بیسویں صدی کے دوران دنیا کے مختلف ممالک میں احیائے اسلام کی تحریکیں برپا ہوئیں، لیکن قید وبند اور شہادت کی آزمایشوں کی جو تاریخ مصر کی اخوان المسلمون نے رقم کی، وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ اخوان المسلمون کے بانی مرشدعام حسن البنا کو سربازار گولی مار کر شہید [۱۲فروری ۱۹۴۹ء]کردیا گیا۔ تنظیم کے متعدد رہنماؤں، جن میں جسٹس عبدالقادر عودہ، محمدفرغلی، یوسف طلعت، ابراہیم طیب اور ہنداوی دویر شامل تھے، ان کو ۸دسمبر ۱۹۵۴ء کو پھانسی دے دی گئی۔ ہزاروں کارکنوں کو کال کوٹھریوں میں ٹھونس دیا گیا۔ ان آزمایشوں کا شکار ہونے والوں میں مرد بھی تھے اور خواتین بھی، الحمدللہ، سبھی ثابت قدم رہے۔ پھر، سیّد قطب رحمہ اللہ کے پھانسی [۲۹؍اگست ۱۹۶۶ء] دیے جانے کے بعد، اخوان المسلمون پر مصائب کا ایک طویل دور شروع ہوا، مگر اس آزمایش کے باوجود اس کا دائرۂ کار پوری عرب دُنیا میں پھیل گیا۔
۱۹۷۰ء میں سفاک مصری ڈکٹیٹر جمال عبدالناصر کی وفات کے بعد انوار السادات مصر کے صدر بنے، جو کسی زمانے میں صدر ناصر اور اخوان المسلمون کے درمیان رابطہ کار تھے۔ اس پرانے تعلق کی بنا پر اخوان المسلمون نے ابتدا میں انوار السادات کی حکومت کی حمایت کی مگر بہت جلد یہ تعلقات خراب ہوتے گئے۔ اکتوبر ۱۹۸۱ء میں انوار السادات قتل کر دیے گئے اور حسنی مبارک مصر کے صدر بن گئے جو ۳۲ سال تک مصر کے سیاہ وسفید کے مالک رہے۔ ۲۰۱۱ء میں اخوان المسلمون کی عوامی بیداری کی تحریک کے نتیجے میں حسنی مبارک کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔
۲۰۱۲ء میں اخوان المسلمون کی حمایت سے وجود میں آنے والی الحریہ والعدالہ (فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی) نے مصر میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اخوان المسلمون محمد خیرت سعد الشاطر کو صدر بنانا چاہتی تھی، مگرحسنی مبارک کی باقیات کے ہاتھوں جناب محمدخیرت کو ’نااہل‘ قرار دیے جانے کے بعد اس جماعت کے بانی چیئرمین محمد مرسی مصر کے صدر منتخب ہو گئے۔
محمد مرسی کو مصر کے مشہور عالم دین صفوت حجازی کی تائید بھی حاصل تھی۔ صدر منتخب ہونے کے بعد محمد مرسی نے حزب الحریہ والعدالہ (فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی) کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ یاد رہے محمد مرسی، نائن الیون کے واقعے کو امریکی سازش قرار دیتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ اس سازش کا مقصد افغانستان اور عراق پر امریکی حملے کا جواز فراہم کرنا ہے۔ امریکا اس حوالے سے مرسی کے ان نظریات کا پُرزور مخالف تھا۔ محمد مرسی مصر کے نئے آئین پر شریعت کا رنگ غالب کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ ان کی اسی خواہش پر ان کے اور مصری مسلح افواج کے درمیان خلیج پیدا ہوگئی۔ یوں محمد مرسی کو برسرِاقتدار آئے ہوئے صرف ایک سال گزرا تھا کہ انھیں ان کے عہدے سے ہٹا کر جنرل عبدالفتاح السیسی مصر کے حکمران بن گئے۔
محمد مرسی گرفتار کر لیے گئے۔ ان پر کئی دیگر جرائم کے مرتکب ہونے کا الزام لگایا گیا جن میں توہین عدالت کے الزامات شامل تھے۔ اپریل ۲۰۱۵ء میں انھیں اور ان کے ساتھیوں کو ۲۰،۲۰ سال قید کی سزا سنا دی گئی۔اس کے بعد محمد مرسی مسلسل قید میں ہی رہے۔۱۷ جون ۲۰۱۹ء کواس وقت جب کہ وہ عدالت میں پیش کیے گئے تھے، عدالت ہی میں گر کر بے ہوش ہوگئے اور اسی بے ہوشی میں خالق حقیقی سے جاملے: انا للہ وانا الیہ رٰجعون۔
اخوان المسلمون کے حامیوں نے محمد مرسی کی اس موت کو ریاستی قتل قرار دیا اور کہا کہ محمدمرسی ملک کے منتخب صدر تھے، انھیں بلا جواز قید تنہائی میں رکھا گیا تھا۔ وہ ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے مریض تھے۔ انھیں دانستہ طورپر مناسب طبّی سہولیات سے محروم رکھ کر موت کے منہ میں دھکیلا گیا۔
سب سے بڑا قتل عام رابعہ العدویہ میں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد النہضہ چوک کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ جس میں ایک اندازے کے مطابق مرسی کے حامی ۴ہزار ۷سو ۱۲ مظاہرین کو تین گھنٹے کی جارحانہ کارروائی میں فوج نے بے دریغ قتل کیا ۔رابعہ عدویہ کا چاروں طرف سے محاصرہ کرکے گھناؤنا قتل عام انجام دیا گیا۔اس دوران جو کوئی اپنی جان بچا کر قریب کی مسجد میں پناہ گزیں ہوئے، ان پر بھی دھاوا بول کر قتل عام کا ایندھن بنایا۔ رابعہ عدویہ مسجد کی جلی ہوئی حالت دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسجد میں پناہ گزینوں پر کیا گزری ہوگی۔
ان کی پھانسی کے اس موجودہ فیصلے کے خلاف اب مزید اپیل نہیں کی جا سکتی، اور اس پر مصری صدر جنرل عبدالفتاح السیسی کے دستخط ہوتے ہی اخوان کے ان رہنماؤں کو پھانسی دے دی جائے گی۔اخوان المسلمون کے جن ارکان کو سزائے موت سنائی گئی ان میں: سابق رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر محمد البلتاجی، ڈاکٹر صفوت حجازی، مفتی ڈاکٹر عبدالرحمن البر، ، ڈاکٹر احمد عارف اور سابق وزیر ڈاکٹر اسامہ یٰسین شامل ہیں۔
یاد رہے ستمبر ۲۰۱۸ء میں نام نہاد مصری عدالت نے اخوان کے ۷۵ کارکنوں کو پھانسی اور ۷۳۵؍ افراد کو ۱۵ سے ۳۰برس تک قید کی سزائیں سنائی تھیں۔ ان میں سے ۴۴؍افراد نے سزائے موت کے خلاف اپیل کی، جن میں سے۳۱ کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا گیا،جب کہ ۱۲کی سزائے موت برقرار رکھی گئی۔
دنیا بھر میں انصاف کی خاطر شمعیں روشن کرنے والوں کو شاید یہ تلخ حقیقت یاد نہیں ہے کہ اخوان کے سابق مرشد عام محمد مہدی عاکف، مرکزی رہنما عصام الدين محمد حسين العريان کا اگست ۲۰۲۰ء میں جیل میں غیرقانونی اور فسطائی قید کے دوران ہی انتقال ہوچکا ہے اور اس سے قبل جیساکہ بتایا جاچکا ہے،مصر کے جمہوری طور پر پہلے منتخب صدر محمد مرسی نے ۲۰۱۹ء میں کمرۂ عدالت کی ایک پنجرہ نما جیل میں جام شہادت نوش کیا۔
۱۴ جون کو عدالت نے دیگر ملزمان کی قید کی سزائیں بھی برقرار رکھیں، جن میں اخوان کے مرشد عام محمد بدیع کی عمر قید اور محمد مرسی کے بیٹے اسامہ کی ۱۰ سال قید کی سزا بھی شامل ہے۔
اخوان المسلمون کے ان رہنماؤں کو ۲۰۱۳ء میں دارالحکومت قاہرہ میں رابعہ چوک پر دھرنے میں شرکت پر پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے لوگوں کو اس دھرنے میں شرکت کی دعوت دی۔ یہ دھرنا ۲۰۱۳ء میں فوج کی جانب سے بغاوت کرکے منتخب صدر محمدمرسی کا تختہ الٹنے کے خلاف دیا جا رہا تھا۔
یہاں پر یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ اس سے قبل اخوان کے متعدد رہنماؤں کو فوج کے خلاف احتجاج پر پھانسی دی جا چکی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے مصر میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں سیاسی مخالفین کو پھانسیاں دینے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئےکہا ہے کہ ’’اس سال ۵۱؍ افراد کو سزائے موت دی جا چکی ہے‘‘۔
’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے مصری عدالتوں میں چلنے والے ان مقدمات کو مکمل طور پر غیر شفاف قرار دیتے ہوئے مصری حکومت سے سزائے موت پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ان پھانسیوں کو الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ہیومن رائٹس واچ گروپ نے بھی ’خوفناک‘ قرار دیا۔
مصری حکومت کا اپنی کینگرو عدالتوں کے ذریعے پہاڑی کے ان چراغوں کو سزائیں دلوانا کوئی نئی اور عجیب بات نہیں۔ ماضی میں انھی عدالتوں سے حریت کے متوالوں کو فنا کے گھاٹ اتارنے کی سزائیں سنائی جا چکی ہیں، جن میں دسیوں پر عمل درآمد بھی کرایا جا چکا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سزائیں آخری نہیں کیونکہ عدالتوں میں انصاف کے بجائے گھنائونی سیاست ہورہی ہے۔ ججوں کو حکومت وقت نے اپنا آلہ کار بنا کر سیاسی مخالفین کو کچلنے کا جو مذموم منصوبہ بنا رکھا ہے، اس کی قلعی کھل چکی ہے۔
قانون کے تقاضے پورے کیے بغیر سرسری سماعت کے بعد سزائیں کسی فوجی حکومت کا خاصہ تو ہو سکتی ہیں، جمہوریت کے دعوے داروں کو یہ حربے زیب نہیں دیتے۔ مقدموں میں گواہیاں پیش کرنے کے بجائے خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں ہی کی بنیاد پر سیاسی مخالفین کو مجرم ثابت کرنے کے لیے مسلسل یہ خونیں کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
اخوان المسلمون نے نامساعد حالات کے اندر عرب دنیا میں جس طرح اپنی مقبولیت کا لوہا منوایا، وہ عرب حکمرانوں اور رجواڑوں کے لیے ڈراؤنا خواب ہے۔ انھیں خدشہ ہے کہ آج اگر عرب دنیا میں آزاد انتخاب کا ڈول ڈالا گیا تو ان کے خاندانی اقتدار دھڑام سے زمین پر آ رہیں گے۔
دو برس الحسین یونی ورسٹی ہسپتال میں بہترین ڈاکٹر کے طور پر خدمات سرانجام دیں اور وہیں سے ناک، کان اور گلہ کے شعبوں میں تخصص کے بعد الازہر کے کالج آف میڈیسن میں استاد مقرر ہوئے۔ پھر ترقی کرتے ہوئے آپ اسی شعبے کے پروفیسر مقرر ہوئے۔
محمدالبلتاجی اوائل عمری سے دعوتِ دین اور خدمت عامہ کے کاموں میں سراپا متحرک رہنے کے عادی تھے۔ وہ اپنی آبائی میونسپلٹی کفرالدوار میں بھلائی اور خیرات کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ زمانہ طالب علمی میں الازہر کالج آف میڈیسن کی طلبہ انجمن کے صدر بھی رہے۔ وہ ڈاکٹروں کی انجمن کے نمایندے کے طور پر متعدد خیراتی میڈیکل کیمپوں اور قافلوں کے ہمراہ ملک کے اندر اور باہر سفر کرتے رہے، جہاں انھوں نے غریبوں اور یتیموں کا مفت علاج کیا۔ اپنے علم اور اخلاق میں نمایاں مقام رکھنے اور غریب مریضوں کا مفت علاج کرنے کے باعث ہردل عزیز شخصیت ہیں۔
محمد البلتاجی، اخوان المسلمون کے وہ حوصلہ مند قائد ہیں ،جن کی بیٹی کو رابعہ العدویہ میں ان کی آنکھوں کے سامنے تیزدھار آلے سے شہید کر دیا گیا اور ڈاکٹر البلتا کو اپنی شہید بیٹی کے جنازے میں شرکت کی اجازت بھی نہ ملی۔ اخوان المسلمون نے انھیں پارلیمنٹ کی رکنیت کا ٹکٹ دیا، جس پر وہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ انھوں نے قاہرہ کے علاقے شبرا الخیمہ میں پرائیویٹ ہسپتال قائم کیا۔ مصری پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے کے بعد آپ پارلیمنٹ میں دفاع اور قومی سلامتی کی کمیٹی کے رکن کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔انھوں نے اسلامی پارلیمنٹرینز کے بین الاقوامی کلب کی داغ بیل ڈالی، اور اسلامی نیشنل کانفرنس کی ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے۔
ڈاکٹر صاحب نے قضیۂ فلسطین کا ہمیشہ مذہبی جوش وجذبے سے کیس پیش کیا اور غزہ کی پٹی کا محاصرہ ختم کروانے کی غرض سے بین الاقوامی کمیٹی تشکیل دی۔ البلتاجی مئی ۲۰۱۰ء میں غزہ کا محاصرہ ختم کروانے کی غرض سے ترکی سے بھیجے گئے ’فریڈیم فلوٹیلا‘ میں سوار تھے، جس پر اسرائیل نے غزہ پہنچنے سے قبل کھلے سمندر میں کمانڈوز کے ذریعے حملہ کر دیا تھا۔
ڈاکٹر البلتاجی نے ۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کے عوامی انقلاب میں بھی شرکت کی۔ آپ کو انقلاب کے ٹرسٹیوں کی مجلس کا رکن منتخب کیا گیا۔پھر وہ فوجی حکام کو سب سے زیادہ مطلوب شخص قرار دیئے گئے۔
ان کے دو بیٹوں انس اور خالد کو بھی گرفتار کیا گیا اور تیسرا بیٹا فوج کے ظلم سے تنگ آکر ہجرت کرگیا۔ اس دوران ان کی بیوی کو جیل میں ملاقات کے دوران جیل کے پہرہ دار پر حملہ کرنے کے بے بنیاد الزام میں چھے ماہ قید کی سزا سنا دی گئی۔یہاں تک کہ ان کی والدہ نے بھی انھیں ۲۰۱۳ء سے ان کی گرفتاری کے بعد صرف ایک بار دیکھا، اور اس کے چھے سال بعد جب ان کا انتقال ہوا تو محمد البلتاجی کو اپنی والدہ مرحومہ کی تدفین میں شریک نہیں ہونے دیا گیا۔ حکومت نے عوام کے سامنے انھیں مجرم ثابت کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔لیکن ان کی بے گناہی کا سچ تو اس مسکراہٹ کی طرح بالکل واضح ہے، جو ان کے چہرے سے کبھی غائب نہیں ہوتی تھی۔
انھوں نے پرائمری تعلیم سے پہلے قرآن پاک حفظ کرنے کی سعادت حاصل کر لی تھی۔ تعلیم کے مختلف مراحل مکمل کرتے ہوئے، وہ الجیزہ گورنری کے احمد السید ملٹری سیکنڈری اسکول میں داخل ہو ئے۔ڈاکٹر حجازی نے اسکندریہ یونی ورسٹی کے شعبہ مساحت اور نقشہ جات سے بی ایس کی ڈگری حاصل کی، جس کے بعد مدینہ، سعودی عرب میں ملازم ہوگئے، جہاں فارغ اوقات میں وہ مسجد نبوی کے دروس سرکل اور دارالحدیث میں جید علما کے سامنے زنوائے تلمذ طے کرتے رہے۔ چونکہ مسجد نبوی کے حلقہ درس میں آٹھ (۱۹۹۰ء-۱۹۹۸ء) برس تک حدیث کی تعلیم پائی، اس لیے حجازی کہلاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ قاہرہ لوٹ آئے، جہاں انھوں نے مسجدوں میں درس کے حلقے قائم کر کے دعوت وتبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ نیز مختلف چینلز پر دینی پروگرام اور دروس بھی ان کی اہم مصروفیات تھیں۔
انھوں نے ’اربن پلاننگ‘ کے مضمون میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے مقالے کا عنوان ’مدینہ منورہ کی تعمیراتی اسکیم‘ تھا۔ انھوں نے حدیث میں ڈپلومہ فرانس کی ڈیجون یونی ورسٹی سے حاصل کیا۔ ڈیجون یونی ورسٹی ہی سے انھوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری ’’انبیا و رُسل، اہلِ کتاب اور مسلمانوں کے ہاں: تقابلی جائزہ‘‘ کے عنوان سے دقیق مقالہ تحریر کرکے حاصل کی۔
۲۵ جنوری ۲۰۱۱ء کے انقلاب میں آپ ہراول دستے کا حصہ تھے، جس کی وجہ سے انھیں ’میدان کا شیر‘ کہہ کر پکارا جانے لگا۔ انھیں ۲۱؍ اگست ۲۰۱۳ء کو مرسی مطروح گورنری سے حراست میں لیا گیا اور ان کے خلاف متعدد الزامات میں مقدمات درج کر دیے گئے۔ بعد ازاں کٹھ پتلی مصری عدالتوں نے انھیں عمر قید سے سزائے موت تک کی سزائیں دلوائیں۔
عدل وانصاف کسی ملک کی بنیاد ہوتے ہیں اور ظلم کا نظام کسی ملک کی شہری زندگی کو تہہ وبالا کرکے رکھ دیتا ہے۔ یہ اصول مختلف طرح اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ تہذیب وتمدن اور ملک اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کے تابع چلتے ہیں اور یہ دنیا انھی کے تابع رہ کر خیر کا نمونہ بن سکتی ہے۔ناانصافی ایک خوفناک ردعمل جنم دیتی ہے۔ جس کے نتائج ملکوں اور عوام کے لیے تباہ کن ہوتے ہیں۔ جب ظلم کسی معاشرے میں پھیلتا ہے تو اسے برباد کر دیتا ہے ۔ جب یہ کسی قصبے میں پنجے گاڑتا ہے تو وہ صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے: وَسَـيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَ۲۲۷ۧ (الشعراء ۲۶: ۲۲۷) ’’اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں‘‘۔
ظلم اور ظالموں کی سرکشی پر خاموشی یا مجرمانہ غیرجانب داری اختیار کرنے کا نتیجہ، نیک وبد سب کی تباہی کی صورت میں نکلتا ہے: وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَاۗصَّۃً۰ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ۲۵ (الانفال۸:۲۵) ’’اور بچو اُس فتنے سے، جس کی شامت مخصوص طور پر صرف اُنھی لوگوں تک محدود نہ رہے گی، جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو، اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے‘‘۔
حدیث مبارک صلی اللہ علیہ وسلم میں آتا ہے کہ جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اسے روکنے کی کوشش نہ کریں تو بعید نہیں کہ ان پر بھی اسی ظالم جیسا عذاب آ جائے۔ اِنَّ النَّاس اِذَا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَم يَأْخُذُوا عَلٰى يَدَيهِ أَوشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللهُ بِعِقَابٍ مِنْہُ۔