ویسے تو ۲۰۱۹ء ہی میں بھارتی سپریم کورٹ کے عجیب و غریب فیصلے نے ایودھیا شہر میں واقع تاریخی بابری مسجد کی شہادت پر مہر لگادی تھی، مگر اب اس سال ۲۲جنوری کو اسی مسجد کی جگہ پر ایک بہت بڑے رام مندر کے افتتاح کے بعد یہ مسجد تاریخ کے اوراق میں گم ہوگئی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے خود ہی اس مندر کا افتتاح کرکے بھارتی سیکولرازم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ مندر کے افتتاح سے قبل اور بعد میں پورے ملک میں یاترائیں نکالی گئیں اور کئی جگہوں پر شرپسندوں نے مسلم محلوں میں شر انگیزی کی۔ مسجدوں کے سامنے ’جے شر ی رام‘ کے نعرے لگائے گئے۔ دفاتر میں ایک دن کی چھٹی دی گئی اور دیوالی کی طرح چراغاں کیا گیا، کیونکہ بتایا گیا کہ چار سو برسوں کے بعد بھگوان رام کو اپنا گھر نصیب ہوا ہے۔
اساطیری کہانی رامائن کے مطابق:جب بارہ سال کے بن باس کے بعد رام واپس ایودھیا شہر آگئے تھے، تو اس وقت بھی اس طرح کا جشن نہیں منایا گیا ہوگا، جو اس وقت منایا گیا۔ ایودھیا میں پجاری پرم ہنس اچاریہ نے مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کا پتلا جلا کر اپنے دل کی بھڑاس نکال دی۔ مندر کے افتتاح کو پران پرتشٹھا کا نام دیا گیا، یعنی سیاہ پتھر سے بنی بھگوان رام کی جو مورتی اس مندر میں رکھی گئی، اس میں روح داخل کی گئی۔ ویسے ۱۹۴۹ء میں جب یہ قضیہ شروع ہوا تھا، تب بتایا گیا تھا کہ ’’بابری مسجد کے محراب میں بھگوان رام کی ایک چھوٹی سی مورتی نمودار ہوگئی‘‘، جس سے اخذ کیا گیا، کہ رام اسی جگہ پر پیدا ہوئے تھے۔سپریم کورٹ نے بھی مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ اسی مورتی یعنی رام للا کو دی۔ تاہم پولیس کا کہنا تھا کہ نرموہی اکھاڑہ سے تعلق رکھنے والے چندافراد عشا ء کی نماز کے بعد رات کی تاریکی میں دیوار پھاند کر مسجد میں گھس گئے اور مورتی محراب کے پاس رکھ دی، جس کی شکایت مسجد کے قریب رہائشی ہاشم انصاری نے درج کروائی ۔ اگلے دن پورے شہر میں افواہ پھیل گئی کہ بابری مسجد کی محراب میں رام کی مورتی نمودار ہوگئی ہے۔ مقامی انتظامیہ نے اس افواہ کی علّت کا تدارک کرنے کے بجائے مسجد پر ہی تالا چڑھا دیا۔ بعد میں ۱۹۸۰ء کی دہائی میں ہندوؤں کو پوجا پاٹ کرنے کی اجازت دی۔
ہندستان دھرم کے چار شنکر اچاریوں نے اس افتتاحی تقریب میں یہ کہہ کر شرکت کرنے سے منع کردیا کہ ’’ابھی مندر کی تعمیر نامکمل ہے اور اس میں کیسے مورتی میں روح ڈالی جاسکتی ہے؟ پوری تعمیر میں ابھی ایک سال اور لگ سکتا ہے‘‘۔ مگر مودی تاریخ میں اپنا نام درج کروانے کے علاوہ اس سال اپریل-مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں ووٹروں کے دل لبھانے کے لیے ایجنڈے کو ترتیب دینے کے لیے بے چین تھے۔ ان کے رفقا نے تو اُلٹا شنکر اچاریوں پر ہی سوالات اٹھائے اور مودی ہی کو بھگوان ویشنو کا اوتار قرار دیا۔ جس طرح مودی کو اس مندر کے افتتاح کی جلدی تھی، لگتا ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے وہ خاصے فکرمند ہیں اور اقتدار میںواپسی کا ان کو شاید یقین نہیں ہے۔ ان کو معلوم تھا کہ اگر وہ انتخاب ہار جاتے ہیں یا کسی وجہ سے دوبارہ مسند پر بیٹھ نہیں پاتے، تو ان کی اپنی پارٹی ہی ان کی یاد کو ایسے کھرچ ڈالے گی، جیسے وہ کبھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ یہ اس جماعت کا وتیرہ رہا ہے۔ جو کچھ ایل کے ایڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کے ساتھ ہوا، مودی کو شاید آئینے میں وہ سب نظر آرہا تھا۔
ہندو قوم پرست جماعتیں، خاص طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) تین متنازعہ ایشوز لے کر ہی انتخابی میدان میں اترتی ہے۔ یہ ایشوز تھے بابری مسجد کی جگہ ایک عظیم الشان رام مندر کا قیام ، جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ، اور پورے ملک میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ۔ پچھلے دس سالہ دور اقتدار میں مودی حکومت نے دو اہم وعدوں کو عملی جامہ پہنایا ہے۔ یکساں سول کوڈ، مسلمانوں کے بجائے قبائل اور ہندوؤ ں کے ہی مختلف فرقوں کو قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ شادی بیاہ کی رسوم بھارت کے ہر خطے میں مقامی رواج کے ساتھ عمل میں آتی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق: ’’بی جے پی کے پاس ہندو ووٹروں کو لام بند کرنے کے لیے تین اہم ہتھیار: ’’گائے، پاکستان اور مسلمان‘‘ ہوتے ہیں۔ ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں ’’گائے کو تحفظ فراہم کرنا‘‘ ایک اہم ایشو تھا۔ گائے اب اس حد تک محفوظ جانور ہے، کہ شمالی بھارت میں کسانوں کے لیے درد سر بن چکی ہے۔ دودھ خشک ہونے کے بعد ان کو گھروں سے نکالا جاتا ہے، تو یہ دندناتے ہوئے بغیر کسی خوف کے کھیتوں میں گھس کر کھڑی فصلوں کو تہس نہس کرتی رہتی ہیں۔ چند برس قبل مدھیہ پردیش کے کسی شہر میں ایک ٹرک حادثہ میں کسی بزرگ خاتون کی جان چلی گئی، جو سڑک کے کنارے چہل قدمی کررہی تھی۔ ٹرک کے ڈرائیور نے بتایا کہ سڑک پر ایک گائے کو بچانے کے لیے اس نے فٹ پاتھ پر ٹرک موڑ دیا، جس سے بزرگ خاتون کی جان چلی گئی۔ اس کا استدلال تھا کہ اگر گائے کو ٹکر لگ جاتی تو وہ اور اس کا ٹرک ’ہجومی تشدد‘ کی نذر ہوجاتا۔ خاتون کی جان جانے سے کم از کم وہ اور اس کا ٹرک تو محفوظ رہا۔ گائے کا ایشو انتخابات میں کیش ہو چکا ہے، اب اس پتّے پر ووٹ کی بازی جیتنا مشکل ہے۔
بی جے پی نے۲۰۱۹ء میں ’پاکستان اور قومی سلامتی‘ کے ایشو کو لے کر بھاری منڈیٹ حاصل کرلیا۔ انتخابات سے بس چند ماہ قبل جنوری ۲۰۱۹ء میں رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق مودی حکومت خاصی غیر مقبول ہوگئی تھی اور ۵۴۳ رکنی ایوان میں بی جے پی ۲۰۰ سیٹوں کے اندر ہی سمٹ کررہ گئی تھی۔ مگر فروری میں کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر فوجی ہلاکتوں اور پھر بالاکوٹ پر فضائیہ کے آپریشن نے تو فضا ہی بدل ڈالی اور انتخابی نتائج میں بی جے پی نے ۳۰۰کا ہندسہ عبور کرلیا۔ اب اس وقت پاکستان خود ہی اپنے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر بھی کامیابی کے ساتھ رُوبہ عمل ہے۔ اب لے دے کے ایک ہی ایسا ایشو بچتا ہے، ’’وہ ہے مسلمان‘‘۔
رام مندر کے افتتاح کے لیے بھارتی وزیر اعظم کا خود موجود رہنا اور اس تقریب کو ’’صدیوں کی غلامی کا طوق اُتار پھینکنے‘‘ سے تشبیہ دینا ، واضح پیغام دے رہا تھا کہ اس بار ہدف براہِ راست مسلمان ہے۔ اس لیے رام مندر کے افتتاح کے دن کو پورے ملک میں دیوالی کی طرح منایا گیا۔بی جے پی کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ جنوبی بھارت میں اس کی دال گل نہیں رہی ہے۔ اگرچہ ریاست کرناٹک کے بغیر باقی جنوبی ریاستوں میں اس کا وجود پہلے سے ہی برائے نام تھا، مگر تلنگانہ، آندھرا پردیش اور تامل ناڈو میں وہ مقامی پارٹیوں کے کندھوں پر سوار ہوکر کسی طرح اپنا اُلو سیدھا کیا کرتی تھی۔ مگر یکے بعد دیگرے کرناٹک اور پھر تلنگانہ میں کانگریس کی جیت نے ان مقامی پارٹیوں کے غبارے سے ہوا نکال کر رکھ دی ہے اور تامل ناڈو میں اس کی اتحادی پارٹی ڈی ایم کے (DMK) بھی مضبوط پوزیشن میں ہے۔ لوک سبھا میں جنوبی بھارت کی ۱۳۲نشستیں ہیں۔
بی جے پی نے ۲۰۱۹ء میں جن۳۰۳نشستوں پرقبضہ کیا، ان میں ۳۰ سیٹیں جنوبی بھارت سے تھیں۔ ۲۲۴نشستوں پر اس کو ۵۰فی صد سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔ حکومت سازی کے لیے لوک سبھا میں ۲۷۲سیٹیں رکھنا لازمی ہے۔ یعنی اس ہدف کو پار کرکے بی جے پی کے پاس اضافی ۳۱سیٹیں ہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر بی جے پی شمالی بھارت کی سبھی ۲۲۴سیٹیں برقرار بھی رکھتی ہے، تو اس کو مزید ۴۸سیٹیں ساتھ ملانے کے لیے خاصی جدو جہد کرنی پڑے گی۔ پچھلی بار اس کو مہاراشٹرا، مغربی بنگال، اڑیسہ، تلنگانہ اور شمال مشرقی صوبوں سے کل ملا کر ۷۹سیٹیں حاصل ہوئی تھیں، جس نے اس کی تعداد کو تین سو سے اوپر پہنچایا دیا تھا۔
اس بار ان صوبو ں میں کانگریس کے زیر قیادت نو زائدہ ’انڈیا‘ ( یعنی انڈین نیشنل ڈیولپمنٹ انکلوسیو الائینس)اتحاد کو خاصی سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔ بی جے پی کے اپنے اندرونی سروے کے مطابق اگر اپوزیشن متحدہ ہوکر لڑتی ہے تو ۱۰۱؍ایسی سیٹیں ہیں، جن پر دوبارہ جیتنا مشکل ہے۔ اگرچہ ابھی اپوزیشن میں سیٹوں کے بٹوارے پر خاصی لے دے ہونے کے امکانات ہیں، مگر جس طرح ابھی حال ہی میں پارلیمنٹ اراکین کو تھوک کے حساب سے معطل کر دیا گیا اور تفتیشی ادارے اپوزیشن لیڈروں کو زچ کررہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ وہ متحدہوکر انتخابات میں آر یا پار کی لڑائی لڑیں گے۔ اس وجہ سے بی جے پی کے لیڈروں کی نیند اُڑی ہوئی ہے۔ وہ اس تاک میں ہیں کہ کوئی ایسا ایشو ہاتھ آجائے ، جس سے ۲۰۱۹ءکی طرح پورے ملک کو سحر میں گرفتار کرکے ووٹ اس کی جھولی میں گر جائیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی رام مندر کا افتتاح ہے۔
بابری مسجد پر جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا، تو لگتا تھا کہ اب ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دیرینہ تنازعات ختم ہو جائیں گے۔ ۸۰کی دہائی کے آخر میں جب اس قضیہ نے ایک خون ریز رُخ اختیار کیا تھا، تو کئی مسلم لیڈروں اور علما جن میں مولانا وحید الدین خان پیش پیش تھے، مشورہ دیتے تھے، کہ ’’فرقہ وارانہ ماحول کو ختم کرنے کے لیے مسلمانوں کو اس مسجد کی قربانی دینی چاہیے‘‘۔ مگر بقول سینئر صحافی عبدالباری مسعود، ’’یہ سہانا خواب اَدھورا ہی رہ گیا۔ اب تو ہر دوسرے دن کسی نہ کسی مسجد پر دعویٰ ٹھونک کر ہندو تنظیمیں عدالتوں کا رُخ کرتی ہیں‘‘۔ اس سلسلے میں ابھی تک وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ مسجد پر عدالت نے شنوائی بھی شروع کردی ہے۔ گو کہ نوّے کی دہائی میں پارلیمنٹ نے عبادت گاہوں کی موجودہ حیثیت کو ۱۹۴۷ءکی پوزیشن میں جوں کا توں رکھنے کا قانون پاس کیا تھا، تاہم اس میں صرف بابری مسجد کو باہر رکھا گیا تھا۔ مگر اب عدالتوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون گو کہ موجودہ پوزیشن کو جوں کا توں رکھنے کی بات کرتا ہے، مگر یہ مسجد کسی اور عمارت یا عبادت گا ہ کے اوپر بنی ہے، اس کا فیصلہ کرنے یا تجزیہ کرنے سے نہیں روکتا ہے۔ ویسے اس پورے قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے، اور اس پر جلدیا بدیر کوئی فیصلہ آہی جائے گا۔ لیکن جس طرح کا فیصلہ بابری مسجد کے سلسلے میں آیا، اس کے بعد عدالت سے کس طرح کی توقع کرسکتے ہیں۔
مستقبل کا مؤرخ بھی حیران و پریشان ہوگا کہ اکیسویں صدی میں بھی کسی جمہوری ملک کی عدالت کوئی ایسا فیصلہ دے سکتی ہے!وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی حکومت میں مشیر اور تجزیہ کار موہن گوروسوامی کے مطابق: ’’عدالت کا فیصلہ کچھ اس طرح کا تھا کہ کسی کے مکان پر قبضہ کرنا اور اس کو مسمار کرنا غیر قانونی اور جرم ہے، مگر اس کی جگہ پر نئے مکان کی تعمیر جائز ہے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے‘‘۔۲۰۱۹ء میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے استدلال کے بجائے عقیدے کو فوقیت دے کر متنارعہ زمین، اساطیری شخصیت، ہندو دیوتا رام للاکے سپرد کرکے، وہاں پر ایک مندر بنانے کے لیے راستہ صاف کردیا تھا۔
اس فیصلے میں بھی کورٹ نے ہندو فریق کے دلائل کی دھجیاں بکھیر دی تھیں۔ ان کی دلیل بھی رَد کردی کہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے اندر مورتیاں رکھنے اور مسجد کو منہدم کرنے کے واقعات کو بھی غیر قانونی اور مجرمانہ سرگرمی قرار دیا ۔ کورٹ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہاں بابری مسجد ایستادہ تھی اور نماز کا سلسلہ منقطع ہوجانے سے مسجد کا وجود ختم نہیں ہوجاتا۔عدالت نے مسجد کے نیچے کسی تعمیر کا تو اشارہ دیا ہے، مگر یہ تعمیر ۱۶ویں صدی کے بجائے ۱۱ویں صدی کی تھی۔ یہ بھی کہا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ نے یہ نہیں بتایا کہ مسجد کی تعمیر مندر توڑ کر کی گئی تھی۔فیصلے کا دلچسپ پہلو یہ ہے، کہ عدالت نے فیصلہ ہندوؤں کے حق میں تو دیا، مگر مسمار شدہ مسجد کی زمین، ہندو فریقین کو دینے کے بجائے ، بھگوان رام کے سپرد کرنے کے احکامات صادر کر دیئے۔ پھر یہ بھی بتایا کہ چونکہ رام للا، نابالغ ہے، اس لیے اس کی سرپرستی کے لیے حکومت کو ایک ٹرسٹ بنانے کے لیے تین ماہ کا وقفہ دے دیا۔کورٹ نے بتایا کہ چونکہ رام للا کی مورتی بابری مسجد کی جگہ پر تعمیر کیے گئے عارضی مندر میں براجمان ہے، اس لیے وہ جگہ ان کی ملکیت ہے۔ کورٹ نے رام للا کو Juristic Personیعنی معنوی و اعتباری شخص، جس پر قانون کے سبھی حقوق و فرائض کا اطلاق ہوتا ہے، قرار دیا۔
بابری مسجد کا مقدمہ ایک سیدھا سادا سا ملکیتی معاملہ تھا۔مگر جج صاحبان نے برسوں کی عرق ریزی کے بعد قانون اور آئین کی پروا کیے بغیرکہا کہ Law of Limitations کا اطلاق ہندو دیوی،یوتائوں پر نہیں ہوتا ہے اور نہ ان جگہوں پر ہوتا ہے جہاں ان کی نشانیاں ہوں۔ دوسرے لفظوں میں کسی بھی جگہ پر کوئی شخص کوئی مورتی، چاہے وہ پتھرکا ٹکڑا یا کسی درخت کی شاخ یا پتا ہی کیوں نہ ہو، رکھ کر اس پر مالکانہ حقوق جتا سکتا ہے، چاہے اس جگہ کا مالک وہاں صدیوں سے ہی مقیم کیوں نہ ہو۔ اس فیصلے کا اعتبار اور بھی مضحکہ خیز ہو جاتا ہے، جب جج صاحبان نے یہ تسلیم کیا کہ ’’بھگوان رام کا جنم اسی مقام پر ہوا جہاں بابری مسجدکا منبر واقع تھا‘‘، اور یہ بھی کہا کہ ان کے مطابق: ’’رام آٹھ لاکھ سال قبل مسیح میں اس جگہ پر موجود تھے‘‘۔ مگر دوسری طرف دنیا بھر کے تاریخ دان اور آثار قدیمہ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جنوبی ایشیا میں اتنی پرانی آبادی کے کوئی آثارابھی تک نہیں ملے ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ آزاد اور خودمختار ہی سہی، مگر جب اس طرح کامعاملہ یہاں پر پہنچتا ہے تو انصاف کی دیوی حقیقت میں آنکھوں پر پٹی باندھ لیتی ہے۔ اگر اس کو عدالتی بحث کا موضوع بنایا جاتا ہے، تو بہت سے مندروںاوردیگر عمارتوں کو توڑنا پڑے گا۔بھارت کے طول و عرض میں لاتعداد مندر تو بدھ مت اور جین مت کی عبادت گاہوں کو توڑ کر بنائے گئے ہیں۔ آٹھویں صدی میں آدی شنکر آچاریہ نے جب ہندو مت کے احیا کی خاطر ملک کے طول و عرض کا دورہ کرکے بدھ بھکشوؤںکے ساتھ مکالمہ کیا، تو بدھ عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کرایا۔ اشوکا [م:۲۳۲ ق م] اور کنشکا [پیدائش:۷۸ء]کے عہد حکومت میں تو بھارت کی کثیر آبادی بدھ مت اختیار کر چکی تھی، تو پھر آج بھارت میں بد ھ آبادی محض ۸۵ لاکھ یعنی کل آبادی کا اعشاریہ سات فی صد ہی کیوں ہے؟
بھارت میں ایک خطرناک نظیر پیش کر دی گئی ہے کہ مسلم دور کی کسی بھی عمارت کو لے کر تنازع کھڑا کر دیا جائے پھر محکمہ آثار قدیمہ سے کھدائی کرا کے اس کے نیچے کوئی ہندو اسٹرکچر بتا دیا جائے اور پھر اسے کھود ڈالا جائے۔ ہندی کے ایک معروف صحافی و سماجی کارکن شتیلا سنگھ نے اپنی ایک تصنیف ایودھیا۔رام جنم بھومی بابری مسجد وواد کا سچ میں انکشاف کیا ہے کہ کس طرح تین عشرے قبل ان کی موجودگی میں پرم ہنس رام چندر داس کی قیادت میں فریقین نے ایک فارمولے پر اتفاق کیا تھا۔ ’ویشوا ہندو پریشد‘ (VHP)کے سربراہ اشوک سنگھل جب اس فارمولے پر مہر لگانے کے لیے ہندو انتہا پسندو ں کی مربی تنظیم آرایس ایس کے سربراہ بالا صاحب دیورس کے پاس پہنچے ، تو ان کو خوب پھٹکار لگائی گئی۔ دیورس کا کہنا تھا ’’ رام مندر تو ملک میں بہت ہیں، اس لیے اس کی فکر (یعنی رام مندر کی تعمیر) چھوڑ کر اس کے ذریعے ہندو ؤں میں آرہی بیداری کا فائدہ اٹھانا ہے‘‘۔ یعنی اگر معاملہ سلجھ جاتا ہے تو فرقہ وارانہ سیاست کی آگ سرد ہوجائے گی اور اقتدار تک پہنچنے کا راستہ بند ہوجائے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق: بابری مسجدکا سانحہ اس خطے کی جدید تاریخ کے چھ بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔ پہلا ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی، دوسرا ۱۹۲۰ء میں گاندھی کی قیادت میں کانگریس کا نیا آئین اور سوراج کا مطالبہ، تیسرا ۱۹۴۷ء میں برصغیر کی تقسیم اور آزادی، چوتھا ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا‘ اور پانچواں ۱۹۸۴ء میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پرحملہ اور چھٹا ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کا انہدام‘ جو دراصل اعتماد کا انہدام تھا۔
بابری مسجد کے قضیے کا لاہورکی مسجد شہید گنج کیس کے ساتھ موازنہ کرنا بے جا نہ ہو گا۔ یہ کیس اور اس پر پاکستانی سوسائٹی کا رویہ ’ہندوستانی سیکولرازم‘ او ر اس کی نام نہاد لبرل اقدار پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔ ۱۷۶۲ء میں لاہور پر سکھوں کے قبضے کے بعد اس مسجد پر ان کے فوجیوں نے ڈیرہ ڈالا اور بعد میں اس کوگوردوارہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ۱۸۴۹ء میں جب پنجاب برطانوی عمل داری میں شامل ہوا تو مسلمانوں نے اس مسجد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ ’پریوی کونسل‘ نے Law of Limitation کو بنیاد بنا کر اس کا فیصلہ سکھوں کے حق میں کیا۔ ۱۸۵۰ء میں مسجد کے متولی نور احمد نے عدالت میں فریاد کی اور وہ ۱۸۸۰ء تک قانون کے مختلف دروازوں پر دستک دیتے رہے، مگر ہر بار Law of Limitation کا حوالہ دے کر عدالتیں ان کی اپیلوں کو خارج کرتی رہیں۔ ۱۹۳۵ء میں انگریز گورنر نے اس عمارت کو محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کرنے کی تجویز دی ‘ جس پر ابھی رائے عامہ ہموار ہو ہی رہی تھی کہ سکھوں نے رات کے اندھیرے میں مسجد کی عمارت ڈھا دی۔ جب بادشاہی مسجد لاہور سے ناراض مسلمانوں نے ایک پُرجوش جلوس نکالا تو کئی افراد لاہور کی سڑکوں پر گولیوں سے شہید کردیئے گئے۔ پورے لاہور میں کرفیو نافذکرنا پڑا۔ عدالتی فیصلے کو رَد کرنے کے لیے مسلم لیگ کے اراکین نے پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے یہ جگہ مسلمانوں کے سپرد کرنے کی تجویز پیش کی۔ معروف قانون دان اور مؤرخ اے جی نورانی کے بقول قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے رد کر دیا ۔ قائد اعظم کے شدید ناقد ہونے کے باوجود نورانی کا کہناہے کہ انھوں نے اس قضیے کو کبھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیںکیا، بلکہ قانون کی عمل داری کا پاس کیا۔ پاکستان بننے کے ۷۰ سال بعد بھی یہ گوردوارہ لنڈا بازار میں آب و تاب کے ساتھ کھڑا ہے، جب کہ شاید ہی اب کوئی سکھ اسے عبادت کے لیے استعمال کرتا ہو۔ لاہور میں جس طرح اس مسئلے نے جذباتی رُخ اختیار کیا تھا، آزادی کے بعداندیشہ تھاکہ اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، مگر کسی پاکستانی سیاستدان یا مذہبی شخصیت نے عدالت کا فیصلہ رد کرنے کی کوشش نہ کی۔
اس کے برعکس بھارتی عدلیہ کی جانب داری کا عالم یہ ہے کہ ایک سابق چیف جسٹس جے ایس ورما نے ’ہندوتوا‘ کو مذہبی علامت کے بجائے بھارتی کلچرکی علامت اور ایک نظریۂ زندگی بتایا ۔ انھوں نے ہندو انتہا پسندوںکے گورو ویر ساورکر یا گولوالکر کی تصنیفات کے بجائے مولانا وحیدالدین خان کی تحریروںپر اعتماد اور انحصار کر کے ہندو انتہا پسندی کو ایک جواز فراہم کردیا۔ ۱۹۹۲ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس وینکٹ چلیا کے طریق کار نے بھی مسجد کی مسماری کی راہ ہموارکی۔ وہ مسجد کو بچانے اور آئین و قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کے بجائے کار سیوکوں (مسجد کو شہید کرنے والے) کی صحت کے بارے میں زیادہ فکرمند تھے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ ۱۹۹۸ء میں بی جے پی حکومت نے انھیں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کا سربراہ مقرر کردیا۔
نورانی نے اپنی کتابDestruction of Babri Masjid:A National Dishonour میں کئی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس کے اندرا گاندھی کے دور اقتدارمیں ہی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لیے ’ویشوا ہندو پریشد‘ کے ساتھ ایک ڈیل ہوئی تھی۔اگرچہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد اپنی تحریک روک دی، مگر راجیو گاندھی نے اس ڈیل کو پھر زندہ کیا،تاہم اس سے پہلے وہ مسلمانوں پر کوئی احسان کرنا چاہتے تھے۔ اس کے لیے ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کرکے پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لا میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی۔مصنف کے بقول انھوں نے راجیو گاندھی کو مشورہ دیا تھا کہ اس قضیہ کو کھینچنے کا کو ئی فائدہ نہیں ہے، اور اس کو اینگلو محمڈن قانون کے بجائے شرعی قانون کے مطابق حل کیا جاسکتا ہے ،مگر وہ مسلمانوںکو سیاسی طور پر بے وقوف بنانے پر تلے ہوئے تھے، تاکہ پریشد کے ساتھ ڈیل کو آگے بڑھایا جاسکے۔ اور یہی ہوا۔
کانگریس پارٹی کے علاوہ دیگر سیکولر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سانسیں ہی مسلمانوں کے دم سے ٹکی ہیں، کا رویہ بھی افسوس ناک رہا ہے۔ ان دونوں پارٹیوں نے،جو پچھلے ۲۰برسوں سے اتر پردیش میں حکومت کر رہی ہیں ،بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔حتیٰ کہ ایک معمولی نوٹیفکیشن تک کا اجرا نہیں کرسکیں، جس سے خصوصی عدالت میں ان افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا۔
یہ ہے بھارت میں سیکولرزم کا جنازہ اور ہندو نسل پرستی کا جادو!