اس رپورٹ کے الفاظ یہ ہیں کہ’’ قرآنِ مجید کے نسخوں میں مقابلے کا جو کام ہم نے شروع کیا تھا، وہ ابھی مکمل تو نہیں ہوا لیکن اب تک جو نتیجہ نکلا ہے وہ یہ کہ ان نسخوں میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں تو ملتی ہیں، لیکن اختلافاتِ روایت ایک بھی نہیں۔(۱)

 یہی بات شاید ڈاکٹر حمید اللہؒ نے پہلے بھی کہیں لکھی یا کہی ہوگی کیونکہ مولانا مودودیؒ نے بھی بالکل اسی طرح کے الفاظ کہے تھے،جن کو راقم نے ان کے ایک درس کے آڈیو ریکارڈ سے سنا تھا۔

معلوم نہیں ڈاکٹر محمد حمیداللہ صاحب کس عارضی رپورٹ کا ذکر کر رہے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ یہ پراجیکٹ قرآن کا ایک کریٹیکل ایڈیشن (Critical Edition) شائع کرنے کی غرض سے ۱۹۲۹ء میں مشہور جرمن مستشرق گوتھیلف برگس ٹیسر[Gotthelf Bergstasser : ۱۸۸۶ء- ۱۹۳۳ء]  نے شروع کیا تھا۔ ڈاکٹر حمید اللہؒ نے یہ جو تین نسلوں کا ذکر کیا ہے، وہ اس اعتبار سے صحیح ہے کہ پراجیکٹ کے رسمی اجرا سے پہلے غیر رسمی طور پر بہت کام ہوتا رہا تھا ۔ بہرحال  ۱۹۳۳ء میں برگس ٹیسر کی وفات کے بعد ڈاکٹر پریٹزل (Otto Pretzl) نے اس پر پیش رفت کی۔ اس کو مصاحف اور قراءات پر قدیم لٹریچر جمع کرنے کا اس قدر شوق تھا کہ اس نے استنبول کے ایک مقری سے فنِ قراءات بھی سیکھا۔ یہاں تک کہ ایک موقع پر ایک دمشقی مقری اس کی قراءت سن کر حیران رہ گیا تھا۔(۲)ترکی میں رہنے کی وجہ سے اس کے مسلم شیوخ اور علما سے بھی اچھے مراسم قائم ہوگئے تھے۔ وہ ۱۹۴۱ء میں ایک فوجی مہم پر تھا، جب ہوائی جہاز کے فضا میں تباہ ہوجانے کی وجہ سے مارا گیا۔ اس کا جانشین ڈاکٹر اینٹن سپائی ٹالر [Anton Spitaler:  ۱۹۱۰ء- ۲۰۰۳ء] تھا، جس کو اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں ایک لمبی عمر ملی۔(۳)

۲۴؍اپریل ۱۹۴۴ء کو امریکی نہیں بلکہ برطانوی بمباری کے باعث، بویرین اکیڈمی آف سائنس کی وہ عمارت کہ جہاں اس پراجیکٹ کا دفتر تھا، ملبے کا ڈھیر بن گئی اورمبینہ طور پر وہ نادر ذخیرہ بھی، جو قرآنی نُسَخ کی تصاویر وغیرہ پر مشتمل تھا، سب برباد ہوگیا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد ڈاکٹر سپائی ٹالر تعلیمی دنیا میں مشغول ہوگیا اور پلٹ کر بھی اس پراجیکٹ کا نام نہیں لیا، جس کا وہ ڈائریکٹر رہا تھا۔ عربی زبان پر اس کی گرفت بہت مضبوط تھی لیکن اس نے علمی دنیا میں مقالات وغیرہ    لکھنے سے گریز ہی کیا۔ وہ غیر روایتی نقطہ ہاے نظر کو پسند نہیں کرتا تھا۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے میں مستشرق گونتر لولینگ [ Günter Lüling:  ۱۹۲۸ء- ۲۰۱۴ء]  کا پی ایچ ڈی کا مقالہ،(۴)جس میں اس نےیہ نظریہ پیش کیا تھا کہ ’’قرآن عیسائی حمدیہ نشیدوں سے تالیف کیا گیا تھا، اس افسانے کو ڈاکٹر سپائی ٹالر نے نہ صرف رد کردیا تھا، بلکہ یونی ورسٹی سے اس کی نوکری بھی ختم کروا دی تھی۔(۵) کہا جاتا ہے کہ وہ مذہبی کتب کا احترام کرتا تھا ، شاید یہی وجہ تھی کہ وہ قرآن کے اس پراجیکٹ سے غیر متعلق رہنا چاہتا ہو؟

 اپنی وفات سے کچھ سال پہلے اس نے اپنی شاگرد، مشہور جرمن مستشرقہ اور علومِ قرآنی کی تحقیق کار، اور برلن میں فری یونی ورسٹی کی پروفیسر انجلیکا نُووَرتھ [ Angelika Neuwirth : پ:۱۹۴۳ء] کواطلاع دی کہ قدیم نُسَخِ قرآن کی تصاویر ضائع نہیں ہوئی تھیں، بلکہ اس کے پاس محفوظ ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس کے رفقا کا ایک محدود حلقہ ان تصاویر کے بارے میں جانتا تھا کہ وہ ضائع نہیں ہوئی تھیں۔ بہرحال، علمی دنیا کو پہلے تو اس ارادی جھوٹ کی اطلاع اور پھر نوادر کی موجودگی کی خوش خبری ۶۰سال بعد ۲۰۰۷ء کے اواخر میں ہی مل سکی، جب پروفیسر نُووَرتھ کی نگرانی میں یہ پراجیکٹ د وبارہ شروع ہوا۔ ’کارپس قرآنیکم‘ کی مدت ۱۸ سال، یعنی ۲۰۲۵ء تک ہے، جس میں توسیع کا خاصا امکان ہے۔پروفیسر نُووَرتھ مسلم روایات کا احترام کرنے والی اسکالر سمجھی جاتی ہیں۔

اب تک اس پراجیکٹ کے تحت جو کام ہوا ہے اس میں ۱۵ قرآنی نسخہ جات کی تحریر کشائی (decipher)، معیاری مصحف سے مقابلہ اور ترجمے کا کام کیا گیا ہے جو آن لائن دیکھا جاسکتا ہے۔ ان میں رام پور [اترپردیش، بھارت]کی رضا لائبریری [رضا کتب خانہ: ۱۷۹۲ء]کا مصحف منسوبہ امیر المو منین علی بن ابو طالبؓ بھی شامل ہے۔ یاد رہے کہ قدیم مخطوطات کو پڑھنے کا کام خاصا مشکل ہے، چنانچہ ایک ہی تحریر کو مختلف لوگ مختلف انداز میں پڑھتے ہیں۔ بہت سے مشہور اور قدیم ترین نسخہ جات کو اس فہرست میں شامل کرنے کا کام ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا ہے۔ اس کے علاوہ قراءاتِ متعددہ پر تقریباً ۳۰  مصادر کا جائزہ لیا گیا ہے۔

مسلمانوں کو اس پراجیکٹ سے پریشان ہونے کی کچھ ضرورت نہیں۔ پروفیسر نُووَرتھ خود لکھ چکی ہیں: ’’قرآنی نسخہ جات کی نئی دریافتیں اس بات پر سوال اٹھانے کے بجاے الٹا تصدیق کررہی ہیں کہ قرآن ابتدا ہی سے ایک متنِ ثابت (fixed text) تھا اور انھی سورتوں پر مشتمل تھا، جو ہم آج بھی دیکھتے ہیں۔ وہ اسکالرز کامیاب نہ ہو سکے جو لسانیاتی بنیادوں پر قرآن کو ناقابلِ اعتبار ثابت کرنے کی کوششیں کرتے رہے تھے‘‘۔(۶)  یہاں پر یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ قرآن کے ’کریٹیکل ایڈیشن‘ سے مراد قرآن کے متن کے ساتھ اس کےا رتقا، —ترمیم و اضافہ، تعدیل و تہذیب —کو تاریخی اور علاقائی پس منظر کے ساتھ منضبط کرنا ہے۔ ظاہر ہے مذکورہ محترم اور فاضل علما نے اس خبر کو جو باعثِ فخروانبساط سمجھا، تو اس کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ وہ خود صحت ِ قرآن کی صداقت کا اعتراف کر رہے ہیں۔افسوس کہ ڈاکٹر حمیداللہ کے مذکورہ بیان کا بے وجہ بہت چرچا ہوا۔(۷)

اسی نوعیت کا دوسرا پراجیکٹ قرآنیکا (Coranica ) کے نام سے مشہور ہے ۔یہ ۲۰۱۱ء میں جرمن اور فرانسیسی اداروں (Deutsche Forschungsgemeinschaft and the Agence Nationale de la Recherche) کے تعاون سے شروع ہوا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد اسلامی/ عربی روایات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، قرآنی متن کی تاریخ، دستاویزی شہادتوں کی بنیاد پر جمع و تدوین کرنا تھا۔ اس کاوش کا عنوان ہے: Manuscripta et Testimonia Coranica۔

اسی پراجیکٹ کا دوسرا مقصد جزیرۃ العرب کے مذاہب اور السنہ کی نہ صرف جمع و تدوین بلکہ قرآنی زبان پر ان کے اثرات کا جائزہ بھی ہے۔اس کوشش کو Glossarium Coranicum کا عنوان دیا جاتا ہے۔ قرانیکا پراجیکٹ ۲۰۱۴ء میں ختم ہوگیا۔ اس پراجیکٹ کی کارپس قرآنیکم کے ساتھ بہت زیادہ شراکتِ کار رہی ہے، شاید اسی وجہ سے یا نام میں کچھ مماثلت کی بنا پر اکثر لوگ ان کو آپس میں خلط ملط کردیتے ہیں۔

’ قرآنیکا‘ کے بطن سے ایک اور پراجیکٹ ' ’پیلیو قرآن‘ ' (Paleocoran) کے نام سے برآمد ہوا جو ۲۰۱۵ء سے ۲۰۱۸ء کے دورانیہ پر محیط تھا۔ اس کا مقصد ان مخطوطات پر تحقیق و تجزیہ کرنا تھا، جو جامع عمروبن العاص، فسطاط، میں انیسویں صدی شمسی کے آغاز تک محفوظ تھے اور پھر نوآبادیاتی نظام کے طفیل برلن، کیمبرج، شکاگو، ڈبلن، گوتھا، کوپن ہیگن، لیڈن، پیرس، برمنگھم اور سینٹ پیٹرز برگ تک پائے جاتے ہیں۔ یہ تقریباً ۳۵۰ قرآنی نسخے ہیں، جو ۷ہزار اوراق پر مشتمل ہیں۔ جرمن/فرنچ محققین کا کام علم المصاحف (codicology)، علمِ تحاریرِ قدیمہ (paleography) اور تاریخی و سائنسی طریقوں سےان پارچوں پر روشنائی کے تجزیے اور ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے ذریعے ان نسخوں کی عمر نیز ہجاء اور متن کے( مبینہ) تغیرات (Orthographical and textual variants) کا موازنہ قراءت کے لٹریچر سے کرنا بتایا گیا تھا۔

  ہالینڈ کا مشہور اشاعتی ادارہ بِرل (Brill) مذکورہ دونوں تحقیقی کوششوں کو ’ ڈاکومینٹا قرآنیکا‘ (Documenta Coranica) نامی سیریزکے عنوان سے شائع کررہا ہے۔ اب تک صرف دو مجلد طبع ہوئے ہیں، ایک جنوری ۲۰۱۸ء میں اور دوسرا جولائی ۲۰۱۹ء میں۔

https://brill.com/view/serial/DOCO?qt-qt_serial_details=0

_______________

حوالے

۱-  ڈاکٹر محمد حمید اللہ، خطباتِ بہاولپور، طبع۱۱ (۲۰۰۷ء)، طابع و ناشر ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، اسلام آباد، ص۱۶

۲-  Theodor, Nöldeke  [1836-1930] ,Geschichte des Qorâns. English [The History of the Qur'an], Theodor Noldeke, Friedrich Schwally, Gotthelf Bergstrasser, Otto Pretzl ; Wolfgang H.Behn ed, Koninklijke Brill NV, Leiden, The Netherlands, 2013, p. xiv.

 ۳- ]Anton Spitaler, Die Verszahlung des Koran nach Islamischer [The Enumeration of the Koran According to Islamic Tradition],  Munchen, 1935.  [ادارہ 

۴-  ]Gunter Luling Kritisch Exegetische Undersuchung des Qurantextes,1970.[ ادارہ

۵-  Andrew Higgins,The Lost Archives:Missing for a half century, a cache of photos spurs sensitive research on Islam's holy text, Wall Street Journal, January 12, 2008.

۶-  Angelika Neuwirth," Structural, Linguistic and Literary Features", Ch. 5 in Cambridge Companion to the Quran, Jane D. McCuliffe, ed, Cambridge University Press, Cambridge, UK, 2006, pp. 97-114.

۷-  Sami Ameri, Hunting for the Word of God: The quest for the original text of the New Testament and the Qur’an in light of textual and historical criticism, Thoughts of Light Publishing, Columbia Heights, MN 55421, USA, 2013.