ہر مسلمان کا دل رنجیدہ ہے۔ ہر توحید پرست کا دل زخمی ہے۔ ہر بندۂ مومن کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ مگر یہ رنجید گی، یہ زخم اور آنسوؤں کی برکھا، کسی بندوق کی گولی، بم کے ٹکڑے یا تلوار کے وار کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ بے چارگی دراصل حرمین الشریفین سے نسبت رکھتی ہے۔
اگر کوئی عام تنازع نہ ہو توریاستوں کے درمیان سفارتی اور تجارتی تعلقات کے فروغ میں کسی کے لیے اعتراض کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ لیکن ہر ملک محض تجارت کی منڈی اور سفارت کی مسند پر نہیں جھول رہا ہو تا، بلکہ ان مفادات کے ساتھ اپنی تاریخ و تہذیب کے کچھ سوالات بھی پیش نظر رکھتا ہے۔ سعودی عرب کی مادی ترقی پر سبھی مسلمان خوش ہیں، لیکن سعودی عرب محض دوسو ملکوں میں سے ایک ملک نہیں ہے۔ حرمین الشریفین کی مناسبت سے یہ ملک پہچان اور بڑے منفرد تقاضے رکھتا ہے، جس سے نہ وہ چھٹکارا پا سکتا ہے اور نہ مسلم دنیا کی توقعات کو وہاں کے حکمران روند سکتے ہیں۔
جیسا کہ اس تحریر کے شروع میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کےدل خون کے آنسورو ر ہے ہیں تو اس تلخ نوائی کا حوالہ یہ ہے کہ بھارت میں ایک ایسی حکومت اپنے مسلم دشمنی پر مبنی ایجنڈے کو تیزی سے آگے بڑھا رہی ہے، جو: مسلمانوں کو قتل و غارت میں جھونکنے، مسجدوں کو شہید کرنے، ہجومی قتل عام کی سرپرستی کرنے، مسلمان عورتوں کی بے حرمتی کرنے کے واقعات کو بڑھاوا دینے اور بہت سے نوجوانوں کو مقدمات کے بغیر جیلوں میں پھینک دینے جیسی کارروائیوں میں مصروف ہے۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) کی سرپرستی میں قائم اس بدنام حکومت کی وزیر برائے اقلیتی اُمور، سمرتی ایرانی، جن کے ہمراہ خارجہ امور کے وزیر مملکت مرلی دھرن بھی تھے، انھوں نے مدینہ منورہ کا دورہ کیا ۔ سمرتی نے اُسی روز یعنی ۸جنوری کو اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر بڑی خوشی سے اپنی نوعدد تصویریں شائع کرتے ہوئے لکھا ’’آج میں مدینہ کے تاریخی سفر پر نکلی، جو اسلام کے متبرک ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اس میں مسجد نبویؐ کے اطراف کی زیارت کرنے کے ساتھ ہی احد پہاڑ اور مسجد قبا کی بیرونی حدود شامل ہیں‘‘۔ انڈین سرکاری نشریاتی ادارے ’دوردرشن‘ نے اس دورے کو غیر معمولی اور تاریخی واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا: ’’یہ پہلا موقع ہے کہ جب ایک غیر مسلم وفد کا استقبال مدینہ میں کیا گیا، جس سے انڈیا اور سعودی عرب کے غیرمعمولی رشتوں کی عکاسی ہوتی ہے‘‘۔
مراٹھی زبان میں ہندو نسل پرست اخبار سناتن پرابھات نے ۱۲ جنوری کی اشاعت میں فخریہ لہجے میں لکھا:’’بھارتی یونین وزیر سمرتی ایرانی نے مسلمانوں کے مقدس شہر مدینہ کا دورہ کیا،جہاں عورتیں سر ڈھانپ کر جاتی ہیں، وہاں سمرتی اپنی ساڑھی میں ملبوس گئی اور اپنے سر کو بالکل نہیں ڈھانپا۔ سعودی عرب نے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا، لیکن پاکستان والے اس بات پر ضرور پریشان ہیں۔‘‘ بی بی سی لندن نے اس استقبال کو ’’غیر معمولی تاریخی واقعہ‘‘ قرار دیا۔
بنگلہ دیشی تسلیمہ نسرین نے اپنے بیان میں لکھا، ’’میں سمرتی کو سلام پیش کرتی ہوں کہ اس نے سر نہیں ڈھانپا‘‘۔ جرمن ٹیلی ویژن کے مطابق:’’ایک بھارتی میڈیا پرسن نے لکھا ہے: آپ نے ایک کٹر مسلم ملک میں سر نہ ڈھانپ کر اپنی حقیقی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے‘‘ ۔
جواہر لال نہرو کے ہاتھوں ۱۹۳۷ء میں جاری کردہ اخبار قومی آواز (۱۴جنوری ۲۰۲۴ء) کے مطابق: ’’۲۰۲۱ ء میں ولی عہد نےمدینہ منورہ میں غیر مسلموں کے لیے داخلے سے متعلق بورڈ ہٹادیےتھے۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ اس دورے کے پیچھے وزیر موصوفہ کی اپنی ذاتی خواہش تھی یا سعودی حکام کی جانب سے خود کو لبرل دکھانے کی ایک کوشش؟ بہر حال، اس واقعے سے اتنا اندازہ ہو گیا ہے کہ سعودی حکام آنے والے دنوں میں یہ عمل مکہ مکرمہ میں بھی دکھا سکتے ہیں۔ ویسے سمرتی ایرانی کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے کبھی بھی اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ جہاں اور جب جب موقع ملا ہے کھل کر اپنی ذہنیت کا مظاہرہ کیا‘‘۔ یہی اخبار مزید لکھتا ہے: ’’سمرتی کے دورے سے پہلے تک سعودی حکمرانوں نے بھی حرم مکہ کی طرح حرم مدینہ میں بھی غیر مسلموں، کے داخل ہونے پر پابندی عائد کر رکھی تھی، اور اس پالیسی کے تحت حدودِ حرم پر باضابطہ علانیہ بورڈ لگائے جاتے تھے، جس میں حرم مدینہ کے راستوں پر ’’صرف مسلمین‘‘ (Only Muslims)کے بورڈ لگا ئےجاتے تھے۔اب ۹۴ سال بعد اچانک مدینۃ الرسول میں غیرمسلموں کو عزت و احترام سے بلانا کیا ظاہر کرتا ہے؟‘‘
اسی طرح اُردو العربیہ ڈاٹ نیٹ (۴؍مئی۲۰۲۱ء) کا یہ شذرہ دیکھیے: ’’سعودی عرب کی حکومت نے مذہبی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مدینہ منورہ میں داخلے کے راستوں پر غیرمسلموں، اور مسلمانوں کے لیے مختص راستوں کی راہ نمائی کے لیے لگائے گئے بورڈوں پر اصطلاحات تبدیل کرنا شروع کر دی ہیں۔ اس ضمن میں پہلی تبدیلی لفظ ’غیرمسلم‘ کے بجائے ’حدود حرم‘ کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ ماضی میں یہ عبارت مدینہ منورہ کے تقدس کے پیش نظر اپنائی گئی تھی کہ ’حرمِ مکی‘ کی طرح ’حرمِ مدنی‘ میں بھی غیر مسلم داخل نہیں ہوسکتے تھے‘‘۔ بی بی سی (۹جنوری ۲۰۲۴ء) کےمطابق: ’’سعودی ’ای ویزہ‘ ویب سائٹ کے مطابق غیر مسلم افراد کو مدینہ کی سیر کی دعوت دی جاتی ہے، تاہم مسجد نبویؐ کے احاطے میں ان کا داخلہ ممنوع ہے‘‘۔
ان تفصیلات کا مقصد یہ ہے کہ چودہ سو سال سے اختیار اور نافذ کیے گئے فیصلے اور روایت کو ختم کرنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا حرمِ مدنی کے حوالے سے حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے فیصلے کو تبدیل کرنا پیش نظر ہے؟ اور کیا اس کا سبب واقعی مغربی دنیا کے سامنے لبرل بننے کی خواہش ہے؟
تین احادیث نبویؐ الجامع الصحیح سے مطالعے کے لیے درج کی جاتی ہیں:
l…’’ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، ان سے ثابت بن یزید نے بیان کیا، ان سے ابوعبدالرحمٰن احول عاصم نے بیان کیا، اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ حرم ہے فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک (یعنی جبل عیر سے ثور تک )۔ اس حد میں کوئی درخت نہ کاٹا جائے نہ کوئی بدعت کی جائے اور جس نے بھی یہاں کوئی بدعت نکالی اس پر اللہ تعالیٰ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب فضائل المدینہ،حدیث: ۱۸۶۷) [یعنی حرم مدینہ کا بھی وہی حکم ہے، جو مکہ کے حرم کا ہے۔ امام مالک اور امام شافعی اور احمد بن حنبل اور اہل حدیث کا یہی مذہب ہے]۔
l…’’ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے، ان سے عبید اللہ نے، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ کے دونوں پتھریلے کناروں میں جو زمین ہے وہ میری زبان پر حرم ٹھہرائی گئی۔ حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ نبی کریمؐ بنوحارثہ کے پاس آئے اور فرمایا بنوحارثہ ! میرا خیال ہے کہ تم لوگ حرم سے باہر ہو گئے ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مڑ کر دیکھا اور فرمایا کہ نہیں بلکہ تم لوگ حرم کے اندر ہی ہو۔(رقم: ۱۸۶۹)
l…ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمان بن مہدی نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے اعمش نے، ان سے ان کے والد یزید بن شریک نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے پاس کتاب اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صحیفہ کے سوا جو نبی کریم ؐ کے حوالے سے ہے اور کوئی چیز (شرعی احکام سے متعلق ) لکھی ہوئی صورت میں نہیں ہے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: مدینہ عائر پہاڑی سے لے کر فلاں مقام تک حرم ہے، جس نے اس حد میں کوئی بدعت نکالی یا کسی بدعتی کو پناہ دی تو اس پر اللہ اور تمام ملائکہ اورانسانوں کی لعنت ہے…آپؐ نے فرمایا کہ تمام مسلمانوں میں سے کسی کا بھی عہد کافی ہے۔ اس لیے اگر کسی مسلمان کی (دی ہوئی امان میں دوسرے مسلمان نے ) بدعہدی کی تو اس پر اللہ تعالیٰ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے۔ نہ اس کی کوئی فرض عبادت مقبول ہے، نہ نفل۔(رقم:۱۸۷۰)
ہمیں اس بات سے غرض نہیں کہ مملکت سعودی عرب مادی ترقی کے لیے کن راستوں کا انتخاب کرتی ہے (اگرچہ اسلامی شریعت اس معاملے میں بھی واضح احکامات بیان کرتی ہے)۔ تاہم، یہ ضرور عرض کیے دیتے ہیں کہ حرمین الشریفین کسی بادشاہ کی ملکیت نہیں ہیں اور نہ اسلامیانِ عالم اُن کی رعایا ہیں۔ اس لیے وہ تقریباً دو ارب مسلمانوں کے جذبات و احساسات کا احساس کریں اور چودہ سو برس کی تاریخ کا احترام کریں۔ مدینہ منورہ کو ٹورسٹ سنٹر بنانے سے اجتناب برتیں، اور ایسے راستے نکالنے کے لیے درباری علما کی فتویٰ نویسی پر اعتماد کرنے کے بجائے، اللہ اور اس کے رسولؐ سے اپنی محبت کو فروغ دیں، کہ جس پر وہ عشروں سے کاربند چلے آئے ہیں۔
اسی طرح اُن علما اور دانش وروں سے درخواست ہے کہ وہ وہاں کانفرنسوں میںجا کر محض میزبانی کا لطف نہ اٹھائیں بلکہ جس دین کی بنیاد پر وہ یہ اعزاز حاصل کرتے ہیں، اس کی تعلیمات کے مطابق حکمرانوں تک اپنے سچے اور حقیقی جذبات پہنچا کر، انھیں غلط فیصلوں سے منع کریں۔