فروری ۲۰۲۴

فہرست مضامین

اسرائیل ، وائزمین اور محمد اسد

محمد الغباشی | فروری ۲۰۲۴ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

۱۹۲۲ء کے موسم بہار میں ۲۲ سالہ آسٹریا نژاد نوجوان یہودی لیوپولڈ کو ان کے چچا دوریان کی جانب سے ایک خط موصول ہوا کہ فوراً برلن چھوڑ کر میرے گھر ا ٓجاؤ۔ ان کا پتھروں سے بنا قدیم طرزکا یہ گھر یافا کے داخلی راستے پر قدیم فلسطینی قصبہ میں واقع تھا۔ چچاکی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ۱۹۲۲ء کی گرمیوں کی ایک دھندلی صبح، محمد اسد مشرق کے راستے پر رواں بحری جہاز کے لکڑی کے عرشے پر کھڑے تھے۔یہی یہودی نوجوان اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہے اور علّامہ محمد اسد (۱۹۰۰ء-۱۹۹۲ء)کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس سفر کے دوران محمد اسد کو عربوں سے میل ملاقات کا پہلا تجربہ ہوا۔لگتا تھا کہ یہ نوجوان، اپنے لیے مستقبل میں چھپے امکانات کو تلاش کرنا چاہتا ہے۔ اس یادگار سفر کے تقریباً دو برس بعد اور مسلمان ہونے سے دو برس پہلے محمد اسد واپس جرمنی لوٹے تو ان کے ساتھ روزانہ کی ڈائری کے وہ اوراق بھی تھے، جو انھوں نے جرمن زبان میں لکھے تھے۔ بلادِ مشرق کے بارے میں ان کے تاثرات خصوصاً ان کی منزلِ اوَلین،القدس کے مشاہدات پر مشتمل ڈائری کے یہ اوراق بعد میں جرمن زبان میں (Unromantisches Morgenland) ’غیر رومانوی مشرق‘ کے نام سے شائع ہوئے۔

 کتاب کی کہانی محمد اسد اور صہیونی تحریک کے اس وقت کے روسی نژاد لیڈر حائیم وائزمین (م:۱۹۵۲ء) کے درمیان گرما گرم مباحثے سے شروع ہوتی ہے۔ وائز مین بعد میں قابض اسرائیلی ریاست کے پہلے صدر بھی بنے۔ دونوں کے درمیان یہ مکالمہ بیت المقدس میں واقع محمد اسد کے ایک دوست کے گھر پر ملاقات کے دوران ہوا تھا۔ محمد اسد کا موقف تھا کہ فلسطین پر عربوں کا حق اصلی ہے اور یہ کہ صہیونی تحریک اپنی فکر و فلسفہ کے لحاظ سے عقل ومنطق اور دلیل و استدلال سے قطعی محروم ہے۔ یہود،عرب ۔ اسرائیل کش مکش کو یک رخے انداز میں دیکھ رہے ہیں۔

 اس کتاب میں اہم ترین اور قابل توجہ بات محمد اسد کی صہیونی تحریک کی مذمت بلکہ مخالفت کرتی ایک قطعی رائے ہے، حالانکہ یہ رائے ان کے مسلمان ہونے سے قبل کی ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب میں ایسے بہت سے مضامین بھی درج کیے ہیں جن میں وہ عربوں کو یہودیوں کے منصوبوں اور ان کے نتائج سے باخبر کرتے ہیں۔ جس چیز نے انھیں دلی صدمہ سے دوچار کیا، وہ اہل یہود کا فوج در فوج فلسطین کی طرف نقل مکانی کرنا اور اس سلسلے کو اتنا بڑھانا تھا کہ وہ یہاں پر اکثریت حاصل کر لیں۔

محمد اسد کی یہی آزادانہ آراء تھیں، جن کی وجہ سے ان کے موقف کو یہودیوں نے ’یہود مخالف‘ (Anti-Sematic) قرار دے دیا تھا۔ محمد اسد ، اسرائیل کے قیام کے منصوبے کو ناکام صہیونی منصوبے سے تعبیر کرتے ہیں۔ وہ صہیونی تحریک کے ممبران کو اپنے عقیدے اور اپنے اُوپر عائد ہونے والے اخلاقی فرائض کی پامالی اور ان سے خیانت کا مجرم گردانتے ہیں، حالانکہ ابھی اسد کا اپنا دین بھی یہودیت ہی تھا۔

 محمد اسد مذکورہ نتیجۂ فکر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ابتدا ہی سے میرا خیال تھا کہ فلسطین میں یہود کی مصنوعی آباد کاری کی سوچ کا بدترین پہلو یہ ہے کہ اس سے یورپی معاشروں کی مشکلات اور سماجی پیچیدگیوں کا رُخ ایک ایسے خطے اور ملک کی طرف مڑجائے گا جو ان یہودیوں کے بغیر زیادہ خوش حال ہے۔ اگر یہود یہاں آکر نہ بسیں تو یہ خطہ خوش حال تر رہے گا۔اسی طرح محمداسد نے یہودیوں کے قومی وطن کی نوید سنانے والے ۱۹۱۷ء کے بالفور ڈیکلریشن کو انتہائی وحشیانہ اور قساوت قلبی پر مبنی سیاسی چال سے تعبیر کیا اور کہا کہ یہ ان استعماری طاقتوں کی ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ پالیسی کی آزمودہ شکل ہے اور اسی دیرینہ پالیسی کو کامیاب بنانے کے لیے یہ بدنام زمانہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔

 محمد اسد اس وقت اگرچہ نسلاً یہودی تھے، تاہم ان کا یہودی ہونا انھیں حالات و واقعات کا معروضی انداز میں جائزہ لینے اور اس پر لکھنے سے کبھی نہیں روک سکا۔ وہ ڈس انفارمیشن اور حقائق کو مبہم رکھنے کے سخت خلاف تھے۔ وہ نتائج کی پروا کیے بغیر حقائق کا اظہار کرنے کو فرض سمجھتے تھے، اسی لیے برطانوی صہیونی گٹھ جوڑ کو نمایا ں کرنے میں مصروف رہے۔ یورپ کے کئی بڑے اخباروں میں فلسطین میں یہودی نو آباد کاری اور اس کے مضمرات و خطرات کے بارے میں مسلسل لکھتے رہے۔ صہیونیوں کے اس پروپیگنڈے کی تردید کرتے رہے کہ یہودی، فلسطین میں اکثریت میں ہیں اور سرزمین ِ فلسطین ایک امر واقعہ کے طور پر یہودیوں کا قومی وطن (Jewish Homeland)بن چکا ہے جسے دنیا کو تسلیم کر لینا چاہیے۔

یورپی باشندے مذکورہ صہیونی پروپیگنڈے کے دھوکے میں آگئے، حتیٰ کہ محمد اسد ابتداً خود بھی اسی پروپیگنڈے کا شکار تھے اور جب تک بنفسِ نفیس خود جاکر ارضِ فلسطین کا مشاہدہ نہ کر لیا، انھیں ادراک ہی نہ ہوا کہ حقیقت وہ نہیں ہے جو بیان کی جا رہی ہے بلکہ اصل معاملہ کچھ اور ہے۔ چنانچہ انھوں نے یورپی معاشرے کے سامنے بھی صہیونی پروپیگنڈے کا پول کھولنے کا بیڑا اُٹھایا اور اس مسئلے پر مضامین لکھنے شروع کیے۔انھوں نے لکھا کہ ’’فلسطین میں یہود کی پوزیشن اس فرد کی سی نہیں ہے، جو ایک عرصہ تک بھولا بھٹکا رہا ہو اور اب شام کو واپس اپنے ہی گھر لوٹ رہاہو،بلکہ ان کی کوشش ہے کہ زور زبردستی، دھونس دھاندلی اور جائزو ناجائز، غرض ہر طرح سے اس سرزمین پر قابض ہوں اور یورپی قومی ریاستوں (Nation States)کے دھوکے میں آ کر فلسطین کو اپنا قومی وطن بنا لیں‘‘۔

محمد اسد نے لکھا: ’’یہود کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کے در پر اجنبیوں کی طرح کھڑے ہیں۔ ایسے میں مجھے ہرگز کوئی تعجب نہیں ہوگا اگر عرب اپنے وطن کے عین دل میں ایک  (’یہودی قومی ریاست‘) کے قیام کے تصور کی مزاحمت کریں‘‘۔

ایک اور جگہ کہتے ہیں:’’میں اگرچہ یہودی ہوں، لیکن میرا موقف صہیونیت دشمنی ہے۔ میں نے بڑی طاقتوں خصوصاً برطانیہ عظمیٰ کے غیراخلاقی موقف کی ہمیشہ مذمت کی ہے، اس لیے کہ برطانیہ یہودی مہاجروں کو دنیا کے کونے کونے سے جمع کر کے فلسطین میں دھکیل رہا ہے تا کہ ان کی یہاں اکثریت ہو جائے اور اس سرزمین کے اصل، جائز اور قانونی وارثوں سے اس خطۂ ارضی کو بزور چھین لیں جو مدتوں سے یہاں رہتے چلے آرہے ہیں۔ ہر ایسی مجلس میں جہاں عرب یہودی تنازعہ زیر بحث ہوتا، میں خود بخود اپنے آپ کو عربوں کی صف میں کھڑا پاتا۔ بہت سے ان یہودیوں کے لیے میرا موقف سمجھنا انتہائی مشکل ہوتا، جن سے اتفاقاً میری ملاقات ہو جاتی یا فلسطین میں رہتے ہوئے مختلف تہواروں پر ہم کہیں اکٹھے ہوتے۔ وہ سمجھ نہیں پاتے تھے کہ مجھے ان عربوں میں ایسی کیا بات دکھائی دیتی ہے، جنھیں وہ انتہائی پسماندہ سمجھتے تھے، بالکل اسی نظر سے دیکھتے تھے جیسے کوئی یورپی باشندہ، وسطی افریقہ کے اجڈ اور گنوار باشندوں کو دیکھتا ہے۔ عرب ذہن کیا سوچتا ہے؟ اس سے انھیں کوئی سروکار نہ تھا، نہ ان میں سے کوئی یہ تکلف ہی کرتا تھا کہ عربی زبان ہی سیکھ لے۔

صہیونی تحریک کی گمراہی کو آشکار کرنے والا  عینی شاہد

محمد اسد نے اپنی اس کتاب میں جو کچھ لکھا ہے اس کی اہمیت محض اس وجہ سے نہیں ہے کہ ان کی مذکورہ رائے کی بنیاد منطقی اسباب پر تھی، ہرگز نہیں۔ درحقیقت یہ اس عینی شاہد کا بیان ہے، جسے ان نتائج تک واقعی،حقیقی اور آنکھوں دیکھے زندہ واقعات و حوادث نے پہنچایا تھا۔ محمد اسد خود ان واقعات اور ان کی جزئیات کا حصہ رہے ہیں۔ گویا یہ اس زمانے کے احوال و واقعات کے بارے میں ایک باخبر صحافی کے ایسے رپورتاژ ہیں جو انتہائی باریک بینی اور دقت نظری سے مرتب کردہ تھے، زمینی حقائق پر مبنی اور نتائج بھی عقلی استدلال سے پُر۔

محمد اسد لکھتے ہیں: ’’ان دنوں ایک عام یورپی باشندہ، فلسطینی عربوں کے بارے میں کیا جانتا تھا؟عملاً کچھ بھی نہیں۔ جب یورپی یہودی فلسطین آئے تو اپنے ساتھ بہت سے غلط العام جذبات و احساسات بھی لے کر آئے۔ان میں سے جو بھی صاف نیت اور تھوڑی سی عقل و شعور کا مالک ہوگا، وہ ضرور اقرار کرے گا کہ ارض فلسطین پر عربوں کی موجودگی کے بارے اسے کچھ معلوم نہیں تھا۔ میں خود بھی ارضِ فلسطین پر آنے سے قبل ہرگز یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ عرب سرزمین ہے جو عربوں ہی کی ہے۔ بس یہاںکے بارے میں کچھ مبہم سی معلومات تھیں کہ چند عرب لوگ بھی یہاں رہتے ہیں اور ان عربوں کے بارے میں میرا تصور یہ تھا کہ یہ عرب قبائلی بدو ہوں گے خیمہ بدوش، کبھی یہاں کبھی وہاں پڑاؤ ڈالنے والے اور صحرائی میدانوں میں اونٹ چرانے والے۔میں نے گذشتہ چند برسوں میں فلسطین کے بارے میں اگر کچھ پڑ ھا تو وہ صہیونیوں کا لکھا پروپیگنڈا لٹریچر ہی تھا، جس میں ان کا اپنا موقف ہی دیا ہوتا تھا۔میں نہیں جانتا تھا کہ فلسطین کے شہر، عرب شہر ہیں جن میں عرب رہتے بستے ہیں۔ ۱۹۲۲ء میں یہاں آبادی کا تناسب کچھ اس طرح تھا کہ ایک یہودی کے مقابلے میں پانچ عرب اور اس کا سیدھا سادہ مطلب یہی تھا کہ یہ ایک عرب ملک ہے‘‘۔

اس طرح صہیونی تحریک کی جانب سے اسرائیل کے قیام کے غیر قانونی اعلان سے  ربع صدی قبل محمد اسد صہیونی سازشوں کو بے نقاب کر رہے تھے اور اس واضح وژن کے ساتھ، جس میں خوف اور تردد کا ادنیٰ سا شائبہ بھی نہیں تھا، پوری تفصیلات اور بھرپور اعتماد کے ساتھ۔ اس لیے کہ انھوں نے  عینی شاہد کے طور پر، صحافی کے طور پر، ایک رپورٹر اور ادیب کے طور پر بچشم سر خود مقبوضہ فلسطین کو دیکھا تھا۔اس مشاہدے اور تجربے نے یورپی قلم کاروں کے ہاتھوں پہلے سے بنائی ہوئی اس مسخ شدہ تصویر کو تبدیل کر کے رکھ دیا جس کی بنیاد غلط معلومات اور فلسطین کے بارے میں یہودی پروپیگنڈا پر تھی جو دن رات وہ کرتے رہتے تھے۔

تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہود اور ان کا پروپیگنڈا ہی اُس دور میں معلومات اور خبروں کا واحد ذریعہ تھا کہ جب انفارمیشن اور خبروں کے ذرائع خال خال ہی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ محمد اسد جس اخبار میں اپنے مراسلات بھیجتے تھے، وہ بڑے اہتمام کے ساتھ ان کے مضمون کے آخر میں یہ لکھنا نہیں بھولتا تھا کہ’’مقالہ نگار کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے‘‘ ۔ اس کی ایک وجہ شاید ان اداروں میں یہود ی اثر و نفوذ بھی تھا۔

 محمد اسد کے دورۂ فلسطین کی ایک اہم یادگار ان کی اس وقت صہیونی تحریک کے رہنما حائیم وائز مین کے ساتھ ملاقات بھی تھی۔ اس گرماگرم بحث سے محمد اسد کی صہیونی تحریک کے بارے میں ذاتی رائے بھی معلوم ہوتی ہے اور صہیونی تحریک کی ان کوششوں کے بارے میں آگاہی بھی ملتی ہے، جو وہ فلسطین اور پورے عرب کی صورت مسخ کرنے، اور پھر اس مسخ شدہ تصویر کو عالمی رائے عامہ کے ذہنوں پر مسلط کرنے کے حوالے سے کر رہی تھی۔ اس سطحی صہیونی عقل و منطق کا اندازہ بھی اس سے بخوبی ہو جاتا ہے، جو وہ فلسطین پر ناجائز قبضہ کے جواز کے طور پر رکھتے تھے۔ اس مکالمے سے ہم یہ اندازہ بھی لگا سکتے ہیں کہ دنیا کے اس پُرآشوب خطّے اور اس میں رہنے والے قبائل اور نسلوں کے بارے میں محمد اسد کی اپنی معلومات کس قدر وسیع اور گہری تھیں۔

 گفتگو کا آغاز اس وقت ہوا جب وائز مین ان مالی مشکلات پر شکایت کناں تھے جو فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے میں آڑے ا ٓرہی تھیں کہ ’’فلسطین سے باہر رہنے والے لوگ ہماری باتوں اور اپیلوں پر کان نہیں دھر رہے‘‘۔ محمد اسد کہتے ہیں کہ اس سے مجھے خیال گزرا کہ یہ بھی دیگرصہیونیوں کی طرح فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے میں ناکامی کا بوجھ بیرونی دنیا پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ بات چیت کے دوران خاموشی کا ایک وقفہ آیا تو میں نے اسے غنیمت جانتے ہوئے ایک سوال اُچھالا:’’ اور یہاں رہنے والے عربوں کا کیا ہوگا؟‘‘ مجھے لگا جیسے میں نے کوئی پہاڑ جیسی غلطی کر دی ہو، یہودی محفلوں کے لیے بالکل اجنبی سا سوال پوچھ کر۔

ڈاکٹر وائز مین نے آہستہ آہستہ اپنا چہرہ میری طرف پھیرا اور میرا ہی سوال دُہرا دیا: ’’عربوں کا کیا ہوگا؟‘‘ میں نے اپنا سوال خود ہی مکمل کیا کہ ’’فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن کیسے بنا پائیں گے، جب کہ عربوں کی طرف سے ہمیں شدید مخالفت کا سامنا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ وہ اکثریت میں بھی ہیں؟‘‘ یہودی لیڈر نے اپنے کندھے اچکائے گویا جواب دے رہے ہوں اور پھر خشک لہجے میں بولے: ’’ہمیں امید ہے کہ چند برسوں بعد وہ اکثریت میں نہیں ہوں گے‘‘۔

 میں نے جواباً کہا: ’’اس امر کی کوشش تو آپ برسوں سے کر رہے ہیں اور یقینا مجھ سے زیادہ حقائق کو بھی جانتے ہیں لیکن کیا اس معاملے کا اخلاقی پہلو تو کبھی آپ کو شرمسار نہیں کر دے گا؟ کیا آپ کو فکر ہے کہ اس خطے میں ساری ساری زندگیاں گزارنے والی قوم کو ان کے گھر بار اور علاقے سے نکال دینا بہت بڑی غلطی ہوگی؟

وائز مین نے اپنی آنکھوں کی بھنویں سکیڑیں اور جواب دیا: ’’یہ ہماری زمین ہے اور ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کر رہے کہ غلطی سے جوعلاقہ ہم سے چھن گیا تھا، وہی اب ہم واپس لے رہے ہیں‘‘۔ میں نے جواب دیا: ’’لیکن آپ لوگ تقریباًد و ہزار برس تک اس خطے سے دور تھے۔ ہاں، ٹھیک ہے اس سے قبل اس خطے پر آپ کی حکومت رہی، لیکن پورے خطے پر نہیں اور وہ بھی کوئی ۵۰۰ برس سے بھی کم عرصے کے لیے صرف۔ آپ کی منطق کو اگر قبول کر لیا جائے تو کیا عرب بھی اندلس کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتے؟ انھوں نے تو اندلس پر ۷۰۰ برس سے زیادہ عرصہ تک حکومت کی ہے اور ابھی انھیں وہاں سے نکلے پانچ سو برس بھی نہیں ہوئے؟‘‘ اس پر وائز مین کا صبر جواب دے گیا اور وہ کہنے لگے: ’’یہ سب بے کار کی باتیں ہیں۔ عربوں نے اندلس پر جنگ مسلط کی تھی۔ اندلس کبھی بھی ان کی سرزمین نہیں رہا۔ زیادہ معقول اور آخری بات یہ ہے کہ اندلسیوں نے خود انھیں نکال باہر کیا تھا‘‘۔

میں نے ان کی دلیل کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’معاف کیجیے گا، لگتا ہے تاریخی تناظر کے اعتبار سے غلط موقف بنایا جارہا ہے۔ آپ کچھ بھی کہہ لیں مگر حقیقت یہ ہے کہ عبرانی بھی جنگجو بن کر فلسطین میں داخل ہوئے تھے اور ان سے پہلے طویل مدت تک سامی اور غیر سامی قبائل فلسطین میں رہتے آ رہے تھے۔ عموری،فلسطینی، موابی،حتی اور عبرانیوں کی ان سے جنگ کے بعد بھی مسلّمہ تاریخی حقیقت یہی ہے کہ یہ قبائل فلسطین ہی میں رہتے بستے رہے۔اسی طرح یہودا اور اسرائیل، دونوں یہودی مملکتوں کے اندر بھی یہ لوگ بستے رہے۔یہ لوگ اس وقت بھی اس سرزمین میں بس رہے تھے، جب رومیوں نے ہمارے یہودی اسلاف کو ارضِ فلسطین سے بے دخل کیا تھا اور یہی لوگ آج بھی فلسطین کی سرزمین پررہ بس رہے ہیں‘‘۔

میری گرم جوشی دیکھ کر ڈاکٹر وائز مین مسکرا دیے اور غالباً بے بس ہوکر گفتگو کا رُخ دوسری طرف موڑ کر دیگر موضوعات پر بات کرنے لگے‘‘۔

بقول محمد اسد: ’’مجھے اس ملاقات اور اس کے نتائج پر کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ مجھے ہرگز توقع نہیں تھی کہ صہیونی منصوبہ عقل و منطق اور دلیل و حجت سے اس قدر عاری ہوگا۔مجھے امید تھی کہ میری طرف سے عرب مسئلہ کا دفاع اس صہیونی منصوبے کے بارے میں اس کے خالقوں کے ذہن میں شک و شبہہ پیدا کردے گا یا کم سے کم اس کی کامیابی کے بارے میں عدم یقین کی کیفیت تو ضرور ہی پیدا ہوگی، جن سے ان میں یہ احساس جنم لے گا کہ ان کے منصوبے کی عربوں کی طرف سے مزاحمت اخلاقی طور پر بر حق ہے، لیکن اس کے برعکس میں نے اپنے آپ کو چبھتی نظروں کی ٹھنڈی دیواروں میں گھرا ہواپایا۔ایسی نظریں جو میری جرأت اور بے باکی کی مذمت کر رہی تھیں۔ ان امور پر اظہارِ تشکیک ان کے نزدیک جرم تھا، جن میں شک و شبہہ مکمل طور پر ناقابلِ قبول ہو۔ ان کے نزدیک یہودیوں کا ان کے آباؤ اجداد کی سرزمین فلسطین پر حق فائق تھا۔

 صہیونی تحریک کے رہنما کی اپنی دلیل ایک ۲۲ سالہ نوجوان صحافی کے سامنے نہ ٹھیرسکی۔ یہی نہیں بلکہ وہ جواب دینے سے کترانے لگا اور بات کا رُخ محض اس لیے موڑ دیا کہ اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور نہ وہ اس موضوع پر مزید گفتگو کا متحمل ہو سکتا تھا۔اپنے انھی خیالات، منطقی استدلال اور عملی مشاہدے کی بنیاد پر محمد اسد فلسطین میں یہودیوں کے انجام اور ان کی ریاست کے جلد یا بدیر، زوال کی توقع رکھتے تھے۔

شامی نامہ نگار حیدر الغدیر ۱۹۷۹ء میں مراکش میں محمد اسد کے ساتھ اپنی ایک ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے ان کا قول دہراتے ہیں: ’’یہود ایک ایسی احمق قوم ہیں، جنھوں نے اپنی تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور نہ اپنی غلطیوں ہی سے کچھ سیکھا ہے۔ ان میں غرور بھی ہے اور لالچ بھی اور یہی دو چیزیں ہلاکت خیز ہوتی ہیں۔ ان کی مثال اس بندر کی سی ہے جس نے ایک بوتل میں بند بادام دیکھے تو انھیں کھانے کے لیے جھٹ سے اپنا ہاتھ بوتل میں ڈال کر مٹھی بھر لی اب لگا زور لگانے کے ہاتھ باہر نکالے، لیکن کوئی چارہ نہیں تھا۔اتنی عقل تھی نہیں کہ بادام چھوڑے، مٹھی کھولے اور ہاتھ نکال لے۔ باداموں کا لالچ بھی اسے مٹھی میں بھرے بادام چھوڑنے نہیں دے رہا تھا۔ لہٰذا وہ اسی حالت میں رہا، یہاں تک کہ اس کا مالک آگیا اور اس نے مار مار کر اس سے بادام چھڑوائے اور اس کا ہاتھ آزاد کرایااوربندر کو اپنے لالچ کی سزا ملی۔ بس ایسی ہی صورتِ حال فلسطین میں یہودیوں کی بھی ہے۔ ان کے لالچ کی سزا انجامِ کار ان کی منتظر ہے۔ انھیں بھی بالکل اسی طرح مجبوراً فلسطین کو چھوڑنا پڑے گا جیسے لالچی بندر کو مار کھا کھا کر بادام چھوڑنے پڑے تھے‘‘۔