اعجاز القرآن کے بارے میں مفسرین وادبا و علما کی متعدد آراء ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ قرآنی اعجاز بیانی ہے یعنی قرآن پاک اپنے معانی اور پیغام کو اتنے واضح اور بلیغ انداز میں پیش کرتا ہے جو انس و جن کے بس میں نہیں ہے۔ یہی وہ اعجاز ہے جو حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر کفار و مشرکین کے لیے چیلنج تھا۔ الفاظ، جملے اور ترکیبیں سب وہی تھیں جن کو عرب جانتے تھے لیکن ان کو قرآن میں جس طریقے سے جوڑا گیا تھا کہ وہ فصاحت و بلاغت کا نمونہ بن جائیں، وہ انسانوں کے بس میں نہیں تھا۔
قرآن کے اعجاز بیان کی ایک مثال یہ ہے کہ عربی زبان میں ’سنة‘ اور ’عام‘ دونوں سال کے لیے استعمال ہوتے ہیں لیکن ’سنۃ‘ وہ سال ہوتا ہے جس میں مصائب اور مصیبتیں ہوتی ہیں اور ’عام‘وہ سال ہے، جس میں آرام و آسایش ہو۔ قرآن پاک میں حضرت نوحؑ کے بیان میں ’سنۃ‘ (العنکبوت۲۹:۱۴)، اور مصری بادشاہ کے خواب کی تعبیر میں بھی لفظ ’سنة‘ اور ’عام‘ استعمال ہوا ہے (یوسف۱۲: ۴۶-۴۹)۔ دونوں آیتوں میں مشکل برسوں (Years)کے لیے’ سنۃ‘ اور آسان برسوں کے لیے ’عام‘ استعمال ہوا ہے۔
اسی طرح حضرت یوسفؑ کے زمانے میں مصر کے حاکم کے لیے ’ملک‘ (بادشاہ) کا لفظ قرآن پاک میں استعمال ہوا ہے،جب کہ دوسری جگہوں پر مصر کے حاکموں کے لیے ’فرعون ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت یوسفؑ کے زمانے میں مصر کا بادشاہ ہکسوس قوم سے تھا۔ یہ لوگ غیرمصری تھے اور اپنے بادشاہوں کے لیے ’فرعون‘ کا لقب استعمال نہیں کرتے تھے ۔
تشريعی یا قانون سازی کے اعجاز کا مطلب ہے قانون سے متعلق امور کوبہت آسان اور جامع بنانا، نیز اسے مختصر ترین الفاظ میں ایسے بیان کر دینا جو آج بھی انسان کے لیے ناممکن ہے۔ قرآن پاک نے جو قوانین ہمارے لیے بنائےہیں، ان میں بہت حکمت ہے۔ ان میں عقل مند اور کم عقل، صحت مند اور بیمار، عالی ہمت اور کم ہمت سب کی رعایت کی گئی ہے۔ اس میں تدریج کابھی خیال رکھا گیا ہے جیسے شراب اور جوے کو دھیرے دھیرے حرام کیاگیا۔ قرض (دَین) اور مالی معاملات کے بارے میں بہت تفصیل سے بتا دیا گیا کہ جب قرض لو تو اسے لکھ لو، لکھنے والے کی صفت بھی بتائی اور لکھنے کی حکمت بھی بتا دی (البقرہ ۲: ۲۸۲)۔ اسلامی تشریع میں سفر و حضر کے لیے بھی الگ الگ قوانین ہیں، کمزور اور طاقت ور مسلمان کے لیے بھی رخصت اور عزیمت کا اصول ہے اور انتہائی مجبوری میں حرام اشیا کو کھانے کی بھی اجازت ہے۔
یہاں میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کے بیرونی پالیسی کے مشیر رابرٹ ڈکسن کرین (م:۲۰۲۱ء) کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو قرآن پاک کی صرف ایک آیت دیکھ کر مسلمان ہو گئے۔ وہ پبلک لا اور انٹرنیشنل لا میں پی ایچ ڈی تھے اور ہارورڈ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لا کے صدر رہ چکے تھے۔ انھوں نے بتایاکہ اسلامی مبادی کے بارے میں صدر نکسن نے جاننا چاہا تو سی آئی اے سے کہا گیاکہ اس کے بارے میں ایک نوٹ تیار کرے۔ سی آئی اے نے جو نوٹ تیار کیا وہ کافی طویل تھا چنانچہ صدر نکسن نے رابرٹ کرین سے کہا کہ وہ اس کو مختصر کر دیں۔ رابرٹ کرین نے یہ کام کر دیا، لیکن جو معلومات اس نوٹ کے ذریعے ان کے علم میں آئیں اس نے ان کو مجبور کیا کہ اسلام کے بارے میں مزید معلومات حاصل کریں اور بالآخر ۱۹۸۱ء میں وہ مسلمان ہو گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ قانون انھوں نے ہارورڈ لا اسکول میں پڑھا تھا وہ سب انھوں نے قرآن میں پایا لیکن قرآن میں ایک بنیادی اصول عدل و انصاف (Justice) کاہے جس کا ذکر قرآن میں باربار آتا ہے لیکن جو قانون انھوں نے ہارورڈ لا اسکول میں پڑھا تھا وہاں یہ تصور کبھی نظر نہیں آتا ۔ ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ ایک بار ایک یہودی ان کے ساتھ تھا جو قانون کا پروفیسر تھا۔ اس سے انھوں نے پوچھا کہ میراث کے بارےمیں امریکی قانون کتنا مفصل ہے؟ اس پروفیسر نے بتایا کہ میراث کے بارے میں امریکی قانون آٹھ جلدوں میں ہے۔ رابرٹ کرین نے اس پروفیسر سے کہا کہ اگر میں ایک میراث کا قانون دکھاؤں جو صرف دس سطروں میں ہو تو کیا تم مانو گے کہ اسلام دینِ حق ہے؟ اس پروفیسر نے ماننے سے انکار کر دیا کہ میراث کے قانون کو دس سطروں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ اس پر رابرٹ کرین نے قرآن پاک کی وہ آیت (النساء ۴ : ۱۱-۱۲) اس پروفیسر کو پیش کر دی۔ وہ پروفیسر اس وقت خاموشی سے چلا گیا لیکن چند دن بعد وہ رابرٹ کرین کے پاس آیا اور کہا کہ ’’انسانی دماغ کے لیے ممکن نہیں ہے کہ تمام اقرباء کا خیال رکھتے ہوئے اتنی عمدگی اور عدل سے میراث کو تقسیم کرے کہ کسی بھی رشتہ دار کو چھوڑے بھی نہ اور نہ کسی کے ساتھ نا انصافی کرے‘‘۔ رابرٹ کرین کے مطابق وہ یہودی پروفیسر بھی کچھ دنوں بعد مسلمان ہو گیا ۔ ۳۴
اسلامی تشریعات سب کے لیے ہیں، افراد، اجتماعیت، حکومتیں، مرد، عورت، امیر و غریب، حاکم و محکوم، سیاسی، اقتصادی، دینی، اجتماعی سب امور کے لیے ہیں۔ اسلام نے نکاح کو ضروری قرار دیا، طلاق، میراث وغیرہ کے احکام بتائے، اور سب میں عدل وانصاف کا لحاظ کیا: وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۰۠ (البقرہ ۲: ۲۲۸)۔ شادی (زواج )کو مرد و عورت کے درمیان تعلق کو منظم کرنے کے لیے واجب قرار دیا تاکہ زندگی اور نسلیں چل سکیں۔ اسلام میں مرد و عورت دونوں پر ایک ہی طرح کی ذمہ داریاں ہیں: وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۰۠ (البقرہ ۲: ۲۲۸)۔
قرآن کے تشریعی اعجاز میں بنیادی مقام عقیدۂ توحید کا ہے جو پورے عقیدے کی بنیاد ہے۔ اس سے فرد، خاندان اور قوم کے سلوک کی بنیاد بنتی ہے اور اللہ کی بندگی کا حکم ہے:
اسلام نے اپنی بنیاد بہت مضبوط ارکان پر رکھی: صلوٰۃ،صيام،زکوٰۃ،حج، شوریٰ (وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ۰۠ الشوریٰ۴۲: ۳۸)، مساوات،عدل (كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلہِ شُہَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ۰ۡ (المائدہ۵: ۸)۔ اسلام میں شریعت کا دخل فرد، سوسائٹی اور اسٹیٹ کے ہرچھوٹے بڑے معاملات میں ہے۔ ہر ذمہ داری ایک امانت ہے جو ہر فرد کو پوری طرح ادا کرنی ہے ( اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۰ۙ… النساء۴: ۵۸)۔شریعت کا ربانی ہونا، اس کی قوت کا راز ہے۔ اسلامی قوانین سخت ہیں لیکن ان میں لچک بھی ہے۔ اس نے زمان و مکان کے لحاظ سے اجتہاد کی گنجایش بھی چھوڑی ہے۔ اسلام نے ان ارکان کے ذریعےایک مضبوط جماعت کی بنیاد رکھی۔
قرآن کے اعجاز کا ایک اہم پہلو ان سائنسی حقائق سے متعلق ہے جو کہ انسانی وجود، زمین، آسمان، فضا، سمندر، پہاڑوں وغیرہ کے بارے میں قرآن پاک میں مذکور ہیں ۔ یہ حقائق قدیم انسان کو تو کیا رسول اکرمؐ کے معاصر لوگوں کو بھی نہیں معلوم تھے۔ ان کا ادراک پچھلی دو تین صدیوں سے سائنسی ترقی اور نت نئے آلات کی ایجاد کی وجہ سے ہونا شروع ہوا ہے۔ لیکن سائنس حقائق کی بہت سی باتیں قرآن پاک نے پندرہ صدیوں پہلے بتا دی تھیں اور یہ پیشین گوئی بھی کردی تھی کہ اللہ پاک انسان کو کائنات میں اور خود اس کو اپنے اندر اپنی نشانیاں دکھائیں گے تاکہ اس کو معلوم ہوجائے کہ قرآن پاک برحق ہے (سَنُرِيْہِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ۰ۭ حم السجدہ ۴۱ : ۵۳)۔
قرآنی اعجاز کا یہ پہلوپرانے زمانے میں اتنا واضح نہیں تھا لیکن پچھلی چند صدیوں کے سائنسی انقلاب کی وجہ سے انسان خو د اپنے اندر، دنیا میں اور کائنات میں اللہ پاک کی نشانیاں دیکھتا ہے۔ اس کی بہت سی تفصیلات لوگوں نے کتابوں ، مضامین اور ویڈیوز میں بیان کی ہیں۔ خود میں نے اپنے ترجمۂ قرآن میں قرآن پاک کے تعارف کے ضمن میں ۲۰ ایسی سائنسی حقیقتوں کا ذکر کیا ہے جو انسان کو چند صدیوں پہلے معلوم نہیں تھیں ۔ ۳۵
اس فہرست میں سیکڑوں اضافے کیے جا سکتے ہیں اور یقینی طور پر آنے والی صدیوں میں جب انسان خود اپنے بارے میں، دنیا اور کائنات کے بارے میں مزید جانے گا تو یہ حقیقت اس کے سامنے اور واضح ہو جائے گی کہ یہ پوری کائنات اللہ پاک کے محکم قوانین کے تحت چل رہی ہے۔ اگر یہ قوانین نہ ہوتے تو اس سارے نظم و ضبط کی جگہ ، جو کائنات کو اتنے منظم طور سے چلانے کا سبب ہے، لاقانونیت اور افراتفری ہوتی جس کے ہوتے ہوئے کوئی معنی خیز زندگی یا ترقی نا ممکن ہوتی۔
مسلمانوں کا ایمان ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا خالق ہے اور قرآن پاک اسی کا کلام ہے، اس لیے قرآن میں بیان کردہ باتیں سائنسی حقائق کے خلاف نہیں ہو سکتی ہیں۔ قرآن پاک سائنس کی کتاب نہیں ہے لیکن وہ علم حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے (العلق۹۶: ۳-۴) اور انسان کو دعوت دیتا ہے کہ اللہ کی کائنات کو دیکھے اور اس پر غور کرے (اٰل عمرٰن۳ : ۱۳۷؛ الانعام۶: ۱۱؛ الرعد۱۳: ۱۰۹؛ النحل۱۶: ۳۶؛ الحج۲۲: ۴۶؛ النمل۲۷: ۶۹؛ العنکبوت۲۹: ۲۰؛ الروم۳۰: ۹، ۴۲؛ الفاطر۳۵: ۴۴ وغیرہ)۔
جن کتابوں نے قرآن پاک میں مذکور بیانات کو سائنسی طور پر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ان میں سرفہرست فرانسیسی ڈاکٹر موریس بوکای(م: ۱۹۹۸ء) کی کتاب بائبل، قرآن اور سائنس‘ شامل ہے۔ ۳۶ انھی حقائق کی وجہ سے موریس بوکای اسلام لائے تھے۔ مسلمانوں میں قرآن پاک کے سائنسی اعجاز کے پرجوش مبلغ مصری پروفیسر زغلول النجار شامل ہیں جنھوں نے اپنے مقالات، لیکچروں اور ٹیلیویژن پر پروگراموں سے قرآن پاک کے سائنسی اعجاز کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔ وہ سورۃ الانعام کی آیت ۶۷(لِكُلِّ نَبَاٍ مُّسْـتَقَرٌّ۰ۡوَّسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۶۷) کا بطورِ خاص ذکر کرتے ہیں کہ قرآن پاک نے پیشین گوئی کی ہے کہ اس کے سائنسی بیانات مستقبل میں پہچانے جائیں گے۔ انھوں نے جن بہت سے سائنسی حقائق کا ذکر کیا ہے ان میں ایک یہ ہے کہ کائنات ایک عظیم انفجار(Big Bang) سے پیدا ہوئی ہے اور کرۂ ارضی میں سب سے زیادہ منخفض علاقہ بحر مُردار کا ہے (فِيْٓ اَدْنَى الْاَرْضِ الروم ۳۰ : ۳)۔ اسی طرح انھوں نے بتایا کہ قرآن پاک نے ایسی بعض باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو نزول آیت کے چند سال بعد وقوع پذیر ہوئیں جیسے رومیوں کے ہاتھ ایرانیوں کی شکست ( الۗمّۗ۱ۚ غُلِبَتِ الرُّوْمُ۲ۙ …الروم ۳۰ : ۱-۵)۔ یہ آیت ایرانیوں کی شکست سے چھ سات سال قبل نازل ہوئی ۔ ۳۷
قرآن پاک میں دوسرے بہت سے سائنسی اشارات ہیں، مثلاً:
∎ سورج کا اپنے مقررہ دائرے میں گھومنا: وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّہَا۰ۭ ذٰلِكَ تَــقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِــيْمِ۳۸ۭ (يٰسٓ ۳۶ : ۳۸)
∎ لوہا: وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْہِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ (الحديد ۵۷ : ۲۵)
مُردار کا گوشت اور خون اور خنزیر کے گوشت وغیرہ کی تحریم (البقرۃ ۲ : ۱۷۳ ، المائدۃ ۵: ۳، الانعام ۶ : ۱۴۵)۔ صدیوں بعد اس تحریم کی حکمت معلوم ہوئی۔
∎ انفجار ِعظیم (Big Bang )کی خبر کہ آسمان اور زمین ملے ہوئے تھے اور ہم نے جدا کیا: اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا۰ۭ (الانبیاء ۲۱ : ۳۰)
∎ کائنات پہلے دخان (دھواں یا اسٹیم)تھی، یعنی اپنی موجودہ شکل لینے سے پہلے کائنات کا مادہ دخان کی صورت میں تھا: ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ وَہِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْہًا۰ۭ قَالَتَآ اَتَيْنَا طَاۗىِٕعِيْنَ۱۱ (حم السجدہ۴۱: ۱۱)
∎ پانی سے ہر چیز بنائی گئی؛ پانی سے زندگی ہے: وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ …(الانبیاء ۲۱: ۳۰)
∎ کائنات مستقل پھیل رہی ہے: وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰہَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ۴۷ (الذاريات ۵۱: ۴۷)
∎ ایک دن کائنات کو سمیٹ لیا جائے گا:يَـوْمَ نَطْوِي السَّمَاۗءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ۰ۭ كَـمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُہٗ۰ۭ …… (الانبیاء ۲۱: ۱۰۴)
∎ جنین مختلف مراحل سے گزر کر پیدا ہوتا ہے، ولادت: خُلِقَ مِنْ مَّاۗءٍ دَافِقٍ۶ۙ يَّخْرُجُ مِنْۢ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَاۗىِٕبِ۷ۭ (الطارق۸۶: ۶ -۷)؛
∎ جنین کو مختلف مراحل میں پیداکیا گیا ہے: وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـۃٍ مِّنْ طِيْنٍ۱۲ۚ ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ۱۳۠ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا۰ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ۰ۭ (المؤمنون ۲۳: ۱۲-۱۴)۔ جنین میں ہڈیاں پہلے بنتی ہیں، اس کے بعد ہڈیوں پر گوشت یعنی عضلات بنتے ہیں جیسا کہ المؤمنون کی آیت میں آیا ہے۔
∎ کائنات ازلی نہیں بلکہ اسے اللہ نے پیدا کیا ہے: بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ وَاِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَہٗ كُنْ فَيَكُوْنُ۱۱۷ (البقرہ۲ : ۱۱۷)
∎ ایک دن کائنات بکھر جائے گی (Big Crunch) : يَـوْمَ نَطْوِي السَّمَاۗءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ۰ۭ كَـمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُہٗ۰ۭ …… (الانبیاء ۲۱: ۱۰۴)
∎ جانوروں کے پیٹ میں دودھ بننا: وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً۰ۭ نُسْقِيْكُمْ مِّـمَّافِيْ بُطُوْنِہٖ مِنْۢ بَيْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَاۗىِٕغًا لِّلشّٰرِبِيْنَ۶۶(النحل۱۶: ۶۶)
∎ بلند فضاؤں میں آکسیجن کم ہو جاتی ہے، اس لیے وہاں سانس لینے میں مشکل ہوتی ہے: وَمَنْ يُّرِدْ اَنْ يُّضِلَّہٗ يَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَيِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاۗءِ۰ۭ ……(الانعام۶: ۱۲۵)
∎ سمندروں کی نچلی سطحوں میں اندھیرا اور ایک کے اوپر ایک موجیں ہوتی ہیں: اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِيْ بَحْرٍ لُّجِّيٍّ يَّغْشٰـىہُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِہٖ سَحَابٌ۰ۭ ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ۰ۭ اِذَآ اَخْرَجَ يَدَہٗ لَمْ يَكَدْ يَرٰىہَا۰ۭ ……(النور۲۴: ۴۰)
∎ پہاڑ زمین کی میخ ہیں جو زمین کی حرکت کو متوازن رکھتے ہیں: وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا۷ (النبا۷۸: ۷)؛ وَاَلْقٰى فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِكُمْ ……(النحل۱۶: ۱۵)
∎ ہواؤں سے پولینیشن (بار آوری)ہوتا ہے: وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِـحَ…(الحجر۱۵: ۲۲)
زمین اور پہاڑ گھومتے ہیں: وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُہَا جَامِدَۃً وَّہِىَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ۰ۭ ……(النمل۲۷: ۸۸)
∎ النجم الطارق (Pulsating Star) جیسے نیوٹرون ستارہ (Neutron star) جن سے نبض یا خفقان کی آواز آتی ہے:وَالسَّمَاۗءِ وَالطَّارِقِ۱ۙ وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الطَّارِقُ۲ۙ النَّجْمُ الثَّاقِبُ۳ۙ (الطارق۸۶: ۱-۳ )
∎ ماحولیات میں خرابی انسانی اعمال کی وجہ سے ہوتی ہے: ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۴۱ (الروم۳۰: ۴۱)
∎ مکڑی کا گھر سب سے کمزور ہوتا ہے: مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اَوْلِيَاۗءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ۰ۖۚ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا۰ۭ وَاِنَّ اَوْہَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ۰ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ۴۱ (العنکبوت۲۹: ۴۱)
∎ کوّا بہت ذہین ہوتا ہے: فَبَعَثَ اللہُ غُرَابًا يَّبْحَثُ فِي الْاَرْضِ لِيُرِيَہٗ كَيْفَ يُوَارِيْ سَوْءَۃَ اَخِيْہِ۰ۭ قَالَ يٰوَيْلَــتٰٓى اَعَجَزْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِثْلَ ہٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِيَ سَوْءَۃَ اَخِيْ۰ۚ فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِيْنَ۳۱(المائدہ۵: ۳۱)
(۱)نباتات میں بھی نر اور مادہ ہوتے ہیں: سُبْحٰنَ الَّذِيْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّہَا مِـمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ وَمِنْ اَنْفُسِہِمْ وَمِـمَّا لَا يَعْلَمُوْنَ۳۶ (يٰسٓ۳۶: ۳۶)
(۲) نباتات زمین سے مقررہ مقدار میں غذائیت کھینچتے ہیں: وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰہَا وَاَلْقَيْنَا فِيْہَا رَوَاسِيَ وَاَنْۢبَتْنَا فِيْہَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍؚبَہِيْجٍ۷ۙ (قٓ۵۰: ۷)
∎ ستاروں کی منزلیں اور مقامات: فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ۷۵ۙ وَاِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِيْمٌ۷۶ (الواقعہ۵۶:۷۵-۷۶)
ستاروں اور کواکب کے درمیان قوت جاذبیت: اَللہُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ ……(الرعد۱۳: ۲)
∎ اللہ پاک نے زمین کو انسان کے رہنے کے قابل بنایا : وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىہَا۳۰ۭ (النازعات۷۹: ۳۰)
∎ اللہ پاک نے زمین و آسمان کو کنٹرول میں رکھا ہے: وَيُمْسِكُ السَّمَاۗءَ اَنْ تَقَعَ عَلَي الْاَرْضِ اِلَّا بِـاِذْنِہٖ۰ۭ ……(الحج۲۲: ۶۵)
∎ چاند کے مراحل: وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِيْمِ۳۹(یٰسٓ۳۶: ۳۹)
∎ چاند کی روشنی انعکاس ہے اور سورج کی روشنی براہِ راست: وَّجَعَلَ الْقَمَرَ فِيْہِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا۱۶ (نوح۷۱: ۱۶)
∎ قرآن پاک نے یہ بھی بتایا ہےکہ دنیا میں ایسے سمندر اور دریا ہیں جن میں دو طرح کے پانی ہوتے ہیں اور وہ آپس میں ملتے نہیں ہیں۔مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيٰنِ۱۹ۙ بَيْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيٰنِ۲۰(الرحمٰن۵۵: ۱۹-۲۰)
∎ قرآن پاک نے یہ بھی کہا ہے کہ مستقبل میں اللہ پاک انسان کو خود اپنےجسم اور کائنات میں چھپی ہوئی نشانیوں سے باخبر کریں گے: سَنُرِيْہِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ۰ۭ …… (حم السجدہ۴۱: ۵۳)
∎ ہر انسان کی انگلیوں کے بصمات (نشان)الگ ہوتے ہیں ۔ اللہ پاک نےبتایا کہ وہ ان کو بھی واپس لانے پر قادر ہیں:بَلٰى قٰدِرِيْنَ عَلٰٓي اَنْ نُّسَوِّيَ بَنَانَہٗ۴ (القيامة۷۵: ۴)
∎ اللہ تعالیٰ رات میں سے دن نکالتا ہے: وَاٰيَۃٌ لَّہُمُ الَّيْلُ۰ۚۖ نَسْلَخُ مِنْہُ النَّہَارَ فَاِذَا ہُمْ مُّظْلِمُوْنَ۳۷ۙ (يٰس۳۶: ۳۷)
آسمان محفوظ چھت ہے: وَجَعَلْنَا السَّمَاۗءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا۰ۚۖ وَّہُمْ عَنْ اٰيٰـتِہَا مُعْرِضُوْنَ۳۲ (الانبیاء ۲۱: ۳۲)
∎ انسان کو تکلیف جلد یا کھال سے ہوتی ہے: كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَيْرَھَا لِيَذُوْقُوا الْعَذَابَ۰ۭ……(النساء۴: ۵۶)
∎ انسان مکھی سے بھی کمزور ہے:وَاِنْ يَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَـيْـــــًٔـا لَّا يَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ۰ۭ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ۷۳ (الحج۲۲: ۷۳)
∎ انسان کو مٹی سے بنایا گیا ہے: وَاللہُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ اَزْوَاجًا۰ۭ ……(فاطر۳۵: ۱۱)
عرب قمری کیلنڈر استعمال کرتے تھے جو ۳۵۶ دنوں پر مشتمل ہوتا ہے، جب کہ اہل کتاب شمسی کیلنڈر استعمال کرتے تھے جو کہ ۳۶۵ دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔اس وجہ سے قمری سال شمسی سال سے ہر صدی میں تین سال کم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے جب قرآن پاک نے اصحابِ کہف کے غار میں رہنے کی مدت بیان کی تو قمری سال کے لحاظ سے تین صدی کے لیے نو برسوں کا اضافہ کردیا، وَلَبِثُوْا فِيْ كَہْفِہِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِيْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا۲۵ (الکہف۱۸: ۲۵)
معاصر علما اور اسکالرز میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ قرآن پاک میں سائنسی اعجاز ہے کیونکہ ان کے نزدیک قرآن ایک دینی کتابِ ہدایت ہے، سائنسی کتاب نہیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ قرآن پاک کوئی سائنسی کتاب نہیں ہے اور نہ اس نقطۂ نظر سے اس میں سائنسی حقائق بیان کئے گئے ہیں بلکہ اس میں دوسری باتوں کے ضمن میں سائنسی اشارے ہیں اور وہ ایسی باتوں کے بارے میں ہیں جن کو جزیرۂ عرب تو کیا ساری دنیا میں اس وقت کوئی نہیں جانتا تھا۔ شیخ الازھر محمودشلتوت(م: ۱۹۶۳ء) اور ادیبہ ومفسرہ عائشہ عبدالرحمٰن (بنت الشاطئ، م: ۱۹۹۸ء) نے قرآن پاک کے سائنسی اعجاز کا انکار کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ قرآنی اعجاز لسانی (لغوی) ہے، علمی نہیں ہے۔ خالد منتصر (مصنف: الاعجاز العلمی) کا کہنا ہے کہ قرآنی اعجازلسانی (لغوی) ہے، علمی نہیں ہے۔ یہی رائے پرویز ہود بھائی (مصنف اسلام اور سائنس: دینی آرتھوڈکسی اور عقلی لڑائی) کی ہے ۔ ۳۸ یمنی عالم شیخ عبدالمجید الزندانی سائنسی اعجاز کے پرجوش حامی ہیں۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے الهيئة العالمية للإعجاز العلمي في القرآن والسنة کے نام سے ایک بڑی تنظیم بنائی جس کا صدر مقام مکہ مکرمہ میں ہے۔
قرآن پاک کا علمی اعجاز برحق ہے لیکن اس میں مبالغہ آرائی نہیں ہونی چاہیے اور اس میں صرف ان چیزوں کو داخل کرنا چاہیے جو بالکل واضح ہیں۔ یہاں یہ بات بھی کہنی ضروری ہے کہ ہم قرآن پاک کے سائنسی معجزوں کی بہت بات کرتے ہیں لیکن خود سائنس میں بہت پیچھے ہیں۔ قرآن پاک کے سائنسی اعجاز کی جب ہم بات کرتے ہیں تو ہم انھی حقائق کو استعمال کرتے ہیں جن کا اکتشاف مغربی دنیا کے اسکالرز اور ریسرچ سنٹرز نے کیا ہے۔ ۳۹
غيبی اعجاز کا مطلب ہے قرآن کا ماضی، حال اور مستقبل کے تعلق سے ایسے امور کے بارے میں بتانا جسے جاننا نزول وحی کے وقت کسی انسان کے بس کی بات نہیں تھی۔ قرآن نے ماضی کی ایسی بہت سی باتیں بتائی ہیں جن کو اس وقت کا عرب اور غیرعرب نہیں جانتا تھا: تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْہَآ اِلَيْكَ۰ۚ مَا كُنْتَ تَعْلَمُہَآ اَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا۰ۭۛ …… (ھود ۱۱ : ۴۹)۔
قرآن پاک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے لوگوں، بالخصوص منافقین کے دلوں کی باتیں یا ان کے آپس کے راز و نیاز کے بارے میں بھی بتایا: وَاِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا۰ۚۖ وَاِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِہِمْ۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَكُمْ۰ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِءُوْنَ۱۴(البقرہ ۲ : ۱۴)۔
مکہ اور فتح مکہ سے پہلے کے مدینہ میں ایک عام آنکھ کو لگتا تھا کہ یہ چراغ اب بجھا کہ تب بجھا لیکن ان حالات میں بھی قرآن پاک بار بار رسول اکرمؐ سے کہتا ہے کہ کفار کے خلاف اللہ پاک اپنے پیغمبر ؐکا دفاع کریں گے (المائدہ۵ : ۶۷) ، کفار مغلوب ہوں گے (۳:۱۲)، قریش کو شکست ہو گی (۸:۳۶ ؛ ۹ : ۲-۳) ، اگر یہودی مدینہ چھوڑ کر جائیں گے تو منافقین قطعاً ان کے ساتھ نہیں جائیں گے(۵۹ : ۱۱-۱۲) ۔ صلح حدیبیہ کے سیاق میں اللہ تعالیٰ نے کہا کہ مسلمان مکہ میں داخل ہوں گے اور شعائر ادا کریں گے (۴۸ : ۲۷)۔ اللہ پاک نے اپنے نبی سے کہا کہ اللہ کی مدد ان کو ضرور آئے گی اور جب آئے گی تو لوگ جوق در جوق دین اسلام میں داخل ہوں گے (النصر۱۱۰: ۱-۳) ۔ اللہ پاک اپنے نبی کی حفاظت کریں گے (المائدہ۵ : ۶۷، ۹۹)۔ کفار ذلیل و خوار ہوں گے (المجادلۃ ۵۸ : ۵)۔ مشرکین قریش کو شکست ہوگی اور وہ پیٹھ دکھائیں گے (القمر۵۴: ۴۳-۴۵)
قرآن نے بتایا کہ حضور پاکؐ کے چچا ابولہب اور چچی کبھی ایمان نہیں لائیں گے اور وہ کفر پر مریں گے (اللّھب) ۔ اور حقیقت میں ایسا ہی ہوا،جب کہ ابولہب کے دونوں بیٹے عتبہ اور متعب فتح مکہ کے بعد ایمان لائے۔
قرآن پاک نے ماضی کی ایسی بہت سی باتیں بتائی ہیں جن کو جاننے کا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا اور اسی لیے قرآن پاک ان کو واقعات بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ اے پیغمبرؐ! جب یہ بات ہوئی تو تم وہاں نہیں تھے:ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْہِ اِلَيْكَ۰ۚ وَمَا كُنْتَ لَدَيْہِمْ اِذْ اَجْمَعُوْٓا اَمْرَہُمْ وَہُمْ يَمْكُرُوْنَ۱۰۲ (یوسف۱۲: ۱۰۲)
کچھ عیسائی اور یہودی اسکالرز اور مستشرقین نے دعویٰ کیا ہےکہ حضور پاکؐ نے قرآن پاک یہودی اور عیسائی مقدس کتابوں سے معلومات چُرا کر تیار کیاہے۔ یہ بات پوری طرح بوگس ثابت ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن پاک میں ایسی باتوں یا ایسی تفصیلات کا ذکر ہے جو توریت یا انجیل میں موجود نہیں ہیں ، یا جن کا توریت و انجیل میں دوسرے طریقے سے ذکر ہوا ہے۔ ۴۰
قرآن پاک کی غیب کی اطلاع دینے کی ایک اہم مثال ایرانیوں پر رومن (بیزنطیوں) کی ’چند سال‘ میں فتح کی پیشین گوئی ہے (الروم۳۰:۱-۵)۔ چند سال کے لیے یہاں جو عربی لفظ استعمال کیاگیاہے وہ ’بضع‘ ہے جو عربی میں ۳ سے ۱۰ تک کے لیے استعمال ہوتا ہے اور واقعتاً رومیوں کی فتح اسی مدت کے اندر واقع ہوئی ۔
قرآن پاک میں مختلف مقامات پر ’زوجہ‘ اور ’امرأۃ‘ کا استعمال ہوا ہے، جیسے امْرَاَتُ الْعَزِيْزِ تُرَاوِدُ فَتٰىہَا عَنْ نَّفْسِہٖ۰ۚ (یوسف۱۲: ۳۰)؛ امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ۰ۭ (التحريم۶۶: ۱۰) اور دوسری جگہوں پر زوج/زوجہ/ازواج کا استعمال ہوا:وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا …… (الروم۳۰: ۲۱)؛ وَاَصْلَحْنَا لَہٗ زَوْجَہٗ۰ۭ (الانبیاء۲۱: ۹۰)۔ اس میں بیانی اعجاز یہ ہے کہ ’امرأۃ‘ کا استعمال ان جگہوں پر ہوا ہے جہاں بیویوں نے خیانت کی جیسے نوحؑ اور لوطؑ کی بیویاں اور عزیز مصر کی بیوی۔ اس کے بالمقابل ’زوجہ‘ کا استعمال وہاں ہوا ہے جہاں بیوی کی تعریف مقصود ہے۔ ’زوجۃ‘ کا معنی یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے کثرت اولاد ہو۔ اس لیےجب حضرت زکریا نے اپنی لاولد بیوی کا ذکر کیا تو کہا: وَكَانَتِ امْرَاَتِيْ عَاقِرًا(مريم۱۹: ۵،۸ اور جب اللہ نے ان کی بیوی کو اولاد کے قابل بنا دیا تو کہا : وَاَصْلَحْنَا لَہٗ زَوْجَہٗ۰ۭ (الانبیاء۲۱: ۹۰)
∎ متکبرین کے جنت میں داخلے کو ناممکن قرار دیتے ہوئے قرآن پاک نے انتہائی بلاغت سے کہاکہ اُن کا جنت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا:
∎ وَلَا يَدْخُلُوْنَ الْجَـنَّۃَ حَتّٰي يَـلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ۰ۭ ……(الاعراف۷: ۴۰)
∎ جہنم کی بے پناہ وسعت کو یوں بیان کیا’’یاد کرووہ دن جب ہم جہنم سے پوچھیں گے تو بھرگئی؟ اور وہ کہے گی:کیا اور کچھ ہے؟‘‘: يَـوْمَ نَقُوْلُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ ہَلْ مِنْ مَّزِيْدٍ۳۰ …قٓ۵۰: ۳۰)
∎ قرآن کریم نے پیشین گوئی کی کہ مستضعف مسلمانوں کی بالآخر فتح ہوگی:سَيُہْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۴۵(القمر۵۴: ۴۵)
∎ قرآن کریم نے یہ بھی پیشین گوئی کی کہ مدینے کے کمزور مسلمان مسجد حرام (خانۂ کعبہ) میں داخل ہوںگے :لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَاۗءَ اللہُ اٰمِنِيْنَ۰ۙ مُحَلِّقِيْنَ رُءُوْسَكُمْ وَمُقَصِّرِيْنَ۰ۙ ……(الفتح۴۸: ۲۷)
∎ اللہ پاک مستضعف مسلمانوں کو تمکین (اقتدار) سے سرفراز کریں گے (… لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۰۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَہُمْ دِيْنَہُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَہُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا۰ۭ ……(النور۲۴: ۵۵)۔ حضورپاکؐ کی زندگی میں یہ وعدہ پورا ہو گیا۔
∎ اللہ پاک نے اپنے نبی کو زمانۂ حاضر میں ہونے والی باتوں سے باخبر کیا جن کے بارے میں نبی کچھ نہیں جانتے تھے جیسے منافقین کی دسیسہ کاریاں(التوبہ ۹:۷۵-۷۸)۔
∎ اسی طرح اللہ پاک نے اپنے نبی کو عبداللہ بن أبیّ سلول کے قول کے بارے میں اطلاع دی کہ جب وہ مدینہ پہنچے گا تو وہاں کے طاقت ور وہاں کے کمزوروں کو نکال باہر کریں گے: يَقُوْلُوْنَ لَىِٕنْ رَّجَعْنَآ اِلَى الْمَدِيْنَۃِ لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّ۰ۭ وَلِلہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَلٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ۸ (المنافقون۶۳: ۸)۔ جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے انکار کیا لیکن اللہ پاک نے اس کی تصدیق کی۔
∎ بالآخر اسلام کی کامیابی اور اس کا پھیلنا:يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَيَاْبَى اللہُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ كَرِہَ الْكٰفِرُوْنَ۳۲ ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۙ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ۳۳(التوبہ۹: ۳۲-۳۳)
غیب کی باتیں جو اللہ پاک نے اپنےنبی کو بتائی ان میں کچھ ماضی بعید سے تعلق رکھتی ہیں جیسے عمران کی بیوی (اٰل عمرٰن۳: ۳۵) اور حضرت مریم (اٰل عمرٰن ۳: ۴۴) کا قصہ؛ بنی اسرائیل اور حضرت موسٰی کے واقعات اور گائے کا قصہ (البقرہ۲: ۶۷-)، حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کا خانۂ کعبہ کی تعمیر (البقرہ۲: ۱۲۷)، طالوت اورجالوت کا قصہ (البقرہ ۲: ۲۴۷)، بنی اسرائیل کا اپنے دشمنوں پر غلبہ (البقرہ۲: ۲۴۹-۲۵۲)، حضرت داؤد کی شہنشاہیت کا قیام (صٓ ۳۸ : ۲۳-۲۶)، عاد (ابراہیم۱۴ : ۹ ، ۲۵ :۳۸)، ثمود (اعراف۷ : ۷۳ ۔ ۷۹، التوبہ ۹ : ۷۰ ، ۶۱ : ۶۸) ، حضرت آدمؑ کی پیدائش (البقرہ۲: ۳۰)، حضرت آدمؑ کا ابلیس کے ساتھ معاملہ (البقرہ۲: ۳۴)، حضرت آدمؑ اور حواؑ کا جنت سے نکلنا (البقرہ۲: ۳۶)، موسٰی اور بنی اسرائیل کی مدد (الدخان۴۴ : ۳۰ ، ۳۲ -۳۳)، حضرت یوسفؑ کا قصہ (۶ : ۸۴ ، ۱۲ : ۴ - ۱۰۱ ، ۴۰ : ۳۴) ، حضرت موسٰی کا ولادت سے لے کر مصر سے بھاگنے، واپس آنے اور دعوت حق دینے کا قصہ (۲۰ : ۳۸۔ ۴۰ ، ۲۸ : ۱۴ ۔ ۲۲ ، ۲۸ : ۳۰ -۳۲)، قارون کا قصہ جس کے گھمنڈ اور جبروت کی وجہ سے اللہ پاک نے اسے زمین میں گاڑ دیا (۲۸ : ۷۶۔۸۲) وغیرہ۔
مختلف جگہوں پر اللہ پاک اس حقیقت کا ذکر کرتے ہیں کہ محمدؐ وہاں موجود نہیں تھے جب وہ واقعات ہو رہے تھے (اٰل عمرٰن ۳:۴۴؛ یوسف۱۲:۱۰۲؛ القصص۲۸: ۴۴-۴۶) وَمَا كُنْتَ لَدَيْہِمْ(یوسف ۱۲: ۴۴، ۱۲ : ۱۰۲) ، وَمَا كُنْتَ ثَاوِيًا فِيْٓ اَہْلِ مَدْيَنَ …… وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ (القصص ۲۸ : ۴۵-۴۶)
قرآن پاک کے معجزہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پندرہ صدیوں کے گزرنے کے بعد بھی اس کا کلام آج بھی تروتازہ ہے۔ بار بار اس کو دُہرانے سے وہ باسی نہیں ہوتا۔ مسلمان ساری زندگی روز اس کی چھوٹی سورتیں اور بالخصوص سورۂ فاتحہ کو دن میں بار بار دُہراتے ہیں لیکن کبھی اُکتاتے نہیں اور نہ یہ کلام ان کو باسی لگتاہے، جب کہ کوئی انسانی کلام ہوتا تو انسان چند بار دُہرانے کے بعد ہی اس سے اُکتا جاتا ہے ۔ مستشرق لیون نے کہا ہے ’’قرآن کے جلال و عظمت کے لیے یہ کافی ہے کہ چودہ صدیوں کے گزرنے کے بعد بھی اس کے اسلوب میں کوئی تخفیف نہیں ہوئی ہے بلکہ وہ آج بھی تروتازہ ہے جیسے کہ وہ ابھی کل ہی وجود میں آیا ہو‘‘ ۔ ۴۱
قرآن پاک کے معجزہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ کا یہ کلام انسانی کلام سے ہمیشہ الگ نظر آتا ہے۔ اگر آپ اسے انسانی کلام کے بیچ میں کہیں نقل کر دیں تو یہ بالکل الگ دکھائی دے گا۔ قرآن پاک کا معجزہ یہ بھی ہے کہ آغازِ اسلام سے آج تک ہر نسل میں لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ اس کا اگر پورا نہیں تو ایک بڑا حصہ حفظ کرتے ہیں۔ یوں ہر نسل میں لاکھوں لوگ حافظ قرآن ہوتے ہیں۔
Miracle of the Quran: Significance of Mysterious Alphabets (1973)
The Computer Speaks: God’s Message to the World (1981)
Visual Presentation of the Miracle (1982
یہ قرآن پاک کے اعجاز کا ایک مختصر جائزہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مختصر مضمون سے اس عظیم موضوع کا حق ادا نہیں ہو سکتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس سیمینار میں مختلف زاویوں سے اعجاز قرآن پر بحث کر کے اس کا ایک حد تک حق ادا کیا جائے گا۔
_______________
۳۴- ڈاکٹر حق ، Nixon’s Counselor Robert Dixon Crane's interesting true story، ۱۳جنوری ۲۰۲۲ء
۳۵- The Glorious Quran ،ظفر الاسلام خان، Pharos ،نئی دہلی، ۲۰۲۳، ص ۳۱-۳۳
۳۶- The Bible, The Quran and Science، Alaistair D Phannel ۔یہ کتاب پہلی بار ۱۹۷۶ء میں انگریزی زبان میں شائع ہوئی۔ بعد میں اس کے بہت سی زبانوں میں ترجمے ہوئے۔
۳۷- دیکھئے: میرا ترجمۂ قرآن پاک (عربی متن کے ساتھ) حاشیہ بر آیت ۳۰ : ۲-۶ (ص: ۶۰۶-۶۰۷)
دیکھئے میرے انگریزی ترجمۂ قرآن میں حاشیہ برائے آیت نمبر ۲۵ : ۵۳ (ص: ۵۴۸ -۵۴۹ )
۳۸- پرویز ہودبھائی، Islam and Science: Religious Orthodoxy and the Battle for Rationality ، لندن، ۱۹۹۱ء
۳۹- المبالغة في تصوير الإعجاز القرآني ، إسلام أون لاين۔
۴۰- ہم نے اپنے ترجمۂ قرآن (ص۳۳-۴۱) میں ایسے ۳۵ واقعات کا ذکر کیا ہے جن میں قرآن پاک کی روایت توریت و انجیل سے مختلف ہے۔ اس فہرست میں اور بہت اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
۴۱- عبدالمجيد الزندانی ، توحيدالخالق ، ص۱۳۲