حیدر علی آتش [۱۷۷۷ء-۱۸۴۶ء]کا شعر ہے ؎
زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسےکیسے
آج سے تین سال پہلے میں نے روزنامہ دی نیوز کے لیے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’’افغانستان میں امن، مذاکرات کے ذریعے نہیں آئے گا بلکہ جنگ کے ذریعے ہی آئے گا‘‘۔ آج جب ہم زمینی حالات کو دیکھتے ہیں تو یہ بات ٹھیک ہی معلوم ہوتی ہے۔
تاہم، اُس وقت مجھے دوستوں نے کہا کہ ’’آپ یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ یہ کوئی ۱۹۹۶ء تو نہیں ہے۔طالبان کو بھی اپنی حدود (Limitations)کا احساس ہوچکا ہے۔ اس کے بجائے کہ وہ جنگ کریں، خود ان کی بھی یہی خواہش ہوگی کہ وہ کابل حکومت کے ساتھ کچھ لو دو پر معاملات طے کرلیں اورعارضی یا عبوری طور پر ہی سہی، کوئی نہ کوئی معاہدہ ان کے ساتھ ہوجائے‘‘۔
لیکن آج بھی میرا یہی خیال ہے کہ ’’افغانستان میں اگر امن آئے گا تو سول وار کے بعد ہی آئے گا ‘‘۔ ’کچھ لو اور کچھ دو‘ طالبان کا مزاج نہیں ہے۔ وہ ایک تحریک ہیں، جو افغانستان کو امارت اسلامیہ افغانستان بنانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ اس مرتبہ وہ معاملات کا کہیں زیادہ ادراک رکھتے ہوں گے کہ دُنیا ۱۹۹۶ء والی ’طالبانائزیشن (Talbanisation) کو قبول نہیں کرےگی۔ اس لیے وہ اپنے انداز میں ضرور کچھ تبدیلیاں کریں گے۔
ہم نے حالیہ عرصے میں یہ دیکھا ہے کہ امریکا نے بھی طالبان سے روابط قائم کیے اور پھر ان روابط کے نتیجے میں ۲۹فروری ۲۰۲۰ء کو ایک معاہدہ بھی ہوا۔ اسی طرح روس، چین، ایران اور ترکی نے بھی طالبان سے روابط بڑھائے ہیں۔ لیکن معلوم نہیں کہ پاکستان کیوں اپنے آپ کو تذبذب کی کیفیت میں ڈال کر اس پوزیشن کی جانب دھکیل رہا ہے، جو بالکل غیر ضروری ہے اور آخری تجزیے میں اس رویے سے پاکستان کے ہاتھ سوائے نقصان کے کچھ نہیں آئے گا۔
مثال کے طور پر ۳جون کو چوتھا سہ فریقی اجلاس چین، پاکستان اور افغانستان کی اشرف غنی حکومت کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہوا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس اجلاس کی کیا ضرورت تھی؟ بنیادی طور پر امریکی صدر بائیڈن کی حکومت نے ایک تجویز دی کہ اقوام متحدہ کے تحت استنبول میں ایک میٹنگ ہو۔ لیکن وہ نہیں ہوئی تو اسے جانے دیجیے۔ آپ ایسےمعاملات میں کیوں پڑتے ہیں، جن سے لگتا ہے کہ آپ طالبان کے خلاف پوزیشن لے رہے ہیں۔ ۳جون ۲۰۲۱ءکو جو نشست ہوئی، اس کے جاری کردہ اعلامیے میں یہ زبان استعمال کی گئی کہ ’طالبان دہشت گرد‘ ہیں۔ یہ مقدمہ یا موقف تو کابل حکومت کاہے۔ وہ ایک طرف طالبان کو ’دہشت گرد‘کہتے ہیں اور دوسری طرف ان سے مذاکرات بھی کرنا چاہتےہیں۔ ہمارا نہایت بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم نے اس قسم کے اعلامیے سے کیوں اتفاق کیا؟ یہ چیز ہماری سمجھ سے بالاتر ہے؟
دوسری طرف اسی اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’تینوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جو حکومت افغانستان میں طاقت کے ذریعے آئےگی،اس کی حمایت نہیں کی جائے گی‘‘۔ اب یہ کوئی کہنے کی بات ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکی قیادت میں نیٹو فورسز کی قوت کے بل پر ہی قبضے کے بعد افغانستان میں حامد کرزئی اور اشرف غنی وغیرہ کی حکومتیں بنیں۔ مراد یہ ہے کہ ان کو جبری طور پر قابض طاقتوں کے ذریعے اقتدار میں لایا گیا۔ یہ حکومتیں کسی جمہوری طریقے سے اقتدار میں نہیں آئی تھیں۔ حتیٰ کہ اس وقت بھی ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کی کیا حیثیت ہے؟ ان کے انتخابات میں ووٹوں کا کتنا ٹرن آئوٹ تھا؟ اس وجہ سے یہ کہنا کہ ’’جو حکومت طاقت کے ذریعے آئے گی، اس کی حمایت نہیں کی جائے گی‘‘، دراصل طالبان کے خلاف اشرف غنی حکومت کی تحسین اور تائید کرنا ہے کہ جن کی کابل سے باہر کوئی رِٹ ہی نہیں ہے۔
چونکہ یہ بات سراسر طالبان کے خلاف جاتی ہے،اس لیے ہمارا سوال یہ ہے کہ آخر ہم اپنے آپ کو ایسی پوزیشن میں کیوں ڈال رہے ہیں؟ ہم غیرضروری طور پر پاکستان کو کابل انتظامیہ کے ساتھ کیوں کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں؟ ہم نیوٹرل (غیر جانب دار) بھی رہ سکتے ہیں۔ ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم طالبان کے خلاف بات کریں یا اس وقت کابل میں محدود سی پوزیشن رکھنے والی حکومت کے حق میں بے جا طور پر بات کریں۔ اس قسم کے عمل میں ہم کیوں پڑرہے ہیں؟
ہم چین سے اور دیگر ممالک سے مذاکرات یا کانفرنسیں کرسکتے ہیں اور غیر رسمی طور پر ملاقاتیں بھی ہوسکتی ہیں۔ لیکن ہمارے قومی مفادات کے حوالے سے اس قسم کی میٹنگوں کی کوئی گنجایش نظر نہیں آرہی ہے کہ جیسی مذکورہ بالا سہ فریقی میٹنگ کی گئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اقوام متحدہ کے تحت طالبان کسی میٹنگ پر اتفاق کرلیں۔ تاہم، ابھی تک امریکی صدر بائیڈن کی تجویز کردہ میٹنگ نہیں ہوسکی اور طالبان کسی ایسی میٹنگ کے لیے تیار بھی نہیں ہیں کہ جس میں ان پر جنگ بندی اور دیگر شرائط عائد کی جائیں۔ وہ اپنی ترتیب دی ہوئی حکمت عملی کے تحت پورے اعتماد کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے ۴جون ۲۰۲۱ء کو عالمی نیوز ایجنسی رائٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’افغان مسئلے پر پاکستان میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغان طالبان سے مصالحت آسان نہیں ہوگی۔ ہماری افغانستان کے حوالے سے پالیسی تبدیل ہوگئی ہے۔ ہمیں وہاں اسٹرے ٹیجک ڈیپتھ کی ضرورت نہیںہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہاں ہماری دوست حکومت آئے‘‘۔
بلاشبہہ یہ درست بات ہے کہ مغربی سرحد پر ہمیں افغانستان میں ایک پاکستان دوست حکومت کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں پریشانی نہ ہو، جو ماضی میں ہوتی رہی ہے۔ مگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بھارت نےپچھلے ۱۶ برسوں میں وہاں کافی جگہ بنائی ہے اور ہماری قیمت پر یہ جگہ بنائی ہے اور اس طرح ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ صوبہ بلوچستان اور کراچی شہر میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی اور پھر بھارتی جاسوس اور دہشت گرد کمانڈر کلبھوشن یادو کی گرفتاری کو سب جانتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ہمیں اب کسی ایسے عمل کا حصہ نہیں بننا چاہیے، جس سے طالبان یہ تاثر لیں کہ ہم ان کے خلاف پوزیشن لے رہے ہیں۔ طالبان کی کسی پالیسی پر اگر ہم اثرانداز ہونا چاہتے ہیں تو اس کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں، بجائے اس کے کہ ہم اس طرح سے عوامی سطح پر بیانات جاری کریں۔
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک پریس کانفرنس میں افغانستان کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر حمداللہ محب کو سختی سے سنادیا کہ ’’آپ نے پاکستان کے خلاف بڑی ناروا باتیں کی ہیں‘‘۔ ٹھیک ہے، یہ بات کہنا بنتا بھی ہے، لیکن اس بات کا خیال رہے کہ پورا افغانستان اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ ایک فیصلہ کن مرحلہ اب آنے والا ہے۔ یہ مرحلہ ایک سال میں آتا ہے یادو سال میں، یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ افغانستان میں بالآخر طالبان حاوی ہوجائیں گے۔ وہ آہستہ آہستہ اپنے قدم بڑھا رہے ہیں۔ انھیں کابل پہنچنے میں کتنا وقت لگتا ہے، متعین طور پر بتانا ممکن نہیں ہے، لیکن پاکستان پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو صحیح پوزیشن میں رکھے۔ طالبان میں ہم جو تھوڑا بہت اعتماد اور رسوخ رکھتے ہیں، اس کا یوں احساسِ برتری کے ساتھ اظہار کرکے بھی ہم غلط کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے وزیرخارجہ نے حمداللہ محب کو یہ بھی کہا ہے کہ ’ہمارے بغیر کابل میں امن نہیں ہوسکتا‘۔ جب ہم اس قسم کے بیانات دیتے ہیں تو پھر واضح سی بات ہے کہ لوگ افغانستان کی صورتِ حال کے حوالے سے پاکستان کو بھی موردِ الزام ٹھیرائیں گے، کہ ’’آپ مسائل کھڑے کررہے ہیں‘‘۔ اگر بے جا طور پر آپ کریڈٹ لینا چاہیں گے تو پھر آپ پر تنقید بھی ہوگی۔ سفارتی اور بین الاقوامی سطح پر اس قسم کے بیانات سےگریز کرنا چاہیے۔
آنے والے دنوں میں افغانستان میں کیا ہونے والا ہے؟ طے شدہ الفاظ میں کہنا ممکن نہیں۔ مگر یہ ضرور ہے کہ ہمارے نقطۂ نظر سے افغانستان کی صورتِ حال ایک لحاظ سے بہتر ہونے کی طرف گامزن ہے کیونکہ نیٹو افواج کے آتے ہی ہمارے لیے مسائل پیدا ہوئے تھے۔ ان کے آنے سے کون سا امن آگیا تھا۔ اگرچہ آج افغان سرحد پر باڑلگانے کا عمل مکمل ہونے کو ہے، لیکن افغان مہاجرین اور دیگر مسائل بھی آئیں گے۔ البتہ جب ایک دفعہ معاملات طے پاگئے تو پھر حالات بہتر ہوجائیں گے۔
۹مئی ۲۰۲۱ء کے روزنامہ ہندستان ٹائمز میں خبر شائع ہوئی کہ’’ بھارت طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے اور یہ رابطے پچھلے کئی ماہ سے جاری ہیں‘‘۔ مجھے اس خبر پر کچھ تعجب نہیں ہوا۔ اگرچہ بھارت سرکار کی طرف سے اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں دی گئی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ بھارت کے انٹیلی جنس اداروں نے ہی یہ خبر جاری کی ہے۔ اجیت دوول بھارتی حکومت کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ہیں۔ ان سے میری کچھ ملاقاتیں رہی ہیں۔ اس بنا پر اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ بھارت کے طالبان سے رابطے میں کچھ تیزی بھی آگئی ہے۔ یہ بھارت کی مجبوری ہے اور اسے خود بھی اس بات کا احساس ہے کہ جب افغانستان سے بیرونی افواج کا انخلا ہوجائے گا تو پھر افغانستان پر حکمرانی کی دعوے دار ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کے لیے بہت مشکل ہوگا کہ وہ اپنی رِٹ اور وجود کو خود کابل شہر میں بھی برقرار رکھ سکے۔ بعید نہیں کہ کچھ عرصے بعد وہ لوگ جو کابل حکومت کاحصہ ہیں، وہ آہستہ آہستہ کابل چھوڑ کر دوسرے ملکوں کی طرف جاتے ہوئے نظرآئیں۔ ان میں زیادہ تر لوگ بھارت میں یا مغربی ممالک میں پناہ لیں گے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ ۲۰۰۱ء کے موسم سرما میں جب سے طالبان کی حکومت ختم کی گئی، بھارت نے افغانستان میں بہت سرمایہ کاری بھی کی ہے، تقریباً تین ارب ڈالر۔ اس نے بڑے بڑے منصوبوں جیسے ڈیمز،افغان پارلیمان کی عمارت کی تعمیر اور کچھ یونی ورسٹیاں بھی تعمیر کیں۔ اس کے پہلو بہ پہلو پاکستان نے بھی افغانستان میں کچھ سرمایہ کاری کی ہے، لیکن ہماری سرمایہ کاری اس پیمانے پر نہیں ہے اور ہماری رفتار بھی سُست رہی ہے۔ بہرحال بھارت نے افغانستان میں انوسٹ کیا اور خاص طور پر نیشنل سیکورٹی ڈائریکٹریٹ، جو انٹیلی جنس ادارہ ہے اس میں بہت سرمایہ اور مہارت صرف کی ہے۔ اس بھارتی سرمایہ کاری کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کی مغربی سرحد پر ایسی صورتِ حال برقرار رہے، جس سے وہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرسکے، اور بھارت نے عملاً ایسا کیا بھی ہے۔ یہ بات اوپن سیکرٹ اور کھلی حقیقت ہے کہ بھارت نے ’تحریک طالبان پاکستان‘ ( TTP)کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا اور بہت سی کالعدم بلوچ تنظیموں کو بھی استعمال کیا۔
بھارت کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ افغانستان کی موجودہ حکومت اب زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہ سکتی۔ اشرف غنی اور ان کی حکومت کا مستقبل غیریقینی ہے۔ ماہرین اور دفاعی تجزیہ نگار یہ کہہ رہے ہیں کہ جلد یا بدیر یہ حکومت چلی جائے گی۔ بھارت طالبان کے ساتھ رابطہ کررہا ہے اوران کے ساتھ اپنے تعلقات بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکا اور بہت سے دوسرے ممالک طالبان سے رابطے میں ہیں۔ بھارت سمجھتا ہے کہ اس کے مفادات بھی اسی بات میں مضمر ہیں کہ جو بھی اگلی حکومت آئے، اس کے روابط اس کے ساتھ ہونے چاہییں، تاکہ وہ اس کھیل سے بالکل ہی باہر نہ ہوجائے۔
اسی طرح یہ بات افغان طالبان کو بھی مفید مطلب لگتی ہے کہ پاکستان کے ساتھ جہاں تعلقات ہوں، وہاں وہ بھارت کے ساتھ بھی تعلقات رکھیں تاکہ پاکستان پربھی ان کا دبائو رہے۔ یہ طالبان کی بہت زبردست حکمت عملی ہے کہ وہ تمام ممالک سے رابطہ رکھیں۔ اگر وہ حکومت میں آجاتے ہیں یا افغانستان پر قبضہ کرلیتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ دنیا کے اہم ممالک ان کی حکو مت کو تسلیم بھی کریں۔ اس لیے کہ پچھلی مرتبہ ۱۹۹۶ء میں جب ان کی حکومت بنی تھی تو صرف تین ممالک: پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ تاہم، اس دفعہ وہ چاہیں گے کہ جب ان کی حکومت آتی ہے تو ان کو زیادہ سے زیادہ ممالک بالخصوص بڑے ممالک ان کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ اس لیے بھارت کا طالبان سے رابطہ اس کے نقطۂ نظر سےبھی ٹھیک ہے اور طالبان کو بھی یہ مناسب لگتا ہے۔ لہٰذا ، کچھ عرصے کے بعد اگر یہ اطلاع بھی مل جائے کہ اجیت دوول کی مُلا برادر سے ملاقات ہوگئی ہے تو یہ کوئی بعید از امکان بات نہیں ہوگی۔
یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ افغانستان سے جب بیرونی افواج کا انخلا ہوجائےگا تو ترکی، کابل ایئرپورٹ کی سیکورٹی کا ذمہ لینے کے لیے تیار ہے۔ مگر حالیہ دنوں میں طالبان نے ترکی کو یہ ذمہ داری سونپنے کا امکان مسترد کر دیا ہے کہ وہ ’نیٹو‘ کا رُکن ہے۔ آنے والے دنوں میں خاص طور پر کابل ایئرپورٹ اہم کردار ادا کرےگا۔ اگر طالبان جلد ہی کابل ایئرپورٹ پر قبضہ کرلیتے ہیں تو افغانستان میں رسد کی فراہمی اور دیگر چیزوں کی آمدورفت حکومت کے لیے سخت مشکلات کا باعث بن جائے گی۔ یوں سمجھیے کہ اگر کابل ایئرپورٹ چلا گیا تو سب کچھ چلا گیا۔
دوسری طرف یہ بات بھی زیربحث ہے کہ کیا افغانستان سے امریکا کے نکلنے کےبعد چین کوئی بڑا کردار ادا کرنا چاہیے گا یا نہیں؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکا بالکل نہیں چاہے گا کہ چین، افغانستان میں کوئی بڑا کردار ادا کرے۔ اس خطے میں افغانستان معدنی وسائل سے مالامال (resource rich) ملک ہے اور تزویراتی طور پر امریکا کے لیےبھی بہت اہم ہے۔ اس لیے امریکا، افغانستان کو بالکل چھوڑ کر جانے والا کیسے بنے گا؟ مگر مستقبل کے افغانستان سے اس کے ربط کی کیا صورت ہوگی؟ ابھی واضح نہیں ہے۔
پھر یہ بات بھی سننے میں آرہی ہے کہ پاکستان امریکا کو فوجی اڈے دے رہا ہے یا نہیں دے رہا؟ ایک حوالے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید ہم نے کچھ شرائط رکھی ہیں کہ’’ جو سہولیات دے رہے ہیں وہ طالبان کے خلاف استعمال نہیں ہوں گی، البتہ داعش اور القاعدہ کے خلاف استعمال ہوسکتی ہیں‘‘۔ اس قسم کی شرائط کی فی الحقیقت کوئی حیثیت اور تقدس نہیں ہوا کرتا۔ کیونکہ جب آپریشن ہوتے ہیں تو کوئی بھی یہ فرق نہیں کرسکتا کہ یہ سہولیات کس کے خلاف استعمال ہورہی ہیں۔
بہرحال، اگر ہم نے امریکا کو یہ سہولیات دیں تو طالبان اسے ہرگز پسند نہیں کریں گے۔ اگرچہ پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بڑے وثوق سے کہا کہ ’’پاکستان کوئی ایسی سہولیات نہیں دے رہا‘‘۔ لیکن اس تردید کے باوجود کچھ خبریں مل رہی ہیں کہ شاید ہم کچھ شرائط کے تحت یہ مان بھی لیں۔ اس لیے اس موضوع پر حتمی بات کرنا ابھی ممکن نہیں ہے۔یہ امر واقعہ ہے کہ امریکا کو اڈے دینا، پاکستان کے وسیع تر قومی مفادات کے لیے درست نہیں ہوگا۔ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے اور وہ غلطیاں نہیں دُہرانی چاہییں، جن سے پاکستان کے مفاد کو پہلے ہی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے، اور آیندہ شاید اس سے بھی زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔
گذشتہ دنوں اسلام آباد میں افغانستان پر ایک دو روزہ کانفرنس ’ریجنل پیس انسٹی ٹیوٹ‘ کے تحت منعقد ہوئی۔ اس ادارے کے بانی رؤف حسن ہیں، جو وزیراعظم کے معاون خصوصی بھی ہیں۔ اس کانفرنس میں پاکستانی وفود، افغان وفود اور وہ افغان نمایندے جو دوحہ میں مذاکرات کے لیے گئے تھے، وڈیو لنک کے ذریعے سے اس کانفرنس میں شریک تھے۔ اس کانفرنس کا موضوع تھا: Stepping into the Future Peace Partnership Progress۔
یہ کانفرنس ’چیٹن ہائوس رُول‘ کی بنیاد پر منعقد ہوئی تھی۔ چیٹن ہائوس لندن میں ایک تھنک ٹینک ہے۔ اس کے طے کردہ اصول کے تحت ہونے والی کانفرنس میں کسی حساس موضوع پر کھل کر بات چیت ہوسکتی ہے، مگر اسے رپورٹ نہیں کیا جاسکتا کہ کس نے کیا کہا ہے؟ اس کانفرنس میں مَیں بھی شریک تھا اور ہمارے وزیرخارجہ نے اس کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب بھی فرمایا۔ کانفرنس کے چار ورکنگ سیشن تھے۔ تمام سیشن ہی اہم تھے، خاص طور پر پہلا سیشن بہت اہم تھا، جس میں افغان مسئلے کے امکانات کا جائزہ لیا گیا۔ سب کا یہی خیال تھا کہ ’’مذاکرات کو کامیاب ہونا چاہیے۔ اگر دوحہ میں مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں تو اس بات کا امکان ہے کہ افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے‘‘۔
کچھ افغان وفود کا خیال تھا کہ ’’ایک عبوری نظام بننا چاہیے۔ وہ غیرسیاسی ہونا چاہیے اور اس میں غیر جانب دار لوگ شامل ہونے چاہییں۔یہ عبوری نظام دو، تین یا چار سال کے لیے ہو اور پھر انتخابات ہوں اور طے کیا جائے کہ آیندہ معاملات کیسے چلنے ہیں؟‘‘
میں نے وہاں یہ موقف پیش کیا کہ ’’طالبان کو کسی عبوری حکومت کا حصہ بننے میں کیا فائدہ ہے؟‘‘ میرا آج تک یہی موقف ہے کہ جب تک اشرف غنی صاحب اقتدار نہیں چھوڑتے، طالبان کسی ایسی عبوری حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ مگر اس ساری صورتِ حال کے باوجود مجھے محسوس ہوتا ہے کہ طالبان کی امریکا کے ساتھ کچھ معاملہ فہمی (انڈراسٹینڈنگ) ہوگئی ہے۔طالبان کے انکار کے باوجود ترکی کا یہ کہنا کہ وہ کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کا ذمہ لیتا ہے، معنی خیز ہے۔ ابھی امریکا کو کابل ایئرپورٹ کی ضرورت ہے، تاکہ وہاں سے احسن طریقے سے انخلا مکمل ہوجائے۔
افغان وفود کا یہ کہنا کہ ’’پاکستان کو اس مسئلے میں بھرپور دبائو رکھنا چاہیے‘‘۔ وہ اس پر بار بار زور دے رہے تھے کہ ’’یہ پاکستان کی اہم ذمہ داری ہے‘‘۔ یہ عجیب سی بات ہے کہ طالبان پر پاکستان کا کوئی دبائو ہوسکتا ہے۔ طالبان کی اپنی ایک حکمت عملی ہے اور وہ اس پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ یہاں سے بیرونی فوجوں کا انخلا ہوجاتا ہے تو پھر طالبان کے لیے راستہ صاف ہے۔ کانفرنس کے شرکا میں سب کا یہی خیال تھا اور دبے دبے لفظوں میں سبھی کہہ رہے تھے کہ ’’وقت بہت کم ہے۔ اگر کہیں محدود وقت میں مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو افغانستان کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہوجائیں گی‘‘۔ ایک لحاظ سے یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے۔
کسی کے پاس بھی اس مسئلے کا کوئی حتمی جواب نہیں تھا کہ ’’طالبان کو کس طرح مذاکرات کی میز پر لایا جائے؟‘‘ افغان وفود کا یہ کہنا تھا کہ ’’طالبان وقت گزار رہے ہیں اور دوحہ مذاکرات میں وہ زیادہ سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے، اور اس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہورہی‘‘۔ ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ مذاکرات میں پیش رفت نہیں ہورہی، نہ اشرف غنی حکومت چھوڑنے کے لیے تیار ہیں اور نہ طالبان ہی کوئی ایسی رعایت دینے کے لیے تیار ہیں، جو ان کی تحریک اور نظریے سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔ وہ بڑے واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ انھیں ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ بنانی ہے۔ افغان وفود یا غیرطالبان قوتیں، جو اس وقت کابل میں انتظامِ حکومت کا حصہ ہیں یا ان کے ہمدرد ہیں، وہ بہرحال الزام طالبان ہی کو دے رہے ہیں کہ ’’طالبان غیرسنجیدہ ہیں‘‘۔
ایک اہم سیشن میں خواتین کا کردار زیربحث آیا کہ ’امارت اسلامیہ افغانستان‘ اگر بن جاتی ہے تو ’’اس میں خواتین کا کیا کردار ہوگا؟‘‘ کچھ افغان وفود نے بتایا کہ ’’اگر امارت اسلامیہ بن جاتی ہے تو طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اسلام اور افغان تہذیبی روایات کے مطابق خواتین کی تعلیم کے حق میں بھی ہیں، اور ان کے کام کرنے کے حق میں بھی ہیں اور ان کو بااختیار بنانے کے حق میں بھی ہیں‘‘۔ افغان وفود میں شامل خواتین کا یہ کہنا تھا کہ ’’جہاں تک اسلام کی بات ہے وہ تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن بہت سی مقامی روایات ایسی ہیں، جو اسلام سے مطابقت نہیں رکھتیں بلکہ اس سے متصادم ہیں، تو ان کا کیا معاملہ ہوگا؟ اور طالبان ان روایات پر اصرار کر رہے ہیں‘‘۔ وہ طالبان وفود جو دوحہ مذاکرات میں شریک ہیں ان کا کہنا تھا کہ اسلامی روایات کی بات تو ٹھیک ہے، لیکن خواتین سے متعلق افغان تہذیبی روایات پر طالبان کو زیادہ اصرار نہیں کرنا چاہیے‘‘۔
دیکھتے ہیں کہ یہ بات کہاں جاکر رُکتی ہے۔ یہ تو اسی وقت ہوگا جب طالبان واقعی عبوری نظامِ حکومت سے اتفاق کرلیں اور تب ہی یہ مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اگر ان کی حکمت عملی یہی ہے کہ وہ وقت گزار رہے ہیں اور ان کی امریکا کے ساتھ کوئی معاملہ فہمی بھی ہوگئی ہے تو پھر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا، جیساکہ چل رہا ہے۔
ایک مسئلہ یہ بھی زیربحث آیا کہ افغانستان کی معیشت کو کیسے خودانحصاری کے قابل (sustainable) بنایا جائے؟ کیونکہ ابھی تک افغان معیشت کا زیادہ تر انحصار بیرونی امداد پر ہی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ اس میں پاکستان کو آگے بڑھ کر کردارادا کرنا چاہیے۔اس ضمن میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ’’پاکستان، افغانستان کو واہگہ بارڈر سے بھارت کے ساتھ تجارت کرنے کی اجازت دے‘‘۔ افغانستان، پاکستان تجارتی معاہدہ اس سال فروری میں ختم ہوگیا ہے۔ اس کو تین ماہ کے لیے توسیع دی گئی تھی اور وہ میعاد بھی ختم ہوگئی ہے۔ اب اسے مزید چھے ماہ کے لیے توسیع دی گئی ہے۔
افغان حکومت اس بات پر اصرار کر رہی ہے کہ ’’اس معاہدے میں ڈبلیو ٹی او کی شرائط بھی شامل کی جائیں تاکہ بھارت سے واہگہ کے ذریعے تجارت کھل سکے‘‘۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ افغانستان، واہگہ کے ذریعے بھارت برآمدات کرسکتا ہے لیکن بھارت اپنی برآمدات واہگہ کے ذریعے افغانستان نہیں کرسکتا۔میں نے اپنا موقف وہاں یہ رکھا کہ ’’افغانستان کو اچھی طرح یہ بات معلوم ہے کہ ہمارے بھارت کے ساتھ کیا معاملات ہیں۔ آپ کیوں اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ بھارت واہگہ کے ذریعے برآمدات کرسکے؟ آپ اپنی برآمدات بڑھایئے۔ ٹرکوں کے ذریعے آپ اپنا سامانِ تجارت پاکستان سے بھی منگوا سکتے ہیں۔ ہماری اپنی تجارت بھارت سے بند ہے، تو ہم آپ کو کیسے اجازت دے سکتے ہیں؟ کراچی کی بندرگاہ کھلی ہے، اسے بھارت استعمال کرسکتا ہے۔ افغانستان کو سوچنا چاہیے کہ وہ پاکستان سے کسی ایسی چیز کے لیے اصرار نہ کرے، جو اس کے لیے ممکن نہ ہو‘‘۔
پھر یہ بھی کہا: ’’اسی طرح وسطی ایشیا کے ساتھ ہماری تجارت جو کہ افغانستان کے ذریعے ہوتی ہے، اسے واہگہ بارڈر سے تجارت سے منسلک کردیا ہے۔ اس کی بھی کوئی تُک نہیں ہے۔ افغانستان کے وسطی ایشیا کے تعلقات میں کوئی جنگی یا جارحانہ صورتِ حال نہیں ہے، جب کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی صورتِ حال بالکل مختلف ہے۔ لہٰذا، ان دونوں مختلف صورتِ حال کو ایک دوسرے سے منسلک کرنا مناسب نہیں ہے‘‘۔ لہٰذا میں نے افغان وفود کو کہا کہ ’’وہ ایسا نہ کریں۔ اس طرح پاکستان کو تشویش ہوگی کہ یہ سب کچھ بھارت کے ایما پر کیا جارہا ہے، حالانکہ ہم نے آپ کو بھارت بذریعہ واہگہ برآمدات کی اجازت دی ہوئی ہے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے‘‘۔ لیکن ان کا اصرار تھا کہ ’’بھارت سے بذریعہ واہگہ تجارت کی اجازت بھی ہونی چاہیے‘‘۔
یاد رہے کہ ہم نے پہلے بھی موٹروہیکل معاہدے اور ریلوے معاہدے نہیں ہونے دیئے تھے کہ اس میں ہماری سلامتی کے معاملات (سیکورٹی کنسرن ) ہیں۔ یہ صرف تجارت کا مسئلہ نہیں بلکہ اس میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بہت سے اصولی اور قانونی مسائل ہیں۔
افغانستان تجارتی لحاظ سے ہمارے لیے ایک بڑا اہم ملک ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک افغانستان سے ہماری تجارت تقریباً چار سے پانچ ارب ڈالر سالانہ تک تھی، جو اَب گھٹ کر ایک ارب ڈالر رہ گئی ہے،اور جس میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
کانفرنس میں سیاحت کی بات بھی ہوئی اور ہیلتھ ٹورازم (یعنی صحت اور علاج معالجے)کی بات بھی ہوئی۔ پاکستان افغان شہریوں کو ہر ماہ تقریباً دو لاکھ ویزے جاری کرتا ہے۔ سال بھر ٹریفک بھی جاری رہتی ہے۔ چار مقامات پر بارڈر کراسنگ ہوتی ہے: چمن، تورخم، انگوراڈہ اور سپن بولدک۔ یہ چیزیں بہتر ہوسکتی ہیں لیکن افغانستان کو سوچنا چاہیے کہ اُن چیزوں پر دبائو نہ ڈالے جو پاکستان کے لیے ممکن نہیں ہے۔
مراد یہ ہے کہ افغانستان کے حوالے سے امن وامان، سیاسی استحکام، بین الاقوامی تعلقات کی ذمہ داریاں، بھارتی مداخلت کے امکانات کا خاتمہ اورتجارتی پیش رفت جیسے معاملات ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ہمیں ہرمسئلے پر خود بہت سوچ سمجھ کر، ٹھنڈے دل و دماغ اور بصیرت کے ساتھ فیصلے کرنے ہیں۔جلدبازی سے اور کسی کے دبائو میں آکر کیے گئے فیصلے ہمیں مشکلات کی طرف لے جاسکتے ہیں۔